Tag: depression

  • کیا ہاضمے کے مسائل بھی ڈپریشن کا سبب بن سکتے ہیں؟

    کیا ہاضمے کے مسائل بھی ڈپریشن کا سبب بن سکتے ہیں؟

    ڈپریشن اور بے چینی کا عارضہ آج کل کی زندگی میں عام بن چکا ہے، تاہم ماہرین نے اس کی ایک اور وجہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔

    حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق اریٹیبل باؤل سینڈروم جسے (آئی بی ایس) کہا جاتا ہے اور دماغی عوارض جیسے بے چینی اور ڈپریشن کے درمیان ایک ربط کا انکشاف ہوا ہے۔

    یہ سنڈروم نظام ہاضمہ کا ایک ایسا مرض ہے جو آنتوں کے افعال متاثر ہونے کی وجہ سے جنم لیتا ہے۔ یہ ایک دائمی عارضہ ہے جو دنیا کی تقریباً 15 فیصد آبادی کو متاثر کرتا ہے۔

    اس مرض میں مریض پیٹ میں تکلیف، پیٹ پھولنے، گیس اور ہیضے جیسی کیفیات کا سامنا کرتا ہے جبکہ قبض کی شکایت بھی ہوسکتی ہے جو طویل عرصے تک جاری رہ سکتی ہے، تاہم طرز زندگی میں معمولی تبدیلیاں اور گھریلو ٹوٹکے اس مرض سے نجات میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔

    یہ تحقیق آئی بی ایس کے مریضوں میں ان کی مجموعی صحت اور معیار زندگی کو بہتر بنانے اور نفسیاتی امراض کا جائزہ لینے اور ان کا علاج کرنے کی ضرورت پر روشنی ڈالتی ہے۔

    ماہرین نے آئی بی ایس اور ڈپریشن کے درمیان تعلق کو جاننے کے لیے تین سال کی مدت کے دوران 4 ہزار امریکی اسپتالوں سے 1.2 ملین سے زیادہ آئی بی ایس کے مریضوں کے اسپتالوں میں داخل ہونے کا جائزہ لیا۔

    تحقیق میں ان مریضوں میں 38 فیصد کو پریشانی اور 27 فیصد سے زیادہ میں ڈپریشن کو نوٹ کیا گیا۔

    عام افراد کی نسبت آئی بی ایس مریضوں میں بے چینی، ڈپریشن، بائی پولر ڈس آرڈر، خودکشی کے خیال اور غذائی خرابی سمیت نفسیاتی مسائل کا پھیلاؤ نمایاں طور پر زیادہ تھا۔

    یونیورسٹی آف میسوری میں کلینکل میڈیسن کے اسسٹنٹ پروفیسر، مرکزی محقق زاہد اعجاز تارڑ کا کہنا ہے کہ ایک عرصے سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ دماغ اور آنتوں کے درمیان تعلق دو طرفہ ہے جیسے کہ آئی بی ایس کی علامات اضطراب اور افسردگی کا سبب بنتی ہیں اور دوسری طرف، نفسیاتی عوامل آئی بی ایس کی علامات کا باعث بنتے ہیں۔

    اسی لیے طبی پیشہ ور افراد کو ان دونوں عوامل کا علاج کرنے کی ضرورت ہے۔

    آئی بی ایس کے مریضوں کا اگر علاج نہ کیا جائے تو ان میں نفسیاتی عارضے جنم لینے لگتے ہیں جس سے ان کے علاج کا معاشی بوجھ بڑھ سکتا ہے۔

    آئی بی ایس میں میسنٹری جھلی جو آنتوں کو ایک ساتھ رکھتی ہے، جسم میں عصبی خلیوں کا سب سے بڑا مجموعہ ہے۔

    جب وہ اعصاب تحریک پیدا کرنے لگتے ہیں، تواس سے آنتوں کی حرکات متاثر ہوتی ہیں جس کے نتیجے میں آئی بی ایس کی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں، غیر صحت مند طرز زندگی بھی اس میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔

  • ڈپریشن کے لیے ایک اور دوائی سامنے آگئی

    ڈپریشن کے لیے ایک اور دوائی سامنے آگئی

    دنیا بھر میں استعمال کی جانے والی مشروم کی ایک خاص جڑی بوٹی کو ڈپریشن اور دیگر ذہنی مسائل کے لیے نہایت فائدہ مند پایا گیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق مشرومز کے خصوصی مرکب سائلو سائبن جسے پھپھوندی بھی کہا جاتا ہے سے تیار کی گئی دوائی کے دوسرے ٹرائل کے نتائج بہترین آنے پر ماہرین نے اسے مستقبل کی حیران کن دوائی قرار دیا ہے۔

    ماہرین نے سائلو سائبن سے تیار کی گئی گولیوں کو آزمانے کے لیے برطانیہ، یورپ اور لاطینی امریکا کے 22 علاقوں کے 233 رضا کاروں کی خدمات حاصل کیں۔

    ماہرین نے ان رضاکاروں کی خدمات حاصل کیں جن میں شدید ڈپریشن تھا اور ان کا مرض ادویات یا تھراپی کے سیشن لینے کے بعد بڑھ جاتا تھا۔

    ماہرین نے رضا کاروں کو 3 مختلف گروپس میں تقسیم کر کے ان میں سے ایک گروپ کو یومیہ ایک ملی گرام، دوسرے گروپ کو 10 ملی گرام جبکہ تیسرے گروپ کو 25 ملی گرام کی گولیاں دیں۔

    تمام رضا کاروں کو گولیاں دینے کے بعد انہیں تھراپی سیشن لینے کے لیے بھی کہا گیا اور تین ماہ تک ماہرین نے رضاکاروں کے ٹیسٹس کرنے سمیت ان کے دماغ کی لہریں اور رویوں کو بھی پرکھا۔

    ماہرین نے بتایا کہ تحقیق کے اختتام پر ان افراد کو زیادہ پر سکون پایا گیا، جنہوں نے زیادہ گرام پر مشتمل خوراک لی تھی، یعنی ایک اور 10 گرام مقابلے 25 گرام کا ڈوز لینے والے افراد کو زیادہ فائدہ حاصل ہوا۔

    ماہرین کے مطابق گولیاں لینے کے بعد تھراپی سیشن والے افراد میں 6 گھنٹے تک ڈپریشن دور ہوگیا اور ان کے رویہ بھی بہتر ہوا اور انہوں نے پرسکون ماحول میں موسیقی سننے سمیت دوسرے کام سر انجام دیے۔

    ماہرین نے مشرومز کی جڑی بوٹی سائلو سائبن سے تیار کی گئی دوا کو جادوئی دوا قرار دیتے ہوئے امید ظاہر کی کہ اس سے ڈپریشن جیسے عام مرض پر قابو پانے میں مدد ملے گی اور اس دوائی کے تھراپی کے ساتھ حیران کن نتائج مل سکتے ہیں۔

  • ڈپریشن ۔ کمزور کردینے اور خاموشی سے جان لینے والا مرض

    ڈپریشن ۔ کمزور کردینے اور خاموشی سے جان لینے والا مرض

    دنیا بھر میں ہر تیسرا شخص ڈپریشن کا شکار ہے، اور اقوام متحدہ نے اسے عالمی وبا قرار دیا ہے، ڈپریشن کی علامات کو جاننا بے حد ضروری ہے تاکہ آپ اپنے قریبی افراد کو اس صورتحال سے بچا سکیں۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ یاسیت یا ڈپریشن عالمی وبا کا روپ اختیار کر چکی ہے جبکہ دوسری جانب ہماری ادویات اس کا مقابلہ کرنے کے لیے تیزی سے ناکام ہو رہی ہیں، یہ ایک ایسا عارضہ ہے جس میں عمر کی کوئی قید نہیں۔

    ماہرین کے مطابق یہ ایک ایسا عارضہ ہے جس کے لیے کوئی ٹیسٹ یا آلہ نہیں ہے جو اس کی درست پیمائش کر کے یہ جان سکے کہ مریض کس حال میں ہے۔

    یہی وجہ ہے کہ یہ مریض کو اندر سے کمزور کر دیتا ہے اور انسان مستقل افسردگی کی حالت میں رہتا ہے، ایسے افراد کبھی کبھی لوگوں کے سامنے زیادہ ہنس رہے ہوتے ہیں تاکہ اپنی اداسی اور اندر کی کیفیت کو چھپا سکیں۔

    ڈپریشن ایک طرح کا ماسک ہے، آپ اسے آسانی سے پہچان نہیں سکتے اور یہ ایک طرح کا خاموش قاتل ہے۔

    ڈپریشن نے دنیا بھر میں 350 ملین سے زیادہ لوگوں کو متاثر کیا ہوا ہے اور یہ افراد دنیا بھر میں دیگر لوگوں کی طرح اپنا کردار ادا نہیں کر پاتے، یہی وجہ ہے کہ خودکشی جیسے رجحان میں تیزی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

    چونکہ یہ مرض اتنی آسانی سے سامنے نہیں آتا اسی لیے اس کی تشخیص بھی نہیں کی جاتی اس طرح یہ سنگین ہوتا جاتا ہے۔

    اس کی علامات کی اگر بات کی جائے تو ڈپریشن میں مبتلا شخص ہمیشہ اداس رہتا ہے، گھر، اسکول اور دفتر میں اس کی کارکردگی بری طرح متاثر ہونے لگتی ہے جبکہ اس کی سنگین حالت انسان کو خودکشی کی جانب لے جاتی ہے۔

    دنیا بھر میں صرف ڈپریشن کی وجہ سے سالانہ 10 لاکھ اموات ہوتی ہیں، اس لیے ڈپریشن کی علامات کو جاننا نہایت ضروری ہے، تاکہ آپ اپنے خاندان اور دوستوں کو اس مرض سے نجات دلا سکیں۔

    علامات

    اچانک موڈ میں تبدیلی، عام طور پر بہت اداس ہونا یا خوش اور پرسکون دکھائی دینا

    چڑچڑا پن یا پریشانی میں اضافہ

    توجہ مرکوز کرنے میں دشواری اور بھول جانا

    موت کے بارے میں مسلسل بات کرنا یا سوچنا

    اپنے آپ کو مارنے کے بارے میں بات کرنا

    گہری اداسی، نیند میں خلل یا سونے میں دشواری کا سامنا کرنا

    کسی بھی چیز میں دلچسپی نہ لینا

    کھانے میں مسائل کا سامنا کرنا

    ایسے خطرات مول لینا جو موت کا باعث بن سکتے ہیں، جیسے بہت تیز گاڑی چلانا

    بے کاری کا احساس

    اگر یہ علامات کسی میں بھی موجو ہوں تو اسے چاہیئے کہ اپنے اہلخانہ، قریبی دوست اور احباب سے رابطہ کرے اور اپنی کیفیات سے آگاہ کرے۔ خود کو تنہائی یا الگ تھلگ کرنے کے بجائے لوگوں کے ساتھ تعلقات استوار کرے۔

    ساتھ ہی طبی مدد بھی طلب کریں، ڈپریشن کا علاج موجود ہے لہٰذا اس مقصد کے لیے کسی مستند معالج سے رابطہ کریں تاکہ مریض کی علامات کو دیکھ کر ادویات دی جاسکیں۔

  • شدید ڈپریشن کا شکار بھارتی اداکارہ اداکاری چھوڑ کر گاؤں منتقل ہوگئیں

    شدید ڈپریشن کا شکار بھارتی اداکارہ اداکاری چھوڑ کر گاؤں منتقل ہوگئیں

    نئی دہلی: بھارت کی معروف ٹی وی اداکارہ اپنے والد کی موت کے بعد شدید ڈپریشن کا شکار ہوگئیں جس کے بعد انہوں نے اداکاری چھوڑ کر گاؤں میں زندگی گزارنے کا فیصلہ کرلیا۔

    بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق ٹی وی اداکارہ رتن راجپوت سنہ 2018 میں اپنے والد کی موت کے بعد شدید ڈپریشن کا شکار ہوگئی تھیں، طویل عرصے تک اس کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہنے کے بعد انہوں نے نفسیات پڑھنے کا فیصلہ کیا تھا۔

    بعد ازاں وہ شہری زندگی چھوڑ کر ایک گاؤں میں منتقل ہوگئی تھیں۔

    گاؤں منتقل ہونے کے بعد انہوں نے اپنا رہن سہن بھی بالکل سادہ کرلیا، وہ کھیتی باڑی کر کے اپنا وقت گزار رہی ہیں۔ اس دوران انہوں نے اپن زندگی کی کئی ویڈیوز بھی شیئر کیں۔

    رتن گزشتہ 4 سال سے اداکاری اور انڈسٹری سے دور ہیں۔

    ایک انٹرویو میں رتن نے بتایا تھا کہ والد کی موت کے بعد میں نے سب کچھ کھو دیا تھا اور شدید ڈپریشن کا شکار ہوگئی تھی، میرا کسی کام میں دل نہیں لگتا تھا۔ ڈپریشن صرف موڈ سوئنگس یا پھر رونا نہیں ہے، ڈپریشن میں انسان کو کئی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ ڈپریشن سے نجات کے لیے وہ کسی دوائی کا سہارا نہیں لینا چاہتی تھیں، انہوں نے کچھ وقت کے لیے ممبئی چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور پھر گاؤں کی زندگی کو دریافت کرنا شروع کیا۔

    رتن کا کہنا ہے کہ فطرت کے قریب رہنے سے ان کی زندگی میں خاصی تبدیلی آئی ہے اور ان کا ڈپریشن بھی کم ہوا ہے۔

    خیال رہے کہ اب تک کئی سائنسی تحقیقات میں ثابت ہوچکا ہے کہ فطرت کے قریب زندگی گزارنا ذہنی صحت کے لیے نہایت مفید ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ قدرتی ماحول، کھلی ہوا اور درختوں یا پہاڑوں کے درمیان وقت گزارنا ڈپریشن سمیت کئی ذہنی امراض کی کمی میں مدد کرتا ہے، اور فطرت کے قریب وقت گزارنے والے، شہروں میں زندگی گزارنے والوں کے برعکس نہایت خوش باش رہتے ہیں۔

  • پرندوں کی چہچہاہٹ سننے کا حیران کن فائدہ

    پرندوں کی چہچہاہٹ سننے کا حیران کن فائدہ

    فطرت کے قریب رہنا انسان کی ذہنی صحت پر نہایت مثبت اثرات مرتب کرتا ہے، اور حال ہی میں ایک اور تحقیق نے اس کی تصدیق کردی جس میں دیکھا گیا کہ پرندوں کی چہچہاہٹ سننے سے لوگوں کے ڈپریشن میں کمی واقع ہوئی۔

    جرمنی میں ہونے والی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ پرندوں کی چہچہاہٹ انسانی کانوں کے لیے ایک ٹانک کی طرح کام کرتی ہے جسے سن کر انسان کی طبیعت ہشاش بشاش ہو جاتی ہے، حتیٰ کہ ان کی آوازوں کی ریکارڈنگ بھی ایسا ہی اثر کرتی ہے۔

    نیچر پورٹ فولیو نامی جریدے کی سائنٹیفک رپورٹس میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق اس تحقیق کا مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ انسانی صحت پر ہلکی یا تیز آوازوں سے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں، اس کے لیے انہوں نے ٹریفک کے شور و غل سے لے کر پرندوں کی سریلی چہچہاہٹ تک مختلف آوازوں پر تجربہ کیا۔

    مذکورہ تحقیق کو 295 شرکا پر 6 منٹ تک آوازیں سنا کر آن لائن تجربہ کیا گیا، ان آوازوں میں ہلکی اور تیز ٹریفک کے شور کی آوازیں اور ہلکی اور تیز پرندوں کی چہچہاہٹ کی آوازیں شامل تھیں۔

    ان آوازوں کو سننے کے بعد شرکا سے اداسی، اضطراب پاگل پن اور وسوسوں کے حوالے سے سوال نامے پر کروائے گئے۔

    جوابات سے دیکھا گیا کہ پرندوں کی چہچہاہٹ اور قدرتی ماحول انسانی صحت پر مثبت اثرات مرتب کرتا ہے اور ذہنی صحت کے لیے ایک ٹانک کی طرح کام کرتا ہے جسے سن کر انسان کی طبیعت ہشاش بشاش ہو جاتی ہے حتیٰ کہ ان کی آوازوں کی ریکارڈنگ میں بھی ایسے ہی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ تیزی سے بدلتی دنیا کے باعث قدرتی ماحول ناپید ہوتا جارہا ہے جس کے منفی اثرات انسانی صحت پر ذہنی تناؤ اور ڈپریشن کی صورت میں مرتب ہورہے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق دنیا تیزی سے گلوبل ویلج بن رہی ہے، ہم جس ماحول میں زندگی بسر کر رہے ہیں وہ بھی تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔

    ماہرین کے اندازے کے مطابق سنہ 2050 تک دنیا کی تقریباً 70 فیصد آبادی شہروں میں رہائش پذیر ہوگی جبکہ اب بھی دنیا کے بعض خطوں جیسے یورپ میں قبل از وقت ہی تعداد مذکورہ حد سے تجاوز کر چکی ہوگی۔

  • ڈپریشن کی وجوہات اور اس کا علاج، ماہرین صحت کی نئی تحقیق

    ڈپریشن کی وجوہات اور اس کا علاج، ماہرین صحت کی نئی تحقیق

    کسی مقصد میں ناکامی، گھریلو لڑائی جھگڑے اور بے روزگاری جیسے مسائل انسان کو ڈپریشن کی طرف لے جاتے ہیں، جس کے باعث وہ کوئی انتہائی قدم اٹھانے بھی دریغ نہیں کرتا۔

    بہت زیادہ ذہنی دباؤ یا جسمانی تھکن میں جب انسان بالکل تنہا ہو تو ایسی صورت میں ڈپریشن کا خدشہ بڑھ جاتا ہے، بعض افراد انتہائی حساس ہوتے ہیں اس لیے چھوٹی چھوٹی باتوں کو خود پرحاوی کرلیتے ہیں۔

    اس حوالے سے کی گئی ایک تازہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ڈپریشن یا ذہنی تناؤ صرف ’سیروٹونن‘نامی ہارمون کی کمی یا بے ترتیبی کے باعث نہیں ہوتا اس کی دیگر وجوہات بھی ہوسکتی ہیں۔

    اب تک زیادہ تر ماہرین کا خیال تھا کہ ’سیروٹونن‘ نامی ہارمونز جنہیں ’ہیپی ہارمونز‘ بھی کہا جاتا ہے، ان کی کمی یا بے ترتیبی کی وجہ سے لوگوں میں ذہنی تناؤ، ڈیرپشن یا موڈ کی خرابی جیسے عوامل ہوتے ہیں۔

    سیروٹونن‘نامی ہارمون خون میں موجود خصوصی کیمیکل ہے جو کہ انسانی اعصابی اور ہاضمے کو نظام کو بہتر بنانے سمیت انسان کی سوچ، یادداشت اور موڈ پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔

    ’سیروٹونن‘کی کمی یا اس کی بے ترتیبی کو کسی بھی انسان میں موڈ کی خرابی، ذہنی تناؤ یا ڈپریشن کا سبب سمجھا جاتا رہا ہے اور بظاہر ٹیسٹس سے ڈپریشن کے شکار افراد میں اس کیمیکل کی کمی بھی نوٹ کی جاتی ہے۔

    دنیا بھر کے ڈاکٹرز ڈپریشن کے شکار افراد کو ’سیروٹونن‘نامی ہارمون یا کیمیکل کو بڑھانے یا اسے بہتر بنانے کی دوائیاں دیتے رہے ہیں، جن سے متاثرہ افراد خوشی محسوس کرتے رہے ہیں۔

    نشریات کی بندش: اے آر وائی کی لائیو ٹرانسمیشن یہاں دیکھیں

    تاہم اب ایک تازہ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ڈپریشن صرف ’سیروٹونن‘ نامی کیمیکل یا ہارمون کی کمی سے نہیں ہوتا۔

    سائنسی جریدے ’نیچر‘ کے مالیکولر سیکارٹری‘ میں شائع ماہرین کی تحقیق کے مطابق ’سیروٹونن‘ نامی کیمیکل یا ہارمون کی مقدار ان افراد میں بھی ویسے ہی پائی گئی جنہیں ڈپریشن یا ذہنی تناؤ کی کوئی شکایت نہیں تھی۔

    تحقیق کے مطابق ماہرین نے ڈیریشن کی وجوہات جاننے کے لیے ماضی میں کی جانے والی ڈیڑھ درجن تحقیقات کا مطالعہ کیا، جن کے نتائج حیران کن تھے۔

    ماہرین نے ایسی تحقیقات کا جائزہ لیا جن میں ڈپریشن کے شکار افراد اور صحت مند افراد کا ڈیٹا تھا اور ان رپورٹس میں ’سیروٹونن‘ نامی کیمیکل یا ہارمون سے متعلق معلومات بھی دستیاب تھی۔

    ماہرین نے نوٹ کیا کہ صحت مند افراد میں بھی ’سیروٹونن‘ نامی کیمیکل یا ہارمون کی ویسی ہی مقدار موجود تھی جو کہ ڈپریشن کے شکار افراد میں تھی۔

    ماہرین نے اخذ کیا کہ صرف ’سیروٹونن‘ کی کمی یا بے ترتیبی کو ڈپریشن سے جوڑنا درست نہیں، اس کے دیگر عوامل بھی ہو سکتے ہیں۔

    ماہرین نے اپنی تحقیق میں اس حوالے سے کچھ نہیں کہا کہ ڈپریشن کے شکار افراد کو ’سیروٹونن‘کی مقدار بڑھانے یا بہتر بنانے کی دوائیاں دی جانی چاہیے یا نہیں؟

    تاہم ماہرین کی تازہ تحقیق کے بعد ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے کہ ڈپریشن سے متعلق اب تک سمجھی جانے والی تمام باتیں مفروضہ نکلیں اور اس بات پر بھی بحث ہو رہی ہے کہ کیا اب ڈپریشن کے شکار افراد کو ’سیروٹونن‘نامی کیمیکل بڑھانے یا بہتر بنانے کی دوائیاں دی جانی چاہیے یا نہیں؟

  • ڈپریشن کے مریضوں کیلئے آسان اور آزمودہ نسخہ

    ڈپریشن کے مریضوں کیلئے آسان اور آزمودہ نسخہ

    ماہرینِ نفسیات کے مطابق ڈپریشن کسی کو بھی ہوسکتا ہے، اگر آپ کا روزمرہ کے کاموں میں دل نہیں لگتا، آپ بہت اداس، مایوس یا بیزار رہتے ہیں یا گھبراھٹ، بے چینی اور بے بسی کا شکار رہتے ہیں تو شاید آپ بھی ڈپریشن کا شکار ہیں۔

    اگر یہ کیفیت بہت دیر تک برقرار رہے تو انسان کو زندگی سے اکتاہٹ محسوس ہونے لگتی ہے جسے طبی اصطلاح میں ’کلینیکل ڈپریشن‘ کہتے ہیں۔

    اگرچہ یہ بات کئی لوگ تسلیم نہیں کرتے لیکن ڈپریشن بھی ایک باقاعدہ بیماری ہے، اس بیماری سے کیسے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے اس کے لیے ماہرین نے مریضوں کی مشکل آسان کردی۔

    اس حوالے سے برطانوی ماہرین کی جانب سے کی جانے والی تازہ تحقیق کے نتائج سے معلوم ہوا ہے کہ وٹامن بی سکس اور بی 12 کی وافر مقدار ڈپریشن کو ختم کرنے میں مددگار ہوتی ہے جب کہ ان سے بینائی بھی بہتر ہوتی ہے۔

    وٹامن بی 6 اور بی 12 سمیت وٹامن بی کی دیگر اقسام کو ہڈیوں کی مضبوطی سمیت انسانی جسم کے اعصاب اور خاص طور پر دماغی نظام کے لیے بہتر سمجھی جاتی ہیں۔

    ماہرین کے مطابق وٹامن بی 6 اور بی 12 کی کمی انسانی دماغی نظام میں پائے جانے والے ایک خاص کیمیکل کا سبب بنتی ہے، جس سے انسانی دماغی نظام متاثر ہوتا ہے۔

    مذکورہ وٹامنز کی کمی کے باعث کیمیکل کی قلت خصوصی طور پر ڈپریشن یا چڑچڑے پن کا سبب بنتی ہے جب کہ اس سے بینائی بھی متاثر ہوتی ہے، جس سے انسان ہر وقت بیزارگی کا مظاہرہ کرتا ہے۔

    ماہرین نے تحقیق کے دوران یہ دیکھا کہ وٹامن بی 6 اور بی 12 کی کمی سے دماغی نظام کے لیے اہم سمجھے جانے والے خصوصی کیمیکل کی قلت کو کیسے پورا کیا جائے۔

    اس لیے ماہرین نے 478 رضاکاروں کو تحقیق کے لیے بھرتی کیا اور تمام رضاکاروں نے خود کو ڈپریشن کا شکار شخص قرار دیا تھا۔

    ماہرین نے تحقیق کے دوران رضاکاروں کو تین حصوں میں تقسیم کرکے کچھ افراد کو وٹامن بی 6، کچھ کو وٹامن بی 12 جب کہ باقیوں کو فرضی دوائی دی اور یہ عمل ایک ماہ تک دہرایا گیا۔

    آخر میں ماہرین نے تمام رضاکاروں سے سوالات کرنے کے علاوہ ان کی بینائی سمیت دیگر طرح کے ٹیسٹ بھی کیے۔

    طبی جریدے ’ہیومن سائکوفارموکولاجی‘ میں شائع تحقیق کے مطابق نتائج سے معلوم ہوا کہ جن افراد کو وٹامن بی 6 کی اچھی خوراک دی گئی تھی، ان میں ڈپریشن کی سطح نمایاں طور پر کم ہوئی۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ وٹامن بی 12 کی خوراک لینے والے افراد نے بھی ڈپریشن کی سطح کم ہونے کی تصدیق کی جب کہ جنہیں فرضی دوائی دی گئی انہوں نے ڈپریشن میں کسی طرح کی تبدیلی نہ ہونے کا بتایا۔

    ماہرین نے نتیجہ اخذ کیا کہ اگر ڈپریشن کے شکار افراد بی 6 اور بی 12 کی خوراک لیں تو وہ ڈپریشن سے بچ سکتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق اگر لوگ دونوں وٹامنز سے بھرپور غذائیں نہیں کھاتے تو انہیں طبی ماہرین کی ہدایت کے مطابق وٹامن بی 6 اور بی 12 کی گولیاں کھانی چاہئیے۔

    واضح رہے کہ کیلے، چنے، مرغی، پپتے، کلیجی، بیف، دہی، دودھ اور انڈوں سمیت مچھلی میں مذکورہ دونوں وٹامنز پائی جاتی ہیں، ان کے علاوہ دیگر سبزیوں اور پھلوں میں بھی یہی وٹامنز پائی جاتی ہیں۔

  • ڈیمینشیا : ڈپریشن کی علامات اور علاج، مگر کیسے؟

    ڈیمینشیا : ڈپریشن کی علامات اور علاج، مگر کیسے؟

    ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ گفتگو کی تھیراپی ڈیمینشیا کے مریضوں میں ڈپریشن کی علامات میں بہتری کا سبب بن سکتی ہے جو ان لوگوں کے لیے امید کی ایک کرن ہے جن کو انسداد ڈپریشن ادویات فائدہ نہیں پہنچاتی ہیں۔

    ڈیمینشیا کے مریض عموماً الجھن اور ڈپریشن محسوس کرتے ہیں لیکن ان علامات کا علاج کیسے کرنا ہے اس نے ماہرین کو الجھائے رکھا ہے کیوں کہ اس حالت میں استعمال ہونے والی ادویات شاید ڈیمینشیا کے مریضوں پراثر نہیں کرتی اور نقصان دہ ہوسکتی ہیں۔

    محققین نے بتایا کہ یہ تحقیق اس لیے اہم ہے کیوں کہ یہ پہلا مطالعہ ہے جس میں دِکھتا ہے کہ نفسیاتی حربے "ٹاکنگ تھیراپی” اس لحاظ سے مؤثر ہیں اور قابلِ قدر ہیں ڈیمینشیا کے مریضوں پر ڈپریشن کی ادویات اثر نہیں کرتی۔

    یونیورسٹی کالج لندن کے محققین کی سربراہی میں کی جانے والی تحقیق میں یہ بھی اشارہ دیا گیا ہے کہ یہ تھیراپیز ممکنہ طور پر مریض کے معیارِ زندگی اور روز مرّہ کی فعالی کو بہتر کرنے میں اضافی مدد کرسکتی ہیں۔

    محققین ڈیمینشیا کے لیے کلینیکل ہدایات کو تبدیل کرنے کے لیے زور دے رہے ہیں کہ ان کو بدل کر نفسیاتی تھیراپیز تجویز کی جائیں اور بالخصوص کوگنیٹِو بیہیوریل تھیراپی تجویز کی جائے۔

  • یہ عادتیں ڈپریشن کی علامات ہوسکتی ہیں

    یہ عادتیں ڈپریشن کی علامات ہوسکتی ہیں

    ڈپریشن ایک عام مرض بن چکا ہے جس کے بارے میں آگاہی تاحال نہ ہونے کے برابر ہے، اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ہر 3 میں سے ایک شخص ڈپریشن کا شکار ہے۔

    ویسے تو ڈپریشن کی چند مخصوص علامات ہوتی ہیں جو اکثر افراد پہچاننے سے قاصر رہتے ہیں اور زیادہ سنگین نوعیت کے عوارض کا شکار ہوجاتے ہیں۔

    مگر کچھ ایسی علامات بھی ہوتی ہیں جن کے عام ہونے کے باوجود لوگ انہیں نظرانداز کردیتے ہیں، ان علامات کو جاننا یقیناً آپ کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا۔

    خریداری کا جنون

    اگر چیزوں کی خریداری آپ کے کنٹرول میں نہ رہے اور آپ ضرورت سے زیادہ خرچہ کرنے لگیں تو یہ جان لیں کہ ڈپریشن کے شکار کچھ افراد میں یہ غیرمعمولی نہیں۔

    بھولنا

    ڈپریشن بھی بھولنے کی ایک وجہ ہوسکتا ہے، تحقیقی رپورٹس سے ثابت ہوا ہے کہ ڈپریشن یا تناؤ کا تسلسل جسم میں ایک ہارمون کورٹیسول کی سطح میں اضافہ کرتا ہے۔ ایسا ہونے
    سے دماغ کا وہ حصہ سکڑتا یا کمزور ہوجاتا ہے جو یادداشت اور سیکھنے سے منسلک ہوتا ہے۔

    انٹرنیٹ کا بے تحاشہ استعمال

    انٹرنیٹ کا بہت زیادہ استعمال بھی ڈپریشن کی علامت ہوسکتی ہے، تحقیقی رپورٹس کے مطابق بہت زیادہ ڈپریشن اور انٹرنیٹ کے بہت زیادہ استعمال کے درمیان تعلق موجود ہے۔

    چیزیں چرانا

    ڈپریشن کے شکار افراد بلاوجہ خریداری کے دوران چیزیں اٹھا کر جیب یا بیگ میں ڈال لیتے ہیں۔ ایسا کرنے سے انہیں طاقت اور اپنی اہمیت کا احاس ہوتا ہے اور وہ ایسا سوچے سمجھے بغیر کرتے ہیں۔

    کمر درد

    تحقیقی رپورٹس میں ثابت ہوا ہے کہ ڈپریشن سے زیریں کمر کے دائمی درد کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ دائمی کمر درد کے شکار 42 فیصد افراد کو اس تکلیف کے آغاز سے قبل ڈپریشن کا سامنا تھا۔

    جذبات کا غلبہ

    ڈپریشن کے شکار افراد اکثر بہت کم جذبات کا مظاہرہ کرتے ہیں، مگر جب کرتے ہیں تو وہ حد سے زیادہ ہوتے ہیں، وہ اچانک چڑچڑے یا مشتعل ہوجاتے ہیں، ان کی جانب سے اداسی، ناامیدی، فکر یا ڈر جیسے جذبات بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔

    اپنے بارے میں لاپرواہ ہوجانا

    ایسے افراد جو اپنے بارے میں لاپرواہ ہوجاتے ہیں، یہ بھی ڈپریشن اور خود اعتمادی کی کمی کی نشانی ہوسکتی ہے۔ ایسے افراد میں مختلف نشانیاں جیسے دانتوں کو برش نہ کرنا، امتحانات کو چھوڑ دینا یا کسی بیماری کا علاج نہ کروانا شامل ہے۔

    ڈپریشن کے علاج کے بعد لوگ پھر سے خود پر توجہ دینے لگتے ہیں۔

  • وہ غذائیں جو ڈپریشن سے بچا سکتی ہیں

    وہ غذائیں جو ڈپریشن سے بچا سکتی ہیں

    اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اس وقت دنیا میں ہر 3 میں سے 1 شخص ڈپریشن کا شکار ہے تاہم اس کے بارے میں شعور و آگاہی بے حد کم ہے۔

    حال ہی میں بین الاقوامی ماہرین نے ڈپریشن کے حوالے سے کچھ نئی تحقیق کی ہیں۔

    ماہرینِ نفسیات کے مطابق ڈپریشن کسی کو بھی ہوسکتا ہے، اگر آپ کا روزمرہ کے کاموں میں دل نہیں لگتا، آپ بہت اداس، مایوس یا بیزار رہتے ہیں یا گھبراہٹ، بے چینی اور بے بسی کا شکار رہتے ہیں تو آپ بھی ڈپریشن کا شکار ہیں۔

    ماہرین کے مطابق ڈپریشن بھی ایک باقاعدہ بیماری ہے، اس کی دیگر علامات میں ٹھیک سے نیند نہ آنا، بھوک نہ لگنا یا وزن میں کمی، فیصلہ کرنے کی صلاحیت اور توجہ و یاداشت کی کمی جیسے مسائل بھی شامل ہیں یہاں تک کہ اس بیماری کا شکار لوگ اپنی جان لینے کے بارے میں بھی سنجیدگی سے سوچنے لگتے ہیں۔

    ماہرین نفسیات نے دماغی، نفسیاتی اور اعصابی سکون اور توانائی حاصل کرنے کے لیے قیمتی مشورے دیے ہیں۔

    تحقیق کے مطابق سبزے، درخت اور پرسکون قدرتی مقامات دماغی سکون کا باعث ہوتے ہیں اور ان کے اثرات کئی ہفتوں تک برقرار رہتے ہیں۔

    اکثر لوگ کسی نہ کسی بات پر پریشانی کا شکار ہو کر مایوس ہوجاتے ہیں، ایسی صورتحال میں انہیں چاہیئے کہ وہ اہل خانہ اور دوستوں سے رابطہ کریں کیوں کہ حوصلہ افزا اور تسلی بخش جملے آپ کے لیے فائدہ مند ثابت ہوں گے اور آپ کا اعتماد بڑھے گا۔

    کیا ڈپریشن سے بچنا ممکن ہے؟

    آپ بھی کسی شخص کو ڈپریشن سے بچا سکتے ہیں، ڈپریشن کے شکار شخص سے پوچھا جائے کہ وہ کس مشکل کا شکار ہے اور کیا اسے کسی قسم کی مدد درکار ہے۔

    اگر آپ کسی کے بارے میں جان لیں کہ وہ ڈپریشن کا شکار ہے، تو بہتر ہوگا کہ آپ ان پر نظر رکھیں اور انہیں مائل کریں کہ وہ کسی ماہر نفسیات یا پروفیشنل سے مدد لینے پر مان جائیں لیکن اگر وہ ایسا کرنے سے گریز کرتے ہیں تو آپ خود جا کر کسی معالج سے مشورہ کر سکتے ہیں اور پوچھ سکتے ہیں کہ اس صورت میں آپ کو کیا کرنا چاہیئے۔

    ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کے علاوہ آپ دیگر ذرائع جیسا کہ انٹرنیٹ وغیرہ سے بھی معلومات اکھٹی کرسکتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق کسی بھی بیماری کی شدت فراغت کے سبب زیادہ محسوس ہوتی ہے، اس کے بر عکس اگر انسان کسی نہ کسی کام میں خود کو ذہنی اور جسمانی طور پر مصروف رکھے گا تو اس سے اس بیماری کی شدت میں کمی واقع ہوگی۔

    اگر انسان دن کے 24 گھنٹوں کو ایک نظم و ضبط کے ساتھ ترتیب دے تو اس سے اس کو اس بیماری کا مقابلہ کرنے کی طاقت مل سکتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اللہ تعالی نے کچھ پھلوں میں یہ تاثیر رکھی ہے کہ ان کے استعمال سے موڈ بہتر ہوتا ہے اور ایسے ہارمون جو ڈپریشن کا باعث بنتے ہیں، ان کا لیول تیزی سے کم ہوتا ہے۔

    خاص طور پر رس والے پھل جن میں انگور، کینو وغیرہ شامل ہیں، ڈپریشن کا مقابلہ کرنے کی طاقت دیتے ہیں۔

    ڈپریشن سے بچانے والی غذائیں

    ماہرین کے مطابق مندرجہ ذیل غذائیں ڈپریشن سے بچا سکتی ہیں۔

    وٹامن سی: ترنجی پھل، ہری سبزیاں اور دیگر پھل اور سبزیاں۔

    وٹامن ڈی: مچھلی، جھینگے، انڈے اور دودھ، پھلوں کے رس اور اناج سے بنی مصنوعات۔

    بی وٹامنز: سرخ گوشت، مچھلی، انڈے، دودھ کی مصنوعات، دلیہ اور پتوں والی ہری سبزیاں۔

    میگنیشیم، سیلینیم اور زنک: خشک میوے، بیج، دلیہ، ہری سبزیاں اور مچھلی۔

    کاربوہائیڈریٹس: بھوسی والی روٹیاں اور دلیہ، لال چاول، باجرا، پھلیاں اور نشاستہ دار سبزیاں، آلو، مکئی، مٹر۔

    بغیر چربی کا سرخ گوشت، مرغی کا گوشت، انڈے اور پھلیاں۔

    اومیگا 3 فیٹی ایسڈز: مچھلیاں، اخروٹ، گوبھی، پالک، گرما، کنولا اور السی کا تیل۔

    اومیگا 6 فیٹی ایسڈز: مرغی، انڈے، اناج اور سبزیوں کڈا تیل۔