Tag: diabetes

  • ذیابیطس کا علاج آپریشن سے، لیکن کیسے؟

    ذیابیطس کا علاج آپریشن سے، لیکن کیسے؟

    دنیا بھر میں 40سال سے زائد عمر کا ہر 10 میں سے ایک شخص ذیابیطس کا شکار ہے،20 سال کے دوران ان اعداد و شمار میں دگنا اضافہ ہوا ہے۔ سال 2030 تک تقریباً مزید 55 لاکھ لوگ اس بیماری میں مبتلا ہوں گے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ذیابیطس ایسی لاعلاج بیماری ہے جو ایک بار لگ جائے تو زندگی بھر جان نہیں چھوڑتی، تاہم چینی سائنسدانوں نے ذیابیطس کے علاج کے لیے نیا علاج ایجاد کر لیا ہے۔

    اس حوالے سے تیانجن فرسٹ سنٹرل اسپتال اور پیکنگ یونیورسٹی کے محققین نے ذیابیطس کے علاج سے متعلق ایک اہم پیش رفت کی ہے، یہ نئی ٹیکنالوجی لاکھوں لوگوں کے لیے امید کی کرن بن سکتی ہے۔

    ذیابیطس ون

    مذکورہ تحقیق کے نتائج معروف جریدے سیل میں شائع ہوئے ہیں۔ سائنسدانوں نے اسٹیم سیل ٹرانسپلانٹیشن کے ذریعے ٹائپ ون ذیابیطس کے علاج کے لیے اس نئے علاج کا اعلان کیا۔

    یہ دنیا میں پہلا موقع ہے کہ اس طرح کے طریقہ کار سے کسی مریض کو انسولین کی ضرورت کے بغیر قدرتی طور پر خون میں شکر کی سطح کو کنٹرول کرنے میں مدد ملی۔

    اب تک آئیلیٹ سیل ٹرانسپلانٹیشن ہی ٹائپ 1 ذیابیطس کے علاج کے لیے ایک امید افزا طریقہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ لبلبہ کے خلیے، جو انسولین اور گلوکاگن جیسے اہم ہارمونز پیدا کرنے کے ذمہ دار ہیں، خون میں شکر کی سطح کو کنٹرول کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

    اس عمل میں مرنے والے عطیہ دہندگان سے آئیلیٹ سیلز کو اکٹھا کرنا اور ٹائپ ون ذیابیطس کے مریضوں کے جگر میں ٹرانسپلانٹ کرنا شامل تھا۔ تاہم، عطیہ دہندگان سے خلیات کی محدود دستیابی کی وجہ سے، علاج کبھی بھی وسیع پیمانے پر استعمال میں نہیں رہا۔

    چینی سائنسدانوں کی تیار کردہ نئی اسٹیم سیل ٹیکنالوجی ذیابیطس کے علاج میں انقلاب برپا کر سکتی ہے۔ یہ عمل ٹائپ ون ذیابیطس میں مبتلا مریضوں سے چربی کے خلیات کو ہٹانے سے شروع ہوتا ہے۔

    یہ خلیے کیمیکل ری پروگرامنگ سے گزرتے ہیں اور پلیوری پوٹینٹ اسٹیم سیل بن جاتے ہیں اور اس کے بعد وہ آئیلیٹ سیلز میں تبدیل ہو جاتے ہیں چونکہ خلیے مریض کے ہی جسم سے آتے ہیں، اس لیے مدافعتی ردعمل کا خطرہ کم سے کم ہوتا ہے۔

    ڈاکٹروں نے ایک بزرگ مریض کی کامیابی سے سرجری کرنے کا دعویٰ کیا ہے، ڈاکٹروں کے مطابق سرجری میں صرف 30 منٹ سے بھی کم وقت لگا۔ اس مریض کے پہلے دو جگر کے ٹرانسپلانٹ اور ایک ناکام آئیلیٹ ٹرانسپلانٹ ہوا تھا۔

    تاہم اسٹیم سیل کے طریقہ کار کے بعد، اس نے ڈرامائی بہتری دکھائی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ 75 دنوں کے اندر اس شخص کے انسولین کے انجیکشن کو مکمل طور پر روک دیا گیا۔ ڈھائی ماہ کے اختتام پر اس کے خون میں شکر کی سطح 98فیصد سے زیادہ کنٹرول ہوگئی۔

  • خوراک میں چینی کا استعمال کب خطرناک ہوتا ہے؟

    خوراک میں چینی کا استعمال کب خطرناک ہوتا ہے؟

    چینی کا استعمال ہماری خوراک اور مشروبات کے ذائقے کو مزید بہتر بنانے کیلئے اہم ہے لیکن یہ بات بھی ذہن نشین ہونی چاہیے کہ چینی کا باقاعدہ اور طویل عرصے تک استعمال صحت کیلیے انتہائی نقصان دہ ہے۔

    ماہرین صحت کا چینی کو سفید زہر قرار دیتے ہوئے کہنا ہے کہ موٹاپے سے لے کر ذیابیطس تک، زیادہ شوگر کا استعمال ہمارے جسم اور صحت پر منفی اثرات مرتب کرسکتا ہے۔

    اگر آپ شعوری طور پر اپنی خوراک میں چینی کی مقدار کو کم کرنے کی کوشش کریں تو یہ یقیناً آپ کی دیرپا صحت کا ضامن ہے۔

    چینی

    شوگر کیوں کم کی جائے؟

    جسمانی وزن میں اضافہ : زیادہ شوگر کا استعمال وزن میں اضافے کا باعث ہے۔ جب آپ اپنے جسم کی مقررہ ضرورت سے زیادہ شوگر لیتے ہیں تو یہ چربی کی صورت میں ذخیرہ ہو جاتی ہے۔ مثلاً، ایک کین سوڈا میں تقریباً 20 گرام شوگر ہوتی ہے، جو وقت کے ساتھ وزن کو بڑھاتی ہے۔

    ذیابیطس سے بچاؤ : زیادہ شوگر انسولین کے خلاف مزاحمت پیدا کرتی ہے، جو ذیابیطس ٹائپ ٹو کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔ شوگر کو کم کرنے سے خون میں شکر کی سطح کو متوازن رکھنے میں مدد ملتی ہے۔

    دل کی صحت : زیادہ شوگر کا استعمال امراض قلب کے خطرے میں اضافے سے منسلک ہے۔ شوگر کی مقدار کم کرنے سے بلڈ پریشر اور کولیسٹرول کی سطح کو بہتر کیا جا سکتا ہے۔

    صحتمند جلد : شوگر کی زیادتی جلد کی عمر رسیدگی اور کیل مہاسوں کا باعث بن سکتی ہے۔ شوگر کم کرنے سے آپ کی جلد کی خوبصورتی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

    توانائی میں اضافہ : وہسے تو شوگر عارضی طور پر توانائی فراہم کرتی ہے لیکن بعد میں یہی شوگر توانائی کے ختم ہونے کا سبب بھی بنتی ہے۔ کم شوگر والی غذا سے آپ دن بھر مستحکم توانائی برقرار رکھ سکتے ہیں۔

    شوگر کم کرنے کے لیے تجاویز:

    خوراک کے اجزاء لازمی پڑھیں : پراسیسڈ غذاؤں میں چھپی ہوئی شوگر کا دھیان رکھیں۔ بازار میں دستیاب اشیاء کے اجزاء میں "ہائی فریکٹوز کارن سیرپ”، "سوکروز”، اور "مالٹوز” جیسے ناموں پر نظر رکھیں۔ مثلاً، ایک صحت مند نظر آنے والا گرینولا بار بھی بڑی مقدار میں اضافی شوگر ہوسکتا ہے۔

    قدرتی مٹھاس کی اشیاء کا انتخاب : جب آپ کو مٹھاس کی ضرورت ہو تو شہد، میپل سیرپ، یا اسٹیویا جیسے قدرتی طور پر متبادل میٹھی اشیاء کا استعمال کریں لیکن انہیں بھی اعتدال میں رکھیں۔ پھل اور سبزیاں غذائیت سے بھرپور اور قدرتی مٹھاس کے بہترین ذرائع ہیں۔ مثلاً، بیریز کا ایک پیالہ ایک مٹھاس بھری ڈش کی بجائے بہتر ہے۔

    گھر میں بنے کھانوں کو ترجیح دیں: گھر میں کھانے کی تیاری کرنے سے آپ کو اجزاء اور شوگر کی مقدار پر زیادہ کنٹرول حاصل ہوتا ہے، جس سے آپ بہتر انتخاب کر سکتے ہیں اور اضافی شوگر سے بچ سکتے ہیں۔

    مشروبات کا استعمال کم کریں : سوڈا، جوس اور میٹھے چائے زیادہ شوگر کی مقدار کے بڑے ذرائع ہیں۔ بغیر چینی کی چائے یا ذائقہ دار سادہ پانی کا انتخاب کریں۔

    خوراک میں تبدیلی بتدریج لائیں : یکدم شوگر چھوڑنے کی کوشش نہ کریں، آہستہ آہستہ اپنی غذا میں تبدیلی کریں تاکہ احساس محرومی نہ ہو۔

    صحت مند متبادل : مٹھاس کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے مختلف طریقے آزمائیں۔ جس میں پھل، ڈارک چاکلیٹ، یا بیریز کے ساتھ یونانی دہی کو آزمائیں۔

    یاد رکھیں : شعوری فیصلے اور مندرجہ بالا تجاویز کو معمولات زندگی میں شامل کرکے آپ اپنی شوگر کی مقدار کو نمایاں طور پر کم کر سکتے ہیں اور بہتر صحت کے فوائد حاصل کر سکتے ہیں۔ یاد رکھیں، چھوٹے قدم بڑے تبدیلیوں کا سبب بن سکتے ہیں۔

  • ذیابیطس کے مفت علاج کے لیے ملک بھر میں 3000 کلینکس کا نیٹ ورک قائم

    ذیابیطس کے مفت علاج کے لیے ملک بھر میں 3000 کلینکس کا نیٹ ورک قائم

    کراچی: پاکستان بھر میں ذیابیطس کے مریضوں کو مفت علاج اور طبی معاونت فراہم کرنے کے لیے 3,000 ذیابیطس کلینکس کا نیٹ ورک قائم کیا گیا ہے، اس نیٹ ورک کے تحت روزانہ تقریباً 75,000 مریضوں کو بلا معاوضہ علاج اور رہنمائی فراہم کی جائے گی۔

    ماہر ذیابطیس اور ہیلتھ پروموشن فاؤنڈیشن کے وائس چیئرمین پروفیسر عبدالباسط نے اس سلسلے میں ہفتے کے روز افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نیشنل ڈائبٹیز نیٹ ورک (NDN) کے تحت چلنے والے ان کلینکس میں مریضوں کو 50 فی صد رعایتی قیمت پر ادویات اور انسولین بھی فراہم کی جائے گی۔

    انھوں نے کہا اس وقت پاکستان میں لاکھوں افراد شوگر کے مرض کا علاج نہ ہونے کے باعث مستقل معزور (پاؤں کے زخم) اور قبل از وقت موت کا شکار ہو رہے ہیں، یہ نیٹ ورک ان لاکھوں افراد کو ذیابیطس کا معیاری علاج اور دیکھ بھال فراہم کرے گا۔

    پروفیسر عبدالباسط کے مطابق کراچی میں ان کلینکس کا کامیابی سے تجربہ کیا گیا، جس کے بعد ملک بھر میں جانے کا فیصلہ کیا گیا، یہ کلینکس خصوصاً ان علاقوں میں قائم کیے جائیں گے جہاں صحت کی سہولیات ناپید ہیں۔

    ہر کلینک روزانہ 25 ذیابیطس مریضوں کو مفت مشاورت فراہم کرے گا اور اس طرح تین ہزار کلینکس پر روزانہ 75 ہزار افراد کو علاج کی مفت سہولیات میسر آئیں گی۔ پروفیسر باسط کے مطابق ان مریضوں کو 50 فی صد رعایت پر دوائیں، انسولین اور 25 فی صد رعایت پر لیبارٹری ٹیسٹ فراہم کیے جائیں گے، جس کے لیے چغتائی لیب کے ساتھ شراکت داری کی گئی ہے۔

    انھوں نے بتایا روزانہ تقریباً 35-40 افراد ذیابیطس کی پیچیدگیوں کی وجہ سے اپنی ٹانگیں اور پاؤں کٹوا بیٹھتے ہیں، اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو اس سال کے آخر تک 600,000 افراد کی ٹانگیں کٹنے کا خطرہ ہے۔

    گیٹس فارما کے مینیجنگ ڈائریکٹر خالد محمود نے کہا کہ پاکستان میں صحت کی صورتحال اور حالات کچھ افریقی ممالک سے بھی بدتر ہیں، جوہری طاقت ہونے کے باوجود پاکستان کو ویکسینیشن کی کوریج، غذائیت، اور زچہ و بچہ کی صحت کے شعبوں میں چیلنجز کا سامنا ہے۔

    خیال رہے کہ نجی شعبے کی جانب سے شروع کیا جانے والا یہ دنیا میں صحت کا سب سے بڑا مفت نیٹ ورک ہوگا، یہ ہیلتھ پروموشن فاؤنڈیشن کے تحت این ڈی این اور مصنوعی ذہانت پر مبنی ہیلتھ کیئر پلیٹ فارم ’میری صحت‘ اور گیٹس فارما کے تعاون سے شروع کیا گیا ہے۔

  • بھنڈی کا پانی : شوگر سمیت دیگر بیماریوں کا حیرت انگیز علاج

    بھنڈی کا پانی : شوگر سمیت دیگر بیماریوں کا حیرت انگیز علاج

    ویسے تو لیس دار سبزی بھنڈی کے بے شمار فائدے ہیں، اس کا لیس نہ صرف ہڈیوں کو تقویت بخشتا ہے بلکہ جوڑوں کے درد کو کم کرنے میں بھی اس کا کوئی ثانی نہیں۔

    آپ نے سوشل میڈیا پر بھنڈی کا پانی پیتے ہوئے لوگوں کی تصاویر اور ویڈیوز دیکھی ہوں گی۔ ماہرین صحت عام لوگوں کو بھی اس کے استعمال کا مشورہ دیتے ہیں۔

    آج ہم آپ کو بھنڈی کے استعمال کا ایسا طریقہ بتائیں گے جس سے ذیابیطس کے مریض بہت جلد اپنی صحت میں اچھا خاصا فرق محسوس کریں گے۔ نہ صرف ذیابیطس بلکہ دیگر امراض میں مبتلا لوگ بھی اس سے مستفید ہوسکتے ہیں۔

    water

    بھنڈی کا پانی بھنڈی کو کاٹ کر پانی میں بھگو کر بنایا جاتا ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگ زیادہ فوائد کے لیے صبح سب سے پہلے اس پانی کا استعمال کرتے ہیں۔

    کیا سوشل میڈیا پر وائرل یہ ڈائیٹ ٹرینڈ فالو کرنے کے قابل ہے یا نہیں؟ زیر نظر مضمون میں ہم آپ کو بھنڈی کا پانی پینے کے فائدے اور نقصانات بتائیں گے۔

    غذائیت سے بھرپور:

    بھنڈی بہت سے ضروری غذائی اجزاء کا ایک اچھا ذریعہ ہے۔ اس میں کچھ مقدار میں مینگنیز، وٹامن سی، فائبر، فولیٹ اور بہت سے اینٹی آکسیڈنٹس بھی پائے جاتے ہیں۔

    وزن کم کرنے میں مددگار:

    بھنڈی کا پانی کیلوریز میں کم اور فائبر سے بھرپور ہوتا ہے۔ اس مشروب کی یہ خصوصیات اسے وزن کم کرنے کا ایک اچھا آپشن بناتی ہیں۔ بھنڈی کا پانی پینا آپ کو ہائیڈریٹ رکھ سکتا ہے اور وزن کم کرنے میں بھی مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

    اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور:

    لیڈی فنگر کا پانی اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور ہوتا ہے، جو آپ کی سوزش کو کم کرنے اور فری ریڈیکلز سے لڑنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ اینٹی آکسیڈنٹس دل کی بیماری، ذیابیطس اور دیگر دائمی بیماریوں سمیت کئی بیماریوں کو کم کرنے میں بھی مدد کرتے ہیں۔

    ذیابیطس کے لیے کیسا ہے بھنڈی کا پانی؟

    کچھ تحقیق میں یہ نتائج سامنے آئے ہیں کہ بھنڈی کا پانی صحت مند خون میں شکر کی سطح کو فروغ دینے میں مدد کر سکتا ہے۔ یہ خون کے بہاؤ میں شوگر کے جذب کو کم کرنے میں مدد کرتا ہے۔ تاہم، خون کی شکر پر بھنڈی کے پانی کے اثر کو سمجھنے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

    فائبر کی مقدار:

    بھنڈی کے پانی میں فائبر کا زیادہ مواد، خاص طور پر ناقابل حل فائبر، صحت مند ہاضمہ کو یقینی بنانے میں مدد کر سکتا ہے۔ یہ قبض اور ہاضمہ کے دیگر بہت سے مسائل کو کم کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔

    مضر اثرات :

    کسی بھی چیز کا زیادہ استعمال آپ کی صحت پر منفی اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔ جب اسے بڑی مقدار میں استعمال کیا جائے تو، بھنڈی کا پانی ہاضمے کے مسائل پیدا کر سکتا ہے۔

    اس کے علاوہ، اگر آپ کو پہلے سے ہی ہاضمہ کے مسائل ہیں، تو یہ حالت کو مزید خراب کر سکتا ہے. کچھ لوگوں کو اس کا ذائقہ بھی پسند نہیں آتا، لہذا، کم مقدار کے ساتھ شروع کریں۔

    بھنڈی کا پانی تیار کرنے کا طریقہ:

    بھنڈی کے پتلے ٹکڑے پانی میں ڈال کر رات بھر بھگو دیں۔ آپ اسے 8 سے 24 گھنٹے تک فریج میں بھی رکھ سکتے ہیں۔ جب آپ صبح پینا چاہیں تو پانی کو چھان کر خالی پیٹ پی لیں۔

  • ذیابیطس کا کامیاب علاج ’ٹرانسپلانٹ‘ سے، لیکن کیسے؟

    ذیابیطس کا کامیاب علاج ’ٹرانسپلانٹ‘ سے، لیکن کیسے؟

    دنیا بھر میں ذیابیطس کا مرض وبائی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے، خون میں شکر کی مقدار بعض پیچیدگیوں کے سبب عدم توازن کا شکار ہوتی ہے جس کے بعد ذیابیطس کی بیماری جنم لیتی ہے۔

    بنیادی طور پر ذیابیطس کی دو اقسام ہوتی ہیں، ٹائپ ون اور ٹائپ ٹو۔ ٹائپ ون بہت عام نہیں ہے اور تاحال اس کا علاج بھی نہیں ہے جبکہ ٹائپ ٹو زیادہ وزن بڑھنے اور ایسے لائف اسٹائل جس میں طویل مدت کے لیے بیٹھنا پڑتا ہے سے ہوتی ہے۔

    اس کے علاوہ مرض کی مزید وجوہات بھی ہو سکتی ہیں تاہم چینی ڈاکٹروں نے ٹرانسپلانٹ کے ذریعے ذیابیطس کا کامیاب علاج کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

     ذیابیطس

    اگرچہ ذیابیطس ایک ایسا مرض ہے جس کی ابتدا میں تشخیص کی جائے تو اسے ادویات اور طرز زندگی سے ختم کیا جا سکتا ہے، تاہم بعض اوقات یہ مرض انتہائی سنگین ہوجاتا ہے۔

    ذیابیطس کی بیماری کو دیگر بیماریوں کی وجہ سے بھی قرار دیا جاتا ہے اور اس میں مبتلا افراد کے دیگر اعضاء بھی متاثر ہوتے ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق چین کے ماہرین صحت کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ایک عمر رسیدہ شخص کے لبلبے کا ٹرانسپلانٹ کرکے انہیں ذیابیطس کی بیماری سے چھٹکارا دلوایا اور اب مذکورہ مرض تقریبا تین سال سے صحت مند زندگی گزار رہا ہے۔

    بنیادی طور پر انسانی جسم میں انسولین کی پیداوار کم ہونے کی وجہ سے یہ بیماری شدت اختیار کرجاتی ہے اور چینی ماہرین نے ایک مریض کے لبلبے کا ٹرانسپلانٹ کرکے ان کے جسم میں انسولین کی پیدوار بڑھانے کو یقینی بنایا۔

    چینی نشریاتی ادارے ڈیلی چائنا کے مطابق شنگھائی یونیورسٹی کے ماہرین نے59 سالہ شخص کے لبلبے کے ان خصوصی خلیات کا ٹرانسپلانٹ کیا، جو انسولین کی پیداوار کرتے ہیں۔

    ماہرین نے اسٹیم سیل کے ذریعے مریض کا ٹرانسپلانٹ کیا، جس سے ان کا لبلبہ کچھ ہی ہفتوں بعد انسولین بنانا شروع ہوگیا۔

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ ماہرین نے مریض کے لبلبے کے خلیات کے ٹرانسپلانٹ کا فیصلہ اس وقت کیا جب ان کی حالت انتہائی تشویش ناک بن چکی تھی اور انہیں یومیہ متعدد انسولین کے انجکشن لگائے جاتے تھے۔

    رپورٹ کے مطابق ٹرانسپلانٹ کے تین ماہ بعد مریض کا لبلبہ انسولین پیدا کرنے لگا اور آہستہ آہستہ مریض کو تمام ادویات کی ضرورت نہ رہی اور اب گزشتہ تقریباً تین سال سے مریض ادویات کے بغیر صحت مند زندگی گزار رہے ہیں۔

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ ماہرین نے 2021 میں مریض کا ٹرانسپلانٹ کیا تھا اور 2022 کے آغاز میں مریض کے لبلبے نے انسولین بنانا شروع کردی تھی اور اب تک مریض ادویات کے بغیر صحت مند زندگی گزار رہے ہیں۔

  • ذیابیطس سے بچاؤ کیسے ممکن ہے؟ پاکستانی محقق کا بڑا کارنامہ

    ذیابیطس سے بچاؤ کیسے ممکن ہے؟ پاکستانی محقق کا بڑا کارنامہ

    کراچی یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے محقق اور ڈاکٹر محمد تنویر خان نے اپنی تحقیق میں انکشاف کیا ہے کہ پیٹ کے جراثیم سے ذیابیطس کو لاحق ہونے سے روکنا ممکن ہے۔

    کراچی یونیورسٹی سے مائیکرو بیالوجی میں ماسٹرز اور پھر نیدرلینڈز سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے والے ڈاکٹر محمد تنویر خان اس وقت سوئیڈن کی گوتھن برگ یونیورسٹی سے وابستہ ہیں اور مالیکیولر اور کلینیکل میڈیسنز کے شعبے میں سنگ میل ثابت ہونے والی ریسرچ کر رہے ہیں۔

    معروف سائنسی جریدے ’نیچر‘ میں اس موضوع پر شائع ہونے والے تحقیقی مقالے میں ڈاکٹر محمد تنویر خان بتایا کہ آنتوں میں رہنے والے جراثیم ہماری صحت پر مثبت اور منفی دونوں طریقوں سے اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

    diabetes

    پاکستانی محقق ڈاکٹر محمد تنویر خان نے غیر ملکی خبر رساں ادارے ڈی ڈبلیو سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ خوشی، غم، اسٹریس، بھوک اور ایسے دیگر عوامل ان ہی جراثیم سے جڑے ہوتے ہیں۔

    سائنسی جریدے ‘نیچر‘ میں شائع ہونے والی ان کی نئی تحقیق کے نتائج پر مبنی ایک رپورٹ کے مطابق پیٹ کے ان جراثیموں میں واقع ہونے والی تبدیلیاں نہ صرف بہت سی بیماریوں کی پیشگی اطلاع دے سکتی ہیں بلکہ ان کی شدت اور ادویات کے اثرات پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہیں۔

    Dr. Muhammad Tanvir Khan

    ڈاکٹر محمد تنویر خان تحقیقی رپورٹ میں خاص طور پر ذیابیطس کے مرض پر توجہ مرکوز رکھی گئی ہے، تاہم وہ کہتے ہیں کہ دل کی بیماریاں بھی ان ہی جراثیم کی انسانی جسم میں تعداد سے جڑی ہوتی ہیں۔

    تحقیقی مقالے کے مطابق پیٹ میں ان جراثیم سے جڑی تبدیلوں کا سراغ لگانے کے لیے جینوم سیکوئنسنگ (میٹا جینوم) کا استعمال کیا جاتا ہے۔

    ڈاکٹر تنویر خان کے مطابق آنتوں میں رہنے والے جراثیم کی تعداد ہمارے جسم کے خلیوں کی مجموعی تعداد سے بھی دس گنا زیادہ ہوتی ہے جبکہ ان میں موجود جینز کی تعداد تقریباً سوگنا زیادہ ہے۔

    ڈاکٹر تنویر خان نے مزید بتایا کہ ایک عام انسان دن میں تقریباً آدھا کلو فضلہ خارج کرتا ہے، جس کا نصف وزن ان ہی جراثیم پر مشتمل ہوتا ہے، یہ جراثیم انتہائی حساس ہوتے ہیں اور اکثر ہوا کے ساتھ رابطے میں آنے کے چند لمحوں میں ہی مرجاتے ہیں۔

    جراثیم

    ڈاکٹر تنویر کے مطابق آنتوں کی توانائی کا 60 فیصد بشمول وٹامنز، ہارمونز اور دیگر کیمیائی اجزاء ان ہی جراثیم سے حاصل ہوتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ کسی مریض پر اینٹی بائیوٹک کا استعمال کیا جاتا ہے تو اچھے جراثیم (جو ہمیں وٹامنز فراہم کرتے ہیں) مرجاتے ہیں اور اسی لیے وٹامنز کی گولیاں بھی تجویز کی جاتی ہیں۔

    پاکستانی ریسرچر کا کہنا ہے کہ پری بائیوٹک نامی یہ گولیاں اصل میں وہ فائبر ہوتے ہیں جو انسان ہضم نہیں کرتا بلکہ یہ انسانی جسم میں رہ کر اچھے جراثیموں کی تعداد بڑھانے میں مدد دیتے ہیں۔ نیچر میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق ذیابیطس سے قبل کچھ خاص قسم کے جراثیم جسم میں کم یا ختم ہوجاتے ہیں۔ اس تحقیق سے قبل تک ان جراثیم کو محفوظ بنا کر کسی دوا کی شکل نہیں دی جا سکی تھی۔

    ڈاکٹر تنویر خان کی ٹیم نے ان جراثیم کو پیدا کرنے اور محفوظ بنانے کا طریقہ وضع کیا ہے۔ اس پاکستانی ریسرچر کے مطابق یہ طریقہ ابھی پچاس افراد پر استعمال کیا گیا ہے اور اس کے اچھے نتائج سامنے آئے ہیں۔ اب یہ تحقیق انسانوں کے ایک بڑے گروپ پر استعمال کی جا رہی ہے اور اس کے نتائج بھی جلد ہی شائع کیے جائیں گے۔

  • بلڈ شوگر کی سطح کم کرنے کے لیے ریڈ لائٹ کے استعمال کا کامیاب تجربہ

    بلڈ شوگر کی سطح کم کرنے کے لیے ریڈ لائٹ کے استعمال کا کامیاب تجربہ

    طبی سائنس دانوں نے خون میں شوگر کی سطح کم کرنے کے لیے سرخ لائٹ کے استعمال کا کامیاب تجربہ کر لیا۔

    طبی جریدے ’جرنل آف بائیوفوٹونکس‘ میں ایک ریسرچ اسٹڈی شائع ہوئی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ریڈ لائٹ تھراپی صحت مند بالغوں میں بلڈ شوگر کو تقریباً 30 فی صد تک کم کرتی ہے، اور صرف 15 منٹ تک اگر بدن کی جلد پر براہ راست سرخ روشنی پڑنے دی جائے تو اس سے فوائد حاصل ہوتے ہیں۔

    تجربے کے دوران ماہرین صحت سرخ لائٹس کے ذریعے بلڈ شوگر کی سطح کم کرنے میں کامیاب رہے، یہ ایک مختصر تحقیق تھی جس کے بعد ماہرین کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

    امریکی ماہرین نے ریسرچ کے لیے 40 سال کی عمر کے 30 رضاکاروں کا انتخاب کیا، جنھیں بلڈ شوگر یا ذیابیطس نہیں تھا، رضاکاروں کو دو گروپس میں تقسیم کیا گیا، ایک گروپ کو روزانہ کچھ گھنٹوں بعد 15 منٹ تک سرخ لائٹس تھراپی کرنے کا مشورہ دیا گیا جب کہ دوسرے گروپ کو مصنوعی دوا پینے کا کہا گیا۔ ایک ہفتے بعد رضاکاروں میں بلڈ شوگر کی سطح دیکھی گئی۔ اس کے بعد مزید ایک ہفتے تک ریڈ لائٹ تھراپی دہرائی گئی اور پھر ان میں کھانے کے بعد خون میں پیدا ہونے والی شوگر کی سطح اور اس شوگر کے کام کرنے کا عمل دیکھا گیا۔

    طبی ماہرین نے نوٹ کیا کہ رضاکاروں میں نہ صرف بلڈ شوگر کی سطح کم ہوئی بلکہ ان میں کھانے کے بعد پیدا ہونے والی شوگر کے نقصان دہ طور پر کام کرنے کا عمل بھی سست تھا۔ سرخ شعاعیں پڑنے سے جسم پر کوئی منفی رد عمل بھی نہیں دیکھا گیا۔

    یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ سرخ روشنی سے کیوں اور کس طرح بلڈ شوگر کی سطح کم ہوتی ہے، اور یہ بھی واضح نہیں ہے کہ کیا ریڈ لائٹ تھراپی ذیابیطس کے شکار مریضوں کو بھی بلڈ شوگر کو کنٹرول کرنے میں مدد دے سکتی ہے؟ تاہم محققین نے امید ضرور ظاہر کی ہے۔

    خیال رہے کہ اس وقت کینسر سمیت دماغی امراض، ڈپریشن اور بعض آنکھوں کی پیچیدگیوں کے لیے بھی لائٹس کا استعمال کیا جاتا ہے۔

  • اسمارٹ واچز یا انگوٹھیوں سے بلڈ شوگر چیک کرنا کیسا ہے؟

    اسمارٹ واچز یا انگوٹھیوں سے بلڈ شوگر چیک کرنا کیسا ہے؟

    ذیابطیس کے مریضوں کو خون میں شوگر کی مقدار جانچنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے تیار کی جانے والے ہاتھ کی گھڑی اور انگوٹھیاں کس حد تک نقصان دہ ہیں۔

    جاپانی کمپنی اسٹارٹ اپ کی تیار کردہ پروٹوٹائپ کلائی میں پہنی جانے والی گھڑی کے ذریعے بلڈ شوگر کو بغیر سرنج جانچا جاسکتا ہے لیکن کیا یہ گھڑی مریض کی صحت کیلئے موزوں ہے؟۔

    ویسے تو خون میں شوگر کی مقدار جانچنے کے لیے مریض کا ایک بوند خون درکار ہوتا ہے جو انگلی پر باریک سوئی مار کر حاصل کیا جاتا ہے اور اسے ایک خاص پٹی پر لگا کر شکر کی مقدار جانی جاتی ہے۔

    ذیابیطس

    سائنس کی ترقی کی بدولت اب کئی ایسی ڈیوائسز تیار کی جارہی ہیں تو جو آپ کی جلد کے ساتھ مس ہوکر بلڈ شوگر سمیت صحت کی دیگر حالتوں کی نگرانی کرتی ہے۔

    امریکا میں ادویات اور مختلف طبی آلات کی منظوری دینے والے مجاز ادارے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن یعنی ایف ڈی اے نے خبردار کیا ہے کہ ان سمارٹ واچز اور انگوٹھیوں کے استعمال سے گریز کریں جو بلڈ شوگر کی سطح کو مانیٹر کرنے کا دعویٰ کرتی ہیں۔

    Blood

    ایف ڈی اے نے گزشتہ دنوں تنبیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسمارٹ واچز اور انگوٹھیاں جو طبی مقاصد کے لیے جلد کی سطح سے بغیر خون کا نمونہ لیے بلڈ شوگر لیول کی پیمائش کرنے کا دعویٰ کرتی ہیں خطرناک ہوسکتی ہیں اور ان سے بچنا چاہیے۔

    ایجنسی نے کہا کہ یہ احتیاط ہر گھڑی یا انگوٹھی پر لاگو ہوتی ہے، قطع نظر اس کے یہ کس برانڈ کی ہے جو خون میں گلوکوز کی سطح کو جلد سے نوٹ کرنے کا دعویٰ کرتی ہے۔ ایف ڈی اے نے کہا کہ انہوں نے ایسی کسی ڈیوائس کی اجازت نہیں دی ہے۔

    تاہم ایجنسی کا یہ نوٹس سینسرز سے جڑی اسمارٹ واچ ایپس پر لاگو نہیں ہوتا کیونکہ ان میں گلوکوز کی مسلسل نگرانی کے نظام موجود ہوتا ہے جو براہ راست بلڈ شوگر کی پیمائش کرتا ہے۔

    امریکا میں تقریباً 37 ملین افراد ذیابیطس میں مبتلا ہیں، اس مرض میں مبتلا افراد اپنی بلڈ شوگر کو مؤثر طریقے سے کنٹرول نہیں کر پاتے ہیں کیونکہ ان کے جسم یا تو ہارمون انسولین کی کافی مقدار نہیں بناتے ہیں یا وہ انسولین کے خلاف مزاحم ہوچکے ہیں۔

    اس حالت پر قابو پانے کے لیے انہیں انگلیوں پر چبھنے والے خون کے ٹیسٹ کے ذریعے یا ایسے سینسر کے ذریعے خون میں شکر کی سطح کو باقاعدگی سے چیک کرنا چاہیے جو گلوکوز کی سطح کو مسلسل مانیٹر کرنے کے لیے سوئیوں کا استعمال کریں۔

    امریکی ذیابیطس ایسوسی ایشن کے ڈاکٹر رابرٹ گابے نے کہا ہے کہ ایف ڈے اے سے غیر منظور شدہ اسمارٹ واچ اور اسمارٹ رِنگ ڈیوائسز کا استعمال خون میں شکر کی غلط پیمائش کا باعث بن سکتا ہے جس کے ممکنہ طور پر نقصان دہ نتائج سامنے آسکتے ہیں اور غلط پیمائش کی وجہ سے مریض ادویات کی غلط خوراکیں لے سکتے ہیں، جس سے بلڈ شوگر کی خطرناک سطح اور ممکنہ طور پر شدید نوعیت کے مسائل جنم لے سکتے ہیں۔

    ڈاکٹر ڈیوڈ کلونف جنہوں نے 25 سال سے ذیابیطس کی ٹیکنالوجی پر تحقیق کی ہے کا کہنا ہے کہ کئی کمپنیاں خون میں شکر کی پیمائش کرنے کے لیے ایسی ڈیوائسز پر کام کر رہی ہیں جو براہ راست خون کے معائنے کے بغیر نگرانی کرتی ہیں اور کسی نے بھی ایف ڈی اے کی منظوری حاصل کرنے کے لیے اتنی درست اور محفوظ پروڈکٹ نہیں بنائی ہے۔

    سان میٹیو، کیلیفورنیا میں سوٹر ہیلتھ ملز پیننسولا میڈیکل سینٹر کے کلونوف نے کہا کہ وہ ٹیکنالوجی جو اسمارٹ واچز اور انگوٹھیوں کو دل کی دھڑکن اور بلڈ آکسیجن جیسے میٹرکس کی پیمائش کرنے کی اجازت دیتی ہے وہ خون میں شکر کی پیمائش کرنے کے لیے درست نہیں ہے۔

    جسمانی رطوبتوں جیسے آنسو، پسینہ اور تھوک سے خون میں شکر کی پیمائش کرنے کی کوششیں بھی درست نتائج فراہم نہیں کر سکتی۔

    اگر ایف ڈی اے ان ڈیوائسز کی منظور ی دے دیتی ہے تو خطرہ کم ہے لیکن اگر آپ ایسی پراڈکٹ استعمال کرتے ہیں جو ایف ڈی اے سے منظور نہیں ہوئی ہے تو ایسی ڈیوائسز کا استعمال خطرے سے خالی نہیں ہے۔

  • سبز چنے : ذیابیطس کے مریضوں کیلئے صحت کا خزانہ

    سبز چنے : ذیابیطس کے مریضوں کیلئے صحت کا خزانہ

    سردیوں کو ’صحت مند اور کم کیلوریز‘ والی غذاؤں کا موسم کہا جاتا ہے کیونکہ اس موسم میں ہلکی پھلکی غذائیں ہی انسان کو پسند آتی ہیں جو صحت کے لیے نہایت مفید بھی ہیں۔

    غذائی ماہرین کی جانب سے سردی کے موسم میں ہری سبزیوں کے استعمال کی خصوصی تاکید کی جاتی ہے جن میں شاخ گوبھی، مٹر، پالک، میتھی، ساگ، سرسوں کا ساگ، چقندر کے پتے وغیرہ شامل ہیں۔

    ان کے علاوہ ایک چیز اور بھی ہے اور وہ سبز چنے ہیں جبکہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس کے فوائد کے بارے میں لاعلم ہے، ماہرین کے مطابق سبز یا ہرے چنوں کا استعمال سردیوں کے لیے نہایت مفید ہے۔

    سبز چنا ایک چھوٹی سبز پھلی ہے یہ ایشیائی ممالک میں بڑے پیمانے پر کاشت کی جاتی ہے اور بہت سے کھانوں میں ایک اہم جزو ہے۔

    پودوں پر مبنی یہ غذا پروٹین، ریشہ، وٹامنز (جیسے فولیٹ، وٹامن بی6، اور وٹامن سی)، اور معدنیات (بشمول آئرن، میگنیشیم، اور پوٹاشیم) حاصل کرنے کا بھرپور ذریعہ ہے۔ اس میں چکنائی اور کولیسٹرول کی مقدار کم ہوتی ہے جو اسے صحت کیلئے متوازن غذا بناتی ہے۔

    غذائیت سے بھرپور :

    سبز چنا ایک غذائیت سے بھرپور غذا ہے جس میں ضروری وٹامنز اور معدنیات موجود ہیں۔ یہ پروٹین، فائبر، فولیٹ، میگنیشیم، پوٹاشیم، آئرن اور وٹامن بی 6 کا بہترین ذریعہ ہے۔ یہ غذائی اجزاء مختلف جسمانی افعال کی حمایت کرتے ہیں، بشمول میٹابولزم، عمل انہضام، پٹھوں کا کام، اور مجموعی طور پر جیورنبل۔

    فائبر کی زیادہ مقدار :

    سبز چنے میں غذائی ریشہ کی کافی مقدار ہوتی ہے، جو نظام ہاضمہ کو مضبوط اور آنتوں کی حرکت کو منظم کرنے میں مدد کرتا ہے۔ مناسب فائبر کی مقدار معدے کی صحت کو بہتر بنانے، قبض کو کم کرنے اور وزن کو متوازن رکھنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔

    دل کی صحت :

    سبز چنے میں کولیسٹرول کی مقدار کم ہوتی ہے جبکہ اینٹی آکسیڈنٹس اور دل کے لیے صحت بخش غذائی اجزاء جیسے میگنیشیم اور پوٹاشیم سے بھرپور ہوتے ہیں، غذا میں سبز چنے کو شامل کرنے سے بلڈ پریشر کی صحت مند سطح کو برقرار رکھنے، دل کی بیماری کے خطرے کو کم کرنے اور قلبی صحت کی مجموعی صحت کو سہارا دینے میں مدد مل سکتی ہے۔

    وزن میں کمی کیلئے :

    سبز چنا ایک غذائیت سے بھرپور کم کیلوریز والی غذا ہے جو وزن کی کمی کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے۔ اس میں پروٹین اور فائبر زیادہ ہوتا ہے، جو زیادہ بھوک کی خواہش کو کم کرسکتا ہے۔ ہرے چنے میں پروٹین کی کثیر مقدار پائی جاتی ہے، اس کا گلائسیمک انڈکس بھی کم ہے، اس لیے یہ وزن کم کرنے کے لیے بہترین غذا ہے۔

    ذیابیطس کے مریضوں کیلئے مفید :

    سبز چنے کا کم گلیسیمک انڈیکس اسے ذیابیطس کے شکار افراد یا خون میں شوگر کی سطح کو منظم کرنے کا ارادہ رکھنے والے افراد کے لیے مناسب خوراک کا انتخاب بناتا ہے۔ یہ آہستہ آہستہ ہضم اور جذب ہوتا ہے، جس سے خون میں گلوکوز کا بتدریج اخراج ہوتا ہے۔ اس سے بلڈ شوگر کی سطح میں اضافے کو روکنے اور بہتر گلیسیمک کنٹرول کو فروغ دینے میں مدد مل سکتی ہے۔

    یاد رکھیں ! یہ بات قابل غور ہے کہ سبز چنے کے زیادہ فائبر مواد کی وجہ سے کچھ لوگوں کو ہاضمے میں تکلیف یا پیٹ پھولنے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ہری چنے کو پکانے سے پہلے بھگو کر یا اُبالنے سے ان اثرات کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

  • ذیابیطس کے مریضوں کیلیے نہایت آسان نسخہ

    ذیابیطس کے مریضوں کیلیے نہایت آسان نسخہ

    ذیابیطس (شوگر) ایک ایسا مرض ہے جو انسان کو دیمک کی طرح خاموشی سے چاٹ جاتا ہے، اس پر اگر بروقت قابو نہ پایا جائے تو مریض کو خطرناک نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

    ذیابیطس کا یہ مرض متاثرہ شخص کو بینائی سے محرومی سے لے کر گردوں کے فیل ہونے اور دیگر لاتعداد طبی مسائل کا سبب بنتا ہے جس کیلئے ضروری ہے کہ اس کو بڑھنے نہ دیا جائے۔

    اس حوالے سے اے آر وائی زندگی کے پروگرام میں ڈاکٹر عیسیٰ نے ایک ذیابیطس سے متاثرہ مریضہ کو ایک نسخہ تجویز کیا جو بنانے میں نہایت آسان اور سستا بھی ہے جس کے تمام اجزاء تقریباً ہر گھر کے باورچی خانے میں موجود ہوتے ہیں۔

    ڈاکٹر عیسیٰ نے بتایا کہ ذیابیطس کا مریض چاہے کوئی سی بھی دوا استعمنال کررہا ہو اسے نہ چھوڑے بلکہ ساتھ ساتھ اس نسخے پر بھی عمل کرے جس سے قوی امکان ہے کہ افاقہ ہوگا۔

    نسخے کے اجزاء :

    دار چینی
    تخم بالنگا
    میتھی دانہ
    زیرہ

    ترکیب :

    ان چاروں چیزوں کو ہم وزن لے کر پیس لیں اور اس کا سفوف ایک جار میں رکھ لیں، اس کے بعد چار گلاس نیم گرم پانی ایک جگ میں ڈالیں اور دو چمچ سفوف اس میں شامل کریں اور ساری رات کیلیے چھوڑ دیں۔

    ڈاکٹر عیسیٰ نے بتایا کہ اگلی صبح سے شام تک اس پانی کو استعمال کریں اور اپنی شوگر کو چیک کرتی رہیں آپ کو معلوم ہوگا کہ شوگر کے لیول میں کس حد تک کمی آرہی ہے۔