Tag: Delta

  • کورونا وائرس نے نئی شکل اختیار کرلی، سائنسدانوں کا ایک اور دعویٰ

    کورونا وائرس نے نئی شکل اختیار کرلی، سائنسدانوں کا ایک اور دعویٰ

    عالمی وبا کورونا وائرس نے اب تک پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے اور  یہ مختلف علامات کے ساتھ انسانوں پر حملہ آور ہورہا ہے۔

    دنیا کے مختلف حصوں میں کورونا وائرس کی نئی اقسام سامنے آئی ہیں جن میں سے ڈیلٹا اور اومیکرون اقسام کو سب سے زیادہ متعدی اقسام قرار دیا گیا ہے جو بہت تیزی سے دنیا بھر میں پھیل گئیں۔

    اس حوالے سے سائنسدانوں کی تحقیق میں ڈیلٹا اور اومیکرون کے بعد وائرس کی ایک اور قسم کے بارے میں انکشاف ہوا ہے، یہ نئی قسم ان دونوں ویریئنٹ کی مشترکہ شکل ہے مگر اب قبرص کے سائنسدانوں نے ڈیلٹا اور اومیکرون دونوں کے امتزاج سے بننے والی کورونا کی ایک نئی قسم سے متاثر کیسز کو دریافت کیا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق قبرص یونیورسٹی کے بائیولوجیکل سائنس کے پروفیسر لیونڈیوس کوسٹریکس نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ اس وقت لوگ اومیکرون اور ڈیلٹا سے بیک وقت متاثر ہورہے ہیں اور ہم نے ان دونوں اقسام کے امتزاج کو دریافت کیا ہے۔

    انہوں نے اس دریافت کو ڈیلٹاکورن کا نام دیا کیونکہ اس میں اومیکرون جیسے جینیاتی آثار ڈیلٹا کے جینومز میں دریافت کیے گئے۔

    تحقیقی ٹیم نے اب تک ایسے 25 کیسز کو شناخت کیا ہے اور ان کا خیال ہے کہ دونوں اقسام سے بیک وقت متاثر ہونے کی شرح ہسپتال میں داخل افراد میں زیادہ ہے۔

    25نمونوں کے تجزیے میں دریافت ہوا کہ اس قسم میں 10 میوٹیشن اومیکرون سے آئی ہیں۔ ڈیلٹا کورن کے 25 کیسز کے سیکونسز کو وائرس میں آنے والی تبدیلیوں پر نظر رکھنے والے بین الاقوامی ڈیٹا بیس "جی آئی ایس اے آئی ڈی” کو بھیجے گئے ہیں۔

    پروفیسر لیونڈیوس کوسٹریکس نے بتایا کہ ہم نظر رکھے ہوئے ہیں کہ دونوں کے امتزاج سے بننے والی نئی قسم زیادہ خطرناک یا متعدی ہوسکتی ہے یا نہیں مگر ان کا ذاتی خیال یہ ہے کہ ڈیلٹا کورن کو زیادہ متعدی قسم اومیکرون پیچھے چھوڑ دے گی۔

    اس نئی قسم کا کوئی سائنسی نام ابھی تک نہیں رکھا گیا ہے اور اس کے بارے میں جاننے کے لیے ابھی مزید چند دن یا ہفتوں تک انتظار کرنا ہوگا۔

    خیال رہے کہ اومیکرون کو ڈیلٹا کے مقابلے میں زیادہ متعدی خیال کیا جارہا ہے جس کی ابھی تک تصدیق تو نہیں ہوئی مگر اب تک کے شواہد سے یہی عندیہ ملا ہے۔ اس کے مقابلے میں ڈیلٹا کو مریضوں کی صحت کے لیے اومیکرون سے زیادہ خطرناک تصور کیا جاتا ہے۔

  • اومیکرون ویرینٹ زیادہ تیزی سے کیوں پھیل رہا ہے؟

    اومیکرون ویرینٹ زیادہ تیزی سے کیوں پھیل رہا ہے؟

    حال ہی میں ایک تحقیق میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ متعدی کیوں ہے؟

    ڈنمارک میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کرونا وائرس کی قسم اومیکرون ویکسی نیشن کروانے والے افراد میں پیدا ہونے والی مدافعت پر حملہ آور ہونے کے لیے ڈیلٹا سے زیادہ بہتر ہے۔

    کوپن ہیگن یونیورسٹی، اسٹیٹکس ڈنمارک اور اسٹیٹنز سیرم انسٹیٹوٹ کی مشترکہ تحقیق سے یہ وضاحت کرنے میں مدد ملتی ہے کہ اومیکرون قسم اتنی زیادہ تیزی سے کیوں پھیل رہی ہے۔

    نومبر 2021 میں بہت زیادہ میوٹیشن والی قسم اومیکرون کی دریافت کے بعد سے دنیا بھر میں سائنسدانوں کی جانب سے اس کے بارے میں جاننے کے لیے کام کیا جارہا ہے تاکہ دریافت کیا جاسکے کہ کیا واقعی اس سے متاثر افراد میں بیماری کی شدت کم ہوتی ہے۔

    اسی طرح وہ یہ بھی جاننے کی کوشش کررہے ہیں کہ آخر یہ نئی قسم ڈیلٹا کے مقابلے میں زیادہ متعدی کیوں نظر آتی ہے۔

    اس تحقیق میں دسمبر 2021 کے وسط میں ڈنمارک کے لگ بھگ 12 ہزار گھرانوں کی جانچ پڑتال میں دریافت کیا گیا کہ اومیکرون ویکسنیشن کرانے والے افراد میں ڈیلٹا کے مقابلے میں 2.7 سے 3.7 گنا زیادہ متعدی ہے۔

    تحقیق کے نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ وائرس کی نئی قسم اس لیے برق رفتاری سے پھیل رہی ہے کیونکہ یہ ویکسینز سے پیدا ہونے والی مدافعتی نظام پر حملہ آور ہونے میں زیادہ بہتر ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ ہمارے نتائج سے تصدیق ہوتی ہے کہ اومیکرون کے تیزی سے پھیلنے کی بنیادی وجہ مدافعتی نظام پر حملہ آور ہونا ہے۔ ڈنمارک کی 78 فیصد آبادی کی ویکسی نیشن مکمل ہوچکی ہے جبکہ لگ بھگ 48 فیصد کو تیسری خوراک بھی استعمال کروائی جا چکی ہے۔

    تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ بوسٹر ڈوز استعمال کرنے والے افراد میں وائرس کے پہنچنے کا امکان ویکسی نیشن نہ کروانے والے لوگوں کے مقابلے میں کم ہوتا ہے، چاہے قسم جو بھی ہو۔

    ماہرین کے مطابق اگرچہ اومیکرون زیادہ متعدی ہے مگر اس قسم سے بظاہر بیماری کی سنگین شدت کا خطرہ زیادہ نہیں ہوتا۔

    انہوں نے کہا کہ اگرچہ اومیکرون نظام صحت پر دباؤ ڈالنے کے قابل قسم ہے، مگر ہر چیز سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ ڈیلٹا کے مقابلے میں معتدل بیماری کا باعث بنتی ہے۔ ڈیلٹا کے مقابلے میں اومیکرون سے بیمار ہونے پر اسپتال میں داخلے کا خطرہ بھی 50 فیصد کم ہوتا ہے۔

  • ڈیلٹا پلس سے متاثر ہونے کے بعد علامات ظاہر ہونے کا امکان کم

    ڈیلٹا پلس سے متاثر ہونے کے بعد علامات ظاہر ہونے کا امکان کم

    کرونا وائرس کی ایک ذیلی قسم اے وائے 4.2 یا ڈیلٹا پلس کے کیسز برطانیہ میں بڑھ رہے ہیں، ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ ڈیلٹا کی اس ذیلی قسم سے متاثر افراد میں علامات ظاہر ہونے کا امکان کم ہوتا ہے۔

    امپرئیل کالج لندن کی ری ایکٹ اسٹڈی میں 19 اکتوبر سے 5 نومبر کے دوران برطانیہ بھر میں لیے گئے ایک لاکھ سے زائد سواب نمونوں کا تجزیہ کیا گیا تھا۔

    نتائج سے عندیہ ملا کہ اس دورانیے میں برطانیہ میں کووڈ کیسز (علامات اور بغیر علامات والے) کی شرح 1.57 فیصد تھی، ان میں 13 سے 17 سال کی عمر میں کیسز کی شرح سب سے زیادہ 5 فیصد تھی جبکہ معمر افراد میں یہ شرح ستمبر کے مقابلے میں اس بار دگنا بڑھ گئی۔

    مگر ڈیٹا کی خاص بات یہ تھی کہ جمع کیے گئے نمونوں میں سے 12 فیصد کیسز ڈیلٹا کی ذیلی قسم کا نتیجہ تھے۔

    ماہرین کے مطابق اے وائے 4.2 کے کیسز میں روزانہ کی بنیاد پر 2.8 فیصد اضافہ ہوا اور یہ بھی دریافت ہوا کہ اس سے متاثر افراد میں علامات والی بیماری کا امکان کم ہوتا ہے۔

    تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ حالیہ مہینوں میں ویکسی نیشن کروانے والے افراد میں کووڈ کے کیسز کی شرح میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ ڈیلٹا پلس کا برطانیہ میں تیزی سے پھیلنا ہوسکتی ہے۔

    پہلے کی تحقیقی رپورٹس میں عندیہ دیا گیا تھا کہ اے وائے 4.2 ڈیلٹا کے مقابلے میں 10 سے 15 فیصد زیادہ متعدی ہے۔

    مگر تحقیق میں شامل نہیں ہونے والے دیگر ماہرین کا کہنا ہے کہ نتائج کے حوالے سے مزید جانچ پڑتال کی ضرورت ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ کھانسی جیسی علامت نہ ہونے سے وائرس کے پھیلاؤ میں بھی کمی آنے کا امکان ہے مگر اس سے یہ بھی عندیہ ملتا ہے کہ لوگ ٹیسٹ کے لیے علامات کا انتظار کرتے رہیں اور اس دوران وائرس کو آگے پھیلا دیں، مگر کرونا کی دیگر اقسام میں اب تک ایسا دیکھنے میں نہیں آیا۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ ویکسین کی ایک خوراک بیماری سے بچانے کے لیے 56.2 فیصد تک مؤثر نظر آتی ہے۔

  • کراچی: ڈیلٹا ویرینٹ کے شکار ذہنی و جسمانی معذور بچے مکمل صحت یاب

    کراچی: ڈیلٹا ویرینٹ کے شکار ذہنی و جسمانی معذور بچے مکمل صحت یاب

    کراچی: ڈیلٹا ویرینٹ کے شکار ذہنی و جسمانی معذور 2 بچے مکمل صحت یاب ہو گئے۔

    تفصیلات کے مطابق شہر قائد میں ذہنی اور جسمانی طور پر دو معذور بچے نہایت خطرناک قرار دی جانے والی کرونا کی بھارتی قسم کے انفیکشن سے صحت یاب ہو گئے ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق معذور بچوں نے 15 روز شہید بینظیر بھٹو میڈیکل کالج اسپتال میں گزارے، 10 ماہ کے عبدالہادی اور 7 سال کی عائشہ کو پندرہ روز قبل اسپتال لایا گیا تھا۔

    رپورٹس سے معلوم ہوا کہ دونوں بچے کرونا وائرس کی بھارتی قسم میں مبتلا ہیں، شہید بینظیر اسپتال میں بچوں کی اچھی طرح سے دیکھ بھال کی گئی، اور صحت یاب ہونے پر انھیں گھر بھیج دیا گیا۔

    ڈیلٹا ویرینٹ سے صحت یاب بچہ عبدالہادی، اور ان کے والد

    بچوں کے والد نے اپنے پیغام میں لیاری جنرل اسپتال میں انتظامات کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ میرے بچوں کا علاج پروفیسر انجم اور ڈاکٹر سحر کے بھرپور تعاون کی وجہ سے ممکن ہوا، جس پر میں ان کا شکرگزار ہوں، اور عوام سے درخواست ہے کہ وہ کرونا انفیکشن کی صورت میں ضرور اسپتال سے رجوع کریں۔

    خیال رہے کہ چند روز قبل لیاری اسپتال سے 106 سالہ خاتون بھی صحت یاب ہو کر گھر جا چکی ہیں۔

    ڈیلٹا ویرینٹ سے متعلق نئی تحقیق

    کرونا وائرس کی قسم ڈیلٹا کو سب سے زیادہ خطرناک قرار دیا گیا ہے، اب حال ہی میں اس کے حوالے سے ایک اور تحقیق سامنے آگئی ہے، جنوبی کوریا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کرونا وائرس کی زیادہ متعدی قسم ڈیلٹا سے متاثر ہونے والے افراد میں وائرل لوڈ اصل وائرس کے مقابلے میں 300 گنا زیادہ ہوتا ہے۔

    ڈیلٹا ویرینٹ دیگر اقسام کے مقابلے میں 300 گنا زیادہ بیمار کرسکتا ہے

    وائرل لوڈ کی بہت زیادہ مقدار سے اس بات کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ کرونا کی یہ قسم اتنی زیادہ تیزی سے کیوں پھیلتی ہے، تحقیق میں یہ بھی معلوم ہوا کہ وائرل لوڈ کی مقدار میں وقت کے ساتھ بتدریج کمی آتی ہے، 4 دن میں یہ مقدار گھٹ کر 30 گنا کی حد تک پہنچتی ہے، اور 9 دن میں 10 گنا کی حد تک۔

    کوریا ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن ایجنسی (کے ڈی سی اے) کی تحقیق میں مزید بتایا گیا کہ 10 دن کے بعد وائرل لوڈ کی مقدار آخر کار کرونا کی دیگر اقسام کی سطح کے برابر پہنچ جاتی ہے۔

  • جاپان میں‌ نئے مریض کرونا کی کون سی قسم سے متاثر ہو رہے ہیں؟

    جاپان میں‌ نئے مریض کرونا کی کون سی قسم سے متاثر ہو رہے ہیں؟

    ٹوکیو: کرونا کی بھارتی قسم نے جاپان میں صورت حال خراب کر دی، ایک سروے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جاپان میں بیش تر نئے متاثرہ لوگ کرونا وائرس کی بھارتی قِسم ڈیلٹا سے متاثر ہوئے ہیں۔

    سروے رپورٹ کے مطابق اب جاپان میں انفیکشن کا شکار ہونے والے لوگوں کی بڑی اکثریت کرونا وائرس کی انتہائی وبائی قِسم یعنی ڈیلٹا ویرینٹ سے متاثر ہو رہی ہے، ٹوکیو کے علاقے میں ڈیلٹا کے متاثرین کی شرح 98 فی صد تک پہنچی ہے۔

    قومی انسٹیٹیوٹ برائے وبائی امراض نے کرونا وائرس ٹیسٹنگ کرنے والی نجی شعبے کی 7 کمپنیوں کے ڈیٹا کا جائزہ لیا تھا، اس ڈیٹا میں یہ دیکھا گیا کہ مصدقہ کیسز میں L452R والی متغیر وائرسز کی شرح کتنی ہے۔

    مذکورہ انسٹیٹیوٹ نے اپنی رپورٹ وزارتِ صحت کے ماہرین کے پینل کو بدھ کے روز پیش کر دی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ تبدیلی کے حامل وائرسز سے متاثرہ افراد کی شرح جو ٹوکیو میں 98 فی صد ہو چکی ہے، اس میں سب سے بڑا حصہ ڈیلٹا متغیر قسم کا ہے۔

    ٹوکیو اور ملحقہ علاقوں کاناگاوا، سائیتاما اور چیبا میں متاثرین کا مجموعی تناسب بھی 98 فی صد تھا۔

    مغربی جاپان کے علاقوں اوساکا، کیوتو اور ہیوگو میں L452R منتقلی کے حامل وائرسز کی شرح تیزی سے بڑھ کر 92 فی صد ہو گئی ہے، یہ جولائی کے اوائل تک کم سطح پر تھی۔

    قومی انسٹیٹیوٹ نے یہ تخمینہ بھی لگایا ہے کہ ایسے وائرسز سے متاثرہ افراد کی مجموعی شرح اوکیناوا میں 99 فی صد، فُوکُواوکا میں 97 فی صد، آئیچی میں 94 فی صد اور ہوکائیدو میں 85 فی صد ہو چکی ہے۔

    مبصرین نے نشان دہی کی ہے کہ متغیر قِسم ڈیلٹا کے پھیلاؤ کے باعث انفیکشن اور اسپتال میں داخل ہونے والوں کی تعداد تیزی سے بڑھی ہے، جس کے سبب ٹوکیو اور دیگر علاقوں میں طبی نظام کی صورت حال تشویش ناک ہو رہی ہے۔

  • چینی سائنسدانوں کا ڈیلٹا وائرس سے متعلق بڑا دعویٰ

    چینی سائنسدانوں کا ڈیلٹا وائرس سے متعلق بڑا دعویٰ

    بیجنگ: دنیا بھر میں تباہی پھیلانے والے کرونا ڈیلٹا وائرس سے متعلق چینی حکام نے بڑا دعویٰ کردیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق چائنہ ڈیلی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین میں جس ویکسین کی خوراکیں لگائی جارہی ہیں وہ نوول کروناوائرس کی ڈیلٹا قسم کو روکنے اور اس کیخلاف حفاظتی اثرات کا بہترین مظاہرہ کررہی ہیں۔

    بیماری پر قابو پانے اور روک تھام کے مزکر (چائنہ سی ڈی سی) کے محقق فینگ زی جیان کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ دستیاب نتائج کے مطابق ڈیلٹا قسم نوول کرونا وائرس ویکسینز سے تحفظ کو کم کر سکتی ہے لیکن موجودہ ویکسین اب بھی کرونا لہر کیخلاف اچھی روک تھام اور حفاظتی اثرات پیدا کررہی ہے۔

    فینگ کا کہنا ہے کہ کرونا کی ڈیلٹا قسم پہلی قسم کے وائرس سے تقریباً دوگنا زیادہ قابل انتقال رکھتی ہے اور یہ بہت تیزی سے پھیلتی ہے جس کے نتیجے میں مریضوں میں شدید علامات پیدا کرنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔

    یہ بھی پڑھیں: کرونا وائرس کی نئی قسم نے خطرے کی گھنٹی بجا دی

    بیماری پر قابو پانے اور روک تھام کے چینی مرکز میں ایک اور محقق شاؤ ئی مِنگ نے کہا کہ اگرچہ کوئی بھی ویکسین متعدی امراض کیخلاف سو فیصد تحفظ فراہم نہیں کرسکتی تاہم نوول کروناوائرس کی مختلف اقسام پر اب بھی دستیاب ویکسینز کے ساتھ قابو پایا جا سکتا ہے۔

    شاؤ نے مزید واضح کیا کہ ثبوت کی بنیاد پر تحقیق سے ظاہر ہوا کہ چین کی مقامی نوول کرونا وائرس ویکسینز اسپتال داخل ہونے،شدید کیسز اور اموات کی شرح فعال طور پر کم کرتی ہے۔

  • چکن پاکس سے تعلق؟ بھارتی کرونا وائرس سے متعلق امریکی ادارے کی خفیہ رپورٹ لیک

    چکن پاکس سے تعلق؟ بھارتی کرونا وائرس سے متعلق امریکی ادارے کی خفیہ رپورٹ لیک

    واشنگٹن: امریکی ادارے کی لیک ہونے والی ایک خفیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کرونا وائرس کی بھارتی قسم ڈیلٹا چکن پاس کی طرح متعدی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی ادارے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کی کرونا وائرس کے بھارتی ڈیلٹا ویرینٹ پر اندرونی رپورٹ سامنے آ گئی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ بھارتی کرونا ڈیلٹا چکن پاکس کی طرح تیزی سے پھیلتا ہے۔

    امریکی ادارے کی اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ویکسین لگوانے کے باوجود ڈیلٹا کورونا وائرس انسان کو متاثر کرسکتا ہے، ڈیلٹا ویرینٹ سے متاثرہ شخص اوسطاً 8 یا 9 دیگر افراد کو متاثر کر سکتا ہے، اور اگر ویکسینیٹڈ افراد اس انفیکشن کا شکار ہوتے ہیں تو ان کے جسم میں بھی اتنا ہی وائرس موجود ہے جتنا ویکسین نہ لگوانے والوں میں ہوتا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق بھارتی وائرس چکن پاکس (جیسے کاکڑا لاکڑا اور چھوٹی چیچک بھی کہتے ہیں) کی طرح تیز رفتاری سے پھیلتا ہے، اور ویکسین شدہ امریکیوں میں بھی یہ انفیکشن اتنا ہی قابلِ منتقلی ہو سکتا ہے جتنا ویکسین نہ لگوانے والوں میں ہوتا ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈیلٹا ویرینٹ ویکسین کے ذریعے فراہم کرنے والی حفاظت کو بھی توڑ سکتا ہے، اور کرونا کی دیگر اقسام کے مقابلے میں کہیں زیادہ شدید بیماری کا سبب بن سکتا ہے۔

    امریکی ادارے کا یہ بھی کہنا ہے کہ ڈیلٹا ویرینٹ میرس، سارس اور ایبولا جیسے وائرس کے مقابلے میں بھی زیادہ تیزی سے منتقل ہونے والا وائرس ہے۔

    چکن پاکس

    چکن پاکس کو طبّی اصطلاح میں Varicella کہا جاتا ہے، جو ایک متعدّی بیماری ہے، یہ مرض Varicella zoster نامی وائرس کی وجہ سے لاحق ہوتا ہے، چکن پاکس ایک سے دوسرے فرد میں انتہائی تیزی سے منتقل ہو جاتی ہے، بالخصوص متاثرہ فرد کے کھانسنے اور چھینکنے سے، حفاظتی ٹیکے دریافت ہونے کے بعد امریکا میں اس بیماری کے پھیلاؤ میں 90 فی صد کمی واقع ہوئی۔

    چکن پاکس (کاکڑا لاکڑا، چھوٹی چیچک) کی واضح علامت، جِلد پر چکتوں کی شکل میں سُرخ نشانات نمایاں ہونا ہے، جو بعد میں چھوٹے چھوٹے خارش زدہ پانی بَھرے چھالوں اور آبلوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ یہ پانی بَھرے دانے ابتدا میں سینے، کمر اور چہرے پر نمودار ہوتے ہیں، مگر پھر آہستہ آہستہ جسم کے دیگر حصّوں تک پھیل جاتے ہیں۔

    مرض کی دیگر علامات میں بخار، تھکن، بے چینی اور سَر درد شامل ہیں، یہ علامات 7 سے 10 دِن تک برقرار رہتی ہیں اور پھر بتدریج ٹھیک ہو جاتی ہیں۔ مرض کی پیچیدگیوں میں نمونیا، دماغ میں انفیکشن اور جِلد کے دانوں میں مواد بَھر جانا شامل ہیں، عام طور پر چکن پاکس بچّوں کو زیادہ متاثر کرتی ہے۔

  • بھارت میں کرونا وائرس کی تباہ کن قسم مزید تبدیل ہورہی ہے

    بھارت میں کرونا وائرس کی تباہ کن قسم مزید تبدیل ہورہی ہے

    نئی دہلی: بھارت میں کرونا وائرس کی تباہ کن قسم ڈیلٹا کی ایک اور ذیلی قسم سامنے آگئی جسے کے 417 این کا نام دیا گیا ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق بھارت میں تیزی سے پھیلنے والے کورونا وائرس کے ڈیلٹا قسم کے 40 کے لگ بھگ کیسز سامنے آنے کے بعد مرکزی حکومت نے ریاستوں سے کہا ہے کہ شہریوں کے زیادہ سے زیادہ ٹیسٹ کروائے جائیں۔

    کرونا وائرس کی تبدیل شدہ شکل رکھنے والی یہ قسم نہایت تیزی سے پھیلتی ہے اور اس کو انڈیا میں ڈیلٹا پلس کا نام دیا گیا ہے، اس کا پہلا کیس رواں ماہ کی 11 تاریخ کو پبلک ہیلتھ انگلینڈ نے رپورٹ کیا تھا۔

    کرونا وائرس کی اس تبدیل شدہ قسم کو ڈیلٹا ویرینٹ کی ذیلی نسب سمجھا جاتا ہے جو سب سے پہلے انڈیا میں سامنے آئی اور پروٹین میوٹیشن کے تحت صورت بدلی اس کو کے 417 این کا نام دیا گیا۔

    اس تبدیل شدہ وائرس کا بِیٹا ویرینٹ پہلی بار جنوبی افریقا میں بھی سامنے آیا تھا۔

    بعض سائنسدان اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ وائرس کی میوٹیشن ڈیلٹا ویرینٹ کے دیگر موجود فیچرز کے ساتھ مل کر اس کو زیادہ تیزی سے پھیلنے میں مدد فراہم کر سکتے ہیں۔

    انڈیا کے محکمہ صحت نے ایک بیان میں کہا ہے کہ کے 417 این وائرس کی نوعیت ریسرچ میں دلچسپی کا باعث ہے کیونکہ یہ بِیٹا ویرینٹ میں بھی موجود ہے جو قوت مدافعت سے متلق پہلے ہی رپورٹ ہو چکا ہے۔

    انڈیا کے ایک نمایاں وائرولوجسٹ شاہد جمیل نے بتایا کہ یہ تبدیل شدہ شکل کا وائرس اینٹی باڈیز کے مؤثر ہونے میں کمی لانے کے لیے جانا جاتا ہے۔

    ڈیلٹا ویریئنٹ کرونا وائرس کے 16 جون تک کم از کم 197 کیسز سامنے آچکے ہیں جو دنیا کے 11 ملکوں میں رپورٹ کیے گئے، ان ممالک میں برطانیہ، کینیڈا، انڈیا، جاپان، نیپال، پولینڈ، پرتگال، روس، سوئٹزرلینڈ، ترکی اور امریکا شامل ہیں۔

    بدھ کو بھارتی حکام نے بتایا کہ اس ویرینٹ کے 40 کیسز تین ریاستوں مہاراشٹر، کیرالہ اور مدھیہ پردیش میں سامنے آئے تاہم ان کے تیزی سے پھیلاؤ کے حوالے سے کوئی حقائق سامنے نہیں آئے۔

    برطانیہ نے کہا ہے کہ اس تبدیل شدہ وائرس کے پانچ کیسز 26 اپریل کو رپورٹ کیے گئے تھے اور یہ افراد ایسے لوگوں سے ملے تھے جنہوں نے نیپال اور ترکی کا سفر کیا تھا۔

    برطانیہ اور بھارت میں تبدیل شدہ شکل والے وائرس سے تاحال کوئی ہلاکت رپورٹ نہیں کی گئی۔

    عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ وہ اس ویرینٹ کو ڈیلٹا ویرینٹ کے ایک حصے کے طور پر ٹریک کر رہا ہے اور اس کے ساتھ وائرس کے دیگر ویرینٹس پر بھی نظر رکھے ہوئے ہے جن کی میوٹیشن ہوئی ہے۔

  • کورونا وائرس "ڈیلٹا” کی علامات کتنی خطرناک ہیں؟ ماہرین کی نئی تحقیق

    کورونا وائرس "ڈیلٹا” کی علامات کتنی خطرناک ہیں؟ ماہرین کی نئی تحقیق

    بھارت میں تباہیاں پھیلانے والی کورونا وائرس کی نئی قسم ڈیلٹا کیا ہے اور اس کی کیا علامات ہیں؟ اس حوالے سے محققین کا کہنا ہے کہ یہ قسم بظاہر نزلے زکام جیسی ہے لیکن دیگر جسمانی اثرات خطرناک ہیں۔

    کورونا وائرس کی نئی قسم ڈیلٹا کی عام علامات بھی مختلف بھارت میں سب سے پہلے سامنے آنے والی کورونا وائرس کی نئی قسم ڈیلٹا کے شکار افراد میں کوویڈ کی علامات بھی پرانی اقسام کے مقابلے میں مختلف ہیں۔

    یہ دعویٰ برطانوی محققین نے کیا جن کے مطابق سردرد، گلے کی سوجن اور ناک بہنا اس وقت برطانیہ میں سب سے تیزی سے پھیلنے والی ڈیلٹا قسم کی عام ترین علامات ہیں۔

    کنگز کالج لندن کے پروفیسر ٹم اسپیکٹر دنیا کی سب سے بڑی کورونا وائرس کی علامات کی تحقیق کرنے والی ٹیم کی قیادت کررہے ہیں جس کے لیے زوی کووڈ سیمپٹم اسٹڈی ایپ سے مدد لی جاتی ہے۔

    اس ایپ میں اکٹھا کیے گئے ڈیٹا سے عندیہ ملتا ہے کہ کورونا کی نئی قسم ڈیلٹا کی علامات "بگڑے ہوئے نزلے” جیسی محسوس ہوتی ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ کوویڈ اب مختلف طرح سے کام کررہا ہے اور کسی بگڑے ہوئے نزلے جیسا لگتا ہے، لوگوں کو لگ سکتا ہے کہ انہیں موسمی نزلہ ہے اور وہ باہر گھوم پھر سکتے ہیں، جو ہمارے خیال میں مسائل کی وجہ بن سکتا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ مئی سے ہم نے ایپ استعمال کرنے والے صارفین کی عام ترین علامات کو دیکھا تو وہ پہلے جیسی نہیں تھیں، اس وقت کووڈ کی سرفہرست علامت سردرد ہے جس کسے بعد گلے کی سوجن، پھر ناک بہنا اور بخار ہے۔

    خیال رہے کہ بیشتر ممالک میں کووڈ کی روایتی علامات میں بخار، کھانسی اور سونگھنے یا چکھنے کی حس سے محرومی کو عام علامات قرار دیا جاتا ہے۔

    پروفیسر ٹم اسپیکٹر نے کہا کہ ڈیلٹا قسم میں کھانسی 5 ویں عام ترین علامت ہے جبکہ سونگھنے کی حس سے محرومی ٹاپ 10 میں بھی شامل نہیں۔

    برطانوی ماہرین کے مطابق ڈیٹا سے عندیہ ملتا ہے کہ ڈیلٹا قسم برطانیہ میں گزشتہ سال دریافت ہونے والی ایلفا قسم سے کم از کم 40 فیصد زیادہ متعدی ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ ڈیلٹا سے متاثر افراد میں ہسپتال میں داخلے کا خطرہ دوگنا زیادہ ہوتا ہے اور ویکسین کی افادیت بھی کسی حد تک کم کردیتی ہے، بالخصوص پہلے ڈوز کے بعد۔

    پروفیسر ٹم اسپیکٹر نے مزید بتایا ‘میرے خیال میں ہمارا پیغام یہ ہے کہ اگر آپ جوان ہیں اور معتدل علامات سامنے آتی ہیں جن سے آپ کو لگتا ہے کہ وہ نزلہ زکام ہے، تو گھر پر رہیں اور ٹیسٹ کروالیں۔ زوئی ایپ کو دنیا بھر میں استعمال کرنے والوں کی تعداد 40 لاکھ سے زیادہ ہے۔

    10جون کو شائع ہونے والے ڈیٹا کے مطابق برطانیہ میں ان افراد میں کووڈ کیسز تیزی سے بڑھ رہے ہیں جن کی ویکسینیشن نہیں ہوئی، خصوصاً سب سے زیادہ کیسز 20 سے 29 سال کے گروپ میں سامنے آئے ہیں جس کے بعد 0 سے 19 سال کا گروپ ہے۔

  • کورونا وائرس کی کون سی قسم اب تک سب سے خطرناک ثابت ہوئی ؟

    کورونا وائرس کی کون سی قسم اب تک سب سے خطرناک ثابت ہوئی ؟

    کورونا وائرس آج بھی دنیا کے مختلف ممالک میں اپنی تباہیاں مچائے ہوئے ہے، یہ وائرس مختلف اقسام کے ساتھ دنیا پر حملہ آور ہوا، محققین نے بتایا ہے کہ اس کی وہ کون سی قسم ہے جس نے انسانوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔

    اس حوالے سے بھارت میں کورونا کی دوسری اور جان لیوا لہر کا باعث بننے والی قسم ڈیلٹا اب تک زیادہ متعدی ثابت ہوئی ہے اور اب ماہرین یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کیا وہ زیادہ خطرناک بھی ہے یا نہیں۔

    وائرس سے متاثرہ شخص میں سننے کی حس متاثر ہونا، معدے کے سنگین مسائل اور خون جمنے کے نتیجے میں گینگرین جیسی علامات کوویڈ 19کے مریضوں میں عام طور پر نظر نہیں آتیں مگر بھارت سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹروں نے اوپر درج علامات اس نئی قسم کے ساتھ منسلک کی ہیں۔

    برطانیہ اور اسکاٹ لینڈ میں ابتدائی شواہد سے عندیہ ملا ہے کہ یہ نئی قسم اسپتال میں داخلے کا خطرہ بھی زیادہ بڑھاتی ہے۔ ڈیلٹا جسے پہلے بی 1.617.2 کے نام سے بھی جانا جاتا تھا، گزشتہ 6 ماہ کے دوران 60 سے زیادہ ممالک تک پہنچ چکی ہے اور متعدد ممالک میں کیسز میں اضافے کے بعد سفری پابندیوں کا باعث بنی ہے۔

    اس قسم کے باعث برطانیہ نے جون کے آخری عشرے میں لاک ڈاؤن کو مکمل ختم کرنے کے منصوبے پر نظر ثانی شروع کردی ہے جبکہ سنگاپور میں 95 فیصد مقامی کیسز اب ڈیلٹا کا نتیجہ ہیں۔

    اس نئی قسم کے پھیلاؤ کی زیادہ تفتار اور ویکسینز کی افادیت میں ممکنہ کمی کے باعث اس کے اثرات کے بارے میں جاننا اب بہت اہم ہوچکا ہے۔

    چنائی کے اپولو اسپتال کے وبائی امراض کے ماہر عبدالغفار کے مطابق ہمیں مزید سائنسی تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ جان سکیں کہ سنگین طبی علامات کا اس قسم سے کوئی تعلق ہے یا نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اب ہمارے پاس ایسے زیادہ کوویڈ کے مریض آرہے ہیں جو ہیضے سے متاثر ہیں جبکہ ابتدائی لہر میں یہ شرح بہت کم تھی۔

    انہوں نے بتایا کہ گزشتہ سال ہمارا خیال تھا کہ ہم نے اپنے نئے دشمن کے بارے میں کافی کچھ جان لیا ہے مگر اب یہ خیال بدل گیا ہے، یہ وائرس اب بہت ہی زیادہ ناقابل پیشگوئی ہوچکا ہے۔

    بھارت بھر میں مریضوں کا علاج کرنے والے 6 ڈاکٹروں کے مطابق معدے میں درد، قے، متلی، کھانے کی اشتہا ختم ہونا، سننے کی حس سے محرومی اور جوڑوں میں درد کوویڈ کے مریضوں کو درپیش چند مسائل ہیں۔

    آسٹریلیا کی نیو ساؤتھ ویلز یونیورسٹی کی گزشتہ ماہ جاری ہونے والی تحقیق کے مطابق جنوبی افریقہ اور برازیل میں سامنے آنے والی اقسام بیٹا اور گاما میں غیرمعمولی طبی علامات کے شواہد نہ ہونے کے برابر ہیں۔

    ممبئی کے ایک طبی ماہر کے مطابق کچھ مریضوں میں خون کے چھوٹے لوتھڑے یا بلڈ کلاٹس کو بھی دریافت کیا گیا جن کی شدت اتنی سنگین تھی کہ متاثرہ حصے مرگئے اور انہیں گنگرین کا سامنا ہوا، 2 افراد کی انگلیاں یا پیر کو کاٹنا پڑا۔

    اس نے بتایا کہ گزشتہ سال پورے سال میں مجموعی طور پر 3سے 4 ایسے کیسز سامنے آئے تھے مگر اب ہم ہر ہفتے ایک ایسے مریض کو دیکھ رہے ہیں۔

    بھارت میں 2021 کے دوران ایک کروڑ 86 لاکھ نئے کوویڈ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ گزشتہ سال یہ تعداد ایک کروڑ سے کچھ زیادہ تھی۔ بھارتی حکومت کے پینل کی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق ڈیلٹا قسم ہی اس کی بنیادی وجہ قرار دی جارہی ہے جو کہ برطانیہ میں دریافت ہونے والی قسم ایلفا سے50 فیصد زیادہ متعدی ہے۔

    کیسز میں بہت زیادہ اضافے کے نتیجے میں کوویڈ کی عجیب پیچیدگیوں کی شرح میں اضافہ ہوا ہے، اب بھی ماہرین مختلف عمر کے گروپس میں بلڈ کلاٹس سے الجھن کا شکار ہیں جن میں اس کی ماضی میں کوئی تاریخ نہیں ملی تھی۔

    انہوں نے بتایا کہ ہمیں شبہ ہے کہ ایسا معاملہ وائرس کی نئی قسم کی وجہ سے ہوا ہے اور ان کی جانب سے ڈیٹا اکٹھا کیا جارہا ہے کہ کچھ افراد کو کلاٹس کا سامنا کیوں ہوتا ہے اور دیگر کو کیوں نہیں۔

    ڈاکٹروں نے ان شریانوں میں بھی کلاٹس کو دیکھا ہے جو آنتوں کو خون پہنچاتی ہیں جس کا نتیجہ معدے میں تکلیف کی شکل میں نکلتا ہے یا فی الحال یہی واحد علامت ہے۔

    ممئی کے کنگ ایڈورڈ میموریل اسپتال کی ناک، کان اور گلے کی سرجن ہیتل مارفیتا نے بتایا کہ کوویڈ کے مریضوں کو سننے کی حس سے

    محرومی، گردن کے ارگرد سوجن اور ٹونسلز کے باعث بھی طبی امداد کے لیے رجوع کرنا پڑا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہر فرد میں دوسری لہر کے دوران مختلف علامات ظاہر ہوئیں۔

    اپوپو ہسپتال کے ماہر ڈاکٹ عبدالغفار نے بتایا کہ انہوں نے کوویڈ 19 کی علامات متعدد مریضوں کے پورے خاندان میں دیکھی تھیں، جبکہ گزشتہ سال انفرادی کیسز زیادہ سامنے آئے تھے، جس سے گھروں کے اندر ڈیلٹا کے پھیلاؤ میں اضافے کا عندیہ بھی ملتا ہے۔

    بھارت میں بلیگ فنگس کے کیسز بھی بڑھ چکے ہیں جو اب تک 8 ہزار 800 کووڈ 19 کے مریضوں یا ان کو شکست دینے والے میں سامنے آئے ہیں۔

    اگرچہ اب بھارت میں کیسز کی تعداد میں کمی آرہی ہے مگر یہ نئی قسم اب دیگر مقامات پر پھیل رہی ہے، وہ بھی ایسے مقامات جہاں گزشتہ سال کیسز نہ ہونے کے برابر تھے جیسے تائیوان، سنگاپور اور ویت نام۔

    اب ایسے شواہد سامنے آرہے ہیں کہ ڈیلٹا اور کم از کم ایک اور قسم نے ویکسین سے پیدا ہونے والی اینٹی باڈیز کے خلاف کسی حد تک مزاحمت کی طاقت حاصل کرلی ہے، جس کی وجہ سے کمپنیوں کو موجود ویکسینز کے بوسٹر شاٹ یا نئی ویکسینز تیار کرنا ہوں گی۔