Tag: DNA

  • 35 سال بعد ایک ڈی این نے ریپ اور قتل کے متعدد جرائم کا پردہ فاش کردیا

    35 سال بعد ایک ڈی این نے ریپ اور قتل کے متعدد جرائم کا پردہ فاش کردیا

    پیرس: یورپی ملک فرانس میں 80 کی دہائی میں پے در پے قتل اور ریپ کی وارداتوں میں ملوث پراسرار قاتل نے سنسنی پھیلا رکھی تھی، پولیس اس قاتل کو پکڑنے میں ناکام رہی تاہم اب قاتل نے اپنی موت سے پہلے خود ہی اس کا اعتراف کرلیا۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق پیرس میں جرائم کی تفتیش کرنے والے اسکواڈ کو کئی دہائیوں تک ایک بدنام سیریل کلر کے جرائم نے پریشان کر رکھا تھا لیکن اب یہ کہا جارہا ہے کہ ایک سابق فوجی اور پولیس افسر نے اپنی موت سے قبل ’لے گریلے‘ یعنی چیچک کے داغ والے شخص کے نام سے مشہور قاتل ہونے کا اعتراف کیا ہے۔

    مقامی طور پر فرانسوا ویروو کے نام سے منسوب اس سابق فوجی کا ڈی این اے ’لے گریلے‘ سے منسلک کئی جرائم کے جائے وقوعہ میں پایا گیا تھا۔

    قتل اور ریپ کے واقعات نے سنہ 1986 اور 1994 کے درمیان پیرس میں سنسنی پھیلا رکھی تھی لیکن یہ واقعات اس کے اعتراف سے قبل تک ناقابل حل رہے ہیں۔

    اس سے منسوب سنسنی خیز جرائم میں 11 سال کی سیسل بلوخ کا قتل بھی شامل تھا۔ سنہ 1986 میں جب وہ پیرس میں اپنے سکول نہ پہنچیں تو اس کے بعد ان کی گمشدگی کی رپورٹ درج کروائی گئی۔

    متعدد واقعات میں خاندانوں کی نمائندگی کرنے والے وکیل دیدیئر سبان نے کہا کہ ہم لے گریلے کے تمام جرائم کو کبھی نہیں جان پائیں گے۔

    فرانسوا ویروو کو 4 قتل اور 6 ریپ کے واقعات سے منسلک کیا جا رہا ہے لیکن مسٹر سبان کا کہنا ہے کہ بلاشبہ وہ مزید جرائم کا بھی مرتکب رہا ہوگا اور ان کی موت سے بہت سے خاندانوں کے سوالوں کے جواب ادھورے رہ گئے ہیں۔

    قاتل کی لاش کرائے کے فلیٹ سے ملی

    پیرس جوڈیشل پولیس کی کرمنل بریگیڈ کی دیواروں پر لے گریلے کی ایک تصویر کئی دہائیوں سے لٹکی ہوئی ہے۔

    یہ معاملہ بالآخر اس وقت حل ہونے لگا جب حال ہی میں ایک تفتیشی مجسٹریٹ نے پیرس کے علاقے میں اس زمانے میں تعینات 750 ملٹری پولیس افسران کو خط بھیجنے کا فیصلہ کیا۔

    فلیٹ میں مردہ پایا جانے والا 59 سال کا شخص پولیس افسر بننے سے پہلے ایک ملٹری پولیس کا اہلکار تھا اور وہ ریٹائر ہونے والا تھا، پولیس نے 24 ستمبر کو پانچ دن کے بعد ڈی این اے کا نمونہ دینے کے لیے طلب کیا تھا لیکن ان کی بیوی نے 27 ستمبر کو ان کی گمشدگی کی اطلاع دی تھی۔

    قاتل کی لاش بحیرہ روم کے ساحل پر گراؤ دو روئی میں ایک کرائے کے فلیٹ میں خودکشی کے ایک نوٹ کے ساتھ ملی۔ استغاثہ کا کہنا ہے کہ اس کا ڈی این اے کئی جرائم کے مقامات سے ملنے والے شواہد سے ملتا ہے۔

    خط کے مندرجات کی تصدیق نہیں ہو سکی لیکن فرانسیسی رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے اپنے سابقہ جذبات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اس کے بعد سے انہوں نے خود کو یکجا کیا۔

    اس نے بظاہر متاثرین یا حالات کی تفصیل کے بغیر قتل کا اعتراف کیا ہے۔

    لے گریلے کا نام سیسل بلوخ کے قتل کے وقت سے گردش میں رہا، مقتولہ کے سوتیلے بھائی لوک رچرڈ ان رہائشیوں میں شامل ہیں جنھوں نے اس حادثے کے دن ایک شخص کو اپنے اپارٹمنٹ کی عمارت میں دیکھا تھا جس کے چہرے پر کیل مہاسوں کے بہت سے نشان تھے۔

    بلوخ کی لاش بعد میں تہہ خانے میں پرانے قالین کے ایک ٹکڑے کے نیچے ملی تھی۔ عہدیداروں نے بتایا کہ اس لڑکی کا ریپ کیا گیا تھا، اس کا گلا گھونٹا گیا اور پھر چھرا گھونپا گیا اور اس واقعے نے پورے فرانس میں صدمے کی لہر دوڑا دی تھی۔

    ان کے بھائی نے پولیس کو ملزم کا خاکہ بنانے میں مدد کی تھی کیونکہ ان کا خیال تھا کہ انہوں نے اس شخص کے ساتھ لفٹ شیئر کی تھی۔

    ڈی این اے شواہد نے بلوخ نامی نامی لڑکی کے قاتل کو دوسرے قتل اور ریپ کے واقعات میں بھی منسلک پایا، ان میں 1987 میں 38 سال کے گیلس پولیٹی اور ان کی جرمن ساتھی ارمگارڈ مولر کا قتل بھی شامل تھا۔

    مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ سنہ 1994 میں 19 سال کی کیرین لیروئے کے قتل سے بھی منسلک تھا جو اسکول جاتے ہوئے غائب ہونے کے ایک ماہ بعد جنگل کے کنارے مردہ پائی گئی تھیں۔

    ایک 26 سال کی جرمن خاتون کے ساتھ ساتھ 14 اور 11 سال کی دو لڑکیوں کے ساتھ ہونے والے ریپ میں بھی ملزم کو ایک پولیس اہلکار کے طور پر پہچانا گیا تھا۔

    متاثرین کی نمائندگی کرنے والے وکیل نے فرانس انفو ٹی وی کو بتایا ہمیں یہ یقین تھا کہ وہ یا تو کوئی پولیس افسر تھا یا ایک ملٹری پولیس کا اہلکار کیونکہ اس نے اپنے متاثرین کے خلاف جو طریقہ اختیار کیا اور جو ہتھکنڈے اپنائے دونوں اسی جانب اشارہ کر رہے تھے۔

  • قدیم ڈی این اے سے صدیوں‌ قبل کی وبا کا راز حل

    قدیم ڈی این اے سے صدیوں‌ قبل کی وبا کا راز حل

    قدیم ڈی این اے کے تجزیے سے ماہرین نے 600 سال قبل آنے والی دنیا کی سب سے بھیانک اور خطرناک وبا ’طاعون‘ کے ماخذ کا مسئلہ حل کر لیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وسطی ایشیا میں پرانے سلک روڈ تجارتی راستے پر قبرستانوں میں دفن بیوبونک طاعون کے متاثرین کے قدیم ڈی این اے نے ایک دیرینہ معمے کو حل کرنے میں مدد کی ہے، اس تحقیق نے شمالی کرغزستان کے ایک علاقے کو ’بلیک ڈیتھ‘ کے نقطہ آغاز کے طور پر نشان زد کر دیا ہے۔

    یورپ سمیت دیگر خطوں کے ماہرین نے طویل تحقیق کے بعد دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے کم از کم 600 سال قبل دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے والی وبا ’طاعون‘ کے ماخذ کا راز حل کر دیا ہے، جس کے بعد یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ مذکورہ بیماری وسطی ایشیا سے دنیا میں پھیلی۔

    خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق جرمنی اور سوئٹزرلینڈ سمیت دیگر ممالک کے ماہرین نے وسطی ایشیائی ملک کرغزستان کے قدیم قبرستانوں میں سے ملنے والی 14 ویں صدی کی 7 لاشوں سے باقیات حاصل کی تھیں، جن کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا گیا۔

    ماہرین نے جن 7 لاشوں کی باقیات حاصل کی تھیں، ان میں سے تین لاشیں خواتین کی تھیں اور ان کے دانتوں کے ڈین این اے سے معلوم ہوا کہ وہ اس وقت پھیلنے والی ’بلیک ڈیتھ‘ کے نام سے مشہور وبا ’بیوبونک طاعون‘ کا شکار ہوکر چل بسی تھیں۔

    اس تحقیق کا مطالعہ سائنسی جریدے ’نیچر‘ میں شائع کیا گیا، ماہرین کے مطابق اس سے قبل یہ قیاس آرائیاں کی جاتی رہیں ہیں کہ ممکنہ طور پر ’بلیک ڈیتھ‘ کے نام سے مشہور وبا کا آغاز چین یا پھر قدیم ہندوستان سے ہوا ہوگا، تاہم نئی تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ مذکورہ بیماری وسطی ایشیا سے دنیا میں پھیلی۔

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ ممکنہ طور پر بیوبونک طاعون وسطی ایشیائی ممالک سے یورپ، افریقا اور جنوبی ایشیا تک تجارتی راستوں کے ذریعے پھیلی ہوگی، تاہم سائنس دانوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ اس کی ابتدا کرغزستان سے ہوئی یا کسی اور ملک سے؟ لیکن جن لاشوں سے باقیات حاصل کی گئیں، انھیں کرغزستان کے قدیم قبرستانوں سے نکالا گیا تھا اور مذکورہ قبرستانوں پر پہلی بار 1930 میں تحقیق شروع ہوئی تھی۔

    خیال رہے کہ بلیک ڈیتھ کے نام سے مشہور وبا بیوبونک طاعون کو اب تک کی دنیا کی سب سے بھیانک اور بڑی وبا مانا جاتا ہے، جس سے اس وقت یورپ کی تقریبا نصف آبادی جب کہ ایشیا کی 40 فیصد آبادی ہلاک ہوئی تھی، مذکورہ بیماری سے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ 13 ویں صدی کے وسط یا اختتام پر شروع ہوئی اور 17 ویں صدی تک مختلف تبدیلیوں کے ساتھ یورپ، ایشیا اور افریقہ میں تواتر کے ساتھ موجود رہی اور اس سے اندازاً مجموعی طور پر 8 کروڑ لوگ ہلاک ہوئے۔

  • 8 سالہ شاکر کا قتل، مرکزی ملزم گرفتار، ڈی این اے کیا جائے گا

    8 سالہ شاکر کا قتل، مرکزی ملزم گرفتار، ڈی این اے کیا جائے گا

    کراچی: پولیس نے کراچی کے علاقے عمر ماروی گوٹھ، قائد آباد میں 8 سالہ بچے شاکر حسین کے قتل کے مرکزی ملزم کو گرفتار کر لیا ہے، جرم کے تعین کے لیے ملزم کا ڈی این اے کیا جائے گا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق پولیس نے شاہ لطیف تھانے کی حدود میں بچے کے قتل کے معاملے میں میر بالاج نامی ایک شخص کو حراست میں لے لیا ہے، جس کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ اسے اہل محلہ نے لاش کے ساتھ دیکھ کر لائبریری میں بند کر دیا تھا۔

    پولیس کا میر بالاج کو مرکزی ملزم قرار دیتے ہوئے کہنا ہے کہ اس کا ڈی این اے کرایا جائے گا، نیز، پولیس نے اس کیس میں 18 گیر مشتبہ افراد کو بھی حراست میں لیا ہے۔

    گھر سے روٹی لینے نکلنے والے بچے کے ساتھ دردناک واقعہ، لاش لائبریری سے برآمد

    پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ابتدائی معلومات کے مطابق بچے کو زیادتی کے بعد قتل کیا گیا ہے، جب کہ مرکزی ملزم میر بالاج کو رنگے ہاتھوں لائبریری سے پکڑا گیا تھا، بالاج کو اہل محلہ نے بچے کی لاش دیکھ کر لائبریری میں بند کر دیا تھا اور وہ مقتول بچے کا پڑوسی بھی ہے۔

  • ڈاکٹر نوشین کاظمی قتل کیس میں وائس چانسلر کا بڑا فیصلہ سامنے آ گیا

    ڈاکٹر نوشین کاظمی قتل کیس میں وائس چانسلر کا بڑا فیصلہ سامنے آ گیا

    لاڑکانہ: ڈاکٹر نوشین کاظمی قتل کیس میں وائس چانسلر کا بڑا فیصلہ سامنے آ گیا، وائس چانسلر بینظیر بھٹو یونیورسٹی پروفیسر حاکم ابڑو نے چانڈکا ہاسٹل میں آنے والے تمام مردوں کے ڈی این اے کا حکم دے دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ڈاکٹر نوشین کاظمی اور ڈاکٹر نمرتا کماری کی مبینہ خودکشیوں کے سلسلے میں سامنے آنے والی ڈی این اے رپورٹ میں اہم انکشاف کے بعد وی سی یونیورسٹی نے چانڈکا ہاسٹل میں آنے والے ہر مرد کے ڈی این اے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

    دونوں میڈیکل اسٹوڈنٹس کے کپڑوں پر ملنے والے خون کے ڈی این اے رپورٹ میں معلوم ہوا تھا کہ وہ ایک ہی شخص کا ہے، اس رپورٹ کے آنے کے بعد اب وی سی ڈاکٹر حاکم ابڑو نے یونیورسٹی رجسٹرار کو ہاسٹل میں آنے والے ہر مرد کی فہرست بنانے کی ہدایت کر دی ہے۔

    ڈاکٹر نوشین کاظمی کی پراسرار موت، چار ماہ بعد جوڈیشل انکوائری شروع

    وائس چانسلر کا کہنا تھا کہ پولیس تمام مردوں کے ڈی این اے کرانے کے اقدامات کرے گی۔

    واضح رہے کہ  چانڈکا میڈیکل کالج میں ڈاکٹر نوشین کاظمی کی موت کے چار ماہ بعد واقعے کی جوڈیشل انکوائری شروع کردی گئی ہے، آج کالج انتظامیہ اور پوسٹ مارٹم کرنے والی ڈاکٹر سیشن کورٹ پہنچے، انوسٹی گیشن افسربھی جوڈیشل کمیشن کےسامنےپیش ہوئے۔

    گزشتہ سال 24 نومبر کو طالبہ ڈاکٹر نوشین کی چانڈکا ہاسٹل کے کمرے سے لاش برآمدہوئی تھی ، جس کے بعد سندھ حکومت نےواقعے کی جوڈیشل انکوائری کروانےکی یقین دہانی کروائی تھی۔

  • 41 سال قانون کی گرفت سے بچنے والا قاتل آخر کار پکڑ میں آ گیا، کیسے؟

    41 سال قانون کی گرفت سے بچنے والا قاتل آخر کار پکڑ میں آ گیا، کیسے؟

    کنساس: امریکا میں ایک سفاک قاتل چار عشروں تک قانون کی گرفت سے بچا رہا، تاہم کب تک، چالیسویں سال وہ پکڑ میں آ گیا۔

    امریکی میڈیا نے جرم کا ایک کیس رپورٹ کیا ہے، 1979 میں ایک خاتون کے ساتھ زیادتی اور قتل میں ملوث شخص ڈی این اے ڈیٹا بیس کی مدد سے آخر کار 41 سال بعد پکڑا گیا۔

    64 سالہ جیمز ہرمن ڈائی کو امریکی ریاست کنساس میں گرفتار کیا گیا، جس کا تعلق 1979 میں ریاست کولوراڈو میں ایک خاتون کے قتل سے ثابت ہو گیا ہے، جیمز ہرمن ڈائی کو ایولن کے ڈے نامی خاتون کے قتل پر گرفتار کیا گیا ہے، جنھیں نومبر 1979 میں اس نے زیادتی کے بعد گلا گھونٹ کر قتل کر دیا تھا۔

    قتل کے وقت خاتون کی عمر 29 سال تھی، وہ ایک مقامی کالج میں رات کے اوقات میں کام کرتی تھیں، انھیں آخری بار چند طلبہ نے 26 نومبر 1979 کی رات 10 بجے کیمپس کی پارکنگ میں دیکھا تھا، لیکن گھر نہ پہنچنے پر اگلے روز ان کے شوہر نے گمشدگی کی اطلاع پولیس کو دی۔

    رپورٹ کے مطابق اسی دن شام ساڑھے 5 بجے خاتون کے دفتری ساتھیوں کو ان کی گاڑی ملی جس کے پچھلے حصے میں ان کی لاش پڑی تھی، خاتون کو اوور کوٹ کے بیلٹ سے گلا گھونٹ کر مارا گیا تھا۔

    پولیس حکام نے واردات کی جگہ سے شواہد جمع کیے تھے لیکن ان کی بنیاد پر کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آ سکی تھی، تاہم چالیس سال بعد اس کیس میں گزشتہ برس ایک پرائیویٹ جاسوس نے ڈی این اے شواہد جمع کر کے انھیں کمبائنڈ ڈی این اے انڈیکس سسٹم سے ملانے کا مطالبہ کیا۔

    واضح رہے کہ فارنسک اہل کاروں کو مقتولہ کے کوٹ کی آستین اور ان کے ناخنوں سے ڈی این اے نمونہ حاصل ہوا تھا، آخر کار پرائیویٹ سراغ رساں کے مطالبے پر اسے ڈیٹا بیس میں چیک کیا گیا، اور اس طرح مارچ میں وہ قانون کی گرفت میں آ گیا، جس ڈیٹا بیس میں شواہد کو چیک کیا گیا وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہزاروں ڈی این اے پروفائلز چیک کرنے کی سہولت فراہم کرتا ہے۔

    پرائیویٹ سراغ رساں نے اس کے بعد یہ بھی پتا چلایا کہ جیمز ڈائی ایک طالب علم کی حیثیت سے 1979 میں کالج میں داخل بھی ہوا تھا، 22 مارچ کو پولیس تفتیش میں جیمز نے خاتون کو پہچاننے اور قتل کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

  • کتے کے اصل مالک کا فیصلہ ڈی این اے ٹیسٹ نے کر دیا

    کتے کے اصل مالک کا فیصلہ ڈی این اے ٹیسٹ نے کر دیا

    مدھیہ پردیش: ڈی این اے ٹیسٹ سے انسانوں کا تو پتا چلتا ہے لیکن بھارت میں لیبریڈر نسل کے ایک کتے کے اصل مالک کا فیصلہ بھی ڈی این اے ٹیسٹ نے کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کے ضلع ہوشنگاباد میں ایک کتے کی ملکیت پر7 ماہ سے تنازعہ چل رہا تھا، آخر کار اس کے اصل مالک کا فیصلہ ہو گیا۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق کوکو نامی 3 سالہ سیاہ لیبریڈر نسل کے کتے کا جب ڈی این اے ٹیسٹ کیا گیا تو ثابت ہو گیا کہ اس کا اصل مالک شاداب خان ہے جو مقامی صحافی ہے۔

    نومبر 2020 میں کتے کے مالک شاداب خان نے پولیس تھانے میں درخواست جمع کرائی تھی کہ کروتک شوہارے نامی ایک سیاسی شخصیت نے ان کا کتا غلطی سے اپنے قبضے میں لے رکھا ہے۔

    کتے کے خریدنے کے سرٹیفکیٹ اور ویکسی نیشن ریکارڈ کی تصدیق کے بعد درخواست پر کارروائی کرتے ہوئے مقامی پولیس نے با اثر شخص سے کتا قبضے میں لے کر شاداب خان کے حوالے کر دیا۔

    تاہم، بعد میں کروتک شوہارے نے تھانے پہنچ کر دعویٰ کر دیا کہ انھوں نے یہ کتا گزشتہ برس اگست کے مہینے میں اٹارسی شہر سے خریدا تھا، یوں معاملہ پھر متنازعہ ہو گیا، جس پر شاداب خان نے ڈی این اے ٹیسٹ کی تجویز دی، جسے پولیس نے قبول کیا۔

    ٹیسٹ کے لیے پولیس کی ایک ٹیم پچماڑی بھیجی جہاں سے شاداب خان نے کتا خریدا تھا، جب کہ ایک ٹیم اٹارسی بھیجی گئی، اور کتے کے ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے وہاں سے سیمپل لیے گئے تاکہ پتا چل سکے کہ کتے کا تعلق کہاں سے ہے۔

    ڈی این اے ٹیسٹ کے اخراجات کے لیے شاداب خان ہی نے 30 ہزار روپے بھی خود دیے، ٹیسٹ کے لیے کتے کا سیمپل دسمبر 2020 میں لے کر حیدرآباد تنلگانہ فارنسک سائنس لیبارٹری بھیجا گیا تھا، تاہم اس کی رپورٹ جمعرات 18 مارچ کو آئی اور ثابت ہو گیا کہ کتا شاداب خان کا ہے۔

  • کیا زمین پر کسی آفت کی صورت میں یہاں موجود زندگی کو بچایا جاسکتا ہے؟

    کیا زمین پر کسی آفت کی صورت میں یہاں موجود زندگی کو بچایا جاسکتا ہے؟

    اگر زمین پر کسی تباہ کن وبا، سپر آتش فشاں کے پھٹنے، بڑے پیمانے پر جوہری جنگ، عالمی قحط سالی یا سیارچے کے گرنے سے تباہی ہوئی تو کیا اس وقت زمین پر موجود تمام جاندار ہمیشہ کے لیے صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے؟ شاید ماہرین نے اب اس سوال کا جواب نفی میں دے دیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق سائنسدانوں نے ایک منصوبہ پیش کیا ہے جس کے تحت دنیا بھر میں پائے جانے والے 67 لاکھ جانداروں کے ڈی این اے نمونے کشتی نوح کی طرح چاند پر محفوظ کیے جائیں گے۔

    سائنسدانوں نے اسے ماڈرن گلوبل انشورنس پالیسی قرار دیا ہے جس کے تحت تمام جانداروں کے بیج، اسپرمز اور بیضے چاند کی سطح کے نیچے ایک والٹ میں محفوظ کیے جائیں گے۔

    امریکا کی ایری زونا یونیورسٹی کے 6 سائنسدانوں نے یہ منصوبہ مارچ کے آغاز میں انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹریکل اینڈ الیکٹرونکس انجنیئرز ایرو اسپیس کانفرنس کے دوران پیش کیا، جہاں ان کا کہنا تھا کہ اس منصوبے سے انسانوں کو معدوم ہونے سے بچانے مدد ملے گی۔

    اس منصوبے کو لونر آرک کا نام دیا گیا ہے۔

    سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگر زمین پر کسی تباہ کن وبا، سپر آتش فشاں کے پھٹنے، بڑے پیمانے پر جوہری جنگ، عالمی قحط سالی یا سیارچے کے گرنے سے تباہی ہو تو یہ منصوبہ انسانوں سمیت دیگر جانداروں کو معدوم ہونے سے بچا سکے گا۔

    انہوں نے مزید کہا کہ زمین کا ماحول قدرتی طور پر کمزور ہے، مگر چاند پر زمینی حیات کے ڈین این اے نمونوں کو محفوظ کرنے سے کسی بہت بڑے سانحے سے جانداروں کی اقسام معدوم ہونے پر بچایا جاسکے گا۔

    ویسے تو یہ خیال کسی سائنس فکشن ناول یا فلم کا لگتا ہے، مگر اسے پیش کرنے والے سائنسدانوں نے تخمینہ لگایا ہے کہ 67 لاکھ جانداروں کے اسپرم، بیضے اور بیجوں کو چاند پر محفوظ کرنا قابل عمل آپریشن ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ ان نمونوں کو ڈھائی سو خلائی پروازوں کے ذریعے چاند پر پہنچایا جاسکے گا۔ اس کے مقابلے میں ایک بین الاقوامی اسپیس اسٹیشن کی تعمیر کے لیے 40 پروازوں کی ضرورت ہوگی۔

    ان نمونوں کو چاند کی سطح کے نیچے منجمد ہونے یا ایک دوسرے سے جڑنے سے بچانے کے لیے سائنسدانوں نے اس والٹ کو سولر پینلز سے پاور فراہم کرنے کی تجویز بھی دی ہے۔

    سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ اس طرح کے منصوبوں سے انسانیت کو خلائی تہذیب بنانے میں پیشرفت ہوگی اور مستقبل قریب میں چاند اور مریخ پر انسانوں کے بیسز ہوں گے۔

    اس طرح کے منصوبے کے لیے چاند پر مرکز بنانا بہت بڑا لاجسٹک چیلنج ہے مگر سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ مستقبل قریب میں ناسا اور یورپین اسپیس ایجنسی کے چاند پر بھیجے جانے والے مشنز سے اس طرح کے تعمیراتی منصوبوں کی بنیاد رکھنے میں مدد ملے گی۔

    اس منصوبے کے لیے کھربوں ڈالرز درکار ہوں گے مگر سائنسدانوں کے خیال میں اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی شراکت داری سے ایسا ممکن ہوسکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اگر ضرورت پڑی تو اس منصوبے کو 10 سے 15 سال میں مکمل کیا جاسکتا ہے۔

  • چائے پینی ہے یا کافی؟ آپ کا ڈی این اے بتائے گا

    چائے پینی ہے یا کافی؟ آپ کا ڈی این اے بتائے گا

    بعض افراد کو چائے بے حد پسند ہوتی ہے جبکہ کچھ کو کافی، تاہم چائے کافی کی اس پسند ناپسند کا انحصار ہماری جینیات پر ہوتا ہے۔

    نیچر سائنٹفک رپورٹس نامی جریدے میں چھپنے والی ایک تحقیق کے مطابق ہمارے چائے یا کافی کو پسند کرنے کا انحصار ہماری جینیات یا ڈی این اے پر ہوتا ہے۔

    وہ افراد جن کی جینیات تلخ اور کھٹے ذائقوں کو برداشت کرسکتی ہوں، صرف ایسے افراد ہی تلخ کافی پینا پسند کرتے ہیں۔

    اس کے برعکس بعض افراد کی جینیات تلخ ذائقوں کے حوالے سے حساس ہوتی ہے، ایسے افراد قدرتی طور پر چائے پینا پسند کرتے ہیں۔

    تحقیق کے مطابق وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہماری جینیات نے ذائقوں کے حوالے سے بھی ارتقائی مراحل طے کیے اور مختلف ذائقے پہچاننے کی صلاحیت کی حامل ہوتی گئیں۔

    اس سے قبل ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ سیاہ اور اسٹرونگ کافی پینے والے ذہنی خلل کا شکار افراد ہو سکتے ہیں۔

    امریکا میں کی جانے والی تحقیق کے مطابق وہ افراد جو مختلف فلیورز کی جگہ تلخ ذائقے پسند کرتے ہیں ان میں نفسیاتی الجھنوں، خود پسندی اور اذیت رسانی کا رجحان پایا جاتا ہے۔

    اس کے برعکس دودھ اور مٹھاس سے بھری کافی پینے والوں میں لچک، ہمدردی اور تعاون کا جذبہ زیادہ ہوتا ہے۔

  • نلترہیلی کاپٹرحادثہ: متاثرہ ممالک کے وفود میتیں لینے پاکستان پہنچ گئے

    نلترہیلی کاپٹرحادثہ: متاثرہ ممالک کے وفود میتیں لینے پاکستان پہنچ گئے

    اسلام آباد: نلتر ہیلی کاپٹر حادثے میں جاں بحق ہونے والے سفارتی اہلکاروں کے متعلقہ ممالک کے وفود پاکستان پہنچ گئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق ناروے، فلپائن، انڈونیشیا اور ملائشیا کے وفود پاکستان آئے ہیں اور ان کے ہمراہ ڈی این اے ٹیسٹ کے ماہرین بھی موجود ہیں۔

     مذکورہ ممالک کے ماہرین اپنے ممالک کے سفیروں کی میتوں کی شناخت میں پاکستان کی مدد کریں گے۔ تین میتوں کے ڈی این اے ٹیسٹ کی تیاریاں سی ایم ایچ اسپتال میں مکمل ہوچکی ہیں اور پاکستابی ڈاکٹر اور متعلقہ ممالک کے ماہرین مشترکہ ڈی این اے رپورٹ تیار کریں گے۔

    دوسری جانب نیدرلینڈ کے سفیر جو کہ حادثے میں زخمی ہوئے ہیں ان کو لینے کے لئے ایئر ایمبولینس جلد ہی پاکستان پہنچنے والی ہے۔

    دفترِ خارجہ سے جاری کردہ اعلامیے کےمطابق ضابطے کی کاروائی میں دو سے تین دن کا وقت درکار ہے جس کے بعد مذکورہ ممالک کے سفیروں کی میتیں ان کے آبائی ممالک عزت و احترام کے ساتھ روانہ کردیں جائیں گی۔


    گلگت میں آرمی کے ہیلی کاپٹر کی کریش لینڈنگ، آٹھ جاں بحق


      اس سے قبل وزیر اعظم نواز شریف اعلان کرچکے ہیں کہ ہرمیت کے ساتھ ایک وفاقی وزیربھی جائے گا۔

    پاک فوج کے ایم 17 ہیلی کاپٹر کو 08 مئی 2015 کو تکنیکی خرابی کے سبب گلگت کے علاقے نلترمیں حادثہ پیش آیا تھا جس میں دو پائلٹس اور چیف انجینئر شہید جبکہ 6 غیرملکی افراد جاں بحق ہوئے ہیں جن میں ناروے کے سفیر،فلپائن کےسفیر اور ان کی اہلیہ اور ملائشیا اور انڈونیشیا کے سفیروں کی بیگمات شامل ہیں۔ حادثے میں پولینڈ اورہالینڈ کے سفیروں سمیت 13 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ شہید ہونےوالےپائلٹس میجر فیصل اور میہجر التمش ہیں۔

  • ڈی این اے میں تبدیلی کے ذریعے’ڈیزائنربچے‘پیدا کریں

    ڈی این اے میں تبدیلی کے ذریعے’ڈیزائنربچے‘پیدا کریں

    برطانیہ میں سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ڈی این اے میں تبدیلی کی سہولتوں میں ترقی کے سبب اس بات کا امکان روشن ہو گیا ہے کہ ڈیزائنر بچے پیدا ہو سکیں۔

    انھوں نے عوام اور ضابطہ کاروں سے اپیل کی ہے کہ وہ جینیاتی طور پر تبدیل شدہ بچے کے لیے تیار رہیں۔

    ان کی یہ دلیل ہے کہ ان جینیاتی تبدیلیوں سے بعض بیماریوں سے نجات پانے میں مدد ملے گی۔

    ڈاکٹر ٹونی پیری جو اس ٹیم کا حصہ رہے ہیں جس نے پہلے چوہوں اور پھر خنزیر کی کلوننگ کی تھی ان کا کہنا ہے کہ ’جینیات کے شعبے میں انقلاب آفریں تبدیلیاں رونما ہونے کو ہیں۔‘

    انھوں نے کہا کہ ’جینیات کے شعبے میں گذشتہ دو سالوں میں جس قدر ترقی ہوئی ہے اس کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ ڈیزائنر بچے اب صرف ایچ جی ویلز کا ہی میدان نہیں رہا۔

    واضح رہے کہ سائنس فکشن میں بہت زمانے سے جینیاتی طورپرتبدیل شدہ بچوں کی بات کہی جاتی رہی ہے جس میں زیادہ خوبصورت، زیادہ عقلمند اوربیماریوں سے پاک بچہ پیدا کرنے کے لیے جینیاتی طور پرتبدیلیاں کی گئی ہوں۔