Tag: diamer bhasha dam case

  • سپریم کورٹ میں  دیامربھاشااورمہمندڈیم  کیس کی سماعت  27فروری  کو ہوگی

    سپریم کورٹ میں دیامربھاشااورمہمندڈیم کیس کی سماعت 27فروری کو ہوگی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں جسٹس عظمت سعیدکی سربراہی میں 5 رکنی خصوصی بنچ دیامربھاشا اور مہمند ڈیم کی تعمیر کیس کی سماعت 27 فروری کو کرے گا، اٹارنی جنرل، چیئرمین ایف بی آر کو نوٹس جاری کردیےگئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں دیامربھاشااورمہمندڈیم تعمیر کیس سماعت کیلئےمقرر کردیا گیا ، جسٹس عظمت سعید کی سربراہی میں5رکنی خصوصی بنچ 27 فروری کو کیس کی سماعت کرے گا۔

    اٹارنی جنرل،چیئرمین ایف بی آرکونوٹس جاری کردیےگئے جبکہ گورنر اسٹیٹ بینک، سیکریٹری خزانہ اور اطلاعات کو بھی نوٹس جاری کئے گئے ہیں۔

    یاد رہے 7 جنوری کو سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے دیامر بھاشا،مہمندڈیم کیس میں واپڈا سے ڈیم کی تعمیرکاحتمی شیڈول تحریری طورپرطلب کرلیا تھا اور گورنراسٹیٹ بینک کوڈونرزکی مشکلات حل کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا تھا وزارت آبی وسائل یاواپڈانہیں سپریم کورٹ کی نگرانی میں ڈیم بنےگا۔

    مزید پڑھیں :وزارت آبی وسائل یاواپڈا نہیں سپریم کورٹ کی نگرانی میں ڈیم بنےگا، ‌‌‌‌چیف جسٹس

    چیئرمین واپڈا نے بتایا تھا جس تیزی سےکام ہورہا ہے مطمئن ہوں، 2024 میں بننے والا ڈیم2023 میں مکمل کریں گے، مارچ کے وسط تک ٹھیکیدار اپنا کام شروع کر دے گا، علاقہ عمائدین کے تعاون سے زمین میں کوئی مشکل نہیں، زمین کے حصول کے لئے 684 ملین روپے ادا کرچکے ہیں۔

    عالمی ماہرین نے دیامیر بھاشا ڈیم کی سائٹ تعمیر کے لیے کلیئر قرار دے دیا ہے، ڈیم کی تعمیر کا آغاز آئندہ سال جون سے ہوگا۔

    واضح رہے کہ 6 جولائی کو کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے متعلق ہونے والی سماعت میں چیف جسٹس آف پاکستان نے پانی کی قلت کو دور کرنے کے لیے فوری طور پر دیامیر بھاشا اور مہمند ڈیموں کی تعمیر کے احکامات اور فنڈز قائم کرنے کا حکم بھی جاری کیا تھا۔

    جس کے بعد دیامیر بھاشا اور مہمند ڈیموں کی تعمیر کے لیے کھولے جانے والے فنڈز میں پاکستانیوں کی جانب سے عطیات دینے کا سلسلہ زور و شور سے جاری ہے۔

  • لوگ چاہتے ہیں ڈیمز فنڈ کی نگرانی عدالت کرے،  چیف جسٹس

    لوگ چاہتے ہیں ڈیمز فنڈ کی نگرانی عدالت کرے، چیف جسٹس

    اسلام آباد : دیامیربھاشا اور مہمند ڈیم کیس کی سماعت میں چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ لوگ چاہتے ہیں ڈیمز فنڈ کی نگرانی عدالت کرے، الیکشن کی وجہ سے فنڈزمیں پیسے نہیں آسکے، آنے والی نسلوں کو بچانے کیلئے کچھ کرنا پڑے گا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں 4رکنی لارجربینچ نے دیامیربھاشا اور مہمند ڈیم کیس کی سماعت کی، دوران سماعت اعتزازاحسن نے چیف جسٹس سے مکالمہ کیا کہ کیا عدالت کا ڈیمز کیلئے فنڈز بنانے کا فیصلہ درست ہے، ڈیمز کیلئے فنڈز بنانے کا فیصلہ درست اور اچھا ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ جن ڈیمز پرتنازع نہیں ہے، ابھی اسی پر فوکس ہے، ڈیمز بننے تو ہیں، کالا باغ پر جب کبھی اتفاق ہوگا وہ بن جائے گا، لوگ چاہتے ہیں ڈیمز فنڈ کی نگرانی عدالت کرے۔

    جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ ڈیمز ناگزیر تھے اس لیے 2ڈیمز بنانے کا حکم دیا، ڈیمز کا ڈیزائن کیا ہوگا ٹھیکہ کس کو دینا ہے یہ ہمارا کام نہیں، ریاست کے کام میں مداخلت نہیں کریں گے، انتظامیہ کے کام میں مداخلت نہیں کریں گے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کی وجہ سےفنڈزمیں پیسے نہیں آسکے، کالا باغ ڈیم کو قوم کے اتفاق پر چھوڑ رہے ہیں، حکومت اگر فنڈز اکٹھے کرسکتی ہے تو کرے، حکومت چاہے تو قائم فنڈز کو ٹیک اوور کرلے، عدالت کے ججز کا کام نہیں فنڈز اکٹھے کریں۔

    جسٹس ثاقب نثار نے بتایا کہ کل درگاہ کی حاضری پر مجھے 5لاکھ کسی نے چیک دیا، لوگ ڈیمز کی تعمیر کے لیے فنڈز دینا چاہتے ہیں۔

    جسٹس عمرعطابندیال کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ ڈیمز بنانا عدالت کا کام نہیں، عدالت حکومت کی مدد کررہی ہے، ڈیمز کے فنڈز سے رقم کیسے جاری ہوگی، زلزلہ متاثرین کے فنڈز دوسرےمنصوبوں میں استعمال ہوگئے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ 9 سال کی بچی نے ساتھی طلبہ سے 5300 جمع کرکے مجھے دیئے، آنے والی نسلوں کو بچانے کیلئے کچھ کرنا پڑے گا، ڈیمزکی تعمیر کیلئے درکار رقم ہماری استطاعت سے بڑھ کر ہے۔

    ضیا شاہد نے بتایا کہ انڈس واٹر معاہدے کے ذریعے ستلج بیاس راوی بھارت کو دیے گئے، جس پر چیف جسٹس نے کہا عالمی معاہدہ یا ٹریٹی کرنا حکومت کا کام ہے، عدالت ٹریٹی سے متعلق حکومت کو ہدایت یا حکم کیسے دے سکتی ہے، حکومت کو کیسےکہہ سکتے ہیں معاملے کوعالمی سطح پراٹھائے۔

    بعد ازاں سپریم کورٹ میں کیس کی مزید سماعت غیرمعینہ مدت کیلئے ملتوی کردی۔

    چیف جسٹس کا بجلی کے بلز پر ہوشربا ٹیکسز پر نوٹس لینے کاعندیہ

    دوران سماعت چیف جسٹس نے بجلی کے بلز پر ہوشربا ٹیکسز پر نوٹس لینے کاعندیہ دیا اورکہا بجلی کے بلز میں ہوشربا ٹیکسز ہوتے ہیں، لوگوں کے پاس کھانے کے پیسے نہیں، اتنا بوجھ کیوں ڈالا گیا، ٹیکسز کی کلیکشن کا میکانزم بنانا پڑے گا۔

    بجلی کے بلزمیں نہ جانےکون سےٹیکس اورسرچاج ہیں، بجلی چوری کا بوجھ بھی عوام پر ڈال دیا جاتا ہے، بجلی کے بلز میں غریب آدمی اتنے ٹیکسز کیسے دے سکتا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔