Tag: depression

  • کدو کے بیج : ڈپریشن میں کمی اور پرسکون نیند کیلئے انتہائی مفید

    کدو کے بیج : ڈپریشن میں کمی اور پرسکون نیند کیلئے انتہائی مفید

    کدو کے بیج اینٹی آکسیڈنٹ خصوصیات کی وجہ سے دل کی صحت کے لیے مفید ہیں، یہ ڈپریشن کو کم کرنے اور نیند کے معیار کو بہتر بنانے میں بہترین معاون ہیں۔

    ماہرین صحت کے مطابق کدو کے بیج چپٹے بیضوی شکل کے ہوتے ہیں۔ یہ طاقتور غذائی اجزاء اور صحت کے فوائد سے بھرپور ہیں۔ یہ میگنیشیم، زنک، آئرن، پروٹین اور صحت مند چربی کا ایک بھرپور ذریعہ ہیں جو انہیں واقعی ان کے چھوٹے سائز میں ایک سپر فوڈ بنا دیتا ہے۔

    بھارتی میڈیا رپورٹ میں امریکی نیشنل لائبریری آف میڈیسن کے پبلیکیشنز کے حوالے سے شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کدو کے بیج ٹریپٹوفن سے بھرپور ہوتے ہیں جو ایک امینو ایسڈ ہے جسے جسم سیرٹونن اور میلاٹونن میں تبدیل کرتا ہے۔

    یہ دو ہارمون ہیں جو مزاج اور نیند کو منظم کرتے ہیں۔ کدو جیسی ٹریپٹوفن سے بھرپور غذاؤں کا استعمال ڈپریشن کو کم کرنے اور نیند کے معیار کو بہتر بنانے میں مدد کر سکتا ہے۔

    اینٹی آکسیڈینٹ اور اینٹی سوزش

    یہ مطالعہ کدو کے بیجوں کے دیگر فوائد پر بھی روشنی ڈالتا ہے جیسے سپرم کی تشکیل کو بہتر بنانا اور زخم بھرنا ہے۔

    ان کی اینٹی مائیکروبیل، اینٹی سوزش، اینٹی آکسیڈینٹ، اور اینٹی السر خصوصیات اس کے علاوہ ہے۔ یہ پروسٹیٹ کی سومی ہائپرپلاسیا کے علاج میں بھی مدد کرتے ہیں۔

    مدافعتی نظام کو بڑھاتا ہے۔

    زنک اور اینٹی آکسیڈینٹ سے بھرپور، کدو کے بیج مدد کرتے ہیں۔ اپنے دفاعی نظام کو فروغ دیں۔ اور انفیکشن سے لڑتے ہیں۔ کدو کے بیج کیا مدد کرتے ہیں؟ وہ آپ کے جسم کے دفاع کو مضبوط بنانے اور مجموعی صحت کو برقرار رکھنے میں مدد کرتے ہیں۔

    نیند کے معیار کو بڑھاتا ہے۔

    کدو کے بیجوں میں ٹرپٹوفن، ایک امینو ایسڈ ہوتا ہے جو سیروٹونن اور میلاٹونن پیدا کرنے میں مدد کرتا ہے، جو نیند کو بہتر بناتا ہے۔ یہ خاص طور پر ان لوگوں کے لیے مفید ہے جو نیند میں خلل کا سامنا کرتے ہیں۔

    سوزش کا علاج

    کدو کے بیجوں میں سوزش کی خصوصیات ہوتی ہیں جو سوزش کو کم کرنے اور دائمی بیماریوں کے خطرے کو کم کرنے میں مدد کرتی ہیں۔ کدو کے بیجوں کی یہ طاقتور خصوصیات انہیں سوزش والی خوراک کا قیمتی حصہ بناتی ہیں۔

  • نمک سے صرف بلڈ پریشر ہی نہیں بڑھتا بلکہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔! خوفناک انکشاف

    نمک سے صرف بلڈ پریشر ہی نہیں بڑھتا بلکہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔! خوفناک انکشاف

    نمک کے زیادہ استعمال سے بلڈ پریشر تو بڑھتا ہی ہے لیکن ساتھ ہی ایک اور بیماری کی علامات بھی ظاہر ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔

    نمک ہمارے پکوانوں کی بنیادی ضروت ہے اس کے بغیر سالن کا ذائقہ بے معنی اور نامکمل ہوتا ہے لیکن کھانوں میں اس کا استعمال متوازن طریقے سے نہ کیا جائے تو یہ صحت کیلیے نقصان کا باعث بھی بن جاتا ہے۔

    جی ہاں !! یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی ہے کہ غذا میں نمک کی زیادہ مقدار صرف ہائی بلڈپشر مین ہی مبتلا نہیں کرتی بلکہ ڈپریشن سے متاثر ہونے کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔

    جرنل آف امیونولوجی میں شائع تحقیق میں چوہوں پر نمک سے بھرپور غذاؤں کے استعمال اور ڈپریشن جیسی علامات کے درمیان تعلق کا جائزہ لیا گیا۔

    خیال رہے کہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا کی 5 فیصد بالغ آبادی کو ڈپریشن کا سامنا ہے اور بظاہر اس عام دماغی عارضے سے متاثر ہونے کی واضح وجوہات بھی معلوم نہیں۔

    اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جب چوہوں کو زیادہ نمک والی غذاؤں کا استعمال کرایا گیا تو ان میں ڈپریشن جیسی علامات سامنے آئیں اور ایسا آئی ایل 17 اے نامی cytokine کی سطح بڑھنے سے ہوا۔

    تحقیق کے دوران ان چوہوں کو 5 سے 8 ہفتوں تک زیادہ نمک والی یا عام غذاؤں کا استعمال کرایا گیا اور چوہوں کے رویوں کا مشاہدہ کیا گیا۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ زیادہ نمک والی غذاؤں کا استعمال کرنے والے چوہوں میں ڈپریشن جیسی علامات نمودار ہوگئیں۔

    انہوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ ان چوہوں میں آئی ایل 17 اے کی سطح بھی بڑھ گئی اور اس cytokine کو ڈپریشن کی علامات سے منسلک کیا جاتا ہے۔

    تحقیق میں انکشاف ہوا کہ مخصوص خلیات آئی ایل 17 اے کو زیادہ بنا رہے تھے اور ایسا نمک کے زیادہ استعمال سے ہوا۔

    محققین کے مطابق نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ زیادہ نمک کا استعمال چوہوں کو ڈپریشن کا شکار بنا دیتا ہے اور ایسا انسانوں میں بھی ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نتائج کی تصدیق کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

    محققین کی جانب سے مستقبل میں اس حوالے سے لوگوں پر تحقیق کی جائے گی اور دیکھا جائے گا کہ زیادہ نمک کے استعمال سے کیا واقعی ہمارے جسم کے اندر ایسا ہوتا ہے یا نہیں۔

    مگر ان کا کہنا تھا کہ نتائج سے واضح ہوتا ہے کہ نمک کا کم از کم استعمال کرنا بہتر ہی ہوتا ہے، نمک کے کم استعمال سے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔

  • ماہرین نے ملازمت کی جگہوں پر ذہنی صحت کو نقصان پہنچنے سے خبردار کر دیا

    ماہرین نے ملازمت کی جگہوں پر ذہنی صحت کو نقصان پہنچنے سے خبردار کر دیا

    دنیا بھر میں آج ذہنی صحت کا دن منایا جا رہا ہے، اس سال کا موضوع ’مینٹل ہیلتھ ایٹ ورک‘ رکھا گیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ورلڈ فیڈریشن فار مینٹل ہیلتھ نامی تنظیم نے رواں برس کے عالمی یوم ذہنی صحت کے لیے ایک خاص تھیم منتخب کیا ہے جو یوں ہے: ’’یہی وقت ہے کہ کام کی جگہ پر دماغی صحت کو ترجیح دی جائے۔‘‘

    کام یا ملازمت کی جگہوں پر ذہنی صحت پر مرتب ہونے والے اثرات کو ماہرین نے بہت اہم قرار دیا ہے، اور ماہرین کہتے ہیں کہ درگزر کرنا سیکھیں اور زندگی کو آسان بنائیں۔

    ماہرین صحت کے مطابق ذہنی دباؤ یعنی ڈپریشن کا بروقت علاج نہ ہونے سے انسان کے دیگر اعضا بھی متاثر ہوتے ہیں، اس لیے ذہنی تناؤ سے بچنا ہے تو صحت مند خوراک اور ورزش کریں۔

    پاکستان میں بھی ذہنی صحت کے مسائل پیچیدہ تر ہوتے جا رہے ہیں، محکمہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق ہر 4 میں سے 1 شخص ڈپریشن کا شکار ہے، جس میں بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے۔

    رواں برس کی تھیم کے حوالے سے فیڈریشن فار مینٹل ہیلتھ کا کہنا ہے کہ ملازمت پیشہ افراد دن کا زیادہ تر وقت کام میں صرف کرتے ہیں، یہ کام نہ صرف روزی روٹی کا ذریعہ ہوتا ہے بلکہ زندگی کو معنی بھی فراہم کرتا ہے اور خوشی بھی، لیکن بدقسمتی سے بہت سارے لوگوں کے لیے یہ کام نہ خوشی لاتا ہے نہ زندگی کو بہتر کر پاتا ہے، یہی کام ان کی ذہنی صحت اور فلاح و بہبود کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے، جس کی وجہ سے وہ ان کی ذہنی صحت خراب ہو جاتی ہے اور وہ تکلیف میں مبتلا ہوتے ہیں۔

    ڈپریشن اور بے چینی جیسے ذہنی صحت کے مسائل پوری دنیا میں کام کی جگہوں پر پھیلے ہوئے ہیں، جس سے نہ صرف یہ کہ کام کی جگہ پر حاضری متاثر ہوتی ہے بلکہ پیداواری اور مجموعی کارکردگی پر اثر مرتب ہوتا ہے، اگر اس کا علاج نہ کیا جائے تو نہ صرف انسان کی پوری جسمانی صحت متاثر ہوتی ہے بلکہ اس کی اور اس کے خاندان کی معاشی زندگی بھی شدید متاثر ہو جاتی ہے، اور یوں ڈبلیو ایچ او کے اعداد و شمار کے مطابق اس سے ممالک کو سالانہ طور پر 1 کھرب امریکی ڈالر کی حیران کن اقتصادی لاگت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

    ورلڈ فیڈریشن فار مینٹل ہیلتھ کے صدر سویوشی آکیاما کا کہنا ہے کہ اس تناظر میں کام کی جگہ پر ذہنی صحت کو فروغ دینے اور اس سلسلے میں بہترین طرز عمل اختیار کرنے اور اچھا ماحول فراہم کرنے کی اشد ضرورت ہے، تاکہ کارکنان اچھی ذہنی حالت کے ساتھ پیداوار میں اپنی صلاحیت صرف کر سکیں۔

  • ڈپریشن میں کمی کیلئے یہ پھل لازمی کھائیں

    ڈپریشن میں کمی کیلئے یہ پھل لازمی کھائیں

    اگر آپ کا روزمرہ کے کاموں میں دل نہیں لگتا، آپ بہت اداس، مایوس یا بیزار رہتے ہیں یا گھبراھٹ، بے چینی اور بے بسی کا شکار رہتے ہیں تو شاید آپ بھی ڈپریشن کا شکار ہیں۔ ڈپریشن کسی کو بھی کسی بھی عمر میں ہوسکتا ہے۔

    ڈپریشن وہ ذہنی مرض ہے جو موجودہ عہد میں بہت تیزی سے پھیل رہا ہے اور یہ لوگوں کی زندگی منفی انداز سے بدل دیتا ہے۔ یہ وہ پیچیدہ ذہنی مرض ہے جس کے شکار افراد اکثر اداس رہتے ہیں جبکہ ہر وقت بے بسی کا احساس بھی ہو سکتا ہے۔

    ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ مخصوص پھلوں کے استعمال سے ڈپریشن سے متاثر ہونے کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔

    اگرچہ پھلوں کو کھانے کے کئی فوائد ہیں تاہم ایک تحقیق کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ روزانہ تین سے چار پھل کھانے سے ڈپریشن کی سطح میں کمی ہوتی ہے۔

    طبی جریدے میں شائع تحقیق کے مطابق سنگاپور میں 20 سال تک رضاکاروں پر کی جانے والی تحقیق سے معلوم ہوا کہ خصوصی طور پر ادھیڑ عمری یعنی 30 سال کی عمر کے بعد پھل کھانے سے ڈپریشن سے بچا جا سکتا ہے۔

    تحقیق کے دوران ماہرین نے 1993 سے 1994 تک تقریبا 14 ہزار افراد میں ڈپریشن کی سطح سمیت ان کی جانب سے یومیہ پھلوں کے استعمال کو جانچا گیا۔

    علاوہ ازیں ماہرین نے تمام افراد کے مختلف ٹیسٹس بھی کیے، ان رضاکاروں میں سے زیادہ تر کی عمریں 50 سال کے قریب تھیں۔

    ماہرین نے بعد ازاں 2014 میں تمام رضاکاروں سے فالو اپ لیا اور ان میں ڈپریشن کی سطح دیکھی، ان کے متعدد دوبارہ ٹیسٹس بھی کیے گئے اور ان کی ذہنی صحت کا موازنہ 20 سال قبل والی صحت سے کیا گیا۔

    ماہرین نے پایا کہ جب افراد نے یومیہ تین پھل کھائے تھے، ان میں ڈپریشن کی سطح انتہائی کم تھی جب کہ یومیہ ایک پھل کھانے والے افراد میں ڈپریشن کی سطح نمایاں تھیں۔

    ماہرین نے نوٹ کیا کہ یومیہ تین سے چار پھل کھانے سے ڈپریشن نہ ہونے کے امکانات 34 فیصد تک کم ہوجاتے ہیں جب کہ زیادہ پھل کھانے سے امکانات مزید کم ہوسکتے ہیں۔

    ماہرین نے نوٹ کیا کہ خصوصی طور پر کیلے، تربوز، مالٹے، کینو، پپیتا اور اسی طرح کے دیگر رنگین پھل کھانے سے ڈپریشن سے نمایاں حد تک تحفظ ہو سکتا ہے۔

    یاد رکھیں !! بے جا سوچنے اور ضرورت سے زیادہ پریشان کن خیالات آپ کو ڈپریشن کا شکار بنا سکتے ہیں۔ یہ کیفیات بے چینی اور تشویش میں بھی اضافے کا باعث بنتی ہیں۔

  • ڈپریشن نفسیاتی بیماری کا نام ہے، وجوہات اور علاج

    ڈپریشن نفسیاتی بیماری کا نام ہے، وجوہات اور علاج

    ڈپریشن ایک جذباتی اور نفسیاتی بیماری ہے جو انسان کی دماغی حالت کو منفی طریقے سے متاثر کرتی ہے۔ اس بیماری کی علامات میں اداسی، خود سے محبت کی کمی، ذہنی تھکن اور منفی خیالات وغیرہ شامل ہیں۔

    ڈپریشن کی علامات اور شدت مختلف افراد کے لئے مختلف ہوتی ہیں، لیکن عموماً اس میں منفی جذبات اور نیکی کی کمی کا احساس شامل ہوتا ہے۔

    ڈپریشن کی وجوہات مختلف ہوتی ہیں اور ان میں جسمانی، نفسیاتی اور ماحولی عوامل شامل ہوتے ہیں۔

    ڈپریشن کی عام علامات :

    ڈپریشن میں مبتلا شخص کو روزمرہ زندگی میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اگر آپ یا کوئی دوسرا اس بیماری کا شکار ہیں تو بہتر ہوتا ہے کہ ایک ماہر نفسیات کی مدد حاصل کریں تاکہ مناسب علاج اور معاونت مل سکے۔ ڈپریشن کا علاج دوائیں، معاشرتی تربیت، اور ذہانی صحت کی مدد کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔

    ڈیپریشن موڈ جو اکثر افسردگی کے طور پر جانا جاتا ہے، ایک طرح کی منفی اور خستہ حالی کی حالت ہوتی ہے جو انسان کے ذہانتی، جذباتی، اور جسمانی صحت پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اس حالت میں انسان کے زندگی کی کمیابی، رنگ وروپ، اور موٹیویشن میں کمی آ سکتی ہے۔

    ڈپریشن کے ممکنہ علامات اور اثرات شامل ہوتے ہیں:

    1. منفی خیالات : انسان ڈیپریشن موڈ میں منفی اور خود کو نفرت کرنے والے خیالات رکھتا ہے۔ وہ اپنی کامیابیوں
    کو نظرانداز کرتے ہیں اور خود کو بے قدری کا شکار سمجھتے ہیں۔

    2. احساس کمتری : ڈیپریشن میں افراد کو احساس کمتری ہوتا ہے۔ وہ اپنے روزمرہ کاموں کو پورا نہیں کر سکتے اور ان کو اپنی طاقت اور توانائی میں بھی کمی محسوس ہوتی ہے۔

    3. خواب کی تبدیلی : ڈیپریشن میں خواب کی مسائل ہوتی ہیں، جیسے کہ اختلال شنوائی خواب (ایک اور زیادہ خواب) یا انسونولیا (نیند نہ آنا)۔

    4. رنگ و روپ کی تبدیلی : افراد ڈپریشن میں علاقائی اور جماعتی میل جول سے دور رہتے ہیں اور دوستوں یا خاندان کے ساتھ وقت گزارنے کی مثبت حسرت کرتے ہیں۔

    5. جسمانی مسائل : ڈیپریشن کے ساتھ جسمانی مسائل بھی آسکتے ہیں، جیسے کہ کمزوری، چکنائی، دماغی

    خرابیاں، یا دل کے امراض۔
    6. موٹیویشن کی کمی : افراد ڈیپریشن میں عام طور پر کاموں کی طرف رغبت کم کرتے ہیں اور چیلنجز سے بچت ہیں۔

    7. جنسیت کی خرابیاں : ڈیپریشن میں جنسی سرگرمی کی کمی یا اس میں کمی آسکتی ہے۔

    یہ ضروری نہیں ہے کہ ڈپریشن کے افراد تمام مذکورہ بالا علامات کو اظہار کریں اور ہر انسان کی صورتحال مختلف ہوتی ہے۔ اگر کسی کو ڈیپریشن کے علامات نظر آرہے ہیں تو وہ فوری اپنے طبیب یا منتظم صحت سے رابطہ کریں تاکہ درست تشخیص اور علاج حاصل کر سکیں۔

    وہ اہم کام جو ڈپریشن کے دوران کرنا ضروری ہیں:

    1 تشخیص اور علاج : اگر کسی کو ڈپریشن کی علامات نظر آ رہی ہیں، تو پہلے تو اس کا طبی تشخیص کرنا اہم ہوتا ہے، طبی تشخیص کے بعد علاج کیلیے مشورہ لینا بھی ممکن ہوتا ہے۔

    2.شورہ یا چکرآنا : ایک لائسنسڈ مینٹل ہیلتھ پراکٹیشنر یا ماہر نفسیات سے مشورہ لینا بہترین عمل ہوتا ہے۔ وہ مریض کو علاج کے اختیارات اور احتیاط کے بارے میں رہنمائی دیتے ہیں۔

    3. روزمرہ کی سرگرمیاں : منظم سونا، صحیح خوراک، اور مناسب وقت کی روزانہ کی مشغولیوں کا خصوصی خیال رکھنا اہم ہوتا ہے۔

    4. ریکریشن اور ورزش : ریکریشنل اور تن دہی ورزش منفی جذبات کو کم کرنے میں مدد فراہم کر سکتی ہیں۔

    5. سماجی تعلقات : اہل خانہ اور دوستوں کی حمایت اور ان کی مدد بھی اہم ہوتی ہے۔ اکثر افراد ڈپریشن کے دوران اکیلا محسوس کرتے ہیں، اور ان کو سماجی تعلقات کی ضرورت ہوتی ہے۔

    6.علیحدگی وقت : کبھی کبھی انسان کو اپنے آپ سے وقت گزارنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ اپنے خیالات اور جذبات کو سامنا کر سکیں اور خود پر دھیان دیں۔

    7. روحانیت سے علاج : کچھ لوگ دعا، یوگا اور دھیان سے بھی راحت حاصل کرتے ہیں۔

    یاد رہے کہ ڈپریشن ایک طبی بیماری ہوتی ہے اور اس کا علاج طبی اور ماہر نفسیات کی مدد سے کیا جاتا ہے۔ اگر آپ یا کوئی اور ڈپریشن کی شکار ہیں تو تشخیص اور علاج کے لئے فوراً اپنے طبیب یا منتظم صحت کی مشورہ لیں۔

  • گرمیوں میں تخم بالنگا، تکلیف ہو یا پریشانی صرف ایک چمچ سے ختم

    گرمیوں میں تخم بالنگا، تکلیف ہو یا پریشانی صرف ایک چمچ سے ختم

    تخم بالنگا ایسی چیز ہے جو ڈپریشن کے ساتھ ساتھ صحت کے لیے دیگر بے شمار فوائد کا حامل ہے، اومیگا 3 سے بھرپور تخم بالنگا ڈپریشن کے مریضوں کو ڈپریشن سے باہر نکالتا ہے

    تخم بالنگا جس کا نام بگاڑ دیا گیا ھے اور غلط العام میں کچھ سادہ لوح افراد اسے تخ ملنگاں بھی کہتے ہیں، اس کی افادیت اور استعمال سے بہت سے لوگ واقف بھی ہیں اور کچھ لوگ نہیں۔ اس کے ایک چمچ کی قدرتی افادیت کسی ملٹی وٹامنز کی گولی سے کم نہیں۔

    ڈپریشن ایک ایسی بیماری بن گئی ہے جس سے بے شمار افراد نبرد آزما ہیں، ایک تحقیق کے مطابق تخم بالنگا ڈپریشن کے مریضوں کو ڈپریشن سے باہر نکالتا ہے جو اومیگا 3 سے بھرپور ہوتا ہے اور انسانی مزاج کو مثبت اور اسے خوش کرنے میں بہترین معاونت فراہم کرتا ہے، تخم بالنگا میں موجود غذائیت ہڈیوں کو مضبوط کرنے میں بے حد مددگار ثابت ہوتی ہے۔

    تخم بالنگا

    عام طور پر ہمیں صرف شربت اور فالودہ بناتے وقت ہی تخمِ ملنگا کی یاد آتی ہے لیکن تاریخ میں اس بیج کو بطور کرنسی بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے اور جنگوں کے دوران سپاہیوں کو کھلایا جاتا تھا کیونکہ یہ توانائی بخش ہے۔

    تخمِ ملنگا کی 28 گرام مقدار میں 137 کیلوریز، 12 گرام کاربوہائیڈریٹس، ساڑھے چار گرام چکنائی، ساڑھے دس گرام فائبر، صفر اعشاریہ چھ ملی گرام مینگنیز، 265 ملی گرام فاسفورس، 177ملی گرام کیلشیئم کے علاوہ وٹامن، معدنیات، نیاسن، آیوڈین اور تھایامائن موجود ہوتا ہے۔

    اس کے علاوہ تخمِ ملنگا میں کئی طرح کے اینٹی آکسیڈنٹس بھی پائے جاتے ہیں۔ اب تخمِ ملنگا کے فوائد بھی جان لیجئے۔

    جلد نکھارے اور بڑھاپا بھگائے

    میکسکو میں تخمِ ملنگا پر تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اس میں قدرتی فینولِک (اینٹی آکسیڈنٹ) کی مقدار دوگنا ہوتی ہے اور یہ جسم میں فری ریڈیکل بننے کے عمل کو روکتا ہے۔ اس طرح ایک جانب تو یہ جلد کے لیے انتہائی مفید ہے تو دوسری جانب بڑھاپے کو بھی روکتا ہے۔

    ہاضمے کے لیے مفید

    فائبر کی بلند مقدار کی وجہ سے تخمِ ملنگا ہاضمے کے لیے انتہائی موزوں ہے۔ السی اور تخمِ ملنگا خون میں انسولین کو برقرار رکھتے ہیں اور کولیسٹرول اور بلڈ پریشر کو بھی لگام دیتے ہیں۔ طبی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ فائبر پانی جذب کرکے پیٹ بھرنے کا احساس دلاتا ہے اور وزن گھٹانے کے لیے انتہائی مفید ہے۔ اس کا استعمال معدے کے لیے مفید بیکٹیریا کی مقدار بڑھاتا ہے۔

    قلب کو صحت مند رکھے

    تخمِ ملنگا کولیسٹرول گھٹاتا ہے، بلڈ پریشر معمول پر رکھتا ہے اور دل کے لیے بہت مفید ہے۔ اس کا باقاعدہ استعمال خون کی شریانوں کی تنگی روکتا ہے اور انہیں لچکدار بناتا ہے۔ اومیگا تھری فیٹی ایسڈ کی وجہ سے یہ دل کا ایک اہم محافظ بیج ہے۔

    ذیابیطس میں مفید

    تخمِ ملنگا میں الفا لائنولک ایسڈ اور فائبر کی وجہ سے خون میں چربی نہیں بنتی اور نہ ہی انسولین سے مزاحمت پیدا ہوتی ہے۔ یہ دو اہم اشیا ہیں جو آگے چل کر ذیابیطس کی وجہ بنتے ہیں۔ اسی لیے ملنگا بیج کا باقاعدہ استعمال ذیابیطس کو روکنے میں بہت مددگار ثابت ہوتا ہے۔

    توانائی بڑھائے

    جرنل آف اسٹرینتھ اند کنڈشننگ میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق تخمِ ملنگا ڈیڑھ گھنٹے تک توانائی بڑھاتا ہے اور ورزش کرنے والوں کے لیے بہت مفید ہے۔ یہ جسم میں استحالہ (میٹابولزم) تیز کرکے چکنائی کم کرتا ہے اور موٹاپے سےبھی بچاتا ہے۔

    ہڈیوں کی مضبوطی

    بقول منقول ایک اونس تخمِ ملنگا میں روزمرہ ضرورت کی 18 فیصد کیلشیئم پائی جاتی ہے جو ہڈیوں کے وزن اور مضبوطی کے لیے بہت ضروری ہے۔ اس میں موجود بورون نامی عنصر فاسفورس، مینگنیز اور فاسفورس جذب کرنے میں مدد دیتا ہے اور یوں ہڈیاں اور پٹھے مضبوط رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ زنک اور دیگر اجزا منہ اور دانتوں کی صحت برقرار رکھتے ہیں۔

    طریقہ استعمال :

    روزانہ ایک چمچہ ایک گلاس تازہ پانی میں مکس کرکے صبح خالی پیٹ پی لیں۔

  • ڈپریشن : مریض خود کو بیمار تصور کیوں نہیں کرتا؟

    ڈپریشن : مریض خود کو بیمار تصور کیوں نہیں کرتا؟

    ڈپریشن ڈس آرڈر ایک پیچیدہ حالت ہے، یہ دکھی محسوس کرنے یا محض مشکل وقت سے گزرنے سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے، پوری دنیا میں ڈپریشن حیرت انگیز حد تک ایک عام بیماری بن چکی ہے۔

    پہلے زمانوں میں لوگ اس بارے میں گفتگو کرنا معیوب سمجھتے تھے تاہم اب نئی نسل کی سوچ میں تبدیلی آرہی ہے، اچھی بات یہ ہے کہ نفسیاتی بیماریوں پر جتنی توجہ درکار ہے اتنی ملنا شروع ہو گئی ہے۔

    ڈپریشن ایک موڈ سے متعلقہ بیماری ہے اور یہ روز مرہ کے کام مثلا کھانا، پینا، سونا، جاگنا اور معاشرتی رویوں کو شدید طور پر متاثر کرتا ہے۔

    ڈپریشن کی علامات اور اقسام 

    ڈپریشن کی کئی اقسام کی ہوسکتی ہیں جیسا کہ سیزنل، پوسٹ پارٹم (بچے کی پیدائش کے بعد والے عرصے میں جنم لینے والا) اور (مستقل رہنے والا ڈپریشن)۔ کسی بھی قسم کے ڈپریشن میں پیدا ہونے والی ناامیدی کی شدید لہر انسان کو تباہ کن حد تک متاثر کرتی ہے۔

    امریکن کالج آف اوبسٹیٹریشینز اینڈ گائناکالوجسٹ (اے سی او جی) کے مطابق ڈپریشن حمل کی ایک عام پیچیدگی ہے، اگر اس کی پہچان اور علاج نہ کیا جائے تو ممکنہ طور پر تباہ کن نتائج چھوڑتی ہے۔

    بعض حالات میں لوگوں کو اداسی، بے حسی، یا توانائی کی کمی کے احساسات ہوتے ہیں جو دنوں ہفتوں یا مہینوں تک رہ سکتے ہیں، لوگ سونے، کھانے یا حفظان صحت کے معمولات میں تبدیلیوں کا تجربہ کرسکتے ہیں اور دوستوں کے ساتھ ملنا یا کام پر جانا چھوڑ سکتے ہیں۔

    بعض اوقات، افسردہ دورانیے کا سامنا کرنے والے افراد ناامیدی محسوس کرسکتے ہیں یا یہ کہ زندگی اب جینے کے قابل نہیں رہی جو خودکشی کے خیالات کے ساتھ آ سکتی ہے لیکن ان سب باتوں کے باوجود مریض خود کو بیمار تصور نہیں کرتا جو علاج میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

    یہ ممکن ہے کہ آپ کسی ایسے شخص کو جانتے ہوں جسے ڈپریشن ہو اور وہ ظاہر نہ کرتا ہو، امریکہ میں 7 فیصد سے زائد آبادی نے پچھلے سال کم از کم ایک بڑا ڈپریشن کا تجربہ کیا ہے۔

    مایوس ہرگز نہ ہوں، علاج کریں

    ڈپریشن انسان میں ناامیدی کے جذبات تو پیدا کر دیتا ہے لیکن یہ صورتحال قابل علاج ہے لہٰذا اسے ناامیدی سے بالکل نہیں دیکھنا چاہیے۔

    ادویات کے باقاعدہ استعمال سے امید کا سورج دوبارہ انسان کی زندگی میں مثبت کرنیں چمکا سکتا ہے جو کہ انسان کے تعلقات کی بہتری کا باعث بنتا ہے، مندرجہ ذیل گھریلو علاج کی مدد سے ڈپریشن کی علامات میں کمی لائی جا سکتی ہے۔

    زعفران کا استعمال

    زعفران ایک دلکش رنگ کی حامل بوٹی ہے، اس کے ساتھ ساتھ زعفران بہت سے طبی فوائد کا حامل بھی ہے، یہ اپنی اینٹی آکسیڈنٹ خصوصیات کی بنیاد پر ڈپریشن کا قدرتی علاج تصور کیا جاتا ہے۔ کچھ طبی تحقیقات کے مطابق زعفران کے استعمال سے دماغ میں سیروٹونن کا لیول متوازن ہوتا ہے جو موڈ کو بہتر بنانے والا کیمیکل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈپریشن کی علامات میں کمی لانے کے لیے زعفران کے سپلیمنٹس بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔

    ورزش

    ڈپریشن کی علامات میں کمی لانے کے لیے ورزش کو ایک اہم علاج تصور کیا جاتا ہے۔ باقاعدگی کے ساتھ ورزش کرنے سے دماغ مثبت انداز سے سوچنا شروع کرتا ہے جس کی وجہ سے اس بیماری کی علامات میں کمی آتی ہے۔

    اومیگا-3 فیٹی ایسڈز

    اومیگا-3 فیٹی ایسڈز جسمانی اور دماغی صحت کو برقرار رکھنے کے لیے نہایت اہم فیٹ تصور کیے جاتے ہیں۔ کچھ تحقیقات کے مطابق ان کے باقاعدہ استعمال سے ڈپریشن کی شدت میں کمی آتی ہے۔

    وٹامن ڈی

    وٹامن ڈی صحت کو برقرار رکھنے کے لیے نہایت اہم تصور کیا جاتا ہے، جب کہ بد قسمتی سے بہت سے افراد اس وٹامن کی کمی کا شکار ہوتے ہیں۔ ایسے افراد جو وٹامن ڈی کی کمی کا شکار ہوں ان میں ڈپریشن کی علامات شدت اختیار کر سکتی ہیں۔

    زنک

    زنک کا شمار ان منرلز میں کیا جاتا ہے جو دماغی صحت کو برقرار رکھنے کے لیے نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ منرل استعمال کی جانے والی مختلف چیزوں کی سوزش کم کرنے والی اور اینٹی آکسیڈنٹ خصوصیات کو بھی بڑھاتا ہے۔ زنک کی کمی کی وجہ سے ڈپریشن کے خطرات بڑھ سکتے ہیں۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    نوٹ : مندرجہ بالا تحریر معالج کی عمومی رائے پر مبنی ہے، کسی بھی نسخے یا دوا کو ایک مستند معالج کے مشورے کا متبادل نہ سمجھا جائے۔

  • موبائل فون بیماری سے پہلے اس کی تشخیص کردے گا، لیکن کیسے ؟

    موبائل فون بیماری سے پہلے اس کی تشخیص کردے گا، لیکن کیسے ؟

    جدید ٹیکنالوجی ’آرٹیفیشل انٹیلی جینس‘ (اے آئی) نے نہ صرف رابطہ کاری میں ترقی کی کئی منازل طے کرلی ہیں لیکن ساتھ ہی اب طب کے شعبے میں بھی قدم رکھ دیا ہے۔

    آنے والے دنوں میں بیمار شخص کسی معالج کے پاس جانے کے بجائے گھر بیٹھے اپنے مرض کے حوالے سے نہ صرف آگاہی حاصل کرسکے گا بلکہ اس کے تدارک کیلئے مشورے بھی دیے جاسکیں گے۔

    دنیا بھر میں آرٹیفیشل انٹیلیجینس (اے آئی) ہر گزرتے دن کے ساتھ بہت اہمیت اختیار کرتی جارہی ہے اور اب موبائل فون صارفین کو صحت کے حوالے سے پیش آنے والے مسائل سے خبردار کرے گی یہاں تک کہ خود صارف کو احساس بھی نہیں ہوگا۔

    اس حوالے سے غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ایک موبائل ایپ ‘موڈ کیپچر’ اے آئی کا استعمال کرتے ہوئے انسانی چہرے کے تاثرات پڑھ کر یہ بتا سکتی ہے کہ صارف کو ڈپریشن ہوگا یہاں تک کہ صارف کو اس حوالے سے علم بھی نہیں ہوگا۔

    mobile
    مذکورہ ایپ چہرے کے تاثرات کا جائزہ لے کر ڈپریشن کا بتاسکتی ہے، فوٹو : بشکریہ دی سن

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ موڈ کیپچر موبائل کا سامنے والا کیمرہ صارف کے چہرے اور اطراف کے تاثرات محفوظ کرتی ہے اور تصویر کو حالات کے ساتھ جوڑ کر جائزہ لیتی ہے۔

    موڈ کیپچر کے مصدقہ ہونے سے متعلق بتایا گیا ہے کہ ڈپریشن کا قبل از وقت ٹھیک سراغ لگانے میں 75 فیصد درست قرار دیا گیا ہے۔

    امریکی ریاست نیو ہیمپشائر کے ڈیرٹموتھ کالج کے پروفیسر اینڈریو کیمبل کا کہنا تھا کہ لوگ فون کھولنے کے لیے ایک دن میں سیکڑوں مرتبہ چہرے کی شناخت کا استعمال کرتے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ موڈ کیپچر بھی اسی طرح کی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتی ہے، چہرے کی شناخت کی ٹیکنالوجی کے ساتھ گہرا تاثر اور اے آئی ہارڈ ویئر کا استعمال ہوتا ہے۔

    اس لیے مذکورہ ٹیکنالوجی کی مدد سے صارف پر کوئی اضافی بوجھ یا معلومات حاصل کیے بغیر درست معلومات حاصل کی جاسکے گی۔

  • مایوسی کے سمندر میں بہتے پاکستانی ڈپریشن کے خطرے سے دوچار

    مایوسی کے سمندر میں بہتے پاکستانی ڈپریشن کے خطرے سے دوچار

    پاکستان میں ڈپریشن کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، نیشنل لائبریری آف میڈیسن (این آئی ایچ) کے مطابق پاکستان میں ڈپریشن کے مریضوں کی شرح 22 سے 60 فی صد تک پہنچ گئی ہے، ڈپریشن میں مبتلا افراد کی تعداد بڑے شہروں خصوصاً کراچی میں 47 فی صد تک ہے۔

    ایک اندازے کے مطابق ذہنی امراض کی شرح اگر اسی طرح بڑھتی رہی تو 2050 تک پاکستان ذہنی مسائل اور بیماریوں کے حوالے سے عالمی رینکنگ میں چھٹے نمبر پر ہوگا۔

    ڈپریشن کیا ہے؟

    ڈپریشن ایک ایسی مخصوص کیفیت کا نام ہے جس میں مریض خود کو تنہا، اداس اور ناکام تصور کرتا ہے، اس کیفیت کے شکار مریض وہ لوگ ہوتے ہیں جو نہ صرف بہت حساس ہوتے ہیں بلکہ ان کی خواہشات اور توقعات کے بر خلاف چیزیں رونما ہوں تو وہ ان واقعات کے منفی رخ کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں اور اس کیفیت میں اگر مریض کو مناسب مدد نہ ملے اور بروقت علاج پر توجہ نہ دی جائے تو مریض زندگی سے بے زاری اور نا امیدی کا شکار ہو کر آخر کار خود کشی کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے۔

    بدقسمتی سے پاکستان میں ذہنی مسائل کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی، اس کے علاوہ معاشی تنگ دستی اور سماجی قدغن جیسے مسائل ان مریضوں کے لیے خطرناک ہو جاتے ہیں۔

    تنگ دستی اور مایوسی

    ماہر نفسیات ڈاکٹر اقبال آفریدی کا کہنا ہے پاکستان پچھلی کچھ دہائیوں سے کئی مسائل کا شکار ہوتا چلا آیا ہے، جس نے پاکستانیوں کی زندگی میں لاتعداد مسائل کو جنم دیا ہے، جس میں سب سے زیادہ بڑا مسئلہ معاشی تنگ دستی رہا ہے۔ جب انسان معاشی مسائل کو حل کرنے سے قاصر ہو جاتا ہے تو وہ مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ جس سے نہ صرف اس کی زندگی بلکہ پورے خاندان پر اس کے گہرے اثرات رونما ہو جاتے ہیں۔

    دنیا بھر میں مایوسی میں اضافے کا ایک سبب 2019 میں کرونا وائرس کی وبا بھی تھا، پاکستان کے مستقبل سے مایوسی نے بھی لوگوں خصوصاً نوجوانوں کو سب سے زیادہ شکار بنایا ہے۔ ملک میں خود کشی کرنے والوں میں اکثریت نوجوان مرد و خواتین کی ہے۔ پاکستان میں نئی نسل میں اس مرض میں اضافے کا سب سے بڑا سبب معاشی و سماجی عدم تحفظ ہے، جس کی وجہ سے وہ جھنجھلاہٹ اور انتشار ذہنی کے شکار ہو رہے ہیں، اور آخر کار نفسیاتی طور پر ڈپریشن میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

    ڈاکٹر اقبال آفریدی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پرتعیش زندگی گزارنے کی خواہش اور اس کی عدم تکمیل بھی مایوسی کے مرض کے بڑھنے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا کی دسترس اور خبروں تک رسائی بھی پاکستانیوں کے نفسیاتی مسائل میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے۔

    ڈپریشن سے نجات کا راستہ

    ڈاکٹر اقبال ڈپریشن سے نجات حاصل کرنے کی بابت کہتے ہیں کہ لوگوں کو اپنا طرز زندگی یکسر بدلنا ہوگا، انھوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ قیمتی اشیا کے حصول کی کوشش ترک کر دیں، اور اپنی زندگی کی حقیقتوں کا سامنا کریں، درپیش مسائل پر اپنے سنجیدہ حلقوں میں بات کریں۔

    خاندان یا حلقہ احباب میں کسی شخص میں ڈپریشن کی علامات محسوس کریں تو اس کی کونسلنگ کریں۔ اس کے علاوہ ڈپریشن کا مریض اپنی زندگی کے روزمرہ کے معاملات میں مثبت سوچ، چہل قدمی، ورزش اور خوراک کے معتدل استعمال سے بھی اس مرض سے نجات حاصل کر سکتا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کی ایک تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ ہفتے میں تین مرتبہ ورزش کرنے سے ڈپریشن کے عارضے میں 16 فی صد تک کمی لائی جا سکتی ہے۔

    خود کشی اور نوجوان

    اگرچہ ڈپریشن کا مرض ہر عمر کے افراد میں نوٹ کیا گیا ہے مگر عالمی اداروں کی جانب سے جاری کردہ رپورٹس کے مطابق 2011 کے بعد 18 سے 30 سال کی عمر کے نوجوانوں میں اس مرض کی شرح تشویش ناک حد تک بڑھ رہی ہے۔

    ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان میں تقریباً ایک لاکھ 30 ہزار سے 2 لاکھ 70 ہزار افراد سالانہ خود کشی کی کوشش کرتے ہیں، جس میں اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہوتی ہے۔

    بڑے شہروں میں ڈپریشن کے مریضوں کے بڑھنے میں آبادی کے پھیلاؤ اور پر تعیش لائف اسٹائل کو اختیار کرنے کا جنون شامل ہے، پرتعیش طرز زندگی کی دوڑ میں ہر کوئی جائز و ناجائز طریقے سے زیادہ سے زیادہ کما کر ایک دوسرے سے آگے نکلنا چاہتا ہے، اور اس سلسلے میں اچھائی اور برائی میں تمیز بھی بھولتا جا رہا ہے، جس کے باعث سماجی نظام زوال کا شکار ہے۔

    رشتوں میں فاصلہ

    ڈپریشن کے مرض میں کئی دیگر عوامل بھی شامل ہیں، جن میں فیملی کے افراد کے درمیان رشتوں میں فاصلہ، عدم برداشت اور تناؤ جیسے عوامل قابل ذکر ہیں، پاکستان میں یورپ کی طرز پر لاتعداد اولڈ ایج ہاؤسز کا کھلنا اس کی ایک زندہ مثال ہے۔

    ڈیجیٹل اور الیکٹرانک آلات کی وجہ سے ہماری زندگیوں میں جو انقلاب آیا ہے اس کے فوائد کے ساتھ شدید نقصانات بھی سامنے آئے ہیں،

    والدین اور بچوں میں فاصلے بہت بڑھ گئے ہیں، نہ تو والدین بچوں کے رجحانات کو دیکھ کر خود کو بدلنے پر آمادہ ہیں اور نہ ہی اولاد ان کے پرانے طور طریقوں اور روایات کو قبول کرنا چاہتی ہے۔

    سوشل میڈیا نے گزشتہ ایک سے ڈیڑھ دہائی میں ہماری سماجی زندگی کو اپنی آہنی پنجوں میں جکڑ لیا ہے، اسمارٹ فونز کی آمد کے بعد سوشل میڈیا کا استعمال پاکستان میں بھی تیزی سے بڑھتا گیا اور فی الوقت پاکستان اسمارٹ فونز در آمد کرنے والے صف اول کے ممالک میں سے ایک ہے۔

  • کون سی غذائیں ڈپریشن سے نجات دلا سکتی ہیں

    کون سی غذائیں ڈپریشن سے نجات دلا سکتی ہیں

    ڈپریشن ایک ایسی بیماری ہے جس کا شکار اکثر افراد ہوجاتے ہیں، ڈپریشن محض دماغ تک محدود رہنے والا مرض نہیں بلکہ اس کے نتیجے میں جسم بھی متاثر ہوتا ہے۔

    کچھ غذاؤں کا استعمال کر کے آپ اس سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔

    ماضی میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق صحت کے لیے مفید غذاؤں کے استعمال سے ڈپریشن کے شکار افراد میں بیماری کی علامات کی شدت میں کمی آتی ہے۔

    اس مقصد کے لیے غذائی اجزا سے بھرپور غذاؤں کا زیادہ جبکہ جنک فوڈ اور میٹھے کا کم از کم استعمال کرنا چاہیئے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ ڈپریشن کا شکار افراد اپنی غذا سے اس بیماری کی علامات کو کنٹرول کر سکتے ہیں۔

    کچھ تحقیقی رپورٹس کے مطابق غذا میں سیلنیئم کا استعمال بڑھانے سے مزاج پر خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں جبکہ انزائٹی کی شدت میں کمی آتی ہے، یہ جز سالم اناج، سی فوڈ اور کلیجی میں پایا جاتا ہے جبکہ اس کے سپلیمنٹس بھی دستیاب ہیں۔

    اس کے علاوہ مچھلی، کلیجی، انڈوں اور دودھ کا بھی استعمال کریں جبکہ پھلوں، سبزیوں اور گریوں پر مشتمل غذا میں اینٹی آکسائیڈنٹس کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے اور اس سے ڈپریشن کی علامات سے نجات بھی ملتی ہے۔

    اسی طرح فولک ایسڈ کے حصول کے لیے سبز پتوں والی سبزیاں، پھل یا ان کے جوس، گریاں، پھلیاں، دودھ سے بنی مصنوعات، انڈے، سی فوڈ اور سالم اناج کا استعمال کرنا چاہیئے۔