Tag: DONALD TRUMP

  • ٹرمپ نے شی جن پنگ پر امریکا کے خلاف سازش کرنے کا الزام لگا دیا

    ٹرمپ نے شی جن پنگ پر امریکا کے خلاف سازش کرنے کا الزام لگا دیا

    واشنگٹن (03 ستمبر 2025): صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صدر شی جن پنگ پر امریکا کے خلاف سازش کرنے کا الزام لگا دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا کے صدر ڈونلڈ نے چین پر روس اور شمالی کوریا سے مل کر سازش کا الزام لگا دیا ہے، اور دوسری طرف جاپان کے ماضی کا ذکر کر کے اسے ایک پریشان کن صورت حال میں ڈال دیا۔

    روئٹرز کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے بیجنگ میں چین کی سب سے بڑی فوجی پریڈ شروع ہوتے ہی، ٹروتھ سوشل پر ایک پوسٹ میں، چین کو جاپان سے آزادی حاصل کرنے میں مدد کرنے میں امریکی کردار پر روشنی ڈالی۔

    ٹرمپ نے چینی صدر کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ ’’براہ کرم ولادیمیر پیوٹن اور کم جونگ اُن کو میری نیک تمنائیں پہنچا دیں جب آپ لوگ امریکا کے خلاف سازش کر رہے ہوں۔‘‘

    چین کے صدر شی جن پنگ نے دنیا کو امن کا پیغام دے دیا

    ٹرمپ نے اس سے قبل صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ چین کے فوجی پریڈ کو امریکا کے لیے کسی چیلنج کے طور پر نہیں دیکھتے، اور انھوں نے چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ اپنے ’’نہایت اچھے تعلقات‘‘ برقرار رکھنے کا اعادہ کیا۔ دوسری طرف بدھ کے روز جاپان کے اعلیٰ ترین سرکاری ترجمان نے پریڈ پر تبصرہ کرنے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ ایشیا کی دو بڑی معیشتیں تعمیری تعلقات قائم کر رہی ہیں۔

    واضح رہے کہ بیجنگ میں فوجی پریڈ سے خطاب میں چین کے صدر شی جن پنگ نے دنیا کو امن کا پیغام دے دیا ہے، انھوں نے کہا کہ انسانیت کو جنگ یا امن میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔ شی جن پنگ نے اپنے خطاب میں اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ ’’ہم جتنے بھی مضبوط ہو جائیں کبھی توسیع پسندی کا راستہ اختیار نہیں کریں گے، ہم کبھی اپنے ماضی کی مصیبت کو کسی دوسرے ملک پر عائد نہیں کریں گے۔‘‘

  • امریکی محکمہ دفاع کا پرانا نام کیا ہے؟ ٹرمپ کا منصوبہ سامنے آ گیا

    امریکی محکمہ دفاع کا پرانا نام کیا ہے؟ ٹرمپ کا منصوبہ سامنے آ گیا

    واشنگٹن (31 اگست 2025): ٹرمپ انتظامیہ نے محکمہ دفاع کا پرانا نام محکمہ جنگ بحال کرنے پر غور شروع کر دیا ہے۔

    امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کے روز اس خیال کا اظہار کیا کہ محکمہ دفاع (Department of Defense) کو اس کے پرانے نام، محکمہ جنگ (Department of War) پر واپس لایا جا سکتا ہے، ان کا کہنا تھا کہ موجودہ نام 1940 کی دہائی سے رائج ہے، اور یہ حد سے زیادہ دفاعی ہے۔

    صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ان کی انتظامیہ آئندہ چند دنوں میں نام تبدیل کر سکتی ہے، ٹرمپ نے کہا کہ حکام شاید اگلے ایک ہفتے میں پنٹاگون کو اس جارحانہ نام پر واپس لے جائیں گے جو اسے کبھی حاصل تھا۔

    صدر نے پیر کی سہ پہر اوول آفس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہم دفاعی بننا چاہتے ہیں، لیکن اگر ضرورت پڑے تو ہم جارحانہ بھی بننا چاہتے ہیں۔ ان کا مؤقف تھا کہ امریکا کو اس کے پرانے نام کے تحت پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے دوران ناقابل یقین فتوحات حاصل ہوئی تھیں۔

    یوکرین کو اب کسی قسم کی مالی یا فوجی امداد فراہم نہیں کر رہے، ٹرمپ کا اعلان

    ٹرمپ نے پہلے کہا کہ یہ تبدیلی آئندہ ایک ہفتے یا اس سے کچھ زیادہ وقت میں متوقع ہے، تاہم چند گھنٹوں بعد انھوں نے کہا کہ وہ اس فیصلے کو وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ پر چھوڑ دیں گے، ہم اسے چند بار اور آزمائیں گے، اور اگر سب کو یہ پسند آیا، تو ہم یہ تبدیلی کر دیں گے۔

    امریکی جریدے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 1947 میں امریکی محکمہ جنگ کا نام تبدیل کر کے محکمہ دفاع رکھا گیا تھا۔ ٹرمپ انتظامیہ کو محکمہ دفاع کے پرانے نام کی بحالی کے لیے کانگریس کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ اس لیے ٹرمپ انتظامیہ کانگریس کی بجائے متبادل طریقوں پر غور کر رہی ہے۔

    جب ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ کیا کانگریس کو اس پرانے نام کی بحالی کی منظوری دینی ہوگی، کیوں کہ قانون سازوں نے ہی اس کا نام پہلے تبدیل کیا تھا، تو صدر ٹرمپ نے کہا ’’مجھے ایسا نہیں لگتا، ہم بس یہ کریں گے، اگر ضرورت ہوئی تو مجھے یقین ہے کہ کانگریس ساتھ دے گی لیکن مجھے نہیں لگتا کہ ہمیں اس کی بھی ضرورت ہے۔

    یاد رہے کہ امریکی صدر کئی مہینوں سے وفاقی حکومت کے سب سے بڑے محکمے کے نام کی تبدیلی کا عندیہ دیتے رہے ہیں۔ پچھلے مہینے انھوں نے ایک موقع پر ٹرتھ سوشل پر پیٹ ہیگستھ کو اپنا ’’وزیرِ جنگ‘‘ قرار دیا تھا۔

  • ٹرمپ نے پیوٹن اور زیلنسکی کی ملاقات نہ ہونے کی صورت میں نتائج سے خبردار کر دیا

    ٹرمپ نے پیوٹن اور زیلنسکی کی ملاقات نہ ہونے کی صورت میں نتائج سے خبردار کر دیا

    واشنگٹن (26 اگست 2025): امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ولادیمیر پیوٹن اور ولودیمیر زیلنسکی کی ملاقات نہ ہونے کی صورت میں نتائج سے خبردار کر دیا۔

    امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے دوطرفہ ملاقات میں روسی اور یوکرینی صدور کی شرکت کے حوالے سے شک کا اظہار کیا ہے، اور کہا کہ وہ یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ پیوٹن اور زیلنسکی دو طرفہ ملاقات میں شرکت کریں گے یا نہیں۔

    ٹرمپ نے کہا ’’میرا یقین ہے کہ ہم اس تنازعے کو سلجھا لیں گے، ہم اسے ختم کر دیں گے لیکن نہیں معلوم کہ وہ ملیں گے یا نہیں۔ شاید وہ ملیں، شاید نہ ملیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ میں بھی اس ملاقات میں شامل ہوں۔ میں نے کہا یہ معاملہ آپ لوگوں کے درمیان ہے، ہمارا نہیں۔ آپ کو اسے خود حل کرنا چاہیے۔‘‘

    ٹیرف جنگ کے لیے مودی نے امریکا میں لابنگ فرموں کا سہارا لے لیا

    پیر کے روز صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ پیوٹن زیلنسکی سے ملنے کے معاملے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں کیوں کہ وہ انھیں پسند نہیں کرتے، تاہم ٹرمپ نے خبردار کیا کہ اگر دو طرفہ ملاقات نہ ہوئی تو اس کے بہت بڑے نتائج ہو سکتے ہیں، لیکن دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔ بہت بڑے نتائج ممکن ہیں کیوں کہ یہ معاملہ اب ختم ہونا چاہیے۔

    خیال رہے کہ ایک ہفتہ قبل ہی ٹرمپ نے روس یوکرین جنگ ختم کرانے کے لیے وائٹ ہاؤس میں یورپی رہنماؤں کی میزبانی کی تھی۔ اتحادیوں کا ماننا ہے کہ دو طرفہ ملاقات روس کی یوکرین جنگ ختم کرنے کے مذاکرات کا اگلا لازمی مرحلہ ہے۔

    ٹرمپ اس سے قبل ان ممالک پر ثانوی پابندیوں کی دھمکی دے چکے ہیں جو روسی توانائی خریدتے ہیں، تاہم اب تک صرف بھارت پر اضافی محصولات عائد کیے گئے ہیں۔

    دوسری طرف اتوار کو نشر ہونے والے ایک انٹرویو میں روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا کہ کسی ملاقات کی کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے، گزشتہ ہفتے وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرولین لیویٹ نے کہا تھا کہ پیوٹن نے امن مذاکرات کے اگلے مرحلے، یعنی صدر پیوٹن اور صدر زیلنسکی کی ملاقات پر رضامندی ظاہر کی ہے۔

    روسی وزیر خارجہ نے کہا کہ ایسی ملاقات سے پہلے ایک طویل تیاری درکار ہوگی، جس میں زیریں سطح کے وفود انسانی، عسکری اور سیاسی امور پر بات کریں گے، پیوٹن زیلنسکی سے اس وقت ملنے کے لیے تیار ہیں جب سربراہی اجلاس کے لیے ایجنڈا تیار ہو جائے، اور فی الحال یہ ایجنڈا بالکل تیار نہیں ہے۔

  • فیفا ورلڈ کپ 2026: وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ سے فیفا کے صدر کی اہم ملاقات، میڈیا کی تنقید

    فیفا ورلڈ کپ 2026: وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ سے فیفا کے صدر کی اہم ملاقات، میڈیا کی تنقید

    واشنگٹن (23 اگست 2025): فیفا ورلڈ کپ 2026 کے سلسلے میں وائٹ ہاؤس میں ڈونلڈ ٹرمپ اور فیفا کے صدر کی اہم ملاقات ہوئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق فیفا کے صدر جیانی انفنٹینو نے امریکی صدر ٹرمپ سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کی ہے، جس کے بعد انھوں نے انکشاف کیا کہ 2026 کے ورلڈ کپ کی قرعہ اندازی اس دسمبر میں واشنگٹن میں ہوگی۔

    ٹرمپ نے اعلان کیا کہ فیفا ورلڈ کپ کے لیے ٹیموں کے ڈراز 5 دسمبر کو کینیڈی سینٹر میں ہوں گے، اور عالمی فٹبال ایونٹ کا واشنگٹن سے نیا تاریخی آغاز ہوگا، کینیڈی سینٹر اس ایونٹ کا شان دار آغاز کرے گا۔

    امریکی صدر کا کہنا تھا کہ امریکی ٹیم بھی اس ایونٹ میں حصہ لے گی، فیفا ورلڈ کپ 2026 تاریخ کا سب سے بڑا ایونٹ ہوگا۔ ملاقات کے موقع پر فیفا کے صدر نے امریکی صدر ٹرمپ کو ان کے نام کی ٹی شرٹ بھی پیش کی۔

    واضح رہے کہ فیفا ورلڈ کپ 2026 تین ملکوں میں مشترکہ طور پر منعقد ہوگا، امریکا، کینیڈا اور میکسیکو فٹبال ورلڈ کپ کی میزبانی کریں گے، میگا ایونٹ کے 13،13 میچز میکسیکو اور کینیڈا میں ہوں گے، جب کہ بقیہ میچز امریکا کے 11 شہروں میں ہوں گے۔

    دوسری طرف امریکی اخبارات نے فیفا کے صدر کی اس طرح ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات پر شدید تنقید کی ہے، اور کہا ہے کہ وہ آمر حکمرانوں اور انسانی حقوق کی پامالی کرنے والوں کی چاپلوسی کر رہے ہیں۔ یو ایس ٹوڈے نے لکھا کہ جیانی انفنٹینو کی خوشامدانہ روش اب فیفا ورلڈ کپ کو بھی داغدار کر رہی ہے۔

    اخبار نے لکھا کہ اگلے سال ہونے والا مردوں کا ورلڈ کپ، شمالی کوریا کے طرز کا ریاستی پروپیگنڈا ایونٹ بنتا جا رہا ہے، اور انفنٹینو بخوشی اس کا حصہ بن رہے ہیں، اور ایک ایسے موقع پر جس میں محض یہ اعلان ہونا تھا کہ قرعہ اندازی کینیڈی سینٹر میں ہوگی، وہ 45 منٹ تک ٹرمپ کے پہلو میں کھڑے ہنستے رہے جیسے وہ بھی کابینہ کے کوئی رکن ہوں۔

    یہاں تک کہ انفنٹینو اُس وقت بھی خاموش کھڑے رہے جب ٹرمپ نے یہ تجویز دی کہ شاید ولادیمیر پیوٹن بھی اس ٹورنامنٹ میں شریک ہوں، حالاں کہ 2022 میں یوکرین پر حملے کے بعد روس پر فیفا کے مقابلوں میں شرکت پر پابندی عائد ہے۔

  • ٹرمپ نے بھارت میں نیا سفیر نامزد کر دیا

    ٹرمپ نے بھارت میں نیا سفیر نامزد کر دیا

    واشنگٹن (23 اگست 2025): امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سرجیو گور کو بھارت میں نیا امریکی سفیر نامزد کر دیا ہے۔

    روئٹرز کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعہ کے روز اعلان کیا کہ وہ سرجیو گور کو بھارت میں امریکا کا اگلا سفیر نامزد کر رہے ہیں، سرجیو امریکی صدر کے قریبی ساتھیوں میں سے ایک ہیں۔

    سرجیو گور بھارت میں ایسے وقت میں سفارت کاری سنبھالیں گے جب دونوں ممالک کے تعلقات کشیدہ ہو چکے ہیں اور اگلے ہفتے سے بھارت سے درآمدات پر امریکی ٹیرف دُگنا کیے جانے کی تیاری کر لی گئی ہے۔

    پینٹاگون نے ڈیفنس انٹیلیجنس چیف کو عہدے سے فارغ کر دیا، وجہ کیا تھی؟

    ٹرمپ نے بتایا کہ سرجیو گور اس وقت وائٹ ہاؤس کے صدارتی عملے کے دفتر کے ڈائریکٹر ہیں، وہ جنوبی اور وسطی ایشیائی امور کے لیے خصوصی ایلچی کے طور پر بھی خدمات انجام دیں گے۔

    ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا ویب سائٹ ٹروتھ سوشل پر ایک پوسٹ میں کہا کہ گور اپنی موجودہ حیثیت میں اس وقت تک کام جاری رکھیں گے جب تک امریکی سینیٹ کی جانب سے انھیں بھارت میں سفیر کے طور پر تقرری کی توثیق نہیں مل جاتی۔

    ٹرمپ نے کہا ’’سرجیو ایک عظیم دوست ہیں، جو کئی سالوں سے میرے ساتھ رہے ہیں۔ انھوں نے میری تاریخی صدارتی مہمات پر کام کیا، میری بیسٹ سیلر کتابیں شائع کیں، اور میرے دوسرے دورِ صدارت کے لیے عملے کی بھرتی کے کام میں بھی سرگرم رہے۔‘‘

    ٹرمپ نے مزید لکھا ’’دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے خطے کے لیے یہ بہت اہم ہے کہ میرے ساتھ کوئی ایسا شخص ہو جس پر میں مکمل طور پر بھروسہ کر سکوں تاکہ وہ میرے ایجنڈے کو آگے بڑھائے اور ہماری مدد کرے کہ ہم امریکا کو دوبارہ عظیم بنائیں۔‘‘

  • صدر ٹرمپ نے امریکا میں پوسٹل بیلٹ نظام ختم کرنے کا عندیہ دے دیا

    صدر ٹرمپ نے امریکا میں پوسٹل بیلٹ نظام ختم کرنے کا عندیہ دے دیا

    واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ملک میں پوسٹل بیلٹ کا نظام ختم کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکا میں مڈ ٹرم الیکشن سے قبل صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا اہم بیان سامنے آیا ہے، ان کا کہنا تھا کہ بطور ری پبلکن پارٹی پوسٹل بیلٹ نظام ختم کریں گے۔

    ٹرمپ نے پیر کو کہا کہ وہ 2026 کے مڈ ٹرم انتخابات سے قبل ڈاک کے ذریعے ڈالے جانے والے ووٹوں (Mail-in Ballots) اور ووٹنگ مشینوں کے استعمال کو ختم کرنے کے لیے ایک صدارتی حکم نامہ (ایگزیکٹو آرڈر) جاری کریں گے، اور اس آرڈر کی تیاری کا عمل جاری ہے۔

    روئٹرز کے مطابق امریکا میں وفاقی انتخابات ریاستی سطح پر کرائے جاتے ہیں، اور یہ واضح نہیں ہے کہ صدر کو آئینی طور پر ایسا حکم جاری کرنے کا اختیار حاصل ہے یا نہیں۔ بعض ریاستوں کی جانب سے اس اقدام کو قانونی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کیوں کہ اس اقدام سے ان کی ریپبلکن پارٹی کو غیر متناسب طور پر فائدہ پہنچ سکتا ہے۔

    اِسکبیڈی، ٹریڈ وائف، ڈی لولو، ماؤس جگلر، ان الفاظ کا کیا مطلب ہے؟

    روایتی طور پر ڈیموکریٹک ووٹرز ریپبلکنز کی نسبت ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالنے کو ترجیح دیتے ہیں، اس لیے ٹرمپ کا یہ وعدہ دراصل انتخابات کے میدان کو اپنی پارٹی کے فائدے میں بدلنے کی تازہ کوشش ہے۔ انھوں نے ٹیکساس اور انڈیانا سمیت کئی ریاستوں میں ریپبلکنز پر زور دیا ہے کہ وہ کانگریسی حلقہ بندیوں کو اس انداز میں ازسرِنو ترتیب دیں کہ ریپبلکن امیدواروں کے کامیاب ہونے کے امکانات بڑھ جائیں۔

    ٹرمپ نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا: ’’میں ڈاک کے ذریعے ووٹ دینے کے نظام کو ختم کرنے کی تحریک کی قیادت کرنے جا رہا ہوں، اور ساتھ ہی ہم بہت مہنگی، شدید متنازعہ اور حد درجہ ’غیر درست‘ ووٹنگ مشینوں سے بھی جان چھڑائیں گے۔‘‘ بعد میں وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ نے کہا کہ اگر ریپبلکن پارٹی اقتدار میں رہنا چاہتی ہے تو اسے اس نئی کوشش کی حمایت کرنی ہوگی۔

  • ’’کریمیا چھوڑ دو اور نیٹو میں کبھی شامل نہ ہونے پر راضی ہو جاؤ‘‘

    ’’کریمیا چھوڑ دو اور نیٹو میں کبھی شامل نہ ہونے پر راضی ہو جاؤ‘‘

    واشنگٹن: امریکی میڈیا نے کہا ہے کہ آج یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی سے ملاقات کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ان کو پیغام دیں گے کہ ’’کریمیا چھوڑ دو اور نیٹو میں کبھی شامل نہ ہونے پر راضی ہو جاؤ۔‘‘

    سی این این کے مطابق یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی آج پیر کو ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ملاقات کریں گے، اس سلسلے میں واشنگٹن پہنچ چکے ہیں، اس ملاقات میں اہم یورپی رہنما بھی شامل ہوں گے۔

    ٹرمپ نے اس پیغام پر نظر ثانی کی ہے کہ جو وہ پیش کریں گے کہ اگر جنگ ختم کرنا چاہتے ہیں تو زیلنسکی کو روس کی کچھ شرائط سے اتفاق کرنا ہوگا، جن میں یوکرین کا کریمیا کو چھوڑنا بھی شامل ہے اور اس بات پر بھی راضی ہوں گے کہ وہ کبھی نیٹو میں شامل نہیں ہوں گے۔

    روس پر بڑی پیشرفت ہوئی ہے انتظار کریں، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ

    دوسری طرف اتوار دیر گئے زیلنسکی نے واشنگٹن ڈی سی پہنچنے کے بعد یوکرین کی سلامتی کی ضمانت کے لیے امید کا اظہار کیا ہے، یوکرین کے صدر نے کہا کہ انھیں یقین ہے کہ یوکرین یورپی رہنماؤں کی حمایت سے سلامتی کی ضمانتیں حاصل کر لے گا۔ زیلنسکی نے ایکس پر لکھا کہ ہم سب اس جنگ کو جلد اور قابل اعتماد طریقے سے ختم کرنے کی شدید خواہش رکھتے ہیں لیکن امن پائیدار ہونا چاہیے۔

    ان کا کہنا تھا کہ روس نے جنگ کے خاتمے کو مشکل بنا دیا ہے، وہ بار بار جنگ بندی کی اپیلوں کو مسترد کر رہا ہے۔ ابھی تک یہ طے نہیں کیا کہ وہ کب قتل و غارت روکے گا، یہی چیز صورت حال کو پیچیدہ بنا رہی ہے۔

  • یوکرین ڈونباس کا علاقہ چھوڑ دے، ٹرمپ نے پیوٹن کی تجویز کی حمایت کر دی

    یوکرین ڈونباس کا علاقہ چھوڑ دے، ٹرمپ نے پیوٹن کی تجویز کی حمایت کر دی

    واشنگٹن (17 اگست 2025): امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی اس تجویز کی حمایت کر دی ہے کہ جنگ بندی کے لیے یوکرین ڈونباس کا علاقہ چھوڑ دے اور اسے ماسکو کے حوالے کر دے۔

    فاکس نیوز کے مطابق یوکرین کے ساتھ امن معاہدے کے لیے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روسی رہنما ولادیمیر پیوٹن کی اس تجویز کی حمایت کی ہے کہ ماسکو کو ڈونباس کے علاقے کا مکمل کنٹرول سنبھالنے دیا جائے، اس کے بدلے روس باقی علاقے چھوڑ دے گا۔

    نیویارک ٹائمز کے مطابق صدر ٹرمپ نے یورپی رہنماؤں سے فون پر کہا کہ اگر یوکرینی صدر ڈونباس چھوڑنے کے لیے تیار ہیں تو امن معاہدے پر بات چیت ہو سکتی ہے، اے ایف پی نے بھی رپورٹ کیا کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے ملاقات میں صدر ٹرمپ سے مطالبہ کیا ہے کہ یوکرین ڈونباس کو چھوڑ دے۔

    الاسکا میں جمعہ کے روز پیوٹن سے ملاقات کے بعد، ٹرمپ نے یورپی اتحادیوں کو بتایا کہ روسی صدر نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ وہ کلیدی لوہانسک اور ڈونیٹسک خطے چاہتے ہیں، اور زاپوریژیا اور کھیرسن میں میں جنگ ختم کرنے اور اگلے مورچے خالی کرنے پر آمادہ ہیں۔

    یوکرینی جنرل نے اجلاس کو پیوٹن کی چالاکی اور ٹرمپ کی کمزوری قرار دے دیا

    خیال رہے کہ ڈونباس کی جنگ سے پہلے کی آبادی تقریباً 6.5 ملین تھی اور اس میں لوہانسک اور ڈونیٹسک کے علاقے شامل ہیں۔ یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی نے اس سے قبل ڈونباس کے علاقے سے دست بردار ہونے کے خیال کو مسترد کر چکے ہیں۔

    گزشتہ روز ایک بیان میں ولودیمیر زیلنسکی نے کہا کہ روس جنگ کے خاتمے کی کوششوں کو پیچیدہ بنا رہا ہے، اور بار بار جنگ بندی کی اپیلوں کو مسترد کر رہا ہے۔ دوسری جانب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر پوسٹ میں کہا کہ جنگ کو ختم کرنے کا بہترین راستہ امن معاہدے کی طرف جانا ہے، اس سے فوری طور پر جنگ ختم ہو جائے گی، جنگ بندی کے معاہدے اکثر اوقات برقرار نہیں رہتے۔

  • جنگ بندی معاہدہ اب صدر زیلنسکی پر منحصر ہے، صدر ڈونلڈ ٹرمپ

    جنگ بندی معاہدہ اب صدر زیلنسکی پر منحصر ہے، صدر ڈونلڈ ٹرمپ

    الاسکا (16 اگست 2025): امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روسی صدر سے ملاقات کے بعد ایک بیان میں کہا ہے کہ روس یوکرین جنگ بندی معاہدہ اب صدر وولودیمیر زیلنسکی پر منحصر ہے۔

    تفصیلات کے مطابق فاکس نیوز سے گفتگو میں امریکی صدر ٹرمپ نے کہا کہ اب جلد ہی صدر پیوٹن اور زیلنسکی کے درمیان ملاقات ہوگی، دونوں رہنما ملاقات میں میری موجودگی بھی چاہتے ہیں۔

    انھوں نے کہا یہ سوچ غلط تھی کہ تنازعہ حل کرنا آسان ہوگا، یہ سب سے مشکل تھا، روسی صدر پیوٹن سے ملاقات مثبت رہی ہے، اور روس پر پابندیاں لگانے یا اس بارے میں اب سوچنے کی ضرورت نہیں رہی ہے۔ صدر ٹرمپ نے مزید کہا کہ میں اس بات کو یقینی بنانا چاہتا ہوں کہ یہ معاہدہ ہو جائے، ہمارے پاس اس معاہدے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے اچھا موقع ہے۔

    خیال رہے کہ الاسکا میں امریکی صدر ٹرمپ اور روسی صدر پیوٹن کے درمیان اہم ملاقات ہو گئی ہے تاہم اس میں جنگ بندی کا اعلان نہ ہو سکا، روسی اور امریکی وفود کے درمیان ملاقات ڈھائی گھنٹے سے زائد وقت تک جاری رہی۔ اس موقع پر امریکا کی جانب سے وزیر خارجہ مارکو روبیو اور خصوصی مندوب وٹکوف جب کہ روسی وفد میں وزیر خارجہ لاوروف اور ایلچی یوری اوشاکوف بھی موجود تھے۔


    ٹرمپ پیوٹن ملاقات ختم، جنگ بندی کا اعلان نہ ہوسکا


    مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے روسی صدر پیوٹن کا کہنا تھا کہ ملاقات مثبت اور تعمیری رہی، میرے اور صدر ٹرمپ کے درمیان اچھے براہ راست رابطے ہیں، مذاکرات کی دعوت دینے پر امریکی صدر کے شکر گزار ہیں۔ انھوں نے کہا پائیدار اور دیرپا امن کے لیے جنگ کی بنیادی وجوہ کو ختم کرنا ہوگا، یورپ سمیت دنیا بھر میں سلامتی کے توازن کو بحال ہونا چاہیے۔

    انھوں نے کہا 2022 میں ڈونلڈ ٹرمپ صدر ہوتے تو یوکرین میں جنگ کی نوبت ہی نہ آتی، سابق امریکی صدر جوبائیڈن کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ صورت حال کو تصادم کی سطح پر نہ لائیں۔ صدر ٹرمپ نے اپنے خطاب میں کہا کہ روسی صدر سے ملاقات کے بعد یوکرین کے صدر زیلنسکی اور نیٹو حکام سے ٹیلی فون پر بات کروں گا۔

  • امریکی صدر ٹرمپ نے واشنگٹن ڈی سی کا سیکیورٹی کنٹرول سنبھال لیا

    امریکی صدر ٹرمپ نے واشنگٹن ڈی سی کا سیکیورٹی کنٹرول سنبھال لیا

    واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک حیرت انگیز اقدام کے تحت واشنگٹن ڈی سی کا سیکیورٹی کنٹرول سنبھال لیا ہے۔

    امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں صدر نے نیشنل گارڈز تعینات کر کے پولیس کا کنٹرول وفاق کے سپرد کر دیا ہے۔

    صدر ٹرمپ نے پریس کانفرنس میں کہا کہ آج واشنگٹن ڈی سی میں آزادی کا دن ہے، جرائم پر قابو پانے کے لیے 800 نیشنل گارڈ کے جوان تعینات کر رہے ہیں، ڈی سی میں خون کے پیاسے مجرم اور آوارہ گرد نوجوانوں کے جتھوں نے شہریوں اور سیاحوں کی زندگی اجیرن کر دی تھی۔

    ٹرمپ نے پولیس ڈیپارٹمنٹ کو براہ راست وفاقی کنٹرول میں دینے اور نیشنل گارڈ کے دستوں کو ملک کے دارالحکومت میں تعینات کرنے کی وجہ یہ قرار دی ہے کہ شہر میں امن بحال کرنا ہے۔ امریکی صدر نے بارہا ڈی سی میں بڑھتے ہوئے جرائم کے بارے میں شکایت کی ہے، لیکن اس کے برعکس امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ مجموعی طور پر جرائم کی تعداد 2024 کے مقابلے اس سال کم رہی ہے۔


    الاسکا میں امریکی روسی صدور کی طے شدہ ملاقات پیوٹن کی فتح قرار


    رپورٹس کے مطابق دارالحکومت کے حکام اس اعلان سے بے خبر تھے، شہر کے محکمہ پولیس اور میئر موریل باؤزر کو ٹرمپ کے اعلان سے پہلے اس منصوبے کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا، ٹرمپ کے اعلان کے بعد میئر باؤزر نے اس پر تنقید کی اور اسے پریشان کن قدم قرار دیا۔

    شہر کے حکام کا اصرار ہے کہ ڈی سی میں جرائم کے رجحان میں پہلے ہی سے کمی دیکھی جا رہی ہے۔ پریس کانفرنس کے موقع پر ٹرمپ کے ساتھ ان کے اٹارنی جنرل، ان کے سیکریٹری دفاع اور ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کاش پٹیل بھی ہمراہ تھے، صدر نے کہا کہ وہ پبلک سیفٹی ایمرجنسی کا اعلان کر رہے ہیں اور ان کی انتظامیہ بے گھر کیمپوں کو ہٹائے گی، انھوں نے اعلان کیا کہ ہم اپنا دارالحکومت واپس لینے جا رہے ہیں، اور کچی آبادیوں سے چھٹکارا حاصل کریں گے۔