Tag: democracy

  • ہانگ کانگ نے 45 جمہورت پسندوں کو غدار قرار دے کر لمبی سزا پر جیل بھیج دیا

    ہانگ کانگ نے 45 جمہورت پسندوں کو غدار قرار دے کر لمبی سزا پر جیل بھیج دیا

    ہانگ کانگ: ہانگ کانگ کی عدالت نے 45 جمہورت پسندوں کو غدار قرار دے کر لمبی سزا پر جیل بھیج دیا۔

    روئٹرز کے مطابق ہانگ کانگ کی ہائی کورٹ نے منگل کو قومی سلامتی سے متعلق سب سے بڑے متنازع مقدمے میں پینتالیس جمہوریت نواز ایکٹوسٹس کو باغی قرار دے کر جیل بھیج دیا ہے۔

    اس مقدمے نے ہانگ کانگ میں جمہوریت کی تحریک کو شدید نقصان پہنچایا ہے، اور امریکا اور دیگر ممالک کی جانب سے اسے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

    2021 میں کل 47 حامئینِ جمہوریت کو گرفتار کیا گیا تھا اور ان پر بیجنگ کے نافذ کردہ قومی سلامتی کے قانون کے تحت بغاوت کی سازش کا الزام لگایا گیا تھا، اور ان میں سے چند کو عمر قید کی سزا کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ سابق قانونی اسکالر بینی تائی، جن کی شناخت کارکنوں کے ’منتظم‘ کے طور پر کی گئی ہے، کو 10 سال قید کی سزا سنائی گئی، جو کہ 2020 کے قومی سلامتی کے قانون کے تحت اب تک کی سب سے طویل سزا ہے۔

    چینی اور ہانگ کانگ حکومتوں کا کہنا ہے کہ 2019 میں بڑے پیمانے پر جمہوریت نواز مظاہروں کے بعد امن بحال کرنے کے لیے قومی سلامتی کے قوانین ضروری تھے، ان جمہوریت پسندوں کے ساتھ مقامی قوانین کے مطابق سلوک کیا گیا ہے۔

    ان جمہوریت پسندوں پر الزام لگایا گیا تھا کہ انھوں نے 2020 میں غیر سرکاری ’پرائمری الیکشن‘ منعقد کرنے کی سازش کی تاکہ آئندہ قانون ساز انتخابات کے لیے بہترین امیدواروں کا انتخاب کیا جا سکے، اور اس طرح انتشار انگیز سرگرمیوں میں ملوث کروا کر حکومت کو مفلوج کیا جائے۔

    118 دن کے مقدمے کے بعد 14 ڈیموکریٹس کو قصوروار پایا گیا، جن میں آسٹریلوی شہری گورڈن نگ اور ایکٹوسٹ اوون چاؤ بھی شامل تھے، جب کہ دو کو بری کر دیا گیا، جب کہ دیگر 31 نے اعتراف جرم کر لیا۔

    ہانگ کانگ کے ممتاز ایکٹوسٹ جوشوا وونگ کو 4 سال اور 8 ماہ قید کی سزا سنائی گئی، جب کہ چاؤ کو 7 سال اور 9 ماہ قید کی سزا سنائی گئی، سابق صحافی کم ایکٹوسٹ گائینتھ ہو کو 7 سال قید کی سزا سنائی گئی۔

    برطانیہ، جس نے ہانگ کانگ کو 1997 میں چین کے حوالے کیا تھا، نے کہا ہے کہ سیکیورٹی قانون کو اختلاف رائے اور آزادی کو روکنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔

  • ویڈیو رپورٹ: بھارت کا جمہوری ملک ہونے کا دعویٰ عالمی سطح پر مسترد ہو گیا

    ویڈیو رپورٹ: بھارت کا جمہوری ملک ہونے کا دعویٰ عالمی سطح پر مسترد ہو گیا

    ہندوستان کا شمار حالیہ برسوں میں بدترین آمریت پسند ملکوں میں ہونے لگا ہے، اور بھارت کا جمہوری ملک ہونے کا دعویٰ عالمی سطح پر مسترد کر دیا گیا ہے۔

    سویڈن میں قائم انسٹیٹیوٹ ممالک کی جمہوریت اور خود مختاری کے درمیان چار عبوری مراحل میں درجہ بندی کرتا ہے، جن میں لبرل جمہوریت، انتخابی جمہوریت، انتخابی خود مختاری اور بند خود مختاری شامل ہیں۔

    سویڈن میں قائم ورائٹیز آف ڈیموکریسی انسٹیٹیوٹ نے چشم کشا رپورٹ شائع کی ہے، جس میں بھارت کی درجہ بندی جمہوریت اور خود مختاری کے تمام مراحل میں نہیں ہو سکی۔ رپورٹ کے مطابق ہندوستان حالیہ برسوں میں دنیا کے بدترین آمریت پسندوں میں سے ایک ملک ثابت ہوا ہے، بھارت دنیا کی 18 فی صد آبادی ہونے کے باوجود آزادی اظہار اور آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے لحاظ سے سب سے نچلے درجے پر ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں مودی حکومت نے ناقدین کو خاموش کرانے کے لیے بغاوت، ہتک عزت اور انسداد دہشت گردی کے قوانین کا استعمال کیا ہے۔ بی جے پی حکومت نے 2019 میں غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے ایکٹ میں ترمیم کر کے سیکولرازم کے آئین کے عزم کو کمزور کیا، 2019 کی ترمیم نے مرکزی حکومت کو اجازت دی کہ وہ کسی بھی شخص کو دہشت گرد قرار دے سکے۔

    بھارت میں ہونے والے انتخابات پر مسلمانوں کے تحفظات، الجزیرہ کی ویڈیو رپورٹ

    رپورٹ کے مطابق بھارتی حکومت مذہبی آزادی کو بھی دباتی رہی اور سیاسی مخالفین اور حکومتی پالیسیوں پر احتجاج کرنے والے لوگوں کو ڈرانے کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں میں اختلاف رائے کو خاموش کرانے میں سر فہرست ہے۔ مودی حکومت میں سول سوسائٹی اور اپوزیشن کو دھمکیاں دی جاتی ہیں، انسٹیٹیوٹ کی لبرل ڈیموکریسی انڈیکس برائے 2023 میں سروے کیے گئے 179 ممالک میں سے ہندوستان کا نمبر 104 ہے۔

  • امریکی صدر کو بھی ’جمہوریت‘ خطرے میں نظر آنے لگی

    امریکی صدر کو بھی ’جمہوریت‘ خطرے میں نظر آنے لگی

    میری لینڈ: امریکی صدر جو بائیڈن کو بھی وسط مدتی انتخابات میں ’جمہوریت‘ خطرے میں نظر آنے لگی ہے۔

    امریکی میڈیا کے مطابق امریکا میں وسط مدتی الیکشن میں پولنگ شروع ہونے سے قبل صدر جو بائیڈن کو بھی جمہوریت خطرے میں نظر آنے لگی ہے، انھوں نے کہا کہ یہی وقت ہے کہ جمہوریت کو بچایا جائے۔

    اے ایف پی کے مطابق ریاست میری لینڈ میں اپنے حامیوں کی ایک ریلی سے خطاب میں صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ ’ہم جانتے ہیں کہ ہماری جمہوریت خطرے میں ہے اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ یہی وقت ہے جب آپ نے اس کو بچانا ہے۔‘

    جو بائیڈن نے پیر کو متنبہ کیا کہ ریپبلکن کی جیت ملک کے جمہوری اداروں کو کمزور کر سکتی ہے، دوسری طرف سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر اشارہ دیا ہے کہ وہ ایک ہفتے بعد دوبارہ صدر بننے کے لیے انتخاب لڑنے کا اعلان کر سکتے ہیں۔

    روئٹرز کے مطابق بائیڈن کا بیان 8 نومبر کے انتخابات سے قبل ریاستہائے متحدہ میں گہری سیاسی تقسیم کی عکاسی کرتا ہے، جس میں ریپبلکن کانگریس کے ایک یا دونوں ایوانوں کا کنٹرول جیت سکتے ہیں۔

    غیر جانب دار انتخابی پیشین گوئی کرنے والوں نے پیش گوئی کی ہے کہ 435 نشستوں والے ایوان نمائندگان میں ریپبلکنز تقریباً 25 نشستیں حاصل کر سکتے ہیں، جو کہ اکثریت حاصل کرنے کے لیے کافی سے زیادہ ہیں۔

    امریکی میڈیا کے مطابق حالیہ برسوں میں یہ سب سے زیادہ بے تابی سے دیکھے جانے والے وسط مدتی انتخابات ہیں۔ اس الیکشن میں لاکھوں امریکی قومی، ریاستی اور کاؤنٹی کے عہدیداروں کو منتخب کرنے کے لیے ووٹ کاسٹ کریں گے، 36 ریاستوں کے گورنرز کا بھی انتخاب ہوگا۔

    ریاست ایریزونا کے کچھ علاقوں میں ری پبلکنز اور ڈیمو کریٹس میں سخت مقابلہ ہے، حکام کی جانب سے یہاں پولنگ اور ووٹوں کی گنتی کے لیے سخت حفاظتی اقدامات کیے ہیں۔

    یہ وہی علاقہ ہے جہاں سے برتری حاصل کرنے کے بعد 2020 کے صدارتی انتخاب میں جو بائیڈن نے ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست سے دوچار کر دیا تھا، اس کاؤنٹی کی آبادی 44 لاکھ سے زائد ہے۔

  • واشنگٹن پوسٹ کا امریکی نظام حکومت سے متعلق انکشاف

    واشنگٹن پوسٹ کا امریکی نظام حکومت سے متعلق انکشاف

    واشنگٹن: امریکی اخبار دی واشنگٹن پوسٹ نے کہا ہے کہ امریکا میں اب معیاری جمہوریت نہیں رہی، امریکا اینوکریسی کے قریب پہنچ رہا ہے، یعنی ایک ایسا نظام جو نہ تو مکمل جمہوری ہے اور نہ ہی مکمل آمرانہ۔

    امریکی روزنامے میں رائے پر مبنی جمہوریت کے حوالے سے مضمون میں کہا گیا ہے کہ ملک میں 200 سالوں میں پہلی بار معیاری جمہوریت نہیں رہی، کیوں کہ امریکی شہریوں کے کچھ حقوق، جیسا کہ فرد کے قانونی حقوق اور آزادئ صحافت کو پامال کیا گیا ہے۔

    مضمون میں کہا گیا ہے کہ ہمیں اس بات کی فکر کیوں کرنی چاہیے کہ امریکا پھر سے ‘اینوکریسی’ بن سکتا ہے؟ اس وجہ سے کہ ملک میں خانہ جنگی کا خطرہ سر اٹھا رہا ہے۔

    مضمون کے مطابق اینوکریسی نہ تو مکمل طور پر جمہوری نظام ہے اور نہ ہی مکمل طور پر آمرانہ؛ اس میں شہری جمہوری حکمرانی کے کچھ عناصر (مثلاً انتخابات) سے لطف اندوز ہوتے ہیں، جب کہ دیگر حقوق (مثلاً قانونی حقوق یا آزادئ صحافت) کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کے آخری ہفتوں میں، سینٹر فار سسٹمک پیس (CSP) نے حساب لگایا کہ، دو صدیوں کے عرصے میں پہلی بار امریکا جمہوری نہیں رہا، بلکہ پچھلے پانچ سالوں میں یہ ایک اینوکریسی کا حامل بن چکا ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ جمہوری پسماندگی میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے، اور یہ بہت سے امریکیوں کے لیے صدمہ انگیز بھی ہو سکتا ہے، جس طرح ساحل کا کٹاؤ جاری رہتا ہے، امریکا میں جمہوری پسماندگی کا عمل بھی جاری رہا، اور امریکیوں کے لیے اس عمل کو پہنچاننا اس لیے مشکل ہے، کیوں کہ وہ خود کو سب سے الگ قوم سمجھتے ہیں، سب سے مختلف۔

    مضمون میں ایک انوکریٹک معاشرے میں سیاسی تشدد اور عدم استحکام، یہاں تک کہ خانہ جنگی کے خطرے سے بھی خبردار کیاگیا ہے۔

  • مریم اور بلاول کا پارٹیوں کی قیادت سنبھالنا کون سا جمہوری عمل ہے؟ فواد چوہدری

    مریم اور بلاول کا پارٹیوں کی قیادت سنبھالنا کون سا جمہوری عمل ہے؟ فواد چوہدری

    اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ مریم نواز اور بلاول کا سیدھا پارٹیوں کی قیادت سنبھالنا کیا جمہوری عمل ہے؟ جب تک سیاستدان جمہوریت نہیں لاتے جمہوریت کیسے آسکتی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے ٹویٹ میں کہا کہ پاکستان میں جدید جمہوریت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سیاسی جماعتوں کا اپنا غیر جمہوری اسٹرکچر ہے۔

    فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ یہ اسٹرکچر میرٹ کی بنیاد پر لیڈر شپ کے بجائے صوابدید پر بنیاد رکھتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ مریم نواز اور بلاول کا سیدھا پارٹیوں کی قیادت سنبھالنا کیا جمہوری عمل ہے؟ جب تک سیاستدان جمہوریت نہیں لاتے جمہوریت کیسے آسکتی ہے۔

    اس سے قبل ایک موقع پر وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ نواز شریف جب پاکستان میں تھے تو کہہ رہے تھے کہ مجھے باہر جانے دیں، ان سے متعلق میں نے تب ہی کہہ دیا تھا کہ یہ واپس نہیں آئیں گے۔

    انہوں نے کہا تھا کہ پنجاب حکومت کے ساتھ فراڈ ہوا ہے، شریف فیملی نے پہلی مرتبہ فراڈ نہیں کیا یہ ہمیشہ کرتے رہتے ہیں، مسلم لیگ ن اپوزیشن میں بڑا کردارادا نہیں کرسکتی کیونکہ ان میں واضح نہیں کہ قیادت کس کے پاس ہے۔

  • جمہوریت کا عالمی دن: وبا سے نمٹنے کے لیے جمہوریت کا وجود ضروری

    جمہوریت کا عالمی دن: وبا سے نمٹنے کے لیے جمہوریت کا وجود ضروری

    دنیا بھر میں آج جمہوریت کا عالمی دن منایا جارہا ہے، رواں برس اس دن کو کوویڈ 19 کے پھیلاؤ کی مناسبت سے منایا جارہا ہے۔

    جمہوری اداروں کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کے لیے پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج جمہوریت کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، اس موقع پر پاکستان سمیت تمام جمہوری ممالک میں عوامی حکمرانی کو فروغ دینے کے عزم کا اظہار کیا جارہا ہے۔

    یہ دن سنہ 2007 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں منظور کردہ متفقہ قرارداد کے تحت دنیا بھر میں 15 ستمبر کو منایا جاتا ہے۔

    رواں برس اس دن کو کرونا وائرس کے کی وبا کے پھیلاؤ سے منسلک کیا گیا ہے۔

    اقوام متحد ہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گتریس نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ آج جب دنیا کوویڈ 19 سے محاذ آرائی میں مصروف ہے، ایسے میں جمہوریت کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے تاکہ ہر شخص کی معلومات تک آزادانہ رسائی ہو، ضروری ہے کہ اس حوالے سے فیصلہ سازی میں عوامی شرکت ہو، اور وبا سے نمٹنے کے تمام اقدامات قابل احتساب ہوں۔

    جمہوریت کی تاریخ

    ویسے تو یونان کے شہر ایتھنز کو جمہوریت کی جائے پیدائش مانا جاتا ہے مگر مؤرخین کا ماننا ہے کہ رومن تہذیب حقیقی معنوں میں ایک جمہوری تہذیب تھی جہاں عوامی حکمرانی تھی۔

    یونان میں جمہوریت کی اصطلاح جس کا مطلب لوگوں کی حکومت ہے سکوں پر بھی کندہ کیے گئے تھے جس کا مقصد اس وقت کی حکومت کو عوامی حکومت ظاہر کرنا تھا، یہ دور 430 قبل مسیح کا دور تھا۔

    یونان میں جمہوریت کا تصور سادہ اور محدود تھا، سادہ ان معنوں میں کہ یونان میں جو ریاستیں تھیں وہ شہری ریاست کہلاتی تھی۔ یہ چھوٹے چھوٹے شہروں پر مشتمل چھوٹی چھوٹی ریاستیں ہوا کرتی تھیں۔

    جمہوریت کا ایک سراغ ہندوستان میں بھی ملتا ہے، گوتم بدھ کی پیدائش سے قبل ہندوستان میں بھی جمہوری ریاستیں موجود تھیں جنہیں جن پد کہا جاتا تھا۔

    جن مفکرین نے جمہوریت کی صورت گری کی اور جن کو آزاد خیال جمہوریت کا بانی سمجھا جاتا ہے وہ والٹیئر، مونٹیسکیو اور روسو ہیں۔ انہی کے افکار و نظریات کے ذریعہ جمہوریت وجود پذیر ہوئی۔

    آج جدید دور میں اس دن کو منانے کا مقصد شہریوں کو اپنی خواہشات کے آزادانہ اظہار اور آزادی سے جینے کے حق کو فروغ دینا ہے۔

  • منی لانڈرنگ میں ملوث افراد قوم کے مجرم ہیں، احتساب پر سمجھوتا نہیں ہو گا: وزیر اعظم

    منی لانڈرنگ میں ملوث افراد قوم کے مجرم ہیں، احتساب پر سمجھوتا نہیں ہو گا: وزیر اعظم

    اسلام آباد: وزیر اعطم عمران خان نے کہا ہے کہ احتساب کے عمل پر کوئی سمجھوتا نہیں ہو گا.

    ان خیالات کا اظہار انھوں نے پارلیمانی پارٹی سے خطاب کرتے ہوئے کیا، ان کا کہنا تھا کہ احتساب کے راہ میں کسی کو نہیں آنے دیں گے.

    وزیر اعظم نے کہا ہے کہ اپوزیشن کوگرفتاریوں پر جمہوریت یاد آجاتی ہے، حالاں کہ جمہوریت کوکوئی خطرہ نہیں، پاکستان کو جلد ترقی کی راہ پرگامزن کریں گے، حکومت کارکردگی کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے،  پی ٹی آئی حکومت عام آدمی کی زندگی میں انقلاب لائے گی.

    پارلیمانی پارٹی سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ سعودی ولی عہد کا دورہ پاکستان کامیاب رہا ہے، پاکستان معاشی بحران سےکامیابی سے نکل رہا ہے، ملک کا مستقبل روشن ہے.

    یاد رہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے گذشتہ دونوں پاکستان کا دو روزہ دورہ کیا تھا، جس میں بیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا پہلا مرحلہ طے ہوا.

    خیال رہے کہ آج آمدن سے زیادہ اثاثوں کے کیس میں قومی احتساب بیورو نے سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درانی کو گرفتار کر لیا، اس اقدام پر اپوزیشن کی جانب سے سخت ردعمل آیا.

    منی لانڈرنگ ملک کے لئےشدیدخطرہ بن چکی ہے:  وزیر اعظم


    بعد ازاں وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت اہم اجلاس ہوا، جس میں منی لانڈرنگ کی روک تھام کے لئےحکومتی اقدام کاجائزہ لیاگیا۔

     ڈی جی آئی ایس آئی نے اجلاس میں خصوصی طور پر شرکت کی، اس موقع پر اسد عمر،شہزاداکبر،افتخار درانی بھی موجود تھے۔ سیکریٹری داخلہ نے وزیر اعظم کو منی لانڈرنگ پر اقدامات پربریفنگ دی۔

    اس موقع پر وزیر اعظم نے کہا کہ منی لانڈرنگ میں ملو ث افرادقوم کےمجرم ہے، ایسےعناصرکسی رعایت کے مستحق نہیں، قوم کا پیسہ چوری کر کے ذاتی خزانے بھرنے سے ملک کا نقصان ہوا، منی لانڈرنگ کےباعث قوم کو قرضےکی دلدل میں دھکیلا گیا۔

    وزیراعظم نے کہا کہ منی لانڈرنگ کی روک تھام کے لئےحکومتی ادارے اپنے اقدامات تیز کریں، کیوں کہ منی لانڈرنگ ملک کیلئےشدیدخطرہ بن چکی ہے۔

  • مسلمان ممالک میں جمہوری نظام کو مضبوط بنانے پر توجہ دینی چاہیے: مہاتیرمحمد

    مسلمان ممالک میں جمہوری نظام کو مضبوط بنانے پر توجہ دینی چاہیے: مہاتیرمحمد

    مانچسٹر: ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد نے کہا ہے کہ مسلمان ممالک میں جمہوری نظام کو مضبوط بنانے پر توجہ دینی چاہیے، اس نظام میں حکمران جوابدہ ہوتا ہے۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی کے اسلامک سینٹر میں خطاب کرتے ہوئے کیا، مہاتیر محمد کا کہنا تھا کہ جمہوری نظام میں حکمران عوام کو جوابدہ ہوتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ مثبت تبدیلی کے لیے مائنڈ سیٹ کی تبدیلی ضروری ہے، ریاست کی ترقی حکمران کی قابلیت اور دیانتداری سے مشروط ہے۔

    ملائیشیائی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ جمہوری ثمرات عوام تک پہنچانے کے لیے قابلیت ودیانتداری ضروری ہے، عدم برداشت اور ٹانگ کھینچنے کا کلچر آمریت کی راہ ہموار کرتا ہے۔

    ملائیشیا کے انتخابات میں مہاتیرمحمد کی تاریخی فتح پرعمران خان کی مبارکباد

    خیال رہے کہ رواں سال مئی میں ملائیشیا کے عام انتخابات میں مہاتیرمحمد اور ان کی اتحادی جماعت نے واضح کامیابی حاصل کی تھی، جس کے بعد مہاتیر محمد ملک کے نئے وزیر اعظم بنے اور حکمراں جماعت کے اقتدار کا 60 سالہ دور ختم ہوا۔

    مہاتیرمحمد اور ان کے اتحادیوں نے انتخابات میں 155 نشتیں حاصل کی تھیں، جبکہ حکومت بنانے کے لیے222 اراکین کے ایوان میں 112 نشتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

    یاد رہے کہ 92 سالہ مہاتیرمحمد نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی ہوئی تھی تاہم 2016 میں انہوں نے یہ فیصلہ تبدیل کرتے ہوئے ملائیشین یونائیٹڈ انڈیجنس پارٹی قائم کی تھی۔

  • جمہوریت دنیا خصوصآ تیسری دنیا میں کمزور ہے، بلاول بھٹو

    جمہوریت دنیا خصوصآ تیسری دنیا میں کمزور ہے، بلاول بھٹو

    کراچی : چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے عالمی یوم جمہوریت پر کہا ہے کہ جمہوریت تاحال دنیا اور خصوصاً تیسری دنیا کے ممالک میں کمزور ہے۔

    تفصیلات کے مطابق رکن قومی اسمبلی و پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے عالمی یوم جمہوریت کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ جمیوریت ہی مضبوط و خوشحال وفاقی پاکستان کی ضمانت ہے۔

    چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ جمہوریت تاحال دنیا اور خصوصاً تیسری دنیا کے ممالک میں کمزور ہے، ماحاصل یہی ہے کہ آخری فتح عوام کی ہوگی۔

    بلاول بھٹو زرداری کا عالمی یوم جمہوریت پر کہنا تھا کہ پاکستانی عوام جمہوریت کے ساتھ کھڑی ہوئی، قربانیاں دیں، پاکستان میں جمہوریت اور عوام کے لیے مشکلات ختم نہیں ہوئیں۔

    پیپلز پارٹی کے چیئرمین کا کہنا تھا کہ دہشتگردی اور انتہا پسندی جمہوریت کے لیے خطرہ ہیں، پیپلز پارٹی وفاقی مسلم جمہوری ریاست کے لیے سرگرم رہے گی۔

    یاد رہے کہ گذشتہ روز پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ سندھ حکومت کو ہر صورت عوام کی توقعات پرپورا اترنا ہوگا۔

    ان کا کہنا تھا کہ تھراوردیگرعلاقوں میں حالات اور مسائل پرنظررکھی جائے اور وہاں‌ جاری منصوبوں‌ کا جائزہ لیا جائے.

    پیپلزپارٹی کے چیئرمین نے کہا کہ بہترحکمت عملی اورحکمرانی سےحالات بہتر بنائے جائیں، سندھ کوترقی یافتہ اورخوشحال صوبہ دیکھناچاہتا ہوں.

  • ملک کے شہری نسل پرستی کے خلاف جنگ میں فعال کردار ادا کریں: جرمن وزیر خارجہ

    ملک کے شہری نسل پرستی کے خلاف جنگ میں فعال کردار ادا کریں: جرمن وزیر خارجہ

    برلن: جرمنی کے وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے کہا ہے کہ جرمن شہری نسل پرستی کے خلاف جنگ میں موثر اور فعال کردار ادا کریں، ہمیں جمہوریت کا دفاع کرنا ہے۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے مقامی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا، جرمن وزیر خارجہ کا کہنا تھا جمہوریت کی دفاع کے لیے ہم سب کو کھڑا ہونا ہے، ملک میں نسل پرستی جیسے واقعات سے عالمی سطح پر جرمنی کی ساخت کو خطرات لاحق ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ آج جرمنی آزاد ہے، ملک میں قانون کا بول بالا ہے لہذا اس جموری نظام کو بچانے کے لیے تمام شہریوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

    اقلیتوں کا تحفظ یقینی نہ بنایا گیا تو جمہوریت خطرے میں پڑسکتی ہے: جرمن چانسلر

    ہائیکو ماس کا کہنا تھا کہ ہمیں مذہب اور نسل پرستی کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ہے۔خیال رہے کہ گذشتہ دنوں نسل پرستی کے خلاف جرمنی میں مظاہرے بھی ہوئے تھے۔

    قبل ازیں گذشتہ ہفتے جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ جمہوریت صرف اکثریت کا نام نہیں بلکہ اقلیتوں کا تحفظ یقینی بنانا بھی جمہویت کی ذمہ داری ہے، بصورت دیگر جمہریت خطرے میں پڑسکتی ہے۔

    انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ جمہوریت اقلیتوں کے تحفظ، آزادی اظہار کو یقینی بنانے اور عدلیہ کی آزادی کا نام ہے، اداروں کا تحفظ یقینی بنانے کی ضرورت ہے، اگر اس حوالے سے اقدامات نہیں کیے جاتے تو جمہوریت نامکمل رہ جائے گی، ہمیں جمہوری اقدار کو مزید مضبوط کرنے کی بھی ضرورت ہے۔