Tag: Dementia

  • سرخ گوشت کھانے سے دماغی صحت پر کیا اثر پڑتا ہے؟

    سرخ گوشت کھانے سے دماغی صحت پر کیا اثر پڑتا ہے؟

    ہم میں سے اکثر لوگ گوشت کھانے کے بے حد شوقین ہوتے ہیں اور ہمارا کھانا گوشت کے بغیر ادھورا سمجھا جاتا ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ روزانہ گوشت کھانا کس قدر نقصان دہ ہے؟

    ماہرین صحت کہتے ہیں کہ گوشت کو اعتدال میں کھانا ہی صحت بخش ہے کیونکہ اس کی زیادتی سے ڈائریا، بد ہضمی، الٹی اور فوڈ پوائزننگ جیسی شکایت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

    سرخ اور سفید گوشت کیا ہے؟

    گوشت کے بارے میں وائٹ میٹ اور ریڈ میٹ کی اصطلاح تو آپ نے اکثر سنی ہو گی، وائٹ میٹ چکن اور مچھلی یا دیگر آبی حیات سے حاصل ہونے والے گوشت کو کہا جاتا ہے، جب کہ بکری، بھیٹر اور گائے وغیرہ کے گوشت کو ریڈ میٹ کہتے ہیں۔

    ریڈ میٹ عموماً زیادہ ذائقے دار ہوتا ہے، اس میں پروٹین، وٹامنز اور دوسرے صحت بخش اجزاء کی مقدار بھی زیادہ ہوتی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ اس میں ایسے اجزا بھی پائے جاتے ہیں جو صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ اس لیے معالج عموماً بعض صور توں میں بڑا گوشت یا ریڈ میٹ کھانے سے منع کرتے ہیں۔

    سرخ گوشت

    گو کہ گوشت میں شامل غذائی اجزا جسم کے لیے ضروری ہوتے ہیں تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اجزا دوسری متبادل غذاؤں جیسے مچھلی، انڈوں یا خشک میوہ جات سے بھی حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق گوشت کو اپنی غذا کا لازمی حصہ بنانے سے قبل ان کے خطرناک نقصانات کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔

    حیران کن تحقیق 

    امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ گائے یا بکرے کا گوشت زیادہ مقدار کھانے والے افراد میں دماغی تنزلی کا باعث بننے والے مرض ڈیمینشیا کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

    ہارورڈ ٹی ایچ چن اسکول آف پبلک ہیلتھ کی تحقیق میں بتایا گیا کہ روزانہ محض 28 گرام پراسیس سرخ گوشت کے استعمال سے ڈیمینشیا سے متاثر ہونے کا خطرہ 14 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

    اس کے مقابلے میں سرخ گوشت کی جگہ گریوں، دالوں اور بیجوں کو استعمال کرنے سے ڈیمینشیا کا خطرہ 20 فیصد تک گھٹ جاتا ہے۔

    ماضی میں مختلف تحقیقی رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ پراسیس سرخ گوشت میں چکنائی، نمکیات اور نائٹریٹ کی مقدار کافی زیادہ ہوتی ہے جس سے کینسر کی مختلف اقسام، ذیابیطس ٹائپ 2، امراض قلب اور فالج کا خطرہ بڑھتا ہے۔

  • ڈراؤنے خواب دیکھنا کس مرض کی علامت ہے؟ تحقیق میں بڑا انکشاف

    ڈراؤنے خواب دیکھنا کس مرض کی علامت ہے؟ تحقیق میں بڑا انکشاف

    اکثر گہری نیند میں ڈراؤنے خواب دیکھنا معمول کی بات ہے، تقریباً سبھی لوگوں نے کبھی نہ کبھی اس قسم کا خواب دیکھ رکھا ہوگا، لیکن اگر ایسا اکثر ہونے لگے تو یقیناً باعث تشویش ہے۔

    پانی میں ڈوبنا، جنگل میں سرپٹ دوڑنا، کسی خونخوار جانور سے جان بچانے کی کوشش یا مافوق الفطرت چیزیں دکھائی دینے کے علاوہ اور بھی بہت سے مناظر ہو سکتے ہیں جو اکثر لوگوں کو خواب میں نظر آتے ہیں۔

    کیا آپ جانتے ہیں کہ ہمیں یہ ڈراؤنے خواب کیوں آتے ہیں اور ان کا کیا مقصد ہوتا ہے؟ اس حوالے سے سائنسدانوں نے ایک تحقیق میں اہم انکشاف کیا ہے۔

    خواب

    برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ درمیانی عمر یا بڑھاپے میں ڈراؤنے خواب دیکھنے والے افراد میں دماغی تنزلی اور ڈیمینشیا کے خطرے کا عندیہ ملتا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق امپرئیل کالج لندن کی اس تحقیق میں 605 درمیانی عمر کے افراد اور 26 سو معمر افراد کو شامل کیا گیا تھا اور ان کی صحت کا جائزہ 13 سال تک لیا گیا۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ڈراؤنے خواب دیکھنے والے افراد میں دماغی تنزلی کا خطرہ 4 گنا جبکہ ڈیمینشیا سے متاثر ہونے کا خطرہ دوگنا بڑھ جاتا ہے۔ محققین نے بتایا کہ ڈراؤنے خوابوں اور دماغی امراض کے درمیان گہرا تعلق موجود ہے۔

    اس تحقیق کے نتائج یورپین اکیڈمی آف نیورولوجی کی سالانہ کانفرنس کے موقع پر پیش کیے گئے۔

    اس سے قبل مئی 2023 میں برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا تھا کہ دہشت زدہ کر دینے والے خواب نظر آنا جِلدی مرض لیوپس کی سب سے عام اور ابتدائی علامات میں سے ایک ہے۔

    اس تحقیق میں لیوپس کے شکار 676 مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن میں سے ایک تہائی نے بتایا کہ مرض کی دیگر علامات نمودار ہونے سے ایک سال قبل انہیں ڈراؤنے خواب نظر آتے تھے۔

    تحقیق کے نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ خواب اور دماغ کا مدافعتی نظام ایک دوسرے سے منسلک ہوتے ہیں۔

    Dementia

    محققین نے بتایا کہ ہم کافی عرصے سے جانتے ہیں کہ خوابوں میں ہماری شخصیت میں نظر آنے والی تبدیلیاں جسمانی، اعصابی اور ذہنی صحت سے جڑی ہوتی ہیں اور کئی بار یہ کسی مرض کی ابتدائی نشانی ہوتی ہے۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ یہ اولین شواہد ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈراؤنے خواب ہمیں کسی سنگین آٹو امیون مرض جیسے لیوپس پر نظر رکھنے میں مدد فراہم کر سکتے ہیں۔

    لیوپس ایک ایسا مرض ہے جس کی وجہ ابھی تک معلوم نہیں اور اکثر 15 سے 45 سال میں اس کا آغاز ہوتا ہے اور پھر زندگی بھر اس کا سامنا ہوتا ہے۔

  • کیا آپ کو اسٹرا بیری کے اس اہم فائدے کا علم ہے؟

    کیا آپ کو اسٹرا بیری کے اس اہم فائدے کا علم ہے؟

    اگر آپ اسٹرابیری کو پسند نہیں کرتے تو آپ یقیناً غلطی پر ہیں کیونکہ آپ اس کے حیران کن فوائد سے آگاہ نہیں ہیں، یہ ایک لذیذ اور عرق سے بھرپور غذا ہے بلکہ یہ کسی بھی طرح سپر فوڈ سے کم نہیں۔

    اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور اسٹرابیری اپنی مزیدار میٹھی خوشبو اور ذائقے کی بدولت سب کا پسندیدہ پھل ہے اور اس کے ساتھ ساتھ، وٹامن اے، پوٹاشیم، کیلشیم، میگنیشیم اور فولیٹ سمیت غذائی اجزاء کا ایک شاندار ذریعہ ہیں۔

    اسٹرابیری آپ کی مجموعی صحت کو بہتر بنانے کے لیے انتہائی مفید تصور کی جاتی ہے یہ آپ کو بغیر کسی چکنائی، سوڈیم اور کولیسٹرول کے مختلف وٹامنز، فائبر اور اینٹی آکسیڈینٹس جسے پولی فینولس کہا جاتا ہے فراہم کرتی ہے، تاہم ایک نئی تحقیق کے مطابق یہ آپ کو ڈیمنشیا سے بھی تحفظ فراہم کرسکتی ہے۔

    سنسناٹی یونیورسٹی کے محققین کی طرف سے کی گئی ایک نئی تحقیق میں اسٹرابیری کا روزانہ ایسے افراد میں استعمال جن میں ڈیمنشیا کا خطرہ موجود تھا ان میں خطرے میں کمی نوٹ کی گئی۔

    علمی کمی اور اسٹرابیری کے درمیان تعلق کو جاننے کے لیے ایک تحقیق کی گئی جس میں 30 ایسے بالغ شرکاء کا انتخاب کیا گیا جن میں ہلکی علمی خرابی موجود تھی۔

    تین ماہ تک جاری رہنے والی اس تحقیق کے دوران شرکاء کو یہ ہدایت دی گئی تھی کہ اسٹرابیری کھانے سے گریز کریں، جبکہ اس کے متبادل کے طور پر انہیں روزانہ اسٹرابیری کے سپلیمنٹ پاؤڈر کا ایک پیکٹ پانی میں ملا کر ناشتے کے ساتھ استعمال کرنے کو کہا گیا تھا۔

    اس تحقیق میں شامل آدھے شرکاء کو ایک کپ اسٹرابیری کے برابر پاؤڈر کا پیکٹ جبکہ آدھے شرکاء کو پلیسبو دیا گیا تھا۔

    تین ماہ کے بعد محققین نے نتیجہ اخذ کیا کہ جن شرکاء نے اسٹرابیری کا پاؤڈر استعمال کیا تھا، انہوں نے ورڈ لسٹ لرننگ ٹیسٹ میں اس گروپ کے مقابلے میں نمایاں طور بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا جنہیں پلیسبو پاؤڈر دیا گیا تھا، ساتھ ہی انہوں نے ڈپریشن اور ذہنی صحت میں کمی کی علامات میں بھی نمایاں بہتری نوٹ کی۔

    یو سی کالج آف میڈیسن کے شعبہ نفسیات اور طرز عمل نیورو سائنس کے پروفیسر رابرٹ کریکورین کا کہنا ہے کہ اسٹرابیری اور بلیو بیری دونوں میں اینٹی آکسیڈنٹس ہوتے ہیں جسے اینتھوسیاننز کہتے ہیں یہ میٹابولک اور علمی اضافہ میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ جو لوگ باقاعدگی سے اسٹرابیری یا بلوبیری کھاتے ہیں ان کی عمر بڑھنے کے ساتھ علمی زوال کی رفتار بھی کم ہوتی ہے۔

    عمر بڑھنے کے ساتھ ہماری علمی صلاحیتیں کم ہونا شروع ہو جاتی ہیں، اسی طرح موٹاپے اور انسولین کے خلاف مزاحمت کی شرح بھی بڑھ جاتی ہے اس طرح اعصابی سوزش میں خطرناک حد تک اضافہ ہو سکتا ہے تاہم اسٹرا بیری کا استعمال علمی خرابی کو کم کرنے کے ساتھ آپ کی مجموعی صحت کو بہتر بنا سکتا ہے۔

  • مسوڑھوں کی خرابی سے نفسیاتی امراض کا انکشاف

    مسوڑھوں کی خرابی سے نفسیاتی امراض کا انکشاف

    مسوڑھے خراب ہونا یا ان میں کسی قسم کا انفیکشن بظاہر تو ایک عام سی بات ہے لیکن یہ بیماری ہماری سوچ سے بھی کہیں زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ اس کا براہ راست اثر دماغی صحت پر پڑنے کے قوی امکانات ہوتے ہیں۔

    بیماری کا علم ہونے کے فوری بعد اگر اس کا بروقت علاج نہ کرایا جائے تو یہ بڑے نقصان کا سبب بن سکتی ہے۔ ایک نئی تحقیق میں ماہرین نے اس بات کا انکشاف کیا ہے۔

    ایک نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ منہ کے اندر کی صفائی کا خیال نہ رکھنا خطرناک اثرات مرتب کرسکتی ہے، جرنل نیورو انفلیمیشن میں شائع ہونے والی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ مسوڑھوں کی ایک عام سی بیماری ڈیمینشیا کا سبب بن سکتی ہے۔

    امریکا کے فورسِیتھ اِنسٹی ٹیوٹ سے تعلق رکھنے والے محققین کی ٹیم کو ایک مطالعے میں معلوم ہوا کہ یہ بیماری مائیکرو گلیئل نامی دماغ کے خلیوں میں تبدیلی لاسکتی ہے۔ یہ خلیے دماغ میں امیلائیڈ جمع ہونے سے بچانے میں مدد دیتے ہیں۔

    ایمیلائیڈ ایک قسم کا پروٹین ہوتا ہے جس کا تعلق خلیے کی موت اور لوگوں میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کمزور ہونے یعنی الزائمرز سے ہوتا ہے۔

    اس تحقیق کے سینئر مصنف ڈاکٹر ایلپڈوگن کینٹارسی نے بتایا کہ ماضی کے مطالعوں سے یہ بات علم میں تھی کہ مسوڑھوں کی بیماری کے سبب ہونے والی سوزش دماغ میں سوزش کو فعال کر دیتی ہے۔

    اس تحقیق میں محققین نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا منہ کے بیکٹیریا دماغ کے خلیوں میں کوئی تبدیلی لاسکتے ہیں؟ جن مائیکرو گلیئل خلیوں کا ٹیم نے مطالعہ کیا وہ ایک قسم کے خون کے سفید خلیے ہوتے ہیں جو جمع ہونے والے امیلائیڈ کو ختم کرتے ہیں۔

    تحقیق میں سائنس دانوں نے مائیکرو گلیئل خلیوں ضرورت سے زیادہ محرک ہوتا دیکھا جو منہ کے بیکٹیریا سے سامنا ہونے پر زیادہ امیلائیڈ کھانے لگے تھے۔

  • ماہرین نے شادی کا انوکھا فائدہ ڈھونڈ لیا

    ماہرین نے شادی کا انوکھا فائدہ ڈھونڈ لیا

    طبی و سائنسی ماہرین نے شادی اور ساتھ رہنے کے کئی فوائد پر ریسرچ کی ہے اور اب حال ہی میں اس کا ایک اور فائدہ سامنے آیا ہے۔

    حال ہی میں جرنل آف نیورولوجی نیورو سرجری اینڈ سائیکاٹری کے تحت کی گئی تحقیق میں کم از کم 15 مطالعات میں دنیا بھر سے 8 لاکھ 12 ہزار سے زیادہ لوگوں کے اعداد و شمار کا تجزیہ کیا گیا، برطانیہ سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے بیوہ، طلاق یافتہ یا غیر شادی شدہ افراد کا موازنہ شادی شدہ افراد سے کیا۔

    تحقیق کے نتائج کے مطابق شادی شدہ لوگوں کے مقابلے میں، ساتھی سے علیحدہ ہوجانے والے افراد میں ڈیمنشیا ہونے کا خطرہ کم از کم 20 فیصد زیادہ ہوتا ہے، اور ایسے افراد جنہوں نے کبھی شادی نہیں کی ان میں جنس اور عمر سے متعلق خطرے کے عوامل کو ایڈجسٹ کرنے کے بعد یہ خطرہ 42 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔

    تحقیق میں سامنے آیا کہ شادی شدہ ہونے سے مختلف طریقوں سے ڈیمنشیا ہونے کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔

    شادی شدہ افراد روزانہ کی بنیاد پر باہمی میل اور تعلق کی بنا پر مختلف سماجی مصروفیت میں وقت گزارتے ہیں جو کسی بھی شخص کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت، ذہنی استعداد اور یاداشت کو بہتر بناسکتی ہے۔

    اس کے علاوہ ماضی کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ شادی شدہ ہونے کے نتیجے میں بہتر فیصلہ سازی میں مدد ملتی ہے، جیسے کہ صحت مند کھانا اور ورزش میں اضافہ، کم سگریٹ نوشی، یہ سب ڈیمنشیا کے خطرے کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔

    طلاق یافتہ افراد کے مقابلے میں علیحدہ ہوجانے والے افراد میں ڈیمنشیا کا زیادہ خطرہ موجود ہوتا ہے، اس ضمن میں ماہرین کا کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے اس کی وجہ سوگ ہو جو زیادہ تناؤ میں مبتلا رکھتا ہے۔

    یہ تناؤ ذہن کے اس حصے کو جہاں یادداشت کی تشکیل ہوتی ہے، نقصان پہنچانے کا باعث بن سکتا ہے۔

    تاہم، ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ڈیمنشیا کو روکنا اتنا آسان نہیں ہے، یہ مطالعہ ڈیمنشیا کے خطرے اور شادی کے درمیان تعلق کو ظاہر تو کرتا ہے۔ لیکن، یہ سمجھنا کہ ازدواجی حیثیت سے متعلق کچھ مخصوص عوامل ڈیمنشیا کے خطرے کو کس طرح متاثر کر سکتے ہیں، بڑی حد تک نامعلوم ہے۔

  • بڑھاپے میں یادداشت کی خرابی سے بچانے والی حیران کن وجہ

    بڑھاپے میں یادداشت کی خرابی سے بچانے والی حیران کن وجہ

    یادداشت کا مرض ڈیمنشیا بڑی عمر میں ہونے والا ایک عام مرض ہے، تاہم حال ہی میں ماہرین نے اس سے بچاؤ کی ایک حیران کن وجہ دریافت کی ہے۔

    حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ ایک بہتر معاشرتی زنگی ڈیمنشیا کی ابتدائی علامات رکھنے والوں میں یادداشت کے مسائل کو ختم کردیتی ہے۔

    تحقیق کے مطابق وہ لوگ جو دوستوں اور گھر والوں کے ساتھ وقت گزارتے ہیں، کلاسز لیتے ہیں، مذہبی معاملات میں رضا کار بنتے ہیں یا شرکت کرتے ہیں ان کے دماغ واپس نارمل انداز میں کام کرنے لگ جاتے ہیں۔

    ایسا ان لوگوں کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے جن میں یہ خرابی سالوں پہلے شروع ہوئی ہو، یہ ان لوگوں کے لیے اچھی خبر ہے جن کی یادداشت اور سوچنے کی صلاحیت میں لاک ڈاؤن کے دوران مسائل واقع ہوئے تھے۔

    ماہرین نے 22 سو کے قریب 62 سے 90 سال کے درمیان امریکیوں کے دماغ کی فعالی، طرزِ زندگی اور معاشرتی زندگی کا تجزیہ کیا، ان میں 972 لوگ وہ تھے جن میں جزوی کاگنیٹو مسائل تھے، جو عموماً ڈیمینشیا کی ایک علامت ہوتی ہے۔

    پانچ سال بعد ماہرین کو معلوم ہوا کہ 22 فیصد شرکا جن میں جزوی کاگنیٹو مسائل تھے، وہ اس حد تک بہتر ہوگئے کہ ان کا دماغ نارمل انداز میں کام کرنے لگا، 12 فیصد افراد میں ڈیمینشیا میں بتدریج کمی ہوئی اور 66 فیصد میں معاملات ویسے ہی رہے۔

    وہ لوگ جن کی معاشرتی سرگرمیاں زیادہ تھیں ان لوگوں میں بہتری کے امکانات زیادہ تھے۔

    امریکا کی یونیورسٹی آف یوٹاہ کی سربراہ پروفیسر منگ وین کا کہنا تھا کہ وہ سامنے آنے والی ان معلومات سے خوشگوار حیرانی میں مبتلا ہیں۔

  • بھولنے کی بیماری میں مبتلا ہزاروں افراد لا پتا ہو گئے

    بھولنے کی بیماری میں مبتلا ہزاروں افراد لا پتا ہو گئے

    ٹوکیو: جاپان میں 2020 میں خطرناک دماغی مرض ڈیمنشیا میں مبتلا افراد میں سے 17 ہزار 565 لا پتا ہو گئے۔

    تفصیلات کے مطابق گزشتہ برس جاپان بھر میں ڈیمنشیا میں مبتلا افراد میں سے ساڑھے 17 ہزار کے لا پتا ہونے کی رپورٹ درج کروائی گئی، جو اب تک کی ایک سال میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔

    قومی پولیس ایجنسی کا کہنا ہے کہ یہ تعداد ایک سال قبل کے مقابلے میں 86 زائد ہے، اور 2012 کے بعد سے اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

    حکام کا کہنا ہے کہ ان لا پتا افراد میں سے 527 ہلاک ہو گئے، بعض ٹریفک حادثات کا نشانہ بنے، جب کہ گزشتہ برس لا پتا ہونے والوں میں 214 افراد بازیاب نہیں ہو سکے۔

    محکمے کا کہنا تھا کہ پولیس لا پتا افراد کی فوری بازیابی کے اقدامات کے لیے مقامی حکومتوں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے، اس سلسلے میں ایک جی پی ایس ٹریکر ایپ کے استعمال کو فروغ دیا جا رہا ہے، مریضوں کے پڑوسیوں کو ای میل کرنے کی ایک سروس بھی تشکیل دے جا رہی ہے۔

    الزائمر کے علاج کیلئے نئی دوا کی منظوری

    یاد رہے کہ رواں ماہ ہی بھولنے کی بیماری’الزائمر‘ میں مبتلا افراد کے لیے امریکی ادارے ایف ڈی اے نے ایک دوا کی منظوری دی ہے، دوا ’آڈُوکانُوماب‘ اٹھارہ برسوں کے دوران اس بیماری کے خلاف پہلی نئی دوا کے طور پر سامنے آئی، یہ دوا امریکی کمپنی بائیو جِن اور جاپانی کمپنی ایئی سائی نے تیار کی ہے۔

    محققین کا کہنا ہے کہ یہ پہلی دوا ہے جو ڈیمنشیا کی محض علامات کا علاج کرنے کی بجائے بیماری کا مقابلہ کرتی ہے۔

  • یادداشت کو متاثر کرنے والے مرض ڈیمینشیا کے حوالے سے نیا انکشاف

    یادداشت کو متاثر کرنے والے مرض ڈیمینشیا کے حوالے سے نیا انکشاف

    بڑھاپے میں ذہن و یادداشت کو متاثر کرنے والی بیماری ڈیمینشیا کے بڑھاپے سمیت کئی عوامل ہوسکتے ہیں اور اس حوالے سے اب ایک نئی تحقیق سامنے آئی ہے۔

    حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق ذہنی صحت اور یاداشت کو متاثر کرنے والی بیماری ڈیمنشیا کے لاحق ہونے کے خطرات مرد و خواتین میں یکساں ہوتے ہیں۔

    تحقیق میں علم ہوا کہ مردوں میں یہ بیماری ہائی بلڈ پریشر اور لو بلڈ پریشر یعنی دونوں صورتوں میں لاحق ہونے کے امکانات ہوتے ہیں لیکن خواتین میں یہ مرض صرف ہائی بلڈ پریشر کے باعث ہوتا ہے۔

    ماہرین نے وسط زندگی میں ہونے والے امراض قلب کے خطرات پر مبنی فیکٹرز اور ڈیمنشیا کا دونوں جنس پر تجزیہ کیا گیا۔ نتیجہ یہ سامنے آیا کہ مرد و خواتین میں بیماری لاحق ہونے کے امراض قلب پر مبنی خطرات یکساں تھے۔

    یہ تحقیق جارج انسٹی ٹوٹ کے ماہرین نے 5 لاکھ سے زائد افراد پر کی۔ تحقیقی ٹیم کی سربراہ جسیکا گونگ کا کہنا ہے کہ ابھی اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ ان نتائج کی تصدیق ہوسکے تاکہ اس کے خطرات سے نمٹا جاسکے۔

    انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں ہم سمجھتے ہیں کہ ہائی بلڈ پریشر کو قابو میں رکھ کر مستقبل میں اس مرض سے بہتر طور پر نمٹا جاسکتا ہے۔

  • درمیانی عمر میں کی جانے والی غلطی جو دماغ کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے

    درمیانی عمر میں کی جانے والی غلطی جو دماغ کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے

    لندن: برطانیہ میں کی جانے والی ایک لمبے عرصے پر مبنی نئی تحقیق میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ اگر روزانہ 6 گھنٹے یا اس سے کم کی نیند لی جائے تو اس سے دماغی صحت پر تباہ کن اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

    یہ تحقیق طبی جریدے نیچر کمیونیکشنز میں منگل کو شائع ہوئی ہے، اس تحقیق سے یہ بات پھر سامنے آئی ہے کہ نیند ہماری صحت کے لیے کتنی زیادہ اہم ہوتی ہے اور اس کی کمی متعدد امراض کا خطرہ بڑھاتی ہے۔

    نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ درمیانی عمر میں روزانہ 6 گھنٹے سے کم کی نیند دماغی خلل (dementia) کی طرف لے جا سکتی ہے، جس میں دماغ اپنی صلاحیت کھو دیتا ہے، اہم نکتہ یہ ہے کہ اس تحقیق میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ 6 گھنٹے کی نیند بھی کم نیند کے زمرے میں آتی ہے، اور کم سے کم نیند 7 گھنٹے کی ہونی چاہیے۔

    اس طبی تحقیق کا دورانیہ 25 سال پر محیط رہا، اور اس دوران تقریباً 8 ہزار افراد کے معمولات کا جائزہ لیا گیا، نتائج نے دکھایا کہ 50 سے 60 سال کی عمر میں نیند کا دورانیہ 6 گھنٹے سے کم ہو تو ڈیمنشیا (دماغی تنزلی کا مرض) کا خطرہ ہر رات 7 گھنٹے سونے والے افراد کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتا ہے۔

    تحقیقی رپورٹ کے مطابق سماجی آبادیاتی، نفسی طرز عمل، امراض قلب، دماغی صحت اور ڈپریشن جیسے اہم عوامل سے ہٹ کر یہ معلوم کیا گیا کہ 50، 60 اور 70 سال کی عمر کے افراد میں نیند کی مسلسل کمی سے ڈیمنشیا کا خطرہ 30 فی صد تک بڑھ جاتا ہے۔

    اس طبی تحقیق کے حوالے سے برطانیہ میں ناٹنگھم یونی ورسٹی کے مینٹل ہیلتھ انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ ٹام ڈیننگ نے بتایا کہ اگرچہ یہ طبی مطالعہ علت و معلول (یعنی سبب اور اس کے اثر) کا تعین نہیں کرتا، تاہم یہ ڈیمنشیا کی بالکل ابتدائی علامت ہو سکتی ہے، اور اس کا تو کافی امکان ہے کہ ناقص نیند دماغی صحت کے اچھی نہیں، اور یہ الزائمر جیسے امراض کی طرف لے جا سکتی ہے۔

    اس تحقیق کے دوران محققین نے 1985 سے 2016 کے درمیان 7959 رضاکاروں کے معمولات کا جائزہ لیا، تحقیق کے اختتام پر 521 افراد میں ڈیمنشیا کی تشخیص ہوئی جن کی اوسط عمر 77 سال تھی، یہ بھی معلوم ہوا کہ مردوں اور خواتین دونوں پر ان نتائج کا اطلاق مساوی طور پر ہوتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ نیند کی کمی کے نتیجے میں دماغ اپنے افعال درست طریقے سے جاری نہیں رکھ پاتا، جیسا کہ توجہ مرکوز کرنا، سوچنا اور یادداشت کا تجزیہ مشکل ہوتا ہے۔

  • بُھولنے کی بیماری سے چھٹکارا کیسے ممکن ہے؟

    بُھولنے کی بیماری سے چھٹکارا کیسے ممکن ہے؟

    یوں تو انسانی جسم کا ہر عضو قدرت کا انمول عطیہ ہے مگر دماغ کی حیثیت ان سب سے زیادہ اہم ہے۔ دماغ کی وجہ سے انسان خلا کو تسخیر کرنے کے ساتھ ساتھ نئی ٹیکنالوجی تیار کرتا چلا جارہا ہے۔

    ایمنشیا ایک ایسا دماغی مرض ہے جس میں انسان اکثر باتیں بھول جاتا ہے، بازار جاتے ہیں تو بھول جاتے ہیں کہ خریدنا کیا تھا۔ امتحانات میں تیاری کرنے کے باوجود آدھا جواب بھول جاتے ہیں۔

    کسی سے کافی عرصے بعد ملاقات ہوئی تو اس کا نام یاد نہ آیا۔ کسی کام کے لئے دوسرے کمرے میں گئے لیکن وہاں پہنچنے کے بعد سوچنے لگے کہ کس کام کے لئے آئے تھے۔

    لیکن اگر آپ کو بھولنے کی بیماری ہے تو اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ آپ ضرورت سے کم نیند لے رہے ہیں، پریشانی کا شکار ہیں، جسمانی مشقت کم ہے یا جینیاتی مسئلہ ہے۔

    وجہ خواہ کچھ بھی ہو، لیکن سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ دماغی صحت میں خوراک کا کردار نہایت اہم ہے اور اگر آپ بھولنے کی شکایت کر رہے ہیں تو یقیناً اپنے دماغ کو درست غذا فراہم نہیں کرپا رہے۔

    دماغ کے لیے مفید غذاؤں کا استعمال ہمارے جسم میں خون کی گردش کو بہتر بناتا ہے اور خون زیادہ روانی سے ہمارے دماغ تک پہنچ پاتا ہے۔ جس کے باعث بھولنے کا عارضہ لاحق نہیں ہوتا۔ اب بھولنا بھول جائیں اور یہ سب شوق سے کھائیں۔

    آپ کو گوشت پسند ہے تو شوق سے کھائیں، لیکن سبزیوں سے بھی لازمی ناطہ جوڑے رکھیں۔ کیونکہ یہ دماغی صحت کے لیے نہایت مفید ہیں۔ خاص طور پر پتوں والی سبزیاں مثلاً پالک، بند گوبھی اور سلاد پتہ وغیرہ۔

    اس کے علاوہ پھل دل، دماغ اورجسم سب ہی کے لیے فائدہ مند ہیں لیکن چیری اور ایسے تمام پھل جن کے بیج گودے کے اندر ہوں، انسانی دماغ کے عمدہ غذا مانے جاتے ہیں۔ مثلاً کیلا، ٹماٹر اور اسٹرابری وغیرہ۔

    دماغ کے ساتھ ساتھ ہڈیوں اور بالوں کے لیے مفید اومیگا تھری فیٹی ایسڈ کی وافر مقدار سی فوڈز میں موجود ہوتی ہے اس لیے ہفتہ میں دو یا تین بار اپنے کھانے میں گوشت کی جگہ مچھلی، جھینگا یا کوئی اور سی فوڈ شامل کریں اور اسے فرانی کرنے کے بجائے گرل، بوائل یا بیک کرلیں۔

    اگر آپ یہ سب کھانا پسند نہیں کرتے تو اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کرکے اس کے متبادل فوڈ سپلیمنٹ کا انتخاب کریں کیوں کہ یہ یادداشت بڑھانے کے لیے اکسیر ہے۔ مچھلی کا تیل بھی آپ کو یہی فائدہ دے سکتا ہے۔