Tag: dress

  • بختاور بھٹو کی شادی کا لباس کس طرح تیار کیا گیا؟

    بختاور بھٹو کی شادی کا لباس کس طرح تیار کیا گیا؟

    سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اور سابق صدر آصف علی زرداری کی صاحبزادی بختاور بھٹو کی شادی کا لباس تیار کرنے والی ڈیزائنر وردہ سلیم کا کہنا ہے کہ لباس کی تیاری میں مقامی مارکیٹ میں موجود سب سے عمدہ اور نفیس معیار کا سامان استعمال کیا گیا۔

    بختاور بھٹو 29 جنوری کو صنعت کار محمود چوہدری سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئی تھیں، ان کی شادی کا سنہری لباس پاکستانی ڈیزائنر وردہ سلیم نے تیار کیا تھا۔

    برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے وردہ سلیم نے اس لباس کے بارے میں بتایا۔

    انہوں نے بتایا کہ بختاور بھٹو کے لباس کی تیاری میں بھی مقامی مارکیٹ میں موجود سب سے عمدہ اور نفیس معیار کا سامان استعمال کیا گیا۔

    وردہ کا کہنا تھا کہ نکاح کے لباس کی تیاری میں پرلز، ریشم کی تار، سلور اور گولڈ زری کی تار، فرنچ ناٹس، زردوزی کا کام اور سلور اور گولڈ لیدر کا کام کیا گیا، جوڑے کا کپڑا بھی ہاتھ سے تیار کردہ شیفون ہے جو کہ مقامی سطح پر تیار کیا جاتا ہے۔

    بختاور کے نکاح کی تقریب کی تصاویر جاری ہونے کے بعد سے سوشل میڈیا پر کہا جارہا تھا کہ بختاور بھٹو کے لباس پر سونے کی تاروں سے کام ہوا تھا اور اس میں ہیرے جڑے ہوئے تھے۔

    علاوہ ازیں یہ بھی کہا جارہا تھا کہ بختاور بھٹو کے نکاح کا لباس مہنگا ترین تھا اور اس کی قیمت کروڑوں میں تھی۔

    تاہم اب وردہ سلیم کا کہنا تھا کہ بختاور بھٹو کے لباس میں نہ سونے کی تار استعمال ہوئی اور نہ ہیرے جڑے ہیں، تاہم یہ جان کر خوشی ہوئی کہ کام ہی اتنا نفیس تھا کہ لوگوں کو یہ گمان ہوا اور یہ ایک طرح سے ہماری تعریف ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ اس لباس کی تیاری میں 45 کاریگروں نے حصہ لیا اور 7 ہزار گھنٹوں سے زائد وقت یعنی لگ بھگ 6 سے 7 ماہ لگے اور اس دوران 2 سے 3 ماہ ڈبل شفٹس میں 24 گھنٹے بھی کام کیا گیا۔

  • بختاوربھٹو کی مہندی کے دوپٹے پر کیا لکھا تھا؟

    بختاوربھٹو کی مہندی کے دوپٹے پر کیا لکھا تھا؟

    سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اور سابق صدر آصف علی زرداری کی بیٹی بختاور زرداری رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئیں اور اپنی زندگی کے اس اہم موقع پر وہ اپنی والدہ کو نہ بھول سکیں۔

    بختاور زرداری صوبہ پنجاب کے ایک صنعت کار محمود چوہدری سے 29 جنوری کو شادی کے بندھن میں بندھیں اور تب سے ان کی شادی کی مختلف تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہیں۔

    بختاور کی شادی کے ملبوسات بھی اس وقت زیر بحث ہیں۔

    نکاح کے موقع پر بختاور نے فیشن ڈیزائنر وردہ سلیم کا تیار کردہ لباس پہنا تھا، جو گولڈن اور پنک رنگوں کے امتزاج سے تیار کیا گیا تھا، نکاح کی تصاویر ان کے بھائی بلاول بھٹو نے اپنے ٹویٹر پر جاری کیں۔

    اب بختاور نے خود بھی اپنے انسٹاگرام پر نکاح اور مہندی کی تقریب اور اس میں پہنے جانے والے ملبوسات کی تصاویر شیئر کی ہیں اور ان میں دیکھا جاسکتا ہے کہ اس موقع پر بختاور نے اپنی والدہ کو بے حد یاد کیا۔

    بختاور کی مہندی کا لباس ڈیزائنر زارا شاہجہاں نے تیار کیا تھا، ان کے دوپٹے پر ایک اردو نظم وہ لڑکی لال قلندر تھی کے اشعار سنہری دھاگوں سے کڑھے ہوئے تھے، یہ نظم ان کی والدہ نے نظیر بھٹو کے لیے پڑھی جاتی ہے۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Zara Shahjahan (@zarashahjahan)

  • خاتون نے 100 دن تک ایک ہی لباس کیوں زیب تن کیے رکھا؟

    خاتون نے 100 دن تک ایک ہی لباس کیوں زیب تن کیے رکھا؟

    واشنگٹن: سوشل میڈیا پر آئے روز نئے نئے چیلنجز پیش کیے جاتے ہیں جن کا مقصد عموماً تفریح ہوتا ہے تاہم حال ہی میں ایک بامقصد چیلنج بھی متعارف کروایا گیا جس کے تحت ایک خاتون نے 100 روز تک ایک ہی لباس پہنے رکھا۔

    برطانوی میڈیا رپورٹ کے مطابق سارہ روبن نامی خاتون نے 100 ڈے ڈریس چیلنج میں گذشتہ برس ستمبر میں حصہ لیا اور تین ماہ تک روزانہ میرینو وول کا سیاہ لباس زیب تن کیے رکھا جس کا مقصد فیشن کی دنیا سے نکل کر سادگی کو فروغ دینا تھا۔

    سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹا گرام پر اپنی پوسٹ میں سارہ کا کہنا تھا کہ 100 دن تک ایک ہی لباس پہنے رکھنے سے سبق ملا کہ ہمیں کپڑوں کی اتنی زیادہ ضرورت نہیں ہوتی۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Sarah Robbins-Cole (@thisdressagain)

    انہوں نے لکھا کہ میری پرورش ایک انیسویں صدی کے فارم ہاؤس میں ہوئی جس میں کپڑوں کی الماریاں چھوٹی چھوٹی تھیں، پرانے وقتوں میں اس فارم ہاؤس میں رہنے والے لوگوں نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ کپڑے اتنے مہنگے ہو جائیں گے۔

    دوسری جانب اس چیلنج کو متعارف کروانے والے کپڑوں کے امریکی برانڈ نے کہا ہے کہ اس چیلنج کی بنیاد 3 اصول ہیں: سادگی اختیار کرو، احتیاط سے خرچ کرو اور اچھے کام کرو۔

    اس چیلنج صرف سارہ ہی نے قبول نہیں کیا تھا، مذکورہ برانڈ نے اپنی ویب سائٹ پر لکھا کہ ہم نے اپنے ملبوسات ان 50 خواتین کو بھیجے جنہوں نے رضا کارانہ طور پر 100 دن کے لیے ہمارا لباس پہننے کی حامی بھری۔

    برانڈ کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ پچاس میں سے صرف 13 خواتین نے اس چیلنج کو پورا کیا اور سارہ روبن بھی ان خواتین میں شامل تھیں۔

  • باصلاحیت طالبات نے پلاسٹک سے ڈیزائنر لباس تیار کردیا

    باصلاحیت طالبات نے پلاسٹک سے ڈیزائنر لباس تیار کردیا

    ہماری زمین کو آلودہ کرنے والی سب سے بڑی وجہ پلاسٹک اس وقت دنیا بھر کے ماہرین کے لیے درد سر بن چکا ہے، اس پلاسٹک کے کچرے کو ختم کرنے کے لیے اس کے مختلف استعمالات متعارف کروائے جارہے ہیں اور ایسا ہی ایک اور استعمال سامنے آیا ہے۔

    سنگاپور کے کچھ طالب علموں نے پلاسٹک کو ملبوسات کی صورت میں پیش کیا ہے جسے دنیا بھر کی پذیرائی حاصل ہورہی ہے۔ جیسیکا اور ایوانا، صرف 2 طالبات پر مشتمل اس فیشن ڈیزائننگ ٹیم نے ماحول دوستی میں ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے فیشن میں ایک نئی جہت پیش کی اور پلاسٹک سے بنے ملبوسات متعارف کروائے ہیں۔

    یہ ملبوسات سنگاپور میں ہونے والی انوویٹ فار کلائمٹ کانفرنس میں پیش کیے گئے جہاں دنیا بھر کے ماہرین اور مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد نے اسے دیکھا اور ان طالبات کو سراہا۔ طالبات کو اس کانفرنس میں ان کی تخلیقات پر انعام سے بھی نوازا گیا۔

    جیسیکا اور ایوانا کو سنگاپور میں کام کرنے والی ایک کمپنی کی معاونت حاصل ہے۔ یہ کمپنی روزمرہ زندگی میں استعمال ہونے والی پلاسٹک کی بوتلوں کو جمع کر کے انہیں مختلف مراحل سے گزار کر کپڑے کی شکل میں بدل ڈالتی ہے۔ اس کپڑے کو تجارتی بنیادوں پر تو فروخت کیا ہی جاتا ہے، تاہم یہ کمپنی ان افراد کو یہ کپڑا مفت فراہم کرتی ہے جو استعمال شدہ پلاسٹک بوتلوں کی بڑی مقدار جمع کر کے انہیں دیں۔

    جیسیکا اور ایوانا نے بھی مختلف صفائی مہمات میں جمع ہونے والی پلاسٹک بوتلیں اس کپمنی کو فراہم کیں جس کے بعد انہیں پلاسٹک سے بنا ہوا کپڑا دیا گیا اور ان باصلاحیت طالبات نے اس سادے سے کپڑے پر اپنے ہنر کا جادو جگا کر اسے ڈیزائنر لباس میں تبدیل کرڈالا۔

    ان طالبات کا کہنا ہے کہ وہ فیشن میں رائج اس تصور کو بدلنا چاہتی ہیں کہ لباس صرف کاٹن یا مخمل سے ہی تیار کیا جاسکتا ہے۔

    وہ کہتی ہیں، ’پلاسٹک سے بنا ہوا لباس زمین سے ہماری محبت کا ثبوت ہے، اور خوبصورتی سے ڈیزائن کیے جانے کے بعد یہ لباس کسی بڑے ڈیزائنر کے تیار کردہ لباس سے کسی صورت کم نہیں اور اسے اہم سے اہم ترین موقع پر بھی پہنا جاسکتا ہے‘۔

    سنگاپور میں منعقد کی جانے والی اس نمائش میں پلاسٹک سے بنے صرف ملبوسات ہی نہیں اور بھی بے شمار اشیا پیش کی گئیں۔

    ایک اور کپمنی نے پلاسٹک بوتلوں کے ڈھکن سے بنے ہوئے ٹی میٹس، چشمے، تلف شدہ اسمارٹ فون اسکرین سے بنے گلاس اور سگریٹ بٹ سے بنی آرائشی اشیا بھی پیش کیں۔

    یاد رہے کہ پلاسٹک ایک تباہ کن عنصر اس لیے ہے کیونکہ دیگر اشیا کے برعکس یہ زمین میں تلف نہیں ہوسکتا۔ ایسا کوئی خورد بینی جاندار نہیں جو اسے کھا کر اسے زمین کا حصہ بناسکے۔

    ماہرین کے مطابق پلاسٹک کو زمین میں تلف ہونے کے لیے 1 سے 2 ہزار سال کا عرصہ درکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا پھینکا جانے والا پلاسٹک کا کچرا طویل عرصے تک جوں کا توں رہتا ہے اور ہمارے شہروں کی گندگی اور کچرے میں اضافہ کرتا ہے۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں

  • خواتین کی جنسی ہراسگی کی نشاندہی کرنے والا لباس

    خواتین کی جنسی ہراسگی کی نشاندہی کرنے والا لباس

    دنیا بھر میں خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے خلاف زور و شور سے آوازیں اٹھ رہی ہیں اور اب اس بارے میں ایسے اقدامات بھی کیے جارہے ہیں جس سے خواتین کو ہراساں کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہو۔

    حال ہی میں ایک ایسا لباس تیار کیا گیا ہے جو اس بات کی نشاندہی کرے گا کہ خواتین کو دن میں کتنی بار جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے۔

    اوگلیوی نامی برطانوی تشہیری کمپنی نے اس بات کو جاننے کی کوشش کی کہ خواتین کو دن میں کتنی بار ہراساں ہونے کی اذیت سے گزرنا پڑتا ہے، اور حاصل ہونے والے نتائج نہایت ہوشربا تھے۔

    کمپنی نے ایک ایسا لباس تیار کیا جس میں سینسرز لگے ہوئے تھے۔ یہ سنسرز اس وقت فعال ہوجاتے ہیں جب لباس پہننے والے کو چھوا جاتا، اور ان تمام حرکات کو ایک ڈیٹا کی شکل میں پیش کردیتا۔

    یہ لباس 3 خواتین کو پہنایا گیا جنہوں نے برازیل میں ایک پارٹی میں وقت گزارا، اور حاصل شدہ ڈیٹا کے مطابق ان خواتین کو 3 گھنٹے اور 57 منٹس کے دوران 157 بار چھوا گیا۔

    خواتین کا کہنا تھا کہ پارٹیز میں مردوں کی جانب سے خواتین کو چھونا ایک نہایت عام بات ہے، اور اگر انہیں اس سے منع کیا جائے، یا کہا جائے کہ وہ اپنے ہاتھوں کو اپنے تک رکھیں تو وہ اسے ذرا خاطر میں نہیں لاتے۔

    بعض مرد اس میں کوئی برائی بھی نہیں سمجھتے اور خواتین کو چھوئے بغیر ان سے بات نہیں کرسکتے۔

    تشہیری کمپنی کا کہنا ہے کہ اس لباس کو انہوں نے ’لباس برائے تکریم ۔ ڈریس فار رسپیکٹ‘ کا نام دیا ہے اور یہ اس بات کی طرف توجہ دلائے گا کہ مردوں کا ایک عام عمل خواتین کو کس قدر ذہنی اذیت میں مبتلا کردیتا ہے۔

  • مقبوضہ کشمیر: سکیورٹی رسک کا بہانہ، کشمیریوں کے روایتی لباس پر پابندی عائد

    مقبوضہ کشمیر: سکیورٹی رسک کا بہانہ، کشمیریوں کے روایتی لباس پر پابندی عائد

    سری نگر: مقبوضہ کشمیر میں جہاں بھارتی فوج نہتے کشمیریوں پر ظلم ڈھارہی ہے وہیں انتظامیہ نے روایتی لباس پر بھی پابندی عائد کردی۔

    تفصیلات کے مطابق مقبوضہ کشمیرمیں بھارت کی کٹھ پتلی انتظامیہ نے سیکورٹی رسک کا بہانہ بناکر کشمیریوں کے روایتی لباس پھیرن پہننے پر پابندی عائد کردی۔

    انتظامیہ کی جانب سے جاری کردہ نئے حکم نامے میں محکمہ تعلیم کے دفاتر اور سول سیکڑیٹریٹ میں پھیرن پہن کر داخلے پر پابندی عائد کردی گئی۔

    فوجی اداروں اور پولیس کیمپوں میں پھیرن پہن کر داخل ہونا پہلے ہی ممنوع ہے، پھیرن کمشیریوں کا روایتی لباس ہے جو عموما سردیوں میں پہنا جاتا ہے۔

    پھیرن پر پابندی کے خلاف سوشل میڈٰیا پر سخت ردعمل دیتے ہوئے کشمیریوں نے پھیرن کو صرف پہناوا نہیں بلکہ اپنی ثقافت قرار دیا۔

    دوسری جانب آج مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کے دلدوز مظالم کے خلاف ملکی سینیٹ میں قرارداد منظور کر لی گئی، اجلاس سے حکومتی اور اپوزیشن ارکان نے خطاب کیا۔

    وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے کا کہنا تھا کہ ہم کشمیر کے خون پر کسی صورت سیاست نہیں کریں گے، ماضی میں ہماری حکومتیں کشمیر پر غفلت کی ذمہ دار رہی ہیں۔

  • برطانیہ: چوری کرنے پر انعام کا انوکھا اعلان

    برطانیہ: چوری کرنے پر انعام کا انوکھا اعلان

    لندن : روزمرہ استعمال کی اشیاء فروخت کرنے والی ایک خاتون نے ملبوسات چوری کرنے والے افراد کو فی گھنٹہ 64 ڈالرمعاوضہ دینے کا اعلان کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ میں لباس سمیت ضروریات زندگی کی دیگر اشیاء فروخت کرنے والی ایک دکان کی مالکن نے ماہر چوروں سے کپڑے چرانے کی درخواست کردی۔

    دکان مالکن نے چوروں سے درخواست کی ہے کہ وکان سے کپٹرے چوری کریں اور 64 ڈالر معاوضہ بھی کمائیں۔

    برطانوی خاتون نےچوروں کو معاوضے کے ساتھ ساتھ چوری شدہ مال میں سے تین لباس بھی اپنے پاس رکھنے کی پیشکش کی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ خاتون نے ساتھ میں شرط عائد کی ہے کہ دکان میں چوری کرنے والے افراد کو لباس چرانے کے بعد طریقہ واردات بتانا ہوگا تاکہ وہ اپنی دکان کو مزید محفوظ بناسکیں اور چوریوں میں کمی ہوسکے۔

    مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ دکان مالکن نے اس سلسلے میں باقاعدہ اشہتار بھی شائع کیا کہ جس کے بعد کامیاب چوروں کو ہفتے میں کئی مرتبہ دکان میں چوری کرنی ہوگی اور پھر چوری شدہ مال کی مکمل رپورٹ مالکن کو دینا ہوگی۔

    خاتون کا کہنا ہے کہ میں آئے روز اپنی دکان میں قیمتی لباس کی چوری سے تنگ آچکی ہوں۔

    برطانوی شہری نے بتایا کہ انہوں نے اپنی دکان میں ہونے والی چوریاں روکنے کےلیے یہ قدم اٹھایاہے۔

    خاتون کا کہنا تھا کہ چور کو واردات کے بعد طریقہ واردات بتانا ہوگاکہ اس نے کس طرح لباس یا دیگر اشیاء چوری کیں تاکہ میں حفاظتی اقدامات کو مزید بہتر کرسکوں۔

    برطانیہ: ڈچز آف پورٹ لینڈ کا تاریخی تاج شاہی عمارت سے چوری

    چوریوں سے متاثرہ خاتون نے بتایا کہ کرسمس کی تیاری کے سلسلےمیں نومبرمیں دکان پر گاہکوں کا رش بہت زیادہ ہوجاتا ہے جس کے باعث سب پر نظر رکھنا ممکن نہیں رہتا۔

    خاتون نے بتایا کہ گذشتہ کئی برس سے کرسمس کے موقع پر ہونے والی چوریوں نے مجھے بہت نقصان پہنچایا ہے، اس لیے میں نے ماہر چوروں مدد کی درخواست کی ہے۔

  • کولمبیا میں گدھوں کے مقابلہ حسن کا انعقاد

    کولمبیا میں گدھوں کے مقابلہ حسن کا انعقاد

    بوگوٹا : کولمبیا کے شہر مونی قیورا میں منعقد ہونے والے منفرد مقابلہ حسن میں گدھوں میں حسن کے جلوے بکھیرے جس میں سب سے نمایاں نظر آنے والے گدھے کو پہلا انعام دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق دنیا بھر میں خواتین کے لیے مقابلہ حسن کا انعقاد ہونا عام سی بات ہے، لیکن براعظم امریکا کے ملک کولمبیا کے شہریوں نے حسن کا انوکھا مقابلہ منعقد کیا جس میں گدھوں نے حصّہ لیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق کولمبیا میں منعقد ہونے والے گدھوں کے مقابلہ حسن میں ہر برس سب سے ممتاز نظر آنے والے گدھے کو مقابلے کا فاتح قرار دیا جاتا ہے۔

    کولمبیا کے خبر رساں اداروں کا کہنا تھا کہ گدھوں کا مقابلہ حسن گذشتہ برسوں سے کولمبیا کے وسطی ٹاؤن مونی قیورا میں منعقد کیا جارہا ہے، جس میں شرکت کرنے والے ججز کا دل جیتنے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کو کوشش کرتے ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ گدھوں کے مقابلہ حسن میں گدھوں کو خوجصورت لباس زیب تن کرواکر، کسی لڑکی کی طرح لمبے بال لگا کر اور میک اپ کا استعمال کرکے عوام کے سامنے لایا جاتا ہے۔

    جب گدھے تیار ہوکر عوام کے سامنے آتے ہیں تو ججز ان کے فیشن اور میک اپ کا جائزہ لیتے ہیں، جس کے بعد سب سے نمایاں نظر آنے والے گدھے کو پہلا انعام دیا جاتا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • فطرت کے رنگ اجاگر کرتے لباس

    فطرت کے رنگ اجاگر کرتے لباس

    تخلیقی ذہن کے افراد ہر چیز کا مشاہدہ کرتے ہیں اور اسے اپنی تخلیق میں شامل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کہانی کار اور مصنف روزمرہ کی چھوٹی چھوٹی باتوں سے کہانی تخلیق کرتے ہیں۔ مصور روزمرہ کی چیزوں کو دیکھ کر انہیں اپنے خیالات اور رنگوں میں ڈھال کر پیش کرتا ہے۔

    روس کی ایسی ہی ایک ڈیزائنر لیلیا ہڈیاکووا نے ایسے لباس تخلیق کیے جو فطرت سے متاثر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں فطرت سے قریب رہنا پسند ہے اور اسی لیے انہوں نے اپنے ڈیزائن کردہ لباسوں میں فطرت کو اجاگر کیا۔

    گو کہ کسی قدرتی منظر کو انسانی تخلیق میں ڈھالنے میں کچھ تبدیلیاں آجاتی ہیں لیکن لیلیا نے حیرت انگیز طور پر فطرت کا رنگ برقرار رکھا ہے۔

    ان کے لباسوں میں قدرتی مناظر، پھول، باغ، پہاڑ اور تاریخی عمارتوں کا خوبصورت اور حیرت انگیز اظہار دیکھ کر آپ دنگ رہ جائیں گے۔

    8

    4

    5

    1

    6

    7

    11

    12

    17

    18

    19

    20

    21

    22


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • دورہ بھارت، ایوانکا ٹرمپ کا لباس موضوع بحث بن گیا

    دورہ بھارت، ایوانکا ٹرمپ کا لباس موضوع بحث بن گیا

    نئی دہلی : امریکی صدر کی بیٹی ایوانکا ٹرمپ بھارت کے دوران جہاں توجہ کا مرکز بنی وہی انکا لباس موضوع بحث بن گیا، کسی نے لباس کو بیڈ شیٹ کہا تو کسی نے بدترین لباس قراردیا۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی صدرڈونلڈٹرمپ کی طرح ان کی بیٹی بھی جہاں جاتی ہیں توجہ کا مرکز بن جاتی ہیں، ایوانکا ٹرمپ بھارت کے شہر حیدرآباد دکن پہنچی، جہاں ایوانکا نے تین روزہ عالمی کانفرنس گلوبل انٹرپرینرشپ سمٹ کا افتتاح کیا۔

    اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے ایوانکا ٹرمپ نے بھارت امریکہ تعلقات کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ آنے والے دنوں میں دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں مزید قربت پیدا ہوگی۔

    ایوانکا ٹرمپ کو بھارت یاترا پر لباس پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور مودی سے ملاقات میں پہنے گئے ہرے رنگ کے ایوانکا کے لباس پر گرما گرم بحث شروع ہوگئی، اس لباس کی قیمت تقریبا 3550 ڈالر ہے۔

    سوشل میڈیا پر کسی نے کہا یہ بیڈ شیٹ لگتا ہے ، کسی نے بدترین لباس قراردیا، ۔کوئی کہنےلگا سفید لباس میں موٹی تو سبزلباس میں بری لگ رہی ہیں۔

    بھارتیوں نے ایوانکا کے فیشن ڈیزائنر ہونے پر بھی سوال اٹھا دیا۔

    یاد رہے چند روز قبل جاپان کے دورے میں جہاں ایوانکا توجہ کا مرکز بنی وہی ان کا اسٹائل اور ڈریسنگ بھی موضوع بحث بن گیا تھا۔

    جاپان میں ایک سیمنار میں پہنے گئے ایوانکا کے ہلکے گلابی رنگ کے لباس کو غیر مناسب قرار دیا گیا تھا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔