کراچی : ڈاؤ یونیورسٹی کو کورونا کے علاج کے انجیکشن کے لیے پلازمہ جمع کرنے کی اجازت مل گئی، انٹرا وینیس امیونو گلوبیولن( آئی وی آئی جی ) کو کورونا کےخلاف جنگ میں پاکستانی سائنسدانوں کی اہم کامیابی قرار دیا جارہا ہے۔
تفصیلات کے مطابق سندھ بلڈ ٹرانسفیوژن اتھارٹی نے ڈاؤ یونیورسٹی کو پلازمہ جمع کرنے کی اجازت دے دی، پلازمہ امیونوگلوبیولن (آئی وی آئی جی ) کی تیاری کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
ڈاؤ یونیورسٹی کو کورونا کے علاج کے انجیکشن کے لیے پلازمہ جمع کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
ڈرگ ریگولر اتھارٹی آف پاکستان پہلے ہی کلینیکل ٹرائل کی منظوری دے چکی ہے جبکہ نیشنل بائیو ایتھکس کمیٹی نے گزشتہ مہینے کلینکل ٹرائل کی منظوری دی تھی۔
انٹرا وینیس امیونو گلوبیولن( آئی وی آئی جی ) کو کورونا کےخلاف جنگ میں پاکستانی سائنسدانوں کی اہم کامیابی قرار دیا جارہا ہے جبکہ پروفیسر محمدسعید قریشی نے کہا کہ آئی وی آئی جی کوروناکے خلاف جنگ میں اہم پیش رفت ہے۔
یاد رہے اپریل کےاوائل میں ڈاؤ یونیورسٹی کی ریسرچ ٹیم نے دعوی کیا تھا کہ کورونا کے صحتیاب مریضوں کے خون سے حاصل شدہ اینٹی باڈیز سے انٹرا وینیس امیونو گلوبیولن( آئی وی آئی جی ) تیار کرلی جس کے ذریعے کورونا متاثرین کا علاج کیا جاسکے گا۔
ڈاؤ کالج آف بائیو ٹیکنا لوجی کے پرنسپل پروفیسر شوکت علی کی سربراہی میں ریسرچ ٹیم نے دنیا میں پہلی مرتبہ کورونا کے علاج کےلیے امیونوگلوبیولن کاموثر طریقہ اختیار کرنے کی تیاری مکمل کرلی ہے، ریسرچ ٹیم سربراہ پروفیسر شوکت علی نے کورونا بحران میں گلوبیولن کی تیاری کو امید کی کرن قرار دیا تھا۔
خیال رہے امریکی ادارے ایف ڈی اے سے منظور شدہ یہ طریقہ علاج محفوظ، لو رسک اور کورونا کے خلاف انتہائی موثر ہے، اس طریقہ علاج میں کورونا سے صحت یاب مریض کے خون میں نمو پانے والے اینٹی باڈیز کو علیحدہ کرنے کے بعد شفاف کرکے امیونو گلوبیولن تیار کی جاتی ہے یہ طریقہ علاج پلازما تھراپی سے بالکل ہی مختلف ہے۔
واضح رہے کہ ہائپر امیو نو گلوبیولن کے طریقہ علاج کو امریکا کے وفاقی ادارے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈ منسٹریشن نے عمومی حالات کےلیے منظور کیا ہے جبکہ پلازما تھراپی کی اس کے بعض ضمنی اثرات کے باعث ہنگامی حالات میں ہی اجازت دی جاتی ہے۔
کراچی : پاکستانی ماہرین نے کورونا کےعلاج کیلئے دوا تیار کرنے کا دعویٰ کردیا ، یہ دوا صحت یاب مریضوں کے جسم سے حاصل شفاف اینٹی باڈیزسے تیار کی گئی، ماہرین نے کورونا بحران میں گلوبیولن کی تیاری کو امید کی کرن قرار دیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق کورونا کے خلاف جنگ میں پاکستانی سائنسدانوں نے اہم کامیابی حاصل کرلی ، ڈاؤ یونیورسٹی کی ریسرچ ٹیم نے دعوی کیا ہے کہ کورونا کے صحتیاب مریضوں کے خون سے حاصل شدہ اینٹی باڈیز سے انٹرا وینیس امیونو گلوبیولن( آئی وی آئی جی ) تیار کرلی جس کے ذریعے کورونا متاثرین کا علاج کیا جاسکے گا۔
ڈاؤ کالج آف بائیو ٹیکنا لوجی کے پرنسپل پروفیسر شوکت علی کی سربراہی میں ریسرچ ٹیم نے دنیا میں پہلی مرتبہ کورونا کے علاج کےلیے امیونوگلوبیولن کاموثر طریقہ اختیار کرنے کی تیاری مکمل کرلی ہے، ریسرچ ٹیم سربراہ پروفیسر شوکت علی نے کورونا بحران میں گلوبیولن کی تیاری کو امید کی کرن قرار دیا ہے۔
وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی نے کووڈ 19 کے خلاف جنگ میں اسے ایک انتہائی اہم پیش رفت قرار دیتے ہوئے کہا صحت یاب مریضوں کے جسم سے حاصل شفاف اینٹی باڈیزسےگلوبیولن تیار کی ،ماہرین نے تیار گلوبیولن کی ٹیسٹنگ اور اینمل سیفٹی ٹرائل بھی کامیابی سے کیا۔
پروفیسر سعید قریشی کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس میں علاج کیلئے تیار کی گئی دوا کو کورونا کے شدید بیمار مریضوں کو استعمال کیا جاسکے گا، اس دوا کا جانوروں پر علاج کا کامیاب تجربہ کرچکے ہیں اور انسانوں پر دوا کے استعمال کی اجازت کیلئے درخواست دیدی ہے، اجازت ملنے کےبعد کمرشل تیاری کی جائے گی اور علاج میں 2سے3ہفتے لگیں گے۔
ڈاؤ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر کی زیرنگرانی کام کرنے والی ٹیم نے محنت کے بعد ہائپر امیو نو گلوبیولن( آ ئی وی آئی جی تیار کی ، ٹیم نے ابتدائی طور پرمارچ 2020 میں خون کے نمونے جمع کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔
بعد ازاں اس کے پلازمہ سے اینٹی باڈیزکو کیمیائی طور پر الگ تھلگ کرنے ، صاف شفاف کرنے اور بعد میں الٹرا فلٹر تکنیک کے ذریعے ان اینٹی باڈیز کو مرتکز کرنے میں کامیاب ہوئی، اس طریقے میں اینٹی باڈیز سے باقی ناپسندیدہ مواد جن میں بعض وائرس اور بیکٹیریا بھی شامل ہیں انہیں ایک طرف کرکے حتمی پروڈکٹ یعنی ہائپر امیونوگلوبیولن تیار کرلی جاتی ہے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ دنیا میں پہلی مرتبہ پاکستان میں کورونا سے صحت یاب مریض کے خون سے یہ امیونوگلوبیولن تیار کی گئی ہے ، جو کورونا بحران میں امید کی کرن تصور کی جارہی ہے۔
ان ماہرین کے مطابق یہ طریقہ غیرمتحرک مامونیت(پے سو امیونائزیشن) کی ہی ایک قسم ہے مگر اس میں مکمل پلازمہ استعمال کرنے کے بجائے اسے شفاف کرکے صرف اینٹی باڈیز ہی لیے جاتے ہیں اس محفوظ اورموثر طریقہ کار کو اس سے پہلے بھی بڑے پیمانے پر دنیا میں پھیلنے والے وبائی امراض سارس،مرس،اور ابیولا میں موثر طورپر استعمال کیا جا چکا ہے جبکہ تشنج،انفلوئنزا اور رےبیز کی شفاف اینٹی باڈیز دنیا میں تجارتی سطح پر فروخت کےلیے بھی دستیاب ہوتے ہیں۔
ریسرچ ٹیم نے کوووڈ نائینٹین کے صحتیاب مریضوں کی جانب سے کم مقدار میں عطیہ کیے گئے خون کو شفاف کر کے اینٹی باڈیز علیحدہ کیے جو کورونا کو غیرموثر کرچکے تھے، ان کی لیبارٹری ٹیسٹنگ اور حیوانوں پر اس کا سیفٹی ٹرائل کرکے حاصل ہونے والی ہائپر امیونوگلوبیولن کو کامیابی کے ساتھ تجرباتی بنیادوں پر انجیکشن کی شیشیوں (وائلز) میں محفوظ کرلیا۔
یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسرمحمد سعید قریشی نے ڈاؤ یونیورسٹی اسپتال کے معالجین کو ریسرچ ٹیم کے ساتھ مل کر اس نئے طریقہ علاج کے ٹرائل کے لیے اخلاقی اور قانونی حکمت عملی وضع کرنے کا ٹاسک سونپ دیا ہے، مشترکہ ٹیم کے دیگر اراکین میں ڈاکٹر شوبھا لکشمی،سید منیب الدین،میر راشد علی،عائشہ علی ،مجتبی خان،فاطمہ انجم اور ڈاکٹر صہیب توحید شامل ہیں۔
یہ کامیابی کورونا سے ہونے والے جانی نقصان کو روکنے کے لیے بین الاقوامی طور پر کی جانے والی کوششوں میں ایک اہم قدم ہے۔
خیال رہے امریکی ادارے ایف ڈی اے سے منظور شدہ یہ طریقہ علاج محفوظ، لو رسک اور کورونا کے خلاف انتہائی موثر ہے، اس طریقہ علاج میں کورونا سے صحت یاب مریض کے خون میں نمو پانے والے اینٹی باڈیز کو علیحدہ کرنے کے بعد شفاف کرکے امیونو گلوبیولن تیار کی جاتی ہے یہ طریقہ علاج پلازما تھراپی سے بالکل ہی مختلف ہے۔
واضح رہے کہ ہائپر امیو نو گلوبیولن کے طریقہ علاج کو امریکا کے وفاقی ادارے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈ منسٹریشن نے عمومی حالات کےلیے منظور کیا ہے جبکہ پلازما تھراپی کی اس کے بعض ضمنی اثرات کے باعث ہنگامی حالات میں ہی اجازت دی جاتی ہے۔
یاد رہے ایک ہفتہ قبل ہی دنیا کی چھ بڑی ویکسین بنانے والی کمپنیوں نے اس عمل کو شروع کرنے کے لیے اشتراک کا اعلان کیا تھا تاہم ڈاؤ یونیورسٹی نے اس عمل میں سبقت لیتے ہوئے مقامی کورونا وائرس کی قسم کے خلاف انٹراوینس امیونوگلوبیولن تیار کر لی ہے۔
حالیہ دنوں کی ریسرچ نے مقامی کورونا وائرس کی قسم میں کچھ جینیاتی تبدیلیوں کی طرف اشارہ کیا ہے، ایسی صورت میں مقامی وائرس کے خلاف بنائی گئی آئی وی آئی جی بہت موثر اور مفید ثابت ہوگی۔
ڈاؤ یونیورسٹی نے نئے کورونا وائرس کے خلاف کی جانے والی کوششوں میں اہم کردار ادا کرنے والے جینیاتی سیکوینس بھی معلوم کیا اور انسانی جین میں ایسی تبدیلیوں کا پتہ لگایا، جو کرونا وائرس کے خلاف مزاحمت فراہم کرسکتی ہیں۔
کراچی : ڈاؤیونیورسٹی میں فیسوں میں اضافہ کردیا گیا ، جس کے بعد متوسط طبقےسےتعلق رکھنےوالےطالبعلموں کوفیسیں جمع کرانامشکل ہوگیا ہے۔
تفصیلات مطابق ڈاؤ یونیورسٹی میں فیسوں میں اضافہ کردیاگیا ، ٹرانسپورٹ فیس میں 100فیصداضافہ کیا گیا ، جس کے بعد ٹرانسپورٹ فیس 15ہزار سے بڑھ کر 30ہزار ہوگئی ہے جبکہ اکیڈمک فیس بھی بڑھا کر 50ہزار کردی گئی ہے۔
اس فیصلے کے بعد متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے طالب علموں کوفیسیں جمع کرانامشکل ہوگیا ہے۔
خیال رہے کراچی میں قائم ڈاؤویونیورسٹی پہلاہیلتھ کیئرانسٹی ٹیوٹ ہے، جہاں کروناوائرس کی تشخیص کے لیے ٹیسٹ کی سہولت موجودہے، ڈاؤیونیورسٹی نے کروناوائرس کی تشخیص کے لیے جدید ٹیکنالوجی کی حامل ایسی کٹس برآمد کیں جو پی سی آر کے طریقہ کار پر ہی استعمال ہوتی ہیں۔
اس سے قبل کرونا وائرس کی تشخیص کے لیے ٹیسٹ کی سہولت صرف این آئی ایچ اسلام آباد میں تھی۔
ڈاؤ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی نے چین کے شہر ووہان سے پھیلنے والی وبا نوول کرونا وائرس 2019 کے پیش نظر جنوری کے اوائل میں ہی کوریا سے کرونا وائرس کے ٹیسٹ کی کٹس درآمد کے لیے ہدایت کردی تھی۔
ان کا کہنا تھا نوول کرونا وائرس 2019 اس وقت دنیا کی سب سے خطرناک بیماری ہے، جس کے ٹیسٹ سخت حفاظتی اقدامات اور مستند طریقہ کار کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتے، اس لیے صرف آئسولیشن وارڈ میں رکھے گئے مشتبہ افراد کے ہی ٹیسٹ کیے جائیں گے۔
کراچی : ڈاؤیونیورسٹی نے کروناوائرس کی کٹس درآمدکرلیں، پہلےکرونا کے ٹیسٹ کی سہولت صرف این آئی ایچ اسلام آباد میں تھی ، ڈاؤویونیورسٹی پہلاہیلتھ کیئرانسٹیٹیوٹ ہےجہاں یہ سہولت موجودہے۔
تفصیلات کے مطابق ڈاؤیونیورسٹی نے کروناوائرس کی کٹس درآمدکرلیں ، در آمدشدہ کٹس جدید ٹیکنالوجی پی سی آر کے طریقہ کار پر ہی استعمال ہوتی ہے، پہلے کروناکے ٹیسٹ کی سہولت صرف این آئی ایچ اسلام آباد میں تھی۔
کراچی میں ڈاؤویونیورسٹی پہلاہیلتھ کیئرانسٹیٹیوٹ ہے، جہاں کروناوائرس ٹیسٹ کی سہولت موجودہے۔
ڈاؤ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی نے چین کے شہر ووہان سے پھیلنے والی وبا نوول کرونا وائرس 2019 کے پیش نظر جنوری کے اوائل میں ہی کوریا سے کرونا وائرس کے ٹیسٹ کی کٹس درآمد کے لیے ہدایت کردی تھی۔
نوول کرونا وائرس 2019 اس وقت دنیا کی سب سے خطرناک بیماری ہے، جس کے ٹیسٹ سخت حفاظتی اقدامات اور مستند طریقہ کار کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتے، اس لیے صرف آئسولیشن وارڈ میں رکھے گئے مشتبہ افراد کے ہی ٹیسٹ کیے جائیں گے۔
یاد رہے کہ حکومتِ سندھ کے محکمہ صحت کی ہدایت پر ڈاؤ یونیورسٹی میں ابتدائی طور پر دس بیڈ پر مشتمل آئسولیشن وارڈ ز پہلے ہی تیار کرلیا گیا ہے۔
کراچی : سائنس و ٹیکنالوجی کے سابق وفاقی وزیر چئیرمین وزیرِ اعظم ٹاسک فورس برائے سائنس و ٹیکنالوجی ،ممتاز سائنس دان پروفیسر عطا الرحمن نے کہا ہے کہ پاکستان نے ریسرچ کے میدان میں بھارت کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
ہائر ایجوکیشن کے قیام کے بعد ریسرچ کے کام میں کافی تیزی سے آئی،سال 2001میں بھارت ہم سے آگے تھا، اب ہم نے اسے پیچھے چھوڑ دیا ہے، اب ہمارا مقابلہ چائنا سے ہے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے ڈاﺅ یونیورسٹی کے اوجھا کیمپس میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے اشتراک سے ساتویں انٹرنیشنل کانفرنس آن انڈورسنگ ہیلتھ سائنس ریسرچ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہا کہ سائنس و ٹیکنالوجی کے پہلے ایک ارب دیئے گئے اب بجٹ بڑھا کر20ارب کر دیا گیا ہے، مگر ہمیں پرائمری ہیلتھ کیئر کی سہولتوں کو بڑھانا ہوگا، صاف پانی کی فراہمی کے ساتھ اس کے استعمال کے بارے میں آگاہی دینے کی ضرورت ہے تاکہ انفراسٹرکچر نہ ہو تو لوگ اپنے طور پر صاف پانی استعمال کرسکیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ریسرچ کے شعبے میں نجی شعبے کا حصہ بہت کم ہے، چین میں نجی شعبہ ریسرچ پر 60فیصد خرچ کرتا ہے، انہوں نے کہا کہ ہم صرف قدرتی اور بعض صنعتی اشیا کی برآمدات کی فکر میں رہتے ہیں، جبکہ سائنس و ٹیکنالوجی کی ایکسپورٹ کے ذریعے ہم بہت زیادہ زرِ مبادلہ کما سکتے ہیں۔
گذشتہ ادوار میں سائنس و ٹیکنالوجی کو نظر انداز کرکے ہم نے نقصان اٹھایا ہے۔ کانفرنس سے وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی ، پروفیسر ٹیپو سلطان، منسٹری آف ہیلتھ سے ڈاکٹر عابد علی، ایڈوانس ایجوکیشن انسٹی ٹیوٹ اینڈ ریسرچ کی سی ای او ڈاکٹر صدف احمد نے بھی خطاب کیا۔
کراچی : ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی نے طالبات کےایڈمٹ کارڈ ردی میں بیچ ڈالے، طالبات کی تصویروں اورفون نمبرز والےکارڈ لوگوں کے ہاتھ لگ گئے، نامعلوم نمبروں سے فون اورمیسجز آنے لگے۔
تفصیلات کے مطابق ڈاؤ یونیورسٹی انتظامیہ کی سنگین انتظامی غلطی سامنے آگئی، انتظامیہ نے انٹری ٹیسٹ کے ایڈمٹ کارڈز ردی میں فروخت کردیئے، طالبات کو نامعلوم نمبروں سے فون آنا شروع ہوگئے۔
یونیورسٹی انتظامیہ نے سنگین غلطی کا ارتکاب کرتے ہوئے سال2015 میں جاری کیے جانے والے طالبات کے ایڈمٹ کارڈز ردی میں فروخت کردیئے۔
ردی میں فروخت کئے گئے ایڈمٹ کارڈز کی پان فروشوں نے پڑیاں بنا ڈالیں، ان کارڈز پردرج ذاتی معلومات میں طالبات کے فون نمبرز بھی موجود ہیں۔
ایک طالبہ کے ایڈمٹ کارڈ پر ٹھٹھہ میں پان بیچا گیا جس کی اطلاع پان خریدنے والے شخص نے ایک طالبہ کو فون کرکے دی، مذکورہ شخص نے طالبہ کی درخواست پرمزید ایڈمٹ کارڈز کی تصاویر بھی واٹس ایپ پربھیج دیں۔
ان ایڈمٹ کارڈز پر طالبات کی تصاویر، نام، پتہ اور فون نمبر سب موجود ہے، جس کے بعد طالبہ نے سوشل میڈیا پریونیورسٹی کی غفلت بے نقاب کی۔
اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے وائس چانسلرڈاؤ یونیورسٹی ڈاکٹر سعید قریشی کا کہنا ہے کہ ردی میں ملنے والے ایڈمٹ کارڈز2015کے ہیں۔
ایڈمٹ کارڈز کی ردی میں فروخت کی تحقیقات کررہےہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک سال بعد ایڈمٹ کارڈز خود ضائع کرتے ہیں، انہیں فروخت نہیں جاتا۔
کراچی : گورنر سندھ ڈاکٹرعشرت العباد خان نے کہا ہے کہ ڈاؤ یونیورسٹی میں جگر کی پیوند کاری کے آغاز سے جگر کے عارضہ میں مبتلا مریضوں میں امید کی نئی کرن پیدا ہوئی ہے کیونکہ اب انہیں اس کے علاج کے لئے ملک سے باہر نہیں جانا پڑے گا۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے جگر کی پیوند کاری کئے جانے والے مریضوں اور جگر کا عطیہ کرنے والے افراد کے ہمراہ ڈا ؤیونیورسٹی اوجھاکیمپس میں ایک پریس بریفنگ کے موقع پر کیا۔
انہوں نے کہا کہ جگر کی پیوند کاری کے لئے جدید ترین طبی سہولیات کے ساتھ ساتھ سرجنز کو امریکہ اور ترکی سے تربیت دلوائی گئی ہے تاکہ کامیاب پیوند کاری اور مریض کی مکمل صحت یابی کو بھی جلد از جلد یقینی بنایا جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ بیرون ملک جگر کی پیوند کاری کے اخراجات کے مقابلہ میں ڈا ؤیونیورسٹی میں انہیں کم سے کم رکھنے کی کوشش کی گئی ہے پھر بھی جو مریض اس آپریشن کے اخراجات یک مشت ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے ہوں گے انہیں قسطوں میں ادائیگی کی سہولت بھی فراہم کی جائیگی۔
انہوں نے بتایا کہ ڈاؤ یونیورسٹی میں جلد ہی گردوں کی پیوند کاری کا بھی آغاز کیا جائے گا جس کے لئے تیاریاں مکمل کر لی گئی ھیں۔اس سہولت کی فراہمی سے گردوں کے عارضہ میں مبتلا مریضوں کا بروقت علاج معالجہ ممکن ھو سکے گا۔
اس موقع پر پروفیسر معسود حمید نے کہا کہ گورنر سندھ کی جانب سے جگر کی پیوند کاری کے پہلے 10 آپریشن کے اخراجات برداشت کرنے پر وہ ان کے شکر گذار ہیں۔