Tag: depression

  • ڈپریشن سے ہمارے جسم میں کیا تبدیلیاں آتی ہیں؟

    ڈپریشن سے ہمارے جسم میں کیا تبدیلیاں آتی ہیں؟

    ڈپریشن دنیا بھر میں انتہائی عام ایک دماغی عارضہ ہے جو کسی انسان کی سوچنے سمجھنے اور کام کرنے کی صلاحیتوں کو متاثر کرتا ہے، ڈپریشن صرف دماغی ہی نہیں بلکہ جسمانی اثرات بھی مرتب کرتا ہے۔

    طبی ماہرین کے مطابق ڈپریشن لاحق ہونے اور ڈپریسڈ محسوس کرنے میں فرق ہے۔

    ہر انسان کی روزمرہ زندگی میں ایسے لمحات آتے ہیں جب وہ تناؤ یا اداسی محسوس کرتا ہے، جیسے امتحان میں فیل ہونا، ملازمت چلی جانا، کسی سے جھگڑا ہوجانا یا یونہی ابر آلود موسم میں بھی اداسی محسوس ہوسکتی ہے۔

    بعض اوقات ڈپریسڈ محسوس ہونے کی کوئی خاص وجہ نہیں بھی ہوتی، تاہم یہ عارضی کیفیت ہوتی ہے اور ماحول یا حالت تبدیل ہوتے ہی غائب ہوجاتی ہے۔

    کلینیکل ڈپریشن باقاعدہ ایک عارضہ ہے جو کم از کم 2 ہفتے تک لاحق رہ سکتا ہے۔ اس کی سب سے عام علامات کام کرنے اور کھیلنے کودنے کی صلاحیت متاثر ہونا ہے۔

    اس کے علاوہ بھی اس کی کئی علامات ہیں، جیسے بجھی بجھی سی طبیعت رہنا، اپنے پسندیدہ کاموں میں دل نہ لگنا، بھوک میں تبدیلی، نیند کم آنا یا بہت زیادہ آنا، اپنے آپ کو بے مصرف خیال کرنا، توجہ مرکوز کرنے میں مشکل ہونا، بے آرامی اور بے چینی محسوس کرنا، کوئی کام کرنے کا دل نہ چاہنا اور انتہائی صورتحال میں خودکش خیالات آنا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آپ کو ان میں سے کوئی 5 علامات بھی محسوس ہورہی ہیں تو آپ ڈپریشن کا شکار ہیں۔

    طبی ماہرین کے مطابق ڈپریشن صرف احساسات و کیفیات کی تبدیلی کا نام نہیں، یہ ہمارے جسم میں بھی باقاعدہ تبدیلیاں لاتا ہے۔

    ڈپریشن کا شکار اگر کسی شخص کے دماغ کا ایکسرے کیا جائے تو دماغ کے حصے فرنٹل لوب اور یادداشت سے تعلق رکھنے والے ہپوکیمپس کے حجم میں (عام انسان کی نسبت) تبدیلی دکھائی دے گی۔

    علاوہ ازیں ڈپریشن کچھ ہارمونز کے غیر معمولی طور پر زیادہ پیدا ہونے یا کم ہوجانے کا سبب بھی بنتا ہے۔ جیسے موڈ کو بہتر کرنے والے ہارمونز ڈوپامین اور سیروٹونن میں کمی اور نورپنیفرین نامی ہارمون کی زیادتی جو کسی ناخوشگوار صورتحال میں پیدا ہوتا ہے۔

    ڈپریشن سے تھائیرائیڈ ہارمونز بھی متاثر ہوتے ہیں، یہ ہارمونز جسم کی میٹابولک سرگرمی، دل، مسلز، اور نظام ہاضمہ کو کنٹرول کرتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ تاحال وہ ڈپریشن کی بنیادی وجہ دریافت نہیں کر سکے، اگر ڈپریشن کا شکار زیادہ سے زیادہ افراد ماہرین سے مدد طلب کریں تو انہیں اس مرض کو مزید سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے، اور اس کا مزید بہتر علاج ہوسکتا ہے۔

    تاہم یاد رہے کہ امریکی نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل ہیلتھ کے مطابق ڈپریشن کا شکار کسی شخص کو خود کو مدد لینے کے لیے راضی کرنے میں اوسطاً 10 سال کا عرصہ لگ جاتا ہے۔

  • مچھلی کے تیل کے کیپسول کیا واقعی ذہنی صحت کے لیے مفید ہیں؟

    مچھلی کے تیل کے کیپسول کیا واقعی ذہنی صحت کے لیے مفید ہیں؟

    امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ مچھلی کے تیل کے کیپسول کا استعمال ذہنی صحت کو کسی قسم کا فائدہ نہیں پہنچاتا کیونکہ اومیگا تھری فیٹی ایسڈز سے ذہنی بے چینی اور ڈپریشن پر نہ ہونے کے برابر یا کوئی اثرات مرتب نہیں ہوتے۔

    میساچوسٹس جنرل ہاسپٹل اور ہارورڈ میڈیکل اسکول کی مشترکہ تحقیق میں بتایا گیا کہ مچھل کے تیل کے سپلیمنٹس سے ڈپریشن کی روک تھام یا مزاج پر خوشگوار اثرات مرتب نہیں ہوتے۔

    اس تحقیق میں 18 ہزار سے زیادہ افراد کو شامل کیا گیا تھا جن کی عمریں 50 سال یا اس سے زیادہ تھی اور کسی میں ڈپریشن کی تشخیص نہیں ہوئی تھی۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ طویل المعیاد بنیادوں پر مچھلی کے تیل کے سپلیمنٹس کے استعمال سے ڈپریشن یا اس کی علامات کے خطرے میں کوئی کمی نہیں آئی اور نہ ہی مزاج کے معیار پر کسی قسم کے اثرات مرتب ہوئے۔

    درحقیقت تحقیق میں یہ دریافت کیا گیا کہ ان سپلیمنٹس کے استعمال سے ڈپریشن یا اس سے منسلک علامات کا خطرہ کچھ حد تک بڑھ گیا۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ ڈپریشن کے خطرے میں معمولی اضافہ بہت زیادہ نمایاں نہیں، مگر حقیقت تو یہ ہے کہ ان سپلیمنٹس سے مزاج پر کوئی فائدہ مند یا نقصان دہ اثرات مرتب نہیں ہوتے اور یہ نتیجہ ہم نے ان افراد کا 7 سال تک جائزہ لینے کے بعد نکالا۔

    اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل آف دی امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن میں شائع ہوئے۔

  • نئی نسل ڈپریسڈ جنریشن قرار

    نئی نسل ڈپریسڈ جنریشن قرار

    ذہنی صحت کے لیے کام کرنے والے عالمی اداروں نے نئی نسل کو ڈپریسڈ جنریشن قرار دیتے ہوئے ڈپریشن کی متعدد وجوہات کی طرف اشارہ کیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق انسانی حقوق کی تنظیم کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ 50 فیصد نوجوان غربت، بیروزگاری اور اقتصادی مشکلات کے سبب خودکشی کرتے ہیں جبکہ ماہرین نفسیات کے مطابق 80 فیصد نوجوان ڈپریشن کی وجہ سے خود کشی کر لیتے ہیں۔

    نفسیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ خود کشی کی بڑی وجوہات میں نفسیاتی امراض، غربت، بے روزگاری، منشیات کا استعمال، امتحان میں ناکامی، کم عمری کی شادی، گھریلو تشدد، طعنہ زنی، بےعزتی کا خوف اور منفی مقابلے کا رجحان بھی شامل ہیں۔

    دنیا کے تقریباً ہر ملک میں کسی نہ کسی صورت میں سماجی ناہمواری موجود ہے جس کی وجہ سے لوگ ذہنی انتشار کا شکار ہو رہے ہیں جس کا منطقی انجام خود کشی جیسے بہت بھیانک روپ میں بھی سامنے آ سکتا ہے۔

    مینٹل ہیلتھ ڈیلی نے خودکشی کے متعدد اسباب میں خاص طور پر 15 وجوہات کا ذکر کیا ہے، ان وجوہات میں ذہنی بیماریاں، ناخوشگوار تجربات، ایذا، ڈر، خوف، ناپختہ شخصیت، نشیلی ادویات کا استعمال، غذائی مسائل، بے روزگاری، اکیلا پن، رشتے اور تعلقات سے جڑے مسائل، جینیاتی امراض، خواہشات کی عدم تکمیل، جان لیوا امراض، دائمی جسمانی اور ذہنی درد و تکلیف، معاشی مسائل اور ڈاکٹرز کی جانب سے تجویز کردہ ادویات کی وجہ سے پیدا ہونے والی پیچیدگیاں وغیرہ شامل ہیں۔

    امتحان میں ناکامی، کم عمری کی شادی، گھریلو تشدد، طعنہ زنی، بے عزتی کا خوف، منفی مقابلے کا رجحان، گھریلو تشدد اور لڑائی کی کو بھی خود کشی کے اسباب میں شامل کیا جاتا ہے۔

    ڈپریشن سے چھٹکارا کیسے ممکن ہے؟

    پاکستانی معاشرے میں ذہنی امراض کے بارے میں آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے جس کی ایک بڑی وجہ ہمارا سماجی نظام ہے جہاں اولاد یا رشتوں سے زیادہ روایات، رسوم اور باہر والوں کی آرا کو اہمیت دی جاتی ہے۔

    ڈپریشن ایک مخصوص کیفیت کا نام ہے جس میں مریض خود کو تنہا، اداس اور ناکام تصور کرتا ہے، یہ مرض واقعات کے منفی رخ کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔

    اس کیفیت میں اگر مریض کو فیملی یا دوست و احباب کی طرف سے مناسب مدد نہ ملے اور بروقت علاج پر توجہ نہ دی جائے تو مریض کی ذہنی حالت بگڑنے لگتی ہے جو اس کی سوشل اور پروفیشنل زندگی دونوں کے لیے مہلک ہے۔

    عالمی اداروں کی جانب سے جاری کردہ رپورٹس کے مطابق سنہ 2011 کے بعد 18 سے 30 سال کی عمر کے نوجوانوں میں اس مرض کی شرح تشویش ناک حد تک بڑھ رہی ہے۔

    تاہم نئی نسل ڈپریسڈ جنریشن کیوں بنتی جارہی ہے؟ اس کی کچھ وجوہات درج ذیل ہیں۔

    جنریشن گیپ: ماہرین کے مطابق گزشتہ کچھ سال میں آنے والے ٹیکنالوجی کے طوفان نے نئی اور پرانی نسل کے درمیان بے تحاشہ فاصلہ پیدا کردیا ہے جس کی وجہ سے دونوں نسلوں کے درمیان گفت و شنید کی کمی پیدا ہوگئی ہے۔

    سوشل میڈیا: ڈپریشن کی ایک وجہ سوشل میڈیا بھی ہے جس پر لوگ اپنی مصنوعی شخصیات پیش کرتے ہیں نتیجتاً دیگر افراد احساس کمتری میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔

    اسمارٹ فونز کا زیادہ استعمال: موبائل فونز کے بہت زیادہ استعمال سے دماغ پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، قوت برداشت کم ہونے سے نوجوان نسل میں ڈپریشن کی شرح تیزی سے بڑھی ہے مگر ہم ان سے چھٹکارا حاصل کرنے کے بجائے سوشل میڈیا کے نشے میں مبتلا ہیں۔

  • ڈپریشن سے بچنا چاہتے ہیں تو یہ عادت اپنا لیں

    ڈپریشن سے بچنا چاہتے ہیں تو یہ عادت اپنا لیں

    ورزش کرنا اور جسمانی طور پر متحرک رہنا نہ صرف جسمانی صحت کے لیے بے حد فائدہ مند ہے اور کئی بیماریوں سے تحفظ فراہم کرسکتا ہے، بلکہ ذہنی صحت کی بہتری کے لیے بھی ضروری ہے۔

    حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق سے علم ہوا کہ ورزش دماغی صحت پر بھی یکساں مفید اثرات مرتب کرتی ہے۔

    لندن میں کی جانے والی اس تحقیق کے لیے ماہرین نے مختلف عمر کے افراد کا جائزہ لیا۔ ماہرین نے ان افراد کی دماغی صحت، ورزش کی عادت اور غذائی معمول کا جائزہ لیا۔

    ماہرین نے دیکھا کہ وہ افراد جو ہفتے میں چند دن ورزش یا کسی بھی جسمانی سرگرمی میں مشغول رہے ان کی دماغی کیفیت ورزش نہ کرنے والوں کی نسبت بہتر تھی۔

    تحقیق کے نتائج سے علم ہوا ورزش، جسمانی طور پر فعال رہنا یا کسی کھیل میں حصہ لینا ڈپریشن اور تناؤ میں 43 فیصد کمی کرتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق ورزش دماغ کو طویل عرصے تک جوان رکھتی ہے جس سے بڑھاپے میں الزائمر اور یادداشت کے مسائل سے بھی تحفظ ملتا ہے۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ باقاعدگی سے ورزش کرنا دماغ کو طویل مدت تک صحت مند رکھتا ہے اور دماغ کو مختلف الجھنوں اور بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے۔

  • کون سی خوراک  ڈپریشن کا علاج کر سکتی ہے؟ جانئے

    کون سی خوراک ڈپریشن کا علاج کر سکتی ہے؟ جانئے

    لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ غذائیت سے بھرپور خوراک آپ کی ذہنی صحت کا بھی تحفظ کرتی ہے؟، ایک صحت مند جسم کے لیے اچھی خوراک بہت ضروری بلکہ اہم ترین چیزوں میں سے ایک ہے۔ پھلوں، سبزیوں، دلیے، پھلیوں، کم چکنائی کے حامل دودھ کی مصنوعات اور بغیر چربی کے گوشت پر مشتمل خوراک جسمانی صحت کو درپیش کئی خطرات کو گھٹانے میں مدد دیتی ہے۔

    یہ کہنا آسان نہیں کہ کھانے یا پینے کی کون سی چیز آپ کے ڈپریشن کا علاج کر سکتی ہے، لیکن یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ مجموعی طور پر غذائیت سے بھرپور اچھی خوراک آپ کی ذہنی صحت کے لیے بھی مفید ہے، آپ کے دماغ کو بہترین حالت میں
    رکھنے کے لیے ان چیزوں کا استعمال ضروری ہیں۔

    حیاتین اور معدنیات
    حیاتین اور معدنیات آپ کی دماغی صحت میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں، خاص طور پر حیاتین یعنی وٹامنز آپ کے دماغ کے لیے اہم ہیں وٹامن سی ، وٹامن ڈی اور بی وٹامنز، اس کے علاوہ بھرپور انداز میں کام کرنے کے لیے دماغ کو ان معدنیات (منرلز) کی ضرورت بھی ہوتی ہے: میگنیشیم، سیلینیم اور زنک وغیرہ۔

    نشاستہ
    نشاستہ یعنی کاربوہائیڈریٹس آپ کے دماغ کو تقویت پہنچانے کے کچھ کام انجام دیتا ہے، بنیادی طور پر آپ کا دماغ توانائی کے لیے گلوکوز پر انحصار کرتا ہے، شکر آپ کی خوراک میں موجود نشاستہ دار غذائیت سے ہی نکلتی ہے، اس کے علاوہ نشاستہ ہی آپ کو خوشی کا احساس دینے والے نیوروٹرانسمٹر سیروٹونن کی پیداوار بڑھانے میں بھی مدد دیتا ہے۔

    آپ کا جسم مصنوعی طور پر بنائی گئی میٹھی چیزوں میں پائے جانے والے عام نشاستے کے مقابلے میں ان قدرتی اشیاء میں موجود نشاستے کو زیادہ آہستگی سے گلوکوز میں تبدیل کرتا ہے، یوں مرکب نشاستہ آپ کو دماغ کو ایندھن فراہم کرنے کا ایک زیادہ مضبوط اور مستقل طریقہ دیتا ہے۔

    ضروری غذائیت
    جس طرح کھانے پینے کی اشیا جسم کے دیگر اعضا پر اثر انداز ہوتی ہیں، اسی طرح دماغ پر ان پر مختلف ردعمل دکھاتا ہے، اسے کچھ حیاتین، معدنیات اور دوسری غذائیت سے بھرپور اشیاء کی ضرورت ہوتی ہے۔،اگر آپ کا دماغ ضروری غذائیت سے محروم ہو تو یہ درست کام نہیں کر سکتا، یوں خدشہ ہے کہ آپ کو ذہنی صحت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑجائے۔

    امینو ایسڈز

    امینو ایسڈز دراصل لحمیات یعنی پروٹینز ہیں، یہ آپ کے دماغ میں نیوروٹرانسمٹرز کی پیداوار کے لیے ضروری ہیں، یہ کیمیائی پیامبر کی ایک قسم ہیں جو آپ کے اعصابی خلیات کے درمیان سگنلز لے جاتے ہیں، مثال کے طور پر سیروٹونن ہی کو لے لیں جو ایک نیوروٹرانسمٹر ہے جو خوشی کا احساس دیتا ہے۔ یہ امینو ایسڈ ٹرپٹافون سے بنتا ہے۔ ڈوپامائن بھی ایک نیوروٹرانسمٹر ہے جو آپ کو خود کو مستعد اور آمادہ محسوس کرنے میں مدد دیتا ہے، یہ امینو ایسڈ فلالائن سے بنتا ہے، آپ کا جسم آپ کی خوراک سے ہی یہ امینو ایسڈز جذب کرتا ہے۔

    فیٹی ایسڈز

    فیٹی ایسڈز بھی آپ کی دماغی صحت کے لیے بہت اہم ہیں، دماغ کا بڑا حصہ چکنائی سے بنا ہوتا ہے، جس میں اومیگا تھری اور اومیگا سکس فیٹی ایسڈز شامل ہیں، آپ کا جسم خود سے یہ فیٹی ایسڈز نہیں بنا سکتا بلکہ یہ آپ کی استعمال کردہ خوراک سے ہی انہیں جذب کرتا ہے۔

    پانی

    دماغ کے لیے آخری اہم چیز پانی ہے، ہمارے دماغ کا سب سے بڑا حصہ پانی پر ہی مشتمل ہے، پانی میں معمولی سی کمی بھی آپ کو ذہنی صحت کے مسائل سے دوچار کر سکتی ہے، جیسا کہ چڑچڑا پن اور توجہ کے ارتکاز میں کمی وغیرہ۔

    کون سی خوراک استعمال کریں؟

    وٹامن سی: ترنجی پھل، ہری سبزیاں اور دیگر پھل اور سبزیاں

    وٹامن ڈی: مچھلی، جھینگے، انڈے اور دودھ، پھلوں کے رس اور اناج سے بنی مصنوعات

    بی وٹامنز: سرخ گوشت، مچھلی، انڈے، دودھ کی مصنوعات، دلیہ اور پتوں والی ہری سبزیاں

    میگنیشیم، سیلینیم اور زنک: خشک میوے، بیج، دلیہ، ہری سبزیاں اور مچھلی

    کاربوہائیڈریٹس: بھوسی والی روٹیاں اور دلیہ، لال چاول، باجرا، پھلیاں اور نشاستہ دار سبزیاں ، آلو، مکئی،مٹر

    بغیر چربی کا سرخ گوشت، مرغی کا گوشت، انڈے اور پھلیاں

    بغیر چربی کا سرخ گوشت، مرغی، انڈے، دودھ کی مصنوعات، سویابین اور بیج

    اومیگا -3فیٹی ایسڈز: مچھلیاں، اخروٹ، گوبھی، پالک، گرما، کنولا اور السی کا تیل

    اومیگا -6فیٹی ایسڈز:مرغی، انڈے، اناج اور سبزیوں کا تیل

     

  • ڈپریشن کے بارے میں وہ غلط فہمیاں جن کی حقیقت جاننا ضروری ہے

    ڈپریشن کے بارے میں وہ غلط فہمیاں جن کی حقیقت جاننا ضروری ہے

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں ذہنی امراض تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور ذہنی امراض کی سب سے بڑی قسم ڈپریشن ہے، عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر 20 میں سے 1 شخص شدید قسم کے ڈپریشن کا شکار ہے۔

    دنیا بھر میں 26 کروڑ سے زائد افراد ڈپریشن کا شکار ہیں، یعنی دنیا کی 5 فیصد آبادی ڈپریشن کے زیر اثر ہے اور اس کے باعث نارمل زندگی گزارنے سے قاصر ہے۔ ڈپریشن کے علاوہ دیگر ذہنی امراض جیسے اینگزائٹی، بائی پولر ڈس آرڈر، شیزو فرینیا یا فوبیاز کا شکار افراد کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔

    دنیا کی ایک بڑی آبادی کے ذہنی امراض سے متاثر ہونے کے باوجود اس حوالے سے نہایت غیر محتاط، غیر حساس اور غیر ذمہ دارانہ رویہ دیکھنے میں آتا ہے۔

    ماہرین کا ماننا ہے کہ دماغی صحت کے حوالے سے معاشرے کا رویہ بذات خود ایک بیماری ہے جو کسی بھی دماغی بیماری سے زیادہ خطرناک ہے۔ ڈپریشن، ذہنی تناؤ اور دیگر نفسیاتی مسائل کا شکار افراد کو پاگل یا نفسیاتی کہنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگائی جاتی اور ان کا ایسے مضحکہ اڑایا جاتا ہے کہ لوگوں سے کٹ جانا، تنہائی اختیار کرلینا یا پھر خودکشی کرلینا ہی انہیں راہ نجات دکھائی دیتا ہے۔

    ذہنی امراض کے حوالے سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں بے حد غلط تصورات اور غلط فہمیاں موجود ہیں جنہیں دور کرنا بے حد ضروری ہے، آج یہاں پر ایسی ہی کچھ غلط فہمیوں کے بارے میں بات کی جارہی ہے۔

    غلط فہمی: ڈپریشن کو کسی علاج کی ضرورت نہیں

    عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ ڈپریشن کے لیے کسی علاج یا دوا کی ضرورت نہیں، یہ خود بخود ختم ہوجاتا ہے۔

    حقیقت

    اگر ہمیں بخار ہو، نزلہ زکام ہو، کیا کوئی اور تکلیف ہو تو ہم ڈاکٹر کے پاس جا کر دوا لیتے ہیں، تو پھر ڈپریشن کی دوا لینے میں کیا قباحت ہوسکتی ہے؟ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اگر ڈپریشن کا صحیح وقت پر علاج نہ کیا جائے تو یہ آگے چل کر سنگین صورت بھی اختیار کرسکتا ہے۔

    غلط فہمی: ماہر نفسیات کے پاس مت جاؤ، دنیا کیا کہے گی!

    دنیا کیا کہے گی، یہ وہ خیال ہے جو ذہنی امراض کا شکار افراد کی زندگی کو بدتر بنا دیتا ہے۔ ذہنی امراض کے بارے میں قائم غلط تصورات کے باعث اسے شرمناک سمجھا جاتا ہے اور ماہر نفسیات کے پاس جانا گویا کلنک کا ٹیکہ، جس کے بعد ماہر نفسیات کے پاس جانے والے معاشرے کی نظر میں سرٹیفائڈ نفسیاتی ہوجاتے ہیں۔

    حقیقت

    اگر ہم دل کی تکلیف کا شکار ہوں، تو ہم ہارٹ اسپیشلسٹ کے پاس جاتے ہیں۔ ناک، کان، یا گلے کی تکلیف کے لیے ای این ٹی اسپیشلسٹ کے پاس جایا جاتا ہے، کینسر کے علاج کے لیے کینسر اسپیشلسٹ سے رجوع کیا جاتا ہے جسے اونکولوجسٹ کہا جاتا ہے۔ تو پھر دماغی امراض کے علاج کے لیے ماہر نفسیات یا دماغی امراض سے ہی رجوع کیا جانا چاہیئے جو مرض کی درست تشخیص کر کے اسے ٹریٹ کرسکے۔

    غلط فہمی: ہر ذہنی و نفسیاتی مریض کو پاگل خانے جانا چاہیئے

    یہ ہمارے معاشرے میں پایا جانے والا وہ بدصورت رویہ ہے جو ذہنی امراض کا شکار افراد کی بیماری کو مزید سنگین بنا دیتا ہے۔

    ذہنی طور پر خطرناک حد تک بیمار افراد کے علاوہ بھی جب کسی شخص کا ڈپریشن حد سے زیادہ بڑھ جائے اور اس کیفیت میں وہ خود کو یا دوسروں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے تب بھی یہی خیال کیا جاتا ہے کہ ایسے شخص کو اب پاگل خانے میں داخل کروا دینا چاہیئے۔

    حقیقت

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر ذہنی مریض کی جگہ پاگل خانہ نہیں ہے، یہ افراد بالکل نارمل ہوتے ہیں اور ان کا علاج ایسے ہی ہوسکتا ہے جیسے دل کا مریض اپنا علاج بھی کرواتا رہے اور اس کے ساتھ ساتھ زندگی کی تمام سرگرمیوں و مصروفیات میں بھی بھرپور انداز سے حصہ لے۔

    غلط فہمی: اینٹی ڈپریسنٹ دوائیں اپنی لت میں مبتلا کردیتی ہیں

    یہ غلط فہمی بھی بہت سے لوگوں کو ماہر نفسیات کے پاس جانے سے روک دیتی ہے، اینٹی ڈپریسنٹ دواؤں کے بارے میں غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ یہ اپنی لت میں یا کسی قسم کے نشے میں مبتلا کردیتی ہیں اور ان کا استعمال ساری زندگی کرنا پڑ سکتا ہے۔

    یہ بھی کہا جاتا ہے یہ دوائیں لینے والے افراد سارا دن غنودگی کی کیفیت میں ہوتے ہیں۔

    حقیقت

    ماہرین کے مطابق ڈپریشن کے دوران ہمارے جسم میں سکون، خوشی اور اطمینان کی کیفیت پیدا کرنے والے ہارمون جیسے سیروٹونین کی کمی پیدا ہوجاتی ہے، یہ اینٹی ڈپریسنٹ اس کمی کو پورا کرتی ہیں۔

    یہ ایسا ہی ہے جیسے ہم جسم میں کیلشیئم کی کمی پورا کرنے کے لیے کیلشیئم کی گولیاں کھاتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ نیند کی کمی بھی ہمارے جسم اور دماغ کو بری طرح ڈسٹرب کرتی ہے اور ذہنی تناؤ میں اضافہ کرتی ہے، لہٰذا ڈپریشن کے شکار افراد کے لیے سب سے اہم نیند کا پورا ہونا ہے۔

    ڈپریشن کا شکار افراد کے اعصاب ریلیکس حالت میں نہیں ہوتے جبکہ وہ گہری اور پرسکون نیند لینے سے بھی قاصر رہتے ہیں لہٰذا یہ دوائیں ڈپریشن کا شکار شخص کے اعصاب کو ریلیکس کرتی ہیں جس سے اس کی نیند میں بہتری واقع ہوتی ہے۔ یہ مریض کے لیے نہایت ضروری ہے، طویل، پرسکون اور گہری نیند لینے کے ساتھ ڈپریشن میں کمی ہوتی جاتی ہے یوں اس شخص کی حالت میں بہتری آتی ہے۔

    ماہرین نفسیات کے مطابق شدید ڈپریشن کے مریض کو وہ ابتدا میں غشی آور ادویات ضرور استعمال کرواتے ہیں تاہم جیسے جیسے مریض کی نیند کا قدرتی لیول بحال ہونے لگتا ہے وہ ان دواؤں کی مقدار کم کرتے جاتے ہیں اور ایک وقت آتا ہے کہ ان دواؤں کی ضرورت ختم ہوجاتی ہے۔

    غلط فہمی: غذا کا ڈپریشن سے کوئی تعلق نہیں

    عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ غذا صرف ہمارے جسم پر اثر انداز ہوتی ہے، اور دماغ پر کسی قسم کے اثرات مرتب نہیں کرتی۔

    حقیقت

    ہم جو کھاتے ہیں اس کا اثر صرف ہمارے جسم پر ہی نہیں بلکہ دماغ، نفسیات اور موڈ پر بھی پڑتا ہے۔ جس طرح جنک فوڈ ہمارے جسم کو فربہ کر کے ہمیں بلڈ پریشر یا دل کا مریض بنا سکتے ہیں اسی طرح یہ دماغ کو بھی ڈسٹرب کرتے ہیں۔

    سائنس ڈیلی میں چھپنے والی ایک تحقیق کے مطابق جنک فوڈ کھانے کے عادی افراد میں ڈپریشن کا شکار ہونے کا خطرہ دیگر غذائیں کھانے والے افراد کی نسبت 51 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔

    جنک فوڈ اور غیر متوازن غذائیں ہمارے موڈ پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں اور ہمیں غصہ، چڑچڑاہٹ اور مایوسی میں مبتلا کرسکتی ہیں۔

    اس کے برعکس پھل اور سبزیاں کھانے کے عادی افراد ڈپریشن کا کم شکار ہوتے ہیں، آسٹریلیا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق پھل اور سبزیاں نہ صرف دماغی صحت کو بہتر بناتی ہیں اور دماغی کارکردگی میں اضافہ کرتی ہیں بلکہ یہ کسی انسان کو خوش باش بھی رکھتے ہیں۔

    غلط فہمی: ذہنی امراض کا شکار افراد سے دور رہا جائے

    جب ہمیں اپنے ارد گرد کسی شخص کے بارے میں علم ہوتا ہے کہ وہ ڈپریشن یا کسی اور ذہنی مرض کا شکار ہے تو ہم اس سے دور بھاگتے ہیں اور اس سے بات کرنے سے کتراتے ہیں، ہمیں یہ نہ صرف اپنے لیے بلکہ اس شخص کے لیے بھی مناسب محسوس ہوتا ہے کہ اسے اکیلا چھوڑ دیا جائے۔

    حقیقت

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈپریشن یا دیگر ذہنی امراض کا شکار افراد کو سب سے زیادہ ضرورت ان کے اپنوں اور دوستوں کی ہوتی ہے، ایسے افراد کا سب سے بڑا علاج اور سب سے بڑی مدد ان کی بات سننا ہے تاکہ ان کے دل کا غبار کم ہوسکے۔

    ایسے شخص کو اکیلا چھوڑنا اس کے مرض کو بڑھانے کا سبب بن سکتا ہے، دوستوں اور اہل خانہ کی سپورٹ اور ان کے ساتھ ہونے کا احساس مریض کو بتدریج نارمل زندگی کی طرف لے آتا ہے اور وہ اپنے ڈپریشن سے چھٹکارہ پا لیتا ہے۔


    اس مضمون کی تیاری میں مندرجہ ذیل ذرائع سے مدد لی گئی:

    عالمی ادارہ صحت

    عالمی ادارہ صحت / پاکستان

    کتابچے برائے ذہنی امراض: کراچی نفسیاتی اسپتال

  • کووڈ 19 کا ایک اور ذہنی نقصان سامنے آگیا

    کووڈ 19 کا ایک اور ذہنی نقصان سامنے آگیا

    کرونا وائرس جہاں ایک طرف تو مجموعی طور پر جسمانی صحت کو متاثر کرتا ہے، وہیں ذہنی صحت کو بھی اپنا نشانہ بناتا ہے، کووڈ کے مریضوں میں ڈپریشن کے مرض میں اضافہ دیکھا جارہا ہے۔

    حال ہی میں برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں پتہ چلا کہ کووڈ 19 کے مریضوں میں دیگر علامات کے ساتھ ڈپریشن کی شکایت بہت زیادہ عام ہوتی ہے۔

    تحقیق میں بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے 18 سے 81 سال کی عمر کے 1 ہزار سے زائد کووڈ مریضوں کو شامل کیا گیا تھا، جن کی حالت پر ستمبر اور اکتوبر 2020 کے دوران نظر رکھی گئی۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 48 فیصد افراد کو معتدل سے سنگین ڈپریشن کا سامنا ہوا، یہ خطرہ ایسے افراد میں زیادہ ہوتا ہے جن میں کووڈ کی علامات کا تسلسل برقرار رہے، اور جو کم آمدنی والے طبقے سے ہوں اور ان کی مجموعی صحت پہلے سے خراب ہو۔

    محققین کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا تھا کہ کووڈ 19 سے متاثر 20 فیصد امریکی مریضوں میں ڈپریشن کی بیماری بھی پیدا ہوگئی تھی، انہوں نے کہا کہ ہماری تحقیق سے انکشاف ہوتا ہے کہ درحقیقت یہ شرح کووڈ 19 کے مریضوں میں کافی زیادہ ہوتی ہے۔

    تحقیق میں شامل ہر 5 میں سے ایک مریض نے مختلف علامات کی بدستور موجودگی کو رپورٹ کیا جن میں سب سے عام ہیضہ اور تھکاوٹ جیسی علامات تھیں۔ ایک چوتھائی افراد نے طبی ماہرین سے رجوع کرنے کی بجائے اپنا علاج بازاروں میں دستیاب ادویات سے کرنے کی کوشش کی۔

    اس سے قبل جنوری 2021 میں سنگاپور میں ہونے والی ایک تحقیق میں بھی بتایا گیا تھا کہ ہر 3 میں سے ایک بالغ فرد بالخصوص خواتین، جوان اور غریب طبقے سے تعلق رکھنے والوں کو کووڈ 19 کے نتیجے میں ذہنی مسائل کا سامنا ہو رہا ہے۔

    تحقیق کے مطابق کووڈ 19 کی وبا دنیا بھر میں اب بھی تیزی سے پھیل رہی ہے جس کی روک تھام کے لیے لاک ڈاؤنز، قرنطینہ اور سماجی دوری کے اقدامات کیے جارہے ہیں، جس سے لوگوں کی ذہنی صحت پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔

  • دماغی صحت کا عالمی دن: پاکستان میں ہر 3 میں سے 1 شخص ڈپریشن کا شکار

    دماغی صحت کا عالمی دن: پاکستان میں ہر 3 میں سے 1 شخص ڈپریشن کا شکار

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں دماغی صحت کا عالمی دن منایا جارہا ہے، دنیا بھر میں 1 ارب کے قریب افراد کسی نہ کسی دماغی عارضے کا شکار ہیں۔

    دماغی صحت کا عالمی دن منانے کا آغاز سنہ 1992 سے کیا گیا جس کا مقصد عالمی سطح پر ذہنی صحت کی اہمیت اور دماغی رویوں سے متعلق آگاہی بیدار کرنا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں 1 ارب کے قریب افراد کسی نہ کسی دماغی عارضے کا شکار ہیں۔

    مختلف دماغی امراض میں سب سے عام مرض ڈپریشن اور اینگزائٹی ہیں جو بہت سی دیگر بیماریوں کا بھی سبب بنتے ہیں۔ ہر سال عالمی معیشت کو ان 2 امراض کی وجہ سے صحت کے شعبے میں 1 کھرب ڈالرز کا نقصان ہوتا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق ذہنی مسائل کا شکار افراد کے ساتھ تفریق برتنا، غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا اور ایسے افراد کو مزید تناؤ زدہ حالات سے دو چار کرنا وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے دماغی صحت میں بہتری کے اقدامات کے نتائج حوصلہ افزا نہیں۔

    مختلف ممالک اپنے کل بجٹ کا اوسطاً صرف 2 فیصد ذہنی صحت پر خرچ کر رہے ہیں۔

    ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں بھی 5 کروڑ افراد ذہنی امراض کا شکار ہیں جن میں بالغ افراد کی تعداد ڈیڑھ سے ساڑھے 3 کروڑ کے قریب ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہم میں سے ہر تیسرا شخص ڈپریشن کا شکار ہے۔

  • دماغی صحت کا عالمی دن: ہر 40 سیکنڈ بعد کسی کی زندگی کی ڈور ٹوٹ جاتی ہے

    دماغی صحت کا عالمی دن: ہر 40 سیکنڈ بعد کسی کی زندگی کی ڈور ٹوٹ جاتی ہے

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں دماغی صحت کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 45 کروڑ افراد کسی نہ کسی دماغی عارضے میں مبتلا ہیں۔

    سنہ 1992 سے آغاز کیے جانے والے اس دن کا مقصد عالمی سطح پر ذہنی صحت کی اہمیت اور دماغی رویوں سے متعلق آگاہی بیدار کرنا ہے۔ رواں برس اس دن کا مرکزی خیال خودکشی سے بچاؤ ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر 40 سیکنڈ بعد کہیں نہ کہیں، کوئی نہ کوئی شخص ذہنی تناؤ کے باعث اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں 45 کروڑ افراد کسی نہ کسی دماغی عارضے میں مبتلا ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جو خودکشی کے مرتکب ہوسکتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق پاکستان میں بھی 5 کروڑ افراد ذہنی امراض کا شکار ہیں جن میں بالغ افراد کی تعداد ڈیڑھ سے ساڑھے 3 کروڑ کے قریب ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہم میں سے ہر تیسرا شخص ڈپریشن کا شکار ہے۔

    ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کچھ عام ذہنی امراض ہیں جو تیزی کے ساتھ ہمیں اپنا نشانہ بنا رہے ہیں۔ آئیں ان کے بارے میں جانتے ہیں۔

    ڈپریشن

    ڈپریشن ایک ایسا مرض ہے جو ابتدا میں موڈ میں غیر متوقع تبدیلیاں پیدا کرتا ہے۔ بعد ازاں یہ جسمانی و ذہنی طور پر شدید طور پر متاثر کرتا ہے۔

    علامات

    ڈپریشن کی عام علامات یہ ہیں۔

    مزاج میں تبدیلی ہونا جیسے اداسی، مایوسی، غصہ، چڑچڑاہٹ، بے زاری، عدم توجہی وغیرہ

    منفی خیالات کا دماغ پر حاوی ہوجانا

    ڈپریشن شدید ہونے کی صورت میں خودکش خیالات بھی آنے لگتے ہیں اور مریض اپنی زندگی کے خاتمے کے بارے میں سوچتا ہے۔

    موڈ میں تبدیلیاں لانے والے ایک اور مرض بائی پولر ڈس آرڈر کے پھیلاؤ میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

    اینگزائٹی یا پینک

    اینگزائٹی یعنی بے چینی اور پینک یعنی خوف اس وقت ذہنی امراض کی فہرست میں ڈپریشن کے بعد دوسرا بڑا مسئلہ ہے۔

    اس ڈس آرڈر کا تعلق ڈپریشن سے بھی جڑا ہوا ہے اور یہ یا تو ڈپریشن کے باعث پیدا ہوتا ہے، یا پھر ڈپریشن کو جنم دیتا ہے۔

    علامات

    اس مرض کی علامات یہ ہیں۔

    بغیر کسی سبب کے گھبراہٹ یا بے چینی

    کسی بھی قسم کا شدید خوف

    خوف کے باعث ٹھنڈے پسینے آنا، دل کی دھڑکن بڑھ جانا، چکر آنا وغیرہ

    بغیر کسی طبی وجہ کے درد یا الرجی ہونا

    اینگزائٹی بعض اوقات شدید قسم کے منفی خیالات کے باعث بھی پیدا ہوتی ہے اور منفی خیالات آنا بذات خود ایک ذہنی پیچیدگی ہے۔

    مزید پڑھیں: اینگزائٹی سے بچنے کے لیے یہ عادات اپنائیں

    کنورزن ڈس آرڈر

    دماغی امراض کی ایک اور قسم کنورزن ڈس آرڈر ہے جس میں مختلف طبی مسائل نہایت شدید معلوم ہوتے ہیں۔

    مثال کے طور پر اگر آپ کے پاؤں میں چوٹ لگی ہے تو آپ سمجھیں گے یہ چوٹ بہت شدید ہے اور اس کی وجہ سے آپ کا پاؤں مفلوج ہوگیا ہے۔

    یہ سوچ اس قدر حاوی ہوجائے گی کہ جب آپ اپنا پاؤں اٹھانے کی کوشش کریں گے تو آپ اس میں ناکام ہوجائیں گے اور پاؤں کو حرکت نہیں دے سکیں گے، کیونکہ یہ آپ کا دماغ ہے جو آپ کے پاؤں کو حرکت نہیں دے رہا۔

    لیکن جب آپ ڈاکٹر کے پاس جائیں گے تو آپ کو علم ہوگا کہ آپ کے پاؤں کو لگنے والی چوٹ ہرگز اتنی نہیں تھی جو آپ کو مفلوج کرسکتی۔ ڈاکٹر آپ کو چند ایک ورزشیں کروائے گا جس کے بعد آپ کا پاؤں پھر سے پہلے کی طرح معمول کے مطابق کام کرے گا۔

    اس ڈس آرڈر کا شکار افراد کو مختلف جسمانی درد اور تکالیف محسوس ہوتی ہیں۔ ایسا نہیں کہ وہ تکلیف اپنا وجود نہیں رکھتی، لیکن دراصل یہ مریض کے دماغ کی پیدا کردہ تکلیف ہوتی ہے جو ختم بھی خیال کو تبدیل کرنے کے بعد ہوتی ہے۔

    خیالی تصورات

    ذہنی امراض کی ایک اور قسم خیالی چیزوں اور واقعات کو محسوس کرنا ہے جسے سائیکوٹک ڈس آرڈر کہا جاتا ہے۔

    اس میں مریض ایسے غیر حقیقی واقعات کو ہوتا محسوس کرتا ہے جن کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں ہوتا۔ اس مرض کا شکار افراد کو غیر حقیقی اشیا سنائی اور دکھائی دیتی ہیں۔

    اسی طرح ان کے خیالات بھی نہایت نا معقول قسم کے ہوجاتے ہیں جن کا حقیقی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

    اوبسیسو کمپلزو ڈس

    او سی ڈی کے نام سے جانا جانے والا یہ مرض کسی ایک خیال یا کام کی طرف بار بار متوجہ ہونا ہے۔

    اس مرض کا شکار افراد بار بار ہاتھ دھونے، دروازوں کے لاک چیک کرنے یا اس قسم کا کوئی دوسرا کام شدت سے کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔

    بعض بین الاقوامی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اس دماغی عارضے کا شکار ہیں۔

  • ذہنی دباؤ کے سبب طلبا نفسیاتی اسپتال میں داخلے کی اسٹیج پر

    ذہنی دباؤ کے سبب طلبا نفسیاتی اسپتال میں داخلے کی اسٹیج پر

    آج کل ذہنی تناؤ اور ڈپریشن ایک نہایت عام شے بن گئی ہے اور ہر دوسرا شخص اس کا شکار نظر آتا ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں ماہرین کا کہنا ہے کہ آج کے ایک اوسط طالب علم کو ہونے والا ذہنی تناؤ ایسا ہے جیسا نصف صدی قبل باقاعدہ دماغی امراض کا شکار افراد میں ہوا کرتا تھا۔

    ماہرین کے مطابق ذہنی دباؤ نے آج کل کے نوجوانوں کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے اور اس کی وجہ کیریئر کے لیے بھاگ دوڑ، اچھی تعلیم کے لیے جدوجہد اور تعلیمی میدان میں کامیابی حاصل کرنا ہے۔

    ان کے مطابق آج کل کے ایک اوسط طالب علم میں موجود ذہنی دباؤ اور اینگزائٹی کی سطح بالکل وہی ہے جیسی سنہ 1950 میں دماغی امراض کا شکار ایسے افراد میں ہوا کرتی تھی جنہیں باقاعدہ دماغی امراض کے اداروں میں داخل کروایا دیا جاتا تھا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر گزرتی دہائی کے ساتھ لوگوں میں ڈپریشن کی سطح میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، اور نوجوان اس سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ ہمارے طرز زندگی میں تبدیلی آنا ہے۔

    ہم پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ تنہائی پسند ہوگئے ہیں۔ ہم اپنا زیادہ تر وقت اسمارٹ فون کے ساتھ اور سوشل میڈیا پر گزارتے ہیں اور سماجی و مذہبی سرگرمیوں میں شرکت کرنے سے گریز کرتے ہیں، ہم شادی بھی دیر سے کرتے ہیں۔

    ہم اپنی زندگی میں بہت کچھ چاہتے ہیں جیسے دولت اور بہترین لائف پارٹنر، لیکن اس کے لیے ہمارے پاس غیر حقیقی تصورات ہیں اور ہم حقیقت پسند ہو کر نہیں سوچتے۔

    ہمارے ڈپریشن کو بڑھانے والی ایک اور اہم وجہ یہ ہے کہ ہم دن بھر بری خبریں دیکھتے، سنتے اور پڑھتے ہیں۔ ہم دنیا میں کہیں نہ کہیں جنگوں اور حادثات کے بارے میں پڑھتے ہیں اور ہمارے ذہن میں یہ خیال جنم لیتا ہے کہ دنیا رہنے کے لیے ایک خطرناک جگہ ہے۔

    ماہرین کے مطابق جیسے جیسے دنیا آگے بڑھتی جائے گی اور ترقی کی رفتار تیز ہوتی جائے گی ہمارے اندر ڈپریشن اور اینگزائٹی کی سطح میں بھی اضافے کا امکان ہے۔