Tag: dissatisfaction

  • اے کلاس مقدمات کی متنازعہ رپورٹس پر سندھ ہائی کورٹ کا اظہار عدم اطمینان

    اے کلاس مقدمات کی متنازعہ رپورٹس پر سندھ ہائی کورٹ کا اظہار عدم اطمینان

    کراچی : صوبہ سندھ میں اے کلاس مقدمات سے متعلق پراسیکیوٹر جنرل سندھ اور آئی جی کی رپورٹوں میں تضادات پر سندھ ہائی کورٹ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے مسترد کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ میں صوبے بھر کے اے کلاس مقدمات سے متعلق رپورٹ پیش کردی گئی، اے کلاس مقدمات پر پراسیکیوٹر جنرل سندھ اور آئی جی کی عدالتوں میں پیش کی گئی رپورٹس میں تضاد پایا گیا ہے۔

    سندھ ہائی کورٹ نے مذکورہ رپورٹس پر عدم اطمینان کا اظہار کردیا، اس حوالے سے عدالت کا کہنا ہے کہ متعلقہ حکام نے عدالتی فیصلے پرعمل درآمد کوسنجیدہ نہیں لیا۔

    آئی جی سندھ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سندھ بھر میں54ہزار400مقدمات زیرالتوا ہیں جبکہ پراسیکیوٹر جنرل کی رپورٹ کے مطابق88ہزار211مقدمات زیر التوا ہیں۔

    عدالت کا مزید کہنا ہے کہ صرف کراچی کے3اضلاع میں46ہزار مقدمات زیرالتوا ہیں، سندھ پولیس کے اے کلاس مقدمات کا جامع ریکارڈ نہیں ہے، اے آئی جی لیگل اے کلاس مقدمات سے بےخبر ہیں اور اب تک عدالت کی معاونت کرنے میں ناکام رہے ہیں، ریکارڈ کو اپ ڈیٹ رکھنا پولیس مجسٹریٹ عدالتوں کی ذمہ داری ہے۔

    عدالت نے حکم دیا کہ ہر15دن بعد اے کلاس مقدمات کو کازلسٹ میں شامل کیا جائے اور عدالتیں مقدمے میں متاثرہ فریق اور تفتیشی افسر کو طلب کریں۔

    عدالت کی جانب سے ایم آئی ٹی کو حکم جاری کیا گیا کہ ضلعی عدالتوں اور ہائی کورٹ کا ریکارڈ ویب پراپ لوڈ کیا جائے، عدالت نے آئی جی سندھ کو صوبے بھر میں تفتیشی سیل قائم کرنے کا حکم دیتے ہوئے ہدایت کی کہ مذکورہ تفتیشی سیل صوبے، ڈویژن اور ضلعی سطح پر بنائےجائیں۔

    چیئرمین نادرا کو بھی معلومات فراہم کرنے کے سلسلے میں پولیس سے بھرپور تعاون کرنے کی ہدایت کی گئی ہے، اس کے علاوہ عدالت نے اےآئی جی کراچی کو اے کلاس مقدمات کی علیحدہ تفصیل جمع کرانے کی ہدایت ہوئےسی ٹی ڈی، ایس آئی یو، اے وی سی سی کو بھی ریکارڈ فراہم کرنے کا حکم جاری کردیا۔

  • بتایاجائےدھرنےکے پیچھے کون ہے،دھرنے کا فائدہ کس کو ہورہا ہے، جسٹس قاضی فائز

    بتایاجائےدھرنےکے پیچھے کون ہے،دھرنے کا فائدہ کس کو ہورہا ہے، جسٹس قاضی فائز

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نےفیض آباددھرنےپر حکومتی رپورٹ مایوس کن قرار دیدی، جسٹس قاضی فائز نے کہا بتایاجائےدھرنے کے پیچھے کون ہے، دھرنے کا فائدہ کس کو ہورہا ہے، سپلائی لائن کیوں نہیں کاٹی جارہی۔ دھرنےوالوں کوغیرملکی فنڈنگ توحاصل نہیں۔

    تفصیلات کے مطابق فیض آباد میں دھرنے کے خلاف ازخودنوٹس کی سماعت سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے کی، جسٹس قاضی فائز نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ڈنڈااٹھاکراحتجاج،اسلامی تعلیمات میں کہاں لکھاہے، دین اسلام تو امن کا درس دیتا ہے ، کیا اسلامی تعلیمات پرعمل مسلمانوں کافرض نہیں، دھرنے میں استعمال ہونیوالی زبان کیایہ اسلام ہے۔

    انھوں نے مزید کہا کہ سمجھ نہیں آرہا معاشرہ کیسے چلے گا، اتنی کوریج کیوں دی جارہی ہے، پیمرا کہاں ہے، کیا اسلامی تعلیمات میں 2 رائے ہوسکتی ہیں، اسلام میں گفتگوکاآغازالاسلام علیکم سےہوتاہے، ہم جن اداروں پرپیسہ لگارہےہیں ان کاکیا کردار ہے، مغرب کا پروپیگنڈا ہےکہ اسلام تلوار سے پھیلا۔

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریماکس میں کہا کہ اسلام آباد میں کنٹینرز کا خرچہ کون بھررہا ہے، قانون کےرکھوالے پرتشددکیا گیا کیونکہ اس نےوردی پہنی تھی، اسلامی تعلیمات میں جبر کا ذکر نہیں ، ڈنڈے کےزورپراچھی بات بھی بری لگتی ہے۔

    اٹارنی جنرل نے بتایا کہ تصادم کاخطرہ ہے اس لئے حکومت احتیاط کررہی ہے، مذاکرات کا عمل جاری ہے، ہم تشدد روکنے کی کوشش کررہے

    عدالت نے سوال کیا کہ دھرنےوالوں کی سپلائی لائن کیوں نہیں کاٹی جارہی، دھرنے والوں کوچائے کون دے رہا ہے، پیشگی اطلاع کے باوجودپنجاب حکومت نے کارروائی نے کی۔


    مزید پڑھیں :  سپریم کورٹ کا فیض آباد دھرنے کا ازخود نوٹس


    اٹارنی جنرل نے جب یہ کہا کہ سپریم کورٹ کا حکم دھرنے والوں کو بھیجا، تو عدالت نے کہا کیا مطلب فیصلہ اب دھرنے والےکریں گے، کیا پنجاب حکومت یرغمال بن چکی ہے۔

    جسٹس فائز عیسیٰ نے معاملات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ یہی حال رہاتو آئندہ فیصلےعدالتوں کے بجائے سڑکوں پرہوں گے۔

    اعلی عدالت نے دھرنے کےاخراجات کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے کہاکہ بتایا جائے بتایاجائےدھرنےکےپیچھے کون ہے،دھرنے کا فائدہ کس کو ہورہا ہے، دھرنے میں کوئی غیر ملکی تو شامل نہیں، دھرنے پراخراجات کیا آئے اور اب تک کتنا خرچہ ہوا، کون کیا کررہاہےہے عدالت کو بتایا جائے، ٹیکس دینے والے عوام کواخراجات کاعلم ہوناچاہئے۔

    جسٹس قاضی فائز نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ دھرنے میں نامناسب زبان استعمال ہورہی ہے، ختم نبوت کی بات کرنیوالے خود دین الٰہی پرعمل نہیں کررہے، ایک بچےکی موت ہوئی تو دھرنےوالوں کوتوبہ کرلینی چاہئے تھی۔

    سپریم کورٹ کا استفسار کیا کہ حکومت معاملے پر خاموش ہے، دھرنا ختم کرنے کے لیے کیا اقدامات کررہے ہیں ؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ٹھوس اقدامات کرنے والے ہیں آپ کو چیمبرمیں بتاسکتاہوں، جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ چیمبرمیں نہ بتائیں سربمہر لفافے میں تفصیلات بتادیں ہوسکتا ہے معاملے کو پبلک کرنے سے اس کااثرزائل ہو۔

    اٹارنی جنرل نے کہا کہ آج ہی آپ کوسربمہرلفافےمیں تفصیلات فراہم کردوں گا، جس پر جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ آپ کی رپورٹ ماضی کےاقدامات سےمتعلق ہیں، مستقبل کے لیے آپ نے کچھ نہیں کیا۔

    عدالت میں اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ہم مستقبل کے لیے بھی عملی اقدامات کررہے ہیں، آپ کو یہاں بیٹھ کرنظرنہیں آسکتے، کچھ اقدامات خفیہ ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے دھرنے والوں کی تعدادبڑھ نہیں رہی، مقدمات کا اندراج اور گرفتاریاں الگ ہیں۔

    جسٹس قاضی فائز کا کہنا تھا کہ دھرنے پر اخراجات کی تحقیقات آپ نےکیوں نہیں کی، یہ اخراجات کون ادا کرے گا قومی خزانہ توعوام کاہے، یہ اخراجات دھرنےوالوں سے ہی وصول کرنےچاہئیں، کیا آپ نے کوئی اقدامات اٹھائے۔

    اٹارنی جنرل نے جواب میں کہا کہ ابھی تک نہیں مگر یہ پوائنٹ نوٹ کرلیاہے۔

    سپریم کورٹ نے وزارت دفاع کی رپورٹ مایوس کن قرار دیدی اور کہا کہ کون لوگ ہیں،کہاں کام کرتے ہیں ،بینک اکاؤنٹس کہاں ہیں، اکاؤنٹ منجمد کیوں نہیں ، دھرنےوالوں کے 4نام بتادیئےیہ توسب کوعلم ہے، عدالت کوبتایاجائےدھرنےکےپیچھے کون ہے، دھرنا کا فائدہ کس کو ہورہا ہے، آپ حق پر ہیں تو معذرت خوانہ اندازاختیارنہ کریں۔

    جسٹس قاضی فائز نے مزید اپنے ریمارکس میں کہا کہ دھرنے میں کوئی غیر ملکی تو شامل نہیں، دھرنےوالوں کوغیرملکی فنڈنگ توحاصل نہیں، تصدیق کریں دھرنےکافائدہ کس کوہورہاہے، دعا کرتے ہیں اللہ سب کوہدایت دے، کئی مسلم ممالک میں سوشل میڈیا کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔

    بعد ازاں فیض آباددھرناازخودنوٹس کی سماعت آئندہ جمعرات تک ملتوی کردی گئی۔

    یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے فیض آباد میں دھرنے کا نوٹس لیتے ہوئے، آئی جی اسلام آباد،آئی جی پنجاب اوراٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کردیا،جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمار کس دیئے کہ دھرناآرٹیکل 14، 15 اور19 کی خلاف ورزی ہے۔


    مزید پڑھیں : اسلام آباد دھرنا: وزیر داخلہ کی عدالت سے مزید 2 دن کی مہلت طلب


    خیال رہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم فیض آباد میں دھرنے کا سولہواں روز ہے ، اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم کے باوجود حکومت دھرنے والوں کو نہ ہٹا سکی،  مذاکرات کےکئی دور ناکام ہوئے جبکہ علما و مشائخ کا اجلاس بھی بے نتیجہ رہا۔

    دھرنے کے شرکاء وزیر قانون کےاستعفٰی سے کم پر تیارنہیں جبکہ حکومت کا مؤقف ہے کہ بنا ثبوت کے وزیر سے استعفٰی نہیں لے سکتے۔ 

    گذشتہ روزاسلام آباد ہائیکورٹ نے وزرات داخلہ کوایک بارپھر دھرنا ختم کرانے کی ہدایت کی تھی، جس پر وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے عدالت سے اڑتالیس گھنٹے کا وقت لیاتھا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔