Tag: disaster

  • لاس اینجلس آگ: ٹرمپ کا کیلی فورنیا کے گورنر سے مستعفی ہونے کا مطالبہ

    لاس اینجلس آگ: ٹرمپ کا کیلی فورنیا کے گورنر سے مستعفی ہونے کا مطالبہ

    نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیلی فورنیا کے گورنر سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کے خوبصورت ترین علاقوں میں سے ایک جل کر راکھ ہوگیا۔

    ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ لاس اینجلس آگ کے زمے دار ڈیموکریٹ گورنر ہیں، لاس اینجلس راکھ بن گیا، تین دن میں آگ پر زرا برابر بھی قابو نہیں پایا جا سکا، گورنر اور میئر دونوں نا اہل ہیں۔

    دوسری جانب مریکی صدر جو بائیڈن نے لاس اینجلس میں آگ لگنے سے ہونے والی تباہی پر اگلے چھ ماہ تک 100 فیصد اخراجات اٹھانے کا اعلان کردیا۔

    آتش زدگی پر بریفینگ کے دوران امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ فنڈنگ کی رقم سے متاثرہ علاقے سے ملبہ ہٹایا جائے گا، عارضی پناہ گاہیں قائم کی جائیں گیا اور ریسکیو ورکرز کو تنخواہوں کی ادائیگی کریں گے۔

    انہوں نے کہا کہ تعمیراتی کام کے لیے اضافی فنڈز کی ضرورت پڑ سکتی ہے جس کے لیے کانگریس سے اپیل کریں گے۔

    لاس اینجلس: خوفناک آگ نے 29 ہزار سے زائد ایکڑ رقبہ لپیٹ میں لے لیا

    واضح رہے کہ امریکا کے تاریخی شہر میں منگل سے لگی آگ پر اب تک نہ قابو پایا جا سکا، تاریخ کی بدترین آگ سے 6 ہزار گھر اور عمارتیں جل کر راکھ ہو گئیں جبکہ 32 ہزار سے زائد ایکڑ رقبے پر وادیاں اجڑ گئیں۔

    آگ کی وجہ سے ڈیڑھ لاکھ افراد نقل مکانی پر مجبور ہوگئے، مقامی حکام کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ خشک اور تیز ہوا سے آگ میں خطرناک اضافے کا خدشہ برقرار ہے۔

    امریکی حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ آگ پر قابو نہ پایا گیا تویہ قدرتی سانحات میں امریکی تاریخ کا بدترین واقعہ بن جائےگا۔

  • موٹرسائیکل سوار کو ’ون ویلنگ‘ کرنا مہنگا پڑگیا، خوفناک حادثے کی ویڈیو وائرل

    منچلے نوجوان نے موٹر سائیکل کو ایک پہیے پر چلانے کی کوشش کی تو بائیک بے قابو ہوکر کھڑی کار سے جا ٹکرائی جس کے نتیجے میں بائیک اور کار دونوں کو شدید نقصان پہنچا۔

    موٹر سائیکل دیگر سواریوں کی نسبت خطرناک سواری ہے، موٹرسائیکل سوار کو دوسروں کے مقابلے میں ٹریفک قوانین پر عمل درآمد اور زیادہ احتیاط کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے تاکہ وہ حادثات سے محفوظ رہ سکے۔

    موجودہ دور میں نوجوان نسل ون ویلنگ جیسے خوفناک مرض میں بھی مبتلا ہے۔ جس کی وجہ سے کئی نوجوان یا تو معذور ہو جاتے ہیں یا اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

    اسی طرح کا ایک واقعہ بھارت میں بھی پیش آیا ہے، حادثے کے مناظر کیمرے کی آنکھ میں قید ہوگئے اور ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ واقعے کے دوران خوش قسمتی سے موٹرسائیکل سوار محفوظ رہا۔

    ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک عام سڑک پر دو خواتین دائیں طرف چل رہی ہیں کہ اچانک پیچھے سے ایک موٹر سائیکل سوار تیز رفتاری سے ون ویلنگ کرتا ہوا نمودار ہوتا ہے لیکن وہ موٹر سائیکل پر قابو نہیں پاسکا۔

    اسی دوران وہ خواتین کے آگے تھوڑا فاصلے پر کھڑی ایک کار سے ٹکرا جاتا ہے جس کے نتیجے میں موٹر سائیکل ٹکرا کر گر جاتی ہے جبکہ سوار نوجوان قلابازی کھاتا ہوا دور جاگرتا ہے۔

    حادثے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے، جس کے کیپشن میں لکھا ہے کہ جب آپ کسی کو متاثر کرنا چاہتے ہیں، نوجوان گرنے کے بعد اٹھ جاتا ہے جس سے ظاہر ہورہا ہے کہ سوار کو کوئی بڑی چوٹ نہیں آئی۔

  • شمسی پینلز والی سڑک سے بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ ناکام کیوں ہوا؟

    شمسی پینلز والی سڑک سے بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ ناکام کیوں ہوا؟

    پیرس: فرانس میں 2 سال قبل دنیا کی پہلی سولر ہائی وے کا افتتاح کیا گیا تھا اور ماہرین کو امید تھی کہ یہ سڑک توانائی کے ذرائع میں اہم اضافہ ثابت ہوگی، تاہم اب اسے ایک ناکام ترین منصوبہ قرار دیا جارہا ہے۔

    2 ہزار 800 اسکوائر میٹر پر محیط یہ سڑک دسمبر 2016 میں تیار کی گئی تھی۔ اس منصوبے کو ایک ٹرائل کہا جارہا تھا اور ماہرین کا خیال تھا کہ اگر یہ منصوبہ کامیاب ہوجاتا ہے تو سڑکوں سے بجلی بنانے کا کام بڑے پیمانے پر شروع کردیا جائے گا۔

    تاہم اب 2 سال بعد سامنے آنے والی رپورٹ کے مطابق توقع کے برعکس نہ تو یہ سڑک منافع بخش ثابت ہوئی اور نہ ہی مؤثر، اور 2 سال بعد مکمل طور پر ناکام قرار دی جارہی ہے۔

    سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ اب یہ سڑک ٹوٹ پھوٹ چکی ہے اور اس کی مرمت بھی نہیں کی جاسکتی۔

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ سڑک پر نصب کئی شمسی پینلز اپنی جگہ سے ڈھیلے ہوگئے اور اسی وجہ سے ٹوٹ بھی گئے۔ اس سڑک سے یومیہ بنیادوں پر 790 کلو واٹ بجلی پیدا ہونے کا اندازہ لگایا گیا تھا، تاہم یہ صرف اس کے نصف ہی بجلی پیدا کرسکی۔

    بجلی پیدا کرنے کا یہ اندازہ اس بنیاد پر لگایا گیا تھا کہ اگر یہ منصوبہ کامیاب ہو تو مستقبل میں اس سڑک کے آس پاس بسنے والے افراد کی بجلی کی ضروریات یہیں سے پوری کی جاسکیں۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ سڑک بہت پر شور بھی ثابت ہوئی جس کی وجہ سے یہاں پابندی عائد کرنی پڑی کہ اس سڑک پر صرف 70 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گاڑی چلائی جائے۔

    رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ امریکا میں بنائی جانے والی اسی طرز کی سڑک کا بھی یہی حال ہوا، البتہ نیدر لینڈز میں بنائی گئی ایسی سڑک کامیاب منصوبہ قرار دی گئی۔ نیدر لینڈز میں یہ سڑک سائیکلوں کے لیے بنائی گئی تھی اور اس سڑک سے توقعات سے زیادہ بجلی حاصل کی گئی۔

    اس منصوبے کی ناکامی کی وجوہات اور عوامل کے بارے میں تفصیلی غور کیا جارہا ہے، تاہم ابتدائی طور پر ماہرین کا اندازہ ہے کہ شمسی پینلز کو سورج سے توانائی حاصل کرنی ضروری ہے لیکن ایسے وقت میں یہ سڑک ٹریفک سے بھری ہوتی ہے، ممکن ہے کہ یہی وجہ اس سڑک کی ناکامی کا سبب بنی ہو۔

  • ایران کے جنوب مشرقی علاقوں سے ہزاروں افراد کے انخلاءکا حکم

    ایران کے جنوب مشرقی علاقوں سے ہزاروں افراد کے انخلاءکا حکم

    تہران : ایران نے سیلاب سے متاثرہ شہر اہواز سے ہزاروں افراد کے انخلاء کا حکم دیا ہے, اب تک سیلاب کے باعث 70 سے زائد افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق صوبہ خوزستان کے گورنر غلام رضا شریعتی نے شہر میں پانی کے داخل ہونے کے بعد پانچ اضلاع کے شہریوں سے محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کا کہا گیا ہے۔

    ان اضلاع کی آبادی ساٹھ سے ستر ہزار کے لگ بھگ ہے، شریعتی نے نوجوانوں سے بند بنانے اور عمر رسیدہ افراد، خواتین اور بچوں کی مدد کرنے کا کہا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ ایران کے مختلف علاقوں میں سیلاب کی زد میں آکر کم از کم ستر لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔

    واضح رہے کہ ایران میں حال ہی میں سیلاب نے بدترین تباہی پھیلائی – جس سے شدید مالی اور جانی نقصان ہوا، سیلاب سے جاں بحق افراد کی تعداد 70 ہوگئی، 791 افراد زخمی، 4 لاکھ افراد بے گھر اور سیلاب نے 13 صوبوں کو متاثر کیا۔

    محکمہ موسمیات نے صوبہ خوزستان میں مزید تیز بارشوں کی پیش گوئی کی ہے، جس سے مزید طغیانی کا خدشہ ہے جبکہ ڈیمز، دریاؤں کے نزدیک واقع بستیوں کو خالی کرالیا گیا ہے۔

    سیلاب سے سب سے زیادہ نقصان صوبہ لرستان کو پہنچا ہے جہاں اکثر دیہاتوں سے رابطہ منقطع ہوگیا اور 14 افراد جاں بحق ہوئے۔

  • تنزانیہ: مسافر کشتی ڈوب گئ، 87 افراد ہلاک، متعدد لاپتہ

    تنزانیہ: مسافر کشتی ڈوب گئ، 87 افراد ہلاک، متعدد لاپتہ

    ڈوڈوما: افریقی ملک تنزانیہ میں ایک مسافر کشتی ڈوبنے کے نتیجے میں 87 افراد ہلاک ہوگئے جبکہ کئی کی تلاش اب بھی جاری ہے۔

    تفصیلات کے مطابق گنجائش سے زیادہ افراد کو کشتی میں سوار کرنے کے باعث کشتی ڈوب گئی جس کے نتیجے میں 87 افراد زندگی کی بازی ہار گئے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق کشتی میں تقریباً 300 افراد سوار تھے، جبکہ لاپتہ ہونے والے متعدد افراد کی تلاش اب بھی جاری ہے۔

    کشتی کی غرقابی کا واقعہ تنزانیہ کے جھیل وکٹوریہ میں پیش آیا، تین سو سے زائد مسافروں کو لے کر مذکورہ کشتی موانزا کے مقام سے اوکیریوے جارہی تھی۔

    بحیرہ روم میں مہاجرین کی کشتی ڈوب گئی، 16 افراد ہلاک، متعدد لاپتہ

    خبر رساں ایجنسی کا کہنا ہے کہ اب تک صرف 37 افراد کو زندہ بچایا جاسکا ہے، جبکہ لاپتہ ہونے والوں میں کشتی کا عملہ بھی شامل ہے، حکام نے واضح کیا ہے کہ ریسکیو عملہ بھرپوری کارروائی کررہا ہے۔

    یاد رہے کہ 2012 میں تنزانیہ کے بندرگاہی شہر زنجیبار کے قریب بحرہند میں کشتی ڈوبنے کے نتیجے میں 145 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

    خیال رہے کہ گذشتہ سال بحیرہ روم میں یورپ جانے کی کوشش میں مہاجرین کی 3 کشتیاں ڈوب جانے کے باعث 250 پناہ گزین ہلاک ہو گئے تھے، ہلاک ہونے والوں میں بچے اور خواتین بھی شامل تھیں، تمام افراد تین الگ الگ کشتیوں میں سوار تھے۔

    قبل ازیں 2015 میں غیر قانونی طور پر یورپ میں داخل ہونے کی کوشش میں سترہ سو سے زائد تارکین وطن بحیرہ روم میں ڈوب کر ہلاک ہوگئے تھے جبکہ اسی سال ہی اٹلی کے کوسٹ گارڈز نے ایک بڑا ریسکیو آپریشن کر کے ہزاروں مہاجرین کو ڈوبنے سے بچایا تھا۔

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    لوگوں کو محفوظ مقامات پر پہنچانے کے لیے پاک آرمی کے ہیلی کاپٹرز استعمال کیے جارہے تھے۔ اگرچہ ایس ٹی ای کے پاس اب تک ایسی کوئی سہولت موجود نہیں تھی مگر پھر بھی پچھلے تباہ کن سیلاب کی نسبت اب ان کے پاس کارکنان کی ایک بڑی تعداد اور ایک مکمل میڈیکل ونگ بھی موجود تھا‘جس میں پنجاب بھر کے میڈیکل کالجز کے طلبا و طالبات شامل تھے۔
    ’’ کیا ہر دفعہ ڈیزاسٹر ایک نئے طریقے سے ہماری سال بھر کی کوششوں پر پانی پھیرتا رہے گا ۔؟؟‘‘
    سیلاب کی تباہ کاریوں کے چند دن بعد ہنگامی میٹنگ میں غازی ونگ کی موجودہ وائس کمانڈر امینہ علیم یہ سوال پوچھے بغیر نہیں رہ سکی۔
    اس کی طرح کئی اور ونگ کمانڈرز اور متحرک کارکنان شدید مایوسی کا شکار تھے۔
    ڈاکٹر عبدالحق اور ارمان کی بے ساختہ نگاہیں منتہیٰ کی جانب اٹھیں ۔اتنی جلدی ناامیدی اور ایسے مایوسانہ کمنٹس پر وہ سب سے پہلے آڑے ہاتھوں لیتی تھی مگر ابھی وہ لاتعلق سی اپنے آئی پیڈ پر مصروف رہی۔۔شاید اس لیے کہ وہ گذشتہ دو ماہ سے میٹنگز سے غائب تھی۔
    "مس امینہ! قدرتی آفات صرف پاکستان ہی نہیں پوری دنیا کا مجموعی المیہ ہیں اور المیے رونما ہوتے رہتے ہیں ، ان پر نا امید ہوکر دل چھوڑ بیٹھنا بذد ل لوگوں کا کام ہے، اگر آپ ایک ونگ کمانڈر ہوکر اس طرح کی باتیں کریں گی تو کارکنان پر اس کے بہت برےاثرات مرتب ہوں گے۔اس وقت ہم سب کو ہمت اور حوصلے کے ساتھ اپنی عوام کا سہارا بننا ہے”۔۔ ڈاکٹر عبدالحق نے اسےرسان سے سمجھایا ۔
    "مجھے معلوم ہے سر۔ مگر اس سب کے باوجود مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ قدرتی آفات انسان کے کنٹرول سے باہر ہوتے جارہے ہیں، چاہے امریکی ریاستوں میں تباہی و بربادی کی داستانیں رقم کرتے ٹورناڈو ہوں ۔ چین‘ بنگلا دیش ‘ پاکستان اور بھارت میں کثرت سے آنے والے سیلاب یا انڈونیشیا ، نیپال اور جاپان میں وسیع انفرا سٹرکچر کی تباہی کا باعث بننے والے زلزلے۔۔ترقی یافتہ ممالک بھی اپنے تمام تر وسائل کے باوجود ان کے سامنے بے بس ہیں


    اسی ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں


    "مس امینہ۔ ہم ہاتھ پر ہاتھ دھر کر نہیں بیٹھ سکتے ۔۔ اپنے محدود وسائل کے ساتھ جو کچھ بھی ممکن تھا ہم نے اپنی عوام کے لیے کیا ہے اور ہم کرتے رہیں گے”۔۔پہلے ڈاکٹر عبدالحق اور اب ارمان کی سرزنش پر امینہ کچھ جز بز ہوئی۔یہ ارمان ہی تو تھا جس کےہمہ وقت ساتھ پر امینہ آج کل ہواؤں میں تھی ۔
    "سر! ہمارے اعداد و شمار کے مطابق صرف اٹھارہ گھنٹوں میں سینکڑوں کیوسک پانی کا ریلا گذرا جو گذشتہ پچیس برس کے دوران کسی بھی سیلابی ریلے کی ریکارڈ تعداد ہے۔اندازاََ پچاس دیہات اور وسیع رقبے پر کھڑی فصلیں تباہ ہوئی ہیں جن سے ملکی جی ڈی پی پر گہرے منفی اثرات مرتب ہونے کا امکان ہے”۔ شہریار نے اپنی رپورٹ ڈاکٹر عبدالحق کو پیش کی ۔
    "منتہی ٰ یہ رپورٹ آگے کی پلاننگ میں آپکے بہت کام آئے گی” ۔۔ انہوں نے ایک سرسری نظر ڈال کر وہ منتہیٰ کی جانب بڑھائی۔
    "سر! میرا خیال ہے کہ برین ونگ کو کمان کی تبدیلی کی اشد ضرورت ہے ۔ موجودہ سنگین صورتحال کی ایک بڑی وجہ برین ونگ کی غفلت ہے ۔۔ میں آج کوئی دو ماہ بعد ونگ کمانڈر کو میٹنگ میں دیکھ رہی ہوں "۔۔ امینہ کی توپوں کا رخ تبدیل ہوا۔
    مس امینہ! میں آپ کی بات سے سو فیصد متفق ہوں اور یقیناََ یہ جان کر آپ کو خوشگوار حیرت ہوگی کہ کمان کی تبدیلی کا مشورہ میں بہت دن پہلے دے چکی ہوں۔ آپ لوگ کسی بھی ذہین اور فعال کارکن کو ہیڈ نامزد کر سکتے ہیں۔ جہاں تک موجودہ صورتحال کا تعلق ہے تو میں اپنی مکمل رپورٹ بمع تفصیلی کمنٹس سیلاب سے دو روز قبل ارمان یوسف کو دے چکی تھی ۔”
    "اس کے علاوہ میں یہ بتانا ضروری سمجھتی ہوں کہ ہم میں سے اکثریت اس غلط سوچ کی حامل ہے کہ قدرتی آفات سے لڑنے کےلیئے وسیع ذرائع اور وسائل کی ضرورت ہے۔۔ اگر آپ طاقتور دشمن کے سامنے نہتے ہوں تو یقیناًمدد کے لیے اپنے دوستوں کو پکارتے ہیں اور پتا ہے کیا کہ ہمارا دوست کوئی اور نہیں اسی کرۂ ارض کا قدرتی سسٹم اور ماحول ہے۔ ہمارے سامنے اپنےدوست ملک چین کی مثال ہے کہ کس طرح انہوں نے ماحول دوست پالیسیز اور پلاننگ کے ذریعے بہت تھوڑے عرصے میں سیلاب سے نمٹنے کی سٹرٹیجی بنائی ۔”
    "سر میں اس حوالے سے ایک پریذینٹیشن بنائی ہے جو میں دکھانا چاہوں گی "۔۔ منتہیٰ نے ڈاکٹر عبدالحق سے اجازت چاہی۔
    چند لمحوں بعد کانفرنس ہال کے بڑے سے پراجیکٹر پر منتہی ٰ کی پریزینٹیشن پلے ہو چکی تھی۔
    "ماحول دوست سسٹم، جنگلات کے کٹاؤ کی روک تھام اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں درخت لگاؤ مہم کا آغاز ۔۔جو چند سال بعد سیلاب کے لیے قدرتی ڈھال ثابت ہونگے۔۔ایک مکمل فلڈ ایکشن پروگرام۔۔اور دستیاب وسائل کی تمام علاقوں میں مساوی تقسیم۔۔ شمالی علاقہ جات کی طرح پنجا ب اور سندھ کے دور دراز مقامات میں وارننگ سسٹم اور ڈیزاسٹر سینٹرز کا قیام ۔۔ غرض یہ کہ کوئی ایسا نکتہ نہ تھا جو بیان نہ کیا گیا ہو۔”
    پریزینٹیشن ختم ہوتے ہی فاریہ نے معنی خیز نگاہوں سے امینہ کی جانب دیکھا ۔۔ مگر یہ کیا اس کی سیٹ خالی تھی۔۔”وہ جاچکی تھی”۔
    اس نے سامنے بیٹھے ارحم کو اشارہ کیا تو اس نے پوری بتیسی دکھائی ۔۔
    ’’ بچی بھول گئی تھی کی پنگا کس سے لے رہی ہے ۔ہماری آئرن لیڈی سے ۔‘‘۔ ارحم نے شہریار کی جانب جھک کر سرگوشی تو اس نےبمشکل اپنا قہقہہ ضبط کیا ۔۔
    اور اس وقت ارحم ‘ فاریہ‘ شہریار اورارمان ہی نہیں ڈاکٹر عبدالحق کے چہرے پر بھی بہت دلکش مسکراہٹ تھی۔
    ’’ منتہیٰ دستگیر سے جیتنا کسی صورت ممکن نہ تھا ۔‘‘
    **************
    سیلاب کی ہنگامی صورتحال سے کسی حد تک نکلتے ہی ارمان نے پی ٹی سی ایل میں ریسیڈنٹ ہیڈکے طور پر ذمہ داریاں سنبھال لیں۔
    ڈاکٹر یوسف مرتضیٰ کسی گہری سوچ میں غرق تھے جب اجازت لےکر منتہیٰ اندر داخل ہوئی ۔ ۔
    "سر میں نے آپ کو ڈسٹرب تو نہیں کیا "۔۔؟؟؟
    "باپ بیٹیوں سے کبھی ڈسٹرب نہیں ہوتے "۔۔ "یو آر اَیور ویلکم "۔ ۔۔۔
    "سر مجھے ایم آئی ٹی کے سکالرشپ پر آپ کی تھوڑی سی راہنمائی درکار تھی ۔۔”
    منتہیٰ پچھلے کچھ عرصے سے فارن یونیورسٹیز سے پی ایچ ڈی کے سکالر شپ کی کوششوں میں لگی ہوئی تھی۔ہارورڈ ، ایم آئی ٹی اور ییل دنیا کی قدیم ترین اور بہترین یونیورسٹیز میں شمار کی جاتیں ہیں جن میں تعلیم حاصل کرنا پاکستان کے ہرقابل
    سٹوڈنٹ کا خواب ہے ۔۔ جتنی اعلیٰ یہ یونیورسٹیز ہیں اِنکا انتظام بھی اتنا ہی شاندار ہے ۔۔سٹوڈنٹس اگر باصلاحیت ہو تو یہ سکالر شپ اور امدادکے ذ ریعے اِس طرح تعاون کرتے ہیں کہ وہ ہر حال میں اپنی ڈگری لے کر نکلتا ہے ۔
    منتہیٰ بھی ایم آئی ٹی کے سکالرشپ پر ہارورڈیونیورسٹی کے سکول آف آرٹس اینڈ سائنس میں ایڈمیشن کی تگ و دو میں لگی ہوئی تھی اور اسی سلسلے میں کچھ معلومات لینے آئی تھی ۔
    لیکن ڈاکٹر یوسف کسی اور ہی سوچ میں تھے۔۔ ایک گہری سانس لیتے ہوئے انہوں نے ڈائریکٹ بات کرنا کی صحیح سمجھا ۔
    "منتہیٰ بیٹا "۔۔ "میں اور مریم آپ کے گھر آنا چاہتے ہیں کسی روز” ۔۔؟؟
    "موسٹ ویلکم سر ۔۔ آپ کا گھر ہے ضرور آئیں "۔۔ منتہیٰ کی آواز میں گرم جوشی تھی۔
    "بیٹا ہم چاہتے ہیں کہ آپ کو اپنے گھر لیں جائیں ۔۔ اور یقین جانئے کہ یہ خواہش ارمان سے کہیں زیادہ میری اپنی ہے ۔۔”
    ڈاکٹر یوسف کی جہاندیدہ نظریں اس کے چہرے پر تھیں ۔جو آنکھیں پھاڑے انہیں دیکھ رہی تھی ۔۔
    "مجھے یقین ہے کہ آپ کے والدین کی طرف سے انکار نہیں ہوگا ۔۔ اس لئے میں آپ کی مرضی معلوم کرنا چاہتا ہوں ۔۔ اب آپ جائیں۔۔ مجھے سوچ کر جواب دیجئے گا ۔۔۔”
    منتہیٰ مرے مرے قدموں سے باہر لان تک آئی۔۔ایم آئی ٹی سکالر شپ کا سارا جوش و خروش جھاگ کی طرح بیٹھ چکا تھا ۔۔
    "یہ تیری شکل پر کیوں بارہ بج رہے ہیں” ۔۔”خیریت "۔۔؟۔۔ فاریہ اس کا لٹکا منہ دکھ کر ٹھٹکی ۔۔
    "کیا ہوا سر یوسف نے ڈانٹا ہے کیا "۔۔؟؟
    "نہیں "۔۔منتہیٰ نے گھنٹوں کے گرد ہاتھ لپیٹ کر منہ چھپایا ۔۔ فاریہ ایک دفعہ پھر ٹھٹکی۔۔ "دال میں ضرور کچھ کالا ہے”۔۔
    "دیکھ پیاری "۔۔” میں جلد ہی پیا دیس سدھارنے والی ہوں ۔۔ آخری سمسٹر، نو سال کا ساتھ ہے ۔۔ مجھ سے مت چھپا”۔۔فاریہ کی اپنے کزن کے ساتھ شادی فائنل ایگزیمز کے بعد طے تھی ۔۔۔
    "سر ۔۔ کہہ رہے تھے۔۔ پروپوزل لے کے آنا چاہتے ہیں "۔ منتہیٰ کو آخر کسی سے تو شیئر کرنا ہی تھا ۔
    "پروپوزل "۔۔؟؟؟۔۔ فاریہ نے دیدے پھاڑے۔۔
    "ارمان بھائی کا پروپوزل تمہارے لیے” ۔؟؟۔۔ فاریہ خوشی سے چلائی ۔۔
    منتہیٰ نے اپنا لٹکا ہوا منہ اثبات میں ہلایا ۔۔
    "یہ تو اتنی خوشی کی بات ہے نہ۔۔ پھر منہ کیوں لٹکایا ہے” ۔؟؟
    "سر کی تو تم دیوانی ہو ۔۔ اور ان کا بیٹا تمہارا دیوانہ ہے "۔۔ فاریہ نے اسے شرارت سے چھیڑا ۔۔۔
    اِس سے پہلے کہ منتہیٰ اسے ایک زور دار دھپ لگاتی ۔۔ اُن کے کچھ اور کلاس فیلوز وہاں آ چکے تھے۔۔ سو وہ خون کے گھونٹپی کے رہ گئی۔
    **************
    پھر چند ہی روز میں رشتہ طے کر کے منگنی کی تاریخ رکھ دی گئی ۔۔ اگرچہ سب کی خواہش تھی کہ منگنی سادگی سے چھوٹے فنکشن میں کی جائے ۔ لیکن سیو دی ارتھ کے لئے اس کے دو بانی کمانڈرز کا ملاپ ایک بہت بڑا ایونٹ تھا ۔۔ ڈاکٹر عبدالحق سمیت بہت سی نامور شخصیات نے اس محفل کو رونق بخشی تھی ۔
    "دادی ٹھیک ہی کہتی تھیں۔۔ جو لڑکیاں ہمیشہ سادہ رہتی ہیں اُن پر پھر ٹوٹ کر روپ آتا ہے ۔۔ منتہیٰ کو ہاتھ میں گجرے پہناتے ہوئے رامین نے سوچا ۔
    ’’ میرون گولڈن کام والا فراک اور چوڑی دار پاجامہ ، ہلکی گولڈ جیولری ، ہاتھوں میں ڈھیر ساری چوڑیاں اور گجرے‘‘۔۔ منتہی ٰاپنے منگنی فنکشن پر یقیناٌ قیامتیں ڈھا رہی تھی ۔۔ ارمان نے دیکھا ۔۔ تو بس نظر ہٹانا ہی بھول گیا ۔
    "ابے”۔۔ "نظر لگائے گا کیا "۔۔؟؟ ۔ارحم نے اسے ٹھوکا دیا ۔۔۔ تو جیسے وہ حال میں واپس آیا ۔۔ ممی ، پاپا بغور اس کی کیفیت کو نوٹ کر رہے تھے وہ قدرے جھینپا۔۔
    "ڈارک بلیک سوٹ ‘ میرون لائنر ٹائی ‘ اُس کی گریس فل پرسنالٹی جو ہر جگہ چھا جایا کرتی تھی ‘ آج منتہیٰ کے ساتھ بیٹھ کرمکمل تھی ۔’’بے شک وہ ایک دوسرے کے لیے ہی بنائے گئے تھے۔‘‘
    فنکشن سے گھر لوٹ کر بہت رات کو تھکن سے نڈھال ‘ منتہیٰ نے تکیے پر سر رکھ کر خود کو ٹٹولا ۔” کیا وہ خوش تھی "۔۔۔؟؟
    "ہاں میں بہت خوش ہوں کیونکہ یہ میرے بڑوں کا فیصلہ ہے "۔۔ اُس نے مطمئن ہوکر آنکھیں موندیں۔۔۔
    تب ہی اس کا سیل تھرتھرایا۔۔” ارمان کالنگ” ۔۔
    "یہِ اس نے لیٹ نائٹ کیوں کال کی ہے "۔۔؟؟ منتہیٰ کا پارہ چڑھا ۔۔ حسبِ عادت چالیسویں بیل پر کال ریسیو کی ۔ ارمان اب عادی ہوتا جا رہا تھا ۔۔۔
    "ہیلو "۔۔ "ٹائم دیکھا ہے آپ نے "۔۔ ؟؟ ۔۔انداز پھاڑ کھانے والا تھا۔۔
    "جی ایک بج کر پانچ منٹ اور پندرہ سیکنڈ” ۔۔ ارمان نے انتہائی سکون سے ٹائم بتایا
    "ٹائم مجھے بھی پتا ہے۔۔ یہ وقت ہے کسی کو کال کرنے کا "۔۔؟؟
    "وہ میں آپ کو منگنی کی مبارکباد دینا بھول گیا تھا "۔۔ ارمان نے وضاحت کی
    "بادام کھایا کریں آپ "۔۔ ٹھک سے جواب آیا
    "بادام "۔۔ ارمان نے بمشکل اپنا قہقہہ ضبط کیا ۔
    "اچھا کتنے بادام کھایا کروں روز "۔۔؟؟ ۔۔وہ خاصہ محفوظ ہوا تھا
    "جتنے دل چاہے۔۔ کھا لیں "۔۔ اس نے جل کر جواب دیا
    "ہمم”۔۔ "لیکن یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ۔۔ میں زیادہ بادام کھا جاؤں اور میری میموری کچھ زیادہ ہی بوسٹ کر جائے”۔۔ ارمان نےخدشہ ظاہر کیا ۔
    "تو کیا ہوا ۔۔ آپ آئن سٹا ئن کا آئی کیو ریکارڈ توڑ دیجئے گا "۔۔حسبِ توقع جلا کٹا جواب حاضر تھا
    "ہمم”۔۔ "لیکن یہ بھی تو ممکن ہے کہ آج جن لوگوں کو میں بھول گیا ۔۔ میموری بوسٹ کے بعد وہ لوگ مجھے کچھ زیادہ یاد آنے لگ جائیں "۔۔ ارمان کے لہجے میں بے پناہ شرارت تھی ۔۔
    منتہیٰ نے غصے سے گھور کر سیل کی سکرین دیکھی ۔۔ "پھرِ اس میں بادام کا قصور نہیں ۔۔ آپ کی میموری میں کوئی ٹیکنیکل فالٹ ہے ۔ہونہہ ۔۔”
    "اچھا تو پھر مجھے کیا کرنا چاہئے "۔۔۔؟؟ ۔۔تیزی سے سوال آیا
    "کسی سائیکاٹرسٹ یا نیورولوجسٹ کو دکھائیں آپ ۔۔ ”
    "گڈ”۔۔” تو پھر کب کا اپائنمنٹ دی رہی ہیں آپ "۔۔؟؟
    "ہیں”۔۔؟؟ "کیا مطلب کیسا اپائنمنٹ”۔۔؟؟ منتہیٰ حیران ہوئی
    "مجھے اپنے میموری فالٹ کے لئے آپ سے اچھا سائیکاٹرسٹ اور کون ملے گا ۔۔”
    "مل جائے گا ۔۔ گوگل کر لیں ۔۔ اور پلیز مجھے سونے دیں "۔۔ مینا کی کجراری آنکھیں نیند سے بوجھل تھیں
    "اُوکے ٹھیک ۔۔ آپ سوئیے۔۔ اور وہ جو آئن سٹائن آئی کیو ریکارڈ والا آپشن ہے نہ‘ اُس سے میں دست بردار ہوتا ہوں”۔۔”آپ کے لئے "۔۔۔
    "میرے لئے کیوں "۔۔؟؟۔۔ منتہیٰ کا پارہ پھر چڑھنے کو تھا ۔
    "اِس لئے کہ آپ مجھ سے بہتر ڈیزرو کرتی ہیں ۔ یہ ریکارڈ بھی آپ توڑیں اور مزید نئے بنائیں ۔ میرا بھرپور تعاون تا عمر آپ کے ساتھ رہے گا "۔ مضبوط لہجے میں جواب دے کر ارمان کال کاٹ چکا تھا
    منتہیٰ نے ایک لمحے کو سیل کی سکرین دیکھی ۔۔” وِل سِی ۔۔ارمان یوسف ۔۔ چند ہی منٹوں بعد وہ گھری نیند میں تھی ۔۔
    "لیکن اُس رات ۔۔ ارمان کو بہت مشکل سے نیند آئی تھی ۔۔۔”
    **************
    سیو دی ارتھ کا ریموٹ سینسنگ اور جی آئی ایس ونگ ،این ای ڈی یونیورسٹی کراچی کے جیو انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے تعاون سےایک ایسے پراجیکٹ پر کام کا آغاز کر چکا تھا جس سے زیرِ زمین ہی نہیں ۔ زمین کے انوائرمنٹ اور آئینوسفیئر میں تیزی سے ہونے والی تبدیلیوں پر ریسرچ کر کے ان پر قابو پانے کے لیے کوئی ٹیکنیک ڈیویلپ کی جا سکے ۔
    اس پراجیکٹ کو این ای ڈی یونیورسٹی کے سینئر اساتذہ کے ساتھ ڈاکٹر عبدالحق بذاتِ خود ہیڈ کر رہے تھے اور ہمیشہ کی طرح منتہی ٰانکی معاون تھی ۔
    انجینئرنگ فیلڈ میں نا ہونے کے باوجود۔۔ منتہیٰ جس طرح پھرتی اور کامیابی کے ساتھ کسی بھی ٹیکنالوجی کی گہرائی تک پہنچ کر اس کا بھرپور تجزیہ کر کے نئے پوائنٹس سامنے لاتی تھی اُس سے این ای ڈی یونیورسٹی کے اساتذہ بھی حیران تھے ۔
    ایک سو بیس کا آئی کیورکھنے والی یہ لڑکی گزشتہ چار پانچ سال سے ٹیکنالوجی کےُ ان رازوں کی تلاش میں سرگرداں تھی ۔۔ جو ایک طرف ہارپ کی حیرت انگیز نا قابلِ بیان سرگرمیوں کے پردے فاش کرتے تھے تو دوسری طرف امریکہ ، یورپ ، آسٹریلیا سمیت دنیا بھر میں قدرتی آفات کی تیزی سے بڑھتی ہوئی شرح کی اندرونی خفیہ کہا نیوں کے امین بھی تھے ۔
    ایشیائی باشندوں کی اکثریت تو ابھی تک ’ہری کین کترینہ ‘کی پسِ پردہ کہانیوں سے ہی نا بلد ہے ۔۔ جبکہ چیم ٹرائلز‘ آرٹیفیشل پلازمہ‘ ہارپ رنگز‘دراصل دنیا کی نظر سے پوشیدہ وہ خفیہ حقیقتیں ہیں ۔ جو بڑھتی ہوئی گلوبل وارمنگ کا اصل سبب ہیں۔۔ جن سے ایک طرف انٹارکٹیکا کے گلیشیئرز تیزی کے ساتھ پگھل
    کر پورے براعظموں کو غرقِ آب کرنے کے در پر ہیں ، تو کہیں سورج سوا نیزے پر آکر دماغوں کے اندر خون کو بھی کھولائےدے رہا ہے ۔۔، کہیں شدید گرمی نظامِ زندگی مفلوج کر دینے کے در پر ہے ۔۔، تو کہیں طوفان، ٹورناڈوز ، سونامی اورسیلاب بستیوں پر بستیاں اجاڑ رہے ہیں ۔
    ’’یہ پیاری زمین اللہ تعالیٰ کی اپنوں بندوں پر بے پایاں رحمت ہی نہیں ، انمول انعام بھی تھی ۔جو انسانی سرگرمیوں کے سبب بہت تیز ی کے ساتھ ایک ایسے آتشیں گولے میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے ۔۔ اور ناسا شاید اسی صورتحال کو بھانپ کر دوسرے سیاروں ، کہکشاؤں پر کمندیں ڈال کر زمین جیسے کسی سیارے سپر ارتھ کی تلاش میں سرگرداں ہے، سائنس اور ٹیکنالوجی کی یہ ترقی ان جینیئس مائنڈز کو اربوں ، کھربوں نوری سالوں کے فاصلے پر واقع کہکشا ؤں تک لے گئی ہے ۔لیکن اِن کے کند شیطانی ذہنوں میں اتنی سی بات نہیں سماتی کہ زمین جیسا کوئی سیارہ ڈھونڈے کے بجائے اِسے ہی کیوں نہ محفوظ بنا لیا جائے ۔‘‘
    ’’اور منتہیٰ دستگیر کا مشن ابھی ادھورا تھا”۔۔ "اُس نے زمین کو اِن نا خداؤں سے بچانے کا عزم کیا تھا "۔۔ وہ ایک بھرپور پلان تشکیل دے چکی تھی ۔۔وہ دیوانی لڑکی اوکھلی میں سر دینے جا رہی تھی ‘ جہا ں خطرات بے پناہی تھے‘ لیکن اُسے لڑنا تھا ۔‘‘

    جاری ہے
    *************

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    شہریار کے سوا تمام ونگ کمانڈر اور ان کے وائس کمانڈر ز کو میں ابھی اسی وقت ان کے عہدوں سے برطرف کررہی ہوں ۔
    منتہیٰ کی گونجیلی آواز نے کانفرنس روم کے پن ڈراپ سائلنس کو توڑا ۔
    ہنگامی میٹنگ کا آغاز ہو چکا تھا جس میں ڈاکٹر عبدالحق نے منتہیٰ کی درخواست پر خصوصی طور پر شرکت کی تھی جبکہ ارمان یوسف کے لئے سپیشل سکائپ بندوبست ارحم تنویر نے کیا تھا ۔
    "مس منتہیٰ آپ اتنے بڑے فیصلے کی وجہ بتانا پسند کریں گی "۔۔؟؟ ۔۔”اورشہریار کیوں نہیں ۔۔؟”۔۔غازی ونگ کے وائس کمانڈر صہیب میر نے قدرے ناگواری سے پوچھا
    "مسٹر وائس کمانڈر”۔۔”مجھ سےوجہ پ وچھنے سے پہلے کیا آپ یہ بتانا پسند کریں گے کہ جن عہدوں سے برطرفی آپ کو اتنی کِھل رہی ہے۔۔ وہ کس کے دم سے ہیں ؟؟ ۔۔یقیناٌ فاؤنڈیشن کے دم سے نہ”۔
    "تو جب اس پر کڑا وقت آیا ہر طرف فیک نیوز ۔ویڈیوز ۔۔ یہاں تک کے چند گھنٹے میں فاؤنڈیشن کے ختم ہوجانے تک کی نیوزوائرل ہو گئی اُس وقت کہاں تھے آپ لوگ”۔۔؟؟؟۔۔منتہیٰ کی گرج کسی شیرنی سے کم نہیں تھی ۔


    اسی ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں


    "ہمارا ارمان اور اُس کی فیملی کے پاس موجود ہونا ضروری تھا ۔۔ وہ ہمارا جگری یار ہے۔۔اور ۔۔اور ۔۔پھر چند گھنٹوں میں آپ سب صورتحال سنبھال چکی تھیں ” صہیب میر کے آخری الفاظ خود اس کی زبان کا ساتھ نہیں دے پائے تھے
    منتہیٰ نے ایک غضب ناک نظر صہیب پر ڈالی ۔۔ پھر ڈاکٹر عبدالحق کی طرف مڑی
    Sir, would you please settle this issue ??
    Yeah, you are doing that right .. go ahead …
    ڈاکٹر عبدالحق کے فیصلے کے بعد سب کو سانپ سونگھ چکا تھا ۔
    منتہیٰ نے تیزی کے ساتھ نئے ونگ کمانڈرز کے نام اناؤنس کیے۔ارمان کے صحت یاب ہونے تک آپریشن کمانڈ اُس نے اپنے پاس رکھی تھی جبکہ باقی تمام ونگز میں وہ نچلے درجے کے کارکنان کو کمانڈ ہیڈ تک لائی تھی ۔
    ارمان نے گہرا سانس لے کر سر تکیے پر ٹکایا ۔ اس کا فیصلہ سو فیصد درست تھا ۔ اِس سے موجودہ صورتحال میں مایوس کارکنان ایک دفعہ پھر پرجوش ہوکر سر گرم ہو جاتے ۔
    "منتہیٰ کیا میں پوچھ سکتی ہوں کہ تم نے شہریار جہانگیر کو کیوں فارغ نہیں کیا "۔۔؟؟
    میٹنگ کے اختتام پر فاریہ نے ڈرتے ڈرتے وہ سوال داغ ہی دیا جو اُن سب کے دماغوں میں بہت دیر سے کلبلا رہا تھا ۔۔
    منتہیٰ نے کھا جانے والی نظروں سے فاریہ کو دیکھا ۔۔پھر نظریں جھکائے بیٹھے شہریار کو ۔۔
    "کیونکہ اِن کے ونگ کی باری کچھ دن بعد آئے گی ‘‘۔۔دُرشتی سے جواب دیتی وہ کانفرنس روم سے جا چکی تھی۔
    ارمان سمیت اُن سب نے بھر پور قہقہہ لگایا ۔

    ۔۔””منتہیٰ دستگیر اور کسی کو بخش دے ۔۔۔ نا ممکن

    *************

    حالات معمول پر آتے ہی ارسہ کی شادی کا معاملہ دوبارہ زیرِغور تھا ۔ چند دن بعد گھر کی چھوٹی سی تقریب میں فواد نے اِرسہ کونازک سی ڈائمنڈ رِنگ پہنا ئی ۔
    فواد خاصہ گڈ لوکنگ اور ہنس مکھ تھا ۔دو بہن بھائی اور والدین پر مشتمل چھوٹی سی فیملی تھی ۔ اِرسہ آج کل ہواؤں میں تھی۔
    شادی کی تاریخ پہلے رامین اور پھر منتہیٰ کے سمسٹر امتحانات کے باعث تین مہینے بعد کی رکھی گئی تھی اور دادی کو ہول اٹھ رہےتھے کہ بڑی بیٹی کی موجودگی میں چھوٹی کی شادی ہونے جا رہی تھی ۔
    جبکہ منتہیٰ اِن سب چکروں سے بے نیاز سٹڈیز اور فاؤنڈیشن کے درمیان گھن چکر بنی ہوئی تھی ۔
    لیکچر کے دوران سر یوسف نے اُس کی تھکی تھکی حالت خاص طور پر نوٹ کی ۔۔
    "منتہیٰ آپ آفس میں میرے پاس آئیے۔”
    "اوکے سر ۔۔ چکراتے دماغ کے ساتھ وہ سر یوسف کے آفس پہنچی۔۔”
    "آؤ بیٹھو” ۔۔ سر نے بغورُ اسے دیکھا ۔
    "منتہیٰ مجھے کچھ دن سے آپ ٹھیک نہیں لگ رہیں "۔۔۔ کیا کوئی مسئلہ ہے ؟؟
    "نتھنگ سر۔۔ بس مصروفیت بڑھ گئی ہے ۔۔”
    "تو مصروفیت کو کم کرو ۔۔ کچھ دن اور ہیں ارمان انشاء اللہ جوائن کرلے گا ۔ تب تک پراجیکٹس وغیرہ کو ملتوی کردو ۔”۔۔منتہیٰ انہیں اپنی بیٹی کی طرح عزیز ہو گئی تھی ۔
    "اوکے سر "۔۔ وہ مسکرائی
    "ڈیٹس اے گڈ گرل "۔۔
    "سر مجھے کچھ ٹاپکس ڈسکس کرنے تھے "۔۔۔اٹھتے اٹھتے اسے یاد آہی گیا
    ڈاکٹر یوسف نے ایک کڑی نظر اس پر ڈالی۔۔ پھر کچھ سوچ کر نرم ہوئے ۔۔ وہ اس کی لرننگ میڈنس سے واقف تھے۔
    "ٹھیک ہے کسی دن ڈسکس کریں گے ۔۔ ابھی تمہیں آرام کی ضرورت ہے گھر جاؤ اور سکون سے لمبی نیند لو ۔”
    گہری سانس لیتی ہوئی منتہیٰ ان کے آفس سے نکلی ۔۔اور پھر کئی روز تک اس نے واقعی ڈٹ کر آرام کیا ۔
    اس دفعہ ویکلی میٹنگ میں مکمل صحت یاب ہونے کے بعد ارمان کی واپسی متوقع تھی۔ دو ماہ بعد ایس ٹی ای واپسی کو اُن سب نے مل کر سیلبریٹ کرنے کا پورا پروگرام بنایا ہوا تھا ۔
    یونیورسٹی سے نکل کر فاریہ نے دو بوکے خریدے۔ "ایک سفید ٹیولپ اور دوسرا لال گلاب ۔”
    "یہ دو بوکے کیوں لیے ہیں”۔؟؟؟۔۔ منتہیٰ حیران ہوئی
    "ایک تمہارے لیے۔۔ پیسے بعد میں دے دینا "۔۔ فاریہ نے جتایا
    "میں نے تمہیں کہا تھا جو تم نے لیا ہے ۔۔ ہونہہ”
    "تو تم ارمان بھائی کو بوکے نہیں دوگی "۔۔ اُسے شاک ہوا
    "ہر گز نہیں "۔۔ کورا جواب آیا
    فاؤنڈیشن آفس پہنچتے ہی منتہیٰ بوا ئز کے ایک گروپ کی طرف بڑھ گئی جو کافی دیر سے اُس کا ہی انتظار کر رہے تھے ۔
    فاریہ بڑبڑاتی ہوئی کانفرنس روم پہنچی ۔
    "ویلکم بیک ارمان بھائی” ۔۔ اُس نے بیک وقت دونوں بوکے اُسے تھمائے ۔
    "یہ دوسرا بُوکے کس کی طرف سے ہے”۔۔ ؟؟۔۔ ارحم نے آنکھیں نچائیں ۔۔
    "یہ بھی میری طرف سے ہی ہے "۔۔ فاریہ نے زچ ہو کر دَھپ سے رامین کی ساتھ والی سیٹ سنبھالی جو اپنے کالج سے سیدھی یہیں آئی تھی ۔۔۔
    "لیکن ہماری پلاننگ کے مطابق تو یہ کسی اور نے دینا تھا نہ”۔۔ ارحم نے فاریہ کی طرف جھک کر سر گوشی کی
    "ہماری ساری پلاننگز ایک محترم ہستی ہمیشہ تہس نہس کرتی آئی ہیں اور کرتی رہیں گی”۔۔ فاریہ نے جلے دل کے پھپولے پھوڑے
    "مگر وہ محترم ہستی نظر ہی نہیں آرہیں "۔۔ارحم نے ارد گرد دیکھا ۔۔منتہیٰ ، فاریہ کے ساتھ نہیں تھی ۔۔
    کچھ بوائز باہر اس کے منتظر تھے وہ سیدھی ان کے ساتھ میٹنگ روم گئی تھی۔۔
    وہ سب مزے سے چائے اور ریفریشمنٹ اُڑا رہے تھے ۔۔ جب ڈاکٹر عبدالحق ، منتہیٰ اور کچھ بوائز کے ساتھ اندر داخل ہوئے
    "ویلکم بیک مائی بوائے "۔۔۔ وہ بہت گرم جوشی کے ساتھ ارمان سے ملے ۔۔
    "امید کرتا ہوں کہ سب کچھ بہت جلد معمول پر آجائے گا۔”
    یہ کوہاٹ یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس نے اپنے کچھ کمپیوٹرپراجیکٹ منتہی کے ساتھ ڈسکس کیے ہیں ۔۔ انہیں فوری طور پر جی آئی ایسونگ کی تمام سہولیات فراہم کریں ۔تا کہ ان کے پراجیکٹس کو جلد از جلد آگے بڑھایا جاسکے۔ارمان کوکچھ تفصیلات بتا کر ڈاکٹرعبدالحق جا چکے تھے اور ان کے ساتھ کوہاٹ یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس بھی ۔۔
    "کسٹ کے نام پر شہریار کو اَچھو لگا "۔۔۔ اف۔۔” مارے گئے ۔۔”
    ہاتھ میں پکڑی فائلز کو ٹیبل پر رکھتے ہوئے منتہیٰ نے اُن سب کو گھورا ۔۔ "اگر آپ لوگوں کی ریفرشمنٹ ختم ہو گئی ہو تو ۔۔ ہم کچھ کام کی بات کر لیں ۔۔۔۔؟؟
    "وہ سب اپنی جگہ اٹینشن ہوئے ۔۔ پہلی شامت کس کی آتی ہے”۔۔ ؟؟؟
    Sheheryar Jahangir, you are fired right now.
    "اور میرا خیال ہے کہ آپ مجھ سے ریزن پوچھنے کی حماقت ہر گز نہیں کریں گے "۔ منتہیٰ نے تھیکی نظروں سے شہریار کو گھورا
    "اوکے میم "۔۔۔ شہریار کی نگاہیں جھکی تھیں ۔۔”یقیناٌ اس سے کوتاہی ہوئی تھی "۔
    پھر منتہیٰ نے کچھ فائلز ارمان کی طرف بڑھائیں یہ کسٹ اور این ای ڈی یونیورسٹی کراچی کے سٹوڈنٹس کی پراجیکٹ فائلزہیں۔۔”اب ان کو آپ خود ڈیل کریں "۔
    "میڈ م کیا میں ایک سوال پوچھنے کی جسارت کر سکتا ہوں "۔۔؟؟ ۔۔صہیب کی مداخلت پر منتہیٰ نے اسے تند نظروں سے گھورا
    "غازی ونگ کی کمانڈ ارمان کے پاس ہی ہے یا آپ اُسے بھی بر طرف کر چکی ہیں "۔؟؟ صہیب کا لہجہ خاصہ تھیکا تھا
    "مسٹر صہیب میر”۔ "ارمان یوسف کو غازی اللہ تعالیٰ نامزد کر چکا ہے ۔۔ میری کیا مجال ہے اِس فیصلے کے سامنے ۔۔ منتہیٰ شدیدطیش میں آئی ۔۔۔ ارمان یوسف کا مقابلہ کرنے کے لیے ابھی آ پ کو بہت کچھ سیکھنا ہے ۔۔ بہت سی آزمائشوں سے گزرناہے ۔۔سمجھےآپ” ۔۔۔ اُس نے غصے سے سامنے کھلی فائل بند کی ۔
    اور کانفرنس ہال میں گونجنے والی پہلی تالی صہیب میر ہی کی تھی ۔ ان سب نے بہت دیر تک ٹیبل اور ڈیسک بجا کرارمان کو خراجِ تحسین پیش کیا ۔
    ارمان کے لبوں پر بہت گہری دلکش مسکراہٹ اتری ۔۔۔” بالاآخر ۔۔۔ بلاآخر ۔۔ منتہیٰ نے تسلیم تو کیا ۔۔۔”
    منتہی کچھ جُز بُز ہو کر جانے کے لیے اٹھی ۔۔ "اگلے ماہ میرے سمسٹر ایگزامز ہیں اور پھر کچھ ذ اتی مصروفیات۔۔۔میں اب ویکلی میٹنگز میں کچھ عرصے تک شریک نہیں ہو سکو گی "۔۔۔ چلو رامین اُس نے بہن کو اٹھنے کا اشارہ کیا
    Ma’am, we will miss you sooooo much …!
    ارحم تنویر کی آواز پر اُس کے بڑھتے قدم تھمے ۔۔۔ جس کے چہرے پر تاؤ دلانے والی مسکراہٹ تھی
    Don’t worry Arham Tanveer, .. We will meet soon …
    "تب تک فیصلہ کر لینا "۔۔۔ خلافِ مزاج منتہیٰ کے لبوں پر گہری مسکراہٹ تھی۔
    "کیسا فیصلہ میم ۔۔؟؟۔۔” ارحم حیران ہوا
    "یہی کہ اگر میرے ہاتھوں قتل ہوئے تو شہادت کے اعزاز سے محروم ہو جاؤ گے ۔
    Bcoz I gonna do that with solid reason….!!
    "میری چوائس بہرحال سیکنڈ آپشن ہی ہوگی”۔ ارحم نے پیچھے سے ہانک لگائی
    منتہیٰ غضب ناک ہوکر پلٹی ۔۔ مگر اُس کے کچھ کہنے سے پہلے ہی ارمان نے اپنے ہاتھ میں پکڑا پین کھینچ کر ارحم کو مارا ۔۔۔وہ بھی آخری حد کا ڈھیٹ تھا ۔!!
    رامین۔ اَرحم کو مُکا د کھاتے ہوئے بہن کے پیچھے لپکی ۔۔۔ اب سارا راستہ اُس کی شامت آنی تھی ۔
    منتہیٰ کے جانے کے بعد وہ سب بہت دیر تک ہنستے رہے ۔
    "خیر ارمان بھائی۔ بُوکے تو آپ کو نہیں ملا مگر آج آپ کی تعریف ضرور ہو گئی ۔۔ بہت بہت مبارک ہو "۔ فاریہ نے ارمان کو چھیڑا
    And credit goes to me …
    صہیب نے کالر جھاڑے ۔
    "وہ سب نا جانے آج کیا کھا کر آئے تھے۔۔۔۔ منتہیٰ پہلی دفعہ بری طرح زَ چ ہوئی تھی ۔۔”

    *************

    "لال بھاری شرارہ ، نفیس گولڈ جیولری اور عمدہ میک اپ ۔۔ ارسہ دلہن کے روپ میں ما شاء اللہ قیامت ڈھا رہی تھی ۔۔”
    جبکہ منتہیٰ ہلکے کام والے ریڈکرتا پاجامہ میں آج بھی سادہ تھی ۔۔ فاریہ اور رامین کے شدید اسرار کے باوجود اس نے میک اپ تو دور کی بات بال بھی نہیں کھولے تھے۔
    ڈاکٹر یوسف کی ٹیبل پر وہ اُن کو سلام کرنے گئی۔۔ تو خلافِ توقع ارمان بھی اُن کے ساتھ تھا ۔۔
    "یہ کیوں ٹپک پڑا ہے” ۔۔؟؟۔۔ وہ بد مزہ ہو کر کچھ اونچا بڑ بڑائی
    "کیونکہ اُنہیں اِنوائٹ کیا گیا تھا "۔۔ فاریہ قریب ہی کہیں موجود تھی ۔
    "جی نہیں”۔” ابو نے صرف سر یوسف اور اُ ن کی وائف کو اِنوائٹ کیا تھا "۔۔۔ ۔ وہ منتہیٰ ہی کیا جو کسی کے مان لے۔
    "تمہاری اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ارمان بھائی کو رامین نے ہی نہیں خود اِرسہ نے بھی سپیشل اِنویٹیشن دیا تھا ۔”
    "ویسے تم نے نوٹ کیا ۔۔آج ان کی خاصی گہری نگاہیں ہیں تم پر "۔۔ شرارت سے دیدے نچا کر فاریہ بھاگی ۔
    اور آج ایک فاریہ نے ہی نہیں ارمان کے ساتھ بیٹھے اُس کے ممی ، پاپا نے بھی اس کی نظروں کی پسندیدگی نوٹ کی تھی۔ منتہیٰ کے کمر تک جھولتی گھنے بالوں کی چوٹی آج ارمان نے پہلی دفعہ دیکھی تھی ۔
    "مجھے دیوانہ کرنے کے لیے تو آپ کا یہ گھناجنگل ہی کافی ہے "۔ ارمان کی بہکتی نظریں بار بار ایک ہی طرف اٹھ رہی تھیں ۔
    رخصتی کے بعد رات دیر گھر پہنچ کر مریم کچن میں کافی بنا نے لگیں تو ڈاکٹریوسف وہیں ان کے پاس چلے آئے۔
    "مبارک ہو تمہارے بیٹے نے افلاطون بیوی ڈھونڈ لی ہے "۔۔ مریم نے کافی پھینٹتے ہوئے اُنہیں مبارک باد دی
    ڈاکٹریوسف ہنسے ۔۔ "کیسی لگی تمہیں منتہیٰ ؟؟؟”
    "اچھی ہے ۔۔ سادہ مزاج ہے اور سلجھی ہوئی” ۔۔۔ مریم کو واقعی منتہیٰ پسند آئی تھی ۔۔۔” لیکن تم نے نوٹ کیا ارمان کو اُس نے لفٹ تک نہیں کرائی ۔۔”
    "بھئی اچھی لڑکی جب مرد کی اپنی ذات میں پسندیدگی محسوس کرتی ہے ۔۔ تو خود ہی اپنے خول میں بند ہوکر چھپ جاتی ہے۔”
    "تمہیں یاد نہیں جب میں آتا تھا ۔۔۔ تم ڈھونڈنے سے بھی کہیں نہیں ملتی تھیں "۔۔ یوسف کو اپنا وقت یاد آیا ۔۔۔
    اور اُن کے اِن الفاظ پر کچن کی طرف بڑھتے ارمان کے قدم تھمے ۔۔ "یہ لو سٹوری۔۔ تو اسے آج تک پتا ہی نہیں تھی۔۔”
    "جی نہیں میں کوئی آ پ سے نہیں چھپتی تھی ۔۔ مجھے تو کچھ پتا بھی نہیں تھا "۔۔۔مریم اَنجان بنیں
    "لو میں تو ماموں کے گھر آتا ہی تمہارے لیے تھا "۔۔۔ یوسف نے شرارت سے اُن کا ہاتھ تھاما ۔۔
    اُسی وقت ارمان کا سیل تھرتھرایا ۔۔۔” اَرحم کالنگ "۔۔۔اس نے زیرِ لب ایک موٹی گالی سے نوازکر سیل سائیلنٹ پر ڈالا
    "یہ ہمیشہ غلط وقت پر ہی کال کرتا ہے "۔۔۔ ہونہہ ۔۔ پھر قدم اندر بڑھائے
    "یہ تم چھپ کے کیا سن رہے تھے "۔۔ ممی نے اُس کی چوری پکڑی
    "ممی سچ میں میرے گناہگار کانوں نے کچھ بھی نہیں سنا ۔۔۔ ویسے کیا کوئی خاص بات تھی "۔۔ ؟؟
    "ارے نہیں۔۔ ہم بس ذرا مریم اور منتہیٰ کا موازنہ کر رہے تھے "۔۔ ڈاکٹر یوسف نے اُس پر گہری نظر ڈالی ۔۔
    "اچھا تو پھر کتنی باتیں ایک جیسی ملیں آپ لوگوں کو "۔۔؟؟؟۔۔ وہ بھی کم ڈھیٹ نہیں تھا
    "جتنی تمہارے اِن گناہ گار کانوں نے سنیں "۔۔ ممی نے اُس کا کان کھینچا ۔۔
    ارمان کافی کا سپ لے کر ہنسا ۔۔ "چلیں پھر لگے رہیں آپ دونوں” ۔۔ "گڈ لک "۔۔ وہ جانے کے لئے اٹھا
    "ارمان”۔ پھر ہم جائیں منتہیٰ کے گھر” ۔۔؟؟ ۔۔ مریم نے اُسے پیچھے سے پکارا
    "ممی آپ کا دل چاہ رہا ہے تو ضرور جائیں ۔۔۔ واہ، کیا تجاہلِ عارفانہ تھے”۔۔ ڈاکٹر یوسف ہنسے
    "میں پروپوزل لے کر جانے کی بات کر رہی ہوں "۔۔ مریم نے اسے آ نکھیں دکھائیں
    "اُوہ اچھا "۔۔ "پھر مٹھائی ساتھ لے کر جائیے گا خالی ہاتھ نہیں جاتے "۔۔۔ اُس نے مڑے بغیر ہانک لگائی
    "یہ کچھ زیادہ ہی ڈھیٹ نہیں ہو گیا "۔۔ مریم کو تاؤ چڑھا ۔
    "ہاں۔ اپنے باپ پر گیا ہے نہ "۔۔۔یوسف نے شرارت سے دوبارہ ان کا ہاتھ تھاما ۔۔
    "تم سے بہت شریف ہے وہ "۔۔ مریم نے غصے سے ہاتھ چھڑایا ۔۔
    اور یہ بات تو ڈاکٹر یوسف بھی مانتے تھے ۔۔۔”پسندیدگی یامحبت ۔۔ ارمان جس سٹیج پر بھی تھا ۔۔ وہ منتہیٰ کا بے انتہا احترام کرتا تھا ۔۔”

    *************

    رامین نے ڈرتے ڈرتے منتہیٰ کے کمرے میں جھانکا ، جو سٹڈی ٹیبل پر لیپ ٹاپ کھولے کھٹا کھٹ ٹائپ کرنے میں بزی تھی
    "آپی "۔۔رامین کی مرَی مرَی آواز بمشکل نکلی
    "آپی وہ” ۔۔۔ منتہیٰ نے مڑ کر بغور اُسے دیکھا ۔۔ کیا بات ہے رامین ؟؟۔۔ لہجہ نرم تھا ۔۔ رامین کو حوصلہ ہوا
    "ارمان بھائی کی کال ہے ۔۔و ہ کہہ رہے آپ سے کچھ ضروری بات کرنی ہے”۔۔ رامین نے بشمکل تھوک نگلا
    منتہیٰ کی مٹھیاں بھنچی۔۔ چہرے پر سختی دَر آئی ۔۔ "کہہ دو میں مصروف ہوں۔۔”
    "آپی وہ کہہ رہے اُنہوں نے ضروری بات کرنی ہے ۔۔”
    "کہہ دو ۔۔میٹنگ میں کریں بات ۔۔”
    "آپی آپ کب سے میٹنگ میں نہیں جا رہی "۔۔۔ رامین نے اسے جتایا
    منتہیٰ نے غصے سے گھور کر سیل اُس کے ہاتھ سے چھینا ۔۔ "جی فرمائیے”۔۔ انداز پھاڑ کھانے والا تھا
    "اسلام و علیکم "۔۔ "رامین کا موبائل اُسے واپس کر دیجئے ۔۔ میں آپ کے نمبر پر کال کرتا ہوں ۔۔ ارمان کا انداز ہمیشہ کی طرح شائستہ تھا "۔۔ منتہیٰ نے بہت غصے سے سیل کی سکرین کو گھورا ۔
    "کیا ہوا ؟؟۔۔ "رامین نے حیرت سے دیدے پھاڑے
    ٹھیک اُسی وقت منتہیٰ کے سیل پرکال آئی ۔۔۔ رامین نے کچھ سمجھتے ہوئے بھاگ نکلنے میں ہی عافیت سمجھی
    "ہیلو منتہیٰ” ۔۔ "اِٹس می ۔۔ ارمان یوسف ۔۔ پلیز میرا نمبر سیو کر لیں”۔
    "کیوں؟؟۔۔”۔ اُسی بدلحاظی سے جواب آیا
    "کیونکہ آپ کو کبھی ضرورت پڑ سکتی ہے "۔۔۔ انداز بدستور خوشگوار تھا
    "آپ کی اطلا ع کے لیے عرض ہے کہ تمام ونگ کمانڈرز کے نمبرز میرے پاس سیو ہیں” ۔۔ منتہیٰ کا لہجہ برفیلا تھا
    "اوہ آئی سی” ۔۔ "آئی تھوٹ ۔۔ خیر مجھے آپ سے ایک پراجیکٹ کے بارے میں رائے لینی تھی "۔۔آپ کافی عرصے سے ویکلی میٹنگز سے بھی غائب ہیں ۔”یو نو واٹ کہ مون سون سیزن شروع ہونے والا ہے اور پنجاب کو سب سے زیادہ خطرہ دریائےستلج پر سیلاب سے ہوتا ہے جہاں سے انڈیا اپنے دریاؤں کا اضافی پانی چھوڑتا ہے "۔۔۔ ارمان نے کچھ ٹہر ٹہر کر منتہیٰ کوتفصیلات بتائیں۔۔
    "پھر کیا سوچا ہے آپ لوگوں نے "منتہیٰ نے پوچھا۔۔؟؟
    "یہ کام برین ونگ کا ہے منتہیٰ ۔۔ اور ونگ کمانڈر آ پ ہیں "۔۔ اب کے ارمان کا لہجہ کچھ درشت ہوا
    "تو آپ ونگ کمانڈر تبدیل کر دیں "۔۔ اُس کا انداز اب کچھ اور خشک ہوا۔
    "منتہیٰ”۔۔ ارمان کو جیسے کرنٹ لگا ۔۔ "کیا ہوا ہے آپ کو ۔۔کوئی بات بری لگی ہے”۔۔ ؟؟۔۔ وہ سمجھنے سے قاصر تھا
    "ونگ کمانڈر کی حیثیت سے میں اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر پائی ۔۔۔اس لیے آپ کسی اور کو کمانڈر بنا دیں” ۔۔اس کی آوازمیں اب بھی برف کی سی ٹھنڈک تھی۔۔!!
    "کس کو بنا دوں "۔۔؟؟
    "اگر ارمان یوسف ایک ہی ہے تو منتہیٰ دستگیر کا بھی کوئی نعم البدل ہمارے پاس نہیں ہے ۔ ۔ آپ کل سے میٹنگز میں آئیں گی ۔۔سمجھیں آپ "۔۔ انتہا ئی دُرشتی سے جھڑک کر ارمان کال کاٹنے لگا تھا کہ دوسری جانب سے آوا زآئی
    "ورنہ”۔۔؟؟
    "ورنہ "۔۔ ارمان ایک لمحے کو رکا ۔۔۔” ورنہ ہم آپ کے گھر آکر میٹنگ ارینج کریں گے اینڈ۔ یو نو نہ ۔۔ کہ ارحم اور فاریہ ہی نہیں ہم باقی ونگ کمانڈرز بھی کچھ کم ڈھیٹ نہیں ہیں ۔۔”
    "جی آئی نو دیٹ ویری ویل ۔۔۔ ہونہہ ”
    "تو پھر آپ آرہی ہیں یا ہم آئیں” ۔؟؟۔۔ ارمان نے زیرِ لب مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا
    دوسری طرف کچھ دیر خاموشی رہی ۔۔ پھر منتہیٰ گویا ہوئی ۔۔۔”دریائے چناب پر میری ریسرچ مکمل ہے ۔ میں آپ کو اس کی فائل میل کر رہی ہوں ۔۔”
    "کوئی ضرورت نہیں ہے مجھے آپ کی میل کی "۔۔ بہت غصے سے جواب دیکر ارمان کال کاٹ چکا تھا
    منتہیٰ نے شانے اچکائے ۔۔ پھر کچھ سوچتے ہوئے میل باکس لاگ اِن کر کے ۔۔ ارمان کو ای میل کی ۔۔ وہ مطمئن تھی ۔
    اگلے روز شام کو وہ یونیورسٹی سے کچھ لیٹ گھر پہنچی ۔۔ اندر داخل ہوتے ہی ٹھٹکی
    فاریہ ، پلوشہ ، ارحم ، صہیب میر ، شہریار، رامین ۔۔ وہ سب گھر کے چھوٹے سے لان میں جانے کب سے ڈیرہ ڈالے بیٹھے تھے ۔۔ان میں ارمان نہیں تھا ۔
    اُس نے بہت تعجب سے ابو کودیکھا جن کے چہرے پر خوشگوار مسکراہٹ تھی ۔
    پھر اَرحم چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا اُس کی طرف آیا ۔۔” جو بہنیں ، بھائیوں سے خفا نہ ہوں میں سمجھتا ہوں ۔کہ وہ بہنیں ہی نہیں ہوتیں ۔۔ یہ روٹھنا منانا تو آپس کا مان ہوتا ہے ۔۔۔ آپ سو دفعہ بھی ناراض ہوں ۔۔ ہم منانے آتے رہیں گے ۔”
    اس نے ہاتھ میں پکڑا خوبصورت سا بُوکے اس کی طرف بڑھایا ۔
    فاروق صاحب نے منتہیٰ کے شانے پر ہاتھ رکھ کر کہا ۔۔ "دیکھو تمہیں کتنے سارے بھائی ایک ساتھ ملیں ہیں”۔۔
    اور کچھ سوچتے ہوئے منتہیٰ نے بُوکے تھاما۔
    "یا ہووووووو”۔۔۔۔ رامین سمیت اُن سب کا مشترکہ نعرہ اس قدر جاندار تھا کہ اندر گہری نیند سوئی ہوئی منتہیٰ کی دادی ہڑبڑا کر اٹھیں اور ہولتی ہوئی باہر کو لپکیں۔
    رات منتہیٰ کپڑے پریس کر رہی تھی کہ موبائل تھر تھرایا ۔۔۔ اُس نے سکرین دیکھی ۔۔
    "ارمان یوسف کالنگ "۔۔ بیل جاتی رہی۔۔ دونوں ہی ڈھٹائی کا عالمی ریکارڈ اپنے نام کر نے کے دَر پر تھے ۔۔
    کوئی ساٹھویں بیل پر زَچ ہو کر منتہیٰ نے کال ریسیو کی ۔۔ "ہیلو ”
    اور دوسری طرف ارمان نے بے اختیار بہت گہرا سانس لیا ۔۔ "یہ دلِ مضطر اس کا کیا حشر کرنے والا تھا”۔۔ ؟؟؟
    "ویل کم بیک منتہیٰ "۔۔
    "میں ابھی میٹنگ میں گئی نہیں ہوں "۔۔ حسبِ توقع خشک جواب آیا
    ارمان ہنسا ۔۔۔ "چلی جائیں گی انشا ء اللہ ۔۔ مجھے آپ کی میل پر کچھ پوائنٹس ڈسکس کرنا تھے ۔۔ میں نے ہائی لائٹ کر کے آپکومیل بیک کی ہے۔۔”
    "جی۔ دیکھ چکی ہوں ۔۔”
    "اوکے دیٹس گڈ ۔۔ پھر وضاحت کرتی جائیں۔۔ میں پچھلے تین روز سے چناب کے سائٹ ایریا پر ہوں ۔۔۔”
    دریائے ستلج اور اس سے ملحقہ پنجاب اور سندھ کے وہ تمام علاقے جو عمو ماٌ مون سون سیزن میں سیلاب کی زد میں آتے ہیں کافی عرصے سے منتہیٰ کا ٹارگٹ تھے اور ان کے بارے میں اس کا پلان تقریباٌ مکمل تھا ۔۔ اس نے اپنے سامنے پڑے نوٹ پیڈ پر
    ایک نظر ڈالی۔
    ارمان نے جو پہلا پوائنٹ ہائی لائٹ کیا تھا وہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی مکمل نشاندہی تھا تاکہ جی ایس ونگ سے ان کے بارے میں مکمل معلومات لے کر سٹرٹیجی بنائی جا سکے۔
    پاکستان میں دریائے سندھ کا طاس ایک وسیع رقبے پر پھیلا ہوا ہوا علاقہ ہے جس کے گرد بسنے والی پنجاب اور سندھ کی آ بادی سیلاب سے شدید متاثر ہوتی ہے مگر ہماری حکومتوں کی غفلت اور کوتاہی کا یہ عالم ہے کہ ہر دو تین برس بعد جب مون سون سیزن اپنی جوبن پر آتا ہے یا بھارت اضافی پانی دریائے ستلج میں چھوڑتا ہے ۔ اور بھپرے ہوئے سیلابی ریلے آبادی اور کھڑی فصلوںروندتے ہوئے گزر جاتے ہیں تب بھی دوسری جگہ آباد کاری کے لیے مناسب بندوبست نہیں ۔۔کیا جاتا اور سیلابی پانی اتر جانے کے بعد یہ مفلوک الحال ہاری انہی تباہ شدہ گھروں اور زمینوں کو آباد کرنے کے لیے لوٹ آتے ہیں ۔ کہ حکومت کی طرف سے راشن کی مہربانیاں صرف سیلا ب کے دنوں میں کی جاتی ہیں پھر چاہے لوگ فاقوں سے مرتے رہیں۔ کسی کے گھر میں ہفتوں چولہا نہ جل سکے ۔ کوئی ماں اپنے بھوک سے بلکتے معصوم بچوں کے ساتھ کنویں میں چھلانگ لگا لے ۔یا کوئی لاچار باپ سرِراہ پورے خاندان پر مٹی کا تیل چھڑ ک کر سب کو نذرِآتش کردے ، وہ کسی کا دردِسر نہیں ہوتے ۔
    ہمارے اربابِ اختیار بے حسی کے مخملی تکیوں پر سر دھرے میٹھی نیندوں کے مزے لیتے رہتے ہیں ۔

    *************

    بہت دیر بعد ارمان نے کال بند کر کے گھڑی دیکھی ۔۔۔ یک دم جیسے اسے کرنٹ لگا ۔۔
    "ایک گھنٹہ ۔۔ پورا ایک گھنٹہ ان کی بات ہوئی تھی ۔۔۔ ”
    "تو گلیشیئرز کی برف اَب پگھلنے لگی ہے ۔۔۔۔گڈ لک ارمان یوسف "۔۔اس نے خود کو داد دی ۔
    اگرچہ دو دن سے وہ سخت اذیت میں تھا ، اس گرمی، شدید حبس اور مچھروں کی بہتات کے ساتھ بمشکل رات کٹ رہی تھی۔ ان عذابوں سے نمٹنے کے لیے انہوں نے کچھ انتظامات بھی کیے تھے۔ مگر منتہیٰ سے طویل گفتگو کے بعد وہ تکیے پر سر رکھتے ہی یوں مزے سے سویا جیسے اس سے ا چھی نیند تو پہلے کبھی آئی ہی نہ تھی۔
    رات کوئی تین بجے کا وقت ہوگا۔ جب کسی نے ارمان کو جھنجوڑ کے جگایا ، وہ عموماََ بہت الرٹ سوتا تھا اور ہلکی سی آہٹ پر بھی جاگ جاتا تھا ۔مگر اس روز ایسی گہری نیند تھی ۔۔اور اس نیند میں وہ حسین سپنا ۔۔
    ’’ایک بے انتہاء خوبصورت وادی میں صرف وہ دونوں تھے۔ارمان اور منتہیٰ ۔ایک ساتھ ہاتھ میں ہاتھ ڈالے۔۔قدم سے قدم ملاتے وہ جھیل کے نیلگوں پانیوں کی جانب بڑھ رہے تھے۔۔ کہ یکدم جھنجوڑے جانے پر لمحوں میں سارا فسوں ہواؤں میں بکھرتاچلا گیا ۔ آنکھیں کھول کر ارمان کو یہ ادراک کرنے میں کچھ لمحے لگے کہ جو کچھ وہ دیکھ رہا تھا ۔۔وہ خواب تھا ۔حقیقت نہ تھی ۔اور خواب تو تتلیوں کی مانند ہوتے ہیں جن کے پیچھے بھاگنا اور ان کا تعاقب کرنا تو اچھا لگتا ہے مگر جنھیں مٹھیوں میں قید نہیں کیا جاتا۔نازک آبگینے ہوتے ہیں جو ذرا سی ٹھیس پر چکنا چور ہوجاتے ہیں ۔پھر لاکھ چاہو بھی تو ایک دفعہ ٹوٹا سلسلہ کسی طور جوڑا تھوڑی جا سکتاہے۔‘‘
    "نعمان "۔خیریت ؟؟۔ "اس وقت کیوں جگایا ہے”۔؟؟۔ ارمان نے حیرت سے سامنے کھڑے ساتھی سے پوچھا جس کے چہرے پر ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں ۔
    "نہیں سر”۔ "بالکل بھی خیریت نہیں ہے۔ حکومت کی طرف سے وارننگ جاری کی گئی ہے کہ انڈیا نےگزشتہ روز دریائے ستلج میں بہت زیادہ پانی چھوڑا ہے اور چند گھنٹوں میں ایک بڑے سیلابی ریلے کی آمد متوقع ہے۔۔ مسجدوں سے اعلان کروا کر فوری انخلا کروا یا جا رہا ہے”۔ نعمان نے تیزی سے اسے ساری صورتحال سے آگاہ کیا ۔
    ارمان نے سختی سے آنکھیں بھینچی۔۔”ایک دفعہ پھر ڈیزاسٹر ان کی پلاننگ کا ستیا ناس کرتے ہوئے وقت سے پہلے آدھمکا تھا۔ ۔ جی آئی ایس ونگ کی رپورٹ کے مطابق فی الوقت بھارتی دریاؤں میں اونچے درجے کا سیلاب نہ تھا ‘ سو ان کے پاس چند ہفتے تھے ۔”
    اگلے روز کا سورج دریائے ستلج ملحقہ آبادی پر قیامت ڈھاتا ہوا طلوع ہوا تھا ۔ایک بڑے سیلابی ریلے نے کیا کم تباہی مچائی تھی کہ شام تک ایک اور ریلے کی آمد کی خبر گویا تازیانہ ثابت ہوئی ۔

    جاری ہے
    *************

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    "جنت شاید کوئی ایسی ہی جگہ ہوگی ۔۔۔”
    سوات اور کالام میں ہر سو بکھرے حسن کو دیکھ کر فاریہ بے اختیار بول اٹھی ۔۔
    "لیکن اس جنتِ ارضی کو انسان کس طرح جہنم بنا رہا ہے ۔۔ اِس پر بھی غور کرو”۔۔ منتہیٰ کا مدلل جواب حاضر تھا۔
    "پوائنٹ ٹو بی نوٹڈ”۔۔ فاریہ نے کسی فلاسفر کی طرح سر ہلایا ۔۔
    وہ گزشتہ ایک ہفتے سے دیر ، سوات ، بالا کوٹ اور ملحقہ علاقوں کی خواتین میں اویئرنیس کمپین ( شعور و آ گہی کی مہم )چلانے کے لیےرامین ، پلوشہ ،سنبل غازی ونگ کی کئی اور لڑکیوں کے ساتھ آئی ہوئی تھیں ۔
    اگرچہ وہ غازی ونگ میں نہیں تھیں پر ارمان اور ڈاکٹر عبدالحق کے اسرار پر منتہیٰ کو ساتھ آن پڑا تھا کیونکہ ایس ٹی ای کے خواتین ونگ کی شمالی علاقہ جات کے دور دراز علاقوں میں یہ پہلی کمپٔین تھی۔ان علاقوں کی خواتین شرحِ خواندگی کم ہونے کے باعث زلزلے یا سیلاب کی ہنگامی صورتحال میں احتیاطی تدابیر سے لا علم تھیں،منتہیٰ اور برین ونگ کے چند دیگر کمانڈرزکا آئیڈیا تھا کہ خواتین ممبرز گھر گھر جا کر ان میں آفات سے ازخود نمٹنے کا شعور پیدا کرنےکی کوشش کریں تاکہ وہ بروقت اپنی اور بچوں کی جان بچا سکیں۔ پچھلے تباہ کن زلزلے کے اعداد و شمار کے مطابق اموات میں بچوں اور خواتین کی تعداد سب سے زیادہ تھی۔


    اسی ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں


    وہ گروپس کی صورت میں مختلف علاقوں میں علی الصبح نکل جاتیں اور سارا دن در در کی خاک چھان کر واپس کیمپس لوٹ آتیں۔
    "ہم ایک لا حاصل مقصد کے پیچھے خوار ہو رہے ہیں "۔۔ کمپین کے چھٹے روز تھکی ہاری کیمپ پہنچ کر فاریہ پھٹ پڑی
    "خیریت کیا ہوا ؟؟ "۔ارمان قریب ہی ایک اونچے پتھر پر بیٹھا چائے پی رہا تھا
    "کیا ہوا ؟۔۔یہ پوچھیے کہ کیا نہیں ہوا ۔۔”
    "ہم سارا دن بمشکل پانچ خواتین سے ملاقات کر پائے ۔۔ جس گھر پر دستک دو، وہاں خونخوار سے بڑی بڑی مونچھوں والے آدمی نکل کر ہمیں یوں مشکوک نظروں سے گھورتے ہیں۔۔ جیسے ہم داعش کی نمائندہ ہوں "۔رامین بہت اَپ سیٹ تھی
    "اور جن خواتین سے ہمیں کسی نہ کسی طرح شرفِ ملاقات نصیب ہوا ۔۔ اُن کے پلے ہماری بات نہیں پڑ تی ۔۔۔ پلوشہ نےانہیں مقامی زبان میں ہر طرح سمجھانے کی کوشش کی مگر ہماری باتیں اُن کی سمجھ سے باہر ہیں "۔۔ سنبل نے بھی بھڑاس نکالی
    "تو پھر ہمیں کیا کرنا چاہئے ؟؟”۔۔ ارمان نے باری باری اِن سب کے ستے ہوئے چہروں کو دیکھا
    "بس ہم کل سے کمپین پر نہیں جائیں گے "۔۔ رامین نے جیسے فیصلہ صادر کیا
    "گرلز اتنی جلدی ہمت ہار بیٹھی، ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں”۔ ارحم نے دانت نکالے
    "ٹھیک ہے پھر کل سے آپ خود جائیے گا ، دیکھتے ہیں کتنے پانی میں ہیں آپ”۔۔ ہونہہ ۔ فاریہ کا چہرہ غصے اور تھکن سے سرخ تھا۔
    "میں اس وقت گھٹنوں گھٹنوں پانی میں ہوں آپ لوگ چاہیں تو پیمائش کر سکتی ہیں۔ ارحم نے جو چشمے کے کنارے پانی میں پاؤںمیں ڈالے بیٹھا تھا "۔۔۔ فاریہ اور رامین کو مزید طیش دلایا ۔
    "ہاں ٹھنڈے پانی میں پاؤں ڈالے بیٹھے ہیں ، سارا دن گرمی میں خوار ہونے پڑے گا نہ تو نانی یاد آجا ئے گی ۔”
    "نانی اماں میری کب کی جنت کو سدھار چکی ہیں ، مگر یاد کرنے کے لیے کچھ اور لوگ بھی ہیں میری زندگی میں ۔ ارحم نے ایک سردآہ بھری”۔۔ "اس دشت پیمائی میں یونیورسٹی کی’’ راحتیں ‘‘اسے بہت یاد آرہی تھیں۔”
    "بے فکر رہ ! جب تو واپس لوٹے گا نہ تو وہ ساری ۔ کہیں اور بندوبست کر چکی ہوں گی”۔ ارمان نے اس کے قریب جاکر ایک دھپرسید کی۔ اگرچہ منتہیٰ ان سے کچھ فاصلے پر تھی، مگر ان کی نوک جھونک اس تک پہنچ رہی تھی۔
    "تو بھی کچھ لوگوں کی زیادہ فکر مت کیا کر ۔ اب ہم ان کی وجہ سے سقراط تو بننے سے رہے”۔ ارحم نے جھک کر سرگوشی کی۔تو ارمان نےکھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھا ۔
    "میم منتہیٰ”۔ "آپ کیا کہتی ہیں اس بارے میں ، کیا اتنی جلدی ہمت ہار بیٹھنا عقل مندوں کا کام ہے”۔ ارحم نے منتہیٰ کو قدرے اونچی آواز میں مخاطب کیا ۔فاریہ کا بس نا چلتا تھا کہ ارحم کا قتل کردے۔اسے معلوم تھا منتہیٰ ہارتی نہیں ہے وہ آخری حد تک جانے والوں میں سے تھی۔
    "ہمارا ٹاسک لا حا صل ہر گز نہیں ہے لیکن قبل از وقت ضرور ہے ‘‘ ۔۔’’یہاں کی عورتوں میں آگاہی اور شعور بیدار کرنے سےپہلے ہمیں اِن کے مردوں کی سوچ تبدیل کرنا ہوگی ۔۔ ورنہ غالب امکان یہ ہے کہ ۔۔ اِس طرح کی کوششوں سے ہم دوست کے بجائے اِنہیں اپنا دشمن بنا لیں گے ۔۔ کیونکہ یہاں کے لوگ بیوی ہی نہیں ماں ، بہن اور بیٹی کی گردنیں بھی گاجر،مولی کی نسبت زیادہ آسانی سے کاٹتا ہے‘‘۔ فاریہ کی توقع کے بر عکس منتہیٰ کا جواب خاصہ مدلل تھا۔
    رامین ، سنبل وغیرہ نے باقاعدہ تالیاں بجا کر منتہیٰ کا پوائنٹ سیلبریٹ کیا ۔
    "چلیں جی ۔ کل سے ایس ٹی ای کے میل کمپین شروع ہوگی اور ہم چشمے کے ٹھنڈے پانیوں کو ناپا کریں گے”۔ فاریہ نے حساب چکتا کیا۔
    ان کی نوک جھونک اب رات تک یونہی چلتی رہنی تھی، سو انہیں نظر انداز کرتا ہوا ارمان، چائے کا مگ ہاتھ میں لیئے منتہیٰ سے کچھفا صلے پر جا کر بیٹھا ۔
    میرے خیال میں ہمیں کچھ دن میل اور فی میل کی مشترکہ مہم چلانی چاہیئے، اس سے ناصرف آپ لوگوں کو تحفظ اور سپورٹ ملے گی بلکہ ہمیں مستقبل میں کمپین کے لیے صحیح آئیڈیا بھی ہو سکے گا ۔
    "جی ۔ لیکن میرے خیال میں اس کے ساتھ یہاں اپنے پہلے ڈیسازٹر سینٹر کا بھی آغاز کر دینا چاہیئے ۔ اس سے ایک تو یہاں کے لوگوں کا ہم پر اعتماد بڑھے گا ، اور دوسرے مقامی افراد کی بھرتی سے ہم گھر گھر جانے کی زحمت سے بچ جائیں گے۔ لوگوں
    کو ایک جگہ جمع کرکے کینوینس کرنا زیادہ آسان بھی ہے اور فائدہ مند بھی” ۔
    ارمان نے اسکی بات ختم ہوتے ہی اثبات میں سر ہلایا ۔
    ************
    ان کے پاس وقت کم تھا کیونکہ خواتین ممبران کا زیادہ عرصے تک ان علاقوں میں قیام ممکن نہیں تھا ، سو ارمان نے چند ساتھیوں کے ساتھ مل کر اگلے تین روز میں کرائے پر ایک نیم خستہ گھر لے کر آفس بنانے کی تیاریاں شروع کیں ۔
    پہلے مرحلے میں انھیں لوگوں کو یہاں جمع کرکے اپنے مقاصد سے آگاہ کرنا تھا جس کے لیے زیادہ دفتری لوازمات کی ضرورت نہیں تھی ۔
    اگلے روز ارمان ناشتے کے بعد اپنا لیپ ٹاپ لیے بیٹھا پریزینٹیشن بنا رہا تھا ۔۔کہ بھاری بھرکم جسامت والا ایک شخص اچانک وارد ہوا ۔ ان کے کچھ ساتھی گروپس کی صورت میں گھر گھر مہم پر روانہ ہوچکے تھے جبکہ باقی ابھی کیمپس میں تھے۔
    "اسلام و علیکم ‘‘۔ "میرا نام خوشحال ہے "۔۔نو وارد نے تعارف کروا کر خوشدلی سے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا ۔ ارمان نے ہاتھ ملاتے ہوئے اسے بغوردیکھااس کا صاف اردو لہجہ چونکا نے والا تھا ۔ کیونکہ وہ دیکھنے میں مقامی لگتا تھا۔
    "کیا مجھے آپ کے اس آفس کے قیام اور مقاصد کے متعلق کچھ معلومات مل سکتی ہیں ؟؟”
    ارمان نے کافی دیر تک پوسٹرز اور لیپ ٹاپ پر سلائیڈز کی مدد سے خوشحال خان کو مکمل بریف کیا ۔ اس کی چھٹی حس جو ہمیشہ سےبہت تیز رہی تھی، ایک دفعہ پھر کہتی تھی یہ بندہ مستقبل میں ان کے بہت کام آنے والا ہے ۔
    "میں اسی علاقے کا رہائشی ہوں لیکن تعلیم اور ملازمت کے سلسلے میں مختلف شہروں میں قیام رہا ہے۔۔گذشتہ ہولناک زلزلے کے بعد میں یہاں لوٹا تو میرے آبائی گھر سمیت سب کچھ فنا ہو چکا تھا ۔ تب سے میں وقتاَ فوقتاَ یہاں آ کر آفت زدہ لٹے پٹے اپنے رشتہ داروں کی کچھ مدد کر جایا کرتا ہوں ۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ جو کام ہماری حکومت کرنے میں ناکام رہی ۔ اسےکرنے کا بیڑہ اب عوام نے اٹھایا ہے‘‘۔
    "میرا بھر پور تعاون آپ کے ساتھ ہے”۔۔ اپنا وزیٹنگ کارڈ ارمان کو تھماتا ہوا وہ شخص جا چکا تھا ۔
    ارمان نے کرسی واپس سنبھالتے ہوئے ایک نظر کارڈ پر ڈالی، پھر زور سے اچھلا ۔
    "خوشحال خان‘‘ ۔ "وہ کراچی سٹاک ایکسچینج کا ایک معروف تاجر تھا ۔”
    ************
    شام ڈھلے جب سارے ساتھی تھکے ہارے کیمپس واپس لوٹے تو اس روز چائے کے ساتھ کچھ ہلکے پھلکے لوازمات بھی ان کے تھے ۔
    "یاہو۔۔ ٹریٹ۔۔ "۔فاریہ اور ارحم نے ایک ساتھ نعرہ لگایا
    "ارمان بھائی زندہ باد "۔۔ رامین کب کسی سے پیچھے رہنے والی تھی ۔ جب سے گھر کے عیش و آسائش چھوڑ کر نکلے تھے سادہ کھاناہی مل رہا تھا۔
    "ویسے یہ ٹریٹ ہے کس خوشی میں ۔۔؟؟”۔ صہیب نے پورا سموسہ منہ میں ٹھونستے ہوئے دیدے نچائے، بھوک سے سب کا برا حال تھا ۔
    "یہ ہمارے ایک نئے خیر خواہ کی طرف سے دی گئی ٹریٹ ہے ۔آج رات کے کھانے پر ہم ان کے گھر پر مدعو ہیں "۔ ارمان نے ان کو ساری تفصیل بتائی۔
    فاریہ، رامین اور پلوشہ نے ایک ساتھ زوردار نعرہ لگایا۔ چلو یہاں کوئی کام کا بندہ تو ملا ۔
    "تم لوگوں نے اگر یہی حرکتیں کرنی ہیں تو ہم تمہیں ہر گز ساتھ نہیں لے کر جائیں گے "۔منتہیٰ نے تنبیہی نظروں سے انہیں گھورتے ہوئے ڈانٹا۔
    ارحم اور شہریار نے بمشکل اپنا اونچا قہقہہ ضبط کیا۔۔ ورنہ خدشہ تھا کہ ان کو بھی بین کر دیا جاتا ۔
    "آپی۔ اب کیا ہم خوش بھی نہیں ہوسکتے۔؟ "۔رامین نے منہ بسورا ۔
    "خوش ہونے کا یہ کونسا انداز ہے؟؟ "۔۔”تم لوگ اپنے گھر کے بیڈروم میں نہیں بیٹھی ہوئیں ۔ سمجھیں۔۔”
    ارمان نے دلچسپی سے ساری لڑکیوں کے اترے چہروں کو دیکھا ۔پھر ایک گہری نظر منتہیٰ پر ڈالی۔
    وہ کیمپس کے قریب پہاڑی جھرنے کے ٹھنڈے پانی میں اپنے دود ھیا پاؤں ڈالے بیٹھی تھی ۔۔۔ دن بھر کی کوفت اور تھکن سے اُس کا سپید چہرہ قدرے سرخ تھا ۔۔۔ ارمان اُسے دم بخود دیکھے گیا ۔
    "اور زندگی میں کچھ لمحے آتے نہیں۔۔ بلکہ دلوں پر وارد ہوتے ہیں ۔۔ ایسا ہی ایک لمحہ اُس روز ارمان یوسف کی زندگی میں بھی آیا تھا ۔ وہ جھرنے سے کچھ فاصلے پر ایک اونچے پتھر پر بیٹھا ہوا تھا پھر بھی کوئی پھوار سی اُسے شرابور کرتی چلی گئی تھی۔”
    "وہ بے خبر تھا ۔۔آج جو بیڑیاں اُس نے با خوشی اپنے پاؤں میں بندھوائی ہیں اب اُسے تا عمر ان کا اسیر رہنا تھا ۔”

    تم نے دیکھی نہیں عشق کے قلندر کی دھمال
    پاؤں پتھر پہ بھی پڑ جائے تو دُھول اڑتی ہے

    جاری ہے

    ***********

  • حکمران ہیلی کاپٹرمیں آتے ہیں،نیچے آتے ہیں تولوگ گلاپکڑتے ہیں،پرویزالٰہی

    حکمران ہیلی کاپٹرمیں آتے ہیں،نیچے آتے ہیں تولوگ گلاپکڑتے ہیں،پرویزالٰہی

    گجرات:مسلم لیگ ق کے رہنما چوہدری پرویزالہٰی کا کہنا ہےکہ حکمران دورے ہیلی کاپٹرمیں کرتے ہیں، جب نیچے آتے ہیں تولوگ گلاپکڑ لیتےہیں،ان حکمرانوں کے جا نے کےبعد ہی مسائل حل ہوں گے۔

    پاکستان مسلم لیگ ق کےرہنما چوہدری پرویزالہیٰ نےگجرات میں سیلاب متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا، چوہدری پرویز الہیٰ نے سیلاب متاثرین میں راشن اور دیگر ضروریات زندگی کی چیزیں تقسیم کیں، چوہدری پرویزالہیٰ کا کہنا تھا کہ شریف برادران ہیلی کاپٹرز میں سیلاب متاثرہ علاقوں کا دورہ کرتے ہیں، نیچے آتے ہیں تو لوگ ان کا گلا پکڑتے ہیں۔

    چوہدری پرویزالہیٰ نے کہا کہ حکمرانوں کو لوگوں کےاصل مسائل نظرنہیں آتے، موجودہ حکمرانوں نے سارا پیسہ جنگلہ بس سروس پر لگا دیا۔

    چوہدری پرویزالہیٰ نے مزید کہا کہ گزشتہ سیلاب میں دیئے گئے چیک بھی ابھی کیش نہیں ہوئے۔