Tag: diabetes

  • ذیابیطس کے کون سے مریض خون کا عطیہ نہیں دے سکتے؟

    ذیابیطس کے کون سے مریض خون کا عطیہ نہیں دے سکتے؟

    بیماریوں اور ان سے جڑے معاملات میں لوگوں میں مختلف قسم کے مفروضے پھیلے ہوتے ہیں، اور لوگ ان مفروضوں کو حقیقت سمجھ کر عمل کر رہے ہوتے ہیں، حالاں کہ ان میں سے اکثر درست نہیں ہوتے۔

    ایسا ہی ایک مفروضہ ذیابیطس کے مریضوں میں بھی عام ہے، لوگ سمجھتے ہیں کہ ذیابیطس کے مریض خون کا عطیہ نہیں دے سکتے۔

    طبی ماہرین نے اس حوالے سے وضاحت کی ہے کہ بہت سے لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ذیابیطس کے مریض خون کا عطیہ نہیں دے سکتے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ خون دینے سے بلڈ شوگر لیول متاثر ہوتا ہے، لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ ذیابیطس کے مریض خون کا عطیہ دے سکتے ہیں، لیکن یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ان کا بلڈ شوگر لیول نارمل ہو، اور جو لوگ انسولین لگاتے ہیں وہ عطیہ نہیں دے سکتے، تاہم عام دوائیاں کھانے والے شوگر مریض خون عطیہ کر سکتے ہیں۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ذیابیطس میٹابولزم کا مرض ہے، اس سے مریض کا جسم متاثر ہوتا ہے، خون نہیں، یہ ذہن میں رہے کہ اگر مریض کو دل یا گردوں کی بیماری نہیں ہے تو وہ خون دے سکتا ہے۔

    ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ ہر صحت مند شخص کو خون کا عطیہ دینا چاہیے اور شوگر کے مریضوں کو اس سے ہچکچانا نہیں چاہیے۔

    طبی ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ خون دیتے ہوئے چند باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے، جیسا کہ آپ روزے سے نہ ہوں، آپ نے اچھی طرح کھانا کھایا ہو، اور عطیہ دینے سے قبل خون کا نمونہ دیں۔

    خون دیتے وقت کچھ لوگوں پر غنودگی طاری ہو جاتی ہے، اس لیے یہ ضروری ہے کہ آپ خالی پیٹ نہ ہوں۔

  • کووڈ 19 سے صحت یابی کے بعد نیا خطرہ سامنے آگیا

    کووڈ 19 سے صحت یابی کے بعد نیا خطرہ سامنے آگیا

    ویسے تو شوگر کو کووڈ 19 کے حوالے سے اہم خطرہ سمجھا جاتا رہا اور یہ مانا گیا کہ شوگر یا ذیابیطس کا مریض کووڈ 19 کے خطرے اور اس کی شدت کو بڑھا سکتا ہے، تاہم اب نئی تحقیق میں انکشاف ہوا کہ کووڈ 19 سے صحت یابی کے بعد شوگر کا مرض لاحق ہونے کا بھی خطرہ ہے۔

    طبی جریدے ڈائبٹیز، اوبیسٹی اینڈ میٹابولزم میں شائع تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ہر 10 میں سے ایک سے زائد کرونا وائرس کے مریضوں میں ذیابیطس کی تشخیص کووڈ 19 سے صحت یابی کے بعد ہوئی۔

    اس تحقیق میں 8 مختلف تحقیقی رپورٹس کا تجزیہ کیا گیا تھا جس میں 3 ہزار 711 کرونا وائرس کے مریضوں کو شامل کیا گیا تھا، تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ کے مریضوں میں اس وبائی مرض کے باعث ہونے والا ورم اور انسولین مسائل ذیابیطس کے نئے کیسز کی وجہ ہوسکتی ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ کم از کم ان میں سے کچھ کیسز میں ہوسکتا ہے کچھ مریض پہلے سے ذیابیطس کے شکار ہوں مگر اس کا علم کووڈ کے باعث اسپتال پہنچنے کے بعد ہوا ہو۔

    شواہد سے یہ بھی عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ 19 میٹابولک صحت کے مسائل کو اس حد تک بدتر کرسکتا ہے کہ ذیابیطس ٹائپ 2 کی تشخیص ہوجائے۔

    محققین کا کہنا تھا کہ جسمانی تناؤ ان ریگولیٹری ہارمونز کی سطح کو بڑھانے کا باعث بنتا ہے جس سے بلڈ شوگر لیول بڑھتا ہے تاکہ جسم درپیش مسئلے کا مقابلہ کرسکے، تو ایسے افراد جو پہلے ہی ہائی بلڈ شوگر کے مسئلے سے دوچار ہوں، ان میں ذیابیطس کا مرض تشکیل پاجاتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق ان مسائل کے نتیجے میں انسولین کے حوالے سے جسمانی ردعمل کمزور ہوتا ہے اور بلڈ شوگر کنٹرول میں نہیں رہتا۔

    محققین کا کہنا ہے کہ آٹو امیون امراض کے شکار یا مدافعتی مسائل کا سامنا کرنے والے بزرگ افراد میں کووڈ کے نتیجے میں ذیابیطس کی تشخیص کا خطرہ زیادہ ہوسکتا ہے۔

  • وہ علامات جو شوگر کی نشانی ہیں

    وہ علامات جو شوگر کی نشانی ہیں

    جنیوا: عالمی ادارہ صحت نے شوگر یا ذیابیطس کی 4 نئی علامات کی طرف اشارہ کیا ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ علامات آپ میں ظاہر ہورہی ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ ذیابیطس کا شکار ہوچکے ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق عالمی ادارہ برائے شوگر نے شوگر بڑھنے کی 4 علامات کی طرف توجہ دلائی ہے، شوگر انسانی جسم میں اس وقت پیدا ہوتی ہے جب جسم انسولین کا استعمال چھوڑ دیتا ہے، انسولین جسم میں شوگر کی مقدار کو کنٹرول کرتا ہے۔

    عالمی ادارہ برائے شوگر کے مطابق ذیابیطس کی پہلی علامت پیاس کا زیادہ محسوس ہونا ہے، انسان شعوری طور پر شدید پیاس محسوس کرنے لگتا ہے، اس کے ساتھ اس کا حلق بھی خشک ہو جاتا ہے اور پیاس بدستور بڑھتی چلی جاتی ہے، اگرچہ آپ روزانہ 2 لیٹر پانی پیتے ہوں۔

    دوسری علامت پیشاپ کا زیادہ آنا ہے، اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ جسم میں شوگر بڑھ چکی ہے، کیونکہ جسم زائد گلوکوز پیشاپ کے ذریعے نکالنے لگ جاتا ہے۔

    تیسری علامت تھکاوٹ ہے، شوگر بڑھ جانے کے بعد انسان شدید تھکاوٹ محسوس کرتا ہے جو آرام یا نیند کرنے سے بھی ختم نہیں ہوتی، بلکہ اس میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق جسم میں توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے خون سے گلوکوز کی مقدار خلیوں تک جب نہیں پہنچتی تو اس سے تھکاوٹ ہوتی ہے۔

    تھکاوٹ کی علامتوں میں جسم کا بے جان محسوس ہونا، روزمرہ کے کام کرنے میں دشواری محسوس کرنا، مایوسی یا افسردگی محسوس کرنا شامل ہیں۔ اگر ایسی علامات آپ کو 3 ہفتوں سے زیادہ محسوس ہوتی ہیں تو ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

    چوتھی علامت چڑچڑا پن ہے، اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ کوئی شخص شوگر کے مرض میں مبتلا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ شوگر ایک پیچیدہ مرض ہے، اس کے بے شمار عوامل ہوتے ہیں جو شمار نہیں کیے جا سکتے، انسولین کی کمزوری اس کا بڑا سبب ہوتا ہے۔

    شوگر ہونے کی وجوہات میں کھانے کا بھی بڑا عمل دخل ہے، ناقص اور تلے ہوئے پکوان، یا ایسے کھانے جن میں کیلوریز کی تعداد زیادہ ہو شوگر کا سبب بنتے ہیں۔

    علاوہ ازیں شوگر عموماً موٹاپا، ہائی بلڈ پریشر، جسمانی نقل وحرکت اور وراثتی جینیات سے بھی منسلک کیا جاتا ہے۔

  • شوگر کے مریض اپنی غذا کیسی رکھیں؟

    شوگر کے مریض اپنی غذا کیسی رکھیں؟

    ذیابیطس کا مرض نہایت احتیاط کا متقاضی ہوتا ہے، ذیابیطس کے مریضوں کے لیے مناسب اور متوازن غذا کا استعمال بے حد ضروری ہوتا ہے ورنہ ذیابیطس دیگر طبی خطرات کو بھی دگنا کرسکتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ پر شائع شدہ ایک رپورٹ کے مطابق ماہرین طب کا کہنا ہے کہ ذیابیطس کا شکار افراد کا صحت مند کھانے کی عادات اپنانا حد ضروری ہے۔

    نیوٹریشنسٹ اور ذیابیطس ایجوکیٹر دویا گپتا کا کہنا ہے کہ ٹائپ 1 ذیابیطس کے مریضوں کو خون میں گلوکوز کی سطح کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی خوراک میں کاربو ہائیڈریٹ کی مقدار پر نظر رکھنا ضروری ہے۔

    یہ جاننا ضروری ہے کہ کھانے میں پہلے سے طے شدہ مقدار سے زیادہ کاربس نہ ہوں، پھر اس حساب سے طے کیا جائے کہ مریض کو کتنی انسولین لینے کی ضرورت ہے۔

    ذیابیطس ٹائپ 2 کے ایسے مریض جن کا وزن زیادہ ہے انہیں سب سے پہلے اپنا وزن گھٹانے کی ضرورت ہے۔

    ٹائپ 2 اور ٹائپ 1 دونوں کے مریضوں کو اپنی خوراک میں صحیح مقدار میں غذائی عناصر شامل کرنا ضروری ہے۔ ایسی غذا کا انتخاب کریں جس میں کاربس ہوں اور اس بات کا دھیان رکھیں کہ آپ کتنی مقدار میں اس کو اپنی خوراک میں شامل کر رہے ہیں۔

    مثال کے طور پر براؤن رائس، روٹی، پاستا، اوٹس، کم چینی والے غذائی عناصر اور جوار۔ ان غذاؤں سے پرہیز کریں جس میں فائبر کی مقدار کم ہو جیسے سفید چاول، سفید بریڈ۔

    کچھ بھی خریدنے سے پہلے یہ ضرور دیکھیں کہ اس میں کیا کیا غذائی عناصر شامل ہیں، ہری پتے والی سبزیاں کھائیں، ان میں ضروری وٹامنز اور معدنیات شامل ہوتی ہیں جبکہ یہ بلڈ شوگر لیول کو بھی کم متاثر کرتی ہیں۔

    سبز پتوں والی سبزیوں میں گوبھی اور پالک وغیرہ شامل ہیں۔

    ذیابیطس کے مریضوں کے لیے پھل کھانا بھی فائدہ مند ہے، ان کی قدرتی مٹھاس انہیں نقصان نہیں پہنچاتی، اس کے برعکس ڈبہ بند جوسز مصنوعی مٹھاس سے بھرے ہوتے ہیں ان سے گریز کیا جائے۔

    پروٹین سے بھرپور غذائیں جیسے انڈے، پھلیاں، کم چربی والا دودھ، گوشت اور کھٹا دہی بھی کھایا جاسکتا ہے۔

    پیکٹ والے تمام کھانوں اور فاسٹ فوڈ سے پرہیز کریں، خاص طور پر جن میں زیادہ مقدار میں چینی شامل ہو۔

    ایسے مشروبات سے پرہیز کریں جس میں زیادہ مقدار میں چینی شامل ہوتی ہے، جیسے انرجی ڈرنکس وغیرہ۔

    غذا میں نمک کی مقدار کو بھی کم کریں، بہت زیادہ نمک کھانے سے ہائی بلڈ پریشر کا خطرہ بڑھ سکتا ہے جس کے نتیجے میں دل کی بیماریوں اور فالج کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ذیابیطس کے مریض کے لیے یہ تمام خطرات دگنے ہوجاتے ہیں۔

    ذیابیطس کے مریض اپنے کھانے میں پہلے سے تیار شدہ گوشت اور سرخ گوشت کی مقدار کو بھی کم کرنے کی کوشش کریں، اس کے بجائے اپنی خوراک میں دال، پھلیاں، انڈے، مچھلی اور چکن شامل کریں۔

    اسنیکس کی مقدار کم سے کم کریں اور چپس، بسکٹ اور چاکلیٹ کے بجائے دہی، پھل اور سبزیاں کھائیں۔

    شوگر کے مریضوں کو باقاعدگی سے ورزش کرتے رہنا چاہیئے، ورزش جسم کے وزن کو متوازن کرنے میں مدد کرتا ہے اور انسولین کی سطح کو بھی بہتر بناتا ہے۔

    صحت مند کھانے کے ساتھ جسمانی طور پر متحرک رہنا بھی ضروری ہے، یہ ذیابیطس کو سنبھالنے اور دل کی بیماریوں کے خطرے کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

  • شوگر کے مریضوں کے لیے امید افزا خبر

    شوگر کے مریضوں کے لیے امید افزا خبر

    شوگر کے مریضوں کو روزانہ انسولین کی ضرورت پڑتی ہے اور اس کی درست مقدار استعمال کرنی ضروری ہوتی ہے، تاہم اب شوگر کے مریضوں کے لیے امید افزا خبر سامنے آگئی ہے۔

    ڈنمارک کی کوپن ہیگن یونیورسٹی اور بائیوٹک کمپنی گیوبرا نے ایک نیا انسولین مالیکیول تیار کیا ہے جو مستقبل قریب میں ذیابیطس کے مریضوں کے لیے درست مقدار میں انسولین کی مقدار کو یقینی بنائے گا۔

    کوپن ہیگن یونیورسٹی کے پروفیسر کیونڈ جے جینسن نے بتایا کہ ہم نے اس قسم کی انسولین کی جانب پہلا قدم بڑھایا ہے جو جسم کے اندر خودکار طور پر بلڈ شوگر لیول کے مطابق مطابقت پیدا کرلیتی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ اس سے ذیابیطس ٹائپ ون کے مریضوں کی زندگی میں نمایاں بہتری آسکے گی۔

    محققین نے انسولین کی یہ قسم ایک بلٹ ان مالیکیول کے ذریعے تیار کی ہے جو محسوس کرسکتی ہے کہ جسم میں بلڈ شوگر کی مقدار کتنی ہے۔

    جسم میں بلڈ شوگر لیول بڑھنے پر یہ مالیکیول تیزی سے متحرک ہوکر مزید انسولین خارج کرتا ہے، اگر بلڈ شوگر کی سطح گرتی ہے تو انسولین کی کم مقدار کا اخراج ہوتا ہے۔

    محققین کا کہنا تھا کہ یہ مالیکیول مسلسل انسولین کی کم مقدار کو خارج کرتا ہے، مگر یہ مقدار ضرورت کے مطابق بدلتی رہتی ہے۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ اس سے ذیابیطس ٹائپ ون کے مریضوں کے لیے محفوظ اور آسان علاج فراہم کیا جاسکے گا، آج اس بیماری کے شکار افراد کو دن بھر میں کئی بار انسولین کو انجیکٹ کرنا پڑتا ہے اور مسلسل بلڈ شوگر لیول پر نظر رکھنی پڑتی ہے۔

    ان کے بقول اس نئی قسم کی بدولت ایسا نہیں ہوسکے گا اور جب کوی فرد نئے انسولین مالیکیول کو انجیکٹ کرے گا تو اسے دن بھر میں دوبارہ لگانے کی کم ضرورت ہوگی۔

    اگرچہ خودکار انسولین ایک اہم پیشرفت ہے مگر یہ کب تک عام استعمال کے لیے دستیاب ہوگی، ابھی کچھ کہنا مشکل ہے۔

  • ذیابیطس (شوگر) کا جلد شکار کون ہوتا ہے؟ مرد یا عورت

    ذیابیطس (شوگر) کا جلد شکار کون ہوتا ہے؟ مرد یا عورت

    کراچی : پاکستان میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد سات ملین سے بھی تجاوز کر چکی ہے، طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہی رجحان جاری رہا تو قریب دو عشرے بعد اس بیماری کے شکار پاکستانیوں کی تعداد چودہ ملین یا قریب ڈیڑھ کروڑ ہو جائے گی۔

    اس حوالے سے اس مرض کے علاج کے ماہر ڈاکٹر محمد حسن نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں بتایا کہ یہ بیماری پاکستان میں خطرناک رفتار سے پھیل رہی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ اس کے بڑے اسباب موٹاپا، تمباکو نوشی، ورزش نہ کرنا اور غیر صحت مند طرز زندگی اور غیر صحت بخش خوراک ہیں، ذیابیطس بالعموم فالج اور ہارٹ اٹیک کی وجہ بننے کے علاوہ آنکھوں اور پاؤں کو بھی متاثر کرتی ہے۔

    ڈاکٹر محمد حسن کا کہنا تھا کہ آج ہم شوگر کے حوالے سے دنیا میں چوتھے نمبر پر ہیں جبکہ گزشتہ دو سال قبل ہم آٹھویں نمبر پر تھے، پاکستان میں ہر چار میں سے ایک شخص شوگر کے مرض میں مبتلا ہے۔

    شوگر کی اہم وجہ ڈپریشن اور بلڈ پریشر ہے، یہ دونوں امراض انسان کی صحت پر بہت برے اثرات مرتب کرتے ہیں اور کسی بھی بیماری کے حملے کا سبب بنتے ہیں، لوگوں میں شوگر سے متعلق آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے۔

    اس سے بچنے کیلئے ہمیں اپنی عادتیں بدلنا ہوں گی، اس کیلئیے ضروری ہے کہ ذہنی دباؤ کو خود پر حاوی نہ ہونے دیں، خوش رہیں، صبح جلدی سو کر اٹھیں، ورزش لازمی کریں، چہل قدمی کو کسی صورت نہ چھوڑیں۔

    چھوٹی چھوٹی باتوں پر زیادہ پریشان نہ ہوں، کیونکہ ڈپریشن، تھکاوٹ اور نیند کی کمی سے ذیابیطس ہونے کا خطرہ مزید بڑھ جاتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ذیابیطس ام الامراض ہے اگر اسے فوری طور پر کنٹرول نہ کیا جائے تو بہت سی پریشانیوں اور تکالیف کا موجب بن جاتی ہے، شوگر کی زیادہ مقدار خون کی شریانوں نقصان پہنچاتی ہے۔

    واضح رہے کہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس وقت پوری دنیا میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد 42 کروڑ 22 لاکھ سے زیادہ ہے، جو سال 2040 تک پچاس فیصد سے بھی زیادہ اضافے کے ساتھ 640 ملین ہو جائے گی۔

    پاکستان کے لیے تشویش کی بات یہ ہے کہ اس وقت ملک میں سالانہ 90 ہزار سے زائد شہری اس بیماری یا اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے طبی پیچیدگیوں کے باعث انتقال کرجاتے ہیں لیکن اگر اس مرض کے پھیلاؤ کو نہ روکا گیا تو پاکستان بائیس تیئس برس بعد اپنے ہاں شوگر کے مریضوں کی مجموعی تعداد کے لحاظ سے دنیا کا بڑا ملک بن سکتا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس وقت پوری دنیا میں سب سے زیادہ انسانی ہلاکتوں کا سبب بننے والی دس بڑی بیماریوں میں ذیابیطس چھٹے نمبر پر ہے۔

  • سائنس دانوں کا ذیابیطس کے بارے میں خوف ناک انکشاف

    سائنس دانوں کا ذیابیطس کے بارے میں خوف ناک انکشاف

    لندن: سائنس دانوں نے ذیابیطس کے بارے میں ایک اور خوف ناک انکشاف کر دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ ذیابیطس ٹائپ 1 بچے کو پیدائش سے بھی قبل ہو سکتا ہے۔

    طبی جریدے جرنل ڈائیبٹولوجیا کے مطابق 6 ماہ سے کم عمر بچوں میں ذیابیطس ٹائپ ون کا مرض ہو سکتا ہے اور اس عارضے کی جڑ ممکنہ طور پر پیدائش سے قبل ہی بن جاتی ہے۔

    اس سے قبل یہ مانا جاتا تھا کہ 6 ماہ سے کم عمر بچوں میں صرف نیونیٹل ڈایابیٹیز (صرف نوزائیدہ بچوں کو لاحق ہونے والی ذیابیطس) ہو سکتی ہے جو کسی جیناتی نقص کا نتیجہ ہوتی ہے جس میں لبلبے کے خلیات کی انسولین بنانے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔

    لیکن اب ماہرین کا کہنا ہے کہ نوزائیدہ بچوں میں بھی ذیابیطس ٹائپ ون کا مرض ہو سکتا ہے، اس دوران جسم کا اپنا مدافعتی نظام انسولین بنانے والے خلیات کو تباہ کر دیتا ہے۔

    ماہرین اس تحقیق سے یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا ذیابیطس ٹائپ ون کے باعث جسم پر مدافعتی نظام کا حملہ کچھ نوزائیدہ بچوں میں ماں کے پیٹ ہی سے شروع ہو جاتا ہے؟ جس کے نتیجے میں انسولین کی سطح گھٹ جاتی ہے اور پیدائشی وزن کم ہوتا ہے۔

    ڈاکٹر ایلزیبتھ رابرٹسن کا کہنا تھا کہ زندگی کے ابتدائی چند مہینوں میں پہلی بار ذیابیطس کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے، یہ اہم نتائج اس بیماری کے بارے میں ہمارے فہم کو پھر سے ترتیب دے رہے ہیں کہ کہ کب اس حالت کا حملہ ہو سکتا ہے اور کب مدافعتی نظام میں خامی پیدا ہو سکتی ہے۔

    برطانوی ریسرچ ڈائریکٹر ڈاکٹر ایلزیبتھ نے کہا کہ اب ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ کب اور کیسے ذیابیطس ٹائپ ون اتنی کم عمری میں جسم میں پیدا ہو جاتی ہے، اس سے ہر عمر کے افراد کو ذیابیطس ٹائپ 1 کی وجوہ جاننے میں مدد ملے گی، اور ایسے علاج کے دریافت کے لیے بھی اہم ہوگا جو بچوں میں زندگی کو بدل دینے والی اس حالت کو روک سکے۔

    برطانیہ کی ایگزیٹر یونی ورسٹی اور کنگز کالج لندن کے محققین نے اس سلسلے میں نوزائیدہ بچوں کے 3 گروپس کا مطالعہ کیا، محققین نے بتایا کہ نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ ذیابیطس ٹائپ 1 کا مرض ابتدائی چند ماہ کے دوران بھی بچوں میں ہو سکتا ہے اور کچھ نوزائیدہ بچوں میں تو یہ پیدائش سے قبل بھی ہو سکتا ہے۔

    ڈاکٹر میتھیو جاسٹن نے کہا کہ ہم نے یہ بھی معلوم کیا کہ نوزائیدہ بچوں میں ذیابیطس کی تشخیص انسولین بنانے والے بیٹا خلیات کی مکمل تباہی سے جڑی ہوتی ہے۔ یہ تحقیقی ٹیم اب اس بات کا مطالعہ کرنا چاہتی ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ مدافعتی نظام بننے سے قبل ہی اتنا شدید رد عمل ظاہر کر سکتا ہے۔

  • اب اسمارٹ فون بھی شوگر کی تشخیص کرسکتا ہے

    اب اسمارٹ فون بھی شوگر کی تشخیص کرسکتا ہے

    کیلی فورنیا: ذیابیطس ایک تیزی سے بڑھتا ہوا مرض ہے جس کی وجہ غیر صحت مند طرز زندگی ہے، ذیابیطس کی اسی بڑھتی ہوئی شرح کو دیکھتے ہوئے ماہرین نے ایک ٹیکنالوجی کی مدد سے ایک عام اسمارٹ فون کو بھی ذیابیطس کی تشخیص کرنے کے قابل بنا دیا ہے۔

    یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے ماہرین نے ایک نئی تکنیک سے اسمارٹ فون کیمرے کو اس قابل بنایا ہے کہ وہ ٹائپ 2 ذیابیطس کی 80 فیصد درستگی سے شناخت کر سکتا ہے، یونیورسٹی کے ماہرین نے ذیابیطس کی شناخت کے لیے ایک خاص الگورتھم بنایا ہے جو کیمرے کی مدد سے ذیابیطس کا نشاندہی کرتا ہے۔

    اس عمل کو طب کی زبان میں فوٹو پلائتھسموگرافی (پی پی جی) کہا جاتا ہے۔ اس تکنیک میں روشنی کو کسی کھال یا بافت (ٹشو) پر ڈالا جاتا ہے جس سے خون کے حجم میں کمی بیشی کو نوٹ کیا جاتا ہے۔

    بالکل اسی طرح سے شہادت کی انگلی پر سینسر لگا کر خون میں آکسیجن کی مقدار اور دھڑکن کو بھی معلوم کیا جاتا ہے۔

    اس کے لیے پہلے ایک الگورتھم بنایا گیا اور پھر غور کیا گیا کہ آیا اسمارٹ فون کیمرہ ذیابیطس کی وجہ سے خون کی رگوں کو پہنچنے والے کسی نقصان یا تباہی کو ظاہر کر سکتا ہے یا نہیں؟

    اس کے بعد پی پی جی کی لاکھوں ریکارڈنگز کو ایک بڑے ڈیٹا بیس میں رکھا گیا اور انہیں تربیت دی گئی تاکہ وہ صحت مند اور بیمار بافتوں کے درمیان فرق کر سکے۔ اس کے بعد پی پی جی ٹیکنالوجی کو ذیابیطس کی شناخت کے لیے استعمال کیا گیا۔

    اس پورے تجربے میں کل 53 ہزار سے زائد 26 لاکھ پی پی جی ریکارڈنگز کو دیکھا گیا اور تمام افراد میں ذیابیطس کی درست شناخت ہوئی۔

    دوسرے تجربے میں لوگوں کے 3 گروہوں کا اسمارٹ فون کیمرے سے جائزہ لیا گیا اور ان کی انگلیوں پر کیمرے لگائے گئے۔ پورے سسٹم نے 80 فیصد درستگی کے ساتھ ذیابیطس کی شناخت کی۔

    اس طرح ماہرین نے اسے کم تکلیف والا ٹیسٹ قرار دیا ہے جس کی بدولت عام اسمارٹ فون کے ذریعے ذیابیطس کی شناخت کی جاسکتی ہے۔

  • ذیابیطس کا عالمی دن: کم کھائیں اور زیادہ چلیں

    ذیابیطس کا عالمی دن: کم کھائیں اور زیادہ چلیں

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج ذیابیطس یا شوگر سے آگاہی کا دن منایا جارہا ہے۔ ماہرین طب کے مطابق پاکستان میں ہر 4 میں سے ایک شخص ٹائپ 1 ذیابیطس کا شکار ہے۔

    ذیابیطس کا عالمی دن منانے کا مقصد اس مرض سے پیدا شدہ پیچیدگیوں، علامات اور اس سے بچاؤ کے متعلق آگاہی فراہم کرنا ہے۔ رواں برس اس دن کا مرکزی خیال ’خاندان کی حفاظت کریں‘ ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ذیابیطس کا مرض موروثی ہے لہٰذا ضروری ہے کہ اگر خاندان میں یہ مرض موجود ہے تو اس سے حفاظت اور بچاؤ کے اقدامات کم عمری سے ہی اٹھائے جائیں۔

    ذیابیطس دراصل اس وقت ہمارے جسم کو اپنا شکار بناتا ہے جب ہمارے جسم میں موجود لبلبہ درست طریقے سے کام کرنا چھوڑ دے اور زیادہ مقدار میں انسولین پیدا نہ کر سکے، جس کے باعث ہماری غذا میں موجود شکر ہضم نہیں ہو پاتی۔

    یہ شکر ہمارے جسم میں ذخیرہ ہوتی رہتی ہے جو شوگر کی بیماری کے علاوہ بے شمار امراض پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے۔

    مزید پڑھیں: ذیابیطس کا آسان اور قدرتی علاج

    ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان اس وقت ذیابیطس کے مریضوں کا ساتواں بڑا ملک ہے جبکہ سنہ 2030 تک یہ چوتھا بڑا ملک بن جائے گا جو ایک تشویشناک بات ہے۔

    ذیابیطس کی کئی علامات ہیں جن میں پیشاب کا بار بار آنا، وزن کا گھٹنا، بار بار بھوک لگنا، پاؤں میں جلن اور سن ہونا شامل ہیں۔ ذیابیطس دل، خون کی نالیوں، گردوں، آنکھوں، اعصاب اور دیگر اعضا کو متاثر کر سکتا ہے۔

    اس موذی مرض کی اہم وجہ غیر متحرک طرز زندگی اور غیر صحت مند غذائی عادات ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ذیابیطس سے بچنے کے لیے انٹرنیشنل ڈایابیٹز فیڈریشن کی ہدایت ’کم کھائیں اور زیادہ چلیں‘ پر سنجیدگی سے عمل کیا جائے۔

    ان کے مطابق والدین 5 سال کی عمر سے ہی بچوں کو فاسٹ فوڈ اور سوڈا مشروبات سے پرہیز کروانا شروع کردیں۔ یہ وزن میں اضافے کا سبب ہیں اور موٹاپا ٹائپ 2 ذیابیطس کی اہم وجوہات میں سے ایک ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اسکول کی سطح سے ہی ذیابیطس کی تشخیص اور علاج کے لیے قومی صحت پالیسی میں اصلاحات کی ضرورت ہے کیونکہ بروقت تشخیص اور فوری علاج ہی اس بیماری کے باعث لاحق ہونے والی پیچیدگیوں سے بہتر تحفظ فراہم کر سکتے ہیں۔

  • ناشتے میں دلیے کا استعمال شوگر سے بچاﺅ میں معاون ہوسکتا ہے،امریکی تحقیق

    ناشتے میں دلیے کا استعمال شوگر سے بچاﺅ میں معاون ہوسکتا ہے،امریکی تحقیق

    واشنگٹن:امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ناشتے میں دلیے کا استعمال ذیابیطس کے شکار ہونے کا خطرہ کافی حد تک کم کردیتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی،تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ دلیے میں شامل فائبر ذیابیطس ٹائپ ٹو کے خطرے کو کم کردیتا ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ دن بھر میں 26 گرام فائبر کا استعمال ذیابیطس میں مبتلا ہونے کا خطرہ 18 فیصد تک کم کردیتا ہے۔

    محققین کا کہنا تھا کہ فائبر ایک ایسا جز ہے جو لوگوں کو صحت مند وزن برقرار رکھنے میں مدد دیتا ہے اور اس طرح ذیابیطس کے شکار ہونے کا خطرہ بھی کم ہوجاتا ہے اور اس کے لیے ناشتے میں دلیے کا انتخاب بہترین ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ دن بھر میں 10 گرام فائبر کا استعمال بھی ذیابیطس کے خطرے کو 9 فیصد تک کم کردیتا ہے،تحقیق کے نتائج سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جن افراد کی غذا میں دلیہ شامل ہوتا ہے ان میں ذیابیطس ٹائپ ٹو کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

    ریسرچرز کا کہنا تھا کہ ابھی یہ درست طور پر بتانا تو ممکن نہیں کہ اس کی وجہ کیا ہے تاہم ممکنہ طور پر دلیے کے استعمال سے زیادہ دیر تک پیٹ بھرا ہوا محسوس ہوتا ہے جس سے جسمانی وزن صحت مند رہتا ہے اور ذیابیطس کا خطرہ خودکار طور پر کم ہوجاتا ہے۔