Tag: diabetes

  • ذیابیطس کی دوا سے موٹاپے میں کمی ممکن

    ذیابیطس کی دوا سے موٹاپے میں کمی ممکن

    امریکا میں ایک تحقیق میں ذیابیطس کی دوا سے موٹاپے میں کمی دیکھی گئی، یہ تحقیق 1900 سے زائد افراد پر کی گئی جو موٹاپے کا شکار تھے لیکن ان میں سے کوئی بھی ذیابیطس کا مریض نہیں تھا۔

    تحقیق کے دوران تقریباً نصف رضاکاروں کو ہفتے میں صرف ایک بار سیما گلوٹائیڈ نامی دوا کی صرف 2.4 ملی گرام مقدار بذریعہ انجکشن دی گئی، ذیا بیطس کی یہ دوا اوزیمپک کے نام سے فروخت کی جاتی ہے۔

    باقی کے نصف رضاکاروں کو سیماگلوٹائیڈ اوزیمپک کے نام پر کسی دوسرے بے ضرر محلول کا انجکشن (پلاسیبو) دیا گیا۔

    تقریباً دو سال جاری رہنے والی ان طبی آزمائشوں میں شریک تمام رضاکاروں نے دوا کے ساتھ ساتھ صحت بخش معمولاتِ زندگی بھی اپنائے رکھے۔

    مطالعے کے اختتام پر معلوم ہوا کہ جن رضاکاروں نے ہفتے میں ایک بار 2.4 ملی گرام سیماگلوٹائیڈ بذریعہ انجکشن لی تھی، ان میں سے دو تہائی کا وزن 20 فیصد تک کم ہوا تھا۔

    اس کا مطلب یہ ہوا کہ مطالعہ شروع ہونے سے پہلے اگر کسی رضاکار کا وزن 200 پونڈ تھا تو 68 ہفتے تک یہ دوا لینے اور صحت بخش معمولات زندگی برقرار رکھنے کے بعد، اس کا وزن 40 پونڈ کم ہو کر 160 پونڈ رہ گیا تھا۔

    ماہرین کو یہ بھی معلوم ہوا کہ جن مریضوں نے دوا روکنے کے بعد بھی صحت بخش معمولات زندگی برقرار رکھے، ان کے وزن میں آئندہ ایک سال تک کوئی اضافہ نہیں ہوا۔

    یہ کامیابی اتنی غیرمعمولی ہے کہ سیماگلوٹائیڈ تیار کرنے والی یورپی فارماسیوٹیکل کمپنی نووو نورڈسک نے وزن کم کرنے کےلیے اسے علیحدہ سے فروخت کرنے کی اجازت طلب کرلی ہے۔

  • خون کے ایک سادہ ٹیسٹ سے شوگر کا پتا 19 سال قبل لگانا ممکن ہو گیا

    خون کے ایک سادہ ٹیسٹ سے شوگر کا پتا 19 سال قبل لگانا ممکن ہو گیا

    طبی سائنس دانوں نے کہا ہے کہ خون کے ایک سادہ ٹیسٹ سے شوگر (ذیابیطس) کا پتا 19 سال قبل لگانا ممکن ہو گیا ہے۔

    نیچر کمیونی کیشنز نامی جریدے میں شائع شدہ تحقیقی مقالے میں کہا گیا ہے کہ خون میں پائے جانے والے ایک خاص قسم کے پروٹین ’فولسٹیٹن‘ (follistatin) کی مقدار سے ٹائپ 2 ذیابیطس کا سراغ 19 سال قبل ہی لگایا جانا ممکن ہے، اگرچہ اس وقت بیماری کا معمولی خطرہ بھی نہ ہو۔

    اس ریسرچ کے نتائج سویڈن میں برسوں سے جاری ایک تحقیقی مطالعے سے حاصل ہوئے ہیں، ’مالمو ڈائٹ اینڈ کینسر کارڈیو ویسکیولر کوہورٹ‘ میں شریک 5000 افراد کے خون میں فولسٹیٹن پروٹین کی مقدار کا مطالعہ کیا گیا، جس سے یہ معلوم ہوا کہ جن افراد کے خون میں فولسٹیٹن کی مقدار اوسط سے زیادہ رہی، وہ کئی سال بعد ٹائپ 2 ذیابیطس کا شکار ہوئے۔

    تحقیقی مطالعے کے دوران ایسے لوگوں میں ذیابیطس کی علامات ظاہر ہونے کا زیادہ سے زیادہ وقفہ 19 سال نوٹ کیا گیا، یعنی ذیابیطس میں مبتلا ہونے سے 19 سال پہلے ہی ان کے خون میں فولسٹیٹن کی مقدار معمول سے بڑھ چکی تھی۔

    محققین کے مطابق ریسرچ کے دوران ذیابیطس میں مبتلا ہونے کا مکمل دارومدار مذکورہ افراد کے خون میں فولسٹیٹن کی اضافی مقدار پر تھا، اگرچہ وہ جسمانی لحاظ سے مکمل صحت مند بھی تھے۔

    خون کا ٹیسٹ

    تحقیق میں شامل ماہرین کا ماننا ہے کہ خون میں فولسٹیٹن کی مقدار معلوم کرنے کے لیے ایک سادہ بلڈ ٹیسٹ ترتیب دیا جا سکتا ہے، جس سے معلوم ہو سکے گا کہ کوئی شخص آنے والے برسوں میں شوگر کی بیماری کا شکار ہو سکتا ہے۔

    ’فولسٹیٹن‘ پروٹین

    یہ پروٹین 1980 کے عشرے میں دریافت کیا گیا تھا، یہ تقریباً تمام جسمانی بافتوں (Tissues) سے خارج ہوتا ہے لیکن اس کی زیادہ مقدار جگر سے خارج ہوتی ہے، ذیابیطس میں مبتلا افراد کے خون میں بھی اس پروٹین کی زیادہ مقدار دیکھی جا چکی ہے۔

    اس حوالے سے جانوروں پر بھی تحقیق کی جا چکی ہے، جن سے معلوم ہوا کہ انسولین کی کارکردگی متاثر کرنے میں بھی یہی پروٹین اہم کردار ادا کرتا ہے، انسولین وہ ہارمون ہے جو گلوکوز سے توانائی حاصل کرنے میں خلیوں کے کام آتا ہے۔

    انسولین کی کارکردگی متاثر ہونے کی وجہ سے ٹائپ 2 ذیابیطس لاحق ہو جاتی ہے، جس سے مرتے دم تک چھٹکارا ممکن نہیں ہوتا۔

  • کیا ذیابیطس سے نجات پانا ممکن ہے؟

    کیا ذیابیطس سے نجات پانا ممکن ہے؟

    حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ غذا میں تبدیلی لا کر ذیابیطس ٹائپ ٹو یعنی شوگر سے نجات پانا یا اسے ریورس کرنا ممکن ہوسکتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق کینیڈا کی برٹش کولمبیا یونیورسٹی اور برطانیہ کی ٹیسائیڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ غذا اور طبی ماہرین (فارماسٹ) کی نگرانی کے ذریعے ذیابیطس کو مؤثر طریقے سے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔

    اس تحقیق میں ماہرین کے زیر انتظام ایک خصوصی غذائی پلان تیار کیا گیا اور 12 ہفتوں تک ذیابیطس کے مریضوں پر اس کی آزمائش کی گئی۔

    ان مریضوں کو کم کیلوریز، کم کاربوہائیڈریٹس اور زیادہ پروٹین والا غذائی پلان دیا گیا اور ان کی ادویات کے استعمال کی مانیٹرنگ کی گئی۔

    ماہرین نے بتایا کہ ذیابیطس ٹائپ 2 کا علاج ہوسکتا ہے اور کئی بار اسے غذائی مداخلت کے ذریعے ریورس بھی کیا جاسکتا ہے، مگر ہمیں ایسی حکمت عملی مرتب کرنے کی ضرورت ہے جس میں لوگ غذائی عادات میں تبدیلی پر عمل کرسکیں جبکہ اس دوران ان کی ادویات کی تبدیلیوں پر بھی نظر رکھی جائے۔

    انہوں نے کہا کہ فارماسٹ کو ادویات کے حوالے سے مہارت ہوتی ہے اور وہ ذیابیطس کے مریضوں کی نگہداشت میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق جب ذیابیطس کے مریض کم کیلوریز یا کاربوہائیڈریٹس والی غذا استعمال کرتے ہیں، تو ان کو گلوکوز کی سطح کم کرنے والی ادویات کا استعمال کم کرنے یا نہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، کمیونٹی فارماسٹ اس حوالے سے مؤثر کردار ادا کرسکتے ہیں۔

    اس تحقیق میں 50 فیصد رضا کاروں کو کم کیلوریز، کم کاربوہائیڈریٹس اور زیادہ پروٹین والی غذا کا استعمال کروایا گیا جبکہ اس دوران ماہرین نے ان کا معائنہ جاری رکھا۔

    12 ہفتے بعد ذیابیطس کے ایک تہائی مریضوں کے لیے ادویات کی ضرورت نہیں رہی جبکہ کنٹرول گروپ کو بدستور ادویات کی ضرورت رہی۔

    محققین کے مطابق پہلے گروپ کے گلوکوز کنٹرول، اوسط جسمانی وزن، بلڈ پریشر اور مجموعی صحت میں نمایاں بہتری بھی آئی۔

    انہوں نے بتایا کہ غذائی حکمت عملی کو اپنانا بیماری کو ریورس کرنے کی کنجی ہے جس کے ساتھ ضروری ہے کہ فارماسٹ بھی ادویات کے استعمال کی مانیٹرنگ کرے۔

    اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے نیچر کمیونیکشن میں شائع ہوئے۔

  • طبی ماہرین کا پاکستان میں ذیابیطس سے متعلق پریشان کن انکشاف

    طبی ماہرین کا پاکستان میں ذیابیطس سے متعلق پریشان کن انکشاف

    کراچی: طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 2 کروڑ سے زائد افراد کو اپنے ذیابیطس میں مبتلا ہونے کا علم نہیں ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ماہرین صحت نے کہا ہے کہ ذیابیطس کووِڈ سے بڑی عالمی وبا ہے، جو پاکستان جیسے غریب ممالک میں کرونا وائرس سے زیادہ افراد کی جان لے رہی ہے، پاکستان میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد 2 کروڑ سے زائد ہے، جب کہ تقریباً 2 کروڑ افراد ایسے ہیں جنھیں اس بات کا علم ہی نہیں کہ وہ ذیابیطس میں مبتلا ہو چکے ہیں۔

    آج کراچی میں پاکستان اینڈوکرائن سوسائٹی اور ڈسکورِنگ ڈائبیٹیز پروجیکٹ کے تحت ملک بھر میں 200 سے زائد ڈائبیٹیز کلینکس کی افتتاحی تقریب منعقد ہوئی۔

    افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان اینڈوکرائن سوسائٹی کے صدر ڈاکٹر ابرار احمد کا کہنا تھا کہ پاکستان میں تقریباً دو کروڑ افراد کو اپنے ذیابیطس میں مبتلا ہونے کے بارے میں علم ہی نہیں اور انھیں اپنی بیماری کا علم اس وقت ہوتا ہے جب پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے۔

    پاکستان اینڈوکرائن سوسائٹی نے ایسے مریضوں کی بروقت تشخیص کے لیے مقامی دوا ساز ادارے فارم ایوو کے ساتھ مل کر ڈسکورِنگ ڈائبیٹیز پروجیکٹ شروع کیا ہے، اس پروجیکٹ کے تحت ایک مفت ہیلپ لائن قائم کی گئی ہے جہاں پر فون کر کے ذیابیطس کے خطرے سے دوچار افراد رہنمائی اور فری ٹیسٹنگ سمیت تشخیص کی سہولت حاصل کر سکتے ہیں۔

    بقائی انسٹیٹیوٹ آف ڈائیبیٹولوجی اینڈ اینڈوکرائنالوجی سے وابستہ معروف ماہر امراض ذیابیطس ڈاکٹر مسرت ریاض کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ذیابیطس میں مبتلا غیر تشخیص شدہ دو کروڑ افراد میں کئی ہزار بچے اور حاملہ خواتین بھی شامل ہیں، جنھیں اس بات کا علم ہی نہیں کہ وہ اپنے طرز زندگی کے باعث ذیابیطس جیسے مہلک مرض میں مبتلا ہو چکے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ عوام کو چاہیے کہ وہ جلد سے جلد اپنی کھانے پینے کی عادات اور طرز زندگی کو بدلیں، ورزش کو اپنی زندگی کا لازمی حصہ بناتے ہوئے اپنے معمولات تبدیل کریں، تاکہ وہ صحت مند زندگی گزار سکیں۔

    جناح اسپتال سے وابستہ معروف اینڈوکرائنالوجسٹ ڈاکٹر عروج لعل رحمٰن کا کہنا تھا کہ چالیس سال سے زیادہ عمر کے ایسے افراد جن کے خاندان میں کوئی نہ کوئی شخص ذیابیطس میں مبتلا ہے، موٹاپے کا شکار ہیں، انھیں کسی علامت کے ظاہر ہونے کا انتظار کرنے کی بجائے جلد از جلد اپنی شوگر چیک کروانی چاہیے، تاکہ انھیں اس بیماری کی پیچیدگیوں اور مہلک اثرات سے بچایا جا سکے۔

    ڈسکورنگ ڈائبٹیز پروجیکٹ کے انچارج اور مقامی دوا ساز ادارے فارم ایوو کے چیف ایگزیکٹو آفیسر سید جمشید احمد کا کہنا تھا کہ اگر فوری طور پر اقدامات نہ کیے گئے تو خدشہ ہے کہ پاکستان میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد 2045 تک دس کروڑ سے زیادہ ہو جائے گی۔

  • ذیابیطس کے مریضوں میں شوگر لیول متوازن بنانے کی مؤثر دوا، نئی تحقیق

    ذیابیطس کے مریضوں میں شوگر لیول متوازن بنانے کی مؤثر دوا، نئی تحقیق

    ایک نئی تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ معدے میں تیزابیت کم کرنے والا ایک مادہ اینٹاسیڈ ذیابیطس کے مریضوں میں شوگر لیول کو متوازن کرنے میں بھی مؤثر ہے۔

    تفصیلات کے مطابق جرنل آف کلینیکل اینڈو کرینولوجی اینڈ میٹابولزم میں شائع ہونے والی ایک نئی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ کچھ اینٹاسیڈ (Antacids) ایسے بھی ہیں جو ذیابیطس سے متاثرہ افراد میں بلڈ شوگر لیول کو بہتر کرتے ہیں۔

    انھی میں سے پروٹون پمپ انہیبیٹرز ( پی پی آئی) بھی ہیں، جنھیں عام طور پر اینٹاسیڈ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، اور جو ذیابیطس کے مریضوں کے بلڈ شوگر لیول کو کنٹرول کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

    جو لوگ ہاضمے کے مسائل سے دوچار ہیں، جیسے پیٹ میں جلن اور گیس کی تکلیف، انھیں اپنے ڈاکٹرز سے مشورے کے بعد اینٹاسیڈ لینی چاہیے، اس کے علاوہ جو لوگ صحت سے متعلق مسائل کی وجہ سے زیادہ دوائیاں لیتے ہیں، انھیں بھی صبح کے وقت خالی پیٹ میں سب سے پہلے اینٹاسیڈ دوا لینے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔

    ضروری اینٹاسیڈ کیا ہے؟

    اینٹاسیڈ ایک ایسی دوا ہے جو معدے میں موجود تیزابیت کو غیر مؤثر بناتی ہے، اس میں ایلومینیم، کیلشیم، میگنیشیم یا سوڈیم بائی کاربونیٹ جیسے اجزا موجود ہوتے ہیں، اور معدے میں تیزاب کو بننے سے روکنے کے لیے اہم ہے اور اس کے پی ایچ کو متوازن بناتا ہے۔

    پی ایچ کیا ہے؟

    کسی محلول میں ہائیڈروجن آئن کی تعداد کو جاننے کے لیے پی ایچ کی پیمائش کی جاتی ہے، اور اس کے ذریعے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا محلول کتنا ترش (تیزابی) یا کتنا کھارا (اساسی) ہے۔ پی ایچ کی پیمائش کے لیے پی ایچ پیپر یا پی ایچ اسکیل کی مدد لی جاتی ہے، جس پر 1 سے 14 درجے ہوتے ہیں۔ اگر اسکیل میں درجہ 7 سے کم ظاہر ہوتا ہے تو یہ محلول تیزابی ہوتا ہے، اسکیل میں محلول کا پی ایچ 7 درجہ نظر آئے تو وہ نیوٹرل ہوگا۔ جب کہ اسکیل کا درجہ 7 سے 14 تک ہو تو محلول کھارا یا سوڈا جیسا ہوگا۔ عام گیسٹرک ایسڈ کا پی ایچ 1.5 سے 3.5 کے درمیان ہوتا ہے۔

    اینٹاسیڈ کس لیے؟

    اینٹاسیڈ گیسٹرو ایسوفیگیل ریفلکس بیماری (جی ای آر ڈی)، سینے کی جلن یا بدہضمی (dyspepsia) کو دور کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، کچھ اینٹاسیڈز کو مکمل طور پر غیر متعلقہ طبی حالتوں کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ جیسے:

    ایلومینیم اینٹاسیڈ: خون مین فاسفیٹ کی سطح کو کم کرنے اور گردے میں پتھری کو بننے سے روکتا ہے۔

    کیلشیم کاربونیٹ اینٹاسیڈز :کیلشیم کی کمی کو دور کرنے میں مدد کرتا ہے۔

    میگنیشیم آکسائیڈ اینٹاسیڈ: اس سے میگنیشم کی کمی کا علاج کیا جاتا ہے۔

    اینٹاسیڈ شوگر کے لیے

    اینڈوکرائن سوسائٹی کے جرنل آف کلینیکل اینڈوکرینولوجی اور میٹابولزم میں شائع ہونے والے ایک نئے تجزیے کے مطابق اینٹاسیڈ ذیابیطس سے متاثرہ لوگوں میں خون میں شوگر کی سطح کو کنٹرول کرتا ہے، لیکن عام آبادی میں ذیابیطس کے خطرے کو کم کرنے پر اس کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔

    محققین نے ذیابطیس کے مریضوں میں بلڈ شوگر کی سطح کو کنٹرول کرنے والی پروٹون پمپ انہیبیٹر، جسے عام طور پر اینٹاسیڈ دوا کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، کے اثرات کو سمجھنے کے لیے تجزیہ کیا تھا اور یہ جانے کی کوشش کی تھی کہ کیا ان دواؤں سے عام آبادی میں ذیابطیس کی شروعاتی علامات کو روکا جا سکتا ہے؟

  • کورونا وائرس کے مریضوں کو ایک اور بڑے خطرے کا سامنا؟ ماہرین نے خبردار کردیا

    کورونا وائرس کے مریضوں کو ایک اور بڑے خطرے کا سامنا؟ ماہرین نے خبردار کردیا

    کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے افراد بڑی مشکل میں پڑ سکتے ہیں، محققین کا کہنا ہے کہ متعدد مریض ذیابیطس کا شکار ہوسکتے ہیں۔

    ایک نئی طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کورونا وائرس سے بہت زیادہ بیمار ہونے والے افراد میں ذیابیطس کی تشخیص کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔

    اس سے قبل اگست 2020 میں امپرئیل کالج لندن کے محققین نے انتباہ جاری کیا تھا کہ کووڈ 19 بچوں میں ذیابیطس ٹائپ ون کا باعث بن سکتی ہے۔

    اب طبی جریدے نیچر میٹابولزم میں شائع نئی تحقیق میں انکشاف کیا گیا کہ اٹلی کے ایک ہسپتال میں زیر علاج رہنے والے 551 کووڈ مریضوں میں سے 46 فیصد کا بلڈ شوگر لیول بڑھ گیا، جو ذیابیطس کے مریضوں میں ایک عام مسئلہ ہوتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق یہ مسئلہ مریضوں میں کوویڈ سے صحتیابی کے بعد بھی کم از کم 2 ماہ تک برقرار رہا۔

    محققین کا کہنا تھا کہ ابھی یہ تو معلوم نہیں کہ کورونا وائرس سے متحرک ہونے والے ذیابیطس کے مرض کا بہترین علاج کیا ہے، مگر ایک ماہر نے خبردار کیا کہ کووڈ کے باعث ہمیں شاید ذیابیطس کے شکار افراد کی تعداد میں نمایاں اضافے کو دیکھنا پڑے گا۔

    ذیابیطس کی 2 اقسام عام ہیں، جن میں سے ٹائپ ون ایک آٹوامیون مرض ہے جو اس وقت سامنے آتا ہے جب مریض کا جسم غلطی سے انسولین بنانے والے خلیات پر حملہ آور ہوجاتا ہے۔

    اس کے مقابلے میں ذیابیطس ٹائپ 2 کو مریض کے طرز زندگی سے منسلک کیا جاتا ہے، یعنی زیادہ جسمانی وزن یا سست طرز زندگی اس کی وجوہات میں شامل ہے۔

    ذیابیطس کے مریضوں کے بارے میں یہ پہلے ہی یہ بات سامنے آچکی ہے کہ ان میں کورونا وائرس سے بیماری کی شدت سنگین ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے، مگر اب ایسے شواہد مسلسل سامنے آرہے ہیں کہ کووڈ اس خاموش قاتل مرض کا شکار بھی بناسکتا ہے۔

    کووڈ کے مریضوں میں ذیابیطس کی تشخیص کو سمجھنے کے لیے بوسٹن چلڈرنز ہاسپٹل کے ماہرین نے اٹلی کے شہر میلان کے ایک ہسپتال میں مارچ سے مئی 2020 کے دوران زیر علاج رہنے والے 551 مریضوں کا جائزہ لیا۔

    ان مریضوں میں ایک بلڈ شوگر سنسر ہسپتال میں داخلے کے وقت نصب کیا گیا تھا اور اس کے ڈیٹا کا جائزہ 6 ماہ تک لیا گیا۔

    محققین کا کہنا تھا کہ ان مریضوں میں سے کوئی بھی ہسپتال میں داخلے سے پہلے سے ذیابیطس کا شکار نہیں تھا اور ہم نے 46 فیصد مریضوں میں نئے ہائپر گلیسیما کو دریافت کیا۔

    ہائپر گلیسمیا ہائی بلڈ شوگر لیول کے لیے استعمال ہونے والی طبی اصطلاح ہے، وقت کے ساتھ اس کے نتیجے میں مریضوں کی آنکھوں، اعصاب، گردوں یا خون کی شریانوں کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہوتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق جن مریضوں کو کووڈ کے باعث ہائی بلڈ شوگر کا سامنا ہوا ان کو دیگر مریضوں کے مقابلے میں ہسپتال میں زیادہ عرصے قیام کرنا پڑا، ان کی علامات زیادہ سنگین تھیں اور انہیں آکسیجن، وینٹی لیشن اور آئی سی یو نگہداشت کی بھی زیادہ ضرورت پڑی۔

    محققین کے مطابق حیران کن طور پر ان افراد میں انسولین کی بہت زیادہ مقدار بننے لگی تھی جبکہ بلڈ شوگر لیول کی سطح کم کرنے والے خلیات کے افعال پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔

    انہوں نے بتایا کہ بنیادی طور پر لبلبے کے ہارمونز میں آنے والی خرابیوں سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ کے باعث انہیں ان مسائل کا سامنا ہوا اور صحتیابی کے لیے بھی زیادہ وقت لگا۔

    کورونا وائرس کی یچیدگیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مریض کا مدافعتی نظام حد سے زیادہ متحرک ہوجاتا ہے، جس کے نتیجے میں ورم کا باعث بننے والے مالیکیولز کی بھرمار ہوجاتی ہے جو صحت مند خلیات پر حملہ آور ہوجاتی ہے۔

    اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ورم کا باعث بننے والے مدافعتی پروٹیشنز کو بلاک کرنے سے مریضوں کے بلڈ شوگر لیول کو کسی حد تک بہتر بنایا جاسکتا ہے۔

    تاہم دیگر مسائل اپنی جگہ برقرار رہتے ہیں اور ہر بار کھانے کے بعد ان مریضوں کے جسم میں گلوکوز کی سطح میں غیرمعموی اضافہ ہوجاتا۔

    محققین کا کہنا تھا کہ یہ اولین تحقیقی رپورٹس میں سے ایک ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ کووڈ 19 براہ راست لبلبے پر اثرات مرتب کرنے والا مرض ہے جو کہ طویل المعیاد طبی مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔

    ان مریضوں کا علاج کس طرح ہوسکتا ہے یہ تاحال کسی اسرار سے کم نہیں، کیونکہ انسولین کو مسلسل بلاک کرنے سے دائمی ورم کا سامنا ہوسکتا ہے جس سے نقصان بڑھنے کا خدشہ ہوتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اس حواے سے زیادہ بڑی تحقیق کیے جانے کی ضرورت ہے، کیونکہ کروڑوں افراد کووڈ کے باعث ہسپتال میں داخل ہوئے اور یہ سلسلہ اب بھی دنیا بھر میں جاری ہے، جس سے ذیابیطس کے شکار آبادی میں نمایاں اضافے کا خدشہ ہے۔

    یہ تو ابھی مکمل طور پر واضح نہیں کہ کووڈ ذیابیطس کا باعث کیوں بن سکتا ہے، مگر ایک ممکنہ وضاحت لبلبے میں ایس 2 ریسیپٹرز کی تعداد بہت زیادہ ہونا ہے، جس کو کورونا وائرس خلیات میں داخلے کے لیے استعتمال کرتا ہے۔

    اسی طرح کورونا وائرس کے مریضوں میں مدافعتی نظام کے باعث متحرک ہونے والا ورم بھی لبلبلے کو نقصان پہنچا کستا ہے جس سے اس کی انسولین بنانے کی صلاحیت متاثر ہوسکتی ہے۔

  • ذیابیطس سے بچنے کے لیے بہترین اور نہایت آسان طریقہ

    ذیابیطس سے بچنے کے لیے بہترین اور نہایت آسان طریقہ

    یابیطس ایک مرض ہے جو ایسی صورت میں ہوتا ہے جب آپ کا جسم خون کے گلوکوز کو مناسب طرح سے استعمال نہیں کرسکتا ہے۔ ہمارا جسم خون میں گلوکوز کو توانائی کے لیے استعمال کرتا ہے۔

    جب ہم کوئی ایسی غذا کھاتے ہیں یا پیتے ہیں جس میں کاربوہائیڈریٹ ہو، جیسے کہ چپاتی، چاول، بریڈ، آلو، پاستا، بسکٹس، مٹھائیاں، مشروبات اور پھلوں کا رس تو خون میں گلوکوز کی سطح بڑھ جاتی ہے۔

    جب آپ کو ذیابیطس ہوتا ہے تو، آپ کے خون میں گلوکوز کی سطحیں بڑھی ہوئی ہوتی ہیں کیونکہ آپ کا جسم اس توانائی کے لیے اس گلوکوز کو مناسب طور پر استعمال نہیں کرپاتا جس کی اسے ضرورت ہے۔

    اگر اسے درست نہ کیا جائے تو یہ سنگین پیچیدگیاں پیدا کرسکتا ہے جس کے سبب آپ اندھے ہوسکتے ہیں، آپ کو دل کا دورہ یا فالج ہوسکتا ہے یا یہاں تک کہ عضو کاٹنے کی بھی ضرورت پڑ سکتی ہے۔

    ذیابیطس ایک ایسا مرض ہے جس کا علم اکثر اس کے شکار افراد کو نہیں ہوتا اور اسی وجہ سے اسے خاموش قاتل بھی کہا جاتا ہے۔ خاموش قاتل کہنے کی وجہ ذیابیطس کے نتیجے میں جسم میں ہونے والی جان لیوا پیچیدگیاں ہوتی ہیں۔

    تاہم روزانہ کچھ مقدار میں پھلوں کو کھانا ذیابیطس ٹائپ ٹو کا شکار ہونے کا خطرہ نمایاں حد تک کم کرسکتا ہے۔ یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی جس کے نتائج جریدے جرنل آف کلینکل اینڈوکرینولوجی اینڈ مٹابولزم میں شائع ہوئے۔

    اگر آپ کو علم نہ ہو تو جان لیں کہ ذیابیطس کے مریض کے دوران خون میں شکر کی مقدار بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے اور ایک اندازہ کے مطابق 2019میں اس کے شکار افراد کی تعداد 46 کروڑ سے زیادہ تھی۔ اس وقت بھی 37 کروڑ افراد میں ذیابیطس ٹائپ ٹو تشکیل پانے کا خطرہ ہے جو اس بیماری کی سب سے عام قسم ہے۔

    آسٹریلیا کی ایڈتھ کوون یونیورسٹی کی اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ دن بھر میں پھلوں کی کچھ مقدار کو کھانا اگلے5 برسوں میں ذیابیطس ٹائپ ٹو کا شکار ہونے کا خطرہ 36 فیصد تک کم کردیتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق ایسا پھل کھانے سے ہوتا ہے اور پھلوں کے جوس سے ایسا کوئی فائدہ دریافت نہیں ہوا۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ صحت بخش غذا اور طرز زندگی میں پھلوں کو کھانے کی عادت کو اپنانا ذیابیطس سے تحفظ کے لیے زبردست حکمت عملی ہے۔

    اس تحقیق میں 7 ہزار 6 سو سے زیادہ افراد کے ڈیٹا کو دیکھا گیا تھا جن کی جانب سے پھلوں اور پھلوں کے جوس پینے کے بارے میں تفصیلات جمع کرائی گئی تھیں۔

    محققین نے دریافت کیا کہ جو لوگ پھل کھانے کے عادی ہوتے ہیں ان میں 5 برسوں میں ذیابیطس کا خطرہ 36 فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔

    محققین نے پھلوں کے کھانے اور انسولین کی حساسیت کے درمیان ایک تعلق دریافت کیا، یعنی جو لوگ زیادہ پھل کاتے ہیں ان میں بلڈ گلوکوز کی سطح کو کم کرنے کے لیے انسولین کی مقدار بھی کم بنتی ہے۔

    یہ اس لیے اہم ہے کیونکہ انسولین کی زیادہ مقدار کی گردش سے خون کی شریانوں کو نقصان پہنچتا ہے اور ذیابیطس کے ساتھ ہائی بلڈ پریشر، موٹاپے اور امراض قلب کا خطرہ بڑھتا ہے۔

  • اونٹنی کا دودھ ذیابیطس اور کینسر میں مفید قرار، مزید فوائد بھی سامنے آگئے

    اونٹنی کا دودھ ذیابیطس اور کینسر میں مفید قرار، مزید فوائد بھی سامنے آگئے

    مشرق کی طرح مغرب میں بھی اونٹنی کے دودھ کے استعمال کا رحجان جاری ہے لیکن ناقدین کا اصرار ہے کہ انسانوں کی بجائے جانوروں پر اس کے تجربات کئے گئے ہیں۔

    اونٹنی کا دودھ ، دہی اور مکھن وغیرہ اپنی زبردست غذائیت کی وجہ سے عالمی شہرت رکھتے ہیں کیونکہ ان میں وٹامن سی، فولاد، کیلشیئم، انسولین اور پروٹین کی بڑی مقدار پائی جاتی ہے۔

    اونٹنی کے دودھ پر عرصہ دراز سے تحقیق کی جارہی ہے اور اب تک اس کے کئی فوائد سامنے آچکے ہیں تاہم تازہ ترین تحقیق کے بعد یہ بات واضح ہوئی ہے کہ اونٹنی کا دودھ اپنے اندر بیش بہا خصوصیات رکھتا ہے اور ذیابیطس کے مریضوں کے لئے انتہائی مفید ثابت ہوسکتا ہے۔

    متحدہ عرب امارات یونیورسٹی نے خاص طور پر اونٹنی کے دودھ کے اینٹی ڈئباٹک خصوصیات کی تحقیقات کرنے کے منصوبے کے لئے مالی اعانت فراہم کی ہے۔

    اس منصوبے پر خصوصی توجہ دینے کا مقصد اس دودھ سے مزید فوائد حاصل کرنا ہے خاص طور پر وہ فوائد جن سے ذیابیطس کے مریض مستفید ہوسکیں۔

    اونٹنی کا دودھ متحدہ عرب امارات اور دنیا کے بہت سارے حصوں میں ایک مقبول شے ہے۔ یہ ذیابیطس اور کینسر جیسی بیماریوں کے خلاف اپنے علاج معالجے کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ یہ بھی وسیع پیمانے پر نوٹ کیا گیا ہے کہ اونٹنی کا دودھ گلیسیمک کنٹرول کو راغب کرنے کے لئے درکار انسولین کی خوراک کو کم کرتا ہے اور خون میں گلوکوز کو بہتر بناتا ہے۔

    اونٹنی کے دودھ کی اینٹی ڈئباٹک خصوصیات کی تحقیقات دنیا بھر میں بہت سارے محققین نے کی ہیں چنانچہ متحدہ عرب امارات کے کالج آف سائنس کے شعبہ حیاتیات سے ڈاکٹر محمد ایوب، ڈاکٹر ساجد مقصود کی لیب ، متحدہ عرب امارات کے زید سینٹر برائے ہیلتھ سائنسز یو اے ای یو کے تعاون سے ، متحدہ عرب امارات کے محکمہ فوڈ سائنس ، کالج آف فوڈ اینڈ ایگریکلچر کی لیب نے مشترکہ طور پر اونٹنی کے دودھ کی غذائیت اور خصوصیات کا مطالعہ کیا۔

    اس مطالعے کا مقصد اونٹنی کے دودھ میں پروٹین حصوں سے جراثیم کش اینٹی ڈئباٹک ایجنٹ کی نشاندہی کرنا اور سالماتی سطح پر اس کے عمل کے انداز کو سمجھنا ہے۔ ڈاکٹر ایوب اور ڈاکٹر مقصود نے حال ہی میں ایک مطالعہ شائع کیا ہے جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اونٹ کے دودھ سے نکالا جانے والا جیوپیوٹک پیپٹائڈس انسانی انسولین ریسیپٹر اور خلیوں میں گلوکوز کی نقل و حمل پر مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں۔

    اس کے علاوہ ایک اور تحقیق میں اونٹنی کے دودھ میں پروٹین کے علاوہ ذیابیطس سے بچنے والی خصوصیات کے حق میں بھی ثبوت فراہم کیے گئے جس میں ذیابیطس چوہوں میں اینٹی ہائپرگلیسیمیک اثر کا تجربہ کیا گیا۔ یہ نتائج انتہائی امید افزا ہیں اور اونٹ کے دودھ کی بنی مصنوعات کا استعمال کرتے ہوئے ذیابیطس کے خلاف جنگ میں ایک پیشرفت کا باعث بن سکتے ہیں۔

    اس طرح اونٹنی کے دودھ کی اینٹی ڈئباٹک ڈیزاسٹ خصوصیات کی تحقیقات سے ذیابیطس کی پیچیدگیوں کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے اور متحدہ عرب امارات اور دنیا میں اس دائمی بیماری کے خلاف جنگ میں مدد حاصل کی جا سکتی ہے۔

    اس کے علاوہ اس طرح کی دریافتیں متحدہ عرب امارات کی معاشی نمو میں خاص طور پر اونٹنی کے دودھ پر مبنی ذیابیطس کے علاج سے متعلق ادوایات کی دریافت میں اہم کردار ادا کرتی ہیں کیونکہ متحدہ عرب امارات میں اونٹوں کو ایک اہم معاشی وسیلہ سمجھا جاتا ہے۔

    اونٹنی کے دودھ کو ذیابیطس کے مریضوں کے لیے مفید قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن اونٹ کے دودھ کے بے تحاشہ فوائد اور بھی ہیں جو اس کے باقاعدہ استعمال سے حاصل ہوسکتے ہیں۔

  • کرونا وائرس شوگر کا مریض بھی بنا سکتا ہے؟

    کرونا وائرس شوگر کا مریض بھی بنا سکتا ہے؟

    کرونا وائرس کی وجہ سے مختلف جسمانی مسائل سامنے آچکے ہیں، اب حال ہی میں انکشاف ہوا ہے کہ کرونا وائرس کا شکار افراد ذیابیطس یا شوگر کے مریض بھی بن سکتے ہیں۔

    حال ہی میں امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ کووڈ 19 نہ صرف ذیابیطس کے مریضوں کے لیے جان لیوا ثابت ہونے والے والا مرض ہے بلکہ یہ متعدد مریضوں میں اس میٹابولک بیماری کو بھی متحرک کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔

    ویٹرنز افیئرز سینٹ لوئس ہیلتھ کیئر سسٹم کی تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ 19 ایسے افراد کو ذیابیطس کا شکار بنارہا ہے جو اس سے پہلے اس بیماری کے شکار نہیں تھے۔

    یہ واضح نہیں کہ کووڈ سے لوگوں میں ذیابیطس کا عارضہ کیوں ہوسکتا ہے مگر کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ سارس کووڈ 2 وائرس ممکنہ طور لبلبے کو نقصان پہنچاتا ہے۔

    لبلبہ ایک ہارمون انسولین کو بناتا ہے جو خون میں موجود شکر کو توانائی میں تبدیل کرتا ہے اور اس میں مسائل سے ذیابیطس کا مرض ہوسکتا ہے۔

    اس وقت دنیا بھر میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد 46 کروڑ سے زائد ہے اور ماہرین کو خدشہ ہے کہ کووڈ کی اس غیرمعمولی پیچیدگی سے اس تعداد میں نمایاں اضافہ ہوسکتا ہے۔

    اس تحقیق کے لیے ماہرین نے محکمہ ویٹرنز افیئرز کے نیشنل ہیلتھ کیئر ڈیٹابیس سے شواہد اکٹھے کیے۔ انہوں نے دریافت کیا کہ کووڈ 19 کو شکست دینے والے افراد میں آئندہ 6 ماہ کے دوران ذیابیطس کی تشخیص کا امکان 39 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق کووڈ سے معمولی بیمار رہنے والے افراد جن کو اسپتال میں داخل نہیں ہونا پڑا، ان میں سے ہر ایک ہزار میں سے 6.5 میں ذیابیطس کا خطرہ ہوتا ہے۔

    اسی طرح اسپتال میں زیرعلاج رہنے والے ہر ایک ہزار میں سے 37 مریض ذیابیطس کا شکار ہوسکتے ہیں اور یہ شرح ان مریضوں میں زیادہ ہوسکتی ہے جن کو آئی سی یو میں زیر علاج رہنا پڑا ہو۔

    کووڈ کے مریضوں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے یہ شرح معمولی نہیں کیونکہ دنیا بھر میں کووڈ کے مریضوں کی تعداد 15 کروڑ سے زیادہ ہے۔

    ماہرین کا خیال ہے کہ کووڈ کے مریضوں میں ذیابیطس کی ممکنہ وجہ لبلبے کے انسولین بنانے والے خلیات کا تباہ ہونا ہے جو یا تو کرونا وائرس کا اثر ہے یا کووڈ کے خلاف جسمانی ردعمل اس کا باعث بنتا ہے۔

    ابھی یہ واضح طور پر کہنا مشکل ہے کہ کووڈ 19 ہی ذیابیطس کا باعث بنتا ہے، تاہم اس حوالے سے ڈیٹا سے کرونا کی وبا کے اس اثر کو جانچنے میں مدد مل سکے گی۔

  • رمضان المبارک: شوگر کے مریض روزہ داروں کو خاص احتیاط کی ضرورت ہے

    رمضان المبارک: شوگر کے مریض روزہ داروں کو خاص احتیاط کی ضرورت ہے

    ماہ صیام رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے، تاہم ایسے ماہ میں ذیابیطس سمیت مختلف بیماریوں کا شکار افراد کچھ مشکل میں پڑجاتے ہیں کہ وہ روزہ کیسے رکھیں۔

    پاکستان میں ہر 4 میں سے ایک فرد شوگر کی کسی نہ کسی قسم کا شکار ہے، ایسے افراد اگر روزہ رکھ رہے ہیں تو انہیں صحت مند اور متوازن بلڈ شوگر لیول کے لیے کچھ تدابیر پر عمل کرنا چاہیئے۔

    شوگر کے مریضوں کو سب سے پہلے روزہ رکھنے سے قبل اپنے معالج سے رابطہ کرنا چاہیئے اور اپنے معالج کے تجویز کردہ اصولوں پر عمل کرنا چاہیئے۔

    طبی ماہرین کے مطابق روزہ رکھنا ان افراد کے لیے مشکل ہوتا ہے جو کہ انسولین کا استعمال کرتے ہوں یا شوگر سے متعلق مخصوص ادویات کا استعمال کر رہے ہوں، ایسے افراد روزہ رکھنے کی صورت میں اگر پورے مہینے اپنے شوگر لیول کو مسلسل مانیٹر کرتے رہیں اور اپنے بلڈ شوگر لیول پر کڑی نظر رکھیں تو انہیں اس کی سمجھ آجائے گی اور وہ اپنے کھانے پینے کی عادات اور روزے کو اپنی شوگر کے لیول کے مطابق باآسانی چلا سکتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہنا ہے ذیابیطس ٹائپ 1 کے مریضوں کو روزہ نہیں رکھنا چاہیئے جبکہ ذیابیطس ٹائپ 2 کے مریضوں کو روزہ رکھنے سے قبل اپنے معالج سے ضرور مشورہ کر لینا چاہیئے تاکہ کسی ایمرجنسی کی صورت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

    شوگر لیول گرنے اور زیادہ ہونے کی علامات کیا ہیں؟

    انسانی خون میں شوگر لیول کی کمی کی علامات میں بہت زیادہ پسینہ آنا، سردی لگنا، انتہائی شدید بھوک کا محسوس ہونا، بینائی کا دھندلانا، دل کی دھڑکن کی رفتار تیز ہونا اور سر چکرانا شامل ہے جبکہ شوگر لیول میں اضافے کی علامات میں مریض کے ہونٹوں کا خشک ہونا اور بار بار پیشاب آنا شامل ہے۔

    طبی ماہرین کی جانب سے تجویز کیا جاتا ہے کہ شوگر کے مریض رمضان کے مہینے کے دوران پروٹین اور فائبر سے بھرپور غذا کا استعمال کریں جبکہ میٹھے کھانوں اور کیفین سے گریز کریں۔

    ذیابیطس کے مریض رمضان کے دوران ہر قسم کی غذا کا استعمال کرسکتے ہیں، بس یہ خیال رکھیں کہ وہ متوازن غذا ہو، کسی بھی غذا کا زیادہ استعمال پریشانی کا باعث بن سکتا ہے۔

    طبی ماہرین کی جانب سے شوگر کے مریضوں کے لیے تجویز کیے گئے چند مفید مشورے مندرجہ ذیل ہیں۔

    شوگر کے مریض کے لیے ماہرین کی جانب سے تجویز کیا جاتا ہے کہ سب سے پہلے وہ خود کو روزہ رکھنے کے لیے ذہنی طور پر تیار کریں۔

    ماہرین کی جانب سے بہترین مشورہ یہ دیا جاتا ہے کہ ہر مریض رمضان کے آغاز سے قبل ہی اپنے معالج سے دواؤں اور غذا کا چارٹ اور طریقہ استعمال بنوا لے، ادویات سے متعلق خود سے کوئی فیصلہ نہ کریں۔

    شوگر کے شکار افراد سحری میں ایسی غذاؤں کا استعمال کریں جو دیر سے ہضم ہوں، عام حالات میں ذیابیطس کے مریض پراٹھا نہیں کھا سکتے لیکن وہ سحری میں کم تیل سے بنا ہوا پراٹھا کھا سکتے ہیں، دیر سے ہضم ہونے والی غذاؤں میں حلیم بھی شامل ہے، حلیم میں گوشت اور دالوں کے سبب فائبر بہت زیادہ پایا جاتا ہے جس کے نتیجے میں تا دیر بھوک نہیں لگتی۔

    کولیسٹرول کے بڑھنے کے خدشات کے سبب انڈے کا استعمال نہ کریں، شوگر کے مریض اگر انڈے کا استعمال کرنا بھی چاہتے ہیں تو نصف زردی کے ساتھ انڈہ کھایا جا سکتا ہے، انڈے کا استعمال کسی سالن کے ساتھ ملا کر بھی کیا جا سکتا ہے۔

    شوگر کے جن مریضوں کو پیاس زیادہ لگتی ہے وہ سحری میں الائچی کے قہوے کا استعمال کر سکتے ہیں، الائچی کے قہوے میں کم مقدار میں دودھ بھی شامل کیا جا سکتا ہے یا پھر نمکین لسی کا استعمال بھی کیا جا سکتا ہے۔

    سحری کے دوران میٹھے میں کھجلہ، پھینیاں، کسٹرڈ یا کسی بھی قسم کی میٹھی غذا کا استعمال ہر گز نہ کریں۔

    شوگر کے مریض روزہ کھجور سے افطار کر سکتے ہیں، ایک تحقیق کے مطابق ایک کھجور میں 6 گرام کاربو ہائیڈریٹس پائے جاتے ہیں جس میں معدنیات، فائبر، فاسفورس اور پوٹاشیئم بھی موجود ہوتا ہے، کھجور میں پائے جانے والا پوٹاشیئم تھکاوٹ اور بوجھل پن دور کرتا ہے۔

    ذیابیطس کے مریض روزہ افطار کرتے ہوئے ایک کھجور کھا سکتے ہیں اور اگر ان کا شوگر لیول متوازن ہے تو 2 کھجوریں بھی کھائی جاسکتی ہیں۔

    افطار کے دوران پھلوں کی چاٹ بغیر چینی، کریم اور دودھ کے کھائی جا سکتی ہے، پھلوں میں تھوڑی سی مقدار میں لیموں کا رس بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔

    مائع میں سادہ پانی بہترین قرار دیا جاتا ہے جبکہ نمک میں بنا ایک گلاس لیموں پانی بھی پیا جا سکتا ہے، شوگر کے مریض گھر کی بنی ہوئی غذاؤں کا ہی استعمال کریں، کوشش کریں کے تیل، نمک، لال مرچ اور چینی کی زیادہ مقدار لینے سے پرہیز کیا جائے۔

    شوگر کے مریض رات بھوک لگنے پر ایک روٹی کم مرچ مصالحے والے سالن کے ساتھ یا سلاد اور رائتے کے ساتھ کھا سکتے ہیں، چاولوں کا استعمال بھی کیا جا سکتا ہے مگر ایک پلیٹ سے زیادہ نہیں، رات سونے سے قبل بھوک محسوس ہونے پر ایک گلاس دودھ بغیر شکر کے پیا جا سکتا ہے۔

    رمضان بخیر و عافیت گزارنے اور روزو ں کے مکمل فوائد حاصل کرنے کے لیے افطار کے بعد اور رات کھانے سے قبل کم از کم 30 منٹ چہل قدمی لازمی کریں، شوگر کے مریضوں کے لیے چہل قدمی بھی ایک بہترین علاج قرار دیا جاتا ہے۔

    شوگر کے مریض اپنے معالج کے مشوروں کے مطابق رمضان گزاریں، خود سے ادویات یا شوگر لیول کے کم یا زیادہ ہونے کی علامات پر علاج نہ کریں۔