Tag: Discovered

  • کویت میں تیل کے نئے ذخائر دریافت

    کویت میں تیل کے نئے ذخائر دریافت

    کویت سٹی: کویت کے وزیر تیل و بجلی نے تیل کی نئی فیلڈز دریافت ہونے کا اعلان کیا ہے، اس کے ساتھ پرانی آئل فیلڈز میں بھی توسیع کا اعلان کیا ہے۔

    کویتی میڈیا کے مطابق وزیر تیل و بجلی اور پانی ڈاکٹر محمد الفارس نے کویت آئل کمپنی کے ذریعے ملک کے مختلف خطوں کی جراسک لیرز میں تیل کی 2 نئی فیلڈز کی دریافت کے انکشافات کے علاوہ فیلڈ کی ترقیاتی کارروائیوں کے حصے کے طور پر بڑی برقان فیلڈ کے شمالی حصے میں توسیع کا بھی اعلان کیا ہے۔

    وزیر کا کہنا تھا کہ پہلی دریافت حومہ فیلڈ میں کی گئی جو کویت کے شمال مغربی حصے میں واقع ہے جس پر حال ہی میں ایک تھری ڈائمینشنل تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے سروے کیا گیا تھا۔

    ڈرلنگ کے بعد پتہ چلا کہ اس فیلڈ کا رقبہ 70 مربع کلو میٹر تک پھیلا ہوا ہے جس کی پیداواری صلاحیت روزانہ 14 سو 52 بیرل ہلکے تیل کی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اس دریافت کو بہت معاشی اہمیت حاصل ہے کیونکہ اس نے کویت کے مغربی اور شمال مغربی حصوں میں واقع ان بڑے علاقوں کی طرف اشارہ کیا ہے جو کویت آئل کمپنی کے 2 ہزار 40 اسٹریٹجک منصوبے کے مطابق تیل کے ذخائر اور پیداوار کی صلاحیت میں اضافہ کرنے میں براہ راست حصہ ڈالتے ہیں۔

    کویتی وزیر کے مطابق 2 نئی دریافتوں سے ملک کے شمالی حصے میں اسٹریٹجک اہمیت بڑھ گئی ہے کیونکہ ان علاقوں کی دریافت پہلے نہیں کی گئی تھی۔

    انہوں نے بتایا کہ بڑی برقان فیلڈ کے شمال وراہ، مودود اور برقان کے ذخیروں میں بھی روایتی تیل دریافت کیا گیا ہے کیونکہ اس فیلڈ کی یومیہ حد کا تعین کرنے کے لیے گزشتہ برس 2020 میں کھودے گئے کئی کنوؤں سے تیل تجارتی مقدار میں بہہ رہا تھا، اس کی 2000 بیرل سے زائد کی پیداواری شرح تھی جو کہ مزید ذخائر شامل کرنے کی راہ ہموار کرتی ہے۔

    وزیر کا کہنا تھا کہ نتائج کویت آئل کمپنی کو آسان اور کم لاگت کے ذخائر تک رسائی فراہم کرتے ہیں جو ممالک اور تیل کمپنیوں کے مابین اپنے مسابقتی فائدے کو برقرار رکھنے کے لیے کمپنی کی کوششوں کی حمایت کرتا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پیداوار کی مقدار میں اضافہ کرنے کے لیے کمپنی دریافت شدہ فیلڈ میں نئے کنویں کھودے گی۔

    الفارس نے سال 2020 میں کویت آئل کمپنی کی ان تینوں دریافتوں کے حصول میں کامیابی کی تعریف کی، انہوں نے کویت کے ایک روشن مستقبل کو یقینی بنانے کے لیے کویت آئل کمپنی کی تلاش اور ترقیاتی کاموں میں لچک اور واضح عزم کو نوٹ کرتے ہوئے تاریک ترین حالات میں تیل کے شعبے کی صلاحیت پر بھی زور دیا۔

  • دھات کھانے والا بیکٹیریا دریافت

    دھات کھانے والا بیکٹیریا دریافت

    کیلی فورنیا: امریکی ماہرین نے حادثاتی طور پر ایک صدی قدیم ایسا بیکٹیریا دریافت کیا ہے جو دھات کھاتا ہے، تاحال ماہرین اس کے ٹھوس ثبوت نہیں تلاش کر سکے۔

    یہ بیکٹیریا کیلی فورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (کیل ٹیک) کے سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے اور ان کے خیال میں دھات کھانے والا یہ بیکٹیریا ایک صدی سے زائد عرصے سے موجود ہے۔

    یہ جرثومے ایک معدنی دھات کے ساتھ مختلف تجربات کے دوران حادثاتی طور پر دریافت ہوئے۔

    ہوا یوں کہ کیل ٹیک میں انوائرمینٹل مائیکروبیالوجی کے پروفیسر ڈاکٹر جیرڈ لیڈبیٹر نے اپنے دفتر کے سنک پر مینگنیز لگا ہوا ایک گلاس چھوڑا۔

    کیمپس کے باہر کام کی وجہ سے وہ کئی ماہ تک اپنے دفتر نہ آسکے لیکن جب وہ اپنے دفتر واپس آئے تو انہوں نے دیکھا کہ اس گلاس پر سیاہ مواد لگا ہوا تھا۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ آکسڈیسائزڈ مینگنیز تھا اور اس مرکب کو بیکٹیریا نے بنایا تھا۔

    پروفیسر جیرڈ کا کہنا تھا کہ یہ اس نوعیت کا پہلا بیکٹیریا ہے جو اپنے ایندھن کے طور پر مینگنیز کو استعمال کرتا ہے، یہ ان جرثوموں کا ایک شاندار پہلو ہے کہ وہ ایسے عناصر جیسے دھات جیسی چیزوں کو بھی ہضم کر سکتے ہیں اور اس کی توانائی کو کام میں لا سکتے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ اس بات کے شواہد ملے ہیں کہ اس نوع سے تعلق رکھنے والے بیکٹیریا زمین میں موجود پانی میں رہتے ہیں، بیکٹیریا پانی میں موجود آلودگی کو صاف کرتا ہے۔

    سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ دریافت ان کو زمین کے عناصر اور زمین کے ارتقا میں دھاتوں کے کردار کو سمجھنے میں مدد دے سکتی ہے۔

    اس سے قبل 1873 میں میرین ریسرچرز اس بیکٹیریا کی موجودگی سے آگاہ تھے لیکن وہ اس کی نوعیت کو بیان نہیں کر سکے تھے۔

  • فریج کی صفائی کے دوران 25 سال پرانی پیسٹری دریافت

    فریج کی صفائی کے دوران 25 سال پرانی پیسٹری دریافت

    لاک ڈاؤن کے دوران ایک امریکی شہری نے گھر کی صفائی کرتے ہوئے فریزر سے 25 سال پرانی پیسٹری دریافت کرلی، مذکورہ پیسٹری اس کی والدہ نے بنائی تھی جو انہوں نے چکھ کر بھی دیکھی۔

    سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر سلسلہ وار ٹویٹس میں ایک امریکی شہری مائیکل پیٹرک نے بتایا کہ لاک ڈاؤن میں ایک فائدہ یہ ہوا کہ اس کی والدہ نے اپنے جثیم فریج کی نیچے تک صفائی کر ڈالی۔

    اس نے بتایا کہ فریزر میں سے اسے ایک پیسٹری ملی جس پر ایکسپائر ہونے کی تاریخ مارچ 1995 ہے۔ مائیکل کے مطابق یہ پیسٹری ان کے اپریل 1995 اور 1997 میں پیدا ہونے والے بھائیوں سے بھی قدیم ہے۔

    اپنے ایک اور ٹویٹ میں مائیکل نے بتایا کہ ان کی والدہ کہہ رہی ہیں کہ یہ پیسٹری ابھی بھی قابل استعمال ہے اور اسے کسی میٹھے میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔

    بعد ازاں والدہ نے اس پیسٹری سے بنے میٹھے کو نہایت شوق سے کھایا۔ ایک اور ٹویٹ میں انہوں نے بتایا کہ جس فریج میں یہ رکھی تھی وہ بھی 30 سال پرانا ہے۔

    مائیکل کی اس ٹویٹ پر ہزاروں افراد نے اپنا ردعمل ظاہر کیا، ایک ٹویٹر صارف کا کہنا تھا کہ اس پیسٹری نے بدلتی تاریخ کا بھی مشاہدہ کیا ہے۔

  • وہ سیارہ جہاں دھاتیں پگھل کر ہوا میں اڑ جاتی ہیں

    وہ سیارہ جہاں دھاتیں پگھل کر ہوا میں اڑ جاتی ہیں

    سوئٹزرلینڈ کے ماہرین نے ایسا سیارہ دریافت کرلیا ہے جہاں پر لوہے کے قطروں کی بارش ہوتی ہے اور اس کا درجہ حرارت4 ہزار 400 فارن ہائیٹ ہے۔

    حال ہی میں دریافت کیا گیا یہ سیارہ زمین سے 640 نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے اور اس کا نام واسپ ۔ 76 بی رکھا گیا ہے۔

    اس سیارے کو سوئٹزرلینڈ کی جنیوا یونیورسٹی کے محققین نے دریافت کیا ہے جنہوں نے چلی میں نصب یورپی سدرن اوبزرویٹری کی ٹیلی اسکوپ کے ذریعے اس کا مشاہدہ کیا۔

    جنیوا یونیورسٹی کے پروفیسر ڈیوڈ کے مطابق دن میں اس سیارے کا درجہ حرارت 4 ہزار 400 فارن ہائیٹ (2 ہزار 426 سینٹی گریڈ) رہتا ہے جبکہ شام کے وقت یہاں بارش ہونے لگتی ہے، یہ الگ بات ہے کہ وہ بارش دھاتی ہوتی ہے۔

    تصوراتی خاکہ

    سیارہ دن اور رات میں انتہائی موسموں کا حامل ہے۔ یہ سیارہ اس رخ پر گردش کرتا رہتا ہے کہ اس کا ایک حصہ مستقل طور پر اپنے سورج کے سامنے رہتا ہے  نتیجتاً اس حصے پر قیامت خیز گرمی ہوتی ہے جو دھاتوں کو پگھلا دیتی ہے۔

    اس کے بعد ان پگھلی ہوئی دھاتوں کے قطرے اڑ کر سیارے کے دیگر نسبتاً ٹھنڈے حصوں پر گرتے ہیں۔

    دن کے وقت دھاتوں کے بخارات کی طرح اڑ جانے کے بعد شام کے وقت گرمی کم ہونے پر ان کے بادل بن جاتے ہیں اور پھر اس میں سے دھاتوں کے قطروں کی بارش ہونے لگتی ہے۔

    یہاں چلنے والی ہوا کی رفتار 11 ہزار 784 میل فی گھنٹہ ہے۔ رات کے وقت یہاں کا درجہ حرارت 18 سو فارن ہائیٹ (982 سینٹی گریڈ) ہوجاتا ہے۔

    سائنسدانوں کے مطابق یہاں دن اور رات کا صرف موسم ہی الگ نہیں بلکہ کیمسٹری بھی الگ ہے۔ ان کے مطابق اس طرح کے سیاروں کی دریافت سے ہمیں اپنی کائنات میں پائے جانے والے مختلف موسموں کے بارے میں جاننے میں مدد ملے گی۔

  • انسانی قد کے برابر پینگوئن کی باقیات دریافت

    انسانی قد کے برابر پینگوئن کی باقیات دریافت

    نیوزی لینڈ میں کچھ روز قبل انسانی قد کے نصف ایک طویل القامت طوطے کی باقیات دریافت کی گئی تھیں، اب وہیں سے ایک ایسے پینگوئن کی باقیات دریافت ہوئی ہیں جو انسان جتنا قد رکھتا تھا۔

    شمالی کنٹربری میں واقع ایک مقام سے دریافت ہونے والی ان باقیات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس قدیم پینگوئن کی قامت 1.6 میٹر یعنی 5 فٹ 3 انچ تھی جبکہ اس کا وزن 80 کلو گرام تک ہوتا تھا۔ ماہرین کے مطابق یہ پینگوئن ساڑھے 6 کروڑ سے ساڑھے 5 کروڑ سال قبل کے درمیانی عرصے میں زمین پر موجود تھے۔

    اس پرندے کو مونسٹر پینگوئن کا نام دیا گیا ہے اور اسے نیوزی لینڈ کے معدوم ہوجانے والے قوی الجثہ جانداروں کی فہرست میں شامل کرلیا گیا ہے جس میں پہلے سے ہی طوطے، عقاب، چمگادڑ اور کچھ اقسام کے پودے
    شامل ہیں۔

    کنٹربری میوزیم کے نیچرل ہسٹری شعبے کے سربراہ پال اسکو فیلڈ کا کہنا ہے کہ یہ پینگوئن اب تک معلوم تمام پینگوئن کی اقسام میں سب سے بڑے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق قدیم زمانوں میں پینگوئن کی جسامت عموماً بڑی ہوا کرتی تھی، موجودہ پینگوئن میں سب سے طویل القامت کنگ پینگوئن ہوتا ہے جس کی قامت 1.2 میٹر ہوتی ہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ بڑے پینگوئن کیوں معدوم ہوئے، شاید آبی جانوروں کی تعداد میں اضافے سے ان کے لیے مسابقت بڑھ گئی تھی۔

    اس وقت جائنٹ کچھوے اور شارکس وغیرہ کا بھی ارتقا ہونا شروع ہوگیا تھا۔

    مونسٹر پینگوئن کی یہ باقیات گزشتہ سال دریافت کی گئی تھیں اور اس کی جانچ کی جارہی تھی۔

    یاد رہے کہ بڑھتے ہوئے موسمی تغیرات کے باعث پینگوئن کی نسل کو معدومی کے خطرات لاحق ہیں، ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ 2060 تک پینگوئنز کی آبادی میں 20 فیصد کمی واقع ہوسکتی ہے جبکہ اس صدی کے آخر تک یہ معصوم پرندہ اپنے گھر کے چھن جانے کے باعث مکمل طور پر معدوم ہوسکتا ہے۔

  • شدید گرمی سے یورپ کے برفانی پہاڑوں میں جھیل نمودار ہوگئی

    شدید گرمی سے یورپ کے برفانی پہاڑوں میں جھیل نمودار ہوگئی

    جنوبی وسطی یورپ کے اہم پہاڑی سلسلے الپس کی بلندیوں پر ایک جھیل دریافت کی گئی ہے جس نے ماہرین کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔

    یہ جھیل برائن میسٹر نامی ایک کوہ پیما نے دریافت کی، جھیل الپس پہاڑی سلسلے کے سب سے بلند پہاڑ ماؤنٹ بلانک پر دیکھی گئی اور یہ سطح سمندر سے 11 ہزار 100 فٹ بلند ہے۔

    ماہرین کے مطابق اس جھیل کی تشکیل اس ہیٹ ویو کی وجہ سے ہوئی جس نے گزشتہ ماہ پورے یورپ کو بری طرح متاثر کیا۔ کوہ پیما میسٹر کا کہنا تھا کہ یہ نہایت خطرناک صورتحال ہے۔ صرف 10 دن کی شدید گرمی نے برفانی پہاڑ کو پگھلا کر ایک جھیل تشکیل دے دی۔

    میسٹر کا کہنا تھا کہ جس وقت وہ اس مقام پر پہنچے اس سے صرف 10 دن قبل ہی ایک اور کوہ پیما اس علاقے میں پہنچا تھا۔ اس وقت یہ حصہ برف سے ڈھکا ہوا تھا اور یہاں کسی جھیل کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔ صرف 10 دن میں یہاں ایک جھیل نمودار ہوگئی۔

     

    View this post on Instagram

     

    Time to sound the alarm… The problem here? These two pictures were taken only 10 days apart… It was taken earlier on June 28th, the second one was shared by Paul Todhunter. Only 10 days of extreme heat were enough to collapse, melt and form a lake at the base of the Dent du Géant and the Aiguilles Marbrées That I know, this is the first time anything like that as ever happened. Southern Europe and the Alps have been struck by a massive heatwave with temperature ranging from 40 to 50 degrees, the below 0 freezing altitude was as high as 4,700m (15,400ft) and during the day temperatures as high as 10 degrees Celsius (50 F) were felt on top of Mont Blanc 4,810m (15,780ft)… This is truly alarming glaciers all over the world are melting at an exponential speed… My interview with @mblivetv can be found here! https://montblanclive.com/radiomontblanc/article/massif-du-mont-blanc-un-petit-lac-se-forme-a-plus-de-3000-m-daltitude-48453 #climbing #climber #climb #frenchalps #savoie #savoiemontblanc #hautesavoie #outdoors #globalwarming #mountaineering #mountains #mountain #montagne #montaña #montagna #montanhismo #mountaineer #alpinist #alpinism #alpinisme #alpinismo #alpi #alps #environment #savetheplanet #climatechange #montblanc @patagonia @beal.official @millet_mountain @blueiceclimbing

    A post shared by Bryan Mestre (@bryanthealpinist) on

    انہوں نے کہا کہ یہ اس قدر بلند حصہ ہے کہ یہاں پر صرف برف کی موجودگی ممکن ہے، ’جب ہم یہاں جاتے ہیں تو ہماری بوتلوں میں موجود پانی جم جاتا ہے‘۔

    یاد رہے کہ گزشتہ دنوں یورپ میں آنے والی ہیٹ ویو کے دوران کئی شہروں میں درجہ حرارت 46 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا، شدید گرمی کے باعث کئی افراد کی ہلاکتیں بھی سامنے آئیں۔

    یہ پہلی بار نہیں ہے کہ کلائمٹ چینج کی وجہ سے ہونے والی شدید گرمی کے باعث گلیشیئرز پر جھیلیں دیکھی جارہی ہیں۔ ماہرین اس سے قبل برفانی خطے انٹارکٹیکا میں بھی جھیلیں بننے کی تصدیق کر چکے ہیں۔

    کچھ عرصہ قبل برطانوی ماہرین نے سیٹلائٹ سے موصول ہونے والی ہزاروں تصویروں اور ڈیٹا کی بغور چھان بین کے بعد اس بات کی تصدیق کی تھی کہ قطب جنوبی یعنی انٹارکٹیکا میں برف کے نیچے جھیلیں بن رہی ہیں۔

    ماہرین کے مطابق یہ جھیلیں اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ وہاں موجود برف پگھلنے کے باعث اس کی تہہ کمزور ہو کر چٹخ رہی ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق سنہ 2000 سے انٹارکٹیکا کی برف نہایت تیزی سے پگھل رہی ہے اور اس عرصہ میں یہاں 8 ہزار کے قریب مختلف چھوٹی بڑی جھیلیں تشکیل پا چکی ہیں۔

  • ڈھائی کروڑاینڈرائیڈ موبائل ’مالویئر‘ سے متاثر ہونے کا انکشاف

    ڈھائی کروڑاینڈرائیڈ موبائل ’مالویئر‘ سے متاثر ہونے کا انکشاف

    واشنگٹن: رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ نیا مالویئر صارف کا ڈیٹا چوری نہیں کرتا بلکہ ایپس ہیک کرتا ہے اور زیادہ اشتہارات ڈسپلے کرتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ایک نیا اینڈرائیڈ مالویئر دریافت کیا گیا ہے جس نے ڈھائی کروڑ سے زائد ڈیوائسز کو ایپس بدل کر متاثر کیا ہے۔ یہ بات آن لائن سیکیورٹی کمپنی چیک پوائنٹ کی ایک رپورٹ میں سامنے آئی ہے جسے ایجنٹ اسمتھ کا نام دیا گیا ہے جس کی وجہ اس کا کسی ڈیوائس پر حملے کا طریقہ اور پکڑے جانے سے بچنا ہے۔

    رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ مالویئر صارف کا ڈیٹا چوری نہیں کرتا بلکہ ایپس ہیک کرتا ہے اور زیادہ اشتہارات ڈسپلے کرتا ہے تاکہ مالویئر کے آپریٹر ان ویوز سے منافع حاصل کرسکیں۔

    چیک پوائنٹ کے مطابق یہ مالویئر کسی ڈیوائس میں مختلف ایپس جیسے واٹس ایپ کے کوڈ میں کچھ حصوں کو بدل دیتا ہے اور انہیں اپ ڈیٹ ہونے سے روکتا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ اس مالویئر نے بھارت اور اس کے ارگرد کے ممالک ممکنہ طور پر پاکستان بھی میں صارفین کو زیادہ متاثر کیا ہے، جس کی وجہ اس خطے میں ایک تھرڈ پارٹی ایپ اسٹور 9 ایپس کی مقبولیت ہے۔

    چیک پوائنٹ کے مطابق یہ مالویئر فوٹو یوٹیلیٹی، گیمز اور سیکس پر مبنی ایپس میں چھپا ہوسکتا ہے اور جب کوئی صارف اسے ڈاؤن لوڈ کرلیتا ہے تو یہ خود کو گوگل کی ایپ کی شکل میں ظاہر کرتا ہے اور اپنا نام گوگل اپ ڈیٹر بتاتا ہے، جس کے بعد دیگر ایپس کے کوڈ بدلنے کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔

    رپورٹ میں تبایا گیا ہے کہ اس مالویئر کو آپریٹرز نے گوگل پلے اسٹور تک توسیع دینے کی کوشش کی تھی اور 11 ایپس میں اس کے سادہ ورژن کا کوڈ شامل کردیا تھا تاہم گوگل نے اب ان تمام مشتبہ ایپس کو پلے اسٹور سے ڈیلیٹ کردیا ہے۔

    اس مالویئر سے اینڈرائیڈ 5 اور 6 پر کام کرنے والی ڈیوائسز زیادہ متاثر ہوئی ہیں تاہم چیک پوائنٹ کا کہنا تھا کہ اپنی ایپس کو اپ ڈیٹ کردینا اس سے تحفظ دے سکتا ہے۔

  • سعودی عرب میں فرعون کے دور کے آثار قدیمہ دریافت

    سعودی عرب میں فرعون کے دور کے آثار قدیمہ دریافت

    ریاض: سعودی محکمہ آثارِ قدیمہ نے تیما میں فرعونی دور کے آثار دریافت کیے ہیں، جو تقریباً بارہ سو سال قبل مسیح کے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی کمیشن برائے سیاحت اور قومی ورثہ کے زیرِ اہتمام سعودی عرب کے تاریخی اور آثار قدیمہ کے اعتبار سے انتہائی اہمیت کے حامل شمال مغربی شہر تیماء میں کھدائی کے دوران ’حیرو گلیفی‘ کا ایک نسخہ دریافت ہوا ہے جس فرعون کی مہر بھی موجود ہے۔

    عرب خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ یہ آثار الزیدانیہ کے مقام سے دریافت ہوئے ہیں۔

    ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ انہیں کھدائی کے دوران ایک پھتر برآمد ہوا جس پر حیر گلیفی موجود تھی اور اس پر فرعونی بادشاہ ’رمسیس سوم‘ کی مہر بھی ثبت تھی۔

    ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ فرعونی بادشاہ ’رمسیس سوم‘ 12 سو سال قبل مسیح مصر کا حاکم تھا، تیما سے ایسی نوادرات کا دریافت ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ فرعون نے یہاں بھی قیام کیا ہوگا۔

    تیما کے ڈائریکٹر برائے آثار قدیمہ نے بتایا کہ جو نسخہ الزیدانیہ کے مقام سے دریافت ہوا ہے ایسے تصویری نقوش صرف فرعون کے زمانے میں استعمال ہوتے تھے۔

    واضح رہے کہ ’حیرو گلیفی‘ وہ نقوش ہیں جنہیں حروف کی ایجاد سے قبل لکھنے کےلیے استعمال کیا جاتا تھا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق کچھ ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے شمالی مغربی علاقوں میں فرعونی بادشاہ ’رمسیس سوم‘ کے قیام پر شک ہے۔

    خیال رہے کہ اس سے قبل تیماء سے نبطی، آرامی اور ثمودی اقوام کے آثار دریافت ہوئے تھے۔

    مزید پڑھیں : سعودی عرب سے ایک لاکھ سال قدیم آثاردریافت

    یاد رہے کہ گزشتہ برس ستمبر میں سعودی محکمہ آثارِ قدیمہ نے دارالحکومت ریاض کے نزدیک پتھر کے دور سے تعلق رکھنے والے آثار دریافت کیے تھے، جو ایک لاکھ سال قدیم کے ہیں۔

    یہ دریافت الخرج نامی پہاڑی سلسلے میں واقعے قصبے الشدیدہ میں ہوئی تھی اور یہ پہلی بار ہے کہ اس علاقے سے پتھر کے دور کی کوئی سائٹ دریافت ہوئی تھی۔

    یہ دریافت سعودی عرب اور فرانس کے درمیان سنہ 2011 میں ہونے والے معاہدے کے تحت کی جانے والی کھدائی کے نتیجے میں کی گئی تھی، سعودے شہزادے سلطان بن سلمان کی جانب سے اس دریافت کو بے پناہ سراہا گیا تھا۔

  • دریائے ٹیمز کے قریب جنگ عظیم دوئم کا بم دریافت، لندن ایئرپورٹ بند اور پروازیں منسوخ

    دریائے ٹیمز کے قریب جنگ عظیم دوئم کا بم دریافت، لندن ایئرپورٹ بند اور پروازیں منسوخ

    لندن : دریائے ٹیمز کے قریب جنگ عظیم دوئم کا بم دریافت ہوا، جس کے بعد لندن ایئرپورٹ بند اور پروازیں منسوخ کردی گئی جبکہ رائل نیوی اوربم ڈسپوزل اسکواڈبم ناکارہ بنانے میں مصروف ہیں۔

    غیر ملکی خبرایجنسی کے مطابق لندن میں دریائے ٹیمز کے قریب جنگ عظیم دوئم کا بم دریافت ہوا، بم ملنے کے بعد لندن ایئرپورٹ بند اور پروازیں منسوخ کردی گئی ہے جبکہ دریائے ٹیمز کا قریبی علاقہ ٹریفک کیلئے بھی بند کردیا گیا ہے۔

    رائل نیوی اوربم ڈسپوزل اسکواڈبم ناکارہ بنانے میں مصروف ہیں ، رائل نیوی کو بم لندن ایئرپورٹ کے رن وے کے قریب ملا۔


    مزید پڑھیں :  جنگِ عظیم دوئم میں استعمال ہونے والا طیارہ ،دریا میں گر کر تباہ


    یاد رہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں ہی ہانگ کانگ میں دوسری جنگ عظیم کے دوران ساڑھے چار سو کلو وزن بم برآمد ہونے سے افرا تفری پھیل گئی تھی، جس کے بعد طویل آپریشن کرکے بم میں سوراخ کرکے اس کو ناکارہ بنا دیا گیا تھا۔

    خیال رہے کہ دوسری جنگ عظیم کا آغاز جرمنی کے پولینڈ پر حملے سے ہوا تھا، جس کے بعد برطانیہ نے جرمنی کے خلاف اعلان جنگ کر دیا تھا ، اس جنگ میں 61 ملکوں نے حصہ لیا، جنگ سے 40 ملکوں کی سرزمین متاثر ہوئی اور لگ بھگ 5 کروڑ لوگ ہلاک ہوئے تھے۔

    دوسری جنگ عظیم 1939 سے 1945 تک جاری رہی تھی اور اس دوران ہزاروں کی تعداد میں لندن پر بم گرائے گئے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات  کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • ترکی: بازیاب ہونے والے مزید 3 نوجوان وطن واپس پہنچ گئے

    ترکی: بازیاب ہونے والے مزید 3 نوجوان وطن واپس پہنچ گئے

    اسلام آباد: ترکی سے بازیاب ہونے والے مزید 3 پاکستانی وطن واپس پہنچ گئے۔ نوجوانوں کی واپسی کے تمام اخراجات پاکستانی قونصل خانہ نے برداشت کیے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق گزشتہ دنوں ترک پولیس نے 6 پاکستانیوں کو اغوا کاروں کے چنگل سے بازیاب کروا کے مزید 3 پاکستانیوں کو وطن واپس بھیج دیا ہے۔ مغوی نوجوان عابد، ذیشان اور عدیل بازیابی کے بعد نجی ایئر لائن سے اسلام آباد پہنچ گئے ہیں۔

    دفتر خارجہ کے مطابق استنبول سے نوجوانوں کی وطن واپسی کے تمام اخراجات پاکستانی قونصل خانہ نے برداشت کیے ہیں۔

    مزید پڑھیں: 6 مغوی پاکستانی بازیاب، 4 انسانی اسمگلرز گرفتار

    یاد رہے رواں ماہ حکومت پاکستان کی درخواست پر ترک پولیس نے اغوا کاروں کے خلاف آپریشن کرتے ہوئے 6 پاکستانیوں کو بازیاب کروایا تھا۔ پاکستانی دفتر خارجہ اور سفارت خانے نے اس کی تصدیق کی تھی۔

    اس سے قبل ترکی سے 2 پاکستانی وطن واپس پہنچے تھے۔

    مزید پڑھیں: ترکی میں اغوا ہونےوالے 2 پاکستانی وطن واپس پہنچ گئے

    یاد رہے چارروز قبل ترکی سے دو پاکستانی وطن واپس پہنچے تھے۔