Tag: draft

  • آئینی ترمیم پر حکومت، پیپلزپارٹی اور جے یو آئی (ف) کا مسودہ سامنے آگیا

    آئینی ترمیم پر حکومت، پیپلزپارٹی اور جے یو آئی (ف) کا مسودہ سامنے آگیا

    اسلام آباد : وفاقی آئینی عدالت کے قیام سے متعلق آئینی ترامیم سے متعلق حکومتی مسودے سمیت پیپلزپارٹی اور جے یو آئی (ف) کے نکات بالآخر سامنے آگئے۔

    حکومت نے وفاقی آئینی عدالت بنانے کا فارمولا سیاسی جماعتوں کے ساتھ شیئر کر دیا۔ وفاقی آئینی عدالت کیسے تشکیل دی جائے گی، اس ضمن میں حکومت نے ڈھانچہ تیار کر لیا۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام سوال یہ ہے میں میزبان ماری میمن نے اس پر تفصیلی گفتگو کی اور حکومت سمیت پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کے مسودوں سے متعلق بھی آگاہ کیا۔

    مجوزہ ترمیم کے حوالے سے حکومتی مسودے کے مطابق وفاقی آئینی عدالت چیف جسٹس سمیت 7 ارکان پر مشتمل ہو گی۔مجوزہ ترمیم میں کہا گیا کہ آئینی عدالت کے چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججز رکن ہوں گے۔

    مجوزہ ترمیم نے کہا کہ وزیرِ قانون، اٹارنی جنرل، پاکستان اور بار کونسل کا نمائندہ شامل ہو گا جبکہ دونوں ایوانوں سے حکومت اور اپوزیشن سے دو دو ارکان لئے جائیں گے۔

    صوبائی عدالتیں چیف جسٹس، صوبائی وزیرِ قانون، بار کونسل کے نمائندے پر مشتمل ہو گی، جج کی اہلیت رکھنے والے کے لئے نام پر مشاورت کے بعد وزیرِ اعظم معاملہ صدر کو بھجوائیں گے۔

    مجوزہ ترمیم میں کہا گیا کہ وفاقی آئینی عدالت کے باقی ممبران کا تقرر صدر چیف جسٹس کی مشاورت سے کریں گے، چیف جسٹس اور ججز کے نام پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے وزیرِ اعظم کو دیے جائیں گے۔

     آئینی ترمیم

    مجوزہ ترمیم کے مطابق جج کی عمر 40 سال، تین سالہ عدالت اور 10 سالہ وکالت کا تجربہ لازمی ہوگا، جج کی برطرفی کے لئے وفاقی آئینی کونسل قائم کی جائے گی، کسی بھی جج کی برطرفی کی حتمی منظوری صدرِ مملکت دیں گے۔

    مجوزہ ترمیم کا کہنا ہے کہ وفاقی آئینی عدالت کا فیصلہ کسی عدالت میں چیلنج نہیں ہو سکے گا، چاروں صوبائی آئینی عدالتوں کے فیصلوں پر اپیل وفاقی عدالت میں ہوسکے گی۔

    سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا تقرر بھی 8 رکنی پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے ہو گا، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا تقرر 3 سینئر ترین ججز میں سے کیا جائے گا۔

    مولانا فضل الرحمان

    جمیعت علماء اسلام (ف) کا آئینی مسودہ

    وفاقی آئینی عدالت کے قیام کیلئے جے یو آئی (ف) نے 24 ترامیم تجویز کی ہیں، جس کے تحت آرٹیکل 175اے میں ترمیم، سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس میں آئینی بینچ تشکیل دینے، سپریم کورٹ میں چیف جسٹس سمیت 5 سینئر ججز پر مشتمل بینچ اور ہائیکورٹس میں چیف جسٹس سمیت 3 سینئر ججز پر مشتمل آئینی بینچ کی تجویز دی۔

    جے یو آئی (ف) نے 175 اے میں ترمیم، 19ویں ترمیم کا خاتمہ، 18ویں ترمیم کی مکمل بحالی، آرٹیکل 38، 203 اور 243 میں ترمیم کی تجویز دی ہے۔

    مسودہ میں کہا گیا ہے کہ آئینی بینچ کو آئینی تنازعات یا تشریح کا اختیار ہوگا، صوبائی آئینی بینچ کے فیصلوں کے خلاف اپیل سپریم کورٹ آئینی بینچ میں ہوگی، صدر کی جانب سے بھیجے گئے سوال کی سماعت آئینی بینچ میں ہوگی۔

    جے یو آئی (ف) نے مجوزہ مسودہ میں تجویز دی ہے کہ سرکاری و نجی سطح پر یکم جنوری 2028سے سود کا مکمل خاتمہ کیا جائے جبکہ ملک میں اسلامی مانیٹری سسٹم متعارف کروایا جائے۔

     بلاول بھٹو زرداری

    پیپلز پارٹی کا آئینی مسودہ

    پیپلز پارٹی نے آرٹیکل 184 ختم کرنے کی تجویز دی کہ اس میں ترمیم سے چیف جسٹس کا ازخود نوٹس لینے کا اختیار ختم ہوجائے گا اور ازخود نوٹس لینے کا اختیار پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے پاس ہی رہے گا۔

    پیپلز پارٹی کے آئینی مسودے میں آرٹیکل 175اے میں ایک وفاقی آئینی عدالت کے قیام کی تجویز دی گئی ہے جو 5 ججز پر مشتمل ہوگی، جبکہ چیف جسٹس آئینی عدالت اس کی سربراہی کریں گے۔

    پی پی مسودے کے مطابق ہر صوبے سے باری کی بنیاد پر آئینی عدالت کے چیف مقرر ہوں گے، جبکہ چیف جسٹس کی اپنی مدت 3سال ہوگی جو روٹیشن پالیسی کی بنیاد پر ہوگی۔

    اس کے علاوہ وفاقی آئینی عدالت کا فیصلہ حتمی ہوگا اور کسی بھی فورم پر اپیل نہیں کی جاسکے گی۔ چار صوبائی آئینی عدالتوں کے قیام کی تجویز بھی دی گئی ہے جس کے سربراہ چیف جسٹس صوبائی آئینی عدالت ہوں گے اور باقی ججز کا تعین حکومت قانون کے مطابق کرے گی۔

    صوبائی آئینی عدالت کا فیصلہ وفاقی آئینی عدالت میں چیلنج ہوسکے گا، پیپلز پارٹی کے مسودے میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس ججز کی تقرری کیلیے آئینی کمیشن آف پاکستان کے قیام کی تجویز بھی شامل ہے۔

    آئینی کمیشن میں آئینی عدالت کے چیف جسٹس 2 سینئر ججز، اٹارنی جنرل آف پاکستان، وفاقی وزیر قانون ، پاکستان بار کونسل کا نمائندہ اور قومی اسمبلی کے ارکان شامل ہوں گے۔ قومی اسمبلی کے دو ارکان میں سے ایک حکومت کا اور دوسرا اپوزیشن کا ہوگا، جن کی نامزدگی اسپیکر قومی اسمبلی کریں گے اور اسی طرح سینیٹ سے ایک رکن حکومت اور ایک اپوزیشن کا ہوگا۔

  • دہشتگردوں کی مالی امداد کا الزام، سعودیہ بھی یورپی یونین کی فہرست میں شامل

    دہشتگردوں کی مالی امداد کا الزام، سعودیہ بھی یورپی یونین کی فہرست میں شامل

    برسلز/ریاض : یورپی یونین نے دہشت گردوں کو مالی امداد فراہم کرنے والے ممالک کی فہرست میں سعودی عرب کا نام بھی شامل کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق یورپی یونین نے منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے والے ممالک کی فہرست میں سعودی عرب کا نام بھی شامل کردیا ہے، یورپی یونین نے یہ اقدام ایسے وقت میں اٹھایا ہے جب سعودی عرب پر صحافی جمال خاشقجی کے بعد شدید عالمی دباؤ ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے ایجنسی کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی مذکورہ فہرست میں سعودی عرب کے علاوہ افغانستان، شمالی کوریا، عراق، شام، اور ایران سمیت 16 ممالک شامل ہیں، ان ممالک کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) مرتب کردہ نئے قوانین کے تحت شامل کیا گیا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کمیشن کی جانب سے یہ قوانین گزشتہ برس تیار کیے گئے تھے لیکن اس فہرست میں رواں ہفتے ترمیم کی گئی ہے جس میں سعودی عرب کا نام شامل کیا ہے۔

    سعودی عرب کے حکام کی جانب سے یورپی یونین کمشین کے اقدام پر فوری کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق مذکورہ اقدامات سعودی حکومت کی عالمی ساکھ کو نقصان پہنچا سکتے ہیں جس کے باعث ریاست میں غیر ملکی سرمایہ متاثر ہوسکتی ہے۔

    مزید پڑھیں : مائیک پومپیو کا دورہ سعودی عرب، جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق گفتگو ہوگی

    خیال رہے کہ سعودی صحافی اور کالم نویس جمال خاشقجی کو 2 اکتوبر کو استنبول میں واقع سعودی قونصلیٹ میں قتل کیا گیا تھا، جمال خاشقجی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی پالیسیوں کے باعث ان کے ناقد تھے۔

  • جرمنی: حکومت نے پولیس اختیارات میں اضافے کا مسودہ تیار کرلیا

    جرمنی: حکومت نے پولیس اختیارات میں اضافے کا مسودہ تیار کرلیا

    برلن : حکومت نے پولیس اختیارات میں اضافے کے لیے تیار کیے گئے مسودے کے تحت شہریوں کے واٹس ایپ کی نگرانی اور پولیس کی کارروائیوں میں اضافے کی تجویز بھی پیش کی گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق یورپی یونین کے رکن ملک جرمنی کے صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کی حکومت نے سیکیورٹی معاملات مزید سخت کرنے کے لیے اقدامات کرنے کی منصوبہ بندی کرلی، جس کے بعد وقتی طور پر مفلوج کرنے والی گن کا استعمال، سماجی رابطوں کی ویب سایٹس کی نگرانی اور سیکیورٹی اداروں کی کارروائیوں میں بھی اضافہ ہوگا۔

    جرمنی کے صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کی حکومت کی جانب سے سیکیورٹی معاملات سخت کرنے پر عوام کو شدید خدشات لاحق ہیں، شہریوں کا خیال ہے کہ عام لوگوں بالخصوص نسلی بنیادوں پر شہریوں کی نگرانی میں اضافہ ہوگا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت کی جانب سے پولیس قونین کے حوالے سے مجوزہ مسودہ منظر عام پر آنے کے بعد سے شہریوں کی جانب سے حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ نئے مسودے کے تحت محکمہ پولیس کو حد سے زیادہ اختیارات دیئے جارہے ہیں۔

    خیال رہے کہ مذکورہ صوبے پر موجودہ حکومت سے قبل حکمرانی کرنے والی جماعت کو شہریوں کی سلامتی کے حوالے سے ناقص انتظامات کرنے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا، جس کے باعث حالیہ انتخابات میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کو ویسٹ فیلیا میں شکست سے دوچار ہونا پڑا تھا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے مطابق پولیس کو تفویض کیے جانے والے اختیارات کے مسودے میں تجویز دی گئی ہے کہ ویڈیوز اور واٹس ایپ کی نگرانی میں اضافہ کیا جائے اور پولیس کو جس کسی پر بھی شک ہو اسے 28 روز تک روک کر تلاشی لے سکتی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں