اسلام آباد : سانحہ ساہیوال کے متاثرہ خاندانوں کو اسلام آبادکس نے بلایا تھا؟ گتھی الجھ گئی، ترجمان چئیرمین سینیٹ نے متاثرہ فیملی کے ساتھ ملاقات طےکیے جانے کی تردید کردی اور کہا متاثرہ خاندان کو نہیں بلایا تھا۔
تفصیلات کے مطابق سانحہ ساہیوال کے متاثرہ خاندانوں کو پولیس اسلام آباد کیوں لے کر گئی؟ اور کس نے بلایاتھا؟معمہ حل نہ ہوسکا، ترجمان چئیرمین سینیٹ نے متاثرہ فیملی کے ساتھ ملاقات طے کیے جانے کی تردیدکردی۔
ترجمان نے کہا چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے متاثرہ خاندان کو نہیں بلایا تھا اور نہ ہی خلیل کے اہلخانہ کی جانب سے ملاقات کا کوئی پیغام ملا، پولیس متاثرہ خاندان کو اسلام آباد کیوں لائی وضاحت لی جائےگی۔
سانحہ ساہیوال ، فرانزک لیب کو مکمل ثبوت فراہم نہ کرنے کا انکشاف
دوسری جانب سانحہ کی تحقیقات سست روی کاشکار ہے، فرانزک لیب کو مکمل ثبوت فراہم نہ کرنے کا انکشاف ہواہے، فرانزک لیب نے جےآئی ٹی کو اپنے تحفظات سے آگاہ کردیا، لیب کے ڈی جی ڈاکٹراشرف کا کہنا ہے کہ واقعےمیں استعمال اسلحہ تاحال فراہم نہیں کیاگیا، جس کے بغیر رپورٹ کی تیاری ممکن نہیں ہے، پولیس نے پنجاب فرانزک لیب کو صرف گولیوں کے خول اور متاثرہ گاڑی بھیجی تھی۔
گذشتہ روز سانحہ ساہیوال کے مقتول ذیشان اور خلیل کے اہل خانہ اسلام آباد پہنچے تھے، جہاں صدرڈاکٹر عارف علوی سے ملاقات متوقع تھی تاہم ملاقات نہ ہوسکی۔
یاد رہے 24 جنوری کو وزیرِ اعظم عمران خان کی زیرِ صدارت پنجاب پولیس اور ساہیوال واقعے پر اہم اجلاس منعقد ہوا تھا ، جس میں پنجاب پولیس میں اصلاحات لانے کا فیصلہ کیا گیا تھا ۔
مزید پڑھیں : ساہیوال واقعے پر اجلاس، حکومت کا پنجاب پولیس میں اصلاحات لانے کا فیصلہ
اس سے قبل وزیراعظم عمران خان کے زیرِ صدارت مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس میں ساہیوال واقعے پرجوڈیشل کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا، اجلاس میں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ انسانی المیہ ہےاس کومثالی بنائیں گے، اپوزیشن کےمطالبے پرجوڈیشل کمیشن بنانے پرتیارہیں اپوزیشن اپنےممبرز دیناچاہتی ہےتو دے سکتی ہے۔
واضح رہے کہ 19 جنوری کو ساہیوال کے قریب سی ٹی ڈی کے مبینہ جعلی مقابلے میں ایک بچی اور خاتون سمیت 4 افراد مارے گئے تھے، عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ کار سواروں نے نہ گولیاں چلائیں، نہ مزاحمت کی جبکہ سی ٹی ڈی نے متضاد بیان دیا تھا۔
بعد ازاں ساہیوال واقعے پر وزیراعظم نے نوٹس لیتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو تحقیقات کرکے واقعے کے ذمے داروں کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیا جبکہ وزیراعظم کی ہدایت پر فائرنگ کرنے والے اہلکاروں کو حراست میں لے لیا گیا اور محکمہ داخلہ پنجاب نے تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنا دی۔
جی آئی ٹی نے خلیل اور اس کے خاندان کے قتل کا ذمہ دار سی ٹی ڈی افسران کو ٹھہرایا تھا جبکہ پنجاب حکومت کی جانب سے ذیشان کو دہشت گرد قرار دیا گیا تھا۔