Tag: disclosure

  • سندھ طاس معاہدہ : کیا بھارت پاکستانی دریاؤں کا پانی روک سکتا ہے؟

    سندھ طاس معاہدہ : کیا بھارت پاکستانی دریاؤں کا پانی روک سکتا ہے؟

    مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے پہلگام واقعے کے بعد بھارت کی جانب سے پاکستان کیخلاف کیے گئے سخت اقدامات میں سرفہرست سندھ طاس معاہدہ کا خاتمہ بھی ہے۔،

    یہ معاہدہ کیا ہے اور کیا بھارت اس پوزیشن میں ہے کہ اپنی اس دھمکی پر عمل درآمد کرسکتا ہے؟ اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام دی رپورٹرز میں سابق ایڈیشنل انڈس واٹر کمشنر شیراز میمن نے تفصیلات بیان کیں۔

    انہوں نے بتایا کہ سندھ طاس معاہدہ کے تحت بھارت پاکستان کے حصے کا پانی روک ہی نہیں سکتا اس کے علاوہ اس کے پاس فی الوقت کوئی ایسا ذخیرہ یا وسائل نہیں جہاں وہ ان دریاؤں کے اس پانی کو جمع کر سکے اور اگر وہ کوئی ایسا منصوبہ شروع کرے بھی تو اس کو پورا کرنے کیلیے کئی سال درکار ہوں گے۔

    شیرزا میمن نے بتایا کہ سندھ طاس معاہدہ ختم کرنا بھارت کے لیے اتنا آسان نہیں ہے کیونکہ عالمی بینک اس معاہدے کا ثالث ہے اور پاکستان اس مسئلے کو بین الاقوامی عدالت میں بھی لے جا سکتا ہے۔

    ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت پاکستان کو اپنے ہر آبی منصوبے کے ڈیزائن اور اس کے مقام سے متعلق تفصیلات دینے کا پابند ہے اور اس نے 1994 میں کشن گنگا ڈیم اور 2012 میں رتلے ڈیم سے متعلق پاکستان کو آگاہ کیا تھا جس کے ڈیزائن پر پاکستان نے اعتراضات بھی کیے۔

    پاکستان کا سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی پر عالمی فورمز سے رجوع کرنے کا فیصلہ

    موجودہ صورتحال میں متوقع طور پر اگر چین بھارت کا پانی روک لے تو اس کے کیا اثرات ہوں گے ؟ کے جواب میں شیرزا میمن نے بتایا کہ ہمیں جو تین دریا ملے ہیں اس میں سے دریائے سندھ ایسا ہے جس کا 5فیصد پانی چین اور 5 فیصد بھارت سے آتا ہے باقی سارا پانی ہم اپنے ذخائر سے حاصل کرتے ہیں، جبکہ جہلم کا پانی جموں و کشمیر سے اور چناب کا پانی ہماچل پردیش کی شاخوں سے آتا ہے۔

  • اہرام مصر کیلئے بھاری پتھر کیسے لائے گئے ؟ ہوشربا انکشاف

    اہرام مصر کیلئے بھاری پتھر کیسے لائے گئے ؟ ہوشربا انکشاف

    اہرام مصر دنیا بھر کے بڑ ے عجائبات میں سب سے بڑا عجوبہ ہے، اس کی تعمیر ہو یا تاریخ اس لحاظ سے بے شمار راز ایسے ہیں جو اب تک محققین سے پوشیدہ تھے لیکن وقت کے ساتھ ان رازوں سے پردہ اٹھتا جارہا ہے۔

    ویسے تو محققین صدیوں سے یہ راز جاننے کے لیے کوشاں رہے ہیں کہ اہرام مصر کی تعمیر کیلئے استعمال ہونے والے انتہائی بھاری اور دیوہیکل پتھر صحرا تک کیسے پہنچائے گئے؟

    یہ وہ سوال ہے جو زمانہ قدیم سے سائنسدانوں کے لیے معمہ بنا ہوا ہے اور یہ کہ ہزاروں سال قبل کس طرح قدیم مصر میں اتنے بڑے اہرام تعمیر کیے گئے مگر اب اس کا ممکنہ جواب سامنے آگیا ہے۔

    egypt

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ماہرین آثار قدیمہ نے صحرا کے نیچے دبی دریائے نیل کی ایسی شاخ دریافت کی ہے جو ہزاروں سال قبل 30 سے زائد اہرام کے اطراف بہتی تھی۔

    ماہرین اس دریافت سے یہ معمہ حل ہوتا ہے کہ کس طرح قدیم مصریوں نے اہرام تعمیر کرنے کے لیے بہت وزنی پتھر وہاں تک پہنچائے۔

    A map of the water course of the ancient Ahramat Branch.

    40میل لمبی دریا کی یہ شاخ نامعلوم عرصے قبل گیزہ کے عظیم ہرم اور دیگر اہرام کے گرد بہتی تھی اور ہزاروں سال قبل صحرا اور زرعی زمین کے نیچے چھپ گئی۔

    ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا کہ دریا کی موجودگی سے وضاحت ہوتی ہے کہ کیسے 4700 سے 3700برسوں قبل 31 اہرام اس وادی میں تعمیر ہوئے جو اب ویران صحرائی پٹی میں بدل چکی ہے۔

    Pyramid

    یہ وادی مصر کے قدیم دارالحکومت ممفس کے قریب موجود ہے اور یہاں گیزہ کا عظیم ہرم بھی موجود ہے جو دنیا کے قدیم 7 عجائب میں شامل واحد ایسا عجوبہ ہے جو اب بھی موجود ہے۔

    جرنل نیچر کمیونیکیشنز میں شائع ایک تحقیق میں دریا کی اس شاخ کو دریافت کیا گیا ہے، سائنس دانوں نے ابو الہول کے مجسمے کا صدیوں پرانا راز جان لیا۔

    History

    خیال رہے کہ ماہرین آثار قدیمہ کافی عرصے سے یہ خیال ظاہر کر رہے تھے کہ قدیم مصر میں دریا کو ہی اہرام کی تعمیر کے لیے استعمال کیا گیا تھا مگر اب تک کسی کو قدیم زمانے میں بہنے والے دریا کے مقام، ساخت یا حجم کے بارے میں معلوم نہیں تھا۔

    تحقیقی ٹیم نے ریڈار سیٹلائیٹ ٹیکنالوجی کو استعمال کرکے دریا کی اس خفیہ شاخ کو دریافت کیا۔اس مقام کے سرویز اور نمونوں کی جانچ پڑتال سے دریا کی موجودگی کی تصدیق ہوگئی۔

    محققین کے مطابق کسی زمانے میں یہ دریا بہت طاقتور ہوگا مگر ممکنہ طور پر 4200 سال قبل قحط سالی کے باعث وہ ریت میں چھپنا شروع ہوگیا، گیزہ کا عظیم ہرم اس چھپے ہوئے دریا کے کنارے سے محض ایک کلومیٹر کی دوری پر موجود ہے۔

    Nile river

    اس ہرم کی تعمیر کے لیے 23 لاکھ بلاکس استعمال ہوئے تھے اور ہر بلاک کا وزن ڈھائی سے 15 ٹن کے درمیان تھا۔ محققین کے مطابق بیشتر اہرام بھی دریا کے اردگرد ہی واقع محسوس ہوتے ہیں اور یہ عندیہ ملتا ہے کہ اس دریا کو تعمیراتی سامان پہنچانے کے لیے استعمال کیا گیا۔

    ان کا کہنا تھا کہ دریا سے یہ عندیہ بھی ملتا ہے کہ اہرام مختلف مقامات پر کیوں تعمیر کیے گئے۔انہوں نے بتایا کہ دریا کا راستہ اور بہاؤ وقت کے ساتھ بدلتا رہا اور اسی وجہ سے مصری شہنشاؤں نے مختلف مقامات پر اہرام تعمیر کیے۔

  • ارشد شریف قتل کیس : بی بی سی کی رپورٹ میں کئی انکشافات

    ارشد شریف قتل کیس : بی بی سی کی رپورٹ میں کئی انکشافات

    برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ میں اہم انکشافات کیے ہیں، جس میں بتایا گیا ہے کہ شہید ارشد شریف پر فائرنگ کس کس نے  کی؟ فائرنگ کا اصل وقت کیا تھا؟

    کیا قتل کی منصوبہ بندی کینیا سے باہر کی گئی؟ فائرنگ کے بعد ارشد شریف کی موت جائے وقوعہ پر فوری واقع ہوئی یا وہ جب تک زندہ تھے۔ بی بی سی کے رپورٹر نے اپنی اہم رپورٹ میں قتل سے منصوب کرداروں کے بیانات میں متعدد تضادات سامنے رکھ دیئے۔

    بی بی سے سے گفتگو کرتے ہوئے شہید ارشد شریف کی والدہ اور اہلیہ نے ایک بار پھر انصاف کے لیے دہائیاں دیں، ان کی والدہ کا کہنا ہے کہ ہمیں بولنے نہیں دیا گیا اب کم از کم انصاف تو کردیں۔

    اہلیہ سمعیہ ارشد نے کہا کہ ارشد شریف کو کافی عرصے سے دھمکیاں مل رہی تھیں تاہم ہم بہت محتاط بھی تھے لیکن اندازہ نہیں تھا کہ کوئی اس حد تک بھی جاسکتا ہے۔

    بی بی سی کی ٹیم کینیا پہنچی، جائے وقوعہ کا دورہ کیا پولیس اسٹیشن سے تفصیلات لیں اور مقتول کی گاڑی کاجائزہ اور اہم شخصیات سے بات چیت کی۔

    یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کینیا پولیس کے اہلکاروں نے ارشد شریف کیس سے متعلق معلومات دینے کے لیے مبینہ طور پر بی بی سی کی ٹیم سے رشوت طلب کی۔

    ارشد شریف پر فائرنگ میں ملوث جی ایس یو کے عملے کو احکامات کس نے دئیے اور منصوبہ بندی کہاں ہوئی جی ایس یو کے سابق اہلکار جارج مساملی کے بیان نے معاملے کو نیا رخ دے دیا۔

    بی بی سی کی رپورٹ میں فائرنگ کی ٹائمنگ سے متعلق بیانات میں تضادات کا بھی دعویٰ کیا گیا ہے، واقعے سے متعلق مختلف افراد فائرنگ کا وقت مختلف بتارہے ہیں۔

    رپورٹ میں کہا گیا ارشد شریف کو مردہ حالت میں سب سے پہلے دیکھنے والے افراد کے بیانات میں بھی واضح تضاد موجود ہے، گاڑی میں موجود ارشد شریف کی کیا حالت تھی، ڈرائیور خرم جب گاڑی لے کر ریزورٹ پہنچا تو گارڈ جوزف نے کیا دیکھا، گارڈ نے بی بی سی رپورٹر کو ساری تفصیلات بیان کردیں۔

    بی بی سی رپورٹ کے مطابق ارشد شریف کے آئی پیڈ اور آئی فون سے متعلق سوالات اور کسی بیرونی ایجنسی یا فرد کے ملوث ہونے کے شواہد کا بھی آئیپوا چیف کے پاس کوئی تسلی بخش جواب نہیں تھا۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اہلکاروں کے فیکٹ فائنڈنگ ٹیم اور اپنی تحقیقاتی ٹیم کو اسلحے کے استعمال کے بارے میں دئیے گئے بیانات میں بھی کئی جھول ہیں۔

    کبھی اہلکاروں نے کہا کہ انہوں نے فائرنگ کی کبھی کہا نہیں کی، گاڑی پر مجموعی طور پر گولیوں کے نو نشانات موجود ہیں جبکہ پولیس کو اس مقام سے تیرہ خول ملے ہیں۔

    اس حوالے سے کینیا کے وزیر داخلہ کیتھورے کنڈیکی نے بی بی سی کو انٹرویو میں اس بات کی تردید کی کہ ان کی حکومت یا ادارے نے پاکستان سے تعاون نہیں کیا۔

    ان کا کہنا تھا کہ کیس کی تحقیقات کو طول دینا کسی صورت کینیا کے مفاد میں نہیں ہے، پاکستانی شہریوں اور ارشد شریف کے خاندان کو یقین دلاتا ہوں کہ جلد ازجلد قتل کی تحقیقات مکمل کرلیں گے۔

  • کیا مہوش حیات کا سیاست میں آنے کا ارادہ ہے؟ خصوصی انٹریو میں اداکارہ کے اہم انکشافات

    کیا مہوش حیات کا سیاست میں آنے کا ارادہ ہے؟ خصوصی انٹریو میں اداکارہ کے اہم انکشافات

    کراچی : پاکستان کی معروف فلمی اداکارہ اور تمغہ امتیاز کی حامل مہوش حیات نے کہا ہے کہ سیاست میں آنا میری خواہش ہے، جب بھی موقع ملا تو اس شعبے میں بھی قدم رکھوں گی۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام سوال یہ ہے میں میزبان ماریہ میمن سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا، اس موقع پر انہوں نے اپنی نجی زندگی اور مستقبل کے ارادوں سے بھی آگاہ کیا۔

    مہوش حیات نے کہا کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر لوگ سوشل میڈیا پر ہمیں تنقید کا نشانہ بناتے ہیں جس سے ہمیں بھی تکلیف ہوتی ہے، مشہور شخصیت (پبلک فیگر) ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ ہمارا دل پتھر کا ہے یا ہم کچھ محسوس نہیں کرتے۔

    انہوں نے کہا کہ کوئجھی بھی فلم سائن کرنے پہلے میں اسکرپٹ کا مطالعہ کرتی ہوں اور فلم میں اپنے کردار کا جائزہ لیتی ہوں، میری سب سے پہلی ترجیح اچھا کردار ہوتا ہے، اس میں بہتری کیلیے ڈائریکٹر سے صلاح مشورہ بھی کرتی ہوں۔

    ایک سوال کے جواب میں مہوش حیات نے بتایا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی زندگی پر مبنی ایک فلم پر کام ہورہا ہے اس میں ضرور کام کروں گی، انہوں نے کہا کہ پہلے سیاست میں اتنی دلچسپی نہیں تھی البتہ کرنٹ افیئرز شوق سے دیکھتی تھی۔

    اب اس حکومت کے آنے کے بعد میرا ارادہ ہے کہ سیاسی میدان میں قدم رکھوں، جو لوگ اس ملک کی نمائندگی کرسکتے ہیں یا سفیر بن سکتے ہیں ان کو سیاست میں ضرور آنا چاہیے۔

  • کورونا وائرس کی نئی قسم کے حوالے سے خوفناک پیش گوئی

    کورونا وائرس کی نئی قسم کے حوالے سے خوفناک پیش گوئی

    سان فرانسسکو : سائنسدانوں نے انکشاف کیا ہے کہ کورونا کی ایک نئی قسم اس سے زیادہ خوفناک ہے، دنیا بھر میں اس کا اثر و رسوخ بڑھ سکتاہے۔

    اس حوالے سے لاس اینجلس ٹائمز نے بایو آرکسیو پر شائع ہونے والی 33 صفحات پر مشتمل ایک نئی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ یہ نئی لہر رواں سال فروری میں یورپ میں پہلی بار سامنے آئی، پھر یہ تیزی سے ہجرت کرکے مشرقی ساحل کی جانب چلی گئی۔

    سائنس دانوں نے کہنا ہے کہ یہ نئی کشیدہ صورتحال اب پوری دنیا میں غالب ہے اور مارچ کے وسط سے اسی طرح سے چل رہی ہے۔ لاس الاموس ریسرچ لیبارٹری کے سائنسدانوں کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے متنبہ کیا ہے کہ یہ نئی لہر تیزی سے پھیلتی ہے اور اس بیماری سے متاثر ہونے والے پہلے چکر کے بعد لوگوں کو دوسرے انفیکشن کا خطرہ بن سکتا ہے۔

    یہ وائرس ان لوگوں پر بہت تیزی سے اثر انداز ہورہا ہے جو اس سے قبل کورونا وائرس سے متاثر ہوئے ہیں، خبر کے مطابق یہ مطالعہ حال ہی میں سائنس دانوں کے ساتھ اشتراک عمل کو تیز کرنے کی کوشش میں شائع کیا گیا ہے جو کوویڈ 19کے ویکسین یا علاج پر کام کر رہے ہیں۔

    سائنس دانوں کا مزید کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے لئے ایک ویکسین ایک سال یا اس سے زیادہ عرصے تک تیار کرلی جائے گی۔

  • نائن الیون حملوں سے 40 روز قبل امریکا کو آگاہ کردیا تھا،  سابق انٹیلیجنس عہدیدار کا دعویٰ

    نائن الیون حملوں سے 40 روز قبل امریکا کو آگاہ کردیا تھا، سابق انٹیلیجنس عہدیدار کا دعویٰ

    انقرہ : ترک انٹیلیجنس ایجنسی کے سابق عہدیدار کا کہنا ہے کہ ہم نے نائن الیون سے متعلق سی آئی اے کو آگاہ کیا تھا مگر انہوں نے اس تنبیہ کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔

    تفصیلات کے مطابق ترکی کے انٹیلی جنس کے شعبہ انسداد دہشت گردی کے ایک سابق عہدیدار محمد ایمور نے دعویٰ کیا ہےکہ ترک خبر رساں اداروں کو 11 ستمبر 2001ء کو امریکا میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے بارے میں 40 دن پہلے علم ہوچکا تھا مگرا±نہیں سنجیدہ نہیں لیا گیا۔

    ان کا کہنا ہے کہ ترکی کو یہ معلومات ترکی کے منشیات کے ایک تاجر مصطفیٰ کے ذریعے حاصل ہوئی تھیں۔ ایمور نے دعویٰ کیا کہ وہ بعض ملکوں میں جاسوس کے طور پرکام کرتے رہے ہیں تاہم انہوں نے ان ملکوں کا نام نہیں لیا۔

    عرب ٹی وی کے مطابق محمد ایمور نے یہ لرزہ خیز انکشافات اپنی تازہ کتاب رازوں کا افشاء میں کیا، وہ لکھتے ہیں کہ نائن الیون کا واقعہ وقوع پذیر ہونے سے چالیس دن قبل مجھے اس کا علم ہوگیا تھا۔

    انہوں نے کہا کہ ہم نے اس حوالے سے سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی کو خبر دی اور اپنے ساتھیوں کو مطلع کیا مگر انہوں نے اس تنبیہ کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔

    ان کا کہنا ہے کہ اگر انٹیلی جنس ادارے ان کی وارننگ کو سنجیدگی سے لیتے تو دہشت گردانہ حملے میں ہزاروں افراد کو بچایا جاسکتا تھا۔

    خیال رہے کہ گیارہ ستمبر 2001ء کو امریکی ریاست مین ہٹن میں واقع جڑواں ٹاورز پرجہازوں کے ذریعے کیے گئے دہشت گردانہ حملوں میں القاعدہ کو ملوث بتایا جاتا ہے مگر اس حوالے سے کئی اور مفروضے بھی مشہور ہیں۔

    ترک انٹیلی جنس کے سابق عہدیدار کا بیان بھی ان مفروضوں اور قیاس آرائی پرمبنی کہانیوں میں ایک نیا اضافہ ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق محمد ایمور اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ انہیں نائن الیون کے واقع کے وقوع پذیر ہونے سے 40 دن پہلے علم ہوگیا تھا مگر ہم ان حملوں کو نہیں روک پائے جس کے نتیجے میں 2996 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہمیں نائن الیون کے حملوں کی منصوبہ بندی کی خبر منشیات کے ایک تاجر مصطفیٰ کے ذریعے پہنچی تھی۔

    ان کا کہنا ہے کہ ہم نے مرکزی انٹیلی جنس ایجنسی کو معلومات فراہم کیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں ان سے ایک انتہائی اہم موضوع پر بات کرنا چاہتا ہوں۔ ہمارے درمیان ملاقات کا وقت طے پا گیا۔ دو روز بعد یعنی 2 اگست کو ایک خاتون اور ایک اجنبی شخص ہمارے پاس آئے۔

    میں نے مصطفیٰ سے کہا کہ وہ ہوٹل میں میرا انتظار کریں، ہوسکتا ہے کہ مرکزی انٹیلی جنس کے لوگ آپ سے ملنا چاہیں گے، ہم نے انٹیلی جنس حکام سے ترکی زبان میں بات کی اور انہیں اس حوالے سے اپنے تحفظات سے بھی آگاہ کیا۔

    محمد ایمور نے کہا کہ چالیس روز قبل ملنے والی اطلاع کو کسی نے سنجیدگی سے نہیں لیا جس کے نتیجے میں گیارہ ستمبرکو تین ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے۔ اگر مصطفیٰ کی بات کو سنجیدگی سے لیا جاتا تو امریکا تباہی سے بچ جاتا۔