Tag: dengue

  • ڈینگی وائرس کے علاج کی مفت سہولیات دستیاب ہیں، عامر کیانی

    ڈینگی وائرس کے علاج کی مفت سہولیات دستیاب ہیں، عامر کیانی

    اسلام آباد: وفاقی وزیر صحت عامر کیانی نے کہا ہے کہ اسپتالوں میں ڈینگی وائرس کےعلاج کی مفت سہولت دستیاب ہیں، شہری علامات ظاہر  ہونے کی صورت میں ڈاکٹرز سے فوری رجوع کریں۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے ڈینگی مرض کی روک تھام اور تدارک کے لیے منعقدہ آگاہی مہم سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ عامر کیانی کا کہنا تھا کہ وزارت صحت ڈینگی کی روک تھام کے پیشگی اقدامات کررہی ہے لہذا متعلقہ ادارے ڈینگی کےتدارک کیلئےفوری حکمتِ عملی مرتب کریں۔

    اُن کا کہنا تھاکہ ادارےڈینگی لاروا کےخاتمے،تشخیص، اسپتالوں میں بیڈز اور مریضوں کو ادویات کی فراہمی یقینی بنائیں، عوام اور سرکاری نمائندے بھی محکمہ صحت سےتعاون کریں۔

    مزید پڑھیں: اسلام آباد میں‌ ڈینگی وائرس پھیلنے کا خدشہ، اسپتالوں‌ کو پیشگی اقدامات کرنے کی ہدایت

    عامر کیانی نے شہریوں سے اپیل کی کہ وہ گھر کے اندر اور باہر  پانی کھڑا نہ ہونےدیں، برتن اچھی طرح سےڈھانپ کر رکھیں، ٹائرشاپس، کباڑخانوں سےمتعلق دی جانے والی ہدایات پر عمل کریں اور ڈینگی کی علامات ظاہرہونے پر ڈاکٹر سے فوری رجوع کریں۔

    اُن کا کہنا تھا کہ محکمہ صحت کی کی ٹیمیں ڈینگی کی روک تھام کیلئےگھر گھر جاکر آگاہی دے رہی ہیں، اسپتالوں میں علاج کی مفت سہولیات فراہم کردی گئیں۔

    یاد رہے کہ ایک روز قبل وزارتِ صحت کی جانب سے مراسلہ جاری کیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ راولپنڈی، اسلام آباد کے ریڈ زون میں ڈینگی وائرس کے شواہد موجود ہیں، متعلقہ ادارے تدارک کے لیے حکمتِ عملی مرتب کریں۔ مراسلے میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد میں ہر سال متعدد افراد ڈینگی مرض کا شکار ہوجاتے ہیں لہذا اسپتالوں میں بیڈز اور ادویات کی میں موجودگی کو ہر صورت یقینی بنایا جائے اور مرض کی تشخیص کے لیے بھی اقدامات کیے جائیں۔

    وزارتِ صحت کے مراسلے میں ہدایت کی گئی تھی کہ ڈبلیو ایچ او کی ہدایت کی روشنی میں ڈینگی سے نمٹنے کے انتظامات کیے جائیں اور بالخصوص حساس علاقوں میں لاروا کے خاتمے کے لیے بھی اقدامات کیے جائیں۔

  • 4 سال میں 51 ہزار سے زائد افراد ڈینگی کا شکار

    4 سال میں 51 ہزار سے زائد افراد ڈینگی کا شکار

    اسلام آباد: قومی اسمبلی میں پیش کی جانے والی رپورٹ کے مطابق 4 سال کے دوران ملک بھر میں 51 ہزار سے زائد افراد ڈینگی جبکہ 6 سو سے زائد افراد کانگو بخار سے متاثر ہوئے۔

    تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کے اجلاس میں 4 برسوں کے دوران ڈینگی اور کانگو سے متاثرہ افراد کی تفصیل پیش کردی گئی۔

    رپورٹ کے مطابق سال 2015 سے اب تک 51 ہزار 764 افراد ڈینگی سے متاثر ہوئے، سب سے زیادہ 28 ہزار 298 افراد صوبہ خیبر پختونخواہ میں متاثر ہوئے۔

    اس عرصے میں صوبہ سندھ میں 10 ہزار 447 اور صوبہ پنجاب میں 6 ہزار 58 افراد ڈینگی کا نشانہ بنے۔

    وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 3 ہزار 930 افراد جبکہ بلوچستان میں 1965 افراد ڈینگی سے متاثر ہوئے۔

    مزید پڑھیں: سردیوں میں ڈینگی وائرس سے بچیں

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس دوران ملک بھر میں 107 افراد ڈینگی بخار سے ہلاک ہوئے۔

    دوسری جانب کانگو وائرس نے 4 برسوں میں 613 افراد کو نشانہ بنایا۔ کانگو وائرس سے سب سے زیادہ 424 افراد صوبہ بلوچستان میں متاثر ہوئے۔

    صوبہ سندھ میں 63، پنجاب میں 51 اور خیبر پختونخواہ میں 51 افراد کانگو وائرس کا نشانہ بنے۔

  • ڈینگی وبا کی پیشگی اطلاع دینے والا سسٹم

    ڈینگی وبا کی پیشگی اطلاع دینے والا سسٹم

    پاکستان میں گزشتہ ایک دہائی سے ڈینگی کا موذی مرض ہر سال اپنی تباہ کاریوں سے ہمارے ہم وطنوں کو نشانہ بناتا رہا ہے، کریبیئن انسٹی ٹیوٹ فار میٹرولوجی اینڈ ہائیدرولوجی کے شماریاتی ماڈل کے ذریعے دو سے تین ماہ قبل پیشن گوئی کی جاسکتی ہے کہ کس علاقے میں ڈینگی کی وبا پھوٹے گی، اور پیشگی حفاظتی انتظامات کیے جاسکتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق حال ہی میں کریبیئن انسٹی ٹیوٹ فار میٹرولوجی اینڈ ہائیدرولوجی نے ڈینگی اور دیگر وبائی امراض کی قبل از وقت پیش گوئی کرنے کے لیے ایک شماریاتی ماڈل بنایا ہے جس کی بنیاد پچھلے چند برسوں میں کسی مخصوص علاقے کے درجہ حرارت میں اضافے اور وہاں بارشوں کی سالانہ اوسط پر رکھی گئی ہے۔

    اس ماڈل پر کام کرنے والے محققین نے برازیل اور اطراف کے ممالک کے لیے 1999ء سے 2016ء تک درجہ حرارت اور بارشوں کی اوسط کا ایک شماریاتی ڈیٹا تیار کرکے یہ پیش گوئی کی ہے کہ اگلے 3 ماہ میں کن کن علاقوں میں ڈینگی کی وبا پھوٹ پڑنے کا امکان ہے اور حیرت انگیز طور پر یہ پیش گوئی بالکل درست ثابت ہوئی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ماڈل ان علاقوں کے لیے زیادہ کار آمد ثابت ہوسکتا ہے جہاں مختصر یا طویل المدت خشک سالی کے بعد بارشوں کا آغاز ہوا ہو، جو عموماً کئی ماہ لگاتار جاری رہتی ہیں اور سیلاب کا سبب بنتی ہیں، کیوں کہ سیلاب کا پانی اترتے ہی یہ وبائی امراض بہت تیزی سے پھوٹ پڑتے ہیں۔

    محققین کے مطابق یہ شماریاتی ماڈل کسی بھی ملک کی پبلک ہیلتھ پالیسی بنانے میں بھی مدد گار ثابت ہوسکتا ہے اور اس کے ذریعے نہ صرف ڈینگی بلکہ دیگر وبائی امراض کے پھیلنے کے رسک کو کم کیا جاسکتا ہے۔

    یہ ماڈل پاکستان میں ایک ہیلتھ پالیسی اور ڈیزاسٹر اسٹریٹجی بنانے میں بہت معاونت کرسکتا ہے جہاں لاہور و کراچی جیسے بڑے شہروں میں بھی نکاسی آب کا درست انتظام نہیں اور معمول سے تھوڑی زیادہ بارشیں ہوتے ہی پورے شہر دریا کا منظر پیش کرنے لگتے ہیں جبکہ گنجان آبادی والے علاقوں میں کئی کئی روز بارش کا پانی کھڑا رہنے کے باعث مچھروں کی افزائش کا سبب بنتا ہے۔

    اگر 1995ء یا اس کے بعد کسی بھی سال سے شماریاتی ڈیٹا تیار کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ابتداء میں ڈینگی کے زیادہ تر کیسز صوبہ بلوچستان میں سامنے آئے تھے جہاں وقتاً فوقتاً طویل یا مختصر المدت خشک سالی کے اوقات اب معمول بن چکے ہیں جبکہ 2018ء میں یہ کیسز سندھ سے رپورٹ ہوئے ہیں جہاں بارشوں کی قلت کے باعث خشک سالی جڑیں پکڑتی جارہی ہے۔

    شماریاتی ڈیٹا کی بنیاد پر یہ پیش گوئی کرنا آسان ہوگا کہ اگلے چند ماہ یا 2019ء میں کون سے صوبے یا مخصوص علاقوں کو ان وبائی امراض کے حملے کا سامنا رہے گا۔ اس ماڈل کی بنیاد پر ہر صوبے میں ایک ارلی وارننگ سسٹم بھی بنایا جاسکتا ہے جو ہر طرح کے جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہو اور مقامی میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہو تاکہ پانی کے ذخائر اور درجہ حرارت کے حوالے سے مسلسل معلومات ملتی رہیں اور ان معلومات کی بنیاد پر 2 سے 3 ماہ پہلے وارننگ جاری کی جائے اور مقامی افراد کو اس کا پابند کیا جائے کہ وہ اپنے اطراف میں صفائی وستھرائی کا بھرپور انتظام کرتے ہوئے باقاعدگی سے جراثیم کش سپرے کریں، پانی کے ذخائر کو آلودہ اور بدبودار ہونے سے بچایا جائے تاکہ ڈینگی مچھر کی افزائش نسل کو روکا جا سکے۔

    یاد رہے کہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 2016ء میں 16 ہزار 580 افراد ڈینگی کا شکار ہوئے، جن میں سے 257 کی صرف لاہور میں موت واقع ہوئی تھی۔ 2017ء میں یہ اعداد و شمار اچانک ہولناک شکل اختیار کرگئے اور پورے ملک سے 78 ہزار 820 کیسز رپورٹ ہوئے جن میں سے صرف 17 ہزار 828 افراد کی لیبارٹری سے تصدیق ہوسکی، مگر قابلِ غور بات یہ ہے کہ گزشتہ برس زیادہ تر کیسز پنجاب کے بجائے خیبر پختونخوا سے سامنے آئے جن کی تعداد 68 ہزار 142 تھی۔

    صحت سے متعلق پالیسی بنانا یقیناً حکومت کا کام ہے مگر جب تک مقامی آبادی ان پالیسیوں میں عمل درآمد میں حکومت کی معاونت نہیں کرے گی تب تک یونہی ہر برس ڈینگی، چکن گونیا اور زیکا وائرس سمیت دیگر وبائی امراض نئے مقامات پر حملے کرکے اسی طرح تباہی پھیلاتے رہیں گے۔

  • خیبر پختونخواہ میں ڈینگی کا کاری وار، 15 افراد ہلاک

    خیبر پختونخواہ میں ڈینگی کا کاری وار، 15 افراد ہلاک

    پشاور: صوبہ خیبر پختونخواہ میں ڈینگی وائرس نے خطرناک طریقے سے اپنے پنجے گاڑ لیے اور اب تک 15 افراد اس مرض کے ہاتھوں جان کی بازی ہار چکے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق خیبر پختونخواہ میں گزشتہ 2 ماہ سے ڈینگی کا وائرس سینکڑوں افراد کو اپنا نشانہ بنا چکا ہے اور اب تک 15 افراد اس کا شکار ہو کر جاں بحق ہوچکے ہیں۔

    صوبے بھر کے مختلف اسپتالوں میں ڈینگی سے متاثرہ 400 سے زائد افراد زیر علاج ہیں۔

    مزید پڑھیں: ڈینگی کی علامات سے باخبر رہیں

    ڈینگی رسپانس یونٹ کے مطابق 1500 سے زائد افراد کے ڈینگی وائرس کے ٹیسٹ کیے گئے جن میں 300 کے قریب میں ڈینگی کی تصدیق ہوئی۔

    خیبر پختونخواہ کے شہر ایبٹ آباد میں ایوب ٹیچنگ اسپتال میں زیر علاج 2 افراد اس وائرس کے باعث ہلاک ہوئے جبکہ صوبائی دارالحکومت پشاور کا علاقہ تہکال سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔

    ڈینگی کے دیگر مریض ایبٹ آباد، صوابی اور مردان سے آرہے ہیں۔

    ڈینگی کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے پشاور میں گھر گھر اسپرے کی مہم شروع کردی گئی ہے۔

    مزید پڑھیں: مچھروں سے بچنے کے طریقے

    اس سے قبل پنجاب کی صوبائی حکومت نے ڈینگی سے نمٹنے کے لیے محکمہ صحت کی ٹیمیں بھی خیبر پختونخواہ روانہ کی تھیں جنہوں نے مختلف مقامات پر میڈیکل کیمپس لگا رکھے ہیں۔


    ڈینگی کے علاج کے لیے آنے والا ڈاکٹر بھی ڈینگی کا شکار

    دوسری جانب میانوالی سے پشاور آنے والے ایک ڈاکٹر، ڈاکٹر عابد خود بھی اس وائرس کا شکار ہوگئے۔ ڈاکٹر عابد کو پشاور کے علاقے تہکال میں تعینات کیا گیا تھا جہاں وہ خود بھی ڈینگی وائرس کا شکار ہوگئے جس کے بعد انہیں واپس میانوالی بھجوا دیا گیا۔

    تاہم ان کے ساتھ کام کرنے والے دیگر ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر عابد ڈینگی نہیں ملیریا کا شکار ہوئے ہیں۔

    ڈینگی کے خطرناک پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ضلعی و صوبائی انتظامیہ کی بھرپور کوششیں جاری ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • چکن گنیا کی تشخیص کیلئے ٹیسٹ کا آغاز، ڈینگی اورملیریا کے ٹیسٹ لازمی قرار

    چکن گنیا کی تشخیص کیلئے ٹیسٹ کا آغاز، ڈینگی اورملیریا کے ٹیسٹ لازمی قرار

    کراچی :  چکن گنیا کی تشخیص کیلئے ٹیسٹ کا آغاز ہوگیا ہے، چکن گنیا سے پہلے ڈینگی اورملیریا کے ٹیسٹ لازمی قرار دیئے گئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی میں چکن گنیا سے قبل ڈینگی اور ملیریا کی تشخیص ضروری قرار دے دی گئی، ڈینگی کنٹرول پروگرام کی جانب سے ابراہیم حیدری سمیت ملیر کھوکھراپار میں ڈینگی اور ملیریا کے ٹیسٹ شروع کردیئے گئے ۔

    ڈائیریکٹر ڈینگی اینڈ پریوینشن کنٹرول پروگرام مسعود سولنگی کے مطابق ابراہیم حیدری میں ملیریا کے 4 جبکہ ڈینگی کا ایک کیس سامنے آیا ،ابراہیم حیدری میں ہزاروں ریکارڈ ہونے والے کیسز مبینہ طور پر چکن گنیا کے ہیں ،ایک ہی مچھر سے ڈینگی اور چکن گنیا پھیلتا ہے ، تینوں بیماریوں کی علامات ایک جیسی ہونے کی بنا پر ڈینگی اور ملیریا کے ٹیسٹ شروع کئے گئے ہیں۔

    مسعود سولنگی کا کہنا ہے کہ چکن گنیا سے قبل مریض کا ڈینگی اور ملیریا کا ٹیسٹ ضروری ہے ، جہاں جہاں سے چکن گنیا کے کیس ریکارڈ ہونگے، وہاں پر پہلے ڈینگی اور ملیریا کے ٹیسٹ کئے جائینگے ، چکن گنیا کی تشخیص کے لئے بیس ہزار کٹس کا آرڈر بھی دے دیا گیا ، چکن گنیا کی بروقت تشخیص کی کٹس فنلینڈ سے منگائی گئی ہیں ، چکن گنیا کی ٹیسٹ کٹس کے ساتھ صوبے بھر میں چکن گنیا کا ٹیسٹ ممکن ہوجائے گا۔


    مزید پڑھیں  کراچی چکن گونیا کی لپیٹ میں


    یاد رہے کہ بڑے پیمانے پر بیماری پھیلنے کے باوجود کراچی میں چکن گونیا کی تشخیص کا کوئی انتظام نہیں، متاثرہ افراد کے خون کے نمونے این آئی ایچ اسلام آباد بھیجے جاتے ہیں جہاں سے مریضوں میں چکن گونیا پازیٹو کی تصدیق کی جاتی ہے۔

    دوسری جانب عالمی ادارہ صحت کی ٹیم نے چکن گونیا، ملیریا اور ڈینگی سے متعلق دورے میں شہر میں گندگی کے ڈھیروں کوبیماری کی بڑی وجہ قرار دیا تھا۔

    اضح رہے کہ کراچی میں اب تک ڈھائی سو سے زائد چکن گونیا کے مریضوں کی تصدیق ہوچکی ہے۔

  • ڈینگی کی علامات سے باخبر رہیں

    ڈینگی کی علامات سے باخبر رہیں

    مچھروں کے باعث پیدا ہونے والے مرض ڈینگی کا اگر ابتدائی مراحل میں علاج نہ کیا جائے تو وہ مریض کے لیے جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔

    ایک خاص قسم کے مچھر کے کاٹنے سے پیدا ہونے والی یہ بیماری خون کے سفید خلیات پر حملہ کرتی ہے اور انہیں آہستہ آہستہ ناکارہ کرنے لگتی ہے۔

    پاکستان ڈینگی کے شکار سرفہرست 10 ممالک میں سے ایک ہے اور خشک موسم میں ان مچھروں کی افزائش بڑھ جاتی ہے۔

    مزید پڑھیں: مچھروں سے بچنے کے طریقے

    ڈینگی کو بعض اوقات کسی دوسرے مرض کی غلط فہمی میں زیادہ توجہ نہیں دی جاتی اور علاج میں تاخیر کردی جاتی ہے جس کے بعد یہ جان لیوا بن سکتا ہے۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈینگی بخار کی 4 اقسام ہیں اور ان چاروں میں ایک ہی طرح کی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ ان کے مطابق ان علامات کے فوری طور پر ظاہر ہوتے ہی ڈاکٹر سے رجوع کرنا مرض کی شدت کو کم کرسکتا ہے۔

    مزید پڑھیں: ڈینگی وائرس سے بچیں

    وہ علامات کیا ہیں، آپ بھی جانیں۔

    سر درد

    ڈینگی بخار کی سب سے پہلی علامت شدید قسم کا سر درد ہے جو مریض کو بے حال کردیتا ہے۔

    تیز بخار

    ڈینگی کا وائرس جسم میں داخل ہوتے ہی مریض کو نہایت تیز بخار ہوجاتا ہے۔ 104، 105 یا اس سے بھی زیادہ تیز بخار کی وجہ سے جسم کے درجہ حرارت میں نہایت تیزی کے ساتھ غیر معمولی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔

    جوڑوں میں درد

    اس مرض میں مریض کو پٹھوں اور جوڑوں میں نہایت شدید درد کا سامنا ہوتا ہے۔ یہ درد خاص طور پر کمر اور ٹانگوں میں ہوتا ہے۔

    خراشیں

    ڈینگی بخار کے ابتدائی مرحلے میں جلد پر خراشیں بھی پڑ جاتی ہیں اور جلد کھردری ہو کر اترنے لگتی ہے۔

    متلی اور قے

    ڈینگی کے باعث ہونے والا تیز بخار متلیوں اور الٹیوں کا سبب بھی بنتا ہے۔

    غنودگی

    ڈینگی بخار کے دوران مریض کا غنودگی میں رہنا عام بات ہے۔

    خون بہنا

    جب ڈینگی بخار اپنی شدت کو پہنچ جاتا ہے تو مریض کے ناک اور مسوڑھوں سے خون بہنا شروع ہوجاتا ہے۔

    خون کے خلیات میں کمی

    ڈینگی وائرس خون کے خلیات پر حملہ کرتا ہے جس سے ایک تو نیا خون بننا بند یا کم ہوجاتا ہے، علاوہ ازیں بخار کے دوران اگر کوئی چوٹ لگ جائے اور خون بہنا شروع ہوجائے تو خون کو روکنا مشکل ہوجاتا ہے جو نہایت خطرناک بات ہے۔

    ڈینگی کے مریض میں خون کے خلیات کی کمی کو پورا کرنے کے لیے اسے مستقل خون کی منتقلی ضروری ہے۔

    ڈائریا

    سخت بخار کے باعث مریض کو ڈائریا بھی ہوسکتا ہے جس کے باعث جسم سے نمکیات خارج ہوسکتے ہیں۔ یوں پہلے ہی ڈینگی سے بے حال مریض مزید ادھ موا ہوجاتا ہے۔

    فشار خون اور دل

    ڈینگی کا وائرس خون کے بہاؤ اور دل کی دھڑکن کو بھی متاثر کرتا ہے۔ ڈینگی کی وجہ سے بلڈ پریشر اور دھڑکن کی رفتار میں کمی آسکتی ہے۔


    اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئر کریں۔

  • ڈینگی بخار پھرسراٹھانے لگا

    ڈینگی بخار پھرسراٹھانے لگا

    لاہور: موسمِ سرما کی آمد کے ساتھ ہی پاکستان بالخصوص لاہور میں ڈینگی بخار ایک بار پھر سراٹھانے لگا‘ 24 گھنٹوں میں 11 نئے کیسز رپورٹ ہوگئے۔

    تفصیلات کے مطابق موسمِ سرما کی آمد کے ساتھ ہی پنجاب ایک بار پھر ڈینگی کی زد میں ہے ‘ رواں سال پنجاب میں مجموعی طور پر رپورٹ کیے جانے والے کیسز کی تعداد2300 سے تجاوز کرگئی ہے۔

    صوبائی محکمہ صحت پنجاب کی جانب سے جاری کردہ اعدادو شمار کے مطابق لاہور میں ڈینگی کے 950 کیسز جبکہ راولپنڈی میں اس وبا کے 1100 کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں جبکہ گزشتہ 24 گھنٹوں میں مجموعی طور پر11 نئے کیسز سامنے آگئے ہیں۔

    سردیوں میں ڈینگی وائرس سے بچیں

     دوسری جانب اب تک ڈینگی کے موذی مرض سے اٹک اور اسلام آباد میں ایک ایک مریض بھی جاں بحق ہو چکا ہے۔

    دوسری جانب سندھ میں بھی رواں ماہ کے وسط تک 2000 سے زائد کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں جن میں سے زیادہ تر کراچی میں ہوئے ہیں۔

    پاکستان ڈینگی کے شکار سرفہرست 10 ممالک میں سے ایک ہے اور خشک موسم میں ان مچھروں کی افزائش بڑھ جاتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق رواں برس دنیا بھر میں تقریباً 4 کروڑ افراد ڈینگی وائرس کا شکار ہوئے۔

  • ملتان میں ڈینگی کے مریضوں کی تعداد 367 ہوگئی، دوجاں بحق

    ملتان میں ڈینگی کے مریضوں کی تعداد 367 ہوگئی، دوجاں بحق

    ملتان:اولیاء کے شہر ملتان میں مزید 4 مریضوں میں ڈینگی کی تصدیق ہوگئی ہے جس کے بعد متاثرہ مریضوں کی تعداد 367 تک پہنچ گئی۔

    تفصیلات کے مطابق ملتان شہراوراس سے ملحقہ علاقوں میں ڈینگی وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے اورمتاثرہ مریضوں کی تعداد بڑھتی ہی جارہی ہے۔

    ذرائع کے مطابق ملتان کے سب سے بڑے سرکاری اسپتال نشتر میں 44 کے قریب مریض زیرعلاج ہیں۔

    محکمہ صحت اور ضلعی حکومت کی جانب سے شہر کے مختلف علاقوں، اسکولوں اور سرکاری دفاتر میں خصوصی طور پر انسداد ڈینگی اسپرے کیے جارہے ہیں جبکہ شہریوں میں شعورو آگاہی کیلئے نشتر ہسپتال میں ڈینگی کاؤنٹرز بھی لگائے گئے ہیں۔

    ذرائع کے مطابق ڈینگی سے متاثرہ مریضوں میں 2 ہلاکتیں بھی ہوچکی ہیں جن میں 1 خاتون اور1 لڑکا بھی شامل ہیں تاہم حکومت اس کی سرکاری سطح پرتصدیق کرنے سے گریزاں ہے۔

  • ڈینگی وائرس تیزی پھیلنے لگا، 2300 افراد میں وائرس کی تصدیق

    ڈینگی وائرس تیزی پھیلنے لگا، 2300 افراد میں وائرس کی تصدیق

    کراچی / راولپنڈی / ملتان : ملک بھر میں ڈینگی وائرس بے قابو ہوگیا۔ راولپنڈی میں چوبیس گھنٹےکے دوران ستر سے زائد مریضوں میں ڈینگی بخار کی تصدیق ہوگئی، جبکہ ملتان میں بھی پچیس مریض سامنے آگئے،۔

    محکمہ صحت پنجاب کی کارگردگی کا پول ڈینگی مچھر کے وار نے کھول کر رکھ دیا۔ روالپنڈی میں ڈینگی بخار کے مریضوں سے اسپتال بھر گئے ہیں۔

    چوبیس گھنٹے میں ستر سے زائد افراد میں ڈینگی وائرس کی تصدیق ہوچکی ہے جبکہ کل تعداد تئیس سو کے قریب جا پہنچی ہے۔

    ملتان میں بھی حالات مختلف نہیں ڈینگی مریضوں کی تعداد دوسو سے تجاوز کرگئی ہے جبکہ یہاں بھی چوبیس گھنٹے میں پچیس کیسز سامنےآ ئے۔

    لاہور میں اکیس سے زائد افراد کو ڈٰینگی مچھر نے اپنا شکار بنا لیا ہے، محکمہ صحت کے مطابق رواں سال اب تک ڈینگی سے چار ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ ان میں سے تین کا تعلق راولپنڈی اور ایک کا ملتان سے ہے۔

  • ڈینگی اسپرےسے متاثرہ 17طالبات راولپنڈی اسپتال منتقل

    ڈینگی اسپرےسے متاثرہ 17طالبات راولپنڈی اسپتال منتقل

    اٹک : ڈینگی مار اسپرے کی متاثرہ طالبات کی حالت نہ سنبھل سکی۔ سترہ طالبات راولپنڈی منتقل کردی گئیں۔ تفصیلات کے مطابق اٹک میں انتظامیہ کی غفلت سے طالبات کی جان پر بن گئی ۔

    مچھر مار اسپرے سے بچیوں کی حالت غیردیکھ والدین کےدل دہل گئے سترہ طالبات کی حالت بگڑنے پر اٹک سے راولپنڈی اسپتال منتقل کیا گیا۔ اٹک کےسرکاری اسکول میں آدھی چھٹی کےوقت کسی احتیاطی تدبیر کے بغیر زہریلا مچھرماراسپرے کردیاگیاتھا۔

    انتظامیہ کی جانب سے ڈینگی سے بچاؤ کی مہم تو چلائی جارہی ہے لیکن احتیاطی تدابیر کا ایک پمفلٹ تک نہیں چھاپا گیا۔ عملےکی یہ بھی علم نہ تھا کہ یہ اسپرے بچیوں کےلئےکتنا نقصان دہ ہوسکتا ہے۔

    اسکول کی خواتین اساتذہ اورہیڈمسٹریس نے بھی اسپرے کرنے والوں کو روکنے کی کوشش نہ کی۔ اسپرے کرنا شروع ہی کیا تھا کہ طالبات بےہوش ہونا شروع ہوگئیں، واقعے کا مقدمہ انتظامیہ کےخلاف درج کرلیا گیا۔ جبکہ تحقیقات کیلئے کمشنر راولپنڈی کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے ۔