Tag: Domestic Violence

  • نشئی شوہرکا بیوی پر بدترین تشدد، جان سے مارنے کی کوشش ناکام

    نشئی شوہرکا بیوی پر بدترین تشدد، جان سے مارنے کی کوشش ناکام

    بدین: نشے کی لت کا شکار شوہر نے بیوی پر بدترین تشدد کرکے اسے جان سے مارنے کی کوشش کی تاہم محلہ داروں نے عین وقت پر مداخلت کرکے لڑکی کی زندگی بچالی۔

    تفصیلات کے مطابق بدین شہر کے وسط سے گزرنے والی نہر کے کنارے پر واقع کچی آبادی مسان محلہ کے رہائشی اشوک عرف اشو میگواڑ نے نشہ کی حالت میں اپنی بیوی گوڈی پر لاتوں مکوں سے تشدد کرتے ہوئے گلے میں ڈپٹہ ڈال کر مارنے کی کوشش کی ۔

    عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ تشدد کا شکار گوڈی میگواڑ کی چیخ پکار اور مدد کی اپیل پر محلہ داروں نے فوری طور پر گھر میں داخل ہو کر تشدد کا شکار عورت کو شوہر کی نرغے سے بچایا اور واقع کی اطلاع پولیس کو دی۔

    اطلاع ملنے پر بدین سٹی پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئےے موقع پر پہنچ کر تشدد میں ملوث اشوک میگواڑ کو نشہ کی حالت میں گرفتار کر کے تھانے میں لاک اپ کر دیا ۔

    محلہ داروں کے مطابق گرفتار اشوک میگواڑ اس سے قبل بھی اپنی سابقہ بیوی سونی کو اکثر بدترین تشدد کا شکار بناتا تھا جس نے تشدد سے تنگ آکر خودکشی کر لی تھی۔

    پولیس کے مطابق تشدد میں ملوث ملزم کو گرفتار کر لیا ہے ملزم پر مقدمہ درج کرانے کے لئے لڑکی کے اہل خانہ کی جانب سے تاحال ابھی تک کوئی تھانہ پر نہیں پہنچا دوسری جانب معلوم ہوا ہے کہ ملزم کے بھائی اور دیگر رشتے دار ملزم کی بیوی دبا ؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ مقدمہ درج کرانے کے بجائے راضی نامہ کرلے۔

    یاد رہے کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق 20 فیصد سے زائد خواتین پاکستان میں گھریلو تشدد کا شکار ہیں جبکہ ہر سال لگ بھر پانچ ہزار خواتین گھریلو تشدد کے سبب جان کی بازی ہار جاتی ہیں، گھریلو تشدد سے تنگ آکر خودکشی کرنے والی خواتین کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔

    قوانین موجود ہونے کے باوجود ان پر عمل در آمد نہیں ہوپا تا ہے جس کا بنیادی سبب متاثرہ فریق کی جانب سے شکایت کا درج نہ کرانا، اور پولیس کے نظام کی خامیاں ہیں ، دورانِ تفتیش خواتین کو مختلف طریقوں سے پریشان کرکے پیسے اینٹھنے اور اور کیس کو ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

  • گھریلو تشدد کا شکار خواتین کے لیے رہائش فراہم کرنے کا اعلان

    گھریلو تشدد کا شکار خواتین کے لیے رہائش فراہم کرنے کا اعلان

    جزیرہ بلقان کے ملک البانیا میں گھریلو تشدد کا شکار خواتین کو کم قیمت رہائش فراہم کرنے کا قانون منظور کرلیا گیا۔

    البانیا میں اقوام متحدہ خواتین (یو این ویمن) کے اشتراک سے ملک بھر میں کام کرنے والی 48 سول سوسائٹی کی تنظیمیں اس وقت ان خواتین کو کم قیمت رہائش فراہم کرنے کے منصوبے پر کام کر رہی ہیں جو رہائش نہ ہونے کے سبب گھریلو تشدد کا شکار ہونے پر مجبور ہیں۔

    یہ خواتین اپنے شوہروں یا ساتھیوں کی جانب سے مستقل گھریلو تشدد کا شکار ہورہی ہیں اور اس رشتے سے اس لیے چھٹکارہ حاصل نہیں کرسکتیں کیونکہ ان کے پاس کوئی جائے رہائش نہیں۔

    ایسی خواتین کو رہائش فراہم کرنے کا بل گزشتہ سال پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا تھا جسے اب منظور ہونے کے بعد یو این ویمن کی معاونت بھی حاصل ہوگئی ہے۔

    رضا کارانہ بنیادوں پر گزشتہ کئی برسوں سے بے سہارا خواتین کے لیے شیلٹر ہاؤس چلانے والی معروف سماجی کارکن ایڈلرا کا کہنا ہے کہ عموماً خواتین کے پاس ذاتی گھر نہیں ہوتے، اگر وہ ناپسندیدہ رشتے سے جان چھڑانا چاہیں تو طلاق کے بعد رہائش سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں، بعد میں وہ معاشی طور پر اس قابل نہیں ہوتیں کہ گھر خرید سکیں یا کرائے کا گھر حاصل کرسکیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ رہائش نہ ہونا ہی خواتین کا پرتشدد رشتوں میں بندھے رہنا ایک بڑا سبب ہے تاہم انہیں امید ہے کہ اب نیا قانون ایسی خواتین کے لیے آسانیاں پیدا کرسکے گا۔

    شیلٹر ہاؤس میں رہنے والی ایک خاتون نے بتایا کہ کچھ عرصے تک شیلٹر ہاؤس میں رہنے کے بعد انہیں مجبوراً الگ گھر حاصل کرنا پڑا، مہنگی رہائش کے سبب ان کی کمائی کا بڑا حصہ کرائے کی نذر ہوجاتا ہے۔ ’کرایہ ادا کرنے کے لیے مجھے بعض اوقات بھوکا بھی رہنا پڑتا ہے‘۔

    انہیں امید ہے کہ اب حکومت کے اس اقدام کے بعد ان جیسی کئی خواتین کو باسہولت رہائش میسر آسکے گی۔

  • گھریلو تشدد، ذہنی امراض اور ایک ناول

    گھریلو تشدد، ذہنی امراض اور ایک ناول

    ورجینا وولف نے کہا تھا،”ناول ایک ایسی صنف ہے، جس میں دنیا کا ہر موضوع سمویا جاسکتا ہے۔”

    یہ سچ ہی تو ہے۔ پھر یہ صنف اتنی پرقوت ہے کہ بیانیہ کی الگ الگ تکنیکس، جیسے واقعات نگاری، تجریدی ڈھب، تجزیاتی انداز ، یہاں تک کہ فلسفیانہ موشگافیوں کا بھی بوجھ ڈھو لیتی ہے۔

    صدیوں سے یہ کتاب ہی تھی، جو کسی مسئلے کی نشان دہی اور  عوام میں شعور پیدا کرنے کا موثر  ترین ذریعہ ٹھہری۔ ممکن ہے، نشان دہی کے معاملے میں ٹی وی چینلز کتاب سے آگے نکل گئے ہوں، مگر اثر پذیری میں کتاب اب بھی غالب ہے۔ اور ’’ابھی جان باقی ہے‘‘ بھی ایسی ہی ایک کتاب ہے۔

    موضوع کیا ہے؟

    یہ ناول گھریلو تشدد کے ٹول کے ذریعے ایک ایسے مسئلے کی نشان دہی کرتا ہے، جس کی جانب شاید کم ہی توجہ دی گئی۔ اور یہ ہے: ذہنی امراض۔

    مصنف کیوں کہ ذہنی معذوری ڈسلیکسیا کا شکار ہے، اسی باعث وہ ان امراض کے اثرات کو، بالخصوص گھریلو تشدد کے تناظر میں زیادہ موثر انداز میں بیان کرسکتا تھا، اور اس نے ایسا ہی کیا۔ 

    کیا اس نے یہ عمل کاملیت کے ساتھ انجام دیا؟ کسی بھی فکشن نگار کے پہلے ناول اسے اس نوع کی توقع کرنا اپنی اساس ہی میں غیرفطری ہے۔

    احساسات اور رویے، جنھیں قلم بند کیا گیا؟

    ناول نگار نے  ذہنی امراض سے متعلق لاعلمی، عدم توجہی، مریض کے اہل خانہ کی ٹال مٹول جیسے رویے کو  خوبی سے منظر کیا۔

    ’’ابھی جان باقی ہے‘‘ میں مجبوری کے ایک ایسے احساس کو پیش کیا گیا، جو  معاشرہ افراد، بالخصوص عورت پر عائد کر تا ہے۔ پہلے شادی، پھر بچوں کو پیدایش، اس پر مستزاد مالی طور پر شوہر اور سسرال پر انحصار، یوں وہ کلی طور پر محدود ہو جاتی ہے۔ اس محدودیت کا کرب ہم تک ان صفحات کے ذریعے پہنچتا ہے۔

    کہانی پلاٹ اور کرداروں کی

    یہ حنا کی کہانی ہے، جو مہندی آرٹسٹ ہے، جس کی شادی ماجد سے ہوتی ہے، جو اوروں سے کچھ مختلف ہے، مگر اتنا بھی نہیں کہ آدمی چونک اٹھے۔

    البتہ دھیرے دھیرے پریشان کن واقعات رونما ہونے لگتے ہیں۔ تشدد کا عنصر بڑھتا جاتا ہے، ساتھ ساتھ ہم ان واقعات، سانحات کے روبرو ہوتے ہیں، جو ہماری یادوں میں محفوظ ہیں کہ یہ کہانی 2017 تک آتی ہے۔

    بنیادی کردار تو حنا اور ماجد ہی ہیں، باقی کردار ان ہی دو سے جڑے ہوئے ہیں۔ کردار نگاری موثر ہے، کہیں کردار مصنوعی نہیں لگتا۔

    ناول کے آخر تک ہم حنا سے تو ہمدردی محسوس کرتے ہیں، مگر جو ذہنی مریض ہے، یعنی ماجد، اس کے لیے ہم میں ہمدردی کا جذبہ پیدا نہیں ہوتا۔ کسی اور بیانیہ میں شاید یہ مسئلہ نہیں ہو، مگر وہ ناول، جو اسی موضوع پر ہو، اس میں قاری یہ تقاضا ضرور  کرتا ہے۔

    تکنیک اور زبان

    چند صفحات پڑھ کر ہی آپ کو انداز ہوجاتا ہے کہ ناول نگار عصری ادب سے جڑا ہوا ہے۔ یہ ناول اپنے اختتامیے سے شروع ہوتا ہے، ایک معصوم بچی، خون، مہندی، ایمبولینس اور پھر ایک فائر۔ یہ ایک موثر  آغاز ہے۔

     ہر حصے پر ایک عنوان ٹکایا گیا ہے، چند قارئین کو اس سے الجھن ہوتی ہے، مگر راقم کے نزدیک یہ پڑھت کے عمل کو سہل بناتا ہے، البتہ گرفت کا تقاضا ضرور کرتا ہے۔  بے شک اِسے مزید موثر بنایا جاسکتا تھا۔

    ناول میں برتی جانے والی زبان کہانی کے تقاضے بڑی حد تک نبھاتی ہے۔ عام بول چال بھی گرفت کیا گیا ہے۔ البتہ رموز و اوقاف کے استعمال اور جملے کو لکھنے کے ڈھب میں بہتری کی گنجایش ہے۔

    جہاں جہاں جزئیات بیان کی گئیں، وہ قاری تک وہ احساس پہنچانے میں کامیاب رہیں، جو لکھاری کا مقصد تھا، چند مناظر واقعی متاثر کن ہیں، جن اضافی معلوم ہوتے ہیں۔

    حرف آخر

    ابھی جان باقی ہے مطالعیت سے بھرپور ناول ہے، یہ خود کو پڑھوانے کی قوت رکھتا ہے۔ ساتھ ہی یہ یوں بھی اہم ہوجاتا ہے کہ یہ ایک حساس موضوع کو منظر کرتا ہے، جس کی بابت ہم کم ہی بات کی اور یہ صرف مسئلہ کو اجاگر کرنے تک محدود نہیں رہتا، بلکہ کامیابی سےایک کہانی بھی بیان کرتا ہے۔

    ہاں، اسے مزید ایڈٹ کیا جاسکتا تھا،223 صفحات زیادہ تو نہیں، مگر یہ بیانیہ دو سو صفحات میں زیادہ موزوں لگتا۔

    ہم چنگیز راجا کے اگلے ناول سے کیسی امیدیں باندھ سکتے ہیں، اس کی خبر ہم اس ناول سے مل جاتی ہے۔

    علم و عرفان پبلشرز کے زیر اہتمام، اچھے گیٹ اپ میں شایع ہونے والے اس ناول کی قیمت چھ سو روپے ہے۔

  • خیبر پختونخواہ میں گھریلو تشدد کی روک تھام کے لیے قانون تیار

    خیبر پختونخواہ میں گھریلو تشدد کی روک تھام کے لیے قانون تیار

    پشاور: خیبر پختونخواہ میں گھریلو تشدد کی روک تھام کے لیے قانون تیار کرلیا گیا جس میں تشدد کرنے والے شوہر کو 30 ہزار روپے جرمانے اور 3 ماہ قید کی سزا تجویز کی گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق خیبر پختونخواہ میں گھریلو تشدد کی روک تھام کے لیے قانون تیار کرلیا گیا۔ مجوزہ بل کے مطابق تشدد کرنے والے شوہر کو 30 ہزار روپے جرمانہ اور3 ماہ قید کی سزا ہوسکتی ہے۔

    بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ شوہر بیوی کو کام کرنے کی جگہ یا کسی اور جگہ دھمکانے پر سزا کا مرتکب ہوگا، جبکہ بیوی کے رشتہ داروں کو دھمکانے پر بھی سزا ملے گی۔

    بل میں کہا گیا ہے کہ ناچاقی کی صورت میں شوہر کو بیوی کی سلامتی کی ضمانت کا پابند بنایا جائے جبکہ شوہر بیوی اور بچوں کو نان نفقہ اور دیگر اخراجات دینے کا بھی پابند ہوگا۔

    مزید پڑھیں: جنسی حملوں سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر

    بل کے مطابق بیوی کی جانب سے جھوٹا الزام لگانے پر اسے 50 ہزار روپے جرمانہ بھی عائد ہوگا۔

    خیال رہے اس سے قبل خیبر پختونخواہ کی اسمبلی میں خواتین پر گھریلو تشدد، جنسی ہراسمنٹ یا کم عمری کی شادی کی شکایات درج کروانے کے لیے ہیلپ لائن بھی قائم کی گئی ہے۔

    زما آواز یعنی ’میری آواز‘ نامی یہ ہیلپ لائن خواتین کو سہولت فراہم کرے گی کہ وہ اپنے یا کسی اور پر ہوتے گھریلو تشدد کی شکایت براہ راست خیبر پختونخواہ کی اسمبلی میں درج کروا سکیں۔

    شکایت کے بعد مقرر کردہ کمیٹی درج کی جانے والی شکایات کا جائزہ لے کر فوری طور پر متعلقہ حکام کو ان پر کارروائی کرنے کی ہدایات جاری کرے گی۔

  • تیونس میں خواتین پر تشدد کے خلاف تاریخی قانون منظور

    تیونس میں خواتین پر تشدد کے خلاف تاریخی قانون منظور

    شمالی افریقی ملک تیونس میں خواتین پر تشدد کے خلاف تاریخی قانون منظور کرلیا گیا جس کی مہم ایک عرصے سے چلائی جارہی تھی۔

    تیونس کی 217 رکنی پارلیمنٹ میں اس قانون کی حمایت میں 146 ووٹ ڈالے گئے جس کے بعد اس قانون کو منظور کرلیا گیا۔

    قانون کی منظوری کے بعد وزیر برائے صنفی امور نزیہہ لبادی کا کہنا تھا کہ ایک تیونسی خاتون ہونے کی حیثیت سے مجھے فخر ہے کہ اس قانون کو منظور کرلیا گیا ہے۔

    مزید پڑھیں: گھریلو تشدد پر بنایا گیا متاثر کن اشتہار

    مذکورہ قانون میں خواتین پر تشدد کی جدید اور وسیع تر تعریف کو استعمال کیا گیا ہے۔ قانون کے تحت خواتین کے خلاف معاشی، جنسی، سیاسی اور نفسیاتی تشدد کو بھی صنفی تشدد کی قسم قرار دے کر قابل گرفت عمل قرار دیا گیا ہے۔

    اس قانون کے تحت تشدد کا شکار خواتین کو قانونی، سماجی اور نفسیاتی معاونت بھی فراہم کی جائے گی تاکہ وہ اپنی زندگی کو نئے سرے سے شروع کرسکیں۔

    نئے قانون کی منظوری کے بعد اس سے قبل رائج کثرت ازدواج کا قانون بھی کالعدم ہوگیا ہے جس کی وجہ سے ملک میں لڑکیوں کی کم عمری کی شادی کا رجحان فروغ پارہا تھا۔

    مزید پڑھیں: افریقی ممالک میں کم عمری کی شادی غیر قانونی قرار

    حالیہ قانون میں شادی کے لیے دونوں فریقین کی رضامندی اور طلاق کے لیے باقاعدہ قانونی طریقہ کار اپنانا ضروری قرار دے دیا گیا ہے۔

    تیونس میں مذکورہ قانون کی منظوری کے لیے سول سوسائٹی و دیگر اداروں کی جانب سے ایک عرصے سے مہم چلائی جارہی تھی۔ قانون سازی کے لیے تیونسی پارلیمنٹ نے عالمی اداروں اور اقوام متحدہ سے بھی مدد لی جس کے بعد مذکورہ قانون کی منظوری عمل میں لائی گئی ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • غریدہ فاروقی کیس‘ عدالت کا تفصیلی فیصلہ جاری

    غریدہ فاروقی کیس‘ عدالت کا تفصیلی فیصلہ جاری

    لاہور:مقامی عدالت نے اینکر پرسن غریدہ فاروقی کی جانب سے گھریلو ملازمہ کو حبس بے جا میں رکھنے کے متعلق کیس کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق ایڈیشنل سیشن جج حفیظ الرحماب نے دو صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا ‘ تحریری فیصلے میں عدالت نے قرار دیا کہ’’ لڑکی کو سندر پولیس نے غریدہ فاروقی کے گھر سے بازیاب کروایا‘‘۔

    فیصلے میں یہ بھی لکھ گیا کہ ’’غریدہ فاروقی نے غیر قانونی طور پر سونیا کو گھر میں بند کر رکھا ہوا تھا جس کا کوئی قانونی جواز نہیں۔ لڑکی سونیا کے بیان کی روشنی میں باپ کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی گئی ہے اور اب لڑکی اپنے والدین کے ساتھ رہنے میں آزاد ہے‘‘۔

    یاد رہے کہ سیشن عدالت نے دو روز قبل غریدہ فاروقی کی گھریلو ملازمہ کو آزاد کرنے کا حکم دیا تھا ۔ملازمہ سونیا کے والد محمد منیر کی جانب سے دائر درخواست میں موقف اختیا رکیا گیا کہ غریدہ فاروقی نے بیٹی کو غیر قانونی طور پر گھر میں قید کر رکھا ہے۔


    عدالتی فیصلے کا عکس


    Gharida Farooqi

    Gharida Farooqi

    سونیا کی عدالت میں پیشی


    عدالتی حکم پر پندرہ سالہ سونیا کو پیش کیا گیا جہاں معزز عدالت بچی کو اپنے والد منیر کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی‘ عدالت نے بازیابی کے بعد لڑکی کے والد کو ان کے قانونی حق سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’لڑکی کے والدین چاہیں تو حبس بے جا میں رکھنے پر غریدہ فاروقی کے خلاف قانونی کارروائی بھی کر سکتے ہیں۔

    یاد رہے کہ بیس جولائی کو بچی کے والد نے اپنی بچی کی بازیابی کے لیے درخواست جمع کرائی تھی جس پر عدالت نے ایس ایچ او تھانہ سندر کو 21 جو لائی کو بچی عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔ حکم نامے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ اس معاملے میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کی جائے۔

    اس معاملے پر جب اے آروائی نیوز نے ٹی وی اینکر غریدہ فاروقی سے ا ن کا موقف لینے کی کوشش کی تو انہوں نے بات کرنے سے انکار کرتے ہوئے مذکورہ بچی کو پہچاننے سے انکارکردیا۔


    غریدہ فاروقی کی مبینہ آڈیو



    اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئرکریں۔

  • ٹی وی اینکر کاملازمہ پر تشدد ‘ عدالت نے بچی کو والد کے حوالے کردیا

    ٹی وی اینکر کاملازمہ پر تشدد ‘ عدالت نے بچی کو والد کے حوالے کردیا

    لاہور: معروف ٹی وی اینکر غریدہ فاروقی کے خلاف دائر کردہ حبس ِ بے جا کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے مقامی عدالت نے بیٹی کو باپ کے ساتھ بھیجنے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور کے ایڈیشنل سیشن جج حفیظ الرحمان کی عدالت میں منیر نامی شہری کی جانب سے درخواست دائر کی گئی کہ ’’اس کی پندرہ سالہ بیٹی سونیا غریدہ فاروقی کے گھر میں کام کرتی ہے‘ کافی عرصے سے اینکر پرسن اس کی اور بیٹی کی ملاقات نہیں کروا رہی جبکہ بیٹی ہر تشدد بھی کیا جا رہا ہے‘‘۔

    درخواست گزار کے مطابق’’اسے اپنی بیٹی کی زندگی کے حوالے سے بہت سے خدشات ہیں کہ اسے نقصان نہ پہنچایا جائے اس لیے عدالت بیٹی کو بازیاب کرنے کا حکم دے ‘‘۔


    سابق لیگی ایم پی اے کے گھر کمسن ملازمہ پر تشدد، بچی بازیاب


    عدالتی حکم پر پندرہ سالہ سونیا کو پیش کیا گیا جہاں معزز عدالت بچی کو اپنے والد منیر کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی‘ عدالت نے بازیابی کے بعد لڑکی کے والد کو ان کے قانونی حق سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’لڑکی کے والدین چاہیں تو حبس بے جا میں رکھنے پر غریدہ فاروقی کے خلاف قانونی کارروائی بھی کر سکتے ہیں۔

    یاد رہے کہ بیس جولائی کو بچی کے والد نے اپنی بچی کی بازیابی کے لیے درخواست جمع کرائی تھی جس پر عدالت نے ایس ایچ او تھانہ سندر کو 21 جو لائی کو بچی عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔ حکم نامے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ اس معاملے میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کی جائے۔

    اس معاملے پر جب اے آروائی نیوز نے ٹی وی اینکر غریدہ فاروقی سے ا ن کا موقف لینے کی کوشش کی تو انہوں نے بات کرنے سے انکار کرتے ہوئے مذکورہ بچی کو پہچاننے سے انکا ر کردیا۔


    غریدہ فاروقی کی آڈیو


    اسی واقعے کے تناظر میں غریدہ فاروقی کی ایک مبینہ آڈیو کال بھی سامنے آئی ہے جس میں وہ کہہ رہی ہیں کہ ’’ انہوں نے لڑکی پر چالیس ہزار روپے خرچ کیے ہیں‘ وہ پیسے دے دو اور لڑکی کو لے جاؤ‘‘۔

    اے آروائی نیوز کے اینکر پرسن اقرار الحسن نے اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’سرعام‘ کی ٹیم نے آئی ٹی ماہرین سے آواز کی تصدیق کرائی ہے اور مزید تصدیق کے لیے آڈیو ‘فارنزک لیبارٹری میں بھیجی ہے جس کی رپورٹ کا انتظار ہے۔

    یاد رہے کہ کچھ دن قبل سرعام کے اینکر اقرار الحسن نے اپنے ایک پروگرام میں ایک سابق ایم پی اے کے گھر سے ایک گھریلو ملازمہ کو بازیاب کرایا تھا جسے گرم سلاخوں سے تشدد کا نشانہ بنایا تھا اور کئی کئی دن بھوکا رکھا جاتا تھا۔


    اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئرکریں۔

  • رکن اسمبلی کی بیٹی کے مبینہ تشدد سے ملازم ہلاک‘ بہن زخمی

    رکن اسمبلی کی بیٹی کے مبینہ تشدد سے ملازم ہلاک‘ بہن زخمی

    لاہور: مسلم لیگ ن کی رکن صوبائی اسمبلی شاہ جہاں کی بیٹی کے مبینہ تشدد سے گھریلو ملازم جاں بحق جبکہ اس کی گیارہ سالہ بہن شدید زخمی ہے ، پولیس نے واقعے کا مقدمہ درج کرلیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور اکبری گیٹ میں اوکاڑہ کا رہائشی 16 سالہ اختر اور اسکی 11 سالہ بہن فوزیہ کے گھر دو سال سے ملازمت کررہے تھے۔ خاتون فوزیہ مسلم لیگ ن کی لاہور سے تعلق رکھنے والی ایم پی اے شاہ جہاں کی بیٹی ہے، گھر سے اختر کی لاش برآمد ہوئی، جبکہ اسکی بہن عطیہ کے جسم پر بھی تشدد کے نشانات ہیں۔

    پولیس نے ایم پی اے کی بیٹی فوزیہ کے خلاف مقدمہ قتل کی دفعہ تین سو دو کے تحت درج کیا گیا، لاہور میں درج ہونے والے اس مقدمے میں گیارہ سالہ عطیہ پر تشدد اور چائلڈ لیبر قوانین کی دفعات نہیں لگائی گئیں۔ تشدد کا نشانہ بننے والی عطیہ کا کہنا ہے کہ ہم پر تشدد لوہے کے راڈ اور ڈنڈوں سے کیا جاتا تھا۔ وزیر اعلی ٰپنجاب واقعہ کا نوٹس لے کر ہمیں انصاف فراہم کریں۔

    عطیہ نے یہ بھی بتایا کہ پورے دن ان سے بے پناہ مشقت والے کام کرائے جاتے تھے اور محض دو وقت کھانا دیا جاتا تھا،بچوں کے والد اسلم کا کہنا تھا کہ اگر بچوں سے کوئی مسئلہ تھا توملزمہ کو ہم سے بات کرنی چاہیے تھی ۔

    والد اسلم نے مزید بتایا کہ تین سال سے بچے مقامی خاتون ایم پی اے شاہ جہاں کے گھر کام کررہے تھے۔ ہماری اعلی ٰحکام سے انصاف کی اپیل ہے ۔

    چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی چیئر پرسن صبا صادق نے بھی واقعہ کا نوٹس لے لیا ہے،ان کا کہنا ہے کہ بچی کے علاج معالجے کے ساتھ ساتھ قانونی مدد بھی فراہم کی جائے گی۔

    طیبہ کے والدین نے مقدمہ واپس لے لیا

    یاد رہے گزشتہ برس اسلام آباد میں ایڈیشنل جج کی اہلیہ نے گھریلو ملازمہ طیبہ پر تشدد کیا تھا، اے آر وائی پر خبر آنے کے بعد  پولیس نے بچی کو تحویل میں لیا اور مقدمہ درج کیا۔

    بعد ازاں والدین مقدمہ واپس لے لیا اورمؤقف اختیار کیا کہ غربت کی وجہ سے انہوں نےطیبہ کو راجا خرم کے حوالےکیا، طیبہ سابق ایڈیشنل جج  کے گھر سے لاپتہ ہوئی توانہوں نےفون پر اطلاع دی۔


    اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئرکریں۔

  • گھریلو تشدد کے خلاف آگاہی کے لیے بنگلہ دیشی اشتہار وائرل

    گھریلو تشدد کے خلاف آگاہی کے لیے بنگلہ دیشی اشتہار وائرل

    ڈھاکہ: دنیا بھر میں مختلف تنظیمیں، ادارے اور افراد خواتین پر گھریلو تشدد کے خلاف آگاہی اور ان کے خاتمے کے لیے مختلف اقدامات میں مصروف ہیں، تاہم اس سلسلے میں بنگلہ دیش میں بنایا جانے والا ایک آگہی اشتہار سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا۔

    اشتہار کا آغاز ایک دلہن سے ہوتا ہے جس میں اسے شادی کی تقریب کے لیے تیار ہو کر جاتا ہوا دکھایا گیا ہے۔

    اگلے منظر میں وہی خاتون اپنے بال کٹوانے کے لیے سیلون میں موجود ہیں۔

    ہیئر ڈریسر اس کی زلفیں دیکھ کر ان کی تعریف کرتی ہے مگر وہ اپنے بال چھوٹے اور مزید چھوٹے کروانے کے لیے اصرار کرتی ہے جس پر ہیئر ڈریسر ناگواری کا اظہار بھی کرتی ہے۔

    آخر میں جب وہ خاتون اپنے بال چھوٹے کرنے کی وجہ بتاتی ہے تو وہاں موجود تمام افراد کی سانسیں رک جاتی ہیں۔ وہ خاتون کہتی ہے، ’ان بالوں کو مزید کاٹ دو تاکہ دوبارہ کوئی انہیں جکڑ نہ سکے‘۔

    مزید پڑھیں: پاکستان میں 80 فیصد خواتین تشدد کا شکار

    اس اشتہار کا مقصد بنگلہ دیش میں گھریلو تشدد کے اذیت ناک مسئلے کی طرف توجہ دلانا ہے۔ اشتہار کے آخر میں دکھایا گیا ہے، ’زلفیں ایک عورت کا فخر ہیں، اس فخر کو اس کی کمزوری مت بنائیں‘۔

    بالوں کی آرائشی مصنوعات کی ایک کمپنی کی جانب سے بنائے جانے والے اس اشتہار کو 35 لاکھ افراد نے دیکھا۔

    ایک بین الاقوامی ادارے کی جانب سے کی جانے والی تحقیق کے مطابق بنگلہ دیش کی 87 فیصد خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہیں۔

    اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ خواتین پر تشدد سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ اس تشدد کو ایک معمول کا عمل سمجھا جاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: عورت کے اندرونی کرب کے عکاس فن پارے

    ادارے کی رپورٹس کے مطابق ترقی پذیر اور کم تعلیم یافتہ ممالک، شہروں اور معاشروں میں گھریلو تشدد ایک عام بات ہے۔ خود خواتین بھی اس کو اپنی زندگی اور قسمت کا ایک حصہ سمجھ کر قبول کرلیتی ہیں اور اسی کے ساتھ اپنی ساری زندگی بسر کرتی ہیں۔

    اقوام متحدہ کے مطابق خواتین پر تشدد ان میں جسمانی، دماغی اور نفسیاتی بیماریوں کا سبب بنتا ہے جبکہ ان میں ایڈز کا شکار ہونے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔