Tag: Discovered

  • کراچی: تیل وگیس چوری کیلئے بنایا گیا کنواں پکڑا گیا

    کراچی: تیل وگیس چوری کیلئے بنایا گیا کنواں پکڑا گیا

    کراچی پولیس نے ملیر ندی کے قریب تیل اور گیس کی چوری کے مقصد کے لیے بنایا گیا ایک کنواں پکڑ لیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کنواں غیر قانونی طور پر تیل اور گیس چوری کے لیے بنایا گیا تھا جہاں سے ایک نامعلوم شخص کی لاش کی موجودگی کی اطلاع بھی ہے۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ کنواں تیل چوری یا گیس چوری کیلئے بنایا گیا تھا اطراف میں گیس کی بدبو بھی پھیلی ہوئی ہے جس کے باعث ریسکیو اہلکاروں کو کنوئیں کے اندر جانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

    ’گیس باؤزر سے 700کلو گیس چوری کرتے تھے‘،ملتان دھماکے کا مرکزی ملزم ڈرائیور گرفتار

    پولیس کا کہنا ہے کہ پارکو اور سوئی گیس کے اہلکار بھی جائے وقوعہ پر موجود ہیں، پارکو حکام کے مطابق کنوئیں کی جگہ سے ان کی لائن دور ہے۔

    اس سے قبل کراچی کے ایک شخص کو بن قاسم میں مین سپلائی لائن سے تیل چوری کرتے ہوئے پکڑ کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا گیا تھا۔

    پولیس کے مطابق اشرف نامی شخص بن قاسم کے ولی ٹاؤن میں پاکرکو لائن سے تیل چوری کررہا تھا اس دوسران پولیس کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے کے بعد زخمی حالت میں گرفتار کیا گیا۔

  • خیبرپختونخوا میں تیل و گیس کا ذخیرہ دریافت

    خیبرپختونخوا میں تیل و گیس کا ذخیرہ دریافت

    ملکی معیشت کیلئے اچھی خبر آگئی، خیبرپختونخوا میں تیل و گیس کا بڑا ذخیرہ دریافت کرلیا گیا۔

    پاکستان آئل فیلڈ (پی او ایل) کے مطابق ٹل بلاک میں رزگیر ون کنویں سے تیل و گیس کا ذخیرہ ملا ہے، کنویں سے یومیہ 250 بیرل خام تیل اور 20 ملین میٹر اسٹینڈرڈ کیوبک گیس ملے گی۔

     پاکستان آئل فیلڈ ترجمان نے بتایا کہ کنویں کی کھدائی اس سال جنوری میں شروع کی گئی تھی، تیل و گیس کا کنواں پی او ایل، او جی ڈی سی اور پی پی ایل کی مشترکہ ملکیت ہے۔

    اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان آئل فیلڈ نے پاکستان اسٹاک ایکسچینج کو خط بھیج کر دریافت سے متعلق آگاہ کردیا۔

  • کراچی: زمین میں دفن کیا گیا بوریوں میں بھرا اسلحہ برآمد

    کراچی: صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں کے ڈی اے لینڈ سے بھاری اسلحہ برآمد ہوا ہے، اسلحہ بوریوں میں بھر کے زمین میں دفن کیا گیا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کے علاقے اسٹیل ٹاؤن لنک روڈ کے ڈی اے لینڈ سے بھاری اسلحہ ملا ہے، برآمد ہتھیاروں میں کئی ہتھیار 31 جنوری کو چوری ہوئے تھے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ کھدائی کے بعد نکالے گئے بورے نئے جبکہ اسلحہ پرانا ہے، ہتھیار حلیم عادل شیخ کے بھائی کی سیکیورٹی کمپنی کے تھے۔

    چوری کا مقدمہ 7 فروری کو شاہ لطیف میں درج ہوا تھا، شاہ لطیف اور اسٹیل ٹاؤن کے مقدمات میں ایک جیسے کئی نمبر موجود ہیں۔

    ذرائع کے مطابق 6 بوریوں سے ملنے والا زیادہ تر اسلحہ چوری شدہ ہے، بورے سے میٹل ڈیٹکٹر اور وائر لیس سیٹ بھی ملا ہے۔ تمام برآمد شدہ ہتھیار اور دیگر سامان اسٹیل ٹاون تھانے منتقل کردیا گیا ہے۔

  • مصر : 26 ہزار سال قدیم ’’پنیر‘‘ کے ٹکڑے دریافت

    مصر : 26 ہزار سال قدیم ’’پنیر‘‘ کے ٹکڑے دریافت

    قاہرہ : ماہرین آثار قدیمہ نے نوادراتِ سقرہ کے قبرستان میں کھدائی کے دوران 26 ہزار سال قدیم پنیر کے ٹکڑے دریافت کرلیے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ پنیر کے یہ ٹکڑے 664-525قبل مسیح کے درمیان کے ہیں۔

    رپورٹ میں مصری نوادرات کی وزارت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ آثار قدیمہ کی ایک ٹیم کو مٹی کے کئی برتن ملے ہیں جن میں پنیر کو ڈیموٹک رسم الخط سے سجایا گیا ہے، یہ ایک قدیم مصری تحریری شکل ہے۔

    ماہرین کی ٹیم نے نوادراتِ سقرہ کے قبرستان میں کھدائی کے دوران اس کے علاوہ اور بھی کنٹینرز دریافت کیے ہیں جو جلد ہی کھولے جائیں گے۔

    یاد رہے کہ اس سے قبل اسی مقام پر کھدائی کے دوران سقرہ کے مقبرے سے 100 سے زیادہ سرکوفگی (sarcophagi)دریافت کیے گئے تھے۔

  • کھدائی کے دوران قدیم تاریخی مقام دریافت

    کھدائی کے دوران قدیم تاریخی مقام دریافت

    برطانیہ میں تعمیراتی کام کے دوران آثار قدیمہ ظاہر ہوگئے جس نے لوگوں کو حیران کردیا۔

    برطانوی جزائر آؤٹر ہیبرائڈز میں آبی انجینیئرز کی جانب سے نئے پائپوں کی تنصیب کے لیے کی گئی کھدائی میں قرون وسطیٰ کی ایک نایاب جگہ دریافت ہوئی ہے۔

    یہ جگہ، جس کے متعلق خیال کیا جارہا ہے کہ 500 سال قبل بھیڑوں کو پالنے کے لیے استعمال کی جاتی تھی، لوئس کے جزیرے میں گریس کے قریب اسکاٹش ملازمین نے دریافت کی۔

    جگہ سے گڑھے، پتھر کی چیزیں اور کچھ 100 ٹکڑے برتنوں کے ساتھ کوڈ اور ہیڈوک نامی مچھلیوں اور دیگر غیر شناخت شدہ جانوروں کی بڑی ہڈیاں دریافت ہوئیں۔

    اس جگہ کی تاریخ کا تعین چودہویں اور سولہویں صدی کے درمیان کیا جارہا ہے۔

    یہ عرصہ اس دور پر محیط ہے جب ان جزائر پر حکمرانی کرنے والے لارڈز کی سلطنت اختتام کو پہنچی اور جان مکڈونلڈ دوم کی آبائی زمینیں اور خطابات اسکاٹ لینڈ کے جیمز چہارم کی جانب سے 1493 میں ضبط کر لیے گئے۔

    ماہر آثار قدیمہ الیسٹیئر ریس کا کہنا تھا کہ دریافتوں نے جزیرے پر گزارے گئے دور کے متعلق سمجھنے میں مدد دی۔

    ریس نے کہا کہ ہمارے پاس مغربی جزائر کے متعلق قرون وسطی کے بہت قلیل شواہد تھے، ایک وجہ عمارتوں کی ساخت ہوسکتی ہے اور ممکنہ طور پر ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ بعد کے بلیک ہاؤس بستیوں نے ابتدائی شواہد کو مبہم کردیا ہو۔

  • ایچ آئی وی ایڈز کی نئی قسم دریافت

    ایچ آئی وی ایڈز کی نئی قسم دریافت

    مغربی یورپی ملک نیدر لینڈز یا ہالینڈ میں کی جانے والی ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ وہاں کئی دہائیوں سے ایچ آئی وی کی ایک متعدی قسم پھیل رہی تھی۔

    رپورٹ میں بتایا کہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے ماہرین کی جانب سے یورپ میں ایچ آئی وی وائرس پر کی جانے والی تحقیق سے معلوم ہوا کہ نیدر لینڈز میں مہلک وائرس کی ایک متعددی قسم کئی دہائیاں قبل ہی پھیلنا شروع ہوئی۔

    ماہرین نے مختلف یورپی ممالک کے ایچ آئی وی وائرس کے شکار مریضوں کے ڈیٹا کا جائزہ لیا تو انہیں 17 ایسے کیسز ملے جو کہ باقی ایچ آئی وی مریضوں سے مختلف تھے۔

    مذکورہ 17 میں سے دو مریضوں کا تعلق یورپ کے مختلف ممالک سے تھا جبکہ بقیہ 15 مریض نیدر لینڈز کے تھے اور ان میں ایچ آئی وی کی ایک ہی قسم کی تشخیص ہوئی تھی۔

    سائنس دانوں نے بعد ازاں نیدر لینڈز کے تمام ایچ آئی وی مریضوں کے ڈیٹا کا جائزہ لیا تو انہیں 109 مریض ایسے ملے جو ایک ہی طرح کے متعددی وائرس کا شکار ہوئے تھے۔

    ماہرین کو معلوم ہوا کہ 109 افراد 1990 سے سال 2000 کے درمیان ایچ آئی وی کی امریکا اور یورپ میں پائی جانے والی عام قسم بی کی ذیلی قسم جسے سائنسدانوں نے وی بی کا نام دیا ہے، سے متاثر ہوئے۔

    ڈیٹا سے معلوم ہوا کہ ایچ آئی وی کی مذکورہ قسم سے متاثر ہونے والے افراد کا مدافعتی نظام دیگر اقسام کے مقابلے زیادہ کمزور پڑ جاتا ہے، تاہم ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوا کہ مذکورہ قسم کا ایچ آئی وی کا عام ادویات سے بھی علاج ممکن ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ نیدر لینڈز میں دریافت ہونے والی ایچ آئی وی کی نئی قسم 2010 کے بعد کم متعدی ہونا شروع ہوئی اور اب وہ پہلے جیسی خطرناک نہیں رہی۔

    سائنسدانوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ایچ آئی وی کی نئی قسم کا دریافت ہونا خطرے کی بات نہیں، دنیا بھر میں مذکورہ مرض کی بھی کئی قسمیں ہیں اور ہر خطے میں الگ قسم پائی جاتی ہے۔

    یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ دنیا میں پہلی بار ایچ آئی وی جسے (ہیومن امیونیو ڈیفی شنسی وائرس) کہتے ہیں، اسے 1980 کی دہائی میں جنوبی افریقہ میں دریافت کیا گیا تھا۔

    اس سے قبل بھی مذکورہ وائرس دنیا میں موجود تھا مگر میڈیکل سائنس کے فقدان کی وجہ سے اس کی تشخیص نہیں ہو سکی تھی۔

    مذکورہ وائرس خطرناک موذی مرض ایڈز یعنی (اکوائرڈ امیونٹی ڈیفی شنسی سنڈروم) کا سبب بنتا ہے، جس میں 10 سال کے اندر ہی انسان کی موت واقع ہوجاتی ہے۔

    عام طور پر ایچ آئی وی کی تشخیص کے بعد ادویات سے مریض کا وائرس ایڈز میں تبدیل نہیں ہوتا، تاہم بعض اوقات احتیاط نہ کرنے اور مکمل علاج نہ کروانے پر ایچ آئی وی کا مریض ایڈز کا شکار بن جاتا ہے۔

    ایچ آئی وی وائرس اور ایڈز کو عام طور پر لوگ ایک ہی چیز سمجھ لیتے ہیں، تاہم حقیقت میں ایچ آئی وی میں مبتلا ہونا ایڈز کا مریض بن جانا نہیں ہوتا۔

  • عمان میں 4 ہزار سال پرانی دریافت

    عمان میں 4 ہزار سال پرانی دریافت

    مسقط: عمان میں 4 ہزار سال پرانا بورڈ گیم دریافت ہوگیا، یہ بورڈ گیم عمان میں برونز ایج سے تعلق رکھتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق ماہرینِ آثارِ قدیمہ کی ایک ٹیم نے عمان میں 4 ہزار سال پرانا بورڈ گیم دریافت کیا ہے۔

    بورڈ گیم عمان میں برونز ایج سے تعلق رکھتا ہے، یہ دریافت پولینڈ میں وارسا کی یونیورسٹی کے سینٹر آف میڈیٹرینین آرکیالوجی اور عمان کی وزارت برائے ورثہ و سیاحت نے کی ہے۔

    عمان اور پولینڈ کے اس مشترکہ پروجیکٹ کا مقصد شمالی عمان میں الحجر نامی پہاڑی سلسلوں میں قدیم انسانی آباد کاری کی چھان بین کرنا ہے۔

    ماہرین سنہ 2015 سے اس خطے کا تجزیہ کر رہے ہیں اور اب تک متعدد دریافتیں ہوچکی ہیں جن میں سے اکثر دریافتیں قبل مسیح سے تعلق رکھتی ہیں۔

    وارسا کی یونیورسٹی کی پریس ریلیز کے مطابق ابھی ٹیموں کی توجہ کانسی کے دور کی باقیات پر ہے جن میں سے ایک دریافت مذکورہ بالا بورڈ گیم کی ہے۔

  • قدیم چینی مِنگ عہد کے مقبرے دریافت

    قدیم چینی مِنگ عہد کے مقبرے دریافت

    چین کے شمالی صوبے شنشی میں سڑک کی تعمیر کے لیے شروع کی گئی کھدائی کے دوران مِنگ عہد (1644-1368) کے اینٹوں سے بنے تین مقبرے دریافت ہوئے ہیں

    مقبرے چھانگژی شہر کے لوژو ڈسٹرکٹ میں واقع ہیں اس علاقے میں کھدائی گزشتہ سال سڑک کی تعمیر کے دوران شروع کی گئی تھی۔

    مقبروں پر مِنگ عہد کے خوبصورت نقش ونگار بنے ہوئے ہیں جن میں سورج، چاند اور دیگر چینی افسانوی عناصر کی تصویریں ہیں۔

    شنشی کے آثار قدیمہ کے صوبائی انسٹی ٹیوٹ کے مطابق مقبروں کی ساخت اور دریافت ہونے والے نمونوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ مِنگ عہد کے ابتدائی دور کے خاندانی مقبرے ہوسکتے ہیں۔

    ایک مقبرے کے چیمبر کی چھت گرچکی ہے اور اندر صرف چند دیواریں باقی ہیں، ماہرین نے تحفظ کے لیے دیواروں پر بنے کچھ نقش ونگار کو علیحدہ کیا ہے۔

    دیگر دو چیمبروں کی دیواروں پر بنے نقش ونگار  محفوظ ہیں۔

  • انسانی تاریخ کا سب سے بڑا دمدار ستارہ دریافت

    انسانی تاریخ کا سب سے بڑا دمدار ستارہ دریافت

    بین الاقوامی ماہرین نے انسانی تاریخ کا سب سے بڑا دمدار ستارہ دریافت کیا ہے جو اب سے 10 سال بعد ہمارے نظام شمسی کے قریب سے گزرے گا۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق انسانی تاریخ میں سب سے بڑا دمدار ستارہ (کومٹ) دریافت ہوا ہے جو 100 سے 200 کلومیٹر وسیع ہے اور یہ سنہ 2031 میں ہمارے نظام شمسی کے قریب سے گزرے گا۔

    یونیورسٹی آف پینسلوانیا کے پروفیسر گیری برنسٹائن اور ان کے پی ایچ ڈی شاگرد پیڈرو برنارڈینیلائی نے مشترکہ طور پر اسے دریافت کیا ہے اور اسی بنا پر اسے برنسٹائن برنارڈینیلائی دمدار ستارے کا نام دیا گیا ہے۔

    سنہ 2031 میں یہ زمین سے قریب ہوگا جسے دیکھنے کےلیے صرف ایک دوربین درکار ہوگی، حالانکہ جتنے دمدار ستارے ہم دیکھ چکے ہیں یہ ان سے ایک ہزار گنا بڑا ہے۔

    یہ دیو نما دمدار ستارہ نظام شمسی سے باہر لاکھوں کروڑوں برس سے زیرِ گردش ہے اسی لیے یہ زمین سے دریافت ہونے والا بعید ترین دمدارستارہ بھی ہے جس کی قربت پر اسے دیکھتے ہوئے نظام شمسی اور کائنات کے ارتقا کو سمجھنے میں مدد مل سکے گی۔

    چلی میں واقع سیرو ٹولولو انٹر امریکن رصد گاہ پر نصب چار میٹر قطر کی دوربین سے اسے دریافت کیا گیا ہے۔ اس دوربین پر ڈارک انرجی کیمرہ بھی نصب ہے۔ اس دوربین سے حاصل شدہ 6 سالہ ڈیٹا کا صبر آزما تجزیہ کرکے یہ دمدار ستارہ دریافت کیا گیا ہے۔

    اس چھ سالہ ڈیٹا کو چھاننے کےلیے یونیورسٹی آف الی نوائے کے سپر کمپیوٹنگ مرکز سے مدد لی گئی، اس دوران ایک ہی فلکیاتی جسم کو 32 مرتبہ دیکھا گیا اور وہ یہی دمدار ستارہ تھا۔

    دمدار ستارے کیا ہوتے ہیں؟

    دمدار ستارے گرد و غبار اور برف کے گولے ہوتے ہیں۔ جب یہ سورج کی سمت سفر کرتے ہیں تو ان کی برف پگھل کر طویل دم کی شکل اختیار کرلیتی ہے اور اسی مناسبت سے انہیں دمدار ستارے کہا جاتا ہے۔

    یہ بھی نظام شمسی کے ساتھ ہی تشکیل پاتے ہیں لیکن بعد میں ان کے انتہائی طویل اور بیضوی مداروں سے یہ نظام شمسی کے گرد چکر کاٹ رہے ہیں۔

    دمدار ستارے کا سب سے اہم حصہ مرکزہ یا نیوکلیئس ہوتا ہے جو قدرے ٹھوس برف، گرد و غبار اور گیس وغیرہ پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان کی دمیں لاکھوں بلکہ کروڑوں میل لمبی ہوسکتی ہیں۔

  • دنیا کی نایاب ترین اڑنے والی گلہری دریافت

    دنیا کی نایاب ترین اڑنے والی گلہری دریافت

    ماہرین نے پہلی بار دنیا کا نایاب ترین ممالیہ جانور دریافت کرلیا ہے، یہ اڑنے والی گلہری ہے اور اسے پہلی بار ہمالیہ کے دامن میں دیکھا گیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق آسٹریلوی سائنس دانوں نے ہمالیہ کے دامن میں دنیا کا نایاب ترین ممالیہ جانور دریافت کیا ہے۔ یہ ایک اڑن گلہری ہے جو ایک میٹر سے زیادہ لمبی ہوتی ہے اور اس کا وزن 2.5 کلو ہوتا ہے۔

    سائنس دان اسے تقریباً 130 سالوں سے جانتے ہیں، لیکن پہلے سمجھا جاتا تھا کہ اس کی واحد انتہائی نایاب قسم پاکستان کی دور دراز وادیوں میں ہی رہتی ہے، لیکن اب آسٹریلیا اور چین کے محققین نے اس اڑن گلہری کی دو مزید اقسام کا پتہ چلایا ہے، جن کے بارے میں سائنس کو پہلے علم نہیں تھا۔

    آسٹریلین میوزیم کے اہم سائنس دان پروفیسر کرسٹوفر ہیلگن اور ریسرچ ایسوسی ایٹ اسٹیفن جیکسن کی یہ دریافت پیر کو زولوجیکل جرنل آف لینن سوسائٹی میں شائع ہوئی ہے۔

    اون رکھنے والی اس اڑتی گلہری کے عجائب گھر میں موجود نمونوں سے حاصل کردہ معلومات استعمال کرتے ہوئے اور اب تک کی گئی عملی مہمات کا ڈیٹا استعمال کر کے ان کی ٹیم نے تصدیق کی ہے کہ یہ بڑی اور روئیں دار گلہریاں تین علیحدہ مقامات پر مختلف اقسام کی آبادیاں بنا چکی ہیں، جن میں سے دو اقسام بالکل نئی ہیں۔

    انہیں تبت کی اونی اڑن گلہری اور چینی صوبہ یونان کی اونی اڑن گلہری کے نام دیے گئے ہیں۔

    پروفیسر ہیلگن کہتے ہیں کہ یہ دریافت ماہرینِ حیوانات کو نئی سائنس بلکہ نئے ممالیہ جانوروں کی طرف لے جائے گی، یہ دنیا کی سب سے بڑی گلہریاں ہیں اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ان کو سنہ 2021 میں سائنسی نام دیا جا رہا ہے۔

    نرم رواں رکھنے والی گلہریوں کی یہ نئی اقسام جینیاتی اور جسمانی اعتبار سے دوسری گلہریوں سے کافی مختلف ہیں۔ پھر یہ دنیا کی چھت پر رہتی ہیں یعنی ہمالیہ کے دامن اور تبت کی سطح مرتفع پر۔

    ڈاکٹر جیکسن کے مطابق یہ گلہریاں 4 ہزار 800 میٹرز کی بلندی پر رہتی ہیں، یہ ماؤنٹ ایورسٹ کی آدھی بلندی بنتی ہے، جہاں زیادہ تر علاقہ انسانی آبادی سے خالی ہے اور بہت کم جانور یہاں آباد ہوتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ایک میٹر لمبی ریشمی رواں رکھنے والی یہ گلہری دنیا میں سب سے بڑی ہے۔ یہ رات کو جاگنے والا جانور ہے اور اس کی لومڑی جیسی لمبی دم ہے۔

    چین میں ان اونی اڑن گلہریوں کی آبادی کے حوالے سے شبہات تو پہلے سے موجود تھے لیکن اس کا کوئی دستاویزی ثبوت نہیں تھا۔ مشرقی ہمالیہ کے خطے میں جو یونانی اونی اڑن گلہری دریافت ہوئی ہے، وہ عالمی حیاتی تنوع کے تین مقامات کا سنگم ہے، ہمالیہ، جنوب مغربی چین کے پہاڑ اور ہند برما۔

    دوسری نئی قسم، تبتی اونی اڑن گلہری، جنوبی سطح مرتفع تبت میں پائی جاتی ہے جو چین کے علاقے تبت اور بھارتی ریاست سکم کے درمیان ہے۔

    سائنس دانوں کو امید ہے کہ تبتی اونی اڑن گلہری اب بھی چین، بھارت اور بھوٹان کے اونچے مقامات پر ہوگی۔ اس گلہری کی تینوں اقسام ان مقامات سے اوپر ہی رہتی ہیں جہاں درخت اگ سکتے ہیں یعنی 24 سو میٹر سے اوپر۔

    ڈاکٹر جیکسن نے کہا کہ ابھی بہت سی معلومات موجود نہیں ہیں، لیکن دانت بہت ہی خاص ہوتے ہیں اور یہ صنوبر کے باریک پتوں سے خوراک حاصل کرتی ہیں، جو ایک غیر معمولی خوراک ہے۔

    یہ دور دراز علاقوں میں رہتی ہیں اور ان کی تمام ہی اقسام شکار، اپنے قدرتی مساکن سے محروم ہونے اور درجہ حرارت بڑھنے کی وجہ سے مسائل سے دو چار ہیں۔