اسلام آباد: عدالت نے آڈیو لیکس کیس میں ڈی جی آئی بی اور ڈی جی ایف آئی اے کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔
تفصیلات کے مطابق آڈیو لیکس کے خلاف کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے حکم جاری کر دیا، عدالت نے ڈی جی آئی بی، ڈی جی ایف آئی اے کو 19 فروری کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا ہے۔
عدالت نے موبائل سروس اور لینڈ لائن فون کمپنیوں کو بھی آڈیو لیکس کیس میں فریق بنا کر نوٹسز جاری کر دیے، اور حکم دیا کہ رپورٹ جمع کرائیں کہ کیا پی ٹی اے، انٹیلی جنس یا قانون نافذ کرنے والے کسی ادارے نے کالز انٹرسیپٹ کرنے کے لیے رابطہ کیا؟ یہ بھی بتائیں کہ کس اتھارٹی کے تحت قانونی انٹرسیپٹ کام کرتا ہے اور صارفین کی فون کالز یا دیگر معلومات ریاستی اداروں سے کیسے شیئر کی جاتی ہے۔ چیئرمین پی ٹی اے آئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت میں پیش ہو کر عدالت کو بریف کریں کہ موبائل فون صارفین کی کالز اور ڈیٹا محفوظ بنانے کے لیے کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں؟
عدالت نے حکم میں کہا کہ چیئرمین پی ٹی اے اور ممبرز پی ٹی اے رپورٹ کے ساتھ اس کے درست ہونے کا بیان حلفی جمع کرائیں، عدالت ضروری سمجھتی ہے کہ تمام موبائل فون آپریٹرز کو بھی فریق بنا کر جواب طلب کیا جائے، ٹیلی کام آپریٹرز لائسنس میں ٹیلی فون کالز کو سننے یا ریکارڈ کرنے کے لیے قانونی طور پر مداخلت پر رپورٹ پیش کریں اور پی ٹی اے، انٹیلی جنس ایجنسی یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ متعلقہ خط و کتابت سے آگاہ کریں، یہ بھی بتائیں کہ کسی بھی ریاستی اتھارٹی سے اپنے صارفین کا ڈیٹا شیئر کرنے کا کیا طریقہ کار ہے؟
جسٹس بابر ستار نے تحریری حکم نامے میں استفسار کیا ہے کہ بشریٰ بی بی اور لطیف کھوسہ کی آڈیو ٹیپ کیسے لیک ہوئی؟ آڈیو کس نے لیک کی؟ اکاؤنٹ ہولڈر کون ہے؟ آئی بی اس حوالے سے تحقیقات کر کے تفصیلی رپورٹ جمع کرائے۔
حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ خفیہ ایجنسی نے وزارت دفاع کے ذریعے آڈیو لیکس پر اپنی رپورٹ جمع کرائی ہے، جس میں بتایا گیا کہ خفیہ ایجنسی کے پاس سوشل میڈیا پر معلومات جاری کرنے کے سورس کے تعین کی صلاحیت نہیں ہے۔ عدالت نے کہا کہ آئی بی غیر قانونی طور پر آڈیو لیک کرنے والے سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور شیئر کرنے والوں کا تعین کرے، اور تحقیقات کر کے 3 ہفتے میں رپورٹ جمع کرائے۔
عدالت نے کہا کہ ڈی جی آئی بی آئندہ سماعت پر بتائیں کہ شہریوں کی سرویلنس کون کر سکتا ہے، اور کیا ریاست پاکستان کے پاس اس غیر قانونی سرویلنس کو روکنے کی صلاحیت ہے؟ عدالتی دستاویزات کے مطابق اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی حکومت نے کسی ایجنسی کو کالز ریکارڈ کرنے کی اجازت نہیں دی، تمام شہریوں کی پرائیویسی اور حقوق کا تحفظ ضروری ہے۔
تحریری حکمنامے کے مطابق ایف آئی اے نے جواب کے لیے مہلت طلب کی ہے، عدالت نے حکم دیا کہ ایف آئی اے آڈیو لیکس شیئر کرنے والے اکاؤنٹس کی تفصیلات کے ساتھ رپورٹ پیش کرے، اور ڈی جی ایف آئی اے پیش ہو کر بتائیں کہ کالز کی سرویلنس اور ریکارڈنگ کیسے ہو سکتی ہے؟