Tag: desert

  • صحرا میں ٹریفک سگنلز کیوں لگانے پڑے؟

    صحرا میں ٹریفک سگنلز کیوں لگانے پڑے؟

    کسی بھی کام کو بہتر انداز میں سرانجام دینے کیلئے قوانین کا ہونا اور اس پر عمل درآمد ایک لازمی امر ہے اگر متعلقہ حکام یہ قوانین لاگو کرنے میں‌ ناکام رہیں تو معاشرہ افراتفری کا شکار ہوجائے گا۔

    مئی کے مہینے میں چین کے صحرا میں اونٹ کی سواری ایک مقبول تفریح ہے، جہاں مقامی افراد اور دنیا بھر سے آنے والے ہزاروں سیاحوں کی بڑی تعداد موجود ہوتی ہے۔

    صحرا

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق منگشا ماؤنٹین اور کریسنٹ اسپرنگ کی انتظامیہ نے اس تپتے ہوئے صحرا میں ٹریفک سگنلز نصب کردیے ہیں۔ اس اقدام کا مقصد اونٹوں کی نقل و حرکت میں روانی ہے۔

    ہرسال اس علاقے میں اونٹوں پر سوار ہوکر ریگستان کے مخصوص علاقے منگشا ماؤنٹینز کی سیر کرنا سیاحوں کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔

    ریگستان

    لوگوں کی پسندیدگی کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ سال سالانہ چھٹیوں کے پہلے روز 10 ہزار سے زائد سیاح اونٹوں کی سواری کے لیے یہاں آئے جبکہ رواں سال ان کی تعداد 20 ہزار یومیہ تک جا پہنچی۔

    ان میں سے بہت سے لوگوں نے قدیم شاہراہ ریشم پر سفر کیا جبکہ چند ہزار لوگوں نے اونٹوں پر سوار ہوکر کر ان مناظر سے لطف اندوز ہونے کا فیصلہ کیا اور رش کی وجہ سے راستے میں ٹریفک جام ہو گیا۔

  • وسیع و عریض جھیل خشک صحرا میں بدل گئی

    وسیع و عریض جھیل خشک صحرا میں بدل گئی

    سان تیاگو: جنوبی امریکی ملک چلی میں وسیع و عریض جھیل خشک ہوگئی، ملک میں کم بارشیں اس خشک سالی کی وجہ بنیں۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق 13 سال سے بدترین خشک سالی کے شکار جنوبی امریکی ملک چلی میں وسیع رقبے پر پھیلی جھیل اب صحرا میں تبدیل ہو چکی ہے۔

    وسطی چلی میں پینولاس ریزروائر 20 سال پہلے تک والپرائیسو شہر کے لیے پانی کا بنیادی ذریعہ تھا جس میں 38 ہزار اولمپک سائز کے سوئمنگ پولز کے لیے کافی پانی موجود تھا لیکن اب صرف دو تالابوں کا پانی باقی رہ گیا ہے۔

    خشک زمین جہاں پہلے جھیل ہوا کرتی تھی اب وہاں مچھلی کے ڈھانچے ملتے ہیں یا پانی کی تلاش میں مایوس جانور، تاریخی 13 سالہ خشک سالی کی وجہ سے اس جنوبی امریکی ملک میں بارش انتہائی کم ہوتی ہے۔

    خشک سالی نے دنیا کے سب سے بڑے تانبا پیدا کرنے والے ملک میں کان کی پیداواری صلاحیت کو متاثر کیا ہے۔

    خشک سالی نے نہ صرف لیتھیم اور کاشت کاری کے لیے پانی کے استعمال پر کشیدگی کو ہوا دی ہے بلکہ دارالحکومت سان تیاگو کو ممکنہ پانی کی تقسیم کے لیے منصوبے بنانے پر مجبور کیا ہے۔

    54 سالہ شہری امندا کاراسکو کا کہنا ہے کہ ہمیں خدا سے التجا کرنا پڑتی ہے کہ وہ ہمیں پانی بھیجے، میں نے ایسا کبھی نہیں دیکھا۔ پہلے بھی کم پانی آتا تھا لیکن ایسی صورتحال نہیں تھی۔

    والپرائیسو کو پانی فراہم کرنے والی کمپنی کے جنرل مینیجر جوز لوئس موریلو کا کہنا ہے کہ بنیادی طور پر ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ صرف ایک تالاب ہے، شہر اب دریاؤں پر انحصار کرتا ہے۔

    ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ خشک سالی کے اس مسئلے کی وجہ آب و ہوا کے پیٹرن میں تبدیلی ہے۔

    ایک عالمی تحقیق کے مطابق قدرتی طور پر چلی کے ساحل کے قریب سمندر کی گرمی میں، جو طوفانوں کو آنے سے روکتی ہے، عالمی سطح پر سمندر کے درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے شدت آگئی ہے۔

    انٹارکٹک کے موسم کو متاثر کرنے والے عوامل پر تحقیق کے مطابق انٹارکٹک میں اوزون کی تہہ میں کمی اور گرین ہاؤس گیسیں موسم کے پیٹرن میں تبدیلی کی وجہ بنتی ہیں جو طوفانوں کو چلی سے دور لے جاتی ہیں۔

  • صحرا نے برف کی چادر اوڑھ لی

    صحرا نے برف کی چادر اوڑھ لی

    شمالی افریقی ملک الجزائر کے صحرائے کبریٰ نے تاحد نگاہ برف کی چادر تان لی ہے، گزشتہ 40 سال میں یہ منظر پانچویں مرتبہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق الجزائری فوٹو گرافر کریم بوشتاتہ نے انسٹاگرام پر صحرائے کبریٰ کے علاقے عین الصفرا کی تصاویر شیئر کی ہیں۔

    صحرائے کبریٰ انتہائی گرم علاقہ ہے جو کم و بیش 11 افریقی ممالک میں لگتا ہے جن میں الجزائر، لیبیا، مصر، ماریطانیہ، مراکش اور دیگر شامل ہیں۔

    یہ دنیا کا سخت ترین اور دشوار گزار علاقہ مانا جاتا ہے جہاں درجہ حرارات 50 سینٹی گریڈ سے تجاوز کر جاتا ہے۔

    تاہم صحرائے کبریٰ میں ان دنوں درجہ حرارت منفی 2 ریکارڈ کیا گیا ہے جس کی وجہ سے ریت پر برف کی تہہ جم گئی ہے۔

  • لاپتا ہونے والے سعودی نوجوان کی نعش صحرا سے برآمد

    لاپتا ہونے والے سعودی نوجوان کی نعش صحرا سے برآمد

    ریاض : سعودی عرب میں الخرج کمشنری کے مضافات سے لاپتہ ہونے والا سعودی نوجوان عبداللہ الدوسری کی نعش الدلم کے صحرا میں ملی ہے، کئی روز سے مقامی حکام تلاش کر رہے تھے۔

    سعودی ذرائع ابلاغ کے مطابق غوث نامی آگہی و امدادی سوسائٹی نے بتایا ہے کہ رضا کار لاپتہ نوجوان کی تلاش میں حصہ لے رہے تھے، انہیں پہلے صحرا میں اس کی گاڑی نظر آئی اور پھر ایک رضاکار نے العرمۃ کے علاقے میں اس کی نعش بھی بازیاب کرلی۔

    غوث انجمن کا کہنا ہے کہ الخرج پولیس نے بتایا تھا کہ ایک نوجوان الخرج کے مضافات سے لاپتہ ہوگیا ہے، اس کی تلاش میں مدد دی جائے۔

    جس کے بعد فوری طور پر ہماری ٹیم پہنچ گئی انجمن کے ایک رضاکار نے لاپتہ عبداللہ الدوسری کا پتہ لگا لیا جو العرمۃ کے صحرا میں مردہ حالت میں پڑا ہوا تھا جبکہ کچھ فاصلے پر اس کی گاڑی موجود تھی جو خراب ہوگئی تھی۔

    واضح رہے کہ اس سے قبل گزشتہ ماہ سعودی عرب کے شہر ریاض میں 4 دن سے لاپتا شہری کی لاش صحرا سے برآمد ہوئی
    تھی، ریاض کے علاقے میں وسیع صحرا کے وسط میں ایک 40 سالہ سعودی باشندے کی لاش سجدہ کرنے کی حالت میں برآمد ہوئی ہے۔

    یہ شخص گزشتہ چار دن سے لاپتا تھا، جب یہ ملا ہے تو اس کی ہتھیلیاں اور پیشانی ریت میں دھنسی ہوئی تھی  جیسا کہ یہ کافی دیر سے سجدہ کی حالت میں رہا ہو۔

  • متحدہ عرب امارات میں لگژری کاروں کا قبرستان

    متحدہ عرب امارات میں لگژری کاروں کا قبرستان

    ابوظبی : شارجہ ریگستان میں سینکڑوں انتہائی قیمتی کاریں مٹی کا ڈھیر بن رہی ہیں، کاروں کے مالکان قرض ادا کرنے سے قاصر رہے اور دیوالیہ ہونے پر ملک سے چلے گئے۔

    تفصیلات کے مطابق متحدہ عرب امارات کی ریاست شارجہ کے ایک میدان میں بینٹلے، فیراری، رینج روور، رولس رائس اور دیگر قیمتی ترین سپر اور اسپورٹس کاروں کا ایک ڈھیر ریگستانی مٹی میں مٹی بن رہا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ ایسی صورتحال میں کاروں کے اس قبرستان کو دنیا کا سب سے قیمتی کباڑخانہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ اگرچہ بہت سی گاڑیاں بری حالت میں ہیں لیکن ان کے فاضل پرزے بھی اچھی قیمت پر فروخت ہوسکتے ہیں۔

    میڈیا ذرائع کا کہنا تھا کہ شدید گرمی ، خشکی اور ریگستانی ریت کے حملے نے ان کاروں کا حسن گہنا دیا ہے، سپر کاروں کے مالکان قرض ادا کرنے سے قاصر رہے اور دیوالیہ ہونے پر ملک سے جاچکے ہیں۔

    متحدہ عرب امارات اور بالخصوص دبئی میں 2012 میں شدید معاشی بحران آیا تھا، یہاں سے جانے والوں میں کئی برطانوی، امریکی اور دیگر باشندے بھی شامل ہیں جو اپنی پُرتعیش زندگی جاری نہ رکھ سکے اور اس بیابان میں لگژری کاریں اس طرح چھوڑ کر چلے گئے کہ بعض میں چابیاں بھی لگی تھیں۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھا کہ بعض نے کاریں ایئرپورٹ پر ہی چھوڑدی تھیں، یہ افراد شدید جرمانے اور قرض میں جکڑے تھے اور گرفتاری کے خوف سے اپنی کاریں چھوڑ کر بھاگ نکلے جن میں مرسڈیز، بی ایم ڈبلیو، اوڈی ، مسٹنگ اور دیگر گاڑیاں شامل ہیں جو پڑے پڑے گل سڑ رہی ہیں۔

  • راستہ بھول کر صحرا میں آجانے والے کچھوے کی خوش قسمتی

    راستہ بھول کر صحرا میں آجانے والے کچھوے کی خوش قسمتی

    اپنے گھر جاتے ہوئے راستہ بھول جانا نہایت پریشان کن ہوسکتا ہے، خصوصاً اگر کوئی راستہ بھول کر صحرا میں نکل پڑے تو نہایت خوفناک صورتحال ہوسکتی ہے جہاں نہ کھانے کو کچھ ملے گا اور نہ پانی۔

    ایسا ہی کچھ ایک کچھوے کے ساتھ بھی ہوا جو اپنے گھر کا راستہ بھول کر صحرا میں آگیا۔

    صحرا میں 80 ڈگر سینٹی گریڈ درجہ حرارت نے اس کچھوے کو پیاس سے نڈھال کردیا، لیکن اس کچھوے کی خوش قسمتی کہ یہ بارشوں کا موسم تھا۔ بادل آئے اور تھوڑی ہی دیر میں صحرا میں جل تھل ایک ہوگیا۔

    برازیل کے اس صحرا میں بارش کے بعد پانی کے ذخائر جمع ہوجاتے ہیں جو خلا سے بھی دکھائی دیتے ہیں، یہ ذخائر اس کچھوے کے لیے زندگی کی امید ثابت ہوئے۔

    کچھوے نے اس جوہڑ میں چھلانگ لگائی اور ٹھنڈے پانی کا لطف اٹھانے لگا۔

  • دنیا کا سب سے بڑا صحرا کون سا ہے؟

    دنیا کا سب سے بڑا صحرا کون سا ہے؟

    کیا آپ جانتے ہیں دنیا کا سب سے بڑا صحرا کون سا ہے؟ یہ سوال سن کر شاید آپ کے ذہن میں افریقہ کے صحرائے صحارا کا تصور آجاتا ہو، یا پھر چین کے صحرائے گوبی کا، لیکن آپ کا جواب غلط ہوسکتا ہے۔

    صحرا کا لفظ سنتے ہی ہمارے ذہن میں ایک لق و دق ویران مقام آجاتا ہے جہاں میلوں دور تک ریت پھیلی ہو، تیز گرم دھوپ جسم کو جھلسا رہی ہو، چاروں طرف کیکر کے پودے ہوں، اونٹ ہوں اور دور کسی نظر کے دھوکے جیسا نخلستان ہو جہاں پانی اور کھجور کے درخت ہوتے ہیں۔

    تاہم ماہرین کے نزدیک صحرا کی تعریف کچھ اور ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ صحرا ایک ایسا علاقہ ہوتا ہے جو خشک ہو، جہاں پانی، درخت، پھول پودے نہ ہوں اور وہاں بارشیں نہ ہوتی ہوں۔

    اس لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا صحرا قطب شمالی یعنی انٹارکٹیکا ہے۔ جی ہاں، ماہرین کے مطابق ضروری نہیں کہ صحرا صرف گرم ہی ہو، صحرا جیسے حالات رکھنے والا ہر علاقہ اس کیٹگری میں آتا ہے اور انٹارکٹیکا بھی برف کا صحرا ہے۔

    ماہرین کے مطابق انٹارکٹیکا کے 98 فیصد حصے پر برف کی مستقل تہہ جمی ہوئی ہے، صرف 2 فیصد علاقہ اس برف سے عاری ہے اور یہیں تمام برفانی حیات موجود ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دیگر صحراؤں کی طرح یہاں بھی کوئی مستقل آبادی نہیں ہے۔

    یہ برفانی صحرا 54 لاکھ اسکوائر میل کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ اس کے برعکس صحرائے صحارا کا رقبہ 35 لاکھ اسکوائر میل ہے۔ انٹارکٹیکا زمین کا سب سے بڑا صحرا ہے جبکہ صحارا دنیا کا سب سے بڑا گرم صحرا ہے۔

  • زمین کو صحرا میں تبدیل ہونے سے بچانے کا عالمی دن

    زمین کو صحرا میں تبدیل ہونے سے بچانے کا عالمی دن

    آج دنیا بھر میں صحرا زدگی اور قحط سے حفاظت کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد خشک سالی اور قحط کے اثرات میں کمی اور صحرا زدگی کے عمل کی روک تھام سے متعلق آگاہی و شعور بیدار کرنا ہے۔

    رواں برس اس دن کا مرکزی خیال ہے، ’زمین بہت قیمتی ہے، اس پر سرمایہ کاری کریں‘۔

    صحرا زدگی ایک ایسا عمل ہے جو ایک عام زمین کو آہستہ آہستہ خشک اور بنجر کردیتا ہے جس کے بعد ایک وقت ایسا آتا ہے کہ یہ مکمل طور پر صحرا میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

    یہ عمل اس وقت شروع ہوتا ہے جب کسی علاقے میں خشک سالی پیدا ہوجائے، کسی مقام سے بڑے پیمانے پر جنگلات کو کاٹ دیا جائے، یا زراعت میں ایسے ناقص طریقہ کار اور کیمیائی ادویات استعمال کی جائیں جو زمین کی زرخیزی کو ختم کر کے اسے بنجر کردیں۔

    براعظم افریقہ اس وقت سب سے زیادہ صحرا زدگی سے متاثر ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق دنیا میں اس وقت 25 کروڑ افراد صحرا زدگی کے نقصانات سے براہ راست متاثر ہو رہے ہیں۔ علاوہ ازیں 1 سو ممالک اور 1 ارب افراد صحرا زدگی کے خطرے کا شکار ہوجانے کی زد میں ہیں۔

    اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت کے مطابق دنیا بھر میں ہر 1 منٹ میں 23 ایکڑ زمین صحرا زدگی کا شکار ہو کر بنجر ہو رہی ہے۔

    عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق دنیا بھر میں جاری خانہ جنگیاں بھی صحرا زدگی کو رونما کرنے کی ایک بڑی وجہ ہیں جو کسی علاقے کو پہلے قحط زدہ بناتی ہیں، زراعت کو نقصان پہنچاتی ہیں، پھر بالآخر وہ زمین صحرا میں تبدیل ہوجاتی ہے جہاں کچھ بھی اگانا ناممکن ہوجاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: صحرا میں جنگل اگانے کا حیرت انگیز طریقہ

    علاوہ ازیں دنیا بھر کے موسموں میں ہونے والا تغیر یعنی کلائمٹ چینج، شدید گرم درجہ حرارت اور پانی کے ذخائر میں تیزی سے ہوتی کمی بھی زمین کو خشک کر رہی ہے اور صحرا زدگی کا عمل تیز ہوتا جارہا ہے۔

    ماہرین کے مطابق صحرا زدگی سے بچنے کا حل یہ ہے کہ زمینوں پر زیادہ سے زیادہ درخت اگائے جائیں تاکہ یہ زمین کو بنجر ہونے سے روک سکیں۔ اس کے لیے غیر آباد زمینیں بہترین ہیں جہاں کاشت کاری یا باغبانی کی جاسکتی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • کراچی کا ان دیکھا چہرہ ۔ نواحی علاقوں کی خواتین کی زندگی کیسی ہے؟

    کراچی کا ان دیکھا چہرہ ۔ نواحی علاقوں کی خواتین کی زندگی کیسی ہے؟

    آپ کے خیال میں کراچی کی حد کہاں پر ختم ہوتی ہوگی؟ ٹول پلازہ؟ نیشنل ہائی وے؟ یا پھر حب ریور روڈ پر کراچی اختتام کو پہنچ جاتا ہوگا؟ اگر آپ واقعی ایسا سوچتے ہیں تو چلیں آج آپ کو کراچی کی ایک ایسی حد پر لے چلتے ہیں جس کا آج سے قبل آپ نے تصور بھی نہ کیا ہوگا۔

    اس کے لیے آپ کو کراچی سے باہر نکلنے کے راستے پر سفر کرتے رہنا ہوگا، آپ کے سفر میں سنسان راستے ہوں گے، جہاں آپ کے علاوہ کوئی ذی روح نہ دکھائی دیتا ہوگا، بنجر زمین ہوگی، صحرا ہوگا، پتھریلے اور مٹی کے پہاڑ بھی دکھائی دیں گے، اور ہاں راستے میں آپ کو 1 فٹ لمبی چھپکلیاں بھی ملیں گی جنہیں مقامی زبان میں ’نوریڑو‘ کہا جاتا ہے۔

    اس سفر میں آپ کو لگ بھگ 3 گھنٹے گزر جائیں گے، اور بالاآخر آپ جس جگہ پہنچیں گے، آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ وہ بھی کراچی کا ہی حصہ ہوگا۔

    یہ ایک خاصا ’عجیب و غریب‘ سفر ثابت ہوسکتا ہے، اور اس وقت مزید عجیب ہوجائے گا جب آپ کو علم ہوگا کہ کراچی سے بہت دور آنے کے بعد ایسا صحرا، جہاں کوئی انجان شخص بھٹک جائے تو ساری زندگی بھٹکتا رہے، ایک جیسے پتھریلے راستوں سے کبھی صحیح سمت کا اندازہ نہ لگا سکے، ضلع ملیر کا حصہ ہے۔

    مجھے یقین ہے کہ اس مقام کا علم کراچی کے میئر اور ملیر کے بلدیاتی و صوبائی اسمبلی کے نمائندوں کو بھی نہ ہوگا۔ جب کسی شے کا اکثریت کو علم نہ ہو، تو وہ گمنام ہوجاتی ہے، اور جدید دنیا سے اس کا تعلق کٹ جاتا ہے۔

    کراچی سے کئی میل دور ۔ ایک اور کراچی

    کراچی کے مرکز سے شروع ہونے والا یہ سفر جب اختتام پذیر ہوتا ہے تو اس سفر کو لگ بھگ 4 گھنٹے گزر چکے ہوتے ہیں۔ راستے کی ویرانی، بنجر پن، صحرا، اور صحرا میں جا بجا بکھرے ببول کے پودوں کو دیکھ کر یہ گمان گزرتا ہے کہ شاید ہم راستہ بھٹک چکے ہیں۔ یہ خیال بھی آتا ہے کہ اگر واقعی صحیح راستے پر جارہے ہیں، تو وہ کون لوگ ہیں جو دوسری طرف رہتے ہیں اور جنہیں شہر کی سہولیات تک پہنچنے میں ہی گھنٹوں گزر جاتے ہوں گے۔

    یہ سفر کراچی (کے مرکز) سے تقریباً 170 کلومیٹر دور احسان رضا گوٹھ پر اختتام پذیر ہوتا ہے، اور یہاں سے دکھوں، غربت، بے بسی اور لاچاری کا نیا سفر شروع ہوتا ہے۔

    گاؤں کا سربراہ احسان رضا برفت نامی شخص ہے جو پہلی بات کرتے ہی ایک نہایت مہذب، باشعور اور ذہین شخص معلوم ہوتا ہے۔

    چار خانوں والا رومال آدھا کندھے اور آدھا سر پر ڈالے، اور سندھی ٹوپی پہنے یہ شخص نہ صرف اپنے بلکہ آس پاس موجود دیگر گاؤں کی فلاح کے لیے بھی نہایت متحرک اور سرگرم عمل ہے۔

    جس وقت ہم وہاں پہنچے اس وقت گاؤں والے سخت دھوپ میں اپنی جھونپڑیوں سے باہر کھلی دھوپ میں راشن تقسیم کیے جانے کے انتظار میں بیٹھے تھے جو چند مخیر حضرات کی مہربانی سے انہیں میسر آیا تھا۔

    راشن کے منتظر ان افراد میں بزرگ خواتین و مرد اور عورتیں بھی تھیں۔ کچھ لوگ ایک اور قریب موجود گاؤں سے بھی آئے تھے۔

    تقسیم کے اس عمل کے دوران میں نے وہاں موجود جھونپڑیوں کا جائزہ لیا۔ ایک ہی دائرے میں پھیلے 20 سے 25 گھروں میں ایک ہی خاندان کے افراد آباد تھے۔

    گاؤں کے سربراہ احسان رضا کے بقول اس گاؤں سمیت دیگر کئی گاؤں میں آبادی اسی طرح خاندانوں پر مشتمل تھی۔ کچھ جھونپڑیوں کے اندر نہایت ہی ضعیف خواتین موجود تھیں جو ناتوانی کے باعث راشن کی لائن میں نہیں بیٹھ سکتی تھیں۔

    جھونپڑیوں کا جائزہ لینے کے دوران ایک خاتون میرے ہمراہ ہوگئیں۔ مجھے پتہ چلا تھا کہ وہاں موجود افراد شہر سے کم تعلق کے باعث نہایت ٹوٹی پھوٹی اردو میں گفتگو کرتے ہیں، لیکن یہ خاتون نہایت صاف اردو میں بات کر رہی تھیں۔

    گفتگو شروع ہوئی تو میں نے وہاں پر بنیادی ضرورتوں، اسپتال اور اسکول وغیرہ کے بارے میں دریافت کیا، لیکن بانو نامی اس خاتون کے پاس ہر سوال کا ایک ہی جواب تھا، نفی میں ہلتا ہوا سر اور ’کچھ بھی نہیں‘۔

    پوچھنے پر پتہ چلا کہ گاؤں والے چھوٹی موٹی بیماریوں کا تو خود ہی علاج کر لیتے تھے، البتہ کسی شدید تکلیف دہ صورتحال یا خواتین کی زچگی کے موقع پر ’شہر‘ سے مدد بلوائی جاتی تھی۔

    معروف مصنف مشتاق احمد یوسفی اپنی ایک کتاب میں رقم طراز ہیں، ’پرانے زمانوں میں ڈاکٹر کو اسی وقت بلوایا جاتا تھا جب یقین ہوجاتا تھا کہ اب مریض کے انتقال کو بس تھوڑی ہی دیر باقی ہے‘۔

    یہاں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال تھی جب مریض درد سے تڑپتا موت کی سرحد پر پہنچ جاتا، تو اپنی یا شاید مریض کی تسلی کے لیے شہر سے ڈاکٹر یا ایمبولینس بلوائی جاتی لیکن عموماً مریض مسیحا کی مسیحائی سے پہلے ہی موت سے شکست کھا جاتا تھا۔

    شہر سے مدد بلوانے کے لیے پی ٹی سی ایل کا ایک عدد ٹیلی فون وہاں نصب تھا۔ اس ٹیلی فون سے شہر میں ایمبولینس کو کال کی جاتی جس کے بعد شہر سے ایمبولینس روانہ ہوتی اور صحرا کے پتھریلے راستوں پر ڈولتی، ہچکولے کھاتی، یہاں تک پہنچتی، اس وقت تک اگر مریض میں جان ہوتی تو اسے لے کر دوبارہ اسی جھٹکے کھاتی 3 گھنٹے کے طویل سفر پر روانہ ہوجاتی۔

    اگر کوئی مریض سفر کی طوالت اور اذیت ناک جھٹکوں کے باوجود شہر کے اسپتال پہنچنے تک زندہ رہتا (اور ایسا بہت کم ہوتا تھا) تو سرکاری اسپتال میں ڈاکٹر تک پہنچنے کا انتظار اسے ماردیتا، گویا ہر صورت موت ہی اسے نصیب تھی۔

    یہ اذیت ناک کرب اور انتظار کی تکلیف مختلف مریضوں کے علاوہ ہر اس زچہ خاتون کو بھی اٹھانی پڑتی جن کا دائی کے ہاتھوں کیس بگڑ جاتا اور وہ یا ان کا بچہ موت کے دہانے پر پہنچ جاتا۔ موت اور درد سے لڑتی ایک عورت کا ان جان لیوا راستوں پر سفر اور ایسے وقت میں جب ایک لمحہ بھی ایک عمر بن کر گزرتا محسوس ہوتا ہے، 3 سے 4 گھنٹوں کے طویل عبرت ناک انتظار کا تصور ہی رونگٹے کھڑے کر دینے کے لیے کافی ہے۔

    مزید پڑھیں: بھارت میں حاملہ خواتین کے لیے خصوصی بائیک ایمبولینس

    لیکن ان عورتوں میں سے بمشکل ہی کوئی ڈاکٹر تک پہنچ پاتی ہے۔ عام حالت میں بھی انسانی برداشت کی حد سے گزرنے والا تخلیق کا درد جب اپنے عروج پر پہنچتا ہوگا تو ایسے میں اس تکلیف کو سہنے سے زیادہ آسان ملک الموت کا آنا ہی ہوتا ہوگا اور قدرت بھی یہ بات جانتی ہے لہٰذا ایسی عورتیں نصف راستے میں ہی دم توڑ کر ابدی نجات پالیتی ہیں۔

    بانو کے بقول گاؤں میں عموماً گھروں میں ہی زچگی کا عمل انجام پاتا ہے۔ یہ ایک عام بات ہے اور جب گاؤں میں کوئی عورت حاملہ ہوتی ہے تو وہ اور اس کے گھر والے دعا مانگتے ہیں کہ شہر سے مدد بلوانے اور اسپتال جانے کی ضرورت نہ پیش آئے۔

    وہ جانتے ہیں کہ شہر سے ایمبولینس آنے کے بعد جو اس ایمبولینس میں لیٹ کر ان راستوں کی طرف جاتا ہے، وہ شاذ ہی واپس آتا ہے۔ شہر کی طرف جانے والے یہ راستے ان کی لیے گویا موت کی وادی میں جانے کے راستے تھے۔

    گاؤں کے بیچوں بیچ ’پبلک‘ باتھ روم

    اس سے قبل میں نے جتنے بھی گاؤں دیہاتوں کے دورے کیے تھے وہاں کا ایک اہم مسئلہ بیت الخلا کی عدم موجودگی بھی ہوتا تھا، لیکن شاید وہ میرے لیے اہم تھا، وہاں رہنے والوں کے لیے نہیں، کیونکہ بظاہر یوں محسوس ہوتا تھا کہ گاؤں والوں کو بیت الخلا کی موجودگی یا عدم موجودگی سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا تھا۔

    البتہ خواتین کے لیے باتھ روم کا استعمال ایک پریشان کن مرحلہ ہوتا ہے کیونکہ جہاں باتھ روم نہیں ہوتے وہاں خواتین کو علیٰ الصبح اور شام ڈھلنے کے بعد کھیتوں میں جانا پڑتا تھا، یا جہاں ٹوٹے پھوٹے باتھ روم موجود ہوتے تھے، وہ شام ڈھلتے ہی سانپوں اور مختلف کیڑے مکوڑوں کی آماجگاہ بن جاتے تھے لہٰذا خواتین شام ہونے کے بعد واش رومز استعمال کرنے سے احتیاط ہی برتتی تھیں۔

    احسان رضا گوٹھ میں البتہ مجھے چند باتھ روم ضرور دکھائی دیے۔ گاؤں میں مصروف عمل ایک فلاحی تنظیم کاریتاس کی معاونت سے بنائے گئے یہ باتھ روم تعداد میں 2 سے 3 تھے اور ہر باتھ روم چند گھروں کے زیر استعمال تھا۔

    کچے گھروں سے دور صحرا کے وسط میں کھڑے یہ باتھ روم بہت عجیب دکھائی دیتے تھے لیکن گاؤں والوں کی زندگی کا اہم حصہ تھے۔ اس کی بدولت مرد و خواتین دونوں کو کھیتوں میں جانے کی زحمت سے چھٹکارہ حاصل تھا۔

    خواتین اور بچے معاشی عمل کا حصہ؟

    گاؤں میں اسکول کے بارے میں دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ وہاں کوئی اسکول یا استاد نہیں تھا جو بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرتا۔

    دراصل گاؤں کا سب سے بڑا مسئلہ پانی تھا۔ یہاں پر پانی کا ذریعہ اس علاقے میں ہونے والی بارشیں تھیں جو گزشتہ 2 سال سے نہیں ہوئی تھیں۔ تاہم یہ مسئلہ اب خاصی حد تک حل ہوچکا تھا۔

    کاریتاس کی کوششوں کے سبب چند ایک ارکان صوبائی اسمبلیوں نے یہاں کا دورہ کیا تھا اور ان کی ذاتی دلچسپی کے سبب اب یہاں پانی کی موٹر نصب کردی گئی تھی جو زمین سے پانی نکال کر گاؤں والوں کی ضروریات کو پورا کر رہی تھی۔ کچھ ضرورت ہینڈ پمپس سے بھی پوری ہورہی تھی۔

    اس اہم مسئلے کے حل کے بعد اب گاؤں والوں کی زندگی خاصی مطمئن گزر رہی تھی اور انہیں اپنی زندگی میں کوئی کمی محسوس نہیں ہوتی تھی۔

    میں نے خواتین سے دریافت کیا کہ کیا وہ معاشی عمل کا حصہ ہیں اور کوئی کام کرتی ہیں؟ تو جواب نفی میں ملا۔

    بانو نے بتایا کہ خواتین سندھ کی روایتی کڑھائی سے آراستہ ملبوسات اور رلیاں (جو مختلف رنگین ٹکڑوں کو جوڑ کر بستر پر بچھانے کے لیے استعمال کی جاتی ہے) بناتی تو ہیں مگر وہ خود ہی استعمال کرتی ہیں، انہیں شہر لے جا کر فروخت نہیں کیا جاتا۔

    گفتگو کے دوران ایک اور خاتون نے شامل ہوتے ہوئے کہا، ‘ کڑھائی کرنا مشکل کام ہے یہ ہاتھ سے نہیں ہوتا۔ اگر کوئی ہمیں سلائی مشینیں لا دیں تو ہم انہیں بنا کر شہر میں بیچیں گے’۔

    خاتون کے مطابق بہت پہلے گاؤں کے کسی ایک گھر میں سلائی مشین ہوا کرتی تھی جس پر تمام خواتین سلائی سیکھا کرتیں اور اپنے لیے خوبصورت ملبوسات تیار کرتیں، تاہم اب وہ واحد سلائی مشین خستہ حال اور ناکارہ ہوچکی ہے۔

    پہاڑ کے اوپر ایک اور دنیا

    احسان رضا گوٹھ کے بالکل سامنے ایک پہاڑ نظر آرہا تھا جس کے دوسری طرف صوبہ بلوچستان کا مول نامی قصبہ واقع ہے۔

    ہمیں پتہ چلا کہ اس پہاڑ کے اوپر بھی چند گاؤں واقع ہیں۔ ’اوپر والے ضروریات زندگی کے لیے نیچے کیسے آتے ہیں؟‘ یہ پہلا سوال تھا جو ہمارے ذہنوں میں آیا۔ ہمیں بتایا گیا کہ پہاڑ کے اوپر ایک کچا راستہ تعمیر کیا گیا ہے جس کے بعد گاؤں والوں کی زندگی اب نسبتاً آسان ہوگئی ہے۔

    پہاڑ کے اوپر کو لے جانے والے راستے کی تعمیر بھی بذات خود ایک کہانی ہے۔ اس کچے راستے کی تعمیر سے قبل گاؤں والے پیدل پہاڑ سے اترا کرتے تھے۔ احسان رضا گوٹھ میں چند ایک افراد کے پاس موٹر سائیکل تھی جو اس موقع پر کام آتی۔

    اس پہاڑ کے اوپر رہنے والے بیماروں اور میتوں کی تدفین کے لیے پلنگ اور رسی کا استعمال کرتے تھے اور مریضوں اور مردہ شخص کو پلنگ سے باندھ کر نیچے لایا جاتا جس کے بعد اسے اسپتال یا قبرستان لے جایا جاتا۔

    مذکورہ پہاڑ سے نیچے اتر کر 1 سے 2 گھنٹے میں احسان رضا گوٹھ تک پہنچنا، اس کے بعد مزید 3 گھنٹوں کا سفر کر کے شہر تک پہنچنا، درمیان میں راستے کی اونچ نیچ، پتھر، صحرا یہ سب جاں بہ لب مریض کے دنیا سے منہ موڑنے کے لیے کافی تھے۔ ہاں جو مرجاتے وہ نسبتاً سکون میں تھے کیونکہ ان کے لیے گاؤں والوں نے ذرا دور ایک قبرستان بنا رکھا تھا۔

    تاہم یہ مشکل کچھ آسان اس طرح ہوئی کہ کاریتاس کی وساطت سے سابق رکن سندھ اسمبلی فرزانہ بلوچ نے یہاں کا دورہ کیا اور ان کے احکامات کے بعد پہاڑ سے نیچے اترنے کے لیے ایک کچا راستہ تعمیر ہوسکا۔

    اس ساری داستان کو جاننے کے بعد اب ہمارا سفر پہاڑ کے اوپر کی طرف تھا۔ ہم گاڑی میں سوار ہچکولے کھاتے، رکتے، چلتے اور صحرا کے حیرت انگیز نظارے دیکھتے اوپر پہنچے۔ یہ راستہ 5 سے 6 کلومیٹر کی طوالت پر مشتمل ہے۔

    پہاڑ کے اوپر سب سے پہلا گاؤں مٹھو (سندھی زبان میں میٹھا) گوٹھ تھا۔ مٹھو گوٹھ سمیت یہاں کوئی 5 سے 6 گاؤں موجود تھے جن میں مجموعی طور پر 200 کے قریب گھر آباد تھے۔

    ہر گاؤں کی طرح یہاں بھی دور تک غربت، بیماری اور مسائل کا راج تھا۔ جگہ جگہ زمین پر مختلف بانس گاڑ کر ان سے گائے بیلوں اور بکریوں کو باندھا جاتا تھا۔ یہ مویشی گاؤں والوں کے لیے صرف اتنے مددگار تھے کہ انہیں بیچ کر کچھ عرصے کا راشن خریدا جاسکتا۔

    مٹھو گوٹھ میں 2 کمروں پر مشتمل اسکول کی ایک عمارت بھی کھڑی تھی جو اس وقت کھنڈر کا منظر پیش کر رہی تھی۔ کیونکہ اول تو حکومت کا مقرر کردہ کوئی استاد یہاں آتا ہی نہیں تھا، اور اگر کوئی آ بھی جاتا تو گاؤں کے مردوں کو اس سے کوئی نہ کوئی شکایت پیدا ہوجاتی یوں وہ چند دن بعد وہاں سے جانے میں ہی اپنی عافیت سمجھتا۔

    محرومیوں کا شکار لیکن مطمئن لوگ

    گاؤں کی خواتین نے مجھے اپنے ہاتھ سے کڑھی ہوئی چادریں، ملبوسات اور رلیاں وغیرہ دکھائیں۔

    میں نے دریافت کیا کہ وہ ان اشیا کو شہر میں فروخت کر کے اپنی معاشی حالت میں بہتری کیوں نہیں لاتیں؟ آخر راشن لانے اور جانوروں کو فروخت کرنے کے لیے بھی تو ان کے مرد شہر کی طرف جاتے ہی ہیں، تب ان خواتین کا جواب ٹالنے والا سا تھا۔ صائمہ نامی ایک خاتون نے کہا، ’ہمارے مرد نہیں لے کر جاتے‘۔

    صائمہ کا کہنا تھا کہ چونکہ وہ خود تو گردوں کے مرض کا شکار ہے اور بیمار رہتی ہے، لہٰذا وہ زیادہ کام نہیں کر سکتی البتہ جو دیگر عورتیں ہیں وہ بس اپنے لیے ہی سلائی کڑھائی کرتی ہیں۔ ‘ہم بس نہیں بیچتے۔ ہم بنا کر خود ہی استعمال کرتے ہیں’۔

    اس کے پاس اس بات کی کوئی خاص وجہ نہیں تھی، شاید وہ سب اپنی غربت اور مسائل سے گھری زندگی میں مگن اور خوش تھے۔

    واپسی میں پھر وہی کئی گھنٹوں کا سفر تھا، صحرا تھا، ویرانی تھی، اور اونچے نیچے راستے تھے۔ ان سب کو پاٹ کر جب ہم ’شہر‘ میں داخل ہوئے تھے تو یوں محسوس ہوا جیسے یہ شہر کے ایک حصے سے دوسرے حصے تک کا سفر نہیں تھا، بلکہ دو زمانوں کا سفر تھا۔

    ایک جدید دور کا تمام سہولیات سے آراستہ زمانہ، اور دوسرا کئی صدیوں قبل کا جب سائنس عام افراد کی پہنچ سے بہت دور تھی اور ہر طرف دکھ تھے، مسائل تھے، جہالت تھی، تکلیفیں تھیں، اور شام ڈھلتے ہی گھپ اندھیرا ہوا کرتا تھا۔

  • سائنسدانوں نے ٹھنڈے بادل تیار کرلیے

    سائنسدانوں نے ٹھنڈے بادل تیار کرلیے

    کراچی: (ویب ڈیسک) سائنس دانوں نے صحرا کی گرمی کا حل تلاش کرتے ہوئے ایسے ٹھنڈے بادل تیار کرلیے ہیں جو آپ کے ساتھ ساتھ چلیں گے اور شدید گرمی میں بھی آپ کو ٹھنڈک پہنچائیں گے۔

    انجیئنرز نے ایسا سسٹم تیار کر لیا ہے، جو بادل کی طرح آپ کے ساتھ موجود رہے گا اور جہاں جہاں آپ جائیں گے اس میں نکلنے والی ٹھنڈی ہوا آپ کو گرمی سے بچائے گی۔

     یہ بادل آپ کے ساتھ چلیں گے اورآپ کے ارد گرد کا ماحول ٹھنڈا کردے گی۔

    ماہرین کے مطابق اس سسٹم کو شاپنگ سینٹرز اور راستوں پر نصب کیا جائے گا۔ جیسے ہی کوئی پیدل چلنے والا شخص اس کے نیچے سے گزرے گا تو سسٹم میں لگے سینسرز اس پر ٹھنڈی ہوا پھینکیں گے۔