Tag: dinosaur

  • ڈائنو سار اب بھی زمین پر موجود ہیں؟ نئی تحقیق

    ڈائنو سار اب بھی زمین پر موجود ہیں؟ نئی تحقیق

    ہماری زمین کے سب سے قوی الجثہ جاندار ڈائنا سور تو معدوم ہوچکے ہیں، تاہم مختلف مقامات سے ملنے والے ان کے فوسلز یا رکازیات پر تحقیق جاری رہتی ہے، اب حال ہی میں ایک تحقیق نے ماہرین کے اس خیال کو مزید تقویت دی ہے کہ ڈائناسورز کی ارتقائی شکل پرندوں کی صورت میں موجود ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق ڈائنا سور اور پرندوں کے درمیان جینیاتی تعلق کے معمے میں اہم پیش رفت ہوئی کیونکہ ایک عجیب جاندار کے فوسل کا تجزیہ کرنے پر کچھ نئی تفصیلات ایک تحقیق میں سامنے آئی ہیں۔

    یہ فوسل ایک ایسے عجیب جانور کے ہیں جس کا جسم تو پرندے جیسا تھا مگر کھوپڑی ڈائنا سور کی تھی اور سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ یہ فوسل 12 کروڑ سال پرانے ہیں۔

    ماہرین پہلے ہی کافی حد تک تسلیم کرتے ہیں کہ موجودہ عہد کے پرندے بنیادی طور پر بڑے گوشت خور ڈائنا سور کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔

    یہ ڈائنا سور زمین پر کروڑوں سال پہلے گھوما کرتے تھے، مگر سائنسدانوں کو یہ معلوم نہیں کہ آخر اس عظیم الجثہ جاندار نے پرندوں کی شکل کیسے اختیار کرلی۔

    اب تک جو فوسل ملے وہ یا تو ڈائنا سورز کے تھے یا پرندوں کے، اس لیے ڈائنا سور کی کھوپڑی والا پرندہ بہت اہم خیال کیا جارہا ہے۔

    اس کا نام Cratonavis zhui رکھا گیا ہے اور یہ عجیب جاندار لمبی دم والے Archaeopteryx اور موجودہ عہد کے پرندوں کے اجداد سمجھے جانے والے Ornithothoraces کے درمیان کے سمجھے جاسکتے ہیں۔

    ان کو عرصے تک پرندوں اور ڈائنا سورز کے درمیان واحد تعلق سمجھا جاتا تھا کیونکہ ان کے پر کسی پرندے جیسے تھے مگر بڑی دم اور کمر کسی ڈائنا سور کی طرح تھی۔

    مگر وقت کے ساتھ زمانہ قدیم کے پرندوں جیسے کئی جانداروں کے فوسل سامنے آئے اور 90 کی دہائی میں سائنسدانوں نے Ornithothoraces کو موجودہ عہد کے پرندوں کا جد امجد قرار دیا۔

    چین کی اکیڈمی آف سائنس نے Cratonavis کا فوسل دریافت کیا تھا جس کی جانچ پڑتال سی ٹی اسکینز سے کی گئی، اس سے انہیں جاندار کی ہڈیوں اور کھوپڑی کی اصل شکل کو دوبارہ بنانے میں مدد ملی۔

    تمام تر تجزیے کے بعد ماہرین نے تصدیق کی کہ اس جاندار کی کھوپڑی ٹی ریکس جیسے ڈائنا سور سے ہو بہو ملتی ہے، انہوں نے کہا کہ کندھوں کے اسکین سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ جاندار فضا میں خود کو مستحکم رکھ سکتا تھا اور بہت زیادہ لچک کا مظاہرہ بھی کرسکتا ہے۔

    اس تحقیق کے نتائج جرنل نیچر ایکولوجی اینڈ ایوولوشن میں شائع ہوئے۔

    اگرچہ نتائج سے یہ سمجھنے میں کسی حد تک مدد ملے گی کہ کس زمانے میں عظیم الجثہ ٹی ریکس نے موجودہ عہد کی مرغی یا دیگر پرندوں کی شکل اختیار کرنا شروع کی مگر اب بھی اس حوالے سے کافی کچھ جاننا باقی ہے۔

  • 8 کروڑ سال پرانے ڈائناسار کا ڈھانچا کس ’خوش نصیب‘ کو ملے گا

    8 کروڑ سال پرانے ڈائناسار کا ڈھانچا کس ’خوش نصیب‘ کو ملے گا

    نیویارک: 7 کروڑ 60 لاکھ سال پرانے ڈائناسار کا ڈھانچا ‘قدیم’ حالت میں نیویارک میں نیلام کیا جا رہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اپنی نوعیت کا واحد فوسلائزڈ (پتھر بنا ہوا) ڈائناسارس ڈھانچا نیویارک میں 28 جولائی کو نیلامی کے لیے پیش کیا جائے گا، گورگوسارس کا یہ ڈھانچا 10 فٹ لمبا اور 22 فٹ طویل ہے۔

    ٹویٹر پر امریکی نیلام گھر ’سوتھ بیز‘ نے اعلان کیا ہے کہ 76 ملین سال قدیم گورگوسارس (Gorgosaurus) نیلام کیا جا رہا ہے، امید ہے کہ یہ ڈھانچا نیلامی میں حاضرین کی توجہ کا مرکز ہوگا۔

    نیلام گھر نے گورگوسارس کی حتمی بولی کا اندازہ 50 سے 80 لاکھ ڈالر لگایا ہے، کمپنی کا کہنا ہے کہ یہ تاریخ کا پہلا ڈائناسارس ڈھانچا ہے جو نیلامی کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    نیلامی سے قبل 21 جولائی کو سوتھبی کی نیویارک گیلریوں میں تاریخ میں دل چسپی رکھنے والوں کے لیے اس ڈھانچے کی نمائش کا انعقاد بھی کیا جائے گا، نیلامی کے بعد یہ ڈھانچا نجی ملکیت میں چلا جائے گا۔

    گورگوسارس گوشت خور تھے، یہ امریکا کے مغربی علاقوں اور کینیڈا میں پائے جاتے تھے، اور یہ ٹائیرانوسارس ریکس (Tyrannosaurus rex) سے بھی 10 ملین سال پرانے تھے۔

    گورگوسارس کا یہ مشہور ڈھانچا 2018 میں امریکا کے مغرب میں واقع پہاڑی علاقے مونٹانا کے دریائے جوڈتھ سے دریافت ہوا تھا، جوڈتھ ریور فارمیشن ایک ایسا قدیم ترین ارضیاتی علاقہ ہے جو ڈائناسارز کے ڈھانچوں کے لیے مشہور ہے۔

  • بھارت میں ڈائنو سار کا نایاب ترین انڈہ دریافت

    بھارت میں ڈائنو سار کا نایاب ترین انڈہ دریافت

    بھارتی ریاست مدھیہ پردیش میں ڈائنو سار کا نہایت نایاب انڈہ دریافت کیا گیا جس کی خاص بات یہ ہے کہ انڈے کے اندر انڈہ موجود ہے۔

    بھارت کی دہلی یونیورسٹی کے سائنس دانوں کی جانب سے کی جانے والی یہ دریافت نہایت نایاب اور اہم ہے اور آج سے پہلے اس نوعیت کی دریافت نہیں کی گئی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس انڈے کی مدد سے ڈائنو سارز کے تولیدی نظام کے بارے میں مزید جاننے میں مدد ملے گی، یہ بھی معلوم ہوسکے گا کہ آیا ان کا تولیدی نظام کچھوؤں اور چھپکلیوں جیسا ہے یا مگر مچھ اور پرندوں جیسا۔

    دوسری جانب چند روز قبل ڈائنو سارز کی انتہائی نایاب قسم اور ٹرائنو سارز ریکس سے بھی بڑے سپائنو سارز کے کچھ ڈھانچے برطانوی علاقے آئزل آف وائٹ سے دریافت ہوئے ہیں۔

    مگر مچھ سے ملتے جلتے ڈھانچے جیسے لیکن حجم میں انتہائی بڑے سپائنو سارز ڈائنو سارز سے کئی گنا بڑے اور طاقت ور ہوتے ہیں۔

    سائنسی جریدے پیئر جے لائف اینڈ انوائرمنٹ میں شائع ہونے والی مطالعاتی رپورٹ کے مطابق ملنے والے یہ نئے ڈھانچے 125 ملین برس پرانے ہیں۔

    برطانوی یونیورسٹی آف ساؤتھ ایمپٹن سے وابستہ اور اس مطالعاتی ٹیم کے قائد کرِس بیکر کا کہنا ہے کہ یہ بہت بڑا جانور تھا جس کی قامت 10 میٹر سے بھی زیادہ تھی، ہم نے اس کی جہتیں ناپی ہیں اور ممکن ہے کہ یورپ میں دریافت ہونے والے یہ آج تک کا سب سے بڑا شکاری جانور ہو۔

  • انڈے سے نکلنے کے لیے تیار ڈائنوسار کا کروڑوں سال قدیم فوسل دریافت

    انڈے سے نکلنے کے لیے تیار ڈائنوسار کا کروڑوں سال قدیم فوسل دریافت

    بیجنگ: چین میں چھ کروڑ 60 لاکھ سال قدیم انڈے میں موجود ڈائنوسار کا فوسل دریافت ہوا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سائنس دانوں نے اعلان کیا ہے کہ کم از کم 66 ملین سال قدیم ایک شان دار طور پر محفوظ شدہ ڈائنوسار ایمبریو دریافت ہوا ہے جو مرغی کی طرح اپنے انڈے سے نکلنے کی تیاری کر رہا تھا۔

    یہ دریافت چین کے شہر گینژو میں ہوئی ہے، ڈائنوسار کا بچہ انڈے سے نکلنے کے لیے تیار تھا، لیکن شاید دنیا میں آنے کی اس کی قسمت نہیں تھی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس دریافت سے انھیں ڈائنوسارز اور آج کے پرندوں کے درمیان تعلق کے بارے میں مزید جاننے کا موقع ملا، یہ ایک ایسا فوسل ہے جسے پرندوں میں انڈے سے نکلنے سے پہلے دیکھا جاتا ہے، یہ ایک بغیر دانتوں والا تھیروپوڈ ہے، جسے بے بی ینگلیانگ کا نام دیا گیا ہے۔

    برمنگھم یونیورسٹی کے محقق فیون واسیم ما نے منگل کو خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ تاریخ میں پائے جانے والے بہترین ڈائنوسار ایمبریو میں سے ایک ہے۔

    انڈے میں بے بی ینگلیانگ کی پوزیشن یوں تھی کہ اس کا سر اس کے جسم کے نیچے دبا پڑا تھا، دونوں اطراف میں پاؤں پڑے تھے، اور پیٹھ مڑی ہوئی تھی، یہ ایسی پوزیشن ہے جو اس سے قبل ڈائنوسار میں نظر نہیں آئی تھی، تاہم یہ جدید پرندوں کی طرح کی پوزیشن ہے۔

    معدوم ہو چکی حیاتیات کے ماہر پروفیسر اسٹیو بروسیٹ نے ٹوئٹ میں کہا کہ یہ سب سے حیران کُن ڈائنوسار فوسلز میں سے ایک ہے، اگر بے بی ینگلیانگ پرورش پا جاتا تو دو سے تین میٹر لمبا ہوتا اور ممکنہ طور پر پودے کھاتا۔

    بے بی ینگلیانگ 10.6 انچ لمبا ہے اور یہ 6.7 انچ لمبے انڈے کے اندر موجود ہے، اسے چین کے ینگلیانگ سٹون نیچرل ہسٹری میوزیم میں رکھا گیا ہے، ڈائنوسار کے جسم کا کچھ حصہ اب بھی پتھر سے ڈھکا ہوا ہے اور اب جدید سکیننگ ٹیکنالوجی کے ذریعے اس کا مکمل ڈھانچا بنایا جائے گا۔

  • انسان تباہی کے دھانے پر کھڑا ہے، اقوامِ متحدہ میں ڈائنوسار کا خطاب، ویڈیو وائرل

    انسان تباہی کے دھانے پر کھڑا ہے، اقوامِ متحدہ میں ڈائنوسار کا خطاب، ویڈیو وائرل

    نیویارک : آپ نے ماضی کے دیو ہیکل جاندار ڈائنا سار کو تو فلموں میں ہی دیکھا ہوگا لیکن اب وہ اقوام متحدہ کی عمارت میں بھی پہنچ گیا جہاں لوگ اسے دیکھ کر خوشگوار حیرت میں مبتلا ہوگئے۔

    یہی نہیں کہ یہ خوف کی علامت سمجھا جانے والا جانور یہاں کسی کو ڈرانے آیاتھا بلکہ اس کے آنے کا مقصددنیا کے لوگوں کو یہ باور کرانا تھا کہ آنے والے والے وقت میں انسانوں کو معدومیت سے بچانا بہت ضروری ہے۔

    کمپیوٹر گرافکس سے بنے ایک ڈائنوسار کی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسٹیج پر موجود ہے اور ڈائس پر شرکاء سے خطاب کررہا ہے۔

    اقوام متحدہ میں عالمی سطح پر موسمی اور ماحولیاتی تناظر میں تقریب کا انعقاد کیا گیا تھا، یہ ویڈیو کانفرنس آف پارٹیز‘ (سی او پی)26 کے موقع پر جاری کی گئی ہے، جسے خود عالمی ادارے نے سراہا اور ٹویٹ کیا ہے۔

    فرینکی نامی ڈائنوسار کی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ کہہ رہا ہے کہ  ہم تو فنا ہوگئے، آپ خود کو بچائیے، معدومیت کو منتخب نہ کیجیے ۔

    ویڈیو میں فرینکی نیویارک میں قائم اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اندرداخل ہوتا ہے، سیکیورٹی گارڈ سے مضحکہ خیز مکالمے کے بعد فرینکی ڈائس پر جاتا ہے اور اپنی مختصر تقریر کرتا ہے جسے وہ انسانیت کےلیے ایک سبق قرار دیتا ہے۔

    ڈائنوسارفرینکی کہتا ہے کہ میں ناپیدگی (ایکسٹنکشن) کے متعلق ایک دو باتیں جانتا ہوں میں کہنا چاہوں گا کہ ناپید ہونا ایک خوفناک عمل ہے ہم تو آسمانی پتھر یعنی شہابی ٹکر سے فنا ہوئے لیکن اب آپ انسانوں کے پاس کیا عذرہے؟

    اس کا کہنا تھا کہ آپ موسمیاتی تباہی کے دھانے پر کھڑے ہیں اور طرفہ تماشہ یہ ہے کہ عالمی حکومتیں ہر سال رکازی ایندھن پر کروڑوں اربوں ڈالر کی سبسڈی دے رہی ہیں۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ کوئی زمین سے ٹکرانےکے لیے آسمانی پتھر کو خود دعوت دےـ

    ڈائنوسار نے اقوامِ متحدہ میں اپنے خطاب میں کوویڈی19 عالمی وبا کا بھی ذکر کیا اور دنیا سے کہا کہ وہ اس سیارے کو بچانے کے لیے سنجیدہ کوششیں کرے۔

    واضح رہے کہ سی اوپی کانفرنس میں دنیا کے سربراہان اور دیگر ماہرین بدلتی ہوئی آب وہوا سے انسانیت کو لاحق ہونے والے خطرات اور ان کے حل پر غور کرے گی جس کے بعد عالمی بیانیہ جاری کیا جائے گا۔

  • برازیل: ڈائنوسار کی 7 کروڑ سال قدیم نئی نسل دریافت

    برازیل: ڈائنوسار کی 7 کروڑ سال قدیم نئی نسل دریافت

    ساؤپالو: برازیل میں ڈائناسار کی 7 کروڑ سال قدیم نئی نسل دریافت ہوئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ایک چونکا دینے والی دریافت میں سائنس دانوں نے حال ہی میں برازیل میں ڈائنوسار کی ایک نئی نسل دریافت کی ہے، جو غالباً 70 ملین سال پہلے امریکا کے جنوب مشرقی حصے میں گھومتی تھی۔

    ماہرین رکازیات کی ٹیم نے برازیل کے علاقے مونٹے آلٹو میں دریافت شدہ اس نئی نسل کے فوسلز کو کوروپی ایٹاٹا باقیات کا نام دیا ہے، یہ مقام ڈائنوسار کی دریافتوں کے لیے اب تک کے سب سے بھرپور علاقوں میں سے ایک رہا ہے۔

    ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر فابیانو وِڈائی نے میڈیا کو بتایا کہ کوروپی ایٹاٹا نسل دراصل ٹیٹراپوڈ ڈائنوسار کی نمائندگی کرتی ہے، اس نئی نسل کو جرنل آف ساؤتھ امریکن ارتھ سائنسز میں ابیلیسورِڈ ڈائنوسار کی ایک قِسم کہا گیا ہے، جو دو پایہ شکاریوں کا ایک گروہ ہے، جو قدیم جنوبی سپر براعظم گونڈوان پر پروان چڑھا تھا۔

    ڈائنوسار کا شکار کرنے والا مینڈک

    جو باقیات دریافت کی گئی ہیں، انھیں دیکھ کر ماہرین رکازیات کا کہنا ہے کہ یہ ڈائنوسار 16 فٹ لمبا تھا۔

    محققین نے ان باقیات میں ریڑھ کی ہڈی اور اس سے جڑے نچلے حصے کے ڈھانچے کا تجزیہ کیا، اس کے پٹھوں کے منسلکات اور ہڈیوں کی اناٹومی کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا جسم دوڑنے کے لیے اچھی طرح سے ڈھالا گیا تھا۔

    رپورٹس کے مطابق کوروپی ایٹاٹا کی ان باقیات کا ایک ماڈل مونٹے آلٹو میں واقع رکازیات کے میوزیم میں نمائش کے لیے رکھا جائے گا۔

  • برطانیہ میں ڈائناسورز کے حوالے سے اہم دریافت

    برطانیہ میں ڈائناسورز کے حوالے سے اہم دریافت

    لندن: برطانیہ میں ایک ماہر حجریات نے لاکھوں سال قبل زمین سے معدوم ہونے والے عظیم الجثہ جانور ڈائناسور کے قدموں کے نشان دریافت کر لیے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق جنوبی برطانیہ میں ڈائناسور کے 110 ملین سال ( 11 کروڑ سال ) قدیم قدموں کے نشان دریافت ہو گئے، ماہر حجریات کا کہنا ہے کہ یہ نشان ڈائناسور کے زمین پر چلنے سے بنے تھے، یہ نشان ہیسٹنگز میوزیم اینڈ آرٹ گیلری کے کیوریٹر اور یونیورسٹی آف پورٹس ماؤتھ کے ایک سائنس دان نے دریافت کیے۔

    اس حوالے سے کہا گیا کہ قدموں کے نشانات 3 قسم کے ڈائناسورز کے ہیں، جن میں تھیروپوڈ، آرنیتھوپوڈ، اور اَنکلوسور شامل ہیں۔

    زمین سے ختم ہونے والے عظیم الجثہ جان دار ڈائناسور کے قدموں کے یہ نشان کینٹ میں واقع فوکس اسٹون کے ساحل کے قریب واقع علاقے اور چٹانوں میں دریافت ہوئے ہیں، جہاں طوفانی صورت حال اور ساحل کے قریب پانی نے چٹان کو متاثر کیا، جس کی وجہ سے اس پر مسلسل نئے فوسلز سامنے آ رہے ہیں۔

    پورٹس ماؤتھ کے پروفیسر ڈیوڈ مارٹل کا کہنا ہے کہ فوکس اسٹون میں ڈائناسورز کے قدموں کے نشان ملنے کا یہ پہلا موقع ہے اور یہ نہایت غیر معمولی دریافت ہے، کیوں کہ یہ ڈائناسورز زمین سے معدوم سے ہونے سے قبل آخری تھے جو اس علاقے میں پائے جاتے تھے۔

    ماہر حجریات کا خیال ہے کہ قدموں کے نقوش انکلوسورز (دکھنے میں ناہموار بکتربند جیسا ڈائناسور، جو زندہ ٹینکوں کی طرح تھے)، تھیروپوڈز (تین انگلیوں والے گوشت خور ڈائناسور)، اور آرنیتھوپوڈز (پودے کھانے والے ڈائناسورز جن کی پشت پرندوں جیسی تھی) کے ہیں۔

    زیادہ تر نشانات الگ الگ پائے گئے ہیں تاہم ان میں سے 6 قدموں کے نشان ایک جگہ ہیں۔ سب سے بڑے قدم کا نشان 80 سینٹی میٹر (31.5 انچ) چوڑا، اور 65 سینٹی میٹر (25.6 انچ) لمبا ہے۔

  • کیا آپ بتا سکتے ہیں ؟ ویڈیو میں نظر آنے والا یہ کون سا پراسرار جانور ہے؟

    کیا آپ بتا سکتے ہیں ؟ ویڈیو میں نظر آنے والا یہ کون سا پراسرار جانور ہے؟

    فلوریڈا : گھر کے صحن میں عجیب الخلقت جانور کو دیکھ کر خاتون خوفزدہ ہوگئی، خاتون کا کہنا ہے کہ مجھے ایسا لگا کہ یہ ڈائنا سار کا بچہ ہے۔

    فلوریڈا : امریکا کی ریاست فلوریڈا میں گھر کے پچھلے صحن میں ایک عجیب الخلقت جانور پایا گیا جس کو دیکھ کر گھر کے مکینوں میں خوف و ہراس پھیل گیا۔

    فلوریڈا کی رہائشی خاتون نے سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیج میں اپنے گھر کے پچھلے صحن میں دیکھا تو انہیں محسوس ہوا کہ یہ کوئی عجیب سی چیز ہے تاہم تھوڑا غور سے دیکھا تو ان کی آنکھیں حیرت اور خوف سے سرخ ہوگئیں کہ وہ دیکھنے میں ڈائناسار کا بچہ لگ رہا تھا۔

    کرسٹینا ریان نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو شیئر کی جس میں بتایا کہ ان کے گھر کے سیکیورٹی کیمرے سے صبح سویرے ایک عجیب و غریب فوٹیج دیکھنے کو ملی جس میں ایک چھوٹی سی مخلوق دکھائی دیتی ہے جو گھر کے پچھلے حصے کے باغ سے گزر رہی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ویڈیو دیکھنے کے بعد سوشل میڈیا صارفین بھی حیرت زدہ رہ گئے کیوں کہ یہ مخلوق کسی جانور کی طرح نہیں دکھائی دیتی بلکہ اس کے چلنے کا الگ ہی انداز تھا۔

    ویڈیو کلپ وائرل ہونے کے بعد سوشل میڈیا صارفین نے اس پر اسرار مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی، بہت سے لوگوں نے کہا کہ یہ مور کی طرح لگتا ہے۔ ایک صارف کا کہنا تھا کہ یہ کسی جانور کی طرح دکھائی دیتا ہے جس کے سر پر بالٹی لگی ہوئی ہے۔

    خود کرسٹینا ریان نے کہا کہ اسے یقین ہے کہ یہ جانور بے بی ڈائناسور کی طرح دکھائی دیتا ہے کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ یہ دو پچھلی ٹانگوں پر دوڑ رہا ہے اور اس کی دم بھی لمبی ہے۔

    دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ صرف ریان ہی نہیں بلکہ بہت سے صارفین بھی اس مخلوق کو ایک چھوٹا ڈائناسور کہہ رہے ہیں تو کوئی اسے مور سے تشبیہ دے رہا ہے۔ اب اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ اپنی  رائے سے ضرور آگاہ کریں ۔

  • کیا 6 کروڑ سال قبل ڈائنو سار چاند تک پہنچ گئے تھے؟

    کیا 6 کروڑ سال قبل ڈائنو سار چاند تک پہنچ گئے تھے؟

    سنہ 1967 میں نیل آرم اسٹرونگ چاند پر قدم رکھنے والا پہلا شخص تھا لیکن حال ہی میں پیش کیے گئے ایک مفروضے کے مطابق آج سے 6 کروڑ سال قبل ڈائنو سار بھی چاند تک پہنچ چکے تھے۔

    ایک ایوارڈ یافتہ امریکی سائنس جرنلسٹ پیٹر برینن کی سنہ 2017 میں شائع شدہ کتاب دی اینڈز آف دا ورلڈ کا ایک اقتباس، سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر بے حد وائرل ہورہا ہے۔

    اس اقتباس میں کہا گیا ہے کہ اب سے 6 کروڑ 60 لاکھ سال قبل جب ایک شہاب ثاقب زمین سے پوری قوت سے ٹکرایا (جس نے ڈائنو سارز کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا)، تو زمین میں ایک گہرا گڑھا پڑا اور یہاں سے اٹھنے والا ملبہ پوری قوت سے فضا میں اتنی دور تک گیا، کہ چاند تک پہنچ گیا۔

    کتاب میں شامل ایک جغرافیائی سائنسدان کی رائے کے مطابق اس ملبے میں ممکنہ طور پر ڈائنو سارز کے جسم کی باقیات یا ہڈیاں بھی شامل تھیں جو شہاب ثاقب کے ٹکراتے ہی جل کر بھسم ہوگئے تھے۔

    پیٹر نے لکھا ہے کہ زمین سے ٹکرانے والا یہ شہاب ثاقب زمین پر موجود بلند ترین برفانی چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کے برابر تھا، اور یہ گولی کی رفتار سے 20 گنا زیادہ تیزی سے زمین سے ٹکرایا۔

    ماہرین کے مطابق اس شہاب ثاقب کے ٹکراؤ کے بعد زمین پر 120 میل طویل گڑھا پڑ گیا جبکہ کئی سو میل تک موجود جاندار لمحوں میں جل کر خاک ہوگئے۔

    اس تصادم سے گرد و غبار کا جو طوفان اٹھا اس نے زمین کو ڈھانپ لیا اور سورج کی روشنی کو زمین تک پہنچنے سے روک دیا، جس کے نتیجے میں زمین پر طویل اور شدید موسم سرما شروع ہوگیا۔

    یہ وہی موسم سرما ہے جو زمین پر کسی بھی ممکنہ ایٹمی / جوہری جنگ کے بعد رونما ہوسکتا ہے لہٰذا اسے جوہری سرما کا نام دیا جاتا ہے۔

    اس دوران زمین پر تیزابی بارشیں بھی ہوتی رہیں اور ان تمام عوامل کے نتیجے میں زمین پر موجود 75 فیصد زندگی یا جاندار ختم ہوگئے۔

    ڈائنو سارز کی ہڈیوں کے چاند تک پہنچ جانے کے مفروضے کے کوئی سائنسی ثبوت تو نہیں تاہم اسے نہایت دلچسپی سے پڑھا جارہا ہے۔

  • بھارت: "ڈائنو سار کے انڈوں” کی وائرل تصاویر، حقیقت کیا ہے؟

    بھارت: "ڈائنو سار کے انڈوں” کی وائرل تصاویر، حقیقت کیا ہے؟

    نئی دہلی: بھارت میں سوشل میڈیا پر وائرل "ڈائنو سار کے انڈوں "کی تصاویر اور کہانیوں کی حقیقت سامنے آگئی، ماہرین نے مذکورہ شے کو ایک قدیم آبی جاندار کی رکازیات قرار دے دیا۔

    بھارتی ریاست تامل ناڈو میں دریافت ہونے والی مذکورہ شے کو ڈائنو سار کے انڈے کہا جارہا تھا اور اس کی تصاویر اور اس سے جڑی مختلف کہانیاں سوشل میڈیا پر وائرل تھیں۔

    بیضوی شکل کی یہ شے تامل ناڈو کے ایک قصبے میں زیر زمین ٹینک سے برآمد ہوئی تھی۔ بعد ازاں چند مقامی ماہرین ارضیات اور آثار قدیمہ نے مذکورہ جگہ کا دورہ کیا۔

    ماہرین نے اس بیضوی شے کو ایک قدیم آبی جاندار امونائٹ کی باقیات قرار دے دیا۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ امونائٹ کی باقیات اکثر جگہوں پر جمع ہوجاتی ہے اور اس کے بننے کی وجہ کسی مقام پر اس کا لاکھوں سال تک موجود رہنا ہے۔

    اسے اکثر ڈائنو سار کے انڈے سمجھا جاتا ہے۔ مذکورہ آبی جانور امونائٹ 41 کروڑ سال قبل ہماری زمین پر موجود ہوا کرتا تھا۔

    اسی مقام سے ماہرین نے ایک قدیم درخت کی رکازیات بھی دریافت کیں، ان رکازیات کی لمبائی 7 فٹ تھی اور ماہرین کے مطابق درخت اپنی اصل حالت میں 20 فٹ تک اونچا رہا ہوگا۔

    اس سے قبل بھی ریاست اتر کھنڈ میں ایک بندر نما جاندار کی 1 کروڑ 30 لاکھ سال قدیم رکازیات دریافت ہوئی تھیں۔