Tag: Dialogues

  • کیا امریکا اور ایران کے درمیان مذاکرات ناممکن ہیں؟

    کیا امریکا اور ایران کے درمیان مذاکرات ناممکن ہیں؟

    تہران: ایران کی القدس فورسز کے سربراہ جنرل قاسم سلیمان نے بھی امریکا کے ساتھ مذاکرات کو ناممکن قرار دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق ایرانی حکام پہلے ہی واضح کرچکے ہیں کہ امریکا اقتصادی پابندیوں کے جاری رہتے ہوئے ایران کے ساتھ مذاکرات نہیں کرسکتا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کا کہنا تھا کہ اقتصادی پابندیوں کے دباؤ میں ایرانی مذہبی اسٹیبلشمنٹ کسی صورت امریکا کے ساتھ مذاکرات نہیں کرے گی۔

    انہوں نے کہا کہ امریکا کی پالیسی ہے کہ وہ اپنی پابندیوں کے ذریعے ایران کو دبانا چاہتا ہے، ان کی یہ پالیسی ناکام رہے گی، ایران کبھی نہیں جھکے گا۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسی صورت حال میں مذاکرات نہیں ہوسکتے، دباؤ کے ذریعے ایران کو مذاکرات کی میز پر نہیں لایا جاسکتا۔

    خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے نئی پاپندیوں کے بعد ایران نے بھی جوہری معاہدے سے انخلا کی دھمکی دی ہے۔

    ایران کی جانب سے یہ عندیہ امریکی نئی پابندیوں کے ردعمل میں دیا گیا ہے، خیال رہے کہ امریکا نے ایران دوست ممالک کو ایرانی تیل کی خریداری کے لیے دیا گیا استثناء ختم کردیا ہے۔

    ایران نے امریکا کو آبنائے ہرمز بند کرنے کی دھمکی دے دی

    یاد رہے کہ امریکا نے ایران سے تیل درآمد کرنے والے ممالک چین، بھارت، اور ترکی سمیت 8 ممالک کو اقتصادی پابندیوں کے ضمن میں دی گئی استثنیٰ ختم کرنے کا اعلان کیا تھا جس پر ان ممالک نے بھی ایران سے تیل خریدنے پر معذرت کرلی تھی۔

  • افغان صدر اور پومپیو کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ، قطر مذاکرات سے متعلق تبادلہ خیال

    افغان صدر اور پومپیو کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ، قطر مذاکرات سے متعلق تبادلہ خیال

    واشنگٹن: امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو اور افغان صدر اشرف غنی کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ ہوا، اس دوران قطر مذاکرات سے متعلق تبادلہ خیال کیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا نے افغانستان کو واضح کیا ہے کہ قطری دارالحکومت دوحہ میں طالبان سے ہونے والے مذاکرات امن کی جانب بہترین موقع ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو نے افغان صدر اشرف غنی کو ہدایت کی ہے کہ وہ قطر میں ممکنہ مذاکرات کو کامیاب بنائیں۔

    ٹیلی فونک گفتگو کے دوران افغان صدر کو دوحہ میں اس بات چیت کے غیر معینہ عرصے کے لیے ملتوی کیے جانے پر امریکا کے عدم اطمینان سے بھی آگاہ کیا گیا، البتہ اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ ممکنہ مذاکرات کو کامیاب بنانے میں ہرممکن اقدامات کیے جائیں گے۔

    قطر میں افغان طالبان کے رابطہ دفتر میں یہ بات چیت گذشتہ جمعے کو شروع ہونا تھی، لیکن طالبان نے اسے اس بارے میں اختلافات کے بعد ملتوی کر دیا تھا کہ اس میں کس کس کو شرکت کرنا چاہیے۔

    یاد رہے کہ طالبان اور افغان نمائندوں کے درمیان ملاقات 20 اور 21 اپریل کو قطر میں ہونا تھی اور مذاکرات کے لیے افغان حکومت نے 250 رکنی فہرست تیار کی تھی۔

    قطرمیں مذاکرات ملتوی ہونے پرمایوسی ہوئی، زلمے خلیل زاد

    افغان حکومت کی مذاکرات کے لیے تیار کی گئی فہرست پرطالبان نے تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ شادی یا کسی اور مناسب سے دعوت اور مہمان نوازی کی تقریب نہیں کہ کابل انتظامیہ نے کانفرنس میں شرکت کے لیے 250 افراد کی فہرست جاری کی۔

  • طالبان نے افغان حکومت سے بات چیت کی افواہیں مسترد کردیں

    طالبان نے افغان حکومت سے بات چیت کی افواہیں مسترد کردیں

    کابل: طالبان نے افغانستان میں قیام امن کے لیے افغان حکومت سے مذاکرات کی خبروں کی تردید کردی۔

    تفصیلات کے مطابق حالیہ دنوں میں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کی خبریں گردش کررہی تھیں، تاہم طالبان نے افواہیں قرار دیتے ہوئے خبروں کی تردید کردی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ طالبان نے متعدد بار افغان حکومت کو کٹھ پتلی قرار دیتے ہوئے ہمیشہ ان سے مذاکرات سے انکاری رہے ہیں۔

    قبل ازیں روس میں ہونے والے مذاکرات میں بھی طالبان نے افغان حکومت کو شامل کرنے سے انکار کردیا تھا، بعد ازاں حکام نے اپوزیشن رہنماؤں کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

    طالبان نے اپنے ایک بيان ميں واضح کيا کہ مذاکرات کے تازہ دور ميں افغانستان سے غير ملکی افواج کے انخلاء اور ديگر تنازعات پر بات چيت جاری ہے۔

    علاوہ ازیں اسی ہفتے امريکی محکمہ خارجہ کے ترجمان روبرٹ پالاڈينو نے عنديہ ديا تھا کہ طالبان اور کابل حکومت کے درمیان مذاکرات زير غور ہيں۔

    افغان طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات کا مقصد افغان میں گزشتہ 17 سال سے جاری جنگ کا خاتمہ اور افغانستان سمیت خطے کے دیگر ممالک میں امن و امان کا قیام ہے۔

    امریکی سینیٹ میں افغان جنگ کے خاتمے کا بل پیش

    امریکا نے افغانستان سے اپنی فوج کے انخلاء کا اعلان کیا ہے جبکہ طالبان کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ افغان طالبان افغانستان سے داعش کا چند دنوں میں خاتمہ کرسکتے ہیں۔

    یاد رہے کہ امریکی سینیٹ میں افغان جنگ کے خاتمے کا بل پیش کیا جاچکا ہے، جس کے ذریعے امریکا افغانستان میں اپنی فتح کا اعلان کرے گا اور 45 روز میں فوجی انخلا کا لائحہ عمل طے کرے گا۔

  • افغان طالبان نے امریکی حکام سے مذاکرات کا نیا دور منسوخ کردیا

    افغان طالبان نے امریکی حکام سے مذاکرات کا نیا دور منسوخ کردیا

    کابل: افغان طالبان کی قیادت نے ایجنڈے پر اتفاق نہ ہونے پر امریکی حکام سے مذاکرات کا نیا دور منسوخ کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق آج سے امریکی حکام اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کا نیا دور شروع ہونا تھا تاہم افغان طالبان کی قیادت نے ایجنڈے پر اتفاق نہ ہونے پر مذاکرات سے انکار کردیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق طالبان اور امریکی حکام کے درمیان مذاکرات کا نیا دور آج سے قطر میں شروع ہونا تھا۔

    افغان طالبان کا کہنا ہے مذاکرات فریقین کے اتفاق کے بعد منسوخ کیے گئے ہیں، چند پہلوؤں پر دونوں فریقین کے درمیان اختلافات ہیں۔

    طالبان نے افغان حکام کی مذاکرات میں شمولیت کی عالمی طاقتوں کی درخواست کو بھی مسترد کیا، افغان طالبان اور زلمے خلیل زاد کے درمیان مذاکرات کے تین دور ہوچکے ہیں۔

    طالبان سے مذاکرات کے بعد امریکا کے خصوصی مندوب افغانستان پہنچ گئے

    طالبان نے گذشتہ روز مذاکرات کی تصدیق کر تے ہوئے کہا تھا کہ مذاکرات میں طالبان اور امریکا کے علاوہ کوئی دوسرا ملک شرکت نہیں کرے گا۔

    یاد رہے کہ دسمبر میں متحدہ عرب امارات میں افغان امن مذاکرات میں طالبان اور امریکا کے ساتھ پاکستان ، سعودی عرب اور یو اے ای کے نمائندوں نے بھی شرکت کی تھی، جس میں افغانستان میں ممکنہ جنگ بندی اور غیر ملکی افواج کے انخلا کے بارے میں بات چیت کی گئی تھی۔

    بعد ازاں طالبان کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا تھا کہ انہوں نے خصوصی امریکی مندوب زلمے خلیل زاد کے ساتھ ملاقات اور ابتدائی بات چیت کی ہے اور یہ کہ مذاکرات کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔

  • یمن: حوثی باغیوں اور فورسز کے درمیان چھڑپیں، 29 افراد ہلاک

    یمن: حوثی باغیوں اور فورسز کے درمیان چھڑپیں، 29 افراد ہلاک

    صنعا: یمن میں حوثی باغیوں اور حکومتی فورسز کے درمیان چھڑپوں کے نتیجے میں 29 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے۔

    تفصیلات کے مطابق یمن میں برسرپیارک حوثی باغی اور سعودی عسکری اتحاد کی حمایت یافتہ یمنی فوج کے درمیان شدید جھڑپوں کے باعث 29 افراد ہلاک ہوگئے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق یمنی بندرگاہی شہرالحدیدہ میں جھڑپیں ہوئیں جس کے باعث درجنوں افراد کی ہلاکتیں ہوئیں، ہلاک ہونے والوں میں بڑی تعداد حوثی باغیوں کی ہے۔

    دوسری جانب اقوام متحدہ کی جانب سے دونوں فریقین کے درمیان جنگ بندی کے ايک حاليہ معاہدے پر ايک روز قبل ہی عمل درآمد شروع ہوا تھا۔

    اس کے باوجود دونوں فریقین کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں، حوثی باغیوں نے الزام عائد کیا ہے کہ سرکاری دستوں نے الحديدہ ميں رہائشی علاقوں پر بمباری شروع کی۔

    یمن تنازع پر امن مذاکرات کا دوسرا دور جنوری کے آخر میں ہوگا

    علاوہ ازیں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیریز نے گذشتہ دنوں کہا تھا کہ یمن تنازع پر امن مذاکرات کا دوسرا دور جنوری کے آخر میں ہوگا، فریقین میں مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق ہوا ہے۔

    انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ الحدیدہ میں اب اقوام متحدہ مرکزی کردار ادا کرے گا، یمنی حکومت، باغی گروپ احدیدہ شہر میں جنگ بندی پر رضامند ہوگئے ہیں۔

    خیال رہے کہ اقوام متحدہ کے مطابق تين سال سے زائد عرصے سے جاری يمنی جنگ ميں دس ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہيں، فریقین کے درمیان مذاکرات بھی کسی کام نہ آئے۔

  • روس کی جانب سے مذاکرات کی دعوت طالبان نے قبول کرلی

    روس کی جانب سے مذاکرات کی دعوت طالبان نے قبول کرلی

    ماسکو: روسی حکام کی جانب سے دی گئی مذاکرات کی دعوت طالبان نے قبول کرلی، جلد طالبان کے رہنماؤں سے ملاقات ہوگی۔

    تفصیلات کے مطابق ماسکو حکومت نے طالبان سے بہتر تعلقات کے لیے مذاکرات کی دعوت دی تھی جسے طالبان نے قبول کرلی، اگلے ماہ روس میں ہی دونوں فریقوں کے درمیان مذاکرات ہوں گے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف نے کہا ہے کہ افغان طالبان نے چار ستمبر کو ماسکو میں ہونے والے مذاکرات میں شرکت کی دعوت قبول کر لی ہے۔

    روسی وزیر خارجہ کا مذاکرات سے متعلق کہنا تھا کہ روس کے طالبان سے مذاکرات کا مقصد افغانستان میں روسی شہریوں کی سلامتی کو یقینی بنانا اور طالبان کو امن عمل کے لیے تیار کرنا ہے۔

    طالبان جنگ کے خاتمے کے لیے امریکا سے مذاکرات پر تیار

    ان کا مزید کہنا تھا کہ ملاقات اور مذاکرات کے ذریعے مسائل کا حل ممکن ہے، چاہتے ہیں کہ طالبان امن عمل میں شامل ہو تاکہ خطے میں امن وسلامتی آئے۔

    خیال رہے کہ گذشتہ ہفتے طالبان کے ایک اعلیٰ سطح وفد نے ازبکستان میں اپنا چار روزہ دورہ مکمل کیا تھا، اس دورے کے دوران طالبان رہنماؤں نے ازبکستان کے وزیر خارجہ عبدالعزیز کامیلوف سے بھی ملاقات کی تھی۔

    دوسری جانب امریکی حکام نے بھی طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کرنے کا عندیہ دیا تھا، تاہم ابھی تک عملی طور پر کوئی نتائج سامنے نہیں آئیں، جبکہ امریکا افغانستان میں طالبان کے خلاف اپنے عسکری حملوں میں بھی کمی لا چکا ہے۔