Tag: demonstrations

  • جارجیا میں حکومت مخالف مظاہرے پھوٹ پڑے، درجنوں گرفتار

    جارجیا میں حکومت مخالف مظاہرے پھوٹ پڑے، درجنوں گرفتار

    تبلیسی : جارجیا کے دارالحکومت تبلسی میں حکومت مخالف مظاہرے پھوٹ پڑے، حکمران جماعت کی پارلیمانی انتخابات میں فتح کے بعد سے ریاست ہنگامہ آرائی کا شکار ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق حکومت کی مخالفت میں ہونے والے مظاہروں کے ردعمل میں جارجیا کے وزیر اعظم اراکلی کوباخیدزے نے کہا ہے کہ ان کی حکومت کسی صورت انقلاب کی اجازت نہیں دے گی۔

    حکمران جماعت جارجین ڈریم پارٹی نے گزشتہ روز اعلان کیا تھا کہ وہ آئندہ چار سال کے لیے یورپی یونین کے ساتھ الحاق کے مذاکرات کو معطل کر رہی ہے جسے یورپی یونین کی جانب سے "بلیک میل” قرار دیا گیا۔

    Georgian police

    اپوزیشن کی جانب سے اس بیان پر شدید ردعمل سامنے آیا جارجیا میں اپوزیشن جماعتوں کی کال پر مظاہرین دارالحکومت کا رخ کیا اور احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا۔

    اس حوالے سے جارجیا کی وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ دارالحکومت تبلیسی میں رات کے وقت ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے دوران 107 افراد کو گرفتار کیا گیا۔

    مظاہرین نے مرکزی شاہراہ پر رکاوٹیں کھڑی کرکے زبردست مظاہرہ کیا اس دوران مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں، مظاہرین کے ساتھ جھڑپوں میں10اہلکار زخمی ہوگئے۔

    Protests

    جواب میں پولیس نے مشتعل مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے واٹر کینن اور آنسو گیس کا استعمال کیا۔ جارجیا کی حکومت کا کہنا ہے کہ بلاک میں شامل ہونے سے مقصد سے دستبردار ہونا نہیں، رپورٹ کے مطابق جارجیا کی حکومت نے یورپی یونین پر بلیک میلنگ کا الزام لگایا ہے۔

    واضح رہے کہ ” ڈیموکریٹک جارجیا‘‘یا جی ڈی پارٹی کو عرف عام میں کوٹسیبی بھی کہا جاتا ہے، یہ جارجیا کی ایک روس نواز سیاسی جماعت ہے۔

  • برطانیہ میں پرتشدد مظاہرے کب اور کیسے شروع ہوئے؟ تازہ ترین صورتحال

    برطانیہ میں پرتشدد مظاہرے کب اور کیسے شروع ہوئے؟ تازہ ترین صورتحال

    برطانیہ کے شمال مغربی علاقے ساؤتھ پورٹ کے ایک ڈانس اسکول میں تین کمسن بچیوں کی ہلاکت کے بعد ملک کے متعدد شہروں میں پرتشدد مظاہروں کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام ’سوال یہ ہے‘ میں میزبان ماریہ میمن نے ان مظاہروں کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے پس پردہ حقائق بیان کیے۔

    انہوں نے بتایا کہ اس حملے کے بعد 29 جولائی کو باقاعدہ سوشل میڈیا پر متنازع خبریں پھیلائی گئیں کہ حملہ کرنے والا مسلمان شخص تھا جو سیاسی پناہ کا متلاشی تھا، اور سال 2023 میں کشتی کے ذریعے غیر قانونی طریقے سے برطانیہ پہنچا تھا۔

    اس جھوٹی خبر کے وائرل ہونے کے بعد برطانیہ میں امیگریشن اور مسلم مخالف پرتشدد مظاہروں کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا جس میں متعدد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

    احتجاج شروع ہونے کے اگلے ہی دن ایک ہزار سے زائد لوگوں نے متاثرین کے ساتھ یکجہتی کی تقریب میں شرکت کی جس کے فوری بعد ایک مقامی مدجد کے باہر پرتشدد کارروائیاں کی گئیں، مشتعل افراد نے مسجد اور پولیس اہلکاروں پر اینٹیں، بوتلیں اور دیگر چیزیں پھینکیں۔

    اس کے بعد یہ سلسلہ برطانیہ کے مختلف شہروں تک جا پہنچا اور ہجوم نے مساجد اور پناہ گزینوں کی رہائش گاہوں پر حملے کیے، لائنبری سمیت عمارتوں کو آگ لگا دی اور کئی دکانیں لوٹ لیں۔ہل، لیور پول، برسٹل، مانچسٹر، بلیک پول اور بیلفاسٹ میں بھی پر تشدد مظاہرے شروع ہوگئے۔

    برطانوی پولیس کے مطابق ان پر تشدد کارروائیوں میں انتہائی دائیں بازو کے گروپ انگلش ڈیفنس لیگ کے حامی ملوث تھے۔ منگل 6 اگست تک 400سے زائد افراد گرفتار کیے جاچکے ہیں، ان میں 11سال کے بچے بھی شامل ہیں۔

    اس صورتحال کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے برطانوی وزیر اعظم نے کہا کہ مظاہروں میں غنڈہ گردی کرنے والے عناصر پچھتائیں گے۔

    برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے پرتشدد مظاہرین کو خبردار کیا کہ انہیں ‘قانون کی پوری طاقت’ کا سامنا کرنا پڑے گا۔

    ان حالات میں وہاں موجود مسلمان برادری بہت خوفزدہ ہے ان کا کہنا ہے کہ ایسے حالات ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھے۔

    برطانیہ میں اے آر وائی نیوز کے نمائندے نے تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ روز مظاہروں کی اپیل کرنے والوں کیخلاف امن پسند شہری بھی باہر نکلے اور یہ پیغام دیا کہ اس معاشرے میں نسل پرستوں کیلیے کوئی جگہ نہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ سوشل میڈیا پر بہت سی معروف شخصیات نے اس آگ کو بھڑکانے کیلئے اپنا کردار ادا کیا، تاہم جب حکومت کی جانب سے سخت اقدامات کیے گئے تو چند دن میں ہی عدالتوں سے بھی سزاؤں کے فیصلے آنا شروع ہوگئے۔

    اے آر وائی نوز کے نمائندے نے بتایا کہ یہ سب کچھ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا گیا، تاہم اب حالات کافی حد تک قابو میں ہیں اور خوف کی فضا بتدریج کم ہورہی ہے۔

  • نائیجر میں فوجی بغاوت کے بعد پُرتشدد مظاہرے جاری

    نائیجر میں فوجی بغاوت کے بعد پُرتشدد مظاہرے جاری

    نائیجر : افریقی ملک میں فوجی بغاوت کے بعد پُرتشدد مظاہروں کا شروع ہوگیا، دارالحکومت میں بغاوت کے حامی فوجیوں اور صدر محمد بازوم کے حامیوں میں جھڑپیں ہورہی ہیں۔

    غیرملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق باغی فوج کے حامیوں نے گرفتار صدر محمد بازوم کے پارٹی دفتر میں گھس کر گاڑیوں اور عمارت کو آگ لگا دی۔ مظاہرین نے روسی جھنڈے لہرائے اور فرانس مخالف نعرے بھی لگائے۔

    مظاہرہ

    اس افراتفری میں شرپسند بھی میدان میں آگئے اور لوٹ مارکا سلسلہ شروع کردیا۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشرکرنے کیلئے آنسو گیس کی شیلنگ کی۔ مغربی افریقی ریاستوں کی اقتصادی یونین نے صدر بازوم کو فوری طور پر رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

    نائیجر

    ان کا کہنا تھا کہ ملک میں آئین کو تحلیل کردیا گیا ہے، تمام ادارے معطل ہیں اور ملک کی سرحدیں بند کرتے ہوئے کرفیو نافذ کردیا گیا ہے۔

    دوسری جانب گرفتار صدر بازوم نے مستعفی ہونے سے انکار کر دیا ہے اور نائیجیرین عوام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مزاحمت کریں اور ملک میں قربانیوں کے نتیجے میں قائم کی جانے والی جمہوریت کی حفاظت کریں۔ یہ بات نائیجیرین وزیر خارجہ حسومی مسعود اور دیگر اعلیٰ حکام نے میڈیا سے کہی۔

    صدر بازوم

    افریقی یونین، یورپی یونین، امریکا اور دیگر ممالک نے فوجی بغاوت کی شدید مذمت کی ہے اور فوج سے اپنی بیرکوں میں واپس جانے کا مطالبہ کیا ہے۔

    یاد رہے کہ گذشتہ روز نائیجر فوج نے نیشنل ٹی وی چینل پر حکومت کا تختہ اُلٹنے کا اعلان کیا تھا۔ کرنل میجر عمادو عبدراما نے دیگر 9 فوجیوں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم نے اس حکومت کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور ملک کے تمام ادارے معطل کر دیے گئے ہیں۔

  • فرانس میں اقتصادی معاشی پالیسوں کے خلاف پیلی جیکٹ کے مظاہرے

    فرانس میں اقتصادی معاشی پالیسوں کے خلاف پیلی جیکٹ کے مظاہرے

    پیرس :فرانس میں اقتصادی معاشی پالیسوں کے خلاف پیلی جیکٹ کے مظاہرے بدستور جاری ہیں, رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مہنگائی اور حکومت کی معاشی پالیسیو کے خلاف یلو جیکٹ مظاہرے نومبر 2018 سے جاری ہیں۔

    میڈیارپورٹس کے مطابق فرانسیسی صدر ایمانوئل میکروں کی اقتصادی معاشی پالیسوں کے خلاف پیلی جیکٹ کی مہم بدستور جاری ہے، گزشتہ نومبر سے شروع ہونے والی یہ مہم عروج پر پہنچنے کے بعد سخت قانون کے باعث اتنی تیز نظر نہیں آتی تاہم سلکتی آگ کی طرح جاری ہے جس کے نتیجہ میں فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون کی مقبولیت کو دھچکا لگ گیا ہے۔

    یاد رہے کہ فرانس میں یلو جیکٹ مظاہرے نومبر 2018 کے وسط میں مہنگائی اور حکومت کی معیشتی پالیسیوں کے خلاف شروع ہوئے جو بعد میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف منظم تحریک میں تبدیل ہوگئے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف فرانس میں شروع ہونے والی پیلی جیکٹ تحریک دوسرے یورپی ملکوں میں بھی پہنچ گئی ہے اور ہر سنیچر کو فرانس کے ساتھ ہی متعدد دیگر یورپی ملکوں میں بھی لوگ پیلی جیکٹیں پہن کے مظاہرے کرتے ہیں۔

  • جرمنی نے وینزویلا میں حکومت مخالف مظاہروں کی حمایت کردی

    جرمنی نے وینزویلا میں حکومت مخالف مظاہروں کی حمایت کردی

    کراکس : جرمنی نے دستوری حکومت کے سرگرم اپوزیشن رہنما جون گوئیڈو کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے دوبارہ الیکشن کو ملک میں استحکام کا ضامن قرار دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق جنوبی امریکی ملک وینزویلا میں صدر نکولس ماڈورو کیخلاف احتجاج جاری ہے جبکہ حزب اختلاف کے حامیوں کی بڑی تعداد سڑکوں پر نکل آئی ہیں اور نکولس میڈورو سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کردیا ہے۔

    جرمن حکومت کے ترجمان کا کہنا تھا کہ احتجاجی تحریک چلانے والے وینزویلن شہری اپنے ملک بہتر مستقبل کیلئے جدوجہد کررہے ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ نکولس ماڈورو گزشتہ برس ہونے والے انتخابات میں ایک بار پھر ملک کے صدر منتخب ہوئے تھے اور رواں ماہ ہی اپنے عہدے کا حلف اٹھایا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ وینزیلن صدر کی مخالف میں بغاوتی تحریک چلانے والے اپوزیشن رہنما جون گوئیڈو کی جرمنی کے علاوہ امریکا اور کینیڈا نے بھی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے وینزویلا میں سیاسی تبدیلی کا مطالبہ کیا ہے۔

    وینزویلن صدر نکولس ماڈورو نے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کے الزام میں امریکا سے سفارتی تعلقات ختم کرتے ہوئے وینزویلا میں تعینات امریکی سفارتکاروں کو 72 گھنٹے میں ملک چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔

    مزید پڑھیں : وینزویلا کے صدرنکولس میڈورو کا امریکا سے سفارتی تعلقات ختم کرنےکا اعلان

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادی ممالک جون گوئیڈو کی حمایت کررہے ہیں جبکہ روس، کیوبا اور ترکی سمیت کئی ممالک نے وینزویلا کے منتخب صدر نکولس ماڈورو کی دستوری حکومت کی حمایت کی ہے۔

    خیال رہے کہ اپوزیشن لیڈر جون گوئیڈو نے خود کو عوام کے سامنے قیام مقام صدر کا تھا جلد ہی فوج کی نگرانی میں صاف اور شفاف الیکشن کرانے کا اعلان کیا ہے، جس کے چند منٹ بعد ہی ڈونلڈ ٹرمپ نے اپوزیشن لیڈر جان گائیڈو کی حکومت کو تسلیم کرلیا۔

    وینزویلا کی حزبِ اختلاف نے اس انتخاب کو تسلیم کرنے سے انکارکیا تھا کیوں کہ انتخاب سے قبل حزبِ اختلاف کے بیشتر رہنماؤں اور امیدواروں کو یا تو قید کردیا گیا تھا۔

  • نیکاراگوا: مذکرات کی ناکامی کے بعد پُرتشدد واقعات میں مزید 8 شہری ہلاک

    نیکاراگوا: مذکرات کی ناکامی کے بعد پُرتشدد واقعات میں مزید 8 شہری ہلاک

    ماناگوا : نیکارا گوا کی حکومت اور مظاہرین کے درمیان مذکرات میں ناکامی کے بعد پُرتشدد واقعات میں مزید 8 افراد ہلاک ہوگئے, جس کے بعد ہلاکتوں کی تعداد 85 ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق جمہوریہ نکارا گوا میں گذشتہ ماہ سے موجودہ حکومت کی جانب سے کی جانے والی سماجی سیکیورٹی سسٹم میں تبدیلیوں کے بعد عوامی مظاہروں کی شدت میں اضافہ ہوگیا ہے۔ ہفتے اور جمعے کی درمیانی شب مظاہرین اور حکومت کے درمیان مذکرات ناکام ہونے کے بعد احتجاج کرنے والے مزید 8 افراد ہلاک ہوگئے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ جمعے اور ہفتے کے روز نیکاراگوا کے ہزاروں شہری صدر اورٹیگا، ان کی زوجہ اور نائب صدر رہساریو کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ حالیہ مظاہروں میں مزید 8 شہریوں کی ہلاکت کے بعد پر حکومت مخالف مظاہروں میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 85 ہوگئی جبکہ 800 سے زائد شہری زخمی ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں اداروں کا کہنا تھا کہ مظاہرین نے ملک میں ہونے والی کرپشن، انتخابی سسٹم اور کانگریس پر صدر کے قابض ہونے کے خلاف اپنے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے ہائی وے بند کردیا اور حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی بھی کی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ مشتعل مظاہرین کی جانب سے صدر اورٹیگا اور موریلو کے جابرانہ انداز حکومت کے خلاف بھی برہم ہیں اور سڑکوں دونوںں رہنماؤ کے خلاف نعرے لگا رہے ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ نیکارا گوا کے کیھتولک چرچ اور سوسل سوسائٹی کی جانب سے مظاہرین اور حکومت کے درمیان تنازعے کو ختم کرنے کی کوشش کی ناکام ہوگئی جس کے بعد مزید 8 افراد لقمہ اجل بن گئے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ آرگنائزیشن آف امریکن اسٹیٹ کے جنرل سیکریٹری لوئس الماگرو کی جانب سے نیکارا گوا کی حالیہ صورت حال پر جاری بیان میں کہنا تھا کہ نیکارا گوا کی خراب صورتحال کا حل صرف یہ ہے کہ دوبارہ الیکشن کروائے جائے ورنہ صورتحال مزید ابتر ہوتی جائے گی۔


    نکاراگوا مظاہرے : پولیس نے درجنوں طلبہ و اساتذہ کورہا کردیا


    جمہوریہ نکارا گوا میں حالیہ دنوں موجودہ حکومت کی جانب سے سماجی سیکیورٹی سسٹم میں تبدیلیوں کے بعد عوامی مظاہرے شدت اختیار کرگئے تھے، پولیس نے مظاہرہ کرنے والے درجنوں طلباء و اساتذہ کو رہا کردیا ہے۔

    پولیس کی قید سے آزاد ہونے والے کچھ طلبہ نے دعویٰ کیا ہے کہ دوران حراست سیکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے طلبہ و اساتذہ کو بیہمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

    یاد رہے کہ جمہوریہ نکارا گوا میں موجودہ حکومت کی جانب سے ملازمین کی تنخواہوں سے پینشن کی مد میں اضافی رقم کی کٹوتی اور مراعات میں کمی کے خلاف عوام نے گذشتہ ہفتے حکومتی پالیسی کے خلاف پرامن مظاہروں کا آغاز ہوا تھا۔

    خیال رہے کہ حکومت کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے دوران صحافی سمیت 25 افراد حکومت کے حامیوں اور پولیس کی گولیوں سے ہلاک ہوئے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔