Tag: drought

  • بلوچستان، خشک سالی سے سیلاب تک

    بلوچستان، خشک سالی سے سیلاب تک

    پاکستان کا سب سے پسماندہ صوبہ بلوچستان ان دنوں طوفانی بارشوں کے سبب سیلاب کی زد میں ہیں،  اس رپورٹ میں ہم آپ کو بتارہے ہیں کہ آخرخشک سالی کے بعد ایک دم سیلاب کیوں آیا ہے؟۔

    بنیادی طور پر صوبۂ بلوچستان ایک ایسے خطے میں واقع ہے جسے ’’ڈراٹ پرون‘‘ یا کثرت سے خشک سال کا سا مناکرنے والے علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ جہاں اس سے پہلے بھی کئی طویل خشک سالی کے دور آچکے ہیں جن میں سب سے زیادہ تباہ کن 1999 سے 2005 کا دور تھا، جب صوبے کو غذائی اجناس کی شدید کمی اور قحط کا بھی سامنا رہا اور یہاں کے مقامی باشندوں کی اکثریت دوسرے علاقوں کی جانب ہجرت پر مجبور ہوگئی۔

    گذشتہ دو سال سے پاکستان کے دیگر صوبوں کی طرح بلوچستان کو بھی بارشوں کی شدید کمی کا سامنا رہا اور اس باعث یہاں موجود ڈیم، جھیلیں ، دریا اورتالاب تقریبا خشک ہو چکے تھے اور مقامی افراد کھیتی باڑی و گلا بانی کے علاوہ دیگر ذریعۂ معاش کی تلاش میں سرگرداں ہیں ۔ واضح رہے کہ رقبے میں پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ اور معدنیاتی وسائل سے مالا مال ہونے کے با وجود یہاں کے مقامی باشندے تعلیم، صحت ، اور ہائش جیسی بنیادی ضروریات ِ زندگی سے محروم ہیں اور دیہاتی علاقوں میں زیادہ تر افراد کا ذریعۂ روزگار ذراعت یا گلا بانی ہے۔

    یہ قدرت کا قانون ہے کہ خشک سالی عارضی ہو یا طویل بہر حال ایک نہ ایک دن ختم کو ہی جاتی ہے اور پھر کچھ عرصے تک بارشیں کھل کر برستی ہیں۔ ایسا ہی کچھ صورتحال کا سامنا اس وقت بلوچستان سمیت ملک کے دیگر علاقوں کو بھی ہے اور تقریبا ایک سال تک بارشیں بند رہنے کے بعد 2019 کے آغاز کے ساتھ ہی بارشوں و برف باری کا سلسلہ جاری ہے۔ گذشتہ ہفتے بھی صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سمیت دیگر علاقوں میں 4، 5 روز تک شدید بارش اور برف باری ہوئی جس کے باعث فی الوقت کئی علاقوں کو شدید سیلابی صورتحال کا سامنا ہے اور لسبیلہ و ارد گرد کے علاقوں کو آفت ذدہ قرار دیا جا چکا ہے۔

    یہ سیلابی صورتحال مقامی افراد کے نا عاقبت اندیشی اور صوبائی حکومت کی ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے رونما ہوئی۔ دو سال کے خشک سالی کے دور میں پانی کے ذخائر جن میں تالاب، ندی نالےاور ڈیم قابل ذکر ہیں ، مٹی سے بھر چکے تھے اور بارشوں کے بارے میں پہلے سے مطلع کیے جانے کے باوجود ان کی صفائی کی طرف توجہ نہیں دی گئی اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی پلاننگ کی گئی کے مستقبل میں جب بارشیں برسیں تو ان کے پانی کو زیادہ سے زیا دہ ذخیرہ کیا جائے تاکہ آئندہ خشک سالی کی صورت میں بر ترین حالات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ مگر ماضی کی طرح اس دفعہ بھی شاید یہ بارشیں ہمارے کسی کام نہیں آ سکیں گی اور گرمیوں کا آغاز ہوتے ہی بلوچستان سمیت ملک کے دیگر علاقوں کو ایک دفعہ پھر پانی کی شدید کمی، لوڈ شیڈنگ اور دیگر مسائل کا سامنا رہے گا۔

    واضح رہے کہ عالمی تنظیم برائے ماحولیات نے 2018 میں ہی یہ وارننگ جاری کردی تھی کہ 2019 کا موسم ِ گرما شدید ترین ہوگا اور ایل نینو( بحرا لکاہل کے پانیوں میں پیدا ہونے ولا بگاڑ) کی وجہ سے ہر علاقے کے موسم میں غیر معمولی تغیرات متوقع ہیں۔ یعنی بہت سے علاقوں میں بارشیں حد سے زیادہ برس کر شدید سیلابی صورتحال کا باعث بنیں گی تو ایشیاء سمیت ایک بڑے علاقے کو بارشوں کی کمی اور خشک سال کا سامنا رہے گا۔

    مگر ان تمام وارننگز کے باوجود ہماری مرکزی اور صوبائی حکومتیں کوئی قبل از وقت منصوبہ بندی کرنے سے قاصر رہیں اور فی الحال پورا ہفتہ موسلا دھار بارشوں کی بدولت بلوچستان کے علاوہ ملک کے دیگر علاقوں کو بھی سیلاب کا سامنا ہے۔ جبکہ شمالی علاقہ جات میں بھی غیر معمولی برف باری ریکارڈ کی گئی ہے جو مارچ سے درجۂ حرارت بڑھتے ہی پگھلنا شروع ہوجائے گی مگر پنجاب و سندھ کے متعدد دریا ؤں کی دو سال سے صفائی نہیں کی گئی اور برف کے پگھلتے ہی جب پانی دریاؤں کا رخ کریگا تو یہ دریا اس پانی کو مستقبل کے لیے ذخیرہ کرنے سے قاصر ہونگے اور ساریاپانی سیلاب کی صورت میں ضائع ہوجائیگا۔

    سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہماری حکومتوں کی نا اہلی اور ناعاقبت اندیشی کی سزا کب تک عوام کو ملتی رہے گی اور ہمیں کب شعور آئے گا۔ اگر حکومت ایک کے بعد دوسر ی قدرتی آفت سے نمٹنے سے قاصر ہے تو کیا عوام کو خود کو حالات پر چھوڑ دینا چاہیئے۔ یقینا اس وقت بلوچستان کے با شعور اور پڑھے لکھے طبقے کو آگے آکر اپنے طور پر کچھ کرنا ہوگا۔ کچھی کینال کا منصوبہ پانچ سال سے زیادہ عرصے سے نامکمل پڑا ہے اور عوام کو پانی کے ذخائر کے حوالے سے کوئی سہولت دینے سے قاصر ہے۔

    اگر مقامی افراد اپنے طور پر زیادہ سے زیادہ پانی کے ذخائر کا انتظام کریں اور خشک سالی کے دور میں پانی کی کفایت شعاری کے ساتھ بارشوں سے پہلے ذخائر کی صفائی کا بندوبست کریں تو کوئی شک نہیں کہ نہ صرف سیلابی صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑیگا بلکہ باشیں نہ ہونے کی صورت میں خشک سالی کا دورانیہ بھی زیادہ تباہ کن نہیں ہوگا۔

  • حوثی جنگجو یمنی شہریوں کو قحط کا شکار بنارہے ہیں، خالد بن سلمان

    حوثی جنگجو یمنی شہریوں کو قحط کا شکار بنارہے ہیں، خالد بن سلمان

    واشنگٹن : امریکا میں تعینات سعودی سفیر خالد بن سلمان نے کہا ہے کہ عرب اتحاد یمن میں حوثیوں کی مکمل پسپائی تک یمن کی معاونت جاری رکھے گا۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا میں تعینات سعودی عرب کے سفیر شہزادہ خالد بن سلمان نے سماجی رابطے کی ویب سایٹ پر ٹویٹ کیا ہے کہ جس میں ان کا کہنا تھا کہ حوثی جنگجؤ یمن کو قحط سے بچانے کے بجائے شہریوں کو بھوکا مار رہے ہیں۔

    خالد بن سلمان کا کہنا تھا کہ یمن میں برسرپیکار حوثی جنگجوؤں کی جانب سے جنگ زدہ ملک کے شہریوں کی امداد کے لیے بھیجا امدادی سامان لوٹ لیا جاتا ہے یا نذر آتش کردیا جاتا ہے اور حوثی اس کو ایک جنگی حربے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

    سعودی سفیر نے ٹویٹ میں کہا کہ ایرانی حمایت یافتہ حوثیوں کی لوٹ مار کے باوجود عرب اتحاد عالمی تنظیموں کی مدد سے یمن میں امدادی سرگرمیاں جاری رکھے گا اور انسانی بحران کے خاتمے کےلیے وسائل مہیا کرتا رہے گا۔

    خالد بن سلمان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کی قیادت میں کام کرنے والے عرب اتحاد کی جانب سے سویڈن میں ہونے والے امن مذاکرات اور معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسکی پاسداری کی لیکن حوثی جنگجوؤں نے معاہدے کی خلاف ورزی کی۔

    خالد بن سلمان نے سماجی رابطے کی ویب سایٹ کیے گئے ٹویٹ میں ایک ویڈیو بھی شیئر کی جس میں امدادی سامان کے گودام کو نذر آتش ہوتا ہوا دیکھا جاسکتا ہے، ٹویٹ میں ان کا کہنا تھا کہ کیا عالمی برادری سویڈن معاہدے کی پاسداری کو یقینی بنائے گی۔

    خیال رہے کہ اس سے قبل سعودی عرب کے سفیر خالد بن سلمان نے حوثیوں اور یمن کی آئینی حکومت کے در میان ہونے والے مذاکرات سے متعلق پیغام میں کہا  تھا کہ سعودی عرب یمن میں جاری سیاسی بحران کا پُر امن حل چاہتا ہے۔

    انہوں نے کہا تھا کہ سعودی حکومت حوثیوں کے مسلسل ٹال مٹول کے باوجود یمن کے سیاسی بحران کو مذاکرات کےذریعے حل پر پُرامید ہے۔

  • سال 2018: بلوچستان کے متعدد علاقے خشک سالی کی لپیٹ میں

    سال 2018: بلوچستان کے متعدد علاقے خشک سالی کی لپیٹ میں

    کوئٹہ: رواں برس صوبہ بلوچستان میں معمول سے نہایت کم بارشیں ہوئیں جس کے باعث متعدد علاقے خشک سالی کی لپیٹ میں آگئے۔

    تفصیلات کے مطابق صوبہ بلوچستان میں گزشتہ 2 دہائیوں سے بارشوں میں مسلسل کمی دیکھی جارہی ہے۔ محکمہ موسمیات کے اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2018 میں بارشوں میں مزید کمی دیکھی گئی۔

    محکمہ موسمیات کے مطابق بلوچستان میں سال بھر میں مجموعی طور پر نہایت کم بارشیں ہوئیں جس کے باعث صوبے کے 14 اضلاع خشک سالی کی لپیٹ میں آگئے۔

    بارشوں میں کمی کی وجہ سے رواں برس زراعت کا شعبہ بھی شدید متاثر رہا۔ دریاؤں میں پانی کی کمی کے باعث گرین بیلٹ اور خشک آبہ علاقوں میں بھی زرعی پیداوار معمول سے کم رہی۔

    موسمی تبدیلیوں اور کم ہوتے آبی ذخائر سے نمٹنے کے لیے رواں برس کوئی قابل ذکر اقدام نہیں اٹھایا گیا۔ نئی حکومت نے واٹر ایمرجنسی نافذ کردی تاہم کوئی بڑا ڈیم اس سال بھی مکمل نہ کیا جاسکا اور نہ ہی اینڈرڈ ڈیم منصوبے پر کوئی قابل ذکر پیشرفت ہوئی۔

    ماہرین کے مطابق صورتحال یہی رہی تو آئندہ برس صوبے کے بیشتر علاقوں میں قحط پڑنے کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔

  • تھرپارکر: خشک سالی اور غذائی قلت،30بچے دم توڑ گئے تعداد 500ہوگئی

    تھرپارکر: خشک سالی اور غذائی قلت،30بچے دم توڑ گئے تعداد 500ہوگئی

    تھرپارکر : سندھ کے سب سے بڑے ضلع تھرپارکر میں خشک سالی، قحط کے باعث غذائی قلت اور وبائی امراض نے ڈیرہ جما لیا، مٹھی کے اسپتال میں30بچے دم توڑ گئے تعداد 500تک جاپہنچی۔

    تفصیلات کے مطابق تھر میں اس سال پھر خشک سالی اور قحط کے باعث غذائی قلت وبائی امراض میں اضافہ ہوگیا ہے، پانی اور غذا کی شدید قلت سے تنگ آکر مقامی افراد اپنے مویشیوں کے ہمراہ نقل مکانی پر مجبور ہوگئے۔

    یہی نہیں غذائی قلت اور وبائی امراض کے باعث بچوں کی اموات کا سلسلہ بھی تاحال جاری ہے، ضلع تھرپارکر میں وائرل انفیکشنز اور غذائی قلت کا راج بدستور مسلط ہے، آج بھی مقامی سول اسپتال میں علاج کے لیے لائے جانے والے دو بچے انتقال کر گئے۔

    مزید پڑھیں : صحرائے تھر ایک بار پھر قحط سالی کا شکار، لوگوں نے نقل مکانی شروع کردی

    رواں ماہ کے دوران مٹھی اسپتال میں30بچے دم توڑ گئے، سال2018کے دوران جاں بحق ہونے والے بچوں کی تعداد500ہوگئی، یہ بچے غذائی قلت کا شکار ہیں، جس کی وجہ سے مختلف بیماریوں کا آسانی سے شکار بن جاتے ہیں۔

  • صحرائے تھر ایک بار پھر قحط سالی کا شکار، لوگوں نے نقل مکانی شروع کردی

    صحرائے تھر ایک بار پھر قحط سالی کا شکار، لوگوں نے نقل مکانی شروع کردی

    تھرپارکر: تھر میں شدید قحط سالی کے باعث ہزاروں افراد پانی کی بوند بوند کو ترس گئے، عمر کوٹ میں بھی بارشیں کم ہونے متاثرین نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوگئے۔

    تفصیلات کے مطابق صحرائے تھر ایک بار پھر قحط سالی کی لپیٹ میں آگیا، عمر کوٹ میں بھی بارشیں کم ہونے کے باعث ہزاروں افراد نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوگئے۔

    تھر پارکر سے لے کر عمر کوٹ کےصحرائی علاقے بوندبوند پانی کو ترس گئے ہیں، رواں سال شدید قحط سالی سے ان کے مویشی بھی مرنے لگے، ہزاروں مویشیوں کی جانوں کو اب بھی خطرہ لاحق ہے، انسانی جانوں کے ساتھ ساتھ نایاب نسل کے مور اور پرندے بھی مختلف امراض کا شکار ہورہے ہیں۔

    حکومت سندھ نےاب تک کوئی نوٹس نہیں لیا ہے، مویشی مالکان کا کہنا ہے کہ علاقے میں جانوروں کو کھلانے کیلئے چارہ نہیں ہے اب وہ بارانی علاقوں کی طرف جائیں گے۔

    صوبائی حکومت نے ہنگامی بنیاد پر تھر میں امدادی سرگرمیاں شروع نہیں کیں تو آنے والے دنوں میں حالات مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے۔

  • کلائمٹ چینج مایا تہذیب کے خاتمے کی وجہ

    کلائمٹ چینج مایا تہذیب کے خاتمے کی وجہ

    مایا تہذیب ایک قدیم میسو امریکی تہذیب ہے جو شمال وسطی امریکہ میں پھیلی ہوئی تھی۔ یہ تہذیب موجودہ میکسیکو، ہونڈراس اور گوئٹے مالا کے علاقے پر محیط تھی۔

    یہ تہذیب حضرت عیسیٰ کی آمد سے کئی سو سال پہلے سے دنیا میں موجود تھی تاہم اس کا عروج 250 عیسوی کے بعد شروع ہوا جو تقریباً نویں صدی تک جاری رہا۔

    مایا تہذیب کے لوگ نہایت ذہین اور ترقی یافتہ تھے۔ یہ تہذیب میسو امریکا کی دیگر اقوام سے یوں ممتاز تھی کہ انہوں نے بہت پہلے لکھنا سیکھ لیا تھا۔ ان کا اپنا طرز تحریر اور رسم الخط تھا۔

    ان کی ایک اور خصوصیت ریاضی اور علم فلکیات میں ان کی مہارت تھی۔ مایا دور کی تعمیر کردہ عمارتوں کی پیمائش اور حساب آج بھی ماہرین کو دنگ کردیتی ہے۔ یہ قوم فن اور تعمیرات کے شعبے میں بھی یکتا تھی۔


    مایا تہذیب کا زوال

    قدیم دور کی نہایت ترقی یافتہ یہ تہذیب کیوں زوال پذیر ہوئی، یہ سوال آج تک تاریخ کے پراسرار رازوں میں سے ایک تھا، تاہم کچھ عرصہ قبل کی جانے والی ایک تحقیق نے کسی حد تک اس راز سے پردہ اٹھا دیا ہے۔

    مایا قوم ہسپانویوں کے حملے کا شکار بھی بنی اور ہسپانویوں نے انہیں بے تحاشہ نقصان پہنچایا، تاہم وہ اس قوم کو مکمل طور پر زوال پذیر کرنے میں ناکام رہے۔

    محققین کے مطابق ہسپانویوں کے قبضے کے دوران اور بعد میں بھی اس قوم کی ترقی کا سفر جاری تھا۔

    لیکن وہ کون سی وجہ تھی جس نے اس ذہین و فطین قوم کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی تہذیب کے خاتمے کی عمومی وجوہات بیرونی حملہ آوروں کے حملے، خانہ جنگی، یا تجارتی طور پر زوال پذیر ہونا ہوتے ہیں۔

    تاہم ایک اور وجہ بھی ہے جس پر اس سے قبل بہت کم تحقیق کی گئی یا اسے بہت سرسری سی نظر سے دیکھا گیا۔

    سنہ 1990 سے جب باقاعدہ طور پر موجودہ اور قدیم ادوار کے موسموں کا ریکارڈ رکھنا شروع کیا گیا تب ماہرین پر انکشاف ہوا کہ موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج اس عظیم تہذیب کے زوال کی وجہ بنا۔

    مزید پڑھیں: تاریخی دریائے نیل کلائمٹ چینج کی ستم ظریفی کا شکار

    ماہرین کا کہنا ہے کہ سنہ 250 عیسوی سے 800 عیسوی تک یہ تہذیب اپنے عروج پر تھی۔ یہ وہ دور تھا جب یہاں بے تحاشہ بارشیں ہوتی تھیں، اور یہاں کی زمین نہایت زرخیز تھیں۔

    تاہم حالیہ تحقیق سے انکشاف ہوا کہ سنہ 820 عیسوی میں یہاں خشک سالی اور قحط کا باقاعدہ سلسلہ شروع ہوگیا جو اگلے 95 سال تک جاری رہا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ مایا تہذیب کے زیادہ تر شہر اسی عرصے کے دوران زوال پذیر ہونا شروع ہوئے۔ یہ نویں صدی کا شدید ترین کلائمٹ چینج تھا جس نے ایک عظیم تہذیب کو زوال کی طرف گامزن کردیا۔

    تاہم اس قحط سے تمام شہر متاثر نہیں ہوئے۔ کچھ شہر اس تباہ کن قحط کے عالم میں بھی اپنے قدموں پر کھڑے رہے۔

    تحقیق کے مطابق نویں صدی کا یہ قحط پورے خطے میں نہیں آیا بلکہ اس نے مایا تہذیب کے جنوبی حصوں کو متاثر کیا جہاں اس وقت گوئٹے مالا اور برازیل کے شہر موجود ہیں۔

    اس عرصے کے دوران شمالی شہر معمول کے مطابق ترقی کرتے رہے اور وہاں کاروبار زندگی بھی رواں رہا۔

    ماہرین موسم کے اس انوکھے تغیر پر مشکوک ہیں کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ موسمیاتی تغیر صرف ایک حصے کو متاثر کرے جبکہ دوسرا حصہ ذرا بھی متاثر نہ ہو، تاہم وہ اس کلائمٹک شفٹ کی توجیہہ تلاش کرنے میں ناکام رہے۔


    عظیم قحط

    مایا تہذیب کے بارے میں حال ہی میں کی جانے والی اس تحقیق کے مطابق نویں صدی کا یہ قحط جب اختتام پذیر ہوا تو دسویں صدی میں موسم ایک بار پھر سے معمول پر آنے لگا۔ قحط سے متاثر شہر ایک بار پھر خوشحال اور زرخیز ہونے لگے۔

    تاہم یہ بحالی عارضی تھی۔

    گیارہویں صدی کے آغاز سے ہی ایک ہولناک اور تباہ کن قحط اس خطے میں در آیا کہ جو 2 ہزار سال کی تاریخ کا بدترین قحط تھا۔ ماہرین نے اس قحط کو عظیم قحط کا نام دیا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ قحط اس تہذیب کے لیے ایک کاری وار تھا جس کے بعد یہ تہذیب سنبھل نہ سکی اور بہت جلد اپنے زوال کو پہنچ گئی۔

    مضمون بشکریہ: بی بی سی ارتھ


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • زمین کو صحرا میں تبدیل ہونے سے بچانے کا عالمی دن

    زمین کو صحرا میں تبدیل ہونے سے بچانے کا عالمی دن

    آج دنیا بھر میں صحرا زدگی اور قحط سے حفاظت کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد خشک سالی اور قحط کے اثرات میں کمی اور صحرا زدگی کے عمل کی روک تھام سے متعلق آگاہی و شعور بیدار کرنا ہے۔

    صحرا زدگی ایک ایسا عمل ہے جو ایک عام زمین کو آہستہ آہستہ خشک اور بنجر کردیتا ہے جس کے بعد ایک وقت ایسا آتا ہے کہ یہ مکمل طور پر صحرا میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

    یہ عمل اس وقت شروع ہوتا ہے جب کسی علاقے میں خشک سالی پیدا ہوجائے، کسی مقام سے بڑے پیمانے پر جنگلات کو کاٹ دیا جائے، یا زراعت میں ایسے ناقص طریقہ کار اور کیمیائی ادویات استعمال کی جائیں جو زمین کی زرخیزی کو ختم کر کے اسے بنجر کردیں۔

    براعظم افریقہ اس وقت سب سے زیادہ صحرا زدگی سے متاثر ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق دنیا میں اس وقت 25 کروڑ افراد صحرا زدگی کے نقصانات سے براہ راست متاثر ہو رہے ہیں۔ علاوہ ازیں 1 سو ممالک اور 1 ارب افراد صحرا زدگی کے خطرے کا شکار ہوجانے کی زد میں ہیں۔

    مزید پڑھیں: صحرا میں جنگل اگانے کا حیرت انگیز طریقہ

    اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت کے مطابق دنیا بھر میں ہر 1 منٹ میں 23 ایکڑ زمین صحرا زدگی کا شکار ہو کر بنجر ہو رہی ہے۔

    عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق دنیا بھر میں جاری خانہ جنگیاں بھی صحرا زدگی کو رونما کرنے کی ایک بڑی وجہ ہیں جو کسی علاقے کو پہلے قحط زدہ بناتی ہیں، زراعت کو نقصان پہنچاتی ہیں، پھر بالآخر وہ زمین صحرا میں تبدیل ہوجاتی ہے جہاں کچھ بھی اگانا ناممکن ہوجاتا ہے۔

    علاوہ ازیں دنیا بھر کے موسموں میں ہونے والا تغیر یعنی کلائمٹ چینج، شدید گرم درجہ حرارت اور پانی کے ذخائر میں تیزی سے ہوتی کمی بھی زمین کو خشک کر رہی ہے اور صحرا زدگی کا عمل تیز ہوتا جارہا ہے۔

    ماہرین کے مطابق صحرا زدگی سے بچنے کا حل یہ ہے کہ زمینوں پر زیادہ سے زیادہ درخت اگائے جائیں تاکہ یہ زمین کو بنجر ہونے سے روک سکیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • سنہ 2025 تک پاکستان میں خشک سالی کا امکان

    سنہ 2025 تک پاکستان میں خشک سالی کا امکان

    اسلام آباد: پاکستان کونسل برائے تحقیقِ آبی ذخائر (پی سی آر ڈبلیو آر) نے متنبہ کیا ہے کہ سنہ 2025 تک پاکستان میں پانی کی شدید قلت واقع ہوجائے گی۔

    کونسل کی جانب سے جاری کی جانے والی حالیہ تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا کہ سنہ 1990 میں پاکستان ان ممالک کی صف میں آگیا تھا جہاں آبادی زیادہ اور آبی ذخائر کم تھے جس کے باعث ملک کے دستیاب آبی ذخائر پر دباؤ بڑھ گیا تھا۔

    سنہ 2005 میں پاکستان پانی کی کمی والے ممالک کی صف میں آکھڑا ہوا۔ اب ماہرین کے مطابق یہ صورتحال مزید جاری رہی تو بہت جلد پاکستان میں شدید قلت آب پیدا ہوجائے گی جس سے خشک سالی کا بھی خدشہ ہے۔

    یاد رہے کہ یہ کونسل وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے زیر سرپرست ہے جو آبی ذخائر کے مختلف امور اور تحقیق کی ذمہ دار ہے۔

    کونسل کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس صورتحال سے بچنے کے لیے فوری طور پر اس کا حل تلاش کرنے کی ضروت ہے۔

    پاکستان پانی کی کمی کا شکار ملک

    واضح رہے کہ پاکستان دنیا کے ان 17 ممالک میں شامل ہے جو پانی کی قلت کا شکار ہیں۔

    پاکستان کے قیام کے وقت ملک میں ہر شہری کے لیے 5 ہزار 6 سو کیوبک میٹر پانی تھا جو اب کم ہو کر 1 ہزار کیوبک میٹر رہ گیا ہے اور سنہ 2025 تک یہ 8 سو کیوبک میٹر رہ جائے گا۔

    مزید پڑھیں: پاکستان میں صاف پانی کا حصول خواب بن گیا

    گزشتہ برس انسٹی ٹیوٹ فار پالیسی ریفارمز نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں متنبہ کیا تھا کہ ملک میں پانی کی کمی بجلی کی کمی سے بھی بڑا مسئلہ بن چکا ہے اور حکومت کو فوری طور پر اس طرف توجہ دینا ہوگی۔

    رپورٹ کے مطابق مالی سال 16-2015 میں زرعی پیدوار میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی تھی جس کی ایک بڑی وجہ پانی کی کمی تھی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • تھر میں قحط اور وبائی امراض، پاک فوج کا میڈیکل کیمپ قائم

    تھر میں قحط اور وبائی امراض، پاک فوج کا میڈیکل کیمپ قائم

    کراچی: صحرائے تھر میں قحط کی صورتحال برقرار ہے۔ تھری عوام کو امداد فراہم کرنے کے لیے پاک فوج کی جانب سے میڈیکل کیمپ قائم کیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق تھر میں قحط کی صورتحال تاحال برقرار ہے جس کی وجہ سے اموات اور وبائی امراض کا سلسلہ طول پکڑ گیا ہے۔ سردیاں ختم ہوتے ہی تھر میں وبائی امراض بھی پھوٹ پڑے۔

    بھوک اور پیاس سے بے حال تھری باشندوں نے نقل مکانی بھی شروع کردی ہے۔ تھر میں قائم اسپتال حکومتی عدم توجہی کے باعث سنسان پڑے ہیں جبکہ ادویات ناپید ہیں۔

    اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے پاک فوج نے تھر کے متاثرہ گاؤں واؤڑی دورا میں میڈیکل کیمپ قائم کیا ہے۔ کیمپ کے تحت غذائی قلت کا شکار متاثرین کو طبی امداد اور دوائیں فراہم کی گئیں۔

    بیمار افراد کو میڈیکل کیمپ تک لانے اور لے جانے کے لیے بلا معاوضہ ٹرانسپورٹ سروس کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔ میڈیکل کیمپ میں جدید سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا ہے۔

    یاد رہے کہ اس سے قبل بھی تھر میں قحط کی صورتحال پیش آنے کے بعد پاک فوج کی جانب سے امدادی کارروائیاں عمل میں لائی گئیں تھی جس کے تحت راشن، پانی اور طبی امداد فراہم کی گئی۔

  • تھرمیں اموات کی تعداد پچھترہوگئی، وفاقی حکومت متحرک

    تھرمیں اموات کی تعداد پچھترہوگئی، وفاقی حکومت متحرک

    مٹھی: تھر میں موت کا رقص جاری،پچھتربچوں کی اموات کے بعد وفاقی حکومت نیند سے بیدار ہوگئی،ماروی میمن نے تھرکی موجودہ صورتحال کا ذمہ دار سندھ حکومت کو قراردیدیا۔

    تھرمیں قحط سالی معصوم زندگیوں کے چراغ گل کرنے کے درپے ہے جہاں اتوار کو مزید نو بچے قحط سالی کا شکار ہوکر دم توڑ گئے، جس کے بعد تھر میں مرنے والے بچوں کی تعداد پچھہتر ہوگئی ہے، وزیراعظم نوازشریف کی ہدایت پر رکن قومی اسمبلی ماروی میمن تھرپارکرپہنچ گئیں لیکن پوائنٹ اسکورنگ سے باز نہ رہیں۔

    تھرکی موجودہ صورتحال کی ذمہ دار سندھ حکومت کو ٹھہراتے ہوئے ماروی میمن کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت دعوؤں اور وعدوں کے سوا تھرکے رہائشیوں کیلئے کچھ نہیں کررہی۔

    انہوں نے کہا کہ وزیراعظم تھرکے عوام کے لئے بے حد فکرمند ہیں اور تھر میں غذائی قلت کو پوراکرنے کیلئے جلد اسپیشل پیکج کااعلان کریں گےان کہنا تھا کہ وہ تھر کی صورتحال کا مکمل جائزہ لے کر رپورٹ وزیراعظم کو پیش کریں گی۔۔