آنکھ پھڑکنا ایک عام سی بات ہے لیکن کچھ لوگ اسے توہم پرستی کے طور پر بھی دیکھتے ہیں، ان کی دائیں یا بائیں آنکھ پھڑکنے کو اچھا یا برا ہونے کی علامت سمجھا جاتا ہے حالانکہ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
ماہرین امراض چشم کا کہنا ہے کہ آنکھ پھڑکنے کے پیچھے اصل وجوہات جسمانی اور ذہنی صحت سے متعلق ہیں۔
ڈاکٹروں کے مطابق آنکھ پھڑکنا ذہنی تناؤ، نیند کی کمی یا دیگر مسائل کی وجہ سے ہوسکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق عام طور پر آنکھ کا پھڑکنا کوئی سنگین مسئلہ نہیں ہے لیکن اگر یہ بار بار اور مسلسل ہوتا ہے تو یہ آپ کی صحت کے کسی نہ کسی مسئلے کی علامت ہوسکتی ہے۔
ماہر امراض چشم کے مطابق آنکھوں کا پھڑکنا یا پلکوں کا لرزنا عام مسئلہ ہے، زیادہ تر صورتوں میں آنکھ پھڑکنے کا مسئلہ صرف چند منٹوں تک رہتا ہے اور زیادہ تر ایک وقت میں صرف ایک آنکھ میں ظاہر ہوتا ہے۔
بعض اوقات صحت سے متعلق کچھ حالات میں یہ ایک ہفتہ یا اس سے زیادہ پریشان کر سکتا ہے۔ بعض صورتوں میں آنکھوں کے پھڑکنےکا مسئلہ دونوں آنکھوں میں بیک وقت دیکھا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ بھی آنکھ پھڑکنے کی کئی وجوہات ہوتی ہیں، جیسے ذہنی دباؤ، آنکھوں کی بینائی کمزور ہوتا، ماحولیاتی آلودگی، آنکھوں میں جلن، کیفین کا زیادہ استعمال، آنکھوں میں الرجی وغیرہ شامل ہیں۔
آنکھ کو پھڑکنے سے محفوظ بنانے کے لیے آپ اپنی آنکھ کو تھوڑے تھوڑے وقفے سے ٹھنڈے پانی سے صاف کرتے رہیں۔ اس کے ساتھ اپنی آنکھوں کی ایکسر سائز بھی کریں، اس سے آپ کی آنکھ صحت مند رہے گی اور پھڑکنے سے محفوظ رہے گی۔
لاہور: جنوبی پنجاب کے سیلاب زدگان میں وبائی امراض پھوٹ پڑے، ہزاروں متاثرین سانس اور جلد کی بیماریوں، ڈائریا اور بخار میں مبتلا ہیں۔
تفصیلات کے مطابق جنوبی پنجاب کے سیلاب زدگان میں وبائی امراض پھوٹ پڑے، جنوبی پنجاب کے 37 ہزار سے زائد سیلاب زدگان سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہوگئے۔
محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ 33 ہزار سے زائد سیلاب زدگان خارش اور جلدی امراض کا شکار ہیں، 20 ہزار سے متاثرین تیز بخار اور 17 ہزار سے زائد متاثرین ڈائریا میں
مبتلا ہوگئے۔
محکمہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق 21 سیلاب زدگان کو کتوں نے کاٹ لیا جبکہ ڈیرہ غازی خان میں 2 متاثرین کو سانپ ڈسنے کے واقعات بھی سامنے آئے۔
ڈھائی ہزار سیلاب زدگان آنکھوں کی مختلف بیماریوں کا شکار ہیں، 3 ہزار سے زائد جان بچانے کے دوران زخمی ہوئے۔
محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ مختلف علاقوں میں قائم میڈیکل کیمپس میں 30 ہزار سے زائد متاثرین مختلف بیماریوں کے ساتھ آئے۔
مجموعی طور پر راجن پور میں 68 ہزار، ڈیرہ غازی خان میں 58 ہزار، لیہ میں 8 ہزار اور مظفر گڑھ میں 6 ہزار سے زائدسیلاب زدگان مختلف بیماریوں کا شکار ہیں۔
ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا کاروبار یا نوکری آرام دہ ہو جس میں جسمانی مشقت کم سے کم ہو لیکن یہ چیز ہمارے جسم کیلئے کسی بھی طرح سود مند نہیں کیونکہ حرکت میں ہی برکت ہے۔
کیا آپ یہ بات جانتے ہیں کہ مسلسل کئی گھنٹوں تک بیٹھے رہنے سے آپ کو ہائی بلڈ پریشر کا مرض لاحق ہو سکتا ہے اور قلبی امراض اور کینسر سے موت کا خطرہ بھی بڑھ سکتا ہے؟
درحقیقت کسی بھی نشست جیسے کسی ڈیسک پر، کرسی پر، گاڑی چلانے یا کسی اسکرین کے سامنے مسلسل بیٹھنا نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
ویب سائٹ نیوز 18 کے مطابق "جب ہم بیٹھتے ہیں تو کھڑے ہونے یا چلنے کے مقابلے میں کم توانائی کا استعمال کرتے ہیں۔
نئی تحقیق نے زیادہ دیر تک بیٹھنے کو صحت کے کئی خدشات سے جوڑ دیا ہے۔ ان میں موٹاپا، ہائی بلڈ پریشر، کمر کے گرد چربی میں اضافہ اور غیر معمولی کولیسٹرول شامل ہیں۔
بیٹھنے کے وقت اور صحت کے خطرے والے عوامل کے درمیان ربط کو سمجھنے کے لیے کی جانے والی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ جو لوگ بغیر کسی جسمانی سرگرمی کے دن میں آٹھ گھنٹے سے زیادہ بیٹھے رہتے ہیں، انہیں موت کے ایسے ہی خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسے موٹاپے یا تمباکو نوشی سے لاحق ہوتے ہیں۔
طویل دیر تک بیٹھنا جسم پر کیسے اثر کرتا ہے؟
سیدھا کھڑے ہونے سے ہمارا دل اور قلبی نظام زیادہ موثر انداز میں کام کرتے ہیں۔ جب ہم سیدھے کھڑے ہو جاتے ہیں تو ہماری آنتوں کا کام بھی زیادہ موثر ہوتا ہے۔
عام لوگ آنتوں میں مسائل کی وجہ سے ہی ہسپتال میں داخل ہوتے ہیں۔ اسی طرح طویل عرصے تک بیٹھنا یا کئی گھنٹوں تک غیر فعال رہنا صحت کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
ٹانگ اور کولہے کے پٹھے:
طویل دیر تک بیٹھنے سے ٹانگوں اور کولہوں کے پٹھے کمزور ہو جاتے ہیں۔ یہ پٹھے چلنے اور ہمارے استحکام کے لیے بہت اہم ہیں۔ اگر یہ پٹھے کمزور ہو جائیں تو ورزش یا گرنے کی وجہ سے چوٹ لگنے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
میٹابولزم کا مسئلہ:
عضلات کو حرکت دینے سے ہمارے جسم میں جو چربی اور شکر ہم کھاتے ہیں ہضم ہو جاتی ہے۔ اگر ہم بہت زیادہ دیر تک بیٹھتے ہیں تو نظام انہضام اتنا موثر نہیں ہوتا، لہذا جسم اس چربی اور شکر کو برقرار رکھے گا۔
کینسر:
نئی طبی تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ بیٹھے رہنے سے آپ کو پھیپھڑوں اور بڑی آنت کے کینسر سمیت کئی دیگر طرح کے کینسر ہو سکتے ہیں۔
کام کے دوران چست اور صحت مند کیسے رہیں؟
زیادہ دیر کے لیے بیٹھنا اتنا ہی برا ہے جیسے ایک دن میں سگریٹ کا پیکٹ پینا۔ جب آپ سرگرم ہیں تو آپ کی سطح اور برداشت میں بہتری آتی ہے اور آپ کی ہڈیوں میں طاقت برقرار رہتی ہے۔ آپ کو موقع ملنے پر بیٹھنے کے بجائے کھڑے ہوکر یا کام کرتے وقت چلنے کے راستے تلاش کرنے سے آغاز کرنا چاہیے۔
ہر 30 منٹ بعد بیٹھنے سے وقفہ لیں:
فون پر بات کرتے ہوئے یا ٹیلی ویژن دیکھتے ہوئے کھڑے ہو جائیں۔ اگر آپ کسی ڈیسک پر کام کرتے ہیں تو ایک اسٹینڈنگ ڈیسک پر کام کی کوشش کریں یا کوئی اونچی میز یا کاؤنٹر تیار کروائیں۔
عالمی وبا کرونا کے دنیا بھر میں وار جاری ہیں، اس وبا سے بچوں کی بڑی تعداد بھی متاثر ہونے لگی ہے، کن بچوں میں کووڈ کا خطرہ سنگین ہوتا ہے؟،نئی تحقیق میں اہم انکشاف ہوا ہے۔
طبی پیچیدگیوں کی تاریخ اور پہلے سے مخصوص بیماریوں کے شکار بچوں میں کووڈ نائنٹین سے متاثر ہونے پر شدت سنگین ہونے کا خطرہ ہوجاتا ہے، یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی ہے۔
طبی جریدے جاما نیٹ ورک اوپن میں شائع تحقیق میں بچوں میں کووڈ 19 کی سنگین شدت کے خطرات کی جانچ پڑتال کی گئی، تحقیق میں کم وبیش آٹھ سو اسپتالوں میں کووڈ کے باعث زیرعلاج رہنے والے تینتالیس ہزار بچوں کے ڈیٹا کا جائزہ لیا گیا۔
محققین نے دریافت کیا کہ 28.7 فیصد مریض پہلے سے کسی بیماری کا شکار تھے جن میں دمہ (10.2 فیصد)، دماغی نشوونما کے مسائل (3.9 فیصد)، ذہنی بے چینی اور ڈر سے متعلق امراض (3.2 فیصد)، ڈپریشن سے منسلک امراض (2.8 فیصد) اور موٹاپا (2.5 فیصد) سب سے عام تھے۔
تحقیق میں کہا گیا کہ ذیابیطس ٹائپ ون سے متاثر بچوں میں اسپتال میں داخلے کا خطرہ زیادہ دریافت کیا گیا جو 4.1 فیصد ہے جبکہ موٹاپا 3.07 فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہا۔
اسی طرح دو سال سے کم عمر بچوں میں کووڈ کی سنگین شدت کے باعث استپال میں داخلے کا باعث بننے والے عناصر میں قبل از وقت پیدائش، دائمی اور پیچیدہ امراض قابل ذکر رہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ پہلے سے مختلف امراض کے شکار بچوں میں کووڈ 19 کی سنگین شدت کی روک تھام کے لیے احتیاطی تدابیر اور ویکسین کی ترجیحات جیسے اقدامات کیے جانے چاہیے۔
تقریباً ہم سب کے ساتھ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ رات کو نیند کے دوران اچانک آنکھ کھل جاتی ہے، اس کی بہت سی وجوہات ہوتی ہیں جیسے شور کی آواز، یا خواب دیکھتے ہوئے چونک کر اٹھ جانا وغیرہ وغیرہ ۔
ایک طویل المدتی تحقیق کے نتائج سے علم ہوا ہے کہ نیند میں خلل سے دل کی بیماریوں کے ساتھ ساتھ جلد موت کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، خواتین میں اس کے اثرات مردوں کی نسبت کہیں زیادہ خطرناک ہیں۔
ہم سب ہی کی رات کو کبھی نہ کبھی آنکھ ضرور کھلتی ہے۔ ہم کبھی ہلکا سا کوئی شور سنتے ہیں، گاڑیوں کی آواز یا پرندوں کی چہچہاہٹ اور نتیجے کے طور پر ہاتھ یا پاؤں کو ہلکی سی حرکت دیتے ہیں اور بعض اوقات کروٹ بھی لے لیتے ہیں۔
محققین اس عمل کو’کورٹیکل اروزل‘ کا نام دیتے ہیں۔ سادہ الفاظ میں اسے ‘بے ہوش بیداری کی ایک مختصر مدت‘ کہا جا سکتا ہے۔ اس طرح کی نیم بیداری دل کی دھڑکن، بلڈ پریشر اور خون کی روانگی پر اثرانداز ہوتی ہے اور یہ ایک نارمل چیز ہے۔
لیکن اگر رات کو یہ نیم بیداری مسلسل ہو اور نیند میں خلل بڑھ جائے تو پھر یہ ‘بوجھ‘ ہے۔ محققین جو نیند (پولیسومنولوجسٹ) کا مطالعہ کرتے ہیں، وہ اس طرح کی بار بار بیداری کو ‘شب خیزی بوجھ‘ قرار دیتے ہیں۔ ان سائنسدانوں کی تحقیق کے مطابق ‘شب خیزی بوجھ‘ انسانی جسم کے قلبی نظام میں خلل ڈال دیتا ہے۔
اس طویل المدتی تحقیق میں مختلف ٹیسٹ گروپوں کے آٹھ ہزار سے زائد افراد شامل تھے۔ تحقیق کے مطابق ‘شب خیزی بوجھ اور قلبی نظام میں خرابی یا امراض دل‘ دونوں مل کر اموات کا سبب بن سکتے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نیند میں مسلسل خلل کس قدر خطرناک ہے۔
دنیا میں سب سے زیادہ اموات امراض دل کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق، ”کسی بھی دوسری بیماری کی نسبت دنیا میں سب سے زیادہ اموات سی وی ڈی ایس کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ دنیا میں گزشتہ ایک سال میں امراض قلب کی وجہ سے تقریبا اٹھارہ ملین افراد ہلاک ہوئے۔‘‘
اس تحقیق میں آسٹریلیا، ہالینڈ، ڈنمارک اور امریکا کے محققین شامل تھے اور انہوں نے تین حصوں پر مشتمل اس طویل المدتی تحقیق کے نتائج ‘یورپین ہارٹ جرنل‘ میں شائع کیے ہیں۔ تحقیق کے مطابق ‘شب خیزی بوجھ‘ سے اموات کا خطرہ اُس وقت کم ہو جاتا ہے اگر نیند کا معیار گہرا ہو تو۔ اس حوالے سے بہتر نیند کی طوالت کی بجائے اس کا معیار قرار دیا گیا ہے۔
تحقیق کے مرکزی نکات یہ ہیں کہ ”نیند کی بے قاعدگی، سونے میں مشکلات اور غیر آرام دہ نیند‘‘ تینوں چیزیں ہی ایسی کیفیت پیدا کرتی ہیں کہ انسان بیداری کے بعد اس سے بھی کہیں زیادہ بُرا اور بوجھل محسوس کرتا ہے جیسا کہ وہ سونے سے پہلے محسوس کر رہا تھا۔
تحقیق میں مزید لکھا گیا ہے کہ نیند کے دورانیے سے قطع نظر یہ سبھی عوامل موت کے خطرے میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ ہدایت کی گئی ہے کہ اگر روزانہ کی بنیادوں پر آپ کی نیند میں خلل پیدا ہو رہا ہے اور آپ ‘شب خیزی بوجھ‘ محسوس کرتے ہیں تو آپ کو ایک ماہر ڈاکٹر سے صلاح مشورہ کرنا چاہیے، اس سے قطع نظر کہ آپ کی عمر کیا ہے۔
گزشتہ گیارہ برسوں پر مشتمل اس تحقیق کے مطابق، ”مردوں کی نسبت خواتین میں ‘شب خیزی بوجھ‘ کی شرح کم دیکھی گئی ہے لیکن اس سے جڑی اموات کی شرح خواتین میں زیادہ ہے۔‘‘
نیویارک : ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ 18 سال سے زیادہ عمر کی 20 فیصد عالمی آبادی بلڈ پریشر کے امراض کی شکار ہے اور اس مرض کو قابو کرنے والی عام ادویہ مریضوں کے موڈ پر اثر انداز ہوکر انہیں ڈپریشن کی جانب دھکیل سکتی ہیں۔
بلڈ پریشر کے امراض کو خاموش قاتل بھی کہا جاتا ہے اور یہ مرض دل کی بیماریوں اور فالج کی وجہ بن سکتا ہے۔ ایک تازہ تحقیق اورسروے کے بعد ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ جو مریض بلڈ پریشر کو معمول پر رکھنے کے لیے بی ٹابلاکرز اور کیلشیئم چینل بلاکرز والی دوائیں کھاتے ہیں انہیں عام افراد کے مقابلے میں ڈپریشن کی وجہ سے اسپتال لے جانے کا دْگنا خطرہ ہوتا ہے۔
یہ تحقیق گلاسگو یونیورسٹی میں ہوئی جہاں 5 برس تک 40 سے 80 سال تک کے 5 لاکھ سے زائد مریضوں کا جائزہ لیا گیا جن میں سے ڈیڑھ لاکھ مریضوں کو بلڈ پریشر کے لیے یا تو اینجیوٹینسن دی گئی یا بی ٹابلاکرز، یا پھر کیلشیئم چینل بلاکرز اور تھائیزائڈ دوائیں دی گئیں جب کہ ایک لاکھ سے زائد افراد کو ان میں سے کوئی دوا نہیں دی گئی۔
اس کے بعد مریضوں میں موڈ کی خرابی، بائی پولر ڈس آرڈر اور ڈپریشن وغیرہ کو نوٹ کیا گیا۔ دوائیں دینے کے 3 ماہ کے بعد 299 افراد کو ڈپریشن کی وجہ سے اسپتال لایا گیا لیکن جنہیں بی ٹا بلاکرز اور کیلشیئم چینل بلاکرز والی دوائیں دی گئیں ان کی دْگنی تعداد ڈپریشن میں مبتلا ہوئی اور انہیں ہسپتال لایا گیا۔
اس کے علاوہ جن مریضوں نے تھائی زائید ڈی یوریٹکس دوائیں کھائی تھیں ان میں بھی ڈپریشن کے عین وہی آثار دیکھے گئے جو بی ٹا اور کیلشیئم بلاکرز کھانے والے مریضوں میں تھیں۔ ماہرین نے اس تحقیق کے بعد بلڈ پریشر کے خلاف ادویہ پر نظرثانی کرنے پر زور دیا ہے۔
دوسری جانب ای سی ای انہبٹرز (اینجیوٹینسن کنورٹنگ اینزائم) اور اے آر بی (اینجیوٹینسن ٹو بی ٹا بلاکرز) دوائیں درحقیقت ڈپریشن اور مایوسی کو کم کرنے میں مدد دیتی ہیں۔
اس کے علاوہ ڈپریشن اور امراضِ قلب کا بھی باہمی تعلق ہوتا ہے۔ اس سے قبل ایک مطالعے سے انکشاف ہوا ہے کہ ہارٹ اٹیک اور دل کا مریض بننے کے بعد لوگ اداسی اور ڈپریشن کے زیادہ شکار ہو جاتے ہیں۔
اسی طرح ایک صحت مند آدمی بھی ڈپریشن میں مسلسل رہتے ہوئے دل کا مریض بھی بن جاتا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ بلڈ پریشر کی دوا اور ڈپریشن میں بھی باہمی تعلق ہوتا ہے۔
کراچی: کرونا وائرس نے رواں برس کے موسم سرما کو پہلے کی نسبت سخت بنا دیا ہے اور یہ موسم بے حد احتیاط کا متقاضی ہے، ایسے میں ایک آسان سا نسخہ تمام بیماریوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔
اے آر وائی ڈیجیٹل کے مارننگ شو گڈ مارننگ پاکستان میں ماہر غذائیات نے تمام بیماریوں سے بچنے کا آسان نسخہ بتایا، انہوں نے کہا بچے کو ایک سال کی عمر سے یہ کھلانا شروع کردیں اور ہر عمر کے افراد اسے کھائیں۔
ان کے مطابق مختلف بیماریوں سے محفوظ رکھنے اور قوت مدافعت میں اضافے کے لیے یہ نسخہ بہترین ہے۔
سب سے پہلے ایک کھانے کا چمچ مکھن لیں، اس میں ہلدی، انار کے چھلکے کا پاؤڈر، اور کینو کے چھلکے کا پاوڈر 1، 1 چائے کا چمچ ملائیں اور معجون کی طرح سے بنا کر رکھ لیں۔
چھوٹے بچوں کو ذرا سا چٹکی بھر یہ معجون روزانہ گرم دودھ میں ملا کر دیں جبکہ بالغ افراد آدھا چائے کا چمچ ایک کپ گرم دودھ میں ملا کر سونے سے پہلے پئیں۔
ماہر غذائیات کے مطابق کسی بھی بیماری سے حال ہی میں صحت یاب افراد یا کمزور قوت مدافعت کے افراد اسے باقاعدگی سے استعمال کریں البتہ کسی بھی بیماری کا شکار افراد اسے استعمال کرنے سے قبل ڈاکٹر سے مشورہ کریں۔
دودھ کی دکانوں میں صفائی کے ناقص انتظامات کے باعث شہریوں کی صحت خطرے میں پڑنے لگی ہے۔
دودھ کی دکانوں میں صفائی کے ناقص انتظامات کے باعث بیماریاں پھیلنے کا خدشہ رہتا ہے، ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ مکھیوں اور گندگی کے باعث کھلے دودھ کا استعمال بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے،کیونکہ مالکان صفائی کے خاطر خواہ اقدامات نہیں کرتے۔
ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ کھلا دودھ اور کھلی مٹھائیاں جیسے جلیبی وغیرہ مکھیوں کے لئے جراثیم پھیلانے کا کھلا دعوت نامہ ہے جبکہ شہریوں کا کہنا ہے کہ کھلا دودھ خریدنے سے بیماریوں کا ڈر لگارہتا ہے، کھلے دودھ میں نیوٹرنٹ تو ہوتے نہیں جبکہ یہ ملاوٹ شدہ ہوتا ہے۔
شہریوں کا کہنا ہےکہ دوکانداروں کو چاہیے کہ وہ کھلے دودھ کو محفوظ رکھنے کے لئے خاطر خواہ اقدامات کریں۔
واضح رہے کہ پاکستان میں 90فیصد لوگ کھلا دودھ استعمال کرتے ہیں جو لمحہ فکریہ ہے، چند ممالک کے علاوہ دنیا بھر میں کھلا دودھ فروخت نہیں کیا جاتا، دنیا کے بیشتر ممالک میں دودھ کی فروخت میں حفظان صحت کے اصولوں کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔
گزشتہ عرصے میں کیے گئے اقتصادی سروے کی رپورٹ کے مطابق ملک میں دودھ کی سالانہ پیداوار لگ بھگ 50 ارب لیٹر سے زائد ہے جبکہ75 فیصد عوام کو معیاری دودھ میسر نہیں ہے۔کھلے دودھ میں آلودہ پانی کی ملاوٹ کی جاتی ہے، اس کو گاڑھا کرنے کیلئے مختلف قسم کے کیمیکلز کی آمیزش کی جاتی ہے، اس کے علاوہ اس دودھ کی کوالٹی کو چیک کرنے کیلئے بھی صفائی کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔
حلال جانور کا دودھ اگر چند گھنٹوں میں نہ ابالا جائے تو اس میں بیکٹیریا کی تعداد اتنی زیادہ ہو جاتی ہے کہ وہ خراب ہو جاتا ہے اس لیے اسے فوراً ابالنا پڑتا ہے جس کے بعد اگر آپ اسے نارمل درجہ حرارت پر رکھتے ہیں تو وہ چار سے چھ گھنٹے میں خراب ہوجاتا ہے اور اگر آپ اسے ٹھنڈا کر لیتے ہیں تو وہ آٹھ سے دس گھنٹے میں خراب ہو جاتا ہے۔
اسی طرح دودھ کی طلب اور رسد کی کمی کو پورا کرنے کے لیے اس میں پانی ملایا جاتا ہے جس کے معیار کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
اس کے علاوہ کچھ گوالے اپنی بھینسوں کو کچھ ایسے ٹیکے لگاتے ہیں جس سے وہ جلد اور زیادہ دودھ دینے لگتی ہیں اور یہ انجکشن جانور اور صارف دونوں کی صحت کے لیے خطرناک ہیں۔
بازار یا کسی گوالے سے خریدے ہوئے دودھ کا معیار چیک کرنے اور اسے دیر تک محفوظ رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ دودھ کو فوری طور پر گرم کرلیں۔ دودھ گرم کرنے کے بعد اس پر جمنے والی ملائی سے اس کے خالص ہونے کا بہت آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے،اگر باقی رہ جانے والی ملائی میں تیل محسوس ہو تو یہ جان لیں کہ دودھ خالص ہے اگر یہ خشک محسوس ہو تو دودھ میں ملاوٹ کی گئی ہے۔
پہلا منظر: یہ سنہ 1901 کی ایک اداس سی شام ہے، دلی کے گلی کوچوں میں ہو کا عالم ہے، لوگ اپنے گھروں میں یوں دبکے پڑے ہیں جیسے نامعلوم سمت سے آتی موت کا انتظار کر رہے ہیں۔ باہر جانا گویا اس موت سے گلے ملنے جیسا ہے۔
ہندوستان میں پھیلی طاعون کی وبا نے لوگوں کو خوف کے حصار میں جکڑ رکھا ہے، کوئی نہیں جانتا کہ یہ وبا کتنے لوگوں کو اپنے ساتھ لے جائے گی اور کتنے زندہ بچیں گے۔
دوسرا منظر: جولائی 2020 کا ایک دن، جب کرونا وائرس نے پوری دنیا میں اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں، اب تک دنیا بھر میں 5 لاکھ سے زائد افراد موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں جبکہ اس وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 1 کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے۔
ایسے میں چین کے خود مختار علاقے منگولیا میں گلٹی دار طاعون کے مصدقہ کیس نے دنیا بھر میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ حکام نے الرٹ جاری کردیا ہے جس کے تحت اس خطرناک مرض کے پھیلاؤ کا سبب بننے والے جانوروں کے شکار پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔
بیکٹیریا سے پھیلنے والی یہ بیماری ہر صدی میں وقفے وقفے سے ظاہر ہوتی رہی ہے اور عالمی ادارہ صحت نے اسے دوبارہ سر اٹھانے والی بیماری قرار دیا ہے۔
سنہ 2011 میں رشین اکیڈمی آف سائنس سے منسلک ماہرین نے اپنی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا کہ موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے باعث درجہ حرارت بڑھنے کا عمل (جسے گلوبل وارمنگ کہا جاتا ہے) جہاں ایک طرف تو زمینی حیات کے لیے کئی خطرات کو جنم دے رہا ہے، وہاں وہ ان جراثیم اور وائرسز کو پھر سے زندہ کرنے کا سبب بن سکتا ہے جنہوں نے کئی صدیوں قبل لاکھوں کروڑوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔
یہ تحقیق برفانی خطے آرکٹک میں کی گئی تھی جہاں گلوبل وارمنگ کی وجہ سے ٹنوں برف پگھل رہی تھی، ایسے میں برف کے نیچے دبے صدیوں پرانے وائرس اور جراثیم جلد یا بدیر ظاہر ہونے کے قریب تھے۔
اس کی ایک مثال اگست 2016 میں دیکھنے میں آئی جب سائبریا کے ایک دور دراز علاقے میں ایک 12 سالہ لڑکا جانوروں کو ہونے والی ایک بیماری انتھراکس کا شکار ہو کر ہلاک ہوگیا جبکہ 20 کے قریب افراد اس مرض کا شکار ہو کر اسپتال پہنچ گئے۔
ماہرین نے جب اس وبا کے اچانک پھیلاؤ کے عوامل پر تحقیق کی تو انہیں علم ہوا کہ تقریباً 75 سال قبل اس مرض سے متاثر ایک بارہ سنگھا اسی مقام پر ہلاک ہوگیا تھا۔
سال گزرتے گئے اور بارہ سنگھے کے مردہ جسم پر منوں برف کی تہہ جمتی گئی، لیکن سنہ 2016 میں جب گرمی کی شدید لہر یعنی ہیٹ ویو نے سائبریا کے برفانی خطے کو متاثر کیا اور برف پگھلنا شروع ہوئی تو برف میں دبے ہوئے اس بارہ سنگھے کی باقیات ظاہر ہوگئیں اور اس میں تاحال موجود بیماری کا وائرس پھر سے فعال ہوگیا۔
اس وائرس نے قریب موجود فراہمی آب کے ذرائع اور گھاس پر اپنا ڈیرا جمایا جس سے وہاں چرنے کے لیے آنے والے 2 ہزار کے قریب بارہ سنگھے بھی اس بیماری کا شکار ہوگئے۔
بعد ازاں اس وائرس نے محدود طور پر انسانوں کو بھی متاثر کیا جن میں سے ایک 12 سالہ لڑکا اس کا شکار ہو کر ہلاک ہوگیا۔
یہ صرف ایک مثال تھی، ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی درجہ حرارت بڑھنے کے باعث جیسے جیسے زمین کے مختلف مقامات کی برف پگھلتی جائے گی، ویسے ویسے مزید مہلک اور خطرناک بیماریاں پیدا کرنے والے وائرسز پھر سے نمودار ہو جائیں گے۔
یہاں یہ یاد رہے کہ برف میں جم جانے سے کوئی جسم بغیر کسی نقصان کے صدیوں تک اسی حالت میں موجود رہ سکتا ہے، جبکہ اس طرح جم جانا کسی وائرس یا بیکٹیریا کے لیے بہترین صورتحال ہے کیونکہ وہاں آکسیجن نہیں ہوتی اور ماحول سرد اور اندھیرا ہوتا ہے چنانچہ اس طرح وہ لاکھوں سال تک زندہ رہ سکتے ہیں۔ لہٰذا یہ کہنا بعید از قیاس نہیں کہ لاکھوں سال پرانے وائرس اور جراثیم، جن کے نام بھی ہم نہ جانتے ہوں گے، ہم پر پھر سے حملہ آور ہوسکتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پرانے زمانوں میں سرد علاقوں میں رہنے والے لوگ وبائی امراض کا شکار اپنے پیاروں اور جانوروں کو برف کے نیچے دفن کردیتے تھے، ہم نہیں جانتے کہ ہزاروں سال پہلے کس دور میں، کس وائرس نے انسانوں پر حملہ کیا اور انہیں کن امراض کا شکار بنایا۔
چنانچہ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس ڈھیروں برف کے نیچے کیا کیا ہے جو ہمارے لیے خطرہ ثابت ہوسکتا ہے؟
وائرس کو جگانے کے تجربات
اگر برف کے نیچے دبے ہوئے ہزاروں لاکھوں سال قدیم وائرس اور جراثیم پھر سے زندہ ہوگئے تو وہ کس حد تک فعال ہوں گے؟ آیا وہ پہلے کی نسبت کمزور ہوچکے ہوں گے یا پھر ماحول کے مطابق خود کو مزید طاقتور بنا لیں گے؟
یہ جاننے کے لیے دنیا بھر کے ماہرین وائرسز پر مختلف تجربات کر چکے ہیں۔
سنہ 2014 میں ایک تجربے کے تحت امریکی ماہرین برف میں دبے 30 ہزار سال قدیم ایسے وائرس کو جگانے میں کامیاب رہے جس کی خاص بات یہ تھی کہ عام وائرسز کے برعکس یہ اتنا بڑا تھا کہ ایک عام مائیکرو اسکوپ سے دیکھا جاسکتا تھا۔
ماہرین نے دیکھا کہ جیسے ہی وائرس حیات نو حاصل کرتا ہے، وہ اسی لمحے سے فعال ہوجاتا ہے اور خود کو ملٹی پلائی کرنا شروع کردیتا ہے۔ اپنی نئی زندگی کے اگلے لمحے سے ہی وہ اپنے میزبان (انسان یا جانور) کو بیماری کا شکار بنا دینے کے قابل ہوتا ہے۔
سنہ 2005 میں امریکی خلائی ادارے ناسا کی لیبارٹری میں الاسکا کی برفوں میں دبے ایسے جرثوموں کو جگایا گیا جو اندازاً اس وقت فعال تھے جب زمین پر فیل پیکر (میمتھ) رہا کرتے تھے۔ ہاتھی جیسے قوی الجثہ یہ جانور اب سے 1 لاکھ 20 ہزار سال قبل موجود تھے اور ان کی آخری نسل اب سے 4 ہزار سال قبل تک موجود رہی۔
فیل پیکر
اس کے 2 سال بعد یعنی سنہ 2007 میں انہی سائنسدانوں نے 80 لاکھ سال قدیم ایسے جراثیم کو حیات نو دی جو انٹارکٹیکا کے گلیشیئرز میں دبے ہوئے تھے۔ جس برف سے ان جراثیم کو حاصل کیا گیا وہ برف بھی 1 لاکھ سال قدیم تھی۔
یہ جرثومے کرسٹل کے اندر موجود اس کے مائع میں تھے تاہم جیسے ہی انہیں مائع سے الگ کیا گیا اور انہیں سازگار ماحول ملا، یہ خود کو ضرب دینا شروع ہوگئے۔ یہ غار ایسا تھا جہاں ہزاروں سال سے سورج کی روشنی نہیں پہنچی تھی، چناچہ یہ جرثومے جوں کے توں موجود رہے۔
بیماریوں کا پنڈورا بکس
فرنچ نیشنل ریسرچ سینٹر سے تعلق رکھنے والے جین مائیکل کلیویئر کا کہنا ہے کہ برفانی خطے میں بسنے والے اولین انسان (جن کی زندگی کے قدیم ترین معلوم آثار 30 سے 40 ہزار سال قدیم ہیں) بھی جن وائرسز سے متاثر ہوئے، وہ وائرس اب بھی وہیں برف میں موجود ہوسکتے ہیں اور اگر یہی صورتحال رہی تو وہ قدیم وائرس بھی زندہ ہوسکتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ یہ کہنا کہ فلاں وائرس زمین سے ختم ہوچکا، ایک گمراہ کن بات ہے اور یہ گمراہ کن بیان ہمیں ایک جھوٹا احساس تحفظ فراہم کرتا ہے۔
مائیکل کلیویئر کے مطابق صرف ایک کلائمٹ چینج ہی نہیں، کان کنی اور تیل و گیس کی تلاش کے لیے زمین میں کی جانے والی گہری کھدائیاں بھی سوئے ہوئے جراثیم کو پھر سے سطح پر لا کر انہیں جگا سکتی ہیں۔ البتہ گلوبل وارمنگ کا مستقل عمل مختلف بیماریوں کا پنڈورا بکس کھول دے گا۔
کرونا وائرس سے نڈھال پاکستان کی حکمت عملی کیا ہوگی؟
پاکستان واٹر پارٹنر شپ پروگرام سے منسلک کلائمٹ چینج سائنٹسٹ ڈاکٹر پرویز امیر کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں کرونا وائرس کی وبا کو سائنسی طریقے سے ڈیل کیا جارہا ہے جبکہ پاکستان میں اسے سیاسی بنا دیا گیا ہے۔
ڈاکٹر پرویز امیر کے مطابق جب ہم آگے آنے والے خطرات کو دیکھتے ہیں تو پھر اس بات کی ضرورت کو محسوس کرلینا چاہیئے کہ ہمیں سائنسی شعبے میں اپنی رفتار کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔
ان کے مطابق کاربن اخراج کو کم کرنا اور ایسے ماحول دوست اقدامات اٹھانا جن سے کلائمٹ چینج اور اس کے اثرات میں کمی ہو، یہ تو طویل المدتی منصوبے ہیں تاہم تب تک ان خطرات کی مانیٹرنگ ضروری ہے۔
ڈاکٹر پرویز امیر کا کہنا تھا کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی گلوبل وارمنگ کی وجہ سے پرانے وائرسز کے جاگنے کا خطرہ ہے، وہ اس بات کا متقاضی ہے کہ وہاں سائنسی بنیادوں پر سخت نگرانی اور ریسرچ کی جائے تاکہ کسی ممکنہ خطرے کو ابتدا میں ہی پکڑا جاسکے اور اس کا سدباب کیا جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ پرانے وائرسز کے جاگنے سے صرف انسان ہی متاثر نہیں ہوں گے، بلکہ یہ ایسے بھی ہوسکتے ہیں جو ہمارے آبی ذخائر کو متاثر کریں، ہماری نباتات کو نقصان پہنچائیں یا پھر ہمارے مویشیوں کے لیے خطرہ ثابت ہوں۔ ایسے میں لائیو اسٹاک اور ماہی گیری سے منسلک پاکستان کی ایک بڑی آبادی خطرے میں ہوگی بلکہ ہمارے پانی کے ذخائر بھی غیر محفوظ ہوں گے۔
ڈاکٹر پرویز امیر کا مزید کہنا تھا کہ ایسی وباؤں کے دور میں ماہرین طب اور سائنسدانوں کی تجاویز کو ترجیح دے کر اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے، مذکورہ بالا منظر نامے کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بات کی ضرورت ہے کہ ملک میں میڈیکل سائنس اور ماحولیات کا شعبہ مشترکہ طور پر سائنسی بنیادوں پر کام کرے اور اس طرح کے خطرات سے نمٹنے کی تیاری کرے۔
پرسکون اور بھرپور نیند انسانی جسم کی اہم ضرورت ہے، نیند پوری نہ ہونا بہت سے مسائل کا شکار کرسکتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ نیند پوری نہ ہونے سے سب سے پہلا اثر آپ کی جسمانی توانائی اور دماغی کارکردگی پر پڑتا ہے۔ نیند کی کمی سے آپ سارا دن تھکن اور سستی کا شکا رہیں گے۔ آپ اپنے کام ٹھیک طرح سے انجام نہیں دے سکیں گے، نہ ہی نئے تخلقیی خیالات سوچ سکیں گے۔
یہی نہیں نیند کی کمی آپ کو بدمزاج اور چڑچڑا بھی بنا سکتی ہے۔ طویل عرصے تک نیند کی کمی کا شکار رہنے والے افراد موٹاپے، ڈپریشن، ذیابیطس، ذہنی دباؤ اور امراض قلب کا شکار ہوجاتے ہیں۔
آئیں دیکھیں کہ نیند کی کمی ہمیں کن بیماریوں کا شکار بنا سکتی ہے۔
ڈپریشن
ایک تحقیق کے مطابق نیند کی کمی آپ کو تھکن کا شکار کر سکتی ہے جس کے بعد آپ چڑچڑے پن کا شکار ہوجائیں گے اور صحیح سے اپنے روزمرہ کے کام سرانجام نہیں دے پائیں گے۔ یہ چڑچڑاہٹ آگے چل کر ڈپریشن میں تبدیل ہوسکتی ہے۔
توجہ کی کمی
اگر آپ نے اپنی نیند پوری نہیں کی تو آپ کا دماغ غیر حاضر رہے گا جس کے باعث آپ کسی چیز پر اپنی توجہ مرکوز نہیں کر پائیں گے۔
یہ صورتحال آگے چل کر اے ڈی ایچ ڈی یعنی اٹینشن ڈیفسٹ ہائپر ایکوٹیوٹی ڈس آرڈر میں تبدیل ہوجائے گی جس کا شکار شخص کسی بھی چیز پر تسلسل سے اپنا دھیان مرکوز نہیں کر سکتا۔
ذیابیطس
نیند کی کمی آپ کے جسم میں موجود انسولین کے ہارمون کی کارکردگی کو متاثر کرتی ہے۔ انسولین ہماری غذا میں موجود شکر کو جذب کرتا ہے جس کے باعث یہ ہمارے جسم کا حصہ نہیں بن پاتی۔
اگر یہ ہارمون کام کرنا چھوڑ دے تو جسم میں شکر کی مقدار بڑھ جاتی ہے جس سے ذیابیطس کی بیماری پیدا ہوتی ہے۔ اس بیماری کا واحد علاج مصنوعی طریقہ سے جسم میں انسولین داخل کرنا ہی ہے۔
ہائی بلڈ پریشر
نیند کی کمی بلڈ پریشر میں اضافہ کرتی ہے اور آپ کو ہائی بلڈ پریشر کا مریض بنا سکتی ہے۔
کولیسٹرول میں اضافہ
نیند کی کمی سے آپ کے جسم میں کولیسٹرول کی سطح میں اضافہ ہوسکتا ہے جس سے آپ موٹاپے اور امراض قلب سمیت کئی بیماریوں کا شکار بن سکتے ہیں۔