Tag: DIARRHEA

  • ماہ رمضان میں ڈائریا بے قابو، وبائی شکل اختیار کرلی

    ماہ رمضان میں ڈائریا بے قابو، وبائی شکل اختیار کرلی

    کراچی : سندھ میں ڈائریا اور ہیضے کے کیسز میں تشویشناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، ماہ رمضان میں ڈائریا نے وبائی شکل اختیار کرلی صرف دو دن میں 500افراد اسپتال میں داخل ہوئے۔

    اے آر وائی نیوز کے نمائندے انور خان کی رپورٹ کے مطابق ماہرین صحت نے وبا کی بنیادی وجہ مضر صحت پانی ہے۔ اس کے علاوہ لوز موشن ڈائریا ٹائیفائیڈ کے مریضوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔

    انہوں نے بتایا کہ گزشتہ تین ماہ کے دوران پونے دو لاکھ سے زائد افراد ان امراض کے سبب اسپتال پہنچے اور مریضوں کی بہت بڑی تعداد کو تشویشناک حالت کے پیش نظر اسپتال میں داخل کرنا پڑا۔

    ماہرین صحت نے ماہ رمضان میں شہریوں کو خصوصی احتیاط کرنے اور بچوں کو پانی ابال کر پلانے کا مشورہ دیا ہے۔

    بازار کی تلی ہوئی اشیاء کھانے سے پرہیز کرنے اور صفائی ستھرائی کا خیال رکھنے کی بھی تاکید کی گئی ہے۔

  • پاکستان میں ہر ماہ ڈائریا کے 10 لاکھ کیس، روزانہ 110 سے زائد اموات

    پاکستان میں ہر ماہ ڈائریا کے 10 لاکھ کیس، روزانہ 110 سے زائد اموات

    کراچی: ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہر ماہ ڈائریا کے 10 لاکھ سے زائد کیس رپورٹ ہو رہے ہیں، جس کے نتیجے میں تقریبا 110 بچے روزانہ جاں بحق ہو جاتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق طبی ماہرین نے کہا ہے کہ ملک میں ہر روز اسہال سے سو سے زیادہ بچے جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، اور ان میں سے اکثریت کی جانیں زنک سپلیمنٹس دے کر بچائی جا سکتی ہیں۔

    ان خیالات کا اظہار ماہرین صحت نے کراچی کے مقامی ہوٹل میں ’زنک کی صحت کے لیے اہمیت‘ کے حوالے سے منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ آگاہی سیمینار کا انعقاد پاکستان زنک سوسائٹی اور مقامی دوا ساز ادارے فارم ایوو نے کیا تھا۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ پاکستان میں عالمی ادارہ صحت سے پری کوالیفائیڈ پلانٹس میں زنک کی مصنوعات کی تیاری نہایت خوش آئند ہے، جس کے نتیجے میں پاکستان کا انحصار غیر ملکی فارماسیوٹیکل کمپنیوں کی مصنوعات پر سے کم ہوگا۔

    انڈس اسپتال کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر عبدالباری خان نے کہا گزشتہ سال سندھ اور بلوچستان میں سیلاب کے بعد لاکھوں بچے ڈائریا میں مبتلا ہوئے لیکن انھیں زنک سپلیمنٹس دے کر ان میں سے اکثریت کی جانیں بچائی جا سکیں، زنک ڈائریا سے بچانے والا ایک اہم ترین عنصر ہے جسے او آر ایس کے ساتھ دے کر بچوں کو ڈائریا اور غذائی قلت سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔

    انھوں نے کہا پاکستانی کمپنی فارم ایوو کی بنائی ہوئی زنک ادویات کا ڈبلیو ایچ او سے پری کوالیفائی ہونا پاکستان کے لیے ایک نہایت خوش آئند پیش رفت ہے، یونیسیف اور دیگر عالمی ڈونر ایجنسیاں زنک کی مصنوعات ملٹی نیشنل فارماسیوٹیکل کمپنیوں سے خریدتی ہیں، لیکن اب فارم ایوو سے یہ مصنوعات بہت سستی میں دستیاب ہوں گی۔

    انھوں نے مشورہ دیا کہ ٹی بی، ایچ آئی وی اور کینسر کی ادویات بھی مقامی طور پر تیار کی جائیں، کیوں کہ ان ادویات کی خریداری پر گلوبل فنڈ اور دیگر عالمی اداروں کے 200 سے 300 ملین ڈالر خرچ ہوتے ہیں جو کہ بین الاقوامی فارماسوٹیکل کمپنیوں کے اکاؤنٹس میں چلے جاتے ہیں جب کہ ان ادویات کی مقامی طور پر تیاری سے یہ قیمتی زر مبادلہ پاکستان آ سکتا ہے۔

    ان کے مطابق ’’گزشتہ برس پاکستانی فارماسیوٹیکل کمپنیوں نے 713 ملین امریکی ڈالر کی ادویات اور مصنوعات برآمد کیں، امید ہے اب پاکستانی مصنوعات کی برآمد ایک ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ دنیا میں بچوں میں اموات کی دوسری بڑی وجہ اسہال ہے اور بدقسمتی سے اسہال سے مرنے والے 50 فی صد بچوں کا تعلق پاکستان، ہندوستان اور نائجیریا سے ہوتا ہے۔‘‘

    فارم ایوو کے منیجنگ ڈائریکٹر ہارون قاسم کا کہنا تھا کہ ان کی کمپنی صحت کے شعبے میں اخلاقی قدروں کو قائم کرنے اور بڑھانے پر یقین رکھتی ہے اور اس سلسلے میں ان کا ادارہ عالمی اداروں بشمول عالمی ادارہ صحت کی گائیڈ لائنز اور سرٹیفکیشن حاصل کرنے پر یقین رکھتا ہے۔

  • بقر عید: معدے و ڈائریا کے 10 ہزار مریض اسپتال پہنچ گئے

    بقر عید: معدے و ڈائریا کے 10 ہزار مریض اسپتال پہنچ گئے

    لاہور: پنجاب کے شہر لاہور میں مختلف اسپتالوں پر عید پر قربانی کا گوشت کھانے کے بعد پیٹ کے امراض میں مبتلا مریضوں کا رش لگ گیا۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور میں عید الاضحیٰ پر معدے و ڈائریا کے 10 ہزار مریض اسپتال پہنچ گئے، یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر کا کہنا ہے کہ عید الاضحیٰ پر معدے کی بیماریوں کی بڑی وجہ قربانی کے گوشت کو جلدی پکانا ہے۔

    رپورٹس کے مطابق متاثرہ مریض آنتوں میں انفیکشن، ڈائریا، معدے کی جلن، السر اور فوڈ پوائزننگ کا شکار ہو کر اسپتال پہنچے ہیں۔

    میؤ اسپتال میں 1600 مریض، جناح اسپتال میں 1500 مریض، جنرل اسپتال میں 1450، جب کہ سروسز اسپتال میں 1300 مریض رپورٹ ہوئے۔

    اسی طرح گنگا رام میں 1248 مریض، شاہدرہ میں 838 مریض، میاں میر اسپتال میں 700 مریض، نوازشریف یکی گیٹ میں 700 مریض، اور کوٹ خواجہ سعید اسپتال میں 646 مریض رپورٹ ہوئے۔

  • پنجاب میں ڈائریا اور ہیضے میں اضافہ، کھانے کی اشیا اور پانی کے حوالے سے اہم اقدام

    پنجاب میں ڈائریا اور ہیضے میں اضافہ، کھانے کی اشیا اور پانی کے حوالے سے اہم اقدام

    لاہور: صوبہ پنجاب میں ڈائریا اور ہیضے کے مریضوں میں تیزی سے اضافے کے بعد ناقص آئس کریم اور مشروبات کی فروخت پر پابندی اور پینے کے پانی کی سیمپلنگ کرنے کی ہدایت جاری کردی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق صوبہ پنجاب میں ڈائریا اور ہیضے کے مریضوں میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جس کے بعد محکمہ صحت پنجاب نے نئی گائیڈ لائنز جاری کر دیں۔

    پنجاب میں ناقص آئس کریم اور مشروبات کی فروخت پر پابندی عائد کردی گئی، صوبے میں پینے کے پانی اور برف فیکٹریز کی سیمپلنگ کرنے اور پینے کے پانی کی صفائی کے لیے کلوری نیشن کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

    اسپتالوں کو ڈائریا اور ہیضے کے مریضوں کے لیے بستر مختص کرنے کا حکم بھی دے دیا گیا ہے۔

    گائیڈ لائنز میں کہا گیا ہے کہ اسپتال ادویات کے اسٹاکس مکمل رکھیں، روزانہ اسپتالوں میں ڈائریا اور کولیرا کے مریضوں کا ریکارڈ فراہم کیا جائے۔

    صوبے بھر میں ہوٹلز، ریسٹورینٹس اور کھانے کے پوائنٹس کی روزانہ چیکنگ کا حکم بھی دیا گیا ہے۔

  • کراچی میں 12 ہزار بچے اسہال اور نمونیا میں مبتلا

    کراچی میں 12 ہزار بچے اسہال اور نمونیا میں مبتلا

    کراچی: صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں 10 دن کے دوران اسہال اور نمونیا کے 12 ہزار کیسز سامنے آگئے، متاثرین میں بڑی تعداد بچوں کی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق شہر قائد میں 10 دن کے دوران 12 ہزار سے زائد بچے اسہال، نمونیا اور دیگر امراض کا شکار ہوگئے ہیں۔ عید اور بارش کے بعد مریضوں کی تعداد میں 300 گنا اضافہ ہوا۔

    10 دنوں میں سول اسپتال کی ایمرجنسی میں 2 ہزار سے زائد بچے لائے گئے جبکہ قومی ادارہ برائے امراض اطفال (این آئی سی ایچ) میں 2 ہزار 8 سو 89 بچے لائے گئے۔

    عباسی شہید اسپتال میں 28 سو، لیاری جنرل اسپتال میں 14 سو اور سندھ گورنمنٹ چلڈرن اسپتال میں ڈھائی ہزار سے زائد بچے لائے گئے۔

    این آئی سی ایچ کے سربراہ ڈاکٹر جمال رضا کے مطابق بارش اور عید الاضحیٰ کے بعد یومیہ ڈیڑھ سو کیسز رپورٹ ہورہے ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ سیوریج کے پانی کی نکاسی کا نہ ہونا، کچرے اور گندگی کے ڈھیر بچوں میں ڈائریا اور گیسٹرو کی وجہ بن کر سامنے آئے ہیں۔

  • بارش کے موسم میں بچوں کو ڈائریا سے بچائیں

    بارش کے موسم میں بچوں کو ڈائریا سے بچائیں

    ملک بھر میں بارشوں کا موسم عروج پر ہے۔ اس موسم میں پانی میں ہر قسم کی آلودگی شامل ہوجاتی ہے جس کے باعث طرح طرح کی موسمی بیماریاں پھیل سکتی ہیں جن میں ڈائریا سرفہرست ہے۔ یہ بیماری بالخصوص بچوں کو اپنا نشانہ بناتی ہے۔

    بچے بے حد حساس ہوتے ہیں، خوراک اور ماحول میں ذرا سی بد احتیاطی یا آلودگی رونما ہونے سے انہیں بیماریاں لاحق ہوجاتی ہیں۔ بازاروں میں بچوں کے لیے ایسی مہلک اور زہریلی چٹ پٹی غذائیں وافر مقدار میں موجود ہیں جو بچوں کو معدے، گلے اور سینے کے امراض میں مبتلا کرسکتی ہیں۔

    بارشوں کی آمد کے ساتھ ہی مکھیوں کی بھی یلغار ہوجاتی ہے جس کے نتیجے میں وبائی امراض پھوٹ پڑتے ہیں اور ان وبائی امراض میں سرفہرست دست کی بیماری یا ڈائریا ہے۔

    ڈائریا بچوں اور بڑوں کو یکساں طور پر اپنے نرغے میں لیتا ہے لیکن خصوصاً بچوں میں یہ بیماری اکثر جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔ پاکستان میں ہر سال 5 لاکھ بچے ڈائریا کا شکار ہوتے ہیں اور 2 لاکھ بچوں کی اموات اسی وجہ سے ہوتی ہیں۔

    ڈائریا کیسے پھیل سکتا ہے؟

    گندگی سے بھرا ماحول، اور غیر صحتمند غذائیں اس موسم میں مکھیوں کی یلغار کے باعث زہر آلود ہوسکتی ہیں اور ڈائریا ایسی ہی غذاؤں اور آلودگی سے لاحق ہوتا ہے۔

    ڈائریا کے جراثیم منہ کے ذریعے جسم میں داخل ہوتے ہیں اور گندے ہاتھ، گندا پانی اور باسی یا خراب کھانا اس کے پھیلاؤ کا اہم ذریعہ ہیں۔

    ماں کا کردار اہم

    ڈائریا سے بچاؤ میں ماؤں کا کردار نہایت اہم ہے۔ وہ نہ صرف حفظان صحت کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے بچوں کو ڈائریا سے بچا سکتی ہیں بلکہ بچوں کو صحت اور صفائی کے بارے میں معلومات فراہم کر کے انہیں اس بیماری سے مکمل طور پر محفوظ بھی رکھ سکتی ہیں۔

    اس ضمن میں ماؤں کو چاہیئے کہ کھانا پکانے سے پہلے گوشت اور سبزی اچھی طرح دھولیں تاکہ ان پر لگے جراثیم صاف ہوجائیں۔ کھانا پکانے کے برتن بھی صاف اور دھلے ہونے چاہئیں۔

    بنگلہ دیش اور پاکستان میں کی جانے والی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق جو مائیں کھانا پکانے اور بچوں کو کھانا کھلانے سے پہلے اچھی طرح ہاتھ دھو لیتی ہیں ان کے بچوں میں دستوں کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔

    ہاتھ دھونے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ ہاتھوں کو کم از کم 45 سیکنڈ تک رگڑ کر صابن سے اچھی طرح دھویا جائے کیونکہ ہاتھوں کو صحیح طریقے سے دھو لینے سے دستوں کی بیماری سے 50 فیصد تک بچاؤ ممکن ہوجاتا ہے۔

    اس کے علاوہ پکے ہوئے کھانے اور کھانے پینے کی دیگر اشیا کو ہمیشہ ڈھانپ کر رکھیں تاکہ اس پر مکھیاں نہ بیٹھیں۔

    گھر میں نمکول بنائیں

    ڈائریا کے دوران بچے کے جسم سے پانی اور نمکیات ختم ہوجاتی ہیں اور اگر خدانخواستہ پانی کی یہ کمی زیادہ ہوجائے تو بچے کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے لہٰذا ماؤں کو چاہیئے کہ جیسے ہی بچے کو دست شروع ہوں اسے فوری طور پر نمکول پلانا شروع کردیں۔

    اگر نمکول دستیاب نہ ہو تو اسے گھر پر بھی باآسانی تیار کیا جاسکتا ہے۔ مندرجہ ذیل طریقے سے گھر پر باآسانی نمکول بنایا جاسکتا ہے۔

    چار گلاس ابلے ہوئے پانی میں آٹھ چائے کے چمچے چینی، آدھا چائے کا چمچہ نمک، ایک لیموں کا رس اور ایک چٹکی کھانے کا سوڈا ملا کر فوری طور پر بچے کو پلائیں۔

    بچے یہ نمکول بڑے شوق سے پی لیتے ہیں۔ اسے وقفے وقفے سے بچوں کو دیتے رہیں تاکہ جسم میں ہونے والی پانی اور نمکیات کی کمی کو پورا کیا جاسکے۔

    ڈائریا میں چاولوں کی پیچ بھی بہت فائدہ مند ہوتی ہے۔ پیچ بنانے کے لیے 4 گلاس پانی میں ایک مٹھی چاول اور ایک چٹکی نمک ملا کرچولہے پر ابالنے کے لیے رکھ دیں اور اس وقت تک ابالیں جب تک چاول نرم نہ ہوجائیں۔

    اس کے بعد آدھا گلاس پانی مزید شامل کردیں پھراس آمیزے کو بلینڈر میں ڈال کر پیس لیں اور وقفے وقفے سے پلاتے رہیں۔

    چاولوں کا پیچ بچے کو 12 گھنٹے تک پلایا جاسکتا ہے۔ اس سے دستوں میں جلد افاقہ ہوتا ہے۔

    ڈائریا کے دوران دی جانے والی خوراک

    مائیں عموماً ڈائریا کے دوران بچوں کی غذا روک دیتی ہیں۔ یہ ایک غلط طریقہ ہے کیونکہ ایک تو دستوں کی وجہ سے بچہ ویسے ہی کمزور ہوجاتا ہے دوسرا غذا روکنے سے بچے میں غذائی کمی بھی واقع ہوجاتی ہے لہٰذا ڈائریا کے دوران بچے کو نرم اور ہلکی غذا دینی چاہیئے۔

    اس کے لیے بچے کو کھانے میں نرم کھچڑی، کیلا، چاول اور کھیر دیں۔ اس کے علاوہ دہی بھی بے حد مفید ہے۔

    دلیہ اورانڈے کا کسٹرڈ دینے سے بھی بچے میں غذائی کمی واقع نہیں ہوتی، ہاں البتہ بچے کو چکنائی والی غذا دینے سے گریز کریں۔

    ڈائریا کے دوران بچے کو وقفے وقفے سے کھانے کو دیں۔ ماں کے دودھ سے نہ صرف بچے کے دستوں میں کمی واقع ہوتی ہے بلکہ بچے کی نشوونما بھی نہیں رکتی۔

    ہمارے ہاں بیشتر مائیں دستوں کے دوران نمکول بھی کم دیتی ہیں اور بچے کا دودھ و غذا بھی روک لیتی ہیں جس سے بچے کی حالت اور بگڑ جاتی ہے۔

    مزید احتیاطی تدابیر

    ڈائریا کی بیماری عموماً 4 سے 5 روز میں ختم ہوجاتی ہے۔ اگر صحیح پانی اور نمکیات کے ساتھ بچے کو غذا بھی ملتی رہے تو بچے کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچتا۔

    اگر دستوں کے ساتھ ساتھ بہت زیادہ الٹیاں بھی ہوں تو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

    اکثر مائیں چاہتی ہیں کہ بچے کو ایسی دوائیں دی جائیں جن سے دست فوراً رک جائیں لیکن ایسا اس لیے ممکن نہیں کہ دست روکنے والی دوا دینے سے بچے کا پیٹ پھول سکتا ہے اور جراثیم پورے جسم میں پھیل سکتے ہیں۔

    یہ ایک خطرناک صورتحال ہے جس کی وجہ سے جسم میں زہر پھیلنے سے بچے کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔

    ڈائریا کے دوران بچے کو غیر ضروری دوائیں ہرگز نہ دیں بلکہ زیادہ سے زیادہ پانی پلائیں تاکہ پھول جیسے بچوں کی تازگی اور تندرستی برقرار رہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • برسات میں ڈائیریا سے بچاوٗ کے طریقے

    برسات میں ڈائیریا سے بچاوٗ کے طریقے

    آج کل ملک بھرمیں برسات کا موسم زوروں پر ہے اور پانی میں ہر قسم کی آلودگی شامل ہورہی ہے جس کے سبب طرح طرح کی موسمی بیماریاں پھیل رہی ہیں جن میں ڈائیریا سرِفہرست ہے اور یہ بیماری بالخصوص بچوں کو اپنا نشانہ بناتی ہے۔

    بچے بے حد حساس ہوتے ہیں خوراک اور ماحول میں ذرا سی بداحتیاطی یا آلودگی رونما ہونے سے انہیں بیماریاں لاحق ہوجاتی ہیں۔ بازاروں میں بچوں کیلئے ایسی مہلک اورزہریلی چٹ پٹی غذائیں وافرمقدارمیں موجود ہیں جوبچوں کو معدے، گلے اورسینے کے امراض میں مبتلا کرتی ہیں۔

    موسم گرم ہو یا سرد بارشوں کی آمد کے ساتھ ہی مکھیوں کی بھی یلغار ہوجاتی ہے جس کے نتیجے میں وبائی امراض پھوٹ پڑتے ہیں اور ان وبائی امراض میں سرفہرست دستوں کی بیماری یا ڈائریا ہے۔ ڈائریا بچوں اور بڑوں کو یکساں طورپراپنے نرغے میں لیتا ہے لیکن خصوصاً بچوں میں یہ بیماری اکثرجان لیوا ثابت ہوتی ہے۔ پاکستان میں ہرسال 5 لاکھ بچے دستوں کا شکار ہوتے ہیں اور دو لاکھ بچوں کی اموات اسی وجہ سے ہوتی ہیں۔

    ڈائریا کے پھیلاؤ کے اہم ذرائع


    گندہ ماحول آلودہ غذاؤں کو بھی زہرآلود کردیتا ہے اور ڈائریا ایسی ہی غذاؤں اور آلودگی سے لاحق ہوتا ہے۔ ڈائریا کے جراثیم منہ کے ذریعے جسم میں داخل ہوتے ہیں اور گندے ہاتھ، گندا پانی، باسی یا خراب کھانا اس کے پھیلاؤ کا اہم ذریعہ ہیں۔

    ڈائریا سے بچاؤ میں ماں کا کردار


    ڈائریا سے بچاؤ میں ماؤں کا کردار نہایت اہم ہے وہ نہ صرف حفظان صحت کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے بچوں کو دستوں سے بچاسکتی ہیں بلکہ بچوں کو صحت اور صفائی کے بارے میں معلومات فراہم کرکے انہیں اس بیماری سے مکمل طور پر محفوظ بھی رکھ سکتی ہیں۔

    اس ضمن میں ماؤں کو چاہیے کہ کھانا پکانے سے پہلے گوشت اور سبزی اچھی طرح دھولیں تاکہ ان پر لگے جراثیم صاف ہوجائیں۔ کھانا پکانے کے برتن بھی صاف اور دھلے ہونے چاہئیں۔

    بنگلہ دیش اور پاکستان میں کی جانے والی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق جو مائیں کھانا پکانے اور بچوں کو کھانا کھلانے سے پہلے اچھی طرح ہاتھ دھو لیتی ہیں ان کے بچوں میں دستوں کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ ہاتھ دھونے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ ہاتھوں کو کم از کم 45 سیکنڈ تک رگڑ رگڑ کر صابن سے اچھی طرح دھویا جائے کیونکہ ہاتھوں کو صحیح طریقے سے دھو لینے سے دستوں کی بیماری سے 50 فیصد تک بچاؤ ممکن ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ پکے ہوئے کھانے اور کھانے پینے کی دیگر اشیاء کو ہمیشہ ڈھانپ کر رکھیں تاکہ اس پر مکھیاں نہ بیٹھیں۔

    گھر میں مزیدار نمکول بنانے کا طریقہ


    ڈائریا یا دستوں کے دوران بچے کے جسم سے پانی اور نمکیات ختم ہوجاتی ہیں اور اگر خدانخواستہ پانی کی یہ کمی زیادہ ہوجائے تو بچے کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے لہٰذا ماؤں کو چاہیے کہ جیسے ہی بچے کو دست شروع ہوں اسے فوری طور پر نمکول پلانا شروع کردیں۔ اگر نمکول دستیاب نہ ہو تو گھر پربھی باآسانی تیار کیا جاسکتا ہے،نمکول بنانے کا طریقہ درج ذیل ہے۔

    چارگلاس ابلے ہوئے پانی میں آٹھ چائے کے چمچے چینی، آدھا چائے کا چمچہ نمک، ایک لیموں کا رس اور ایک چٹکی کھانے کا سوڈا ملا کرفوری طور پر بچے کو پلائیں۔ عموماً بچے یہ نمکول بڑے شوق سے پیتے ہیں، اسے وقفے وقفے سے بچوں کو دیتے رہیں تاکہ جسم میں ہونے والی پانی اور نمکیات کی کمی کو پورا کیا جاسکے۔

    اس کے علاوہ دستوں میں چاولوں کی پیچ بھی بہت فائدہ مند ہوتی ہے۔ پیچ بنانے کیلئے چار گلاس پانی میں ایک مٹھی چاول اور ایک چٹکی نمک ملا کرچولہے پر ابالنے کیلئے رکھ دیں اور اس وقت تک ابالیں جب تک چاول نرم نہ ہوجائیں اس کے بعد آدھا گلاس پانی مزید شامل کردیں پھراس آمیزے کو بلینڈرمیں ڈال کر پیس لیںا ور وقفے وقفے سے پلاتے رہیں۔ چاولوں کا پیچ بچے کو 12گھنٹے تک پلایا جاسکتا ہے اس سے دستوں میں جلد افاقہ ہوتا ہے۔

    دستوں کے دوران بچوں کو کیا خوراک دیں


    مائیں عموماً دستوں کے دوران بچوں کی غذا روک دیتی ہیں‘ یہ ایک غلط طریقہ ہے کیونکہ ایک تو دستوں کی وجہ سے بچہ ویسے ہی کمزور ہوجاتا ہے دوسرا غذا روکنے سے بچے میں غذائی کمی بھی واقع ہوجاتی ہے۔ لہٰذا دستوں کے دوران بچے کو نرم اور ہلکی غذا دینی چاہیے۔ اس کیلئے بچے کو کھانے میں نرم کھچڑی‘ کیلا‘ چاول اور کھیردیں۔ اس کے علاوہ دہی دستوںکے دوران بہت مفید ہے۔ دلیہ اورانڈے کا کسٹرڈ دینے سے بھی بچے میں غذائی کمی واقع نہیں ہوتی‘ ہاں البتہ بچے کو چکنائی والی غذا نہ دیں۔ دستوں کے دوران بچے کو وقفے وقفے سے کھانے کو دیں اور ماں کے دودھ سے نہ صرف بچے کے دستوں میں کمی واقع ہوتی ہے بلکہ بچے کی نشوونما بھی نہیں رکتی۔ ہمارے ہاں بیشتر مائیں دستوںکے دوران نمکول بھی کم دیتی ہیں اور بچے کا دودھ و غذا بھی روک لیتی ہیں جس سے بچے کی حالت اور بگڑ جاتی ہے۔

    دستوں کی بیماری عموماً 4سے 5 روز میں ختم ہوجاتی ہے۔ اگر صحیح پانی اور نمکیات کے ساتھ بچے کو غذا بھی ملتی رہے تو بچے کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچتا‘ ہاں البتہ اگر دستوں کے ساتھ ساتھ الٹیاں بھی زیادہ ہوں تو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ اکثر مائیں چاہتی ہیں کہ بچے کو ایسی دوائیں دی جائیں جن سے دست فوراً رک جائیں لیکن ایسا اس لیے ممکن نہیں کہ دست روکنے والی دوا دینے سے بچے کا پیٹ بھی پھول سکتا ہے اور جراثیم پورے جسم میں پھیل سکتے ہیں یہ ایک خطرناک صورتحال ہے جس کی وجہ سے جسم میں زہر پھیلنے سے بچے کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے لہٰذا دستوں کے دوران بچے کو غیرضروری دوائیں ہرگز نہ دیں بلکہ زیادہ سے زیادہ پانی پلائیں تاکہ پھول جیسے بچوں کی تازگی اور تندرستی برقرار رہے۔