Tag: dow university

  • طلبہ کے لیے اہم خبر، ڈاؤ یونیورسٹی نے 6 سالہ پلان پیش کر دیا

    طلبہ کے لیے اہم خبر، ڈاؤ یونیورسٹی نے 6 سالہ پلان پیش کر دیا

    کراچی: ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز نے اپنے منفرد اور جدت پر مبنی اسٹرٹیجک پلان 2024-2030 کا باضابطہ اعلان کر دیا۔

    اس اسٹرٹیجک منصوبے کی رونمائی کی تقریب ڈاؤ میڈیکل کالج کے آراگ آڈیٹوریم میں منعقد ہوئی، جس میں وائس چانسلر کے سینئر سائنٹیفک ایڈوائزر ڈاکٹر سہیل راؤ نے چھ سالہ منصوبہ پیش کیا۔

    یہ نیا پلان یونیورسٹی کے اگلے 6 برسوں کے لیے اپنا ایک ایسا وژن پیش کرتا ہے، جس کا مقصد صحت کی تعلیم، تحقیق اور کمیونٹی کے ساتھ رابطے میں ترقی پر مرکوز ہے۔

    اسٹرٹیجک پلان کے تحت جدید ترین ٹیکنالوجی اور طبی تحقیق کو نصاب میں شامل کیا جائے گا، پلان میں صحت کی خدمات کی ترسیل کو جدید بنانے کے لیے مختلف اقدامات پر زور دیا گیا ہے تاکہ طلبہ اور طب سے وابستہ پروفیشنلز کو صحت کے شعبے میں ابھرتے ہوئے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے بہتر انداز میں تیار کیا جا سکے۔

    ڈاکٹر سہیل راؤ نے کہا کہ منصوبے کے اہم مقاصد میں تحقیق کو بڑھانا، تعلیم کو ڈیجیٹل طریقوں سے بدلنا، عالمی سطح پر تعاون کو فروغ دینا اور ایمرجنگ ٹیکنالوجیز کا مرکز قائم کرنا شامل ہیں، یہ منصوبہ صحت کے اہم مسائل جیسے عوامی صحت کے چیلنجز اور پھیلنے والی بیماریوں پر تحقیق پر دوبارہ توجہ مرکوز کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

    انھوں نے کہا اگلے 6 برسوں میں یہ پلان جدید ڈیجیٹل ٹولز، آن لائن تعلیمی پلیٹ فارمز اور ٹیلی میڈیسن کو شامل کرے گا، تاکہ تدریسی طریقوں میں رسائی اور جدت کو یقینی بنایا جا سکے، عالمی تعاون کو ترجیح دی جائے گی اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ شراکت داری کو مضبوط کیا جائے گا تاکہ دنیا بھر میں ہیلتھ کیئر پروفیشنلز کا ایک نیٹ ورک قائم کیا جا سکے۔

    وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی نے کہا کہ اسٹرٹیجک پلان کا یہ سفر 2018 میں شروع ہوا، جب ہم نے 2019-2030 اسٹرٹیجک پلان ’برج ٹو ایکسی لنس‘ بنایا جو ادارے کی ترقی، تعلیمی جدت اور خدمات کی فراہمی کے لیے ایک مربوط روڈ میپ کے طور پر کام کرتا رہا ہے۔

    پروفیسر محمد سعید قریشی نے کہا کہ ڈاؤ یونیورسٹی میں نئے انڈر گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ ڈگری پروگرام شروع کیے گئے ہیں جو بڑھتی ہوئی افرادی قوت کی ضروریات کےعین مطابق ہیں، اس کے ساتھ بہتر تحقیقی صلاحیت اور واضح طور پر پھیلے ہوئے کلینیکل فوٹ پرنٹ نے یونیورسٹی کو اعلیٰ تعلیم کے انتہائی معروف مقامی اور عالمی اداروں کے ساتھ تعاون کا ایک منفرد موقع فراہم کیا۔

  • ایم ڈی کیٹ ٹیسٹ مکمل، والدین کا بدنظمی پر سخت اظہار برہمی

    ایم ڈی کیٹ ٹیسٹ مکمل، والدین کا بدنظمی پر سخت اظہار برہمی

    کراچی: ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے تحت کراچی سمیت سندھ بھر میں میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج ایڈمیشن ٹیسٹ (ایم ڈی کیٹ) برائے سال 25-2024 کا مرحلہ مکمل ہو گیا۔

    ٹیسٹ میں صوبے بھر سے 38 ہزارسے زائد طلبہ و طالبات نے حصہ لیا، ایم ڈی کیٹ کا انعقاد کراچی میں 2 مقامات این ای ڈی یونیورسٹی اور کرکٹ گراؤنڈ اوجھا کیمپس ڈاؤ یونیورسٹی میں منعقد ہوا۔

    جامشورو میں لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز، شہید بے نظیر آباد (نواب شاہ) میں بلاول اسپورٹس کمپلیکس نواب شاہ، لاڑکانہ میں پولیس ٹریننگ اسکول، پی ٹی ایس بس ٹرمینل لاڑکانہ اور سکھر میں آئی بی اے پبلک اسکول میں بہ یک وقت کیا گیا۔

    کراچی میں کرکٹ گراؤنڈ ڈاؤ یونیورسٹی اوجھا کیمپس میں 6 ہزار 846 جب کہ 6 ہزار طلبہ نے این ای ڈی یونیورسٹی میں ایم ڈی کیٹ کا ٹیسٹ دیا، جامشورو میں 12 ہزار سے 659 سے زائد امیدوار، لاڑکانہ میں 4 ہزار 800، شہید بینظیر آباد (نواب شاہ) میں لگ بھگ 2 ہزار 800 اور سکھر میں 5 ہزار 500 کے قریب طلبہ نے ایم ڈی کیٹ میں حصہ لیا۔

    کیا ایم ڈی کیٹ کا لیک ہونے والا پرچہ جعلی ہے؟

    ایم ڈی کیٹ 2024 میں شدید بدنظمی دیکھی گئی، والدین نے انتظامیہ پر شدید برہمی کا اظہار کیا، ان کا مؤقف تھا کہ تیسری بار ڈاؤ یونیورسٹی کو سونپی گئی ایم ڈی کیٹ کی ذمہ داری ناکام ثابت ہوئی، ٹیسٹ میں آنے والی بچیوں کے لیے امتحانی مراکز میں جانا وبال جان گیا تھا۔

    انتظامیہ نے طلبہ کو حکم دیا تھا کہ وہ پہلے جیولری اتاریں اور اپنے والدین کو دے کر آئیں، پھر اندر جانے دیا جائے گا، والدین کا کہنا تھا کہ دو گھنٹے لائن میں لگ کر بچیوں کو اس طرح سے خوار کیا گیا، ایک بچی اتنے رش میں اپنے والدین کو کہاں ڈھونڈے گی، لڑکیاں اندر روتی رہیں اور ان کو کوئی ترس نہیں آیا۔

    والدین کا مؤقف تھا کہ ایڈ میٹ کارڈ پر ایسی کوئی ہدایت نہیں تھی کہ لڑکیاں جیولری نہیں پہن کر آ سکتیں، بچیوں کے کانوں سے بندے تک اتارے گئے، ڈاؤ یونیورسٹی نے بے شرمی کی تمام حدیں پار کر دیں، والدین نے اپیل کی کہ سندھ حکومت کو ڈاؤ یونیورسٹی کے خلاف بھرپور کارروائی کرنی ہوگی۔

    محکمہ داخلہ سندھ کی جانب سے ایم ڈی کیٹ کے انعقاد کو شفاف بنانے کے لیے امتحانی مراکز کے گرد دفعہ 144 نافذ کی گئی، جب کہ ٹیسٹ مراکز میں موبائل جیمرز بھی لگائے گئے۔ امتحانی مراکز میں پولیس کی جانب سے سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے، امتحانی مراکز کے اطراف اور اندر غیر متعلقہ افراد کے داخلے اور ٹیسٹ مراکز میں موبائل فون، الیکٹرانک ڈیوائسز لانےپر پابندی تھی۔

  • ڈاؤ یونیورسٹی کا بڑا کارنامہ، پاکستان میں پہلی مرتبہ ’بائیونک آرم‘ متعارف

    ڈاؤ یونیورسٹی کا بڑا کارنامہ، پاکستان میں پہلی مرتبہ ’بائیونک آرم‘ متعارف

    کراچی: ڈاؤ یونیورسٹی نے بڑا کارنامہ انجام دیتے ہوئے پاکستان میں پہلی مرتبہ ’بائیونک آرم‘ متعارف کرا دیا۔

    تفصیلات کے مطابق ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز نے ایک اور سنگ میل عبور کر لیا ہے، یونیورسٹی نے پاکستان میں پہلی مرتبہ بائیونک آرم متعارف کرا دیا۔

    ماہرین نے بتایا کہ بائیونک آرم سے وہ تمام امور انجام دیے جا سکیں گے جو اصل بازو سے دیے جاتے ہیں، اور اس کے ذریعے حساس اور باریک کام ممکن ہیں جیسا کہ اس سے سوئی میں دھاگا بھی پرویا جا سکتا ہے۔

    پروفیسر محمد سعید قریشی نے اس موقع پر کہا کہ ڈاؤ یونیورسٹی روز اوّل سے غریب اور متوسط طبقے کے لوگوں کے لیے رعایتی قیمتوں پر تشخیص و علاج میں معاونت کر رہی ہے، ڈوول کے قیام کے پس منظر میں بھی یہی مقاصد کار فرما ہیں۔

    انھوں نے کہا ڈوول کے ذریعے نیورو ڈس آرڈر، آرتھوپیڈک یا کسی اور وجہ سے اپنے اعضا سے محروم افراد کو مصنوعی اعضا فراہم کیے جائیں گے، ڈوول کے فوکل پرسن ڈاکٹر اوصاف احمد نے بتایا کہ ڈاؤ یونیورسٹی نے پاکستان میں پہلی مرتبہ بائیونک آرم لگانے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے اور اس سلسلے میں تمام انتظامات مکمل ہیں۔ انھوں نے کہا کہ غریب اور متوسط طبقے کے لیے کم قیمت پر مصنوعی اعضا فراہم کیے جائیں گے۔

    واضح رہے کہ وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی نے اوجھا کیپمس میں ڈاؤ یونٹ فار آرٹیفیشل لمب (ڈوول) کا افتتاح کیا، اس موقع پر ڈوول کے ڈائریکٹر فرحان اسحاق، اوصاف احمد ایڈیشنل ڈائریکٹر ہیومن ریسورسز، پیر مدثر علی شاہ، سیکیورٹی انچارج رستم زمان، پروفیسر فیصل یامین، پروفیسر عتیق الرحمن اور دیگر بھی موجود تھے۔

  • ڈاؤ یونیورسٹی کا 12 واں کانووکیشن، 2000 سے زائد طلبہ میں ڈگریاں تقسیم

    ڈاؤ یونیورسٹی کا 12 واں کانووکیشن، 2000 سے زائد طلبہ میں ڈگریاں تقسیم

    کراچی: ڈاؤ یونیورسٹی کے 12 ویں کانووکیشن میں 2000 سے زائد طلبہ میں ڈگریاں تقسیم کی گئیں۔

    تفصیلات کے مطابق اوجھا کرکٹ اسٹیڈیم، اوجھا کیمپس میں بارہویں کانووکیشن کی تقریب منعقد کی گئی، وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی نے بتایا کہ دو ہزار سے زائد ڈاکٹرز، ڈینٹسٹری اور دیگر ہیلتھ پروفیشنلز کے بَیچ کو صحت کے شعبے میں فرائض انجام دینے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔

    انھوں نے کہا کہ جامعے کا دنیا بھر کے ٹاپ 600 یونیورسٹیوں میں شمار ادارے کی ان تھک محنت کا نتیجہ ہے، ڈاؤ یونیورسٹی مشہور سرجنز کو اعزازی ڈگری تفویض کرنے والی واحد جامعہ ہے، مشہور سرجن پروفیسر محی الدین بھی ڈاؤ یونیورسٹی کے سابق طالب علم ہیں۔

    پروفیسر سعید قریشی نے کہا ڈاؤ یونیورسٹی کی خدمات اور طرزِ تعلیم کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر سراہا گیا، یہ بات قابلِ تحسین ہے کہ اساتذہ اور طلبہ نے ہر مشکل حالات میں معیار پر سمجھوتا کیے بغیر تعلیم کا سفر جاری رکھا، ایک اچھے ڈاکٹر بننے کے ساتھ آپ کو ایک اچھا انسان بھی بننا ہے۔

    انھوں نے کہا 2 اعزازی ڈگریاں اور 4 پی ایچ ڈی ڈگری تفویض کرنا جامعے کے لیے باعث فخر بات ہے، پروفیسر محی الدین منصور اور فیصل ڈار کو ڈاکٹر آف سائنس (ڈی ایس سی) کی اعزازی ڈگری سے نوازا گیا ہے، میں ادارے سے وابستہ ہر فرد کا شکریہ ادا کرتا ہوں، جنھوں نے ادارے کو ترقی کی راہوں پر گامزن رکھا۔

    پروفیسر سعید قریشی کا کہنا تھا کہ ڈاؤ یونیورسٹی کا طبی تعلیم کی ترقی میں ہمیشہ کلیدی کردار رہا ہے، میں تمام والدین کا شکر گزار ہوں جنھوں نے ڈاؤ یونیورسٹی پر اعتماد کا اظہار کیا۔

  • ڈاؤ یونیورسٹی دنیا کی سب سے بڑی عالمی درجہ بندی میں شامل

    ڈاؤ یونیورسٹی دنیا کی سب سے بڑی عالمی درجہ بندی میں شامل

    کراچی: ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز نے بڑا اعزاز حاصل کر لیا ہے، یونیورسٹی کو دنیا کی سب سے بڑی عالمی درجہ بندی میں شامل کر لیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی میں واقع ڈاؤ یونیورسٹی 2023 کی ٹائمز ہائر ایجوکیشن ورلڈ یونیورسٹی رینکنگ میں آ گئی ہے، رینکنگ میں ڈاؤ یونیورسٹی پاکستان کی ٹاپ میڈیکل یونیورسٹی بن گئی۔

    ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز نے جامعات کی رینکنگ کی بین الاقوامی دوڑ میں شامل ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی ٹاپ میڈیکل یونیورسٹی ہونے کا اعزاز بھی حاصل کر لیا ہے۔

    ’دی وور‘ 2023 کی رینکنگ میں دنیا کی 1799 جامعات شامل تھیں، جب کہ پاکستان سے 29 جامعات کو عالمی درجہ بندی میں شامل کیا گیا تھا، ڈاؤ یونیورسٹی عام کیٹگری میں چوتھی اور طبی کیٹگری میں پہلی پوزیشن پر آئی، ڈاؤ سٹی کیو ایس ایشیا رینکنگ میں بھی اپنی جگہ بنا چکی ہے۔

    ہر سال کے لیے بین الاقوامی جامعات کی عالمی درجہ بندی کرنے والے ادارے ٹائمز ہائر ایجوکیشن ورلڈ یونیورسٹی رینکنگ ’THEWUR‘ نے ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کو 601-800 کی ریٹنگ میں شامل کیا۔

    ’دی وور‘ کی 2030 عالمی درجہ بندی میں پاکستان سے 29 جامعات کو شامل کیا گیا تھا، جن میں ڈاؤ پاکستان کی واحد طبی جامعہ ہے جسے اس عالمی درجہ بندی میں شامل ہوکر ٹاپ پوزیشن لینے کا اعزاز حاصل ہوا۔

    یہ اعزاز ڈاؤ یونیورسٹی نے وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی کی قیادت میں حاصل کیا ہے، ان کی قیادت اور اقدامات کے نتیجے میں ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز نے اعلیٰ معیاری تحقیق، طبی خدمات، اسکالرشپ اور کمیونٹی سروسز میں مسلسل کوششیں کی ہیں۔ پروفیسر محمد سعید قریشی نے اس کامیابی کو پوری ٹیم کی کامیابی قرار دیا ہے جس میں یونیورسٹی کے فیکلٹی ممبرز اور عملہ بھی شامل ہے۔

    ’دی وور‘ 2023 کی درجہ بندی کے مطابق ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز تحقیقی مقالہ جات میں عالمی سطح پر 428 ویں اور پاکستان کی 29 جامعات میں چوتھے جب کہ ملکی طبی جامعات میں پہلا درجہ رکھتی ہے۔

    ڈاؤ یونیورسٹی ’دی وور‘ کی 2023 کی عالمی درجہ بندی کی 601-800 کی رینج میں داخل ہوئی ہے، یہ اعزاز پاکستان کی کسی اور میڈیکل یونیورسٹی کو اس سے پہلے کبھی حاصل نہیں ہوا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ دنیا کے مختلف خطوں سے تعلق رکھنے والے 104 ممالک کی 1799 جامعات کے لیے 2023 کی ٹائمز ہائر ایجوکیشن کی عالمی درجہ بندی ’دی وور‘ کی اشاعت کو درحقیقت سب سے بڑی اور مختلف النوع درجہ بندی سمجھا جاتا ہے۔

    ’دی وور‘ کی درجہ بندی میں یہ اعتراف بھی کیا گیا ہے کہ ڈاؤ یونیورسٹی میں بین الاقوامی طلبہ کی شرح 3 فی صد ہے جب کہ فیکلٹی/ اسٹاف کی شرح فی طالب علم 6.8 فی صد ہے۔

    یاد رہے کہ ڈاؤ یونیورسٹی نے یونیورسٹی کا درجہ تو 2004 میں حاصل کیا تاہم جس طبی کالج کی بنیاد پر اسے یونیورسٹی کا درجہ ملا اس کالج کی سنگ بنیاد 10 دسمبر 1945 کو صوبہ سندھ کے گورنر سر ہیو ڈاؤ نے رکھا تھا۔

  • میڈیکل کے طلبہ کو سیکھنے کے لیے اب انسانی لاشوں کی ضرورت نہیں

    میڈیکل کے طلبہ کو سیکھنے کے لیے اب انسانی لاشوں کی ضرورت نہیں

    کراچی کی ڈاؤ یونیورسٹی میں انسانی جسم کی تمام خصوصیت رکھنے والی جدید ڈمی یا سمیولیٹر لیے آصف رحمٰن سیمولیشن سینٹر قائم کیا گیا ہے۔

    سینٹر میں میڈیکل طلبہ کو علاج معالجے اور انسانی جسم کے متعلق تعلیم دینے کے لیے ان مصنوعی مریضوں کو استعمال کیا جائے گا۔

    اس سمیولیٹر کی مدد سے کسی بھی مرض کی تمام علامات پیدا کی جاسکتی ہیں تاکہ میڈیکل طلبہ اس بیماری میں تبدیل ہوتی ہوئی علامات کا علاج کرسکیں۔

    سمیولیٹر کے ساتھ اسکرینز جڑی ہیں، جن پر مریض کا ای سی جی، دل کی دھڑکن، آکسیجن لیول اور دیگر وائٹلز دکھائی دیتی ہیں۔

    طلبہ سمیولیشن کے دوران اصلی مریض کو دی جانے والی ادویات کا استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ مصنوعی مریض کا بلڈ پریشر، دل کی دھڑکن، بخار چیک کرنے کے علاوہ انہیں آکسیجن اور ڈرپ بھی لگاتے ہیں۔

    ڈاؤ یونیورسٹی کے ڈاکٹر محمد عاصم ہاشمی کا کہنا ہے کہ ان کے بیچ نے یونیورسٹی میں فرش لگانے کے ساتھ اس مرکز کی لفٹ عطیہ کی جبکہ سمیولیٹر ڈاؤ یونیورسٹی نے منگوائے۔

    ان کا کہنا تھا کہ پہلے میڈیکل طلبہ کو سکھانے کے لیے انسانی لاش استعمال کی جاتی تھی، مگر اب اس مرکز کے بعد انسانی لاش کی ضرورت نہیں۔

  • کراچی میں مصنوعی مریضوں پر عملی تعلیم کے لیے سیمولیشن سینٹر تیار

    کراچی میں مصنوعی مریضوں پر عملی تعلیم کے لیے سیمولیشن سینٹر تیار

    کراچی: ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی میں مصنوعی مریضوں پر پریکٹیکل تعلیم کے لیے ایک سیمولیشن سینٹر تیار کیا گیا ہے، آج اس مرکز کا وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے افتتاح کیا۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعلیٰ سندھ نے ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز میں آصف رحمان سیمولیشن سینٹر کا افتتاح کیا، انھوں نے کہا کہ سیمولیشن طریقے سے کلینیکل ماحول بنا کر مصنوعی مریض پر علاج کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔

    وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا سمیولیشنز کے 4 مقاصد ہیں جن میں ایجوکیشن، اسسمینٹ، ریسرچ اور ہیلتھ سسٹم سمیت مریض کی حفاظت کو یقینی بنایا جاتا ہے۔

    مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ ریسرچ کے شعبے میں ہمیں آگے بڑھنا ہے، میں پیشے کے اعتبار سے انجنیئر ہوں لیکن سیمولیشن سسٹم پر مجھ سے بہتر یہاں کے ماہرین بات کر سکتے ہیں، اس سینٹر میں میڈیکل تعلیم حاصل کرنے والے بہترین پریکٹیکل تعلیم حاصل کر سکیں گے۔

    انھوں نے کہا آصف رحمان سیمولیشن سینٹر 230 ملین روپے کی لاگت سے قائم کیا گیا ہے، اس لاگت میں 30 ملین روپے کلاس-90 نے کنٹریبیوٹ کیے ہیں، جب کہ باقی 200 ملین روپے ڈاؤ یونیورسٹی نے خرچ کیے، وزیراعلیٰ سندھ نے تجویز دی کہ ایک بہت بڑا سیمولیشن سینٹر ڈاؤ یونیورسٹی میں قائم ہو، اور دیگر یونیورسٹیز کے اسٹوڈنٹس بھی اس کی ورچوئل ریئلٹی کے ذریعے تعلیم حاصل کر سکیں۔

  • وبائی امراض کے کنٹرول، کم قیمت معیاری ادویات کی فراہمی کے لیے ڈاؤ یونی ورسٹی کا بڑا قدم

    وبائی امراض کے کنٹرول، کم قیمت معیاری ادویات کی فراہمی کے لیے ڈاؤ یونی ورسٹی کا بڑا قدم

    کراچی: ڈاؤ یونی ورسٹی آف ہیلتھ سائنسز میں وبائی امراض پر قابو پانے، کم قیمت میں معیاری ادویات کی فراہمی کے لیے پاکستان کا پہلا جدید بائیو اسٹڈی سینٹر اور صوبائی پبلک ہیلتھ لیبارٹری قائم کر دی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق ڈاؤ یونی ورسٹی آف ہیلتھ سائنسز میں بائیو ایکوی وِلینس اسٹڈی سینٹر قائم کیا گیا ہے، جو بین الاقوامی معیار کے آلات سے مزین پاکستان کا واحد سینٹر ہے، جس کے ساتھ مکمل سہولتوں سے آراستہ اسپتال بھی قائم کیا گیا ہے۔

    بائیو ایکویوِلینس سینٹر کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بائیو اویلیبلٹی اسٹڈی سینٹر میں یہ تجزیہ کیا جاتا ہے کہ مریض کو دی گئی دوا کی کتنی مقدار خون میں شامل ہوئی ہے تاکہ کسی بھی دوا کی افادیت کا تعین کیا جا سکے، جب کہ بائیو ایکویوِلینس اسٹڈی میں یہ تعین کیا جاتا ہے کہ بنائی گئی دوا اصل مالیکیول کے کس قدر قریب ہے۔

    ڈی یو ایچ ایس کے مطابق پاکستان سے دواؤں کی برآمد محض 200 ملین ڈالرز ہے، بائیو ایکویولینس سینٹر کے قیام سے ادویہ کی برآمدات بھی بڑھ سکتی ہے، کیوں کہ اس سے پہلے بین الاقوامی معیار کی اسٹڈی کے لیے ہماری مقامی دوا کی صنعت سے وابستہ افراد کو بیرون ملک جانا پڑتا تھا، جس کے نتیجے میں اخراجات بڑھنے سے مارکیٹ میں مقابلہ نہیں کر پاتے تھے، یہی وجہ ہے کہ اس سینٹر کی ایف ڈی اے (امریکی ادارہ) سمیت دیگر بین الاقوامی اداروں سے منظوری کے عمل کا آغاز کر دیا گیا ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ ایکویوِلینس سینٹر کے قیام سے کم قیمت پر معیاری دوائیں ملنے کا امکان ہے، جب کہ یقینی طور پر جعلی دواؤں کی روک تھام بھی ہو سکے گی۔

    دریں اثنا، صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا پیچوہو نے وبائی امراض پر قابو پانے کے لیے صوبائی پبلک ہیلتھ لیبارٹری کا بھی افتتاح کیا، یہ صوبہ سندھ کی پہلی پراوینشل پبلک ہیلتھ لیبارٹری ہے۔ صوبائی وزیر صحت کو بتایا گیا کہ صوبے کے کسی بھی علاقے میں وبائی امراض پھوٹنے کی صورت میں امراض پر قابو پانے میں یہ لیبارٹری مکمل معاونت کرے گی۔

    ماہرین نے بتایا کہ بین الاقومی معیار کے لحاظ سے سندھ میں ایسی کوئی لیبارٹری قائم نہیں تھی، گزشتہ برسوں کے دوران صوبے کے مختلف اضلاع میں ایکس ڈی آر ٹائیفائیڈ، چکن گونیا، ڈینگی وغیرہ پھیلتے رہے ہیں، اب خدانخواستہ ایسی صورت حال پیدا ہوئی تو یہ لیبارٹری فعال کردار ادا کرے گی اور صوبے بھر کے عوام کو یہ سہولت مفت فراہم کی جائے گی۔

    افتتاح کے موقع پر صوبائی سیکریٹری صحت ڈاکٹر کاظم جتوئی، وائس چانسلر پروفیسر سعید قریشی و دیگر بھی موجود تھے۔

  • بڑی پیش رفت،  پاکستان میں کورونا کےعلاج کی دوا کی تیاری اہم مرحلے میں داخل

    بڑی پیش رفت، پاکستان میں کورونا کےعلاج کی دوا کی تیاری اہم مرحلے میں داخل

    کراچی : ڈاؤ یونیورسٹی میں کورونا کےعلاج کی دوا کی تیاری اہم مرحلے میں داخل ہوگئی، ٹرائل کے دوران آئی سی یو میں انتہائی بیمار مریضوں کی ریکوری 60 فیصد جبکہ شدید بیمار افراد کی ریکوری 100 فیصد رہی۔

    تفصیلات کے مطابق ڈاؤ یونیورسٹی میں کورونا کےعلاج کی دوا کی تیاری اہم مرحلے میں داخل ہوگئی ، کورونا میں جان بچانے والی دوا کے کامیاب کلینکل ٹرائل جاری ہے۔

    ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ ٹرائل کے دوران آئی سی یو میں انتہائی بیمار مریضوں کی ریکوری 60 فیصد رہی جبکہ کورونا کےشدید بیمار مریضوں میں سی آئی وی آئی جی سےریکوری 100 فیصد رہی۔

    سی آئی وی آئی جی پر کام کاآغاز وی سی محمد سعید قریشی کی ہدایت پر مارچ میں شروع ہوا ، سی آئی وی آئی جی کورونا سے صحتیاب مریضوں کے پلازما سے اینٹی باڈیز کشید کر کےتیار کیا جاتا ہے۔

    ڈاکٹر شوکت علی کا کہنا ہے کہ کلینیکل ٹرائل کے لیے ڈریپ کا تعاون حاصل رہا۔

    مزید پڑھیں : ڈاؤ یونیورسٹی کی ٹیم نے کرونا وائرس کی دوا کس طرح تیار کی

    خیال رہے رواں سال اپریل میں پاکستانی ماہرین نے کورونا کےعلاج کیلئے دوا انٹراوینس امیونوگلوبیولن تیار کرنے کا اعلان کیا تھا ، وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی نے کووڈ 19 کے خلاف جنگ میں اسے ایک انتہائی اہم پیش رفت قرار دیتے ہوئے کہا تھا صحت یاب مریضوں کے جسم سے حاصل شفاف اینٹی باڈیزسےگلوبیولن تیار کی اور ماہرین نے تیار گلوبیولن کی ٹیسٹنگ اور اینمل سیفٹی ٹرائل بھی کامیابی سے کیا۔

    ماہرین نے کورونا بحران میں گلوبیولن کی تیاری کو امید کی کرن قرار دیا تھا۔

    ڈاؤ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر کی زیرنگرانی کام کرنے والی ٹیم نے محنت کے بعد ہائپر امیو نو گلوبیولن( آ ئی وی آئی جی تیار کی ، ٹیم نے ابتدائی طور پرمارچ 2020 میں خون کے نمونے جمع کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔

    بعد ازاں اس کے پلازمہ سے اینٹی باڈیزکو کیمیائی طور پر الگ تھلگ کرنے ، صاف شفاف کرنے اور بعد میں الٹرا فلٹر تکنیک کے ذریعے ان اینٹی باڈیز کو مرتکز کرنے میں کامیاب ہوئی، اس طریقے میں اینٹی باڈیز سے باقی ناپسندیدہ مواد جن میں بعض وائرس اور بیکٹیریا بھی شامل ہیں انہیں ایک طرف کرکے حتمی پروڈکٹ یعنی ہائپر امیونوگلوبیولن تیار کرلی جاتی ہے۔

  • منہ کا کینسر : 10برس میں 22 ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے، ڈاؤ یونیورسٹی

    منہ کا کینسر : 10برس میں 22 ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے، ڈاؤ یونیورسٹی

    کراچی : ڈاؤ یونیورسٹی کے محققین نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ کراچی میں مردوں میں منہ کا کینسر عام ہے، 10برس میں کینسر کے22ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے۔

    ڈاؤ کینسر رجسٹری کا تحقیقی مقالہ بین الاقوامی طبی جریدے میں شائع ہوا ہے، کراچی میں مردوں میں منہ کا کینسرعام ہے، ڈاؤ یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ کینسر سے13ہزار سے زائد خواتین متاثر ہوئیں۔

    ڈاؤ کینسر رجسٹری کی تحقیقی رپورٹ کے مطابق کراچی میں 9ہزار سے زائد مرد حضرات کینسر سے متاثر ہوئے، الکوحل، گرم مشروبات، باربی کیو غذائی نالی کے کینسر کا سبب ہیں۔

    تحقیقی رپورٹ کے متن میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ تمباکو، شیشہ، گٹکا اور نسوار پر پابندی عائد کی جائے، کراچی کے مردوں میں منہ کے کینسر کےمتاثرین کی تعداد پورے ملک سے زیادہ ہے،10برس میں کینسر کے22ہزارسے زائد کیسزرپورٹ ہوئے۔

    ڈاؤ کینسر رجسٹری کے مطابق کراچی کے بچوں میں اعصابی نظام کا کینسر عام ہے جبکہ جلد کا کینسر بھی کراچی میں پھیلنے والے10کینسر میں شامل ہے۔