Tag: disease

  • پختونخواہ میں لمپی اسکن وائرس سے 5 ہزار سے زائد مویشی متاثر

    پختونخواہ میں لمپی اسکن وائرس سے 5 ہزار سے زائد مویشی متاثر

    پشاور: صوبہ خیبر پختونخواہ میں لمپی اسکن وائرس سے اب تک 5 ہزار سے زائد مویشی متاثر ہوچکے ہیں، 66 ہزار مویشیوں کی ویکسی نیشن کی جاچکی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق صوبہ خیبر پختونخواہ میں لمپی اسکن وائرس کیسز سے متعلق اعداد و شمار محکمہ لائیو اسٹاک نے جاری کر دیے، پہلا لمپی اسکن وائرس کا کیس 22 اپریل کو ڈیرہ اسماعیل خان میں رپورٹ ہوا تھا۔

    گزشتہ دو مہینے کے دوران صوبے میں مجموعی طور پر لمپی اسکن ڈیزیز سے 105 مویشی ہلاک ہوئے، سب سے زیادہ لکی مروت میں 18 اور چارسدہ میں 12 مویشی ہلاک ہوئے۔

    وائرس سے صوبے میں اب تک 5 ہزار 341 مویشی متاثر ہوئے ہیں، سب سے زیادہ بنوں میں 780، پشاور میں 750 اور شمالی وزیرستان میں 684 لمپی اسکن کیسز رپورٹ ہوئی ہیں۔

    لمپی اسکن سے متاثرہ 13 سو 59 مویشی صحت یاب ہوچکے ہیں اور 3 ہزار 877 زیر علاج ہیں۔

    صوبے بھر میں 66 ہزار 849 مویشیوں کو لمپی اسکن کی ویکسی نیشن مکمل ہوچکی ہے۔

  • جانوروں کی بیماریاں انسانوں میں منتقل ہونے کا خدشہ: عالمی ادارہ صحت کی وارننگ

    جانوروں کی بیماریاں انسانوں میں منتقل ہونے کا خدشہ: عالمی ادارہ صحت کی وارننگ

    عالمی ادارہ صحت جہاں ایک طرف تو متعدد وباؤں کے پھیلاؤ کے حوالے سے متنبہ کرچکا ہے، وہیں اب ادارے نے ایک اور وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ جانوروں کی بیماریاں اب انسانوں میں منتقل ہو رہی ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ بدلتے ہوئے موسم اور زمین کی بڑھتی ہوئی حدت دنیا کے سامنے سب سے بڑے چیلنج کے طور پر سامنے آئی ہے اور اس ساری صورتحال میں ایک طرف توخشک سالی کی وجہ سے انسانوں اور جانوروں کے خوراک کے مسائل جنم لینے لگے ہیں تو وہیں جانوروں کی بیماریاں اب انسانوں میں بھی منتقل ہونے لگی ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت کے ایمرجنسیز محکمے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ریان مائک نے دنیا کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ منکی پاکس اور لاسا بخار جیسی بیماریوں کا پھیلاؤ عام ہوچکا ہے اور ان کے تیزی سے پھیلنے کا خدشہ موجود ہے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث خشک سالی بڑھتی جارہی ہے جس سے انسان اور جانور بری طرح متاثر ہو رہے ہیں اور ساتھ ہی یہ خوراک کی تلاش سمیت دیگر عوامل میں اپنا رویہ تبدیل کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے جانوروں میں پائی جانے والی بیماریاں تیزی سے انسانوں میں منتقل ہو رہی ہیں جو تشویش ناک ہے۔

    ڈاکٹر ریان مائک نے لاسا بخار کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ حالیہ دنوں میں لاسا بخار کئی ممالک میں پھیل رہا ہے جو کہ دراصل افریقی خطے میں چوہوں میں پایا جانے والا وائرل بخار تھا، لیکن اب اسے انسانوں میں پھیلتے ہوئے دیکھا جا رہا ہے۔

    ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ماضی میں ایبولا وائرس کے محدود حد تک پھیلنے میں بھی پانچ سال تک لگ جاتے تھے مگر اب کسی وائرل بیماری کے پھیلاؤ میں 5 ماہ کا وقفہ بھی مل جائے تو اسے خوش قسمتی سمجھا جاتا ہے۔

    اسی طرح ڈاکٹر ریان مائک نے ماضی میں بندروں میں پائی جانے والی بیماری منکی پاکس کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ یقینی طور پر بیماریوں کے پھیلاؤ میں موسمیاتی تبدیلی کا دباؤ شامل ہے۔

    خیال رہے کہ عالمی ادارہ صحت کے ایمرجنسیز محکمے کے سربراہ نے یہ بیان ایسے وقت میں دیا ہے جب صرف افریقہ میں پائی جانے والی بیماری منکی پاکس کے دنیا کے 30 ممالک میں 550 تک کیسز رپورٹ ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے۔

  • کراچی میں گائے اور بھینسوں میں پھوڑوں کی جلدی بیماری، ڈیری فارمرز پریشان، مدد کی اپیل

    کراچی میں گائے اور بھینسوں میں پھوڑوں کی جلدی بیماری، ڈیری فارمرز پریشان، مدد کی اپیل

    کراچی : شہر قائد میں گائے اور بھینسوں میں پھوڑوں کی جلدی بیماری پھیلی گئی، ڈیری فارمرز نے وفاق اور وزیر اعظم سے مدد کی اپیل کردی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ڈیری فارمرز ایسوسی ایشن نے جانوروں کی جلدی بیماری پر وزیر اعظم کو خط لکھ دیا ، جس میں وفاق اور وزیر اعظم سے مدد کی اپیل کی ہے۔

    خط میں کہا گیا ہے کہ تقریباً 10لاکھ جانور مختلف بھینس باڑوں اور ڈیری فارمز میں موجود ہیں، کراچی میں گائے اور بھینسوں میں پھوڑوں کی جلدی بیماری پھیلی ہے۔

    ڈیری فارمرزایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ طبی ماہرین کے مطابق بیماری لمپی اسکن ڈیزیزہے، ڈیری فارمرز کو بیماری دداؤں کا پتہ نہیں، بیماری آہستہ آہستہ دیگر اضلاع میں بھی پھیل رہی ہے۔

    خط میں درخواست کی گئی ہے کہ فوری حکومتی سطح پر بیماری کے خاتمے کی کوشش کی جائےاور فارمر کو ویکسین اور ادویات فراہم کی جائیں۔

  • اب ویڈیو گیم علاج بھی کر سکے گا

    اب ویڈیو گیم علاج بھی کر سکے گا

    امریکا میں ایسا ویڈیو گیم تیار کیا گیا ہے جو ان بچوں کی مدد کر سکے گا جو توجہ کی کمی کے مرض اے ڈی ایچ ڈی کا شکار ہیں۔

    امریکی میڈیا کے مطابق بچوں میں توجہ کی کمی دورکرنے کے عام مرض اے ڈی ایچ ڈی کو دور کرنے والا ایک ویڈیو گیم بنایا گیا ہے جسے فوڈ اینڈ ڈرگ اتھارٹی (ایف ڈی اے) نے منظور کر لیا ہے۔

    اٹینشن ڈیفی سٹ ہائپر ایکٹو ڈس آرڈر (اے ڈی ایچ ڈی) کی کیفیت اکثر بچوں پر حملہ آور ہوتی ہے، یہ بچے چین سے نہیں بیٹھتے، پڑھنے یا کام پر ان کی توجہ کمزور ہوجاتی ہے، اور یکسوئی سے مختلف کام نہیں کر پاتے۔

    فیس بک کے سابق ایگزیکٹو نے آکیلی انٹر ایکٹوو کے ساتھ مل کر 2020 میں اینڈیورآر ایکس نامی گیم بنایا تھا جو بچوں میں اس کیفیت کو دور کرنے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔

    تقریباً ایک ہزار ڈاکٹرز نے اس گیم کو فائدہ مند پایا اور اب اسے ایف ڈی اے نے تجارتی پیمانے پر منظور کرلیا ہے۔

    اس کے بعد بالغان کی اے ڈی ایچ ڈی دور کرنے کے لیے ایک اور گیم کی تیاری جاری ہے، اس کے علاوہ آٹزم کے خلاف گیم پر بھی غور کیا جارہا ہے۔

    اینڈیور ایکس میں مختلف کارٹون کردار سامنے آتے ہیں جو 8 سے 12 سال تک کے بچوں کے لیے بنایا گیا ہے۔

  • لشمینیا بیماری ہے، اس کا علاج دوا سے ہوتا ہے، دم درود سے نہیں

    لشمینیا بیماری ہے، اس کا علاج دوا سے ہوتا ہے، دم درود سے نہیں

    خیبرپختونخواہ کا علاقہ جنوبی وزیر ستان ان دنوں ’لشمینیا‘ نامی بیماری کی زد میں ہے ، یہ بیماری ایک مچھر کے کاٹنے سے ہوتی ہے اور اس میں متاثرہ جگہ پر زخم ہوجاتے ہیں، ماہرین کے مطابق علاج مہنگا ہے اور ویکسین تاحال دریافت نہیں ہوسکی ہے۔

    جنوبی وزیر ستان میں لشمینیا کے لگ بھگ 350 کیسز ریکارڈ ہوچکے ہیں جبکہ اس سے قبل اٹک میں بھی اس حوالے سے دوسو سے زائد کیسز سامنے آئے تھے۔ یہ بیماری چھوٹےبھورے رنگ کے  مچھرڈنک مار نے پھیلتی ہے۔ یہ بھورا مچھر دیکھنے میں  تو عام مچھروں کی طرح ہی لگتا ہےلیکن انسانی جلد میں اسکا زہر پھیلنے لگتا ہے۔ مچھر کا شکار بننے کے فوری بعد اسکے اثرات سامنے نہیں آتے بلکہ مچھر کے ڈنک مارنے  اور دانہ نکلنے کے درمیان دو سے چار مہینے لگتے ہیں۔

    ایک بار جب دانہ نمودار ہوجاتا ہے تواس کا حجم بڑھنا شروع ہوجاتا ہے جس  کے سبب جلد مسلسل خشک ہوتی رہتی ہے اور اس پر کسی قسم کے مرہم ، لوشن یا  کریم کارگر ثابت نہیں ہوتے۔

    جنوبی وزیرستان میں ’لشمینیا‘ اس وقت  وبائی صورت اختیار کرچکا ہے  اور  مختلف علاقوں میں موصولہ اطلاعات کے مطابق لشمینیا سے سینکڑوں افراد متاثر ہوئے ہیں تاہم علاج کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے مریضوں کو دور دراز کے دیگر اضلاع بھیجا جارہا ہے۔جنوبی وزیرستان کے مختلف علاقوں کوٹکائی، بدر، مکین، کانیگرام، کڑامہ، سرا روغہ، شکتوئی، سروکئی اور زغزئی میں لشمینیا بیماری  سے سینکڑوں بچے اور نوجوان متاثر ہوئے ہے جبکہ مقامی ہسپتالوں میں انجیکشنز نہ ہونے کی وجہ سے متاثرہ افراد کو ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان بھیجا جارہا ہے۔

    مقامی خبر رساں ذرائع کے مطابق جنوبی وزیرستان کے ایڈیشنل سرجن ولی رحمن  کا کہنا ہے کہ اب تک لشمینیا کے 370 کے قریب کیسز رجسٹرڈ ہوئے ہیں جبکہ انجکشنز 350 کے لگ بھگ ہیں، ہر مریض کو 8 سے 10 انجیکشن لگتے ہیں جو کہ ان مریضوں کےلئے ناکافی ہیں، لہذا مریضوں کو ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان منتقل کیا جارہا ہیں لیکن وہاں پر بھی انجیکشن نہ ہونے کی وجہ سے یہ مریض پرائیویٹ علاج کروانے پر مجبور ہیں۔

    محکمہ صحت ترجمان ڈاکٹرشاہین  نے مقامی صحافتی ذرائع کو بتایا ہے کہ لشمینیا سے بچاؤ کی ایک انجیکشن تقریبا ساڑھے تین سو روپے کی ہے اور اس کی کوئی حفاظتی ویکسین فی الحال موجود نہیں۔ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ اس وائرس سے بچاؤ کیلئےصفائی کا خاص خیال رکھاجائے اور خود کو مچھروں سے بچایا جائے جب کہ گھروں میں مچھر مار اسپرے بھی کیا جانا چاہیے۔

    انہوں نے کہا کہ اس بیماری سے نوجوان بھی متاثر ہوئے ہیں تاہم بچوں کی تعداد کافی زیادہ ہیں۔

    دوسری جانب متاثرہ افراد کا کہنا ہے کہ انتظامیہ صحت کے بنیادی سہولیات فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے۔ متاثرہ افراد کو ریلیف دینے کےلئے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئے اور علاقے میں مچھر مار اسپرے نہ ہونے کے باعث لشمینیا مرض کے ساتھ ساتھ ملیریا اور ٹائیفائیڈ جیسے موضی امراض پھیلنے کا خدشہ بھی بڑھ گیا ہے۔

    متاثرین کا کہنا ہے کہ  ہیلتھ ڈائریکٹریٹ قبائلی اضلاع کی جانب سے لشمینیا مرض کے علاج کیلئے محکمہ صحت کو فراہم کردہ 300 گلوکینٹین انجیکشن منظور نظر افراد میں تقسیم کئے گئے ہیں جبکہ باقی لوگ پرائیویٹ علاج کرنے پر مجبور ہیں۔

     لشمینیا سے متاثرہ علاقوں کے مشران نے آج 10 اپریل کو پولیٹیکل کمپاؤنڈ میں جرگہ طلب کیا ہے جس میں  بیماری سے نبرد آزما ہونے کے لیے  حکومت  پر زور دیا جائے گا کہ وہ فی الفور متاثرہ علاقوں میں ادویات اور ڈاکٹر بھیجے۔ دوسری جانب خیبر پختونخواہ حکومت کے وزیر صحت نے اعلان کیا ہے کہ حکومت جلد ہی متاثرہ علاقوں میں ریلیف ٹیمیں بھیجے گی ، ساتھ ہی مریضوں کے لیے ادویات اور انجیکشن بھی فراہم کیےجائیں گے۔

    لشمینیا کے بارے میں ایک غلط فہمی یہ بھی پائی جاتی ہے کہ  یہ اسکن کینسر کی کوئی قسم ہے اور قبائلی علاقہ جات میں ہونے گزشتہ ادوار میں جاری جنگ کے دوران گولہ بارود کے استعمال سے ہورہی ہے۔

    اس حوالے سے ایک مقامی سماجی کارکن حیات پریغال کا اپنی فیس بک پوسٹ میں کہنا ہے کہ لشمینیا کی بیماری نہ تو کسی بم بارود سے ہوتی ہے اور نہ ہی کسی دم درود سے ٹھیک ہوتی ہے۔ یہ بیماری ایک مچھر کے کاٹنے سے ہوتی ہے اور اسکا علاج دوائیوں سے ہوتا ہے۔ ایل ڈی باڈیز نامی ٹیسٹ  کرانے کے بعد علاج شروع ہوجاتا ہے اورمہینے  دو مہینوں میں جسم پر پھیلا ہوا دانہ آہستہ آہستہ سوکھ جاتا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہم نے جلوزئی کیمپ میں خیبر و باجوڑ ایجنسی کے ہزاروں مریضوں کا علاج اسی طرح کیا ہے۔ کیونکہ جمرود لنڈی کوتل باڑہ اور جلوزئی چراٹ کے علاقوں میں اور بلوچستان و افغانستان کے علاقوں میں یہ مچھر پایا جاتا ہے۔ سراروغہ کوٹکئی اور وانہ، میرعلی کا ماحول اس کی نشونماء کے لئے بہت ہی موزوں ہے۔

     حیات نے یہ بھی لکھا کہ ان علاقوں میں پہلے اکا دکا کیس آتے تھے لیکن چونکہ علاقہ ایک عرصے تک بند رہا،  جس کے سبب ان مچھروں کو گھروں اورمسجدوں میں نشونماء کا موقع ملا اوراب یہ بیماری پھیلانے میں مصروف ہیں۔

  • آسٹریلیا میں گوشت خور ناسور کی وبا پھیل گئی، شہری خوفزدہ

    آسٹریلیا میں گوشت خور ناسور کی وبا پھیل گئی، شہری خوفزدہ

    سڈنی: آسٹریلیا میں گوشت خور ناسور کی وبا پھیلنے کے باعث شہری خوف میں مبتلا ہوگئے، ڈاکٹروں نے ہنگامی بنیادوں پر تحقیقات کروانے کا مطالبہ کردیا۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق ’بورولی السر‘ کہلانے والی اس بیماری سے متاثرہ مریضوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے، یہ بیماری اب زیادہ شدید ہوگئی ہے اور اس نے نئے قصبوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بیماری بالعموم افریقہ میں پائی جاتی ہے، مگر گزشتہ چار برس کے دوران وکٹوریا میں اس کا شکار ہونے والے افراد کی تعداد میں چار سو فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

    گوشت کو کھانے والے بیکٹریا سے پھیلنے والی اس بیماری کو ڈاکٹرز اب تک روکنے میں ناکام ہیں، 2016ء کے مقابلے میں گزشتہ برس اس کے مریضوں کی تعداد میں 51 فیصد اضافہ ہوا اور 275 افراد کو اس وبا نے متاثر کیا جو ریکارڈ تعداد بتائی جاتی ہے۔

    وبائی امراض کے ماہر ڈاکٹر ڈینیل اوبرائن کا کہنا ہے کہ بورولی السر پریشان کن حد تک زیادہ شدت کے ساتھ خطے میں پھیل چکا ہے جبکہ اس کا جرثومہ مائکو بیکٹریم السیرنس کہلاتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق وقت کے ساتھ ناسور بڑھتا چلا جاتا ہے اور متاثرہ حصے کو بدنما یا اپاہج کردیتا ہے، بالعموم ٹانگوں کو متاثر کرتا ہے مگر چہرے اور جسم کے دوسرے حصوں پر بھی اثر انداز ہوسکتا ہے۔

    یہ بیماری انسانوں کو کیسے لگتی ہے ڈاکٹرز ابھی تک اس کا پتہ لگانے میں ناکام ہیں تاہم خیال ہے کہ یہ ماحول یا مٹی سے انسانی جسم میں داخل ہوتی ہے، بعض نظریات کے مطابق مچھر بھی اس جرثومے کی ترسیل کا سبب بنتے ہیں۔

    ترقی پذیر ممالک میں یہ مرض زیادہ تر آبی اور دلدلی علاقوں میں پایا جاتا ہے، جہاں پانی کھڑے کھڑے سر جاتا ہے، تاہم آسٹریلیا میں زیادہ تر ساحلی علاقے اس کی لپیٹ میں آئے ہیں۔

    سائنسی جریدے میڈیکل جرنل آف آسٹریلیا میں ڈاکٹروں نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ اس بیماری کی وجوہات کی تحقیقات کے لیے رقم مہیا کریں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • فضائی آلودگی، گردوں کے مرض کا باعث، لاکھوں افراد متاثر

    فضائی آلودگی، گردوں کے مرض کا باعث، لاکھوں افراد متاثر

    ممبئی: فضائی آلودگی کے باعث گردوں کے امراض میں نمایاں اضافہ ہورہا ہے، یہ بات بھارت میں ہونےو الی ایک تحقیق میں سامنے آئی۔

    بھارتی جریدے اے ایس این کڈنی میں شائع ہونے والی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہونے والی فضائی آلودگی کے باعث لوگ گردوں کی بیماری میں مبتلا ہورہے ہیں۔

    تحقیق میں گردوں کی بیماریاں تیزی سے پھیلنے کی وجوہات پر جب غور کیا گیا تو یہ بات سامنے آئی کہ فضائی آلودگی اور پھیلنے والا دھواں لوگوں کے جسموں میں داخل ہوکر اُن کی صحت کو بری طرح متاثر کررہا ہے۔

    تصویر بشکریہ گوگل

    تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ گزشتہ چند سالوں کے دوران آلودگی کے باعث بڑی تعداد میں لوگ جاں بحق جبکہ ہزاروں بری طرح سے متاثر ہوئے، جن میں سے بیشتر کا تعلق ایشیا سے ہے۔

    بھارتی جریدے میں شائع ہونے والی رپورٹ میں ماہرین نے بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے فوری طور پر  اس کے روک تھام کےلیے عملی اقدامات کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ہرسال فضائی آلودگی سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد 1 کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے۔

    تحقیق میں دنیا بھر کے ماہرین نے حصہ لیا۔

    احتیاطی تدابیر

    ماہرین نے عوام کو احتیاطی تدابیر سے آگاہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب بھی گھر سے باہر ماسک لگا کر نکلیں اور کسی بھی چھوٹی سے چھوٹی بیماری کے نتیجے میں فوری طور پر اپنے طبیب سے مشورہ کریں۔

    تصویر بشکریہ گوگل

    واضح رہے کہ بھارتی حکومت نے بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی کو مدنظر رکھتے ہوئے رواں برس دیوالی کے موقع پر آتشبازی کرنے پر پابندی عائد کرتے ہوئے باقاعدہ عوامی رابطہ مہم کا آغاز کیا تھا۔

    دوسری جانب موسم سرما کا آغاز ہوتے ہی اسموگ نے بھارت اور پاکستان کے مختلف شہروں کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے جس کے باعث نظامِ زندگی بری طرح سے متاثر ہورہا ہے، بھارت کے متاثرہ علاقوں میں بچوں کے اسکول بند کرنے جبکہ لاہور میں تعلیمی اداروں کے اوقات تبدیل کرنے کی تجاویز بھی سامنے آئی ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • آنکھوں میں ہونے والی 9 تبدیلیاں بیماری کی علامات ہیں

    آنکھوں میں ہونے والی 9 تبدیلیاں بیماری کی علامات ہیں

    انسانی جسم میں موجود ہر شے یوں تو ایک نعمت ہے لیکن قدرت کا سب قیمتی تحفہ آنکھیں ہیں کہ جن سے محروم شخص کے لیے اس دنیا کے سارے رنگ بیکار ہوتے ہیں لہذا قدرت کے اس انمول تحفے کی حفاظت بے حد ضروری ہے۔

    کیا آپ کو معلوم ہے کہ آنکھوں کو ناقدانہ انداز سے دیکھ کر آپ متعدد طبی مسائل یا بیماریوں کے بارے میں بھی جان سکتے ہیں؟ جی ہاں! آنکھوں میں کچھ ایسے راز چھپے ہیں جو بظاہر تو بے ضرر لگتے ہیں مگر وہ اندر چھپی بیماریوں کو افشاءکررہے ہوتے ہیں۔

    عبدالستار ایدھی کی آنکھیں دو نابینا مریضوں کو لگا دی گئیں

    آنکھوں کے گرد دانے


    اگر آنکھوں کے کونوں پر یاقریب میں دانہ نکل آئے تواس میں درد اور خارش ہوتی ہے‘ پلکوں کے قریب ایسے دانے ایک گلینڈ بلاک ہونے کے باعث نمودار ہوتے ہیں اور چند دن بعد غائب ہوجاتے ہیں، تاہم اگر یہ بار بار سامنے آئیں تو یہ سنگین علامت ہوسکتے ہیں، اگر ایسے دانے اکثر سامنے آئیں یا طویل عرصے تک برقرار رہیں تو ڈاکٹر سے رجوع کیا جانا چاہئے۔

    بھنوؤں کا گرنا


    بھنوؤں کے بال گرنے کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ عمر بڑھنا‘ ذہنی تناؤاور کسی غذائی جز کی کمی‘ مگر ایک ممکنہ وجہ تھائی رائیڈ ہارمونز کی جسم میں بہت زیادہ کمی ہے جو کہ سر کے بالوں سے محرومی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ اگر بھنوؤں کے ساتھ سر کے بال بھی گر رہے ہیں تو ڈاکٹر سے رجوع کیا جانا چاہئے۔

    post-5

    نظر کی دھندلاہٹ


    آج کل بیشتر افراد گھنٹوں گھر یا دفتر میں کمپیوٹرز یا کسی بھی طرح کی اسکرین کے سامنے بیٹھے رہتے ہیں جس کے نتیجے میں آنکھیں جلنا یا دھندلانے لگتی ہیں، اب اسے ڈیجیٹل آئی اسٹرین کا نام بھی دیا گیا ہےجس کا حل نہ نکالنے پر بینائی تیزی سے کمزور ہونے لگتی ہے۔ اگر آپ کو اس علامت کا سامنا ہو تو ڈاکٹر سے رجوع کرکے اس کا حل نکالنا چاہئے۔

    post-1

    نظر نہ آنا یا چیزیں زیادہ نظر آنا


    بینائی میں کسی بھی قسم کی تبدیلی خطرے کی گھنٹی ہوتی ہے جس کے لیے فوری ردعمل ظاہر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، خاص طور پر اگر بینائی اچانک غائب ہوجائے، ایک چیز دو یا زیادہ نظر آنے لگے، چیزیں کچھ لمحوں کے آنکھوں کے سامنے سے ہٹ جائے تو فوری طور پر طبی امداد حاصل کرنی چاہئے کیونکہ اکثر یہ فالج کی پہلی علامت ہوتی ہے۔

    post-4

    گہرے حلقے


    آنکھوں کے نیچے گہرے حلقے اکثر افراد کے پڑ جاتے ہیں جس کی وجہ عام طور پر نیند کی کمی ہوتی ہے۔ یعنی رات گئے تک جاگنا اور جلد اٹھ جانا آنکھوں کے گرد حلقوں کا باعث بن جاتا ہے، تاہم اگر یہ حلقے مناسب نیند لینے کے باوجود ختم نہ ہو تو طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دیگر طبی مسائل کا اشارہ ہوسکتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ تھائی رائیڈ (بے نالی غدود) یا خون کی کمی جیسے امراض کی علامت بھی ہوسکتے ہیں۔ ان کے مطابق اگر آپ مناسب نیند لیتے ہیں مگر پھر بھی خود کو تھکاوٹ کا شکار محسوس کرتے ہیں یہ تھائی رائیڈ یا خون کی کمی کی علامت ہوسکتی ہے، ایسے حالات میں اپنے ڈاکٹر سے رجوع کرکے ان دونوں کیفیات کا ٹیسٹ ضرور کروائیں۔

    post-2

    آنکھوں میں پیلاہٹ


    اگر آپ کی آنکھوں کا سفید حصہ زرد یا پیلاہٹ زدہ نظر آنے لگے تو یہ جان لیوا جگر کے امراض کی ممکنہ علام ہوسکتی ہے جسے کسی صورت نظرانداز نہیں کرنا چاہئے۔ طبی ماہرین کے مطابق آنکھوں کی یہ رنگ ہیپاٹائٹس‘ جگر کے صحیح سے کام نہ کرنے یا دیگر امراض کے باعث بھی ہوسکتی ہیں۔ ایسی صورت میں ڈاکٹر سے فوری رجوع کرنا چاہئے کیونکہ ضروری نہیں کہ جگر کے امراض نے آپ کو شکار کیا ہو تاہم ایسا ہوا بھی ہے تو ابتدائی سطح پر ہی ان پر زیادہ موثر طریقے سے قابو پایا جاسکتا ہے۔

    post-7

    آنکھوں میں سرخی


    اگر آپ کی آنکھیں بہت سرخ یا ان میں سرخ لکیریں سے بن گئی ہو تو پہلی فرصت میں ڈاکٹر کے پاس پہنچ جائیں کیونکہ یہ سنگین امراض جیسے آشوب چشم‘ پپوٹوں کی سوزش‘ آنکھ کے پردے کے ورم اور کسی قسم کے موتیا کی جانب اشارہ بھی ہوسکتی ہے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ اس کچھ کم سنگین وجوہات بھی ہوتی ہیں جیسے آٹھ گھنٹے تک کمپیوٹرز پر کام کرنے سے آنکھوں میں درد کے باعث سرخ لکیریں بن سکتی ہیں اور اس صورت میں آنکھوں کا معائنہ کروانا بہتر رہتا ہے کیونکہ یہ بنیائی کی کمزوری کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے، اسی طرح یہ کسی قسم کی الرجی کے باعث بھی ہوسکتا ہے۔

    post-6

    خشک آنکھیں


    اکثر افراد کو اس قسم کی تکلیف کا سامنا ہوتا ہے جس کے دوران لگتا ہے جیسے آنکھیں بالکل خشک ہوگئی ہیں، جس کی وجہ اکثر وٹامن اے کی کمی ہوتی ہے، تاہم یہ شکایت عمر بڑھنے اور کچھ خاص ادویات کے استعمال کے باعث بھی لاحق ہوسکتی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ایک ایسی بیماری کا باعث بھی ہوسکتا ہے جو خاص طور پر ایسے گلینڈز کو متاثر کرتا ہے جو آنسوؤں اور لعاب دہن کو بنانے کا کام کرتے ہیں۔عام طور پر اس کے دوران ایسا لگتا ہے کہ جیسے آنکھ میں کوئی کنکر چلا گیا ہو اور چبھن محسوس ہوتی رہتی ہے۔ وٹامن اے کے ساتھ ساتھ غذا میں صحت بخش چربی کی کمی بھی اس کا باعث بن سکتی ہے۔

    سوجی ہوئی آنکھیں


    گہرے حلقوں کی طرح آنکھوں کا سوج جانا بھی چہرے کی کشش کو ماند کردیتا ہے، اس کے لیے اکثر برف کی ٹکور، کھیرے کا ٹکڑا یا دیگر ٹوٹکوں کا استعمال کیا جاتا ہے مگر جب یہ کسی صورت ختم نہ ہو تو زیادہ سنگین طبی مسائل کی علامت بھی ہوسکتا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق یہ گردوں میں کسی قسم کی خرابی کی جانب اشارہ ہوسکتا ہے جس کے لیے ڈاکٹر سے رجوع کرنا بہتر رہتا ہے جبکہ نمک کے بہت زیادہ استعمال سے بھی یہ تکلیف آپ کو اپنا شکار کرسکتی ہے۔

    post-3


  • یمن میں اودیات کی قلت سے متاثرین جنگ میں وبائی امراض پھیلنے کا خدشہ

    یمن میں اودیات کی قلت سے متاثرین جنگ میں وبائی امراض پھیلنے کا خدشہ

    یمن: اودیات کی قلت سے متاثرین جنگ میں وبائی امراض پھیلنے کا خدشہ ہے، برطانوی ریڈ کراس نے مزید امدادی سامان عدن روانہ کردیا ہے۔

    اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی تنظیم نے انکشاف کیا ہے کہ یمن میں جنگ متاثرین کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے اور ادویات کی شدید قلت سے متاثرین جنگ میں وبائی امراض پھیلنے کا خدشہ ہے۔

    رپورٹ کے مطابق یمن پر اتحادی ممالک کی بمباری سے سینکڑوں اسکول اور کئی اسپتالوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔

    برطانوی فلاحی ادارے نے یمن میں متاثرین جنگ کی امداد کیلئے نئی کھیپ عدن روانہ کردی ہے۔

    اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی تنظیم نے متاثرین یمن کی بحالی کیلے عالمی برادری سے دوسو چوہتر ملین ڈالر کی امداد مانگ لی ہے۔

  • خود تصویریں کھینچنا اورانٹرنیٹ پر ڈالنا ایک بیماری

    خود تصویریں کھینچنا اورانٹرنیٹ پر ڈالنا ایک بیماری

    نیویارک: ماہرین نفسیات کے مطابق تصویریں کھینچنا اور ان تصویروں کو انٹرنیٹ پر ڈالنا اچھی عادت نہیں ہے۔

    ماہرینِ نففسیات نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اپنے موبائل کیمروں سے اپنی تصویریں خود ہی کھینچنا اور پھر انہیں سماجی ویب سائٹ پر ڈالنا ایک دماغی بیماری ہے ، ایسے افراد میں خود اعتمادی کمی ہوتی ہے۔

    ماہرینِ  کا کہنا ہے کہ وہ لوگ جو دن میں تین بار اپنی تصویریں کھینچتے ہیں اور پھر اُسے سماجی ویب سائٹ پر نہیں ڈالتے وہ اس بیماری کی بارڈر لائن پر ہوتے ہیں لیکن وہ لوگ جو تین بار سے زیادہ یہ عمل دہراتے ہیں، وہ اس بیماری میں شدت سے مبتلا ہوتے ہیں ۔

    ڈاکٹرز کے مطابق اب تک اس دماغی بیماری کا کوئی باقاعدہ علاج نہیں ہے۔