Tag: Drone Strikes

  • عراق کے کردستان ریجن میں امریکی آئل فیلڈز پر ڈرون حملے

    عراق کے کردستان ریجن میں امریکی آئل فیلڈز پر ڈرون حملے

    بغداد: عراق میں امریکی اور نارویجن آئل گروپ کے زیر انتظام آئل فیلڈز پر ڈرون حملے کئے گئے ہیں۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق کرد صوبے دہوک میں کیے جانے والے ڈرون حملے میں امریکی کمپنی کے زیر انتظام سرسانگ آئل فیلڈز کونشانہ بنایا گیا۔

    رپورٹ کے مطابق 2 ڈرونز کے ذریعے ضلع ذاخو میں واقع نارویجن آئل گروپ کے زیر انتظام چلنے والی پیش کبیر آئل فیلڈ پر بھی حملہ کیا گیا جب کہ اسی ضلع میں واقع ایک اور آئل فیلڈ پر بھی حملہ کیا گیا۔

    خبرایجنسی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ڈرون حملوں میں آئل فیلڈز کی عمارت اور دیگر سامان کو نقصان پہنچا تاہم حملوں میں کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملیں جب کہ اب تک کسی گروپ نے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔

    واضح رہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں شمالی عراق میں میتھین گیس کے واقعے میں 12 ترک فوجی شہید ہو گئے تھے۔

    ترک میڈیا کے مطابق عراق میں ایک غار میں سرچ آپریشن کے دوران زہریلی گیس کے اخراج سے 12 فوجی شہید ہوئے۔

    عراقی فضائی حدود کو محدود سطح تک کھول دیا گیا

    وزارت دفاع کا کہنا تھا کہ شمالی عراق میں آپریشن کے دوران غار میں گیس خارج ہوئی اور یہ کارروائی کرد ملیشیا کیخلاف آپریشن کا حصہ تھی۔

    ترکی کے قومی دفاع کے وزیر یاسر گلر نے معائنہ کرنے اور شہید ہونے والے فوجیوں کے اعزاز میں منعقد ہونے والی تقریبات میں شرکت کے لیے علاقے کا دورہ بھی کیا تھا۔

  • روس کا یوکرین پر درجنوں ڈرونز سے بڑا حملہ

    روس کا یوکرین پر درجنوں ڈرونز سے بڑا حملہ

    کیف: روس نے یوکرین پر ڈرونز کی بارش کردی، جس میں 188 ڈرون استعمال کیے گئے۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق روسی حملے میں یوکرین کے مغربی علاقے ترنوپل میں بجلی کے انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچا جبکہ کیف میں رہائشی عمارتیں بھی متاثر ہوئیں۔

    روس کی جانب سے مجموعی طور پر 188 ڈرونز کی مدد سے حملہ کیا گیا، 76 ڈرونز یوکرینی فوج نے تباہ کردیے جبکہ 96 ڈرونز کے حوالے سے کسی کو علم نہ ہوسکا۔

    یوکرینی فوج کے مطابق روس نے حملے میں خودکش ڈرونز سمیت کچھ نامعلوم ڈرونز کا بھی استعمال کیا، روس کی جانب سے یوکرینی دفاعی نظام کو ناکام بنانے کیلیے ڈمی ڈرونز کا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

    یوکرین کے دارالحکومت کیف پر حملہ آور ڈرونز میں سے 10 ڈرونز تباہ کردیئے گئے، جن کا ملبہ رہائشی عمارتوں پر گرا، ڈرون حملے میں کسی قسم کا جانی نقصان نہیں ہوا۔

    دوسری جانب امریکی صدر جوبائیڈن نے اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جنگ بندی کا اعلان کردیا ہے، سیز فائر کا اطلاق آج سے ہی ہوگا۔

    رپورٹ کے مطابق اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان سیز فائر معاہدہ طے پا گیا ہے جس کا با قاعدہ اعلان امریکی صدر جوبائیڈن نے کیا۔

    نیتن یاہو حزب اللہ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور، جنگ بندی پر راضی

    امریکی صدر کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور حزب اللہ جنگ بندی کے معاہدے پر رضامند ہوگئے ہیں، مذکورہ سیز فائر معاہدے کا اطلاق آج سے ہی ہوگا۔

  • امریکی صدر جو بائیڈن   کی ایران پر ڈورن حملوں کی دھمکی

    امریکی صدر جو بائیڈن کی ایران پر ڈورن حملوں کی دھمکی

    روم: امریکی صدر جو بائیڈن نے ایران پر ڈورن حملوں کی دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی مفادات کو نقصان پہنچانے پر ایران کے خلاف کارروائی کریں گے۔

    تفصلات کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی مفادات کو نقصان پہنچانے پر ایران کے خلاف کارروائی کریں گے، ایران کو اقدامات کا جواب دینا ہو گا۔

    جو بائیڈن نے خبردار کیا کہ ضرورت پڑی تو امریکا ایران پر ڈرون حملے بھی کرسکتا ہے۔

    دوسری جانب امریکی صدر نے اپنے ترکی ہم منصب رجب طیب اردوان سے ملاقات کی ، دونوں رہنماؤں کی اطالوی شہر روم میں جی ٹوئنٹی کی سائیڈ لائن پر ملاقات ہوئی۔

    ملاقات میں امریکی صدر نے ترکی میں انسانی حقوق کی پاسداری سے متعلق بات کی اور ترکی کے پاس روسی میزائل سسٹم ہونے پر تشویش کا بھی اظہار کیا۔

    ترک صدر رجب طیب اردوان نے جو بائیڈن سے ایف سولہ طیاروں کی فراہمی کے بارے میں بات کی۔

    یاد رہے امریکا نے عراق میں امریکی بیس پر ڈرون حملے کا الزام ایران پرعائد کیا تھا تاہم اس حملے میں کسی کی ہلاکت یا زخمی ہونے کی اطلاع نہیں۔

  • ڈرون حملوں میں ہلاک ہونے والے شہریوں کی تعداد شائع کرنا ضروری نہیں، ٹرمپ

    ڈرون حملوں میں ہلاک ہونے والے شہریوں کی تعداد شائع کرنا ضروری نہیں، ٹرمپ

    واشنگٹن : امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ڈرون حملوں سے متعلق کہا ہے کہ ’امریکی حساس اداروں کو ڈرون حملوں میں ہلاک ہونے والے شہریوں کی تعداد شائع کرنے کی ضرورت نہیں‘۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سنہ 2016 میں سابق صدر بارام اوبامہ کے بنائے گئے قانون کو نظر انداز کردیا، اوبامہ کے بنائے گئے قانون کے تحت امریکی خفیہ ایجنسی باالخصوص سی آئی اے کو جنگی علاقوں سے باہر ڈرون حملوں کی زد میں آکر ہلاک ہونے والے شہریوں کی تعداد لازمی شائع کرنی ہوتی تھی۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ مذکورہ قانون کے مطابق ڈرون حملے کرنے والے امریکی مسلح اداروں پر لازمی تھا کہ سالانہ رپورٹ تیار کریں جس میں حملوں کے دوران ہلاک ہونے والے شہریوں کی تعداد درج ہو۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ سابق صدر باراک اوبامہ کے 8سالہ دور حکومت میں 1878 ڈرون حملے ہوئے تھے جبکہ ٹرمپ نے دو برسوں میں بائیس سو سے زائد ڈرون حملے کروائے۔

    ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ’ڈرون حملوں سے متعلق بنایا گیا قانون غیر ضروری ہے‘۔

    امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ ’مذکورہ قانون سے حکومت کی شفافیت میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ مسلح اداروں کے کاموں میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے‘۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ امریکا نے ڈرون حملوں کی تعداد میں نائن الیون کے واقعے کے بعد دہشت گرد تنظیموں کے خلاف تعداد میں اضافہ ہوا تھا۔

    انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ہیومن رائیٹس فرسٹ کی سربراہ کا کہنا تھا کہ ’طاقت کے استعمال کے دوران ہلاک ہونے والے شہریوں کی تعداد سے متعلق احتساب لازمی ہے جسے ختم کرنے کےلیے ٹرمپ انتظامیہ نے غلط اور منفی فیصلے کیے ہیں‘۔

  • امریکی صدرٹرمپ نے ڈرون حملوں کا اختیار سی آئی اے کو دے دیا

    امریکی صدرٹرمپ نے ڈرون حملوں کا اختیار سی آئی اے کو دے دیا

    واشنگٹن : امریکی صدر ٹرمپ نے ڈرون حملوں کا اختیار سی آئی اے کو دے دیا، امریکی اخبار کے مطابق سی آئی اے اب مشتبہ دہشتگردوں پر بھی ڈرون حملے کر سکے گی۔

    سابق امریکی صدربراک اوباما کی پالیسی کے برعکس ڈونلڈ ٹرمپ نے ڈرون حملے کا اختیار سی آئی اے کو سونپ دیا، صدراوباما کے دورمیں ڈرون حملوں کا اختیار پینٹاگون کے پاس تھا اور سی آئی اے کا کردار اس حوالے سے محدود تھا۔

    دوسری جانب وائٹ ہاؤس کی بریفنگ میں شون اسپائسر کے جواب نے قہقہے بکھیر دئیے، صدرٹرمپ پر بھروسہ کب کیا جاسکتا ہے اس سوال کے جواب میں شون اسپائسرکا کہنا تھا جب صدر مذاق نہ کررہے ہوں، شون اسپائسرنے کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ ہربات وثوق کے ساتھ کرتے ہیں۔

    امریکی میڈیا کے مطابق صدر ٹرمپ کا یہ اقدام سابق صدر براک اوباما کی انتظامیہ پالیسی سے انحراف ہے، سابق صدر خفیہ ادارے کے فوجی کردار کے خلاف تھے، سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے اس اقدام سے سی آئی اے اور پینٹاگون کے تعلقات کشیدہ ہونے کا خدشہ ہے۔

    واضح رہے کہ امریکہ کا یہ دعویٰ ہے کہ ڈرون حملے دہشتگردوں کے خلاف ہوتے ہیں لیکن ان حملوں میں زیادہ تر عام شہری نشانہ بنتے رہے ہیں اور افغانستان اور پاکستان سمیت کئی ممالک پر اب تک امریکی ڈرون حملوں میں ہزاروں افراد جاں بحق اور زخمی ہوئے اور ان ممالک کے عوام اس قسم کے حملوں کو چادر اور چار دیواری کے خلاف اور غیر قانونی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی سمجھتے ہیں۔

    امریکہ کا ڈرون حملوں عام شہریوں کی ہلاکت کا اعتراف

    یاد رہے ڈرون حملوں کا آغاز 2004 میں جارج ڈبلیو بش کے دورِ صدارت میں ہوا تھا جبکہ سابق صدر اوباما کے دور میں بھی جاری رہا جبکہ گزشتہ سال جولائی میں امریکی حکومت نے اعتراف کیا تھا کہ وہ ممالک جہاں امریکا کو مخالفین یا دہشت گردوں سے جنگ کا سامنا نہیں تھا وہاں ڈرون حملوں میں بھی 116 عام شہری ہلاک ہوئے۔

  • افغان صوبے ننگرہارمیں امریکی ڈرون حملہ، 30 شدت پسند ہلاک

    افغان صوبے ننگرہارمیں امریکی ڈرون حملہ، 30 شدت پسند ہلاک

    کابل: افغانستان کے صوبے ننگرہارمیں امریکی ڈرون حملے کے نتیجے میں 30 شدت پسند ہلاک ہوگئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق ڈرون حملہ آج بروزاتوارعلی الصبح کیا گیا جس میں شدت پسندوں کے ٹھکانے کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

    افغان میڈیا ذرائع کا کہنا ہے کہ ننگرہارمیں افغان فورسز کی جانب سے آپریشن جاری ہے اورشدت پسندوں کو گھیرے میں لے لیا گیا ہے۔

    واضح رہے کہ گزشتہ دو روز سے طالبان دہشت گردوں کی کاروائیاں جاری ہیں جس میں 70 سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے ہیں۔


    افغانستان میں بم دھماکےاور شدت پسندوں کے حملے،70سےزائد ہلاک


    گزشتہ روز بدترین دہشتگردی کاشکار رہا جہاں پے در پے بم دھماکوں اورامریکی فوجی بیس پرشدت پسندوں کےحملےمیں ہلاک ہونےوالوں کی تعداد پچاس سےزائد ہوگئی۔

    دوسری جانب افغان صوبے قندوزمیں بھی خودکش کاربم دھماکےمیں 22 افرادہلاک ہوگئےجبکہ کابل میں دوبم دھماکوں کےبعد شدت پسندوں نےتیسراحملہ امریکی فوجی بیس پر کیا جس کے نتیجے میں ایک فوجی سمیت گیارہ افراد جان سے گئے۔

    اس سے قبل ہونے والے خودکش حملے اورکار بم دھماکے میں 40 افراد لقمہ اجل بنے تھے۔

    ملاعمرکی ہلاکت کی خبروں کی تصدیق کے بعد سے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان جاری امن مذاکرات کا عمل معطل ہے۔