Tag: dowry

  • ’بیٹی ہے یا کوئی سزا؟‘ اداکار عاصم محمود نے جہیز کیخلاف آوازبلند کردی

    ’بیٹی ہے یا کوئی سزا؟‘ اداکار عاصم محمود نے جہیز کیخلاف آوازبلند کردی

    پاکستان کے معروف اداکار عاصم محمود نے جہیز اور لڑکی والوں کی جانب سے کیے جانے والے اضافی شادی کے اخراجات کے خلاف مہم شروع کی ہے۔

    فوٹو اینڈ ویڈیو شیئرنگ ایپ انسٹاگرام ہر اداکارہ عاصم محمود نے اسٹوری پوسٹ کی ہے جس میں انہوں نے معاشرے میں جہیز کے نام پر لڑکی والوں کے غیر ضروری اخراجات کے خلاف آواز بلند کی ہے۔

    اداکار نے اسٹوری میں لکھا کہ لڑکی والوں کو 30 لاکھ کا جہیز، 5 لاکھ کا کھانا، دلہا کی گھڑی، انگوٹھی، پھر ولیمے کے بعد ہونے والے مکلاوے کا کھانا، ولیمے کے دن کا ناشتہ، بیٹی کے ساتھ سسرالیوں کے کپڑے بھیجنا پڑتے ہیں۔

    اداکار عاصم محمود نے لکھا کہ جب دلہا والے بارات واپس لے کر جارہے ہوتے ہیں تو انہیں باراتیوں کو واپسی پر کھانا بھی بھیجا جاتا ہے، یہ ’بیٹی ہے یا پھر کوئی سزا؟‘۔

    اداکار نے صارفین کو بھی جہیز کے خلاف آواز بلند کرنے کے لیے کہا اور ایک اسٹوری میں لکھا کہ اگر آپ میرے ساتھ ہیں تو میری اسٹوریز کو ری پوسٹ کریں، انہوں نے اسٹوری میں ’say no to Dowry‘ کے ہیش ٹیگ کا استعمال کیا ہے۔

  • جہیز کا مطالبہ سامنے آنے پر دلہا دلہن شادی کی تقریب سے بھاگ کھڑے ہوئے

    جہیز کا مطالبہ سامنے آنے پر دلہا دلہن شادی کی تقریب سے بھاگ کھڑے ہوئے

    بھارت کے شہر بنارس میں لڑکے کے گھر والوں نے جہیز کا مطالبہ پورا نہ کرنے پر شادی سے انکار کردیا، جس پر دلہا اور دلہن تقریب چھوڑ کر فرار ہوگئے۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق یہ واقعہ بنارس شہر میں پیش آیا جہاں تقریب کے دوران دولہے والوں نے دلہن والوں سے جہیز کا مطالبہ کیا اور اس کے علاوہ بھی کچھ مطالبات پیش کئے۔

    لڑکی کے گھر والوں نے جہیز کا مطالبہ پورا کرنے سے انکار کیا تو لڑکے والوں نے شادی رکوادی، تاہم ایک دوسرے سے پیار کرنے والے دلہا اور دلہن نے خاندان کا فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا اور تقریب چھوڑ کر فرار ہوگئے۔

    دوسری جانب بھارت کی ریاست تلنگانہ میں افسوسناک واقعہ پیش آیا جہاں لڑکے نے شادی کی پیشکش ٹھکرانے پر لڑکی کو موت کے گھات اتار دیا۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق 23 سالہ مقتولہ کی شناخت شیتپلی الیکھیا کے نام سے ہوئی جسے خانپارہ میں سریکانت نامی ملزم نے کلہاڑی کے وار کر کے قتل کیا۔

    مقتولہ خانپارہ مارکیٹ سے اپنی بھابھی اور بھانجے کے ساتھ شاپنگ کر کے گھر لوٹ رہی تھی کہ اس کا سامنا سریکانت سے ہوا۔ ملزم نے کچھ روز قبل مقتولہ کو شادی کی پیشکش کی تھی لیکن لڑکی نے انکار کیا تھا۔

    ملزم نے مارکیٹ میں کلہاڑی کے وار سے لڑکی کو قتل کیا جبکہ اس کی بھابھی اور بھانجے کو بھی شدید زخمی کیا۔شیتپلی کے والدین نے اس کی شادی کہیں اور طے کی تھی اور اسی سلسلے میں وہ شاپنگ کر رہی تھی۔

    بھارت: 70سالہ شخص نے 6 سال کی بچی کو بھی نہ بخشا

    پولیس نے ملزم کے خلاف مقدمہ درج کر کے معاملے کی تحقیقات کا آغاز کر دیا۔ ملزم کی گرفتاری کیلیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

  • جہیز نہ لانے پر طعنے؛ خاتون نے جان دیدی

    جہیز نہ لانے پر طعنے؛ خاتون نے جان دیدی

    بھارت کے ضلع اجمیر میں انورادھا نامی خاتون نے جہیز نہ لانے پر سسرالیوں کے تشدد سے تنگ آکر اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا

    جہیز ایک ناسور کی طرح معاشرے میں سرایت کرگیا ہے جس کے باعث آئے دن دل دہلانے والے واقعات رونما ہوتے ہیں ایسا ہی ایک واقعہ بھارت میں پیش آیا جہاں خاتون نے سسرالیوں کے مظالم سے دلبرداشتہ ہوکر اپنی 2 سالہ بچی کے سامنے خودکشی کرلی۔

    یہ دلخراش واقعہ راجھستان کے ضلع اجمیر میں شیو ساگرکالونی میں پیش آیا جہاں انورادھا نامی خاتون کو سسرالیوں نے جہیز کے بے جا مطالبات پر اتنے ذہنی وجسمانی تشدد کا نشانہ بنایا کہ اس مظلوم کے پاس اپنی زندگی ختم کرنے کے سوا کوئی راستہ نہ بچا۔

    اس حوالے سے انورادھا کے بھائی سرویش سومانی کا کہنا ہے کہ انورادھا کی سسرال والے اس کی بہن کو جہیز کے لیے مسلسل جسمانی اور ذہنی طور پر ٹارچر کرتے رہتے تھے۔

    سرویش کے مطابق اس کا بہنوئی انیرودھ مالپانی جرمنی میں کام کرتا ہے لیکن اس کا رویہ بھی انورادھا کے ساتھ اچھا نہ تھا جس سے پریشان ہوکر اس کی بہن نے خودکشی کی۔

    واضح رہے کہ انورادھا کی 3 سال قبل انیرودھ سے شادی ہوئی تھی جس سے ان کی 2سالہ بیٹی بھی ہے۔

    ادھر اس معاملے پر اجمیر نارتھ پولیس کا کہنا ہے کی سی او چھوی شرما کا کہنا ہے کہ انورادھا کیشو کی پوسٹ مارٹم رپورٹ آنے کے بعد آگے کارروائی کی جائے گی۔

  • جہیز نہ لانے پر بہو کو دھمکانے والی ساس کی جیل یاترا

    جہیز نہ لانے پر بہو کو دھمکانے والی ساس کی جیل یاترا

    .بھارت میں عدالت عظمیٰ نے بہو کو جہیز نہ لانے پر ڈرانے دھمکانے والی ساس کو 3ماہ قید کی سزا سناتے ہوئے جیل روانہ کردیا

    جہیز ہمارے معاشروں میں ایک ناسور کی طرح سرایت کرچکا ہے، بالخصوص پڑوسی ملک بھارت میں تو آئے روز جہیز نہ لانے پر بہو سے غیر انسانی سلوک حتیٰ کے قتل تک کی خبریں سامنے آتی ہیں، جہیز سے متعلق قوانین موجود ہونے کے باوجود ایک عورت دوسری عورت کی دشمن بنی رہتی ہے۔

    ایسا ہی کچھ ایک بار پھر ہوا ہے بھارت میں جہاں ساس اپنی بہو کو جہیز نہ لانے پر ہراساں کرتی رہی لیکن معاملہ عدالت
    میں پہنچنے  پر ساس کو 3 ماہ کے لیے جیل میں ڈال دیا گیا۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق ساس کی جانب سے بار بار جہیز پر ہراساں کیے جانے پر بہو نے تنگ آکر خودکشی کی ناکام کوشش بھی کی جس کے بعد معاملہ عدالت میں پہنچ گیا۔

    سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ جہیز نہ لانے پر ساس نے کئی بار بہو کو ڈرایا دھمکایا جس سے تنگ آکر بہو نے اپنی زندگی ختم کرنے کی کوشش کی۔

    درخواست کے خلاف ملزمہ ساس نے اپیل بھی داخل کی جس کو سپریم کورٹ نے مسترد کرتے ہوئے 64 سالہ خاتون کو جہیز سے متعلق قوانین کے مطابق تین ماہ قید کی سزا سناتے ہوئے جیل بھیج دیا۔

    بھارتی عدلیہ کے جج نے ریمارکس میں کہا کہ ایک خاتون کا دوسری خاتون پر ظلم کرنا سنگین جرم ہے۔

  • جہیز میں لڑکے کے والدین نے ایسی چیزیں مانگ لیں، جس سے لڑکی والے دنگ رہ گئے

    جہیز میں لڑکے کے والدین نے ایسی چیزیں مانگ لیں، جس سے لڑکی والے دنگ رہ گئے

    مہاراشٹر: بھارت میں جہیز میں لڑکے کے والدین نے ایسی عجیب و غریب چیزیں مانگ لیں، جس سے لڑکی والے دنگ رہ گئے، مجبوراً لڑکی والوں نے پولیس کے پاس شکایت درج کرا دی۔

    تفصیلات کے مطابق بھارتی ریاست مہاراشٹر کے شہر اورنگ آباد میں دو خاندانوں کے درمیان ایک طے شدہ شادی کا معاملہ اس بات پر خراب ہو گیا، کہ لڑکے والوں کی جانب سے اچانک عجیب و غریب چیزوں کی فرمائش ہونے لگی۔

    لڑکے کے والدین نے مطالبہ کیا کہ لڑکی والے جہیز کے طور پر 21 ناخنوں والا کچھوا اور مخصوص نسل کا سیاہ کتا بھی دیں۔

    خیال رہے کہ ہر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی بیٹی کا رشتہ اچھے خاندان میں طے ہو، اسی بات کے پیش نظر اورنگ آباد کے ایک کاروباری نے اپنی بیٹی کا رشتہ ناسک کے ایک ریٹائرڈ فوجی کے بیٹے سے طے کیا، اور 2 لاکھ روپے جہیز کی رقم اور ایک بُلیٹ موٹر سائیکل پر باہمی رضامندی ہوگئی۔

    تاہم لڑکی کے والد کا الزام ہے کہ رشتہ طے ہونے کے بعد لڑکے والوں کی مانگ بڑھتی گئی، جس میں رقم کے علاوہ عجیب وغریب مطالبات شامل تھے، لڑکی کے والد کے دعوے کے مطابق لڑکے والوں نے جہیز میں 21 ناخنوں والا کچھوا اور مخصوص نسل کا کالا کتا بھی مانگ لیا۔

    عجیب و غریب مطالبات سے پریشان ہو کر لڑکی والے پولیس اسٹیشن پہنچ گئے، اور انھوں نے عثمان پورہ تھانے میں ایف آئی آر درج کرا دی، جس پر پولیس یہ تفتیش کر رہی ہے کہ ملزمان نے عجیب وغریب مطالبہ کیوں کیا؟ کہیں جادو ٹونا اس کی وجہ تو نہیں، یا پھر رشتہ طے نہ ہونے کی صورت میں لڑکی والوں کی طرف سے بے بنیاد الزامات عائد کیے جا رہے ہیں۔

  • بیٹی کے جہیز میں 50 تکیوں اور 40 رلیوں کی کہانی

    بیٹی کے جہیز میں 50 تکیوں اور 40 رلیوں کی کہانی

    رحمت بی بی کی جھونپڑی میں آج گویا عید کا دن تھا، صرف ایک ان کی جھونپڑی کیا آس پاس کی تمام جھونپڑیوں میں ایک ہلچل مچی ہوئی تھی کیونکہ آج رحمت بی بی کی سب سے بڑی بیٹی شادی ہو کر رخصت ہونے جارہی تھی۔

    شادی کے لیے رحمت بی بی نے اپنی حیثیت کے مطابق بہت کچھ جوڑ لیا تھا۔ وہ سامان جو مستقبل میں نہ صرف ان کی بیٹی بلکہ اس کے نئے گھر والوں کے بھی کام آنا تھا۔ کپڑے، برتن، ڈھیروں سجانے کی اشیا جو سب ہاتھ سے کڑھی ہوئی تھیں، ہاتھ کے پنکھے اور اس تمام سامان کو رکھنے کے لیے لوہے کے صندوق (جنہیں پیٹی بھی کہا جاتا ہے)۔ رحمت بی بی کا ایک بیٹا شہر میں ملازمت کرتا تھا سو ان کی حیثیت دیگر گاؤں والوں کے مقابلے میں کچھ بہتر تھی لہٰذا وہ بیٹی کو جہیز میں ایک عدد بکری بھی دے رہی تھیں۔ اور سب سے اہم چیز جو سب کو دکھانے کے لیے سامنے ہی رکھی تھی، 50 عدد تکیے۔

    یہ 50 عدد تکیے وہ اہم شے تھی جس کی تیاری رحمت بی بی اور ان کے گاؤں کی ہر ماں بیٹی کے پیدا ہونے کے ساتھ ہی شروع کردیتی تھی۔ کراچی کے علاقے گڈاپ ٹاؤن کی حدود میں واقع اس گاؤں مٹھو گوٹھ میں بیٹی کی شادی میں اور کچھ ہو یا نہ ہو مگر 50 تکیے لازمی تھے۔

    جہیز میں دیے گئے سامان پر ہاتھ سے کشیدہ کاری کی جاتی ہے

    مٹھو گوٹھ صوبہ بلوچستان اور صوبہ سندھ کی قدرتی سرحد یعنی کیرتھر کے پہاڑی سلسلے میں ایک پہاڑ پر آباد ہے۔ اس گاؤں میں تقریباً 100 گھر ہیں اور ہر گھر میں 8 سے 10 افراد موجود ہیں جن میں سے نصف تعداد خواتین کی ہے۔

    گاؤں کا انحصار زراعت پر ہے، یہاں چھوٹے پیمانے پر گندم، گوار اور مختلف سبزیاں اگائی جاتی ہیں جو نہ صرف ان گاؤں والوں کے اپنے کام آتی ہیں بلکہ اسے شہر میں لے جا کر فروخت بھی کیا جاتا ہے۔ گاؤں والوں نے مویشی بھی پال رکھے ہیں جن میں زیادہ تعداد بکریوں کی ہے، ان کا دودھ بھی شہر میں فروخت کیا جاتا ہے۔ تاہم اس سب کا انحصار بارش پر ہے۔ گاؤں میں پانی کا کوئی خاص انتظام موجود نہیں، بارش ہوتی ہے تو ہی ان کی فصلوں کو پانی ملتا ہے، اور جانور چارہ کھا سکتے ہیں۔ جس سال بارش کم ہو، اس سال یہاں خشک سالی ہوجاتی ہے اور یہاں کے لوگ عارضی طور پر ہجرت کر کے کسی دوسرے گاؤں یا شہر کے قریب جا رہتے ہیں، لیکن بارشیں ہوتے ہی واپس اپنے گاؤں مٹھو گوٹھ آجاتے ہیں۔

    ایک مٹھو گوٹھ ہی کیا سندھ کے طول و عرض میں آباد مختلف ذاتوں، قبیلوں اور برادریوں میں جہاں مختلف روایات دیکھنے کو ملتی ہے، انہی میں ایک روایت بیٹی کو جہیز میں ڈھیروں ڈھیر بستر دینا بھی ہے، البتہ یہ روایت پورے سندھ کی برادریوں میں نہیں ہے۔

    جن برادریوں میں یہ رواج ہے وہاں کم از کم 20 سے 30 کے قریب کڑھی ہوئی چادریں، تکیے اور رلیاں (کپڑے کے ٹکڑے جوڑ کر بنایا گیا متنوع رنگوں کا سندھ کا روایتی بچھونا) دی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ ہاتھ سے تیار سجاوٹ کی ایسی اشیا جو دیوار پر آویزاں کی جاسکیں، ازار بند اور پہننے کے لیے کڑھے ہوئے کپڑے ان کے علاوہ ہوتے ہیں۔

    تاہم بستروں پر اس قدر زور کیوں؟ اس بارے میں اندرون سندھ کی زندگی کو قریب سے دیکھنے والی پرھ قاضی نے اپنی معلومات سے آگاہ کیا، پرھ اندرون سندھ کام کرنے والی مختلف غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ منسلک رہ چکی ہیں۔

    پرھ کے مطابق اس کی سب سے بڑی وجہ تو سندھ کی مہمان نوازی ہے، سندھ دھرتی کی مہمان نوازی جو بیرون ملک سے آنے والوں کو بھی اپنائیت سے سرشار کردیتی ہے، سندھ کے رہنے والوں کی سادہ سی زندگی کا اہم حصہ ہے۔ سندھ کے لوگ اپنے گھر آنے والوں کی بے انتہا آؤ بھگت کرتے ہیں۔ بہترین پکوان جو گھر کے شاندار برتنوں میں سرو کیا جاتا ہے، تمام وقت مہمان کا خیال رکھنا (جس میں بجلی نہ ہو تو انہیں پنکھا جھلنا بھی شامل ہے)، رات سونے کے لیے نئے بستر بچھانا، اور وقت رخصت مہمانوں کو روایتی تحائف دینا سندھ کے لوگوں کا خاصہ ہے۔

    رحمت بی بی نے بیٹی کے جہیز کے لیے ڈھیروں بستر تیار کیے

    خاندانوں کا اکثر ایک دوسرے سے ملنے کے لیے جانا اور رات قیام کرنا عام بات ہے اور یہی وجہ ہے کہ ڈھیروں بستر ہر گھر کی ضرورت ہیں۔ اکثر گھروں میں اسی حساب سے چارپائیاں بھی رکھی جاتی ہیں جن پر بچھانے کے لیے چادریں اور تکیے درکار ہوتے ہیں جبکہ فرشی نشست کی صورت میں بھی یہی سامان درکار ہے۔ ایسے میں اگر بہو کے جہیز کے بستر مہمانوں کو بھلے لگیں اور وہ اس کی تعریف کردیں تو نہ صرف سسرال والوں کا سر فخر سے اونچا ہوجاتا ہے بلکہ گھر میں بہو کی اہمیت میں بھی مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔

    پرھ نے بتایا کہ ایک رجحان جسے بظاہر ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے وہ رخصتی سے قبل جہیز کی نمائش کرنا ہے تاکہ ہر شخص دیکھ سکے کہ ماں باپ نے اپنی بیٹی کو کیا کیا دیا ہے۔ ’برادری والے باقاعدہ سوال پوچھتے ہیں کہ کتنے جوڑے دیے ہیں، کتنے بھرے ہوئے (کڑھائی والے)، اور کتنے سادہ ہیں، کتنی رلیاں ہیں، کتنے تکیے ہیں۔ ایسے میں جب بتایا جاتا ہے کہ 40 رلیاں ہیں، یا 50 تکیے، تو نہ صرف بتانے والے والدین کا سینہ چوڑا ہوجاتا ہے بلکہ سسرال والے بھی فخر سے اتراتے ہیں کہ دیکھو ہماری بہو اتنا کچھ لے کر آرہی ہے‘۔

    بیٹی کی پیدائش کے ساتھ ہی اس کے جہیز کی تیاری کرنا، بظاہر والدین کے کندھوں پر بوجھ لگتا ہے، لیکن کیا واقعی ایسا ہے؟ پرھ نے بتایا کہ بیٹی کو شادی کر کے رخصت کرنے تک ایک بھاری ذمہ داری سمجھنا تو برصغیر پاک و ہند میں عام ہے، لیکن اگر اس خاص پس منظر میں جہیز کی تیاری کی بات کی جائے تو یہ ذمہ داری سے زیادہ والدین اور خصوصاً ماں کے لیے وقت گزاری کا ذریعہ بھی ہے۔

    ان کے مطابق گھر کے تمام کاموں سے فرصت پا کر کڑھائی اور کشیدہ کاری کرنا دیہی سندھ کی خواتین کا خصوصی مشغلہ ہے۔ یہ ان کے لیے ایک سماجی تفریح بھی ہے کیونکہ کڑھائی کرنے اور سیکھنے کے بہانے دو چار گھروں کی خواتین ایک گھر میں جمع ہوجاتی ہیں، اس دوران گپ شپ اور کھانے پینے کا سلسلہ چلتا ہے جبکہ ایک سے ایک کشیدہ کاری کے نمونے بھی تیار ہوجاتے ہیں۔ دن کے اختتام پر جب سارا کام سمیٹا جاتا ہے تو ماں اس نئے تیار شدہ سامان کو ایک محفوظ جگہ رکھ دیتی ہے اور سوچتی ہے کہ یہ بیٹی کی شادی میں کام آئے گا۔ اور صرف جہیز پر ہی کیا موقوف، اس بیٹھک کے دوران گھر کی سجاوٹ کی اشیا اور گھر کے مردوں کے لیے کڑھے ہوئے ازار بند بھی بنائے جاتے ہیں جو چند دن بعد ہی استعمال میں لے لیے جاتے ہیں۔

    سلائی کڑھائی کرنا گاؤں کی خواتین کے لیے مل بیٹھنے کا ایک بہانہ ہے

    سینئر صحافی اور محقق اختر بلوچ اس بارے میں کہتے ہیں کہ جہیز میں بستروں کا یہ رواج سندھ کی ثقافت کا ایک حصہ ہے جو والدین اور بیٹی دونوں کے لیے خوشی کا باعث ہے۔ چونکہ دیہی سندھ میں جہیز کا سامان بازار سے خریدنے کے بجائے اپنے ہاتھ سے تیار کیا جاتا ہے لہٰذا یہ سہل بھی لگتا ہے اور خوشی بھی فراہم کرتا ہے۔

    ان کے مطابق گھر میں اگر بہت مہمان زیادہ آجائیں تو پڑوس کے گھروں سے بھی بستر یا چارپائیاں ادھار لے لی جاتی ہیں، ایسے میں کہا جاتا ہے کہ فلاں کے گھر کی رلیاں بہت اچھی ہیں یا فلاں کے گھر کے تکیے بہت خوبصورت ہیں، یہ تعریف اس سامان کے مالکوں کی خوشی میں بے پناہ اضافہ کردیتی ہے۔

    گھریلو استعمال کی بھی کئی اشیا ہاتھ سے بنائی اور سجائی جاتی ہیں

    سندھ کی ثقافت پر عبور رکھنے والے سینئر صحافی امر گرڑو بتاتے ہیں کہ سندھ کا ایک قبیلہ باگڑی اپنی ہر شادی میں ہزاروں مہمانوں کو مدعو کرتا ہے، اتنے مہمانوں کے قیام کے لیے اتنے ہی بستروں کی ضرورت ہے، اب ہر گھر میں سو یا 200 بستر بھی ہوں تو میزبانوں کا کام چل جاتا ہے۔

    ان کے مطابق شہر اور گاؤں کے درمیان فاصلہ ہونا ایک ایسی وجہ ہے جس کے باعث شہری سندھ کے لوگوں کو دیہی سندھ کے باسیوں کی کئی عادات نامانوس لگتی ہیں۔ گاؤں کے لوگ جب شہر جاتے ہیں تو کوشش کرتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ اشیائے ضرورت خرید کر اسٹاک کرلیں تاکہ بار بار اتنی دور کا سفر نہ کرنا پڑے، ایسے میں مہمانوں کی آمد کو بھی مدنظر رکھا جاتا ہے کہ اچانک مہمان آجائیں تو کسی شے کی کمی نہ ہو۔ بہت زیادہ تعداد میں بستر جمع کرنا بھی اسی عادت کا حصہ ہے۔

    امر نے بتایا کہ سندھ کی یہ روایت کچھ علاقوں میں ہے، جہیز کے حوالے سے پورے سندھ میں مختلف روایات دیکھنے کو ملیں گی۔ سندھ کی ایک برادری ایسی ہے جو بیٹی کو جہیز میں کچھ نہیں دیتی، تھر میں جوگیوں کا قبیلہ بیٹی کو جہیز میں سانپ دیتا ہے۔ سندھ کے مختلف علاقوں کے جغرافیائی حالات، وہاں کا ماحول اور آب و ہوا وہاں رہنے والوں کی ثقافت و روایات پر بھی اثر انداز ہوتا ہے، شہر والوں کے لیے جو روایت بہت اجنبی ہوسکتی ہے وہ کسی دوسرے سندھی قبیلے یا سندھی برادری کے لیے بھی اتنی ہی اجنبی ہوسکتی ہے کیونکہ ان کے درمیان جغرافیے کا فرق ہے۔

  • 95 سالہ خاتون نے 100 سالہ سابق شوہر سے جہیز واپس مانگ لیا

    95 سالہ خاتون نے 100 سالہ سابق شوہر سے جہیز واپس مانگ لیا

    لاہور: صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں 95 سالہ معمر خاتون، طلاق کے 35 برس بعد اپنے 100 سالہ سابق شوہر سے جہیز واپس لینے کے لیے عدالت پہنچ گئیں۔

    100 سالہ بابا اسماعیل

    تفصیلات کے مطابق لاہور کی فیملی کورٹ میں جہیز واپسی کا انوکھا کیس دائر کردیا گیا، 95 سالہ معمر خاتون نے اپنے 100 سالہ شوہر سے جہیز واپسی کا دعویٰ دائر کردیا۔

    دستاویزات کے مطابق میں بابا اسماعیل کی شادی تاج بی بی کے ساتھ سنہ 1960 میں ہوئی، جوڑے میں 35 برس قبل طلاق ہوگئی۔ اب طلاق کے 35 سال بعد تاج بی بی نے جہیز واپسی کا دعویٰ دائر کردیا ہے۔

    نوٹس ملنے پر بابا اسماعیل وکیل کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ تاج بی بی کا دعویٰ جھوٹا ہے، سنہ 1960 میں تاج بی بی کو خالی ہاتھ بیاہ کر لایا تھا۔

    بابا اسماعیل کے ساتھ، ان کے نکاح کے ایک 85 سالہ بزرگ گواہ بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ نکاح میرے سامنے ہوا تھا، تاج بی بی اپنے ساتھ جہیز نہیں لائی تھیں۔

    وکیل نے عدالت میں پیشی سے قبل کہا کہ تاج بی بی کی جانب سے وہ چیزیں مانگی گئی ہیں جو اس وقت (سنہ 1960 میں) پاکستان میں کم ہی میسر تھیں، عدالت اس جھوٹے دعوے کو خارج کرے۔

  • سندھ کابینہ نے جہیز پر پابندی کا بل مسترد کردیا

    سندھ کابینہ نے جہیز پر پابندی کا بل مسترد کردیا

    کراچی: وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کابینہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے جہیز کے خاتمے اور خلاف ورزی کی صورت میں جرمانے اور سزا کا بل مسترد کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق آج سندھ اسمبلی میں وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ نے کابینہ کے اجلاس کی صدارت کی‘ اجلاس میں انہیں اور کابینہ کو جہیز کے خاتمے سے متعلق بل پر بریفنگ دی گئی جسے کابینہ نے ناقابل عمل قرار دے کر دیگر اقدامات کرنے پر اتفاقِ رائے کیا۔

    وزیراعلیٰ سندھ کی دی جانے والی بریفنگ میں بتایا گیا کہ بل کے مطابق سندھ میں جہیز کی زیادہ سے زیادہ حد پچاس ہزار روپے ہونی چاہیے اور مہندی کے گفٹس یا اخراجات کا کل تخمینہ بھی 50 ہزار روپے ہونا چاہیے‘ اس حساب سے جہیز کی کل قیمت ایک لاکھ روپے کی حد مقرر ہونی چاہیے۔

    بل سے متعلق آگاہی دیتے ہوئے کہا گیا کہ جہیزکسی بھی دباؤیاہراساں کرکے بھی حاصل نہیں کیاجاسکتا‘ یہ کلی طور پر لڑکی والوں کی صوابدید پر منحصر ہوگا اور دولہایااس کےاہل ِ خانہ کسی بھی طرح کی شے کا جہیز میں مطالبہ نہیں کریں گے۔دلہن اوردولہاکےاہل ِخانہ جہیزباراتیوں کودکھانےکےپابندہوں گے۔

    یہ بھی تجویز دی گئی ہے کہ جہیز لینے پر پابندی کی خلاف ورزی کرنے کی صورت میں بھاری جرمانہ اور 6 ماہ کی سزا بھی ہوسکتی ہے۔

    وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے بل کی تجاویز پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ تجویزایسی ہےجسے لاگو کرنامشکل ہے‘ ہمیں ایسا قانون بنانا چاہیے جوتجویز لاگوہوسکیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جہیز کاخاتمہ یاغیرضروری مطالبات شعورپیداکرنےسےہوسکتاہے۔ ایساقانون بنائیں‘ جس میں جہیز لینابرالگے۔

    دوسری جانب بل پر تبصرہ کرتے ہوئے سابق وزیر داخلہ منظور وسان کا کہنا تھا کہ جہیزکے خلاف اس طرح کی سزادیناقانوناًمناسب نہیں ہے۔ میر ہزار خان بجرانی کا کہنا تھا کہ مجوزہ قانون کسی صورت قابل تحسین نہیں ہے۔

    ترجمان وزیراعلیٰ سندھ نے بعد ازاں میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ سندھ کابینہ نے فی الحال جہیزسےمتعلق بل منظورنہیں کیا گیا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • جہیز ایک لعنت ہے۔۔ مگر؟

    جہیز ایک لعنت ہے۔۔ مگر؟

    برصغیر پاک و ہند میں تقریباً ہر عورت نے اپنی نوجوانی میں اپنی بزرگ خواتین سے ایک جملہ ضرور سنا ہوگا، ’جو عورت سسرال میں جتنا زیادہ اور بھاری بھرکم جہیز لے کر جاتی ہے، وہ اتنی ہی زیادہ عزت سے رہتی ہے‘۔

    پرانے زمانوں کی لڑکیاں جب شادی ہو کر گئیں تو انہیں بذات خود اس بات کا تجربہ بھی ہوگیا۔ اس کے بعد اسی سوچ کو انہوں نے اپنی اگلی نسلوں میں بھی منتقل کرنا شروع کیا۔

    پھر اکیسویں صدی آئی۔ 90 کی دہائی تک پیدا ہونے والوں نے یہ جملہ اپنے بچپن میں ضرور سنا ہوگا تاہم پھر وقت بدلتا گیا، تعلیم سے واقعتاً لوگوں نے شعور بھی حاصل کرنا شروع کردیا۔

    پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب ہم نے سنا، کہ جہیز ایک لعنت ہے اور اس سلسلے میں خاص طور پر لڑکوں اور ان کے اہل خانہ کے تصور کو بدلنے کا سلسلہ چل نکلا کہ بغیر جہیز کے بھی آپ اپنا بیٹا بیاہ سکتے ہیں، آخر اس کی شادی کر رہے ہیں، اسے بھاری بھرکم جہیز کے عوض فروخت تو نہیں کر رہے۔

    گوکہ صورتحال اب پہلی جیسی بدترین اور بدنما تو نہیں رہی، تاہم کم تعلیم یافتہ علاقوں میں آج اکیسویں صدی میں بھی یہ حال ہے کہ غریب والدین جہیز دینے کی استطاعت نہ رکھنے کے باعث اپنی بیٹیوں کی شادی نہیں کر پاتے۔

    تاہم چند روز قبل پیشہ ورانہ مصروفیات کے سلسلے میں ایک دورے کے دوران یہ لعنت ایک لازمی رسم کی طرح رائج دیکھنے میں آئی جس نے سوچنے پر مجبور کردیا کہ کیا چند ہزار روپوں کی بے جان اشیا انسانی زندگیوں سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے؟

    مزید پڑھیں: دیہی خواتین کی زندگی میں آنے والی انقلابی تبدیلی

    کراچی سے 120 کلومیٹر کے فاصلے پر نوری آباد سے قبل واقع ایک علاقہ کوہستان، (جی ہاں ایک کوہستان سندھ میں بھی واقع ہے) دور تک پھیلے صحرا پر مشتمل ایک علاقہ ہے، جہاں سورج اپنی بھرپور تپش کے ساتھ نہایت ہی نامہرباں معلوم ہوتا ہے جب تک کہ آپ کو سر کے اوپر کوئی سایہ دار جگہ میسر نہیں آجاتی۔

    سندھ کے دیگر صحرائی علاقوں کی طرح اس صحرا میں بھی لوگ آباد ہیں۔ دور دور واقع چھوٹے چھوٹے گاؤں اور کمیونٹیز کی صورت میں، اور بنیادی سہولیات سے بالکل محروم لوگ، جن کی حالت زار دیکھ کر انسانیت پر سے بھروسہ اٹھنے لگتا ہے۔

    اس علاقے میں 34 کے قریب گاؤں آباد ہیں جن میں سے ایک گاؤں کا نام حاجی شفیع محمد ہے۔ گاؤں والوں نے مہمانوں کے لیے ایک پکا تعمیر کردہ گھر مختص کر رکھا ہے جو پورے گاؤں کا سب سے اعلیٰ تعمیر کردہ مکان تھا۔ خواتین سے بات چیت ہوئی تو وہی اذیت ناک صورتحال سامنے آئی کہ نہ پانی ہے، نہ بجلی، نہ طبی امداد دینے کے نام پر کوئی چھوٹی موٹی ڈسپنسری یا ڈاکٹر۔

    ان خواتین کی زندگیوں کا سب سے بڑا مقصد دور دراز علاقوں میں واقع پانی کے ذخیروں سے گھر کی ضروریات کے لیے پانی بھر کر لانا تھا۔ 3 سے 5 کلو میٹر تک جانا اور پانی کو بڑے بڑے ڈرموں یا برتنوں میں اٹھا کر پھر واپس لانا، اور یہ کام کم از کم دن میں 3 بار انجام دیا جاتا ہے تاکہ گھر والوں کی پانی کی ضروریات پوری ہوسکیں۔

    اندرون سندھ کے علاقوں کے دورے کرنے والے یا وہاں کی رواج و ثقافت کو سمجھنے والے جانتے ہوں گے کہ گھر کی ضروریات کے لیے پانی بھر کر لانا صرف خواتین کی ذمہ داری ہے، اور یہ ذمہ داری ایسی ہی لازمی ہے جیسے بچے پیدا کرنے کا کام مرد کسی صورت نہیں کرسکتا، صرف عورت کر سکتی ہے تو پانی بھر کر لانا بھی صرف عورت کا ہی کام ہے۔

    مرد گھر میں بے کار بھی بیٹھا ہوگا تو کبھی اس طویل سفر میں عورت کی مدد نہیں کرے گا کیونکہ اسے صدیوں سے یہی بتایا گیا ہے کہ پانی بھر کر لانا صرف عورت کی ذمہ داری ہے۔

    ان علاقوں کی کئی بچیاں پڑھنا چاہتی ہیں، لیکن وہ بھی اپنی ماؤں کے ساتھ پانی کے ڈول بھر بھر کر لاتی ہیں۔ خود ان کی مائیں حتیٰ کہ باپ اور بھائی بھی ان کی اس خواہش سے واقف ہیں لیکن ان کے سامنے سب سے بڑی مجبوری ہے کہ اگر بچیاں اسکول گئیں تو پانی کون بھر کر لائے گا۔ چھوٹی بچیاں ساتھ جا کر کم از کم اپنے حصے کا پانی تو بھر کر لے ہی آتی ہیں۔

    ابھی اسی موضوع پر بات ہو رہی تھی کہ نظر مکان کی دیوار سے ساتھ لگے بڑے سے ڈھیر پر جا ٹکی۔ چادر میں چھپائے گئے اس ڈھیر سے کچھ چمکتی ہوئی اشیا باہر جھانکتی دکھائی رہی تھیں۔

    دریافت کرنے پر خواتین نے اس ڈھیر پر سے چادر ہٹا دی۔ یہ ڈھیر سینکڑوں کی تعداد میں خوبصورت کڑھے ہوئے تکیوں، رلیوں (سندھ کی روایتی اوڑھنے والی چیز)، بالوں کی آرائشی اشیا، دیدہ زیب کشیدہ کاری سے مزین شیشوں اور دیواروں پر آویزاں کرنے کے لیے خوش رنگ روایتی کڑھائی سے تیار کی گئی اشیا پر مشتمل تھا۔

    ان عورتوں کے پاس ایسا شاندار ہنر موجود ہے، اگر انہیں شہر تک رسائی دی جائے تو ان کی بنائی یہ اشیا ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوسکتی ہیں تاہم جب اس بارے میں ان سے دریافت کیا گیا تو تمام خواتین نے ٹکا سا جواب دے دیا، ’نہیں یہ بیچنے کے لیے نہیں بنائیں‘۔

    تو پھر اس چمکتے ڈھیر کو بنانے اور جمع کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ کیونکہ بظاہر کوئی گھر ایسا نظر نہیں آرہا تھا جہاں اس قسم کی دیدہ زیب اشیا عام استعمال ہوتی دکھائی دے رہی ہوں۔

    دریافت کرنے پر علم ہوا کہ یہ تمام سامان لڑکیوں کے جہیز کے لیے بنایا جاتا ہے۔

    شاد بی بی نامی ایک خاتون نے کچھ تکیے دکھاتے ہوئے بتایا کہ انہیں بنانے پر 5 ہزار روپے کی لاگت آئی ہے۔ ’یہ پیسہ تو ہم اس وقت سے جوڑنا شروع کردیتے ہیں کہ جب ہمارے گھر لڑکی پیدا ہوتی ہے۔ ہم اسے دے ہی کیا سکتے ہیں زندگی بھر، لیکن کم از کم اس کی شادی میں یہ خوبصورت اور قیمتی سامان پر مشتمل تھوڑا بہت جہیز دینا تو ضروری ہے‘۔

    گویا ایک جھونپڑی سے دوسری جھونپڑی تک رخصت ہونے والی بیٹی اپنے جہیز میں یہ قیمتی کڑھے ہوئے تکیے اور آرائشی اشیا وغیرہ اپنے ساتھ جہیز میں لے کر آتی ہے۔ مزید کچھ دینے کی استطاعت نہ تو اس کے گھر والوں میں ہے اور نہ اس کے ہونے والے شوہر کی جھونپڑی میں اتنی جگہ کہ وہ شہری جہیز یعنی ٹی وی، فریج، اے سی وغیرہ کی ڈیمانڈ کرسکے یا انہیں رکھ سکے۔

    یہ جہیز شادی کے بعد بمشکل 1 سے 2 ہفتے تک دلہن کو خوشی فراہم کرتا ہے جب اس کی ساس تمام گاؤں والوں کو جمع کر کے انہیں دکھاتی ہے کہ ’ہماری نوہنہ (بہو) یہ جہیز لائی ہے‘۔ نفاست اور خوبصورتی سے کڑھے ان تکیوں اور رلیوں پر کبھی داد و تحسین دی جاتی ہے کبھی اس میں بھی خامیاں نکالی جاتی ہیں۔

    دو ہفتے تک دلہن کو اس کی زندگی میں نئی تبدیلی ہونے کا احساس دلاتی یہ اشیا بالآخر اس وقت اپنی اہمیت کھو بیٹھتی ہیں جب دلہن پہلے کی طرح اپنے سر پر بڑے بڑے برتن اٹھائے پانی بھرنے کے سفر پر نکلتی ہے۔ فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ پہلے وہ اپنی ماں بہنوں کے ساتھ جاتی تھی، اب اپنی ساس اور نندوں کے ساتھ جاتی ہے۔

    اس کی پیدائش کے وقت سے جمع کیے جانے والے پیسوں اور ان سے بنائی گئی یہ قیمتی اشیا خراب ہونے سے بچانے کے لیے انہیں جھونپڑی کے ایک کونے میں ایک ڈھیر کی صورت رکھ دیا جاتا ہے اور اسے گرد و غبار سے بچانے کے لیے اس پر چادر ڈھانپ دی جاتی ہے۔

    ہمارے شہروں میں دیا جانے والا جہیز کم از کم استعمال تو ہوتا ہے۔ یہ جہیز تو زندگی بھر یوں ہی رکھا رہتا ہے کیونکہ بدنصیب عورتوں کو اتنی مہلت ہی نہیں ملتی کہ وہ اسے استعمال کرسکیں۔

    ان کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد دن میں 3 بار پانی بھر کر لانا ہے اور دن کے آخر میں جب وہ رات کو تھک کر بیٹھتی ہیں تو ان میں اتنی بھی ہمت نہیں ہوتی کہ اتنی محنت اور ماؤں کی چاہت سے بنائے گئے جہیز کو چادر ہٹا کر ایک نظر دیکھ لیں، اور خوش ہولیں۔

    اور ہاں یہ جہیز نسل در نسل منتقل نہیں ہوتا، بلکہ ہر نئی بیٹی پیدا ہونے پر اس کے والدین پھر سے پیسہ جوڑنا اور یہ اشیا بنانا شروع کردیتے ہیں تاکہ وہ اپنی بیٹی کو بھی باعزت طریقے سے رخصت کرسکیں۔

    نسل در نسل سے بیٹی کو تعلیم دینے کے بجائے اسے بے مقصد اور ناقابل استعمال جہیز دینے والے ان بے بسوں کی زندگی شاید اس وقت بدل جائے جب انہیں پانی بھرنے کے طویل سفر کی مشقت سے چھٹکارہ مل جائے، لیکن وہ وقت کب آئے گا، خدا ہی بہتر جانتا ہے۔

  • بدصورتی جہیز کی مانگ کا اہم سبب ہے ‘ بھارتی نصاب کی منطق

    بدصورتی جہیز کی مانگ کا اہم سبب ہے ‘ بھارتی نصاب کی منطق

     

    مہاراشٹر: مغربی بھارتی ریاست مہاراشتر کی درسی کتاب میں جہیز کے حوالے سے شامل مضمون میں ’’بد صورتی کوجہیز کی مانگ میں اضافے کی وجہ‘‘ قرار دینے پرعوام میں شدید غم و غصے کی لہر پائی جاتی ہے.

    تفصیلات کے مطابق درسی کتاب کے مضمون میں کہا گیا ہے کہ اگر لڑکی بدصورت یا معذور ہوتی ہے تو اس کی شادی میں مزید مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں، کیونکہ ایسی لڑکیوں سے شادی کے لئے لڑکے والے زیادہ جہیز کا مطالبہ کرتے ہیں.

    تدریسی نصاب میں درج اس مضمون نے زیادہ جہیز کا مطالبہ لڑکی کی بدصورتی یا اس کی معذوری سے مشروط کیا ہے ، جس پر مغربی بھارتی ریاست مہاراشتر کا پڑھا لکھا طبقہ سختی سے نکتہ چینی کر رہا ہے، متنازعہ مضمون کی تصاویر نے سوشل میڈیا پر وبال مچا دیا ہے، اور لوگوں نے اس مضمون کے حوالے سے اپنی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا.

    tweets-1

    عوام کے شدید ردعمل کے بعد وزیر تعلیم کا کہنا ہے کہ ہم اس مضمون کو نصاب کے حصے سے خارج کر دیں گے.

    واضح رہے کہ جنوبی ایشا کے ممالک میں شادی سے قبل لڑکی کے والدین اپنی بیٹی کو رخصتی سے قبل تحفے کے طور پرضروریاتِ زندگی سے تعلق رکھنے والی اشیا دیتے ہیں ، یہ روایت صدیوں سے برصغیرمیں جاری ہے۔ 1961 سے یہ روایت بھارت میں غیر قانونی قرار دی جاچکی ہے تاہم آج بھی اس پر عمل کیا جاتا ہے اورجہیز نہ ملنے پرسسرال والوں کی جانب سے لڑکیوں کو ظلم وستم کا بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔

    وہ خواتین جن کے ماں باپ ان کو زیادہ جہیز نہیں دے سکتے ہیں ان کی سسرال والے ان کو زندگی بھر طعنے دیتے ہیں ، اکثر یہ خواتین سسرال کے ظلم وستم کے آگےزندگی کی بازی بھی ہار جاتی ہیں۔ جہیز کے لیے مطلوبہ رقم نہ ہونے کی وجہ سے اکثر لڑکیاں شادی نہ ہونے کے باعث ماں باپ کے گھر میں ہی جوانی سے بڑھاپے کی دہلیز میں داخل ہوجاتی ہیں.

    tweets2

    سن 2015 میں وزارت برائے ویمن اینڈ چلڈرن ڈوپلمنٹ نے انڈین پارلیمنٹ کو بتا یا تاھ کہ گذشتہ تین سالوں میں جہیز نہ ملنے یا کم ملنے کی بدولت فی سال 8 ہزار سے زائد خواتین نے اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھوئے ہیں.

    سوشل میڈیا صارفین کا کہنا ہے کہ جہیز کے حوالے سے اس قسم کا مضمون نصاب کا حصہ پہلی بار نہیں بنا ہے، بلکہ اس سے قبل بھی اس قسم کی صورت حال رونما ہوچکی ہے.

    واضح رہے کہ گذشتہ سال ایک اسکول ٹیچر نے اس حوالے سے شکایت درج کروائی تھی جب ایک درسی کتاب میں لکھا گیا تھا کہ بیروزگاری کی شرح میں اضافہ اس لیے ہوا ہے کہ خواتین نے مختلف سیکٹرز میں کام کرنا شروع کردیا گیا ہے جبکہ 2006 میں راجستھان کی ایک نصاب کی کتاب میں گھریلو خواتین کو گدھے سے تشبیہہ دی گئی تھی۔