Tag: Dr. Rahat Indori

  • نعمان اعجاز کا معروف شاعر راحت اندوری کو خراج عقیدت

    نعمان اعجاز کا معروف شاعر راحت اندوری کو خراج عقیدت

    کراچی: پاکستانی شوبز انڈسٹری کے معروف اداکار نعمان اعجاز نے اردو کے معروف شاعر راحت اندوری کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر پیغام شیئر کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق اداکار نعمان اعجاز نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹاگرام پر اپنی ایک فوٹو شیئر کی جس میں وہ ایک ضعیف شخص کے روپ میں دکھائی دے رہے ہیں۔

    نعمان اعجاز نے تصویر کے کیپشن میں اردو کے معروف شاعر راحت اندوری کا ایک شعر لکھا:

    فیصلہ چاہے کچھ بھی ہو، منظور ہونا چاہئے
    جنگ ہو یا عشق ہو، بھرپور ہونا چاہئے

    اس شعر کے ساتھ ہی نعمان اعجاز نے راحت اندوری کا نام لکھا اور ان کی مغفرت کی دعا کی، علاوہ ازیں انہوں نے لکھا کہ خود اعتمادی سے بہتر کوئی میک اپ نہیں ہے۔

    واضح رہے کہ نامور بھارتی شاعر راحت اندوری رواں سال 11 اگست کو بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کے شہر اندور میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے تھے۔

    راحت اندوری نے متعدد بالی ووڈ فلموں میں نغمے لکھے، رواں سال کے اوائل میں ان کی نظم ’بلاتی ہے مگر جانے کا نہیں‘ سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی تھی۔

  • راحت اندوری "دو گز زمیں” کے مالک بن گئے

    راحت اندوری "دو گز زمیں” کے مالک بن گئے

    افواہ تھی کہ میری طبیعت خراب ہے
    لوگوں نے پوچھ پوچھ کے بیمار کردیا
    دو گز سہی مگر یہ مِری ملکیت تو ہے
    اے موت تو نے مجھ کو زمیندار کردیا

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں مقبول بھارت میں اردو زبان کے شاعر راحت اندوری اپنے لاکھوں مداحوں کو روتا چھوڑ کر منوں مٹی تلے جا سوئے۔

    ڈاکٹر راحت اندوری بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کے شہر اندور کے اسپتال میں زیر علاج تھے جہاں ان کا کوررونا ٹیسٹ مثبت آنے کے ایک دن بعد انتقال ہوگیا تھا، ان کی عمر 70سال تھی۔

    راحت اندوری کو کورونا وائرس کے سبب سانس لینے میں دشواری کے پیش نظر اسپتال میں داخل کروایا گیا تھا اور وہیں حرکتِ قلب بند ہو جانے کے سبب وہ خالق حقیقی سے جاملے، ان کے علاج پر مامور ڈاکٹر ونود بھنڈاری نے میڈیا کو بتایا کہ منگل کے روز انہیں دوسری بار دل کا دورہ پڑا تھا جو جان لیوا ثابت ہوا۔

    یکم جنوری 1950 کو بھارت میں پیدا ہونے والے راحت اندوری پیشے کے اعتبار سے اردو ادب کے پروفیسر رہ چکے ہیں بعد ازاں آپ نے کئی بھارتی ٹی وی شوز میں بھی حصہ لیا۔

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں پسند کیے جانے والے بھارت کے مشہور شاعر نے غزلوں کے علاوہ بالی ووڈ کی فلموں کے لیے متعددگیت بھی لکھے بلکہ گلوکاری کے کئی شوز میں بطور جج حصہ بھی لیا۔ بالی وڈ کی مشہور فلم ’منا بھائی ایم بی بی ایس‘اور دیگر فلموں کے گیت راحت اندوری نے ہی قلم بند کیے تھے۔

    راحت اندوری کے کلام میں یہ خاص بات ہے کہ وہ ہر خاص وعام میں یکساں مقبول ہے وہ ہر اہم موضوع کو اپنے شعروں میں ڈھال کر بہت سلیقے، خوبصورتی اور منفرد انداز کے ساتھ سامعین کے سامنے پیش کرتے تھے۔

    انہیں اس بات کی فکر نہیں ہوتی تھی کہ پانچ سو سال بعد کا ادب انہیں کس طرح یاد رکھے گا، وہ لمحہ موجود میں جیتے تھے اور اپنی شاعری کے موضوعات آس پاس کے واقعات سے اٹھاتے تھے۔

    اگر خلاف ہیں، ہونے دو، جان تھوڑی ہے
    یہ سب دھواں ہے، کوئی آسمان تھوڑی ہے

    لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
    یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے

    میں جانتا ہوں کہ دشمن بھی کم نہیں لیکن
    ہماری طرح ہتھیلی پہ جان تھوڑی ہے

    ہمارے منہ سے جو نکلے وہی صداقت ہے
    ہمارے منہ میں تمہاری زبان تھوڑی ہے

    جو آج صاحبِ مسند ہیں، کل نہیں ہوں گے
    کرائے دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے

    سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
    کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے

    ایک سنجیدہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ وہ نوجوان نسل کی نبض تھامنا خوب جانتے تھے۔ اس کی ایک مثال ہے ان کی نظم ” بلاتی ہے مگر جانے کا نہیں "جو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھی۔

    بلاتی ہے مگر جانے کا نئیں
    یہ دنیا ہے ادھر جانے کا نئیں

    میرے بیٹے کسی سے عشق کر
    مگر حد سے گزر جانے کا نئیں

    ستارے نوچ کر لے جاوں گا
    میں خالی ہاتھ گھر جانے کا نئیں

    وہ گردن ناپتا ہے ناپ لے
    مگر ظالم سے ڈر جانے کا نئیں

    حالات حاضرہ پہ کہنا ہو یا مزاحیہ شاعری کے ذریعے لوگوں کو محظوظ کرنا ہو، ان کے الفاظ پر پورا مجمع ایک دم واہ واہ کی صداؤں سے گونج اٹھتا تھا۔

    بھارت میں گائے کے ذبیحہ پر عدالتی پابندی کے بعد راحت اندوری کا کہنا تھا کہ

    کوئی کیا سوچتا رہتا ہے میرے بارے میں
    یہ خیال آتے ہی ہمسائے سے ڈر لگتا ہے

    نئے خوف کا جنگل ہیں میرے چاروں طرف
    اب مجھے شیر نہیں گائے سے ڈر لگتا ہے

    ایک جگہ فرماتے ہیں کہ

    گھروں کے دھنستے ہوئے منظروں میں رکھے ہیں
    بہُت سے لوگ یہاں مقبروں میں رکھے ہیں
    ہمارے سر کی پھٹی ٹوپیوں پہ طنز نہ کر
    ہمارے تاج عجائب گھروں میں رکھے ہیں۔

    عام طور پر راحت اندوری کو نئی پوت بطور شاعر ہی پہچانتی ہے، انہوں نے نئی نسل کو کئی رہنمایانہ باتیں بتائیں جو اُن کے فنی سفر ، تلفظ اور گلوکاری میں معاون ثابت ہوئی۔

  • اردو کے ممتاز شاعر ڈاکٹر راحت اندوری انتقال کر گئے

    اردو کے ممتاز شاعر ڈاکٹر راحت اندوری انتقال کر گئے

    نئی دہلی : اردو کے معروف شاعر راحت اندوری اس دنیا کو الودع کہہ گئے، انہوں نے آج صبح ہی کورونا پازیٹو ہونے کی اطلاع خود اپنے ٹوئٹر پیغام کے ذریعہ دی تھی۔

    تفصیلات کے مطابق عصر حاضر کے مشہور شاعر ڈاکٹر راحت اندوری زندگی کی 70 بہاریں دیکھنے کے بعد اس جہان فانی سے کوچ کرگئے، وہ گزشتہ روز کورونا وائرس میں مبتلا ہوئے تھے۔

    انہوں نے ٹوئٹر پیغام لکھا تھا کہ کوویڈ کی ابتدائی علامتیں نظر آنے کے بعد کل میرا کورونا ٹیسٹ کیا گیا جس کی رپورٹ پازیٹو آئی ہے۔ آربندو اسپتال میں ایڈمنٹ ہوں، دعا کیجیے جلد سے جلد اس بیماری کو شکست دے دوں۔

    لیکن زندگی نے انہیں مہلت نہ دی اور وہ 70 سال کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے،

    یکم جنوری 1950 کو بھارت میں پیدا ہونے والے راحت اندوری پیشے کے اعتبار سے اردو ادب کے پروفیسر رہ چکے بعد ازاں آپ نے کئی بھارتی ٹی وی شوز میں بھی حصہ لیا۔

    ڈاکٹر راحت اندوری نے نہ صرف بالی ووڈ فلموں کے لیے نغمہ نگاری کی بلکہ گلوکاری کے کئی شوز میں بہ طور جج حصہ بھی لیا۔

    عام طور پر راحت اندوری کو نئی پوت بطور شاعر ہی پہچانتی ہے، انہوں نے نئی نسل کو کئی رہنمایانہ باتیں بتائیں جو اُن کے فنی سفر ، تلفظ اور گلوکاری میں معاون ثابت ہوئی۔

    آپ کے والد رفعت اللہ قریشی ٹیکسٹائل انڈسٹری میں ملازم تھے، راحت اندوری بہن بھائیوں میں چوتھے نمبر پر ہیں، آپ نے ابتدائی تعلیم نوتن (مقامی) اسکول سے حاصل کی بعد ازاں اسلامیہ کریمیہ کالج اندور سے 1973 میں گریجویشن مکمل کیا۔

    سن 1975 میں آپ نے بھوپال میں واقع برکت اللہ یونیورسٹی سے اردو ادب میں ایم اے کیا، تعلیمی سفر جاری رکھنے کے لیے آپ نے 1985 میں بھوج اوپن یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

    آپ کی تصانیف میں دھوپ دھوپ، میرے بعد، پانچواں درویش، رت بدل گئی، ناراض، موجود و غیرہ شامل ہیں۔ آپ نے اپنے منفرد انداز بیان، مختصر اور آسان الفاظ میں شعر کہہ کر اردو ادب اور سامعین کے دل جیتے۔

    مزید پڑھیں : مشہور شاعر راحت اندوری بھی کورونا وائرس کا شکار

    راحت اندوری کے چند منتخب اشعار

    زندگی کو زخم کی لذت سے مت محروم کر

    راستے کے پتھروں سے خیریت معلوم کر

    بہت غرور ہے دریا کو اپنے ہونے پر

    جو میری پیاس سے الجھے تو دھجیاں اڑ جائیں

    دوستی جب کسی سے کی جائے

    دشمنوں کی بھی رائے لی جائے

    میرے ہجرے میں نہیں اور کہیں پر رکھ دو
    آسمان لائے ہو ، لے آؤ، زمین پر رکھ دو

    اب کہا ڈھونڈنے جاؤ گے ہمارے قاتل
    اب تو قتل کا الزام ہمیں پر رکھ دو

  • مشہور شاعر راحت اندوری بھی کورونا وائرس کا شکار

    مشہور شاعر راحت اندوری بھی کورونا وائرس کا شکار

    اندور : دنیا بھر خصوصاً پاکستان میں بے حد پسند کیے جانے والے بھارت کے مشہور شاعر راحت اندوری بھی کورونا وائرس کا شکار ہوگئے، انہوں نے عوام سے دعاؤں کی اپیل کی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بھارت میں بڑھتے ہوئے کورونا انفیکشن کے دوران مشہور و معروف شاعر راحت اندوری بھی اس وبا سے محفوظ نہیں رہ پائے ہیں۔ کورونا پازیٹو ہونے کی خبر انہوں نے خود اپنے ٹوئٹر پیغام کے ذریعہ دی ہے۔

    انہوں نے ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ کوویڈ کی شروعاتی علامتیں نظر آنے کے بعد کل میرا کورونا ٹیسٹ کیا گیا جس کی رپورٹ پازیٹو آئی ہے۔ آربندو اسپتال میں ایڈمٹ ہوں، دعا کیجیے جلد سے جلد اس بیماری کو شکست دے دوں۔“

    ستر سالہ شاعر ڈاکٹر راحت اندوری نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں لوگوں سے دعا کی اپیل کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی گزارش کی ہے کہ خیریت جاننے کے لیے انہیں فون نہ کیا جائے۔

    انہوں نے اس حوالے سے لکھا ہے کہ میری ایک اور التجا ہے کہ مجھے یا گھر کے لوگوں کو فون نہ کریں، میری خیریت ٹوئٹر اور فیس بک پر آپ کو ملتی رہے گی۔

    دوسری جانب راحت اندوری کے کورونا وبا میں مبتلا ہونے کی خبر سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا پر ان کی جلد صحت یابی کے لیے دعاؤں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔

    مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان نے بھی ان کی صحت یابی کے لیے دعا کی ہے، کچھ دن قبل ہی کورونا کو شکست دے کر اسپتال سے گھر لوٹنے والے شیوراج چوہان نے راحت اندوری کے تعلق سے ٹوئٹ کیا ہے کہ "مشہور شاعر راحت اندوری جی کے بیمار ہونے کی خبر ملی۔ ایشور سے ان کے جلد صحت یاب ہونے کی دعا کرتا ہوں۔

    راحت اندوری نے اس ٹوئٹ پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے شکریہ بھی ادا کیا اور لکھا کہ آپ کی دعاؤں اور تعاون کی ضرورت ہے میں اندور کے آربندو اسپتال میں ہوں۔

    یکم جنوری 1950 کو بھارت میں پیدا ہونے والے راحت اندوری پیشے کے اعتبار سے اردو ادب کے پروفیسر رہ چکے بعد ازاں آپ نے کئی بھارتی ٹی وی شوز میں بھی حصہ لیا۔

    ڈاکٹر راحت اندوری نے نہ صرف بالی ووڈ فلموں کے لیے نغمہ نگاری کی بلکہ گلوکاری کے کئی شوز میں بہ طور جج حصہ بھی لیا۔

    نئی نسل عام طور پر ڈاکٹر راحت اندوری کو بطور شاعر ہی پہچانتی ہے، انہوں نے نوجوانوں کو کئی بنیادی باتیں بتائیں جو اُن کے فنی سفر، تلفظ اور گلوکاری میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔

  • معروف شاعر ڈاکٹر راحت اندوری 69 برس کے ہوگئے

    معروف شاعر ڈاکٹر راحت اندوری 69 برس کے ہوگئے

    اندور: عصر حاضر کے مشہور شاعر ڈاکٹر راحت اندوری نے زندگی کی 69 بہاریں دیکھ لیں۔

    تفصیلات کے مطابق یکم جنوری 1950 کو بھارت میں پیدا ہونے والے راحت اندوری پیشے کے اعتبار سے اردو ادب کے پروفیسر رہ چکے بعد ازاں آپ نے کئی بھارتی ٹی وی شوز میں بھی حصہ لیا۔

    ڈاکٹر راحت اندوری نے نہ صرف بالی ووڈ فلموں کے لیے نغمہ نگاری کی بلکہ گلوکاری کے کئی شوز میں بہ طور جج حصہ بھی لیا۔

    عام طور پر راحت اندوری کو نئی پوت بطور شاعر ہی پہچانتی ہے، انہوں نے نئی نسل کو کئی رہنمایانہ باتیں بتائیں جو اُن کے فنی سفر ، تلفظ اور گلوکاری میں معاون ثابت ہوئی۔

    آپ کے والد رفعت اللہ قریشی ٹیکسٹائل انڈسٹری میں ملازم تھے، راحت اندوری بہن بھائیوں میں چوتھے نمبر پر ہیں، آپ نے ابتدائی تعلیم نوتن (مقامی) اسکول سے حاصل کی بعد ازاں اسلامیہ کریمیہ کالج اندور سے 1973 میں گریجویشن مکمل کیا۔

    سن 1975 میں آپ نے بھوپال میں واقع برکت اللہ یونیورسٹی سے اردو ادب میں ایم اے کیا، تعلیمی سفر جاری رکھنے کے لیے آپ نے 1985 میں بھوج اوپن یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

    آپ کی تصانیف میں دھوپ دھوپ، میرے بعد، پانچواں درویش، رت بدل گئی، ناراض، موجود و غیرہ شامل ہیں۔ آپ نے اپنے منفرد انداز بیان، مختصر اور آسان الفاظ میں شعر کہہ کر اردو ادب اور سامعین کے دل جیتے۔

    چند منتخب اشعار

    زندگی کو زخم کی لذت سے مت محروم کر

    راستے کے پتھروں سے خیریت معلوم کر

    بہت غرور ہے دریا کو اپنے ہونے پر

    جو میری پیاس سے الجھے تو دھجیاں اڑ جائیں

    دوستی جب کسی سے کی جائے

    دشمنوں کی بھی رائے لی جائے

    میرے ہجرے میں نہیں اور کہیں پر رکھ دو
    آسمان لائے ہو ، لے آؤ، زمین پر رکھ دو

    اب کہا ڈھونڈنے جاؤ گے ہمارے قاتل
    اب تو قتل کا الزام ہمیں پر رکھ دو