اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے ڈاکٹرعمران فاروق قتل کیس کے ملزمان خالد شمیم، معظم،محسن علی کی سزا کے خلاف اپیلوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں ڈاکٹرعمران فاروق قتل کیس کے ملزمان خالد شمیم ، معظم، محسن علی کی سزا کیخلاف اپیلوں پر سماعت ہوئی۔
وفاق کی جانب سے ڈپٹی اٹارنی جنرل خواجہ امتیاز کے دلائل اور تحریری جواب گراف کے ساتھ پیش کیا گیا ، ڈپٹی اٹارنی جنرل نے ملزمان کی اپیلیں خارج کرنے کی استدعا کی۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا ملزمان کے خلاف ٹھوس شواہد اور دستاویزات موجود ہیں، عدالت انسداد دہشت گردی عدالت کا فیصلہ برقرار رکھے۔
ملزمان خالد شمیم، معظم علی اور محسن علی کے وکلاء کے دلائل اور تحریری جواب بھی جمع کرایا گیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے تینوں ملزمان کی سزا کے خلاف اپیلوں پر فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا، چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس عامر فاروق نے فیصلہ محفوظ کیا۔
یاد رہے انسداد دہشت گردی عدالت نے ملزمان کو قید و جرمانے کی سزا سنائی تھی ، ملزمان پر لندن میں ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کا الزام ہے۔
خیال رہے ایم کیو ایم کے رہنما عمران فاروق قتل کیس میں اعترافی بیان ریکارڈ کرانے والے خالد شمیم اورمحسن علی بیان سے مکر گئے تھے، دونوں گرفتار ملزمان نے 5سال قبل مجسٹریٹ کواعترافی بیانات ریکارڈ کرائے تھے۔
واضح رہے ڈاکٹر عمران فاروق 16 ستمبر 2010 کو لندن میں اپنے دفتر سے گھر جارہے تھے کہ انہیں گرین لین کے قریب واقع ان کے گھر کے باہر چاقو اور اینٹوں سے حملہ کرکے قتل کردیا گیا تھا، حملے کے نتیجے میں وہ موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے تھے۔
اسلام آباد : ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں انسداد دہشت گردی کی عدالت کا فیصلہ چیلنج کردیا گیا ، جس میں کہا گیا کہ عدالت 18 جون کےاسپیشل کورٹ کا حکم کالعدم قرار دے۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں انسداد دہشت گردی کی عدالت کے فیصلے کیخلاف اپیل دائر کردی گئی ، اپیل تینوں مجرموں خالد شمیم، معظم علی اور محسن علی کی جانب سے دائر کی گئی۔
اپیل میں استدعا کی گئی ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ18 جون کے اسپیشل کورٹ کاحکم کالعدم قرار دے ، جس کے بعد ریاست اور انسپکٹر ایف آئی اے فریق اور رجسٹرار آفس نےاپیل وصول کرلی ہے۔
یاد رہے ایم کیو ایم رہنما ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں انسدادی دہشت گردی کی عدالت نے تینوں ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی ، عدالت نے قتل کی سازش، معاونت اورسہولت کاری کیس پر فیصلہ دیا تھا۔
عدالت نے بانی متحدہ اور افتخار حسین ، اشتہاری ملزمان محمد انور اور کاشف کامران کے دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کئے تھے۔
خیال رہے ایم کیو ایم کے رہنما عمران فاروق قتل کیس میں اعترافی بیان ریکارڈ کرانے والے خالد شمیم اورمحسن علی بیان سے مکر گئے تھے، دونوں گرفتار ملزمان نے 5سال قبل مجسٹریٹ کواعترافی بیانات ریکارڈ کرائے تھے۔
واضح رہے ڈاکٹر عمران فاروق 16 ستمبر 2010 کو لندن میں اپنے دفتر سے گھر جارہے تھے کہ انہیں گرین لین کے قریب واقع ان کے گھر کے باہر چاقو اور اینٹوں سے حملہ کرکے قتل کردیا گیا تھا، حملے کے نتیجے میں وہ موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے تھے۔
اسلام آباد : انسداد دہشت گردی عدالت نے ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کے قاتلوں خالد شمیم، معظم علی اور محسن علی سید کو عمر قید اور دس دس لاکھ جرمانے کی سزا سنائی، اس کے علاوہ متحدہ بانی سمیت چار مفرور ملزمان کے دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر دئیے گئے۔
عدالت کے جج شاہ رخ ارجمند نے 21 مئی کا محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا کہ خالد شمیم، معظم علی اور محسن علی سید پر عمران فاروق کو قتل کرنے کی سازش، معاونت اور سہولت کاری کا الزام ثابت ہو گیا ہے۔
عمران فاروق کو قتل کرنے کا حکم متحدہ بانی نے دیا اور نائن زیرو سے لڑکوں کا انتخاب کیا گیا، عمر قید کے ساتھ تینوں مجرموں کو 10، 10 لاکھ روپے مقتول کے اہلخانہ کو ادا کرنے کی سزا سنائی جاتی ہے۔
اس حوالے سے ملنے والی اطلاعات اور عدالت میں ملزمان اور ان کے وکلاء نے کیا بیانات دیئے، اس کی تفصیلات سے ہم اپنے قارئین کو اس رپورٹ کے ذریعے آگاہ کررہے ہیں۔
عمران فاروق قتل کیس پانچ سال تک چلنے والا یہ اپنی نوعیت کا ایک اہم کیس تھا جس کے حوالے سے ریاست پاکستان کی طرف سے برطانوی حکومت کو تحریری ضمانت بھی دی گئی تھی کہ ملزمان کو جرم ثابت ہونے پر بھی سزائے موت نہیں سنائی جائے گی اور اسی سلسلے میں ایک صدارتی آرڈیننس بھی لایا گیا تھا۔
یہ ضمانت اس لیے دی گئی تھی کہ برطانیہ نے اس مقدمے سے متعلق اہم شواہد اس شرط پر پر پاکستان کو فراہم کیے تھے کہ جرم ثابت ہونے پر ملزمان کو سزائے موت نہیں سنائی جائے گی۔ اس حوالے سے برطانیہ کے چیف انویسٹی گیٹر اسٹورٹ گرین اوے نے پاکستان آکر اپنا بیان ریکارڈ کروایا۔
"محسن نے مقتول کو پیچھے سے پکڑا اور کاشف نے اینٹوں اور چھریوں کے وار کیے”
ڈاکٹر عمران فاروق کو 16 ستمبر 2010 کو شمالی لندن کے علاقے ایجویئر میں ان کے گھر کے پاس شام ساڑھے پانچ بجے کے قریب اینٹوں اور چھریوں کے وار کر کے قتل کردیا گیا تھا۔
استغاثہ کے مطابق دو ملزمان محسن علی سید اور محمد کاشف کامران پہ الزام تھا کہ ان دونوں نے مل کر عمران فاروق کو قتل کیا، محسن علی سید نے مقتول کو پیچھے سے پکڑا اور محمد کامران نے ان پر اینٹوں اور چھریوں کے وار کیے تھے۔
عدالت میں بیان ریکارڈ کراتے ہوئے حکومت پاکستان کے پراسیکیوٹر نے کہا کہ محسن علی اور کاشف کو برطانیہ بھیجا گیا، تاکہ وہ عمران فاروق کی آواز کو خاموش کرسکیں کیونکہ وہ الطاف حسین کیلئے ایک خطرہ بنتے جارہے ہیں۔
اس کام کیلئے ان دونوں ملزمان کا منصوبہ بندی کے تحت ایک تعلیمی ادارے میں داخلہ کروایا گیا اور اسٹوڈنٹ ویزے پر لندن روانہ کیا گیا۔ جہاں انہوں نے باقاعدہ کلاسز بھی لیں۔
حکومت پاکستان کے پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ یہ دونوں ملزمان عمران فاروق کو قتل کرنے کے بعد سری لنکا فرار ہوگئے جہاں ان کا سہولت کار خالد شمیم پہلے سے موجود تھا۔
"متحدہ قائد نے اپنے خطاب میں خفیہ پیغام دیا”
پولیس کو دیئے گئے ملزم خالد شمیم کے اعترافی بیان کے مطابق جس سے وہ بعد میں مکر گیا تھا، نے کہا کہ وہ ایم کیو ایم کا دیرینہ کارکن تھا، الطاف حسین نے اپنے ایک خطاب میں کہا تھا کہ کسی کو میری پرواہ نہیں کسی بھی دن کوئی گھر واپس جاتے ہوئے پارک میں مجھے قتل کردے گا اور کہا جائے گا کہ یہ قتل کی واردات تھی۔
اس نے بتایا کہ اس خطاب میں ایک خفیہ پیغام تھا جسے محمد انور نے مجھے بتایا کہ یہ کیا ہے ،کیونکہ عمران فاروق اپنا ایک گروپ بنا رہا ہے جسے روکنا بہت ضروری ہے، اس میسج کو سمجھو۔
واضح رہے کہ عدالت نے تین مجرمان کو سزا تو سنا دی ہے لیکن ان کے علاوہ ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین، جماعت کے رہنما محمد انور اور افتخار حسین قریشی، محمد کاشف خان کامران بھی مقدمے کے نامزد ملزمان تھے جنھیں اشتہاری قرار دیا گیا تھا۔
اسلام آباد : ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں عمران فاروق کا پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹر نے اپنا بیان ریکارڈ کرادیا، عدالت میں تینوں ملزمان خالد شمیم، معظم علی اور محسن علی بھی موجود تھے۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں عمران فاروق قتل کیس کی سماعت ہوئی، جج شاہ رخ ارجمند نے کیس کی سماعت کی۔
اس موقع پر متحدہ کے سابق رہنما کے قتل میں ملوث تینوں ملزمان خالد شمیم، معظم علی اور محسن علی بھی عدالت کے روبرو پیش ہوئے، دوران سماعت فرانزک ایکسپرٹ رابرٹ چارلس نے ویڈیو لنک کے ذریعے برطانیہ کی عدالت سے بیان ریکارڈ کروایا۔
ایف آئی اے پراسیکیوٹر، برطانوی ہائی کمیشن کے وکیل ٹو بی کیڈمین بھی عددالت میں موجود تھے، ڈاکٹر عمران فاروق کی لاش کا پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹر رابرٹ چیپ مین نے اپنا بیان قلمبند کراتے ہوئے کہا کہ مقتول عمران فاروق کی موت چہرے اور سر پر زخموں کے باعث ہوئی۔
اسلام آباد : انسداد دہشت گردی عدالت نے ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں 32 برطانوی گواہوں کی ویڈیو لنک بیان کیلئے درخواست منظور کرلی، جس میں مقتول کی اہلیہ بھی شامل ہیں۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد انسداد دہشتگردی عدالت میں ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کی سماعت ہوئی، ایف آئی اے پراسیکیوٹرنے برطانوی گواہوں کے ویڈیو لنک پر بیان ریکارڈ کرنے کی درخواست کی ، جس پر وکلا صفائی نےاعتراض کردیا۔
برطانوی گواہوں کی فہرست عدالت میں پیش کردی گئی ، مقتول عمران فاروق کی اہلیہ بھی گواہوں میں شامل ہیں، پراسیکیوٹر خواجہ امتیاز نے کہا گواہوں کے بیانات کیلئے لندن میں انتظامات کرنے ہیں،روزانہ کی بنیاد پر بیان ریکارڈ کروائیں گے۔
عدالت نے کہا لگتا ہے آپ معاملہ موسم سرماکی چھٹیوں کے بعد تک لے جانا چاہتے ہیں، جج شاہ رخ ارجمند کا کہنا تھا کہ کہ لندن پولیس کے تفتیشی افسر بیان قلمبند کروا چکے،ان پولیس افسران کو کیوں شامل کیا، جنہوں نے صرف گواہوں کےبیانات ریکارڈ کیے؟وہ گواہ تو خود اس عدالت میں بیان ریکارڈ کرا دیں گے۔
پراسیکیوٹر نے کہا کہ موقع آنے پر غیر ضروری گواہوں کو ترک کر دیا جائے گا، بعض گواہوں کے صرف 4 سے 6 لائنوں کے بیان ہوں گے، جس پر وکیل نے کہاکہ معلوم نہیں گواہ برطانیہ میں کن حالات میں بیٹھا ہوگا؟ پراسیکیوٹرنے کہا کہ بینظیرقتل کیس میں بھی ویڈیو لنک بیان ریکارڈ کیا گیا۔
عدالت نے 32 برطانوی گواہوں کی ویڈیو لنک بیان کیلئےدرخواست منظور کرلی، برطانوی فنگر پرنٹ ایکسپرٹ،فرانزک ماہرین ، لندن اکیڈمی آف مینجمنٹ سائنسز کے ڈائریکٹر گواہان میں شامل ہیں اور سماعت 13 جنوری تک ملتوی کردی۔
عدالت نے ویڈیو لنک پر بیان ریکارڈ کرنے کے انتظامات مکمل کرنے کا حکم دیتے ہوئے ایف آئی اے ڈائریکٹرکاؤنٹر ٹیررازم ونگ کو ہدایات جاری کردیں، برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن نمائندےکی موجودگی میں بیان ریکارڈہوگا۔
اسلام آباد : ایم کیو ایم رہنما ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں برطانوی پولیس کے 3 اہم گواہوں نے بیان ریکارڈ کرادیا اور ساتھ ہی کیس کے انتہائی اہم شواہدعدالت میں پیش کر دیے۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد کی انسداددہشت گردی عدالت میں ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کی سماعت ہوئی ، انسداد دہشت گردی عدالت کے جج شاہ رخ ارجمند نے سماعت کی۔
عمران فاروق قتل کیس میں برطانوی پولیس کے تین گواہ عدالت میں پیش ہوئے اور بیان قلمبند کرایا، برطانوی گواہان میں لندن پولیس چیف انسپکٹر،سارجنٹ ، کانسٹیبل شامل ہیں۔
برطانوی حکام نے انتہائی اہم شواہد بھی عدالت میں پیش کئے، شواہد میں آلہ قتل،ایک اینٹ، دو تیز دھار چاقو،واقعےکی فوٹیج، فنگرپرنٹس،کرائم سین کا نقشہ شامل ہیں۔
چیف انویسٹی گیشن افسر اسٹیورڈ گرین وے نےبیان ریکارڈ کراتے ہوئے بتایا کہ اس کیس کی تفتیش کا نام آپریشن ہیسٹار رکھا، انھوں نے ملزم محسن کا تعلیمی ریکارڈ، برطانیہ پہنچنے کے دستاویز اور ای میلز بھی پیش کیں۔
تین گرفتار ملزمان خالد شمیم، محسن اور معظم علی کو بھی سخت سیکورٹی میں پیشی پر لایاگیا، دوران سماعت ایک موقع پر ملزم معظم نے ایک ہاتھ سے ہتھکڑی کھولنے کی درخواست کی اور کہا چار گھنٹے سے ہتھکڑی لگی ہے، جس پر فاضل جج نے کہا آپ ابھی بیٹھ جائیں کچھ کرتے ہیں۔
اس موقع پر جوڈیشل کمپلیکس میں سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کئے گئے تھے جبکہ اسلام آباد پولیس کے تازہ دستے جوڈیشل کمپلیکس کے اطراف تعینات تھے۔
یاد رہے ایم کیو ایم رہنما ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں عدالت نے غیرملکی گواہان کو پیش کرنے کے لیے20 سے 25دن کی مہلت کی درخواست منظور کرتے ہوئے 2 دسمبر کو پیش کرنے کا حکم دیا تھا، ایف آئی اے نے بتایا کہ مارچ کی وجہ سے گواہان کو پیش کرنے میں خطرہ تھا۔
اس سے قبل سماعت میں برطانوی حکومت سے ملنےوالے شواہد اسلام آباد کی انسداددہشت گردی عدالت میں پیش کئے گئے تھے، جن میں عمران فاروق قتل کی ویڈیو فوٹیج اور آلہ قتل کے ساتھ فرانزک رپورٹس شامل تھیں۔
خیال رہے برطانیہ نے عمران فاروق قتل کیس کے تمام شواہد پاکستان کو فراہم کرنے کے لئے رضامندی ظاہر کی تھی جبکہ پاکستان نے برطانیہ کو ملزمان کو سزائے موت نہ دینے کی یقین دہانی کرائی تھی۔
واضح رہے ڈاکٹر عمران فاروق 16 ستمبر 2010 کو لندن میں اپنے دفتر سے گھر جارہے تھے کہ انہیں گرین لین کے قریب واقع ان کے گھر کے باہر چاقو اور اینٹوں سے حملہ کرکے قتل کردیا گیا تھا، حملے کے نتیجے میں وہ موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے تھے۔
برطانوی پولیس نے دسمبر 2012 میں اس کیس کی تحقیق و تفتیش کے لیے ایم کیو ایم کے قائد کے گھر اور لندن آفس پر بھی چھاپے مارے گئے تھے، چھاپے کے دوران وہاں سے 5 لاکھ سے زائد پاونڈ کی رقم ملنے پر منی لانڈرنگ کی تحقیقات شروع ہوئی تھی۔
بعد ازاں ایف آئی اے نے 2015ءمیں عمران فاروق کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے شبہ میں بانی متحدہ اور ایم کیو ایم کے دیگر سینئر رہنماوں کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا اور اسی سال محسن علی سید، معظم خان اور خالد شمیم کو بھی قتل میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا تھا۔
اسلام آباد: ایم کیو ایم رہنما ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کے 3اہم برطانوی گواہ پاکستان نہ آسکے ، عدالت نے گواہان کو پیش کرنے کے لیے20 سے 25دن کی مہلت کی درخواست منظور کرلی ہے۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد کی انسداددہشت گردی عدالت میں ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کی سماعت ہوئی ، جس میں کیس کے 3 اہم برطانوی گواہ پاکستان نہ آسکے ، ایف آئی اے نے بتایا کہ مارچ کی وجہ سے گواہان کو پیش کرنے میں خطرہ تھا۔
جس پر عدالت نے گواہان کو پیش کرنے کے لیے20 سے 25 دن کی مہلت دینے کی درخواست منظور کرتے ہوئے 3برطانوی گواہان کو 2 دسمبر کو پیش کرنے کا حکم دے دیا، گواہان میں لندن پولیس کا چیف انسپکٹر ، ایک سارجنٹ اور ایک کانسٹیبل شامل ہیں۔
پراسیکیوٹر خواجہ امتیاز نے کہا کہ ملزمان کو بھی آج عدالت نہیں لایا جا سکتا ہے، پولیس اہلکار دھرنا ڈیوٹی پر مامور ہیں، جیل ٹرائل کانوٹیفکیشن چیف کمشنر واپس لے چکے ہیں، بعد ازاں عدالت نے مزید سماعت 2 دسمبر تک ملتوی کر دی۔
گذشتہ سماعت میں برطانوی حکومت سے ملنےوالے شواہد اسلام آباد کی انسداددہشت گردی عدالت میں پیش کئے گئے تھے، جن میں عمران فاروق قتل کی ویڈیو فوٹیج اور آلہ قتل کے ساتھ فرانزک رپورٹس شامل تھیں۔
پراسکیوٹر ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا تھا کہ ضمنی چالان کے مطابق 23 گواہان بیان قلمبند کروانا چاہتے ہیں۔ تین گواہان ذاتی حیثیت میں جبکہ 20 گواہان ویڈیو لنک پر بیان قلمبند کروائیں گے۔
خیال رہے برطانیہ نے عمران فاروق قتل کیس کے تمام شواہد پاکستان کو فراہم کرنے کے لئے رضامندی ظاہر کی تھی جبکہ پاکستان نے برطانیہ کو ملزمان کو سزائے موت نہ دینے کی یقین دہانی کرائی تھی۔
واضح رہے ڈاکٹر عمران فاروق 16 ستمبر 2010 کو لندن میں اپنے دفتر سے گھر جارہے تھے کہ انہیں گرین لین کے قریب واقع ان کے گھر کے باہر چاقو اور اینٹوں سے حملہ کرکے قتل کردیا گیا تھا، حملے کے نتیجے میں وہ موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے تھے۔
برطانوی پولیس نے دسمبر 2012 میں اس کیس کی تحقیق و تفتیش کے لیے ایم کیو ایم کے قائد کے گھر اور لندن آفس پر بھی چھاپے مارے گئے تھے، چھاپے کے دوران وہاں سے 5 لاکھ سے زائد پاونڈ کی رقم ملنے پر منی لانڈرنگ کی تحقیقات شروع ہوئی تھی۔
بعد ازاں ایف آئی اے نے 2015ءمیں عمران فاروق کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے شبہ میں بانی متحدہ اور ایم کیو ایم کے دیگر سینئر رہنماوں کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا اور اسی سال محسن علی سید، معظم خان اور خالد شمیم کو بھی قتل میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا تھا۔
اسلام آباد : برطانیہ نے عمران فاروق قتل کیس کے تمام شواہد پاکستان کو فراہم کرنے کے لئے رضامندی ظاہر کردی ہے جبکہ پاکستان نے برطانیہ کو ملزمان کو سزائے موت نہ دینے کی یقین دہانی کرادی۔
تفصیلات کے مطابق ایم کیو ایم رہنما عمران فاروق قتل کیس میں بڑی پیش رفت سامنے آئی اور پاکستان نے بڑا فیصلہ کرتے ہوئے برطانیہ کو ملزمان کو سزائے موت نہ دینے کی یقین دہانی کرادی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ برطانیہ نے کیس کے شواہد پاکستان کو فراہم کرنے کیلئے رضا مندی ظاہر کردی ، برطانیہ نے پاکستان کی یقین دہانی پر شواہد دینے کی منظوری دی ہے۔
عمران فاروق قتل کیس میں برطانوی سینٹرل اتھارٹی نے حکومت پاکستان کی درخواست منظور کی، برطانوی حکومت نے شواہد ایف آئی اے پراسیکوشن کو دینے کی منظوری دی ہے، برطانوی شواہد ٹرائل کورٹ میں پیش کیے جائیں گے۔
دوسری جانب عمران فاروق قتل کیس میں برطانوی سینٹرل اتھارٹی نے پاکستان کو خط ارسال کیا ہے ، جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی شواہد فراہمی کی درخواست منظور کرلی گئی ہے ، شواہد کسی دوسرے مقصد کیلئے استعمال نہیں ہوں اور صرف انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش ہوسکتے ہیں۔
یوکے سینٹرل اتھارٹی نے کہا کہ پاکستان نے ملزمان کو سزائے موت نہ دینے کی یقین دہانی کرائی ، تینوں ملزمان کوعالمی انسانی حقوق کے تحت گرفتار رکھا جائے گا، کسی اور مقصد کے لئے شواہد کے استعمال پر برطانیہ کی اجازت ضروری ہے۔
برطانوی منظوری کا خط میٹرو پولیٹن پولیس لندن کو بھی بھجوایا گیا۔
واضح رہے ڈاکٹر عمران فاروق 16 ستمبر 2010 کو لندن میں اپنے دفتر سے گھر جارہے تھے کہ انہیں گرین لین کے قریب واقع ان کے گھر کے باہر چاقو اور اینٹوں سے حملہ کرکے قتل کردیا گیا تھا، حملے کے نتیجے میں وہ موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے تھے۔
برطانوی پولیس نے دسمبر 2012 میں اس کیس کی تحقیق و تفتیش کے لیے ایم کیو ایم کے قائد کے گھر اور لندن آفس پر بھی چھاپے مارے گئے تھے، چھاپے کے دوران وہاں سے 5 لاکھ سے زائد پاونڈ کی رقم ملنے پر منی لانڈرنگ کی تحقیقات شروع ہوئی تھی۔
بعد ازاں ایف آئی اے نے 2015ءمیں عمران فاروق کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے شبہ میں بانی متحدہ اور ایم کیو ایم کے دیگر سینئر رہنماوں کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا اور اسی سال محسن علی سید، معظم خان اور خالد شمیم کو بھی قتل میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا تھا۔
اسلام آباد : اسکاٹ لینڈ یارڈ کی ٹیم پاکستان میں ڈاکٹرعمران فاروق قتل کیس اور منی لانڈرنگ کیس کی تحقیقات مکمل کرکے واپس وطن روانہ ہو گئی.
تفصیلات کے مطابق ڈاکٹرعمران فاروق قتل کیس اور منی لانڈرنگ کیس میں برطانوی تحقیقاتی ادارے اسکاٹ لینڈ یارڈ کی ٹیم نے اپنے دورہ پاکستان میں ایف آئی اے سے معلومات کا تبادلہ کیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس اور متحدہ قومی موومنٹ کی مبینہ منی لانڈرنگ کے مقدمات میں اہم پیشرفت ہوئی ہے۔
اسکاٹ لینڈ یارڈ کی ٹیم نے ایف آئی اے ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد میں ایک گھنٹے تک عمران فاروق قتل کیس اورایم کیو ایم منی لانڈرنگ کی تفتیشی ٹیم سے ملاقات کی۔
ملاقات میں پاکستان میں گرفتار ملزمان کے اعترافی بیانات اور سرفراز مرچنٹ کے فراہم کردہ شواہد پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
ملاقات میں ڈاکٹرعمران فاروق قتل میں ملوث ملزمان کے اعترافی بیانات کا جائزہ بھی لیا گیا۔ ایف آئی اے حکام نے سرفرازمرچنٹ کے اسکارٹ لینڈ یارڈ کو دیئے گئے بیان پر برطانوی ٹیم سے معلومات بھی حاصل کیں۔
اسکاٹ لینڈ یارڈ کی ٹیم کی پاکستان میں تحقیقات مکمل کرکے واپس وطن روانہ ہو گئی۔
ڈاکٹرعمران فاروق متحدہ قومی موومنٹ کے کنوینئر کے عہدے پر فائز تھے اور انہوں 16 ستمبر 2010 کو لندن کے علاقے گرین لینڈ ایج وئیر کے علاقے میں قتل کیا گیا تھا.
اسلام آباد : انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج نے عمران فاروق قتل کیس کی سماعت سے معذرت کرلی۔ عمران فاروق قتل کیس میں نیا موڑ آگیا۔
عبوری چالان کی بار بار واپسی پر ملزمان کے وکلاء کا صبر جواب دے گیا اور عدالت میں پھٹ پڑے۔ وکیل صفائی منصور آفریدی نے سوال اٹھایا کہ کس قانون کے تحت بار بار چالان واپس کیاجارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چالان پراعتراض اٹھانا پراسیکیوٹر کا کام ہے عدالت کا نہیں۔ جس پر جج نے ریمارکس دیئے کہ میں آپ کو جواب دہ نہیں ہوں۔ میں یہ کیس اسلام آباد ہائی کورٹ بھجوارہاہوں۔
وکیل صفائی منصور آفریدی سے تلخ کلامی کے بعد انسداد دہشت گردی عدالت کے جج کوثر عباس نے کیس کی سماعت سے معذت کرلی۔
عمران فاروق قتل کیس میں ایف آئی اے نے متعدد بار عبوری چالان پیش کئے لیکن عدالت نے اعتراض لگاکر چالان دوبارہ کرنے کی ہدایت کی۔ گذشتہ سماعت پر بھی عدالت نے ایف آئی اے کے عبوری چالان پر اعتراض لگادیا تھا۔