Tag: Douglas Engelbart

  • یومِ وفات: کمپیوٹر ماؤس کے موجد ڈگلس اینگلبرٹ کو دنیا ہمیشہ یاد رکھے گی

    یومِ وفات: کمپیوٹر ماؤس کے موجد ڈگلس اینگلبرٹ کو دنیا ہمیشہ یاد رکھے گی

    کمپیوٹر ایک انقلابی ایجاد ہے، جس کا وسیع اور مؤثر استعمال اس سے منسلک دیگر آلات یا ڈیوائسز کی بدولت ممکن ہوتا ہے۔ کمپیوٹر ماؤس ایک ایسا ہی آلہ ہے جو بجائے خود ایک بڑی اور اہم ایجاد ہے۔ اس کے موجد ڈگلس اینگلبرٹ تھے جو 2013ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔

    وہ امریکا سے تعلق رکھتے تھے جہاں 30 جنوری 1925ء کو پورٹ لینڈ، اوریگون کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ حصولِ تعلیم کے دوران اینگلبرٹ سائنس اور ٹیکنالوجی میں دل چسپی لینے لگے۔ گریجویشن کے بعد 1950ء کی دہائی میں الیکٹریکل انجینئرنگ اور کمپیوٹر سائنسز میں ڈگری لی اور اسٹینفورڈ ریسرچ انسٹیٹیوٹ سے منسلک ہو گئے۔ وہاں انھوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر بہت سی ایسی نئی اختراعات پر کام کیا، جن کی بدولت کمپیوٹر میں‌ اہم اور مؤثر ترین تبدیلیاں ہوئیں اور اس کا استعمال سہل ہوتا چلا گیا۔

    اس حوالے سے ان کا نمایاں اور قابِل ذکر کام ای میل، ویڈیو کانفرنسنگ، ہائپر ٹیکسٹ لنکس اور انٹرنیٹ سے قبل تکمیل پانے والا نیٹ ورک ARPAnet ہے۔

    ڈگلس اینگلبرٹ کی اہم ترین ایجاد ماؤس ہے جس کے بغیر عام صارف کے لیے اس جادوئی مشین سے استفادہ کرنا محال ہو گا۔ 1970ء میں ‘پیٹنٹ’ کرائے گئے ماؤس کی ابتدائی شکل لکڑی کے ایک چھوٹے سے باکس جیسی تھی جس کے نیچے دو دھاتی پہیے نصب کیے گئے تھے۔

    ڈگلس اینگلبرٹ نے اپنی اس ایجاد کو عام کرنے سے دو برس قبل 1968ء میں سان فرانسسکو میں منعقدہ ایک ویڈیو کانفرنس کے دوران اسے استعمال کیا تھا۔ یہ دنیا میں کمپیوٹر کانفرنسنگ کا بھی پہلا مظاہرہ تھا، جس میں انھوں نے 50 کلومیٹر فاصلے پر موجود اپنے ایک ساتھی سے ویڈیو پر براہِ راست بات چیت کی تھی۔

    اس مظاہرے کو ’مدر آف آل ڈیموز‘ کا نام دیا گیا تھا۔

    ماؤس کے علاوہ کمپیوٹر کا گرافیکل یوزر انٹرفیس (GUI) بھی ڈگلس اینگلبرٹ کا تیّار کردہ تھا جو کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں مزید انقلابی تبدیلیوں‌ کا سبب بنا۔ اس کی بدولت کمپیوٹر نے ’ڈسک آپریٹنگ سسٹم‘ جسے مختصراً DOS کہا جاتا تھا، سے نکل کر ونڈوز وغیرہ کی شکل میں جدّت پائی۔

    ڈگلس اینگلبرٹ کو سن 2000ء میں ٹیکنالوجی انڈسٹری کے سب سے بڑے ایوارڈ ’نیشنل میڈل آف ٹیکنالوجی‘ سے نوازا گیا تھا۔

    اس امریکی موجد کے تیّار کردہ ماؤس کا ڈیزائن معروف کمپیوٹر ساز کمپنی ایپل کو فروخت کیا گیا تھا، جس نے پہلی مرتبہ 1983ء میں اپنے کمپیوٹر کے ساتھ اس ماؤس بھی فروخت کے لیے پیش کیا تھا۔

    امریکی ریاست کیلیفورنیا میں وفات پانے والے ڈگلس اینگلبرٹ نے زندگی کی 88 بہاریں دیکھیں۔ کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے حوالے سے ان کے نظریات اور ایجادات کو اس شعبے میں قدم رکھنے والوں کے لیے نہایت اہمیت رکھتی ہیں۔

  • قصہ ایک کامیاب ایجاد کا ۔ اور اس کے ناکام موجد کا

    قصہ ایک کامیاب ایجاد کا ۔ اور اس کے ناکام موجد کا

    انسانی زندگیوں میں تبدیلی لانے والی سائنسی ایجادات اپنے موجد کو رہتی دنیا تک امر کر جاتی ہیں اور اس شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد انہیں اپنا آئیڈیل بنائے رکھتے ہیں، تاہم کچھ موجد ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی ایجاد تو نہایت دھماکہ خیز ہوتی ہے لیکن انہیں وہ پہچان نہیں مل پاتی جس کے وہ حقدار ہوتے ہیں۔

    ایسا ہی ایک موجد ڈگلس اینگلبرٹ بھی تھا، بہت کم لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ وہ ہمارے آج کل کے کمپیوٹرز کا اہم حصہ، یعنی ماؤس کا موجد تھا۔

    ڈگلس اینگلبرٹ سنہ 1960 میں امریکا کے اسٹینڈ فورڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ساتھ منسلک تھا، اس وقت تک کمپیوٹر کو جوائے اسٹک اور کی بورڈ کے ذریعے استعمال کیا جاتا تھا، تاہم ڈگلس کو یہ آلات ناپسند تھے۔

    اس نے سوچ بچار کے بعد ایک ایسی ڈیوائس ایجاد کی جو اسکرین پر کرسر کے ذریعے کام کرتی تھی، اس کا نام دا بگ رکھا گیا۔ یہ کمپیوٹر ماؤس کی ابتدائی شکل تھی۔

    اس ایجاد پرمثبت ردعمل سامنے آتا رہا، سنہ 1966 میں امریکی خلائی ادارے ناسا نے اسے استعمال کیا تو انہوں نے اسے ایک بہترین ٹیکنالوجی قرار دیا۔

    2 سال بعد ڈگلس نے اپنے ایک ساتھی بل انگلش کے ساتھ اسے سان فرانسسکو کے سائنسی میلے میں 1 ہزار افراد کے سامنے پیش کیا۔ اس وقت اس کے ڈیمو کو تمام ڈیموز کی ماں قرار دیا گیا۔

    یہ طے تھا کہ آنے والے وقت میں دا بگ ایک اہم شے بننے والا تھا۔

    5 سال بعد ڈگلس اسٹینڈ فورڈ ریسرچ سینٹر چھوڑ کر ایک امریکی ڈیجیٹل کمپنی زیروکس کے ساتھ منسلک ہوگیا۔

    سنہ 1979 میں ایک شخص نے زیروکس کو اپنی کمپنی میں شیئرز لگانے کی پیشکش کی اور بدلے میں زیروکس کے ریسرچ سینٹر تک رسائی چاہی، یہ شخص کوئی اور نہیں بلکہ اسٹیو جابز تھا اور اس کی کمپنی ایپل تھی۔

    زیروکس کے ریسرچ سینٹر میں جابز کو ماؤس کا آئیڈیا بے حد پسند آیا اور اس کے وژن نے لمحے میں بھانپ لیا کہ یہ آنے والے وقتوں کی اہم ایجاد ثابت ہوسکتی ہے۔

    جابز نے اپنی کمپنی کے انجینیئرز کو تمام کام روک دینے کی ہدایت کی اور کہا کہ اس ڈیوائس کو نئے سرے سے بنا کر، اسے اپ گریڈ کر کے، ایپل کی پروڈکٹ کی حیثیت سے ری لانچ کیا جائے۔

    اس وقت تک اس پروڈکٹ (ماؤس) کا پیٹنٹ یعنی جملہ حقوق اسٹینڈ فورڈ ریسرچ سینٹر کے پاس تھے، اسٹیو جابز اسے اپنی کمپنی کی پروڈکٹ کی حیثیت سے لانچ کرنے جارہا تھا اور اس کا اصل موجد یعنی ڈگلس اینگلبرٹ دم سادھے یہ ساری کارروائی دیکھ رہا تھا۔

    ایپل کا ری لانچ کیا ہوا ماؤس

    یہ یقینی تھا کہ تہلکہ مچا دینے والی اس ایجاد کا مستقبل میں ڈگلس کو کوئی منافع نہیں ملنے والا تھا۔

    ڈگلس غریب کا آئیڈیا تو بے حد شاندار تھا، تاہم وہ اس آئیڈیے کو وہ وسعت پرواز نہیں دے سکا جو اسے ملنی چاہیئے تھی۔ یوں کہیئے کہ یہ بڑی ایجاد اس کے چھوٹے خوابوں سے کہیں آگے کی چیز تھی۔

    اسے نصیب کا ہیر پھیر کہیئے یا وژن کی محرومی، ڈگلس اپنی ایجاد کی اہمیت کا ادراک نہیں کرسکا، اور بلند حوصلہ، پرجوش اور آنے والے وقتوں کی بصارت رکھنے والا وژنری اسٹیو جابز اس ایجاد کو اپنے نام کر گیا۔