Tag: earth

  • زمین پر موجود زندگی کو درپیش ممکنہ خطرات کیا ہیں؟

    زمین پر موجود زندگی کو درپیش ممکنہ خطرات کیا ہیں؟

    تحریر: ملک شعیب

    نظام شمسی کے 8 سیاروں میں سے، زمین ترتیب کے لحاظ سے تیسرا چٹانی سیارہ ہے اور مشاہدہ کائنات میں صرف زمین ہی واحد سیارہ ہے جہاں زندگی موجود ہے۔ زمین پر زندگی کیسے وجود میں آئی، معدنیات کیسے وجود میں آئے، پانی کہاں سے آیا، مقناطیسی میدان کیسے بنا، فضاء کیسے بنی، پہاڑ کیسے بنے، سمندر کیسے وجود میں آئے، آتش فشاں کیسے بنے، دریا کیسے بنے اور جنگلات کیسے وجود میں آئے؟ یہ سب الگ الگ موضوعات ہیں۔

    آج میں اپنے سیارے زمین کو لاحق خطرات اور اس پر پھلنے پھولنے والی زندگی پر بات کروں گا۔

    زمین کو اپنے آغاز ہی سے بہت سی سختیوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اپنی ابتدا میں یہ بہت گرم تھی لیکن آہستہ آہستہ ٹھنڈی ہوتی چلی گئی اور پھر مختلف موسمی اور ارضیاتی تبدیلیوں کا سامنا کرتے ہوئے اس قابل ہوئی کے زندگی نے اس پر جنم لیا۔ لیکن آج انسانی آبادی میں مسلسل اضافے، سائنسی ترقی اور وسائل کے بے دریغ استعمال کے باعث زمین اپنا قدرتی وجود آہستہ آہستہ کھو رہی ہے۔ قدرت کا ایک ایسا نظام ہے جو توازن برقرار رکھتا ہے اور اس میں خلل ڈالنے والی ہر شے کو تباہ کر دیتی ہے۔

    تاہم، ہماری زمین کو اس وقت متعدد خطرات کا سامنا ہے جو درج ذیل ہیں:

    1۔ ماحولیاتی آلودگی:

    اس وقت زمین کو سب سے زیادہ نقصان ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ بنیادی طور پر فضائی آلودگی، جو مختلف گیسوں پر مشتمل ہوتی ہے، اور انسانی صحت اور ماحولیات کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ یہ آلودگی زمین کی فضا میں موجود اوزون لہر کو کم زور کر رہی ہے اور زمین کے درجہ حرارت میں اضافے کا سبب بن رہی ہے۔ مزید برآں، آبی اور زمینی آلودگی بھی زمینی نظام کے لیے خطرہ بن رہی ہے۔

    2۔ موسمیاتی تبدیلی:

    بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ سے گلیشیئر پگھل رہے ہیں۔ مختلف خطوں کو سمندر کی سطح میں اضافے اور موسم کی تبدیلیوں (جیسے لا نینا اور ال نینو) کی وجہ سے بے وقت بارشوں، طوفانوں اور خشک سالی جیسے خطرات کا سامنا ہے۔

    3۔ جنگلات کی کٹائی:

    جنگلات کی بڑھتی ہوئی کٹائی اور خشک سالی آگ کا باعث بن رہی ہے۔ یہ زمین کی فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ میں اضافے اور زمین کے ماحولیاتی نظام کو برقرار رکھنے والے جنگلی حیات اور پھول دار پودوں کے غائب ہونے کا باعث بن رہا ہے۔ یہ عمل ماحولیاتی توازن کو تباہ کر رہا ہے۔

    4۔ آبادی میں اضافہ:

    زمین پر آبادی میں مسلسل اضافہ کرہ ارض کے وسائل پر دباؤ ڈال رہا ہے، جس کے نتیجے میں خوراک، پانی اور توانائی جیسے وسائل میں کمی واقع ہو رہی ہے۔

    5۔ قدرتی وسائل کا استحصال:

    آبادی میں اضافے کی وجہ سے قدرتی وسائل تیزی سے ختم ہو رہے ہیں، موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے آنے والی خشک سالی کی وجہ سے فصلوں کی پیداوار کم ہو رہی ہے۔ پانی کا اندھا دھند استعمال زیر زمین ذخائر کو ختم کر رہا ہے، جس سے ارضیاتی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔

    6۔ بڑھتی ہوئی صنعتی اور سائنسی ترقی:

    سائنسی ترقی نے جہاں انسانیت کو فائدہ پہنچایا ہے، وہیں اس سے ماحولیات کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ صنعتی آلودگی اور خلا میں بھیجے گئے مختلف خلائی مشنز کا رہ جانے والا ملبہ (جو زمین کے گرد چکر لگا رہا ہے) زمین پر زندگی کے لیے اہم خطرات کا باعث ہے۔

    7۔ جوہری خطرات:

    جوہری ہتھیاروں کے مسلسل پھیلاؤ اور جوہری توانائی کا استعمال زمین پر موجود ہر طرح کی زندگی کے لیے شدید خطرہ ہے۔

    8۔ شہابیوں کا خطرہ:

    مریخ اور مشتری کے درمیان موجود سیارچوی پٹی میں موجود میٹیورائٹس، جن کا سائز ایک میٹر سے 800 کلومیٹر یا اس سے زیادہ ہے، زمین کے لیے خطرہ ہیں۔ یہ شہاب ثاقب زمین کے مدار میں داخل ہو سکتے ہیں اور ممکنہ طور پر کرہ ارض کو تباہ کر سکتے ہیں، جیسا کہ ماضی میں الکا کے اثرات کی وجہ سے ڈائنوسار کے معدوم ہونے کا ثبوت ہے۔

    زمین پر ان بڑھتے ہوئے مسائل کی وجہ سے ہمارے سیارے پر زندگی شدید خطرے میں ہے۔ اگر حکومتوں نے ماحولیاتی اور ارضیاتی سائنس دانوں کی طرف سے اجاگر کیے گئے خطرات پر توجہ نہیں دی، تو وہ وقت دور نہیں جب زمین پر موجود زندگی سسك سسك کر ختم ہو جائے گی۔

  • گوگل میپ استعمال کرنے والوں کیلئے اہم خبر

    گوگل میپ استعمال کرنے والوں کیلئے اہم خبر

    گوگل ارتھ میں تاریخی تصاویر کا اضافہ کیا گیا ہے، اس کے ساتھ ساتھ 80 سے زائد مقامات پر اسٹریٹ ویو کو اپ ڈیٹ کرتے ہوئے آرٹیفشل انٹیلی جینس (اے آئی) کی مدد سے زیادہ شفاف اور صاف تصاویر فراہم کی گئی ہیں۔

    اس حوالے سے گوگل انتطامیہ کا کہنا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ دنیا تیزی سے تبدیل ہورہی ہے شہر پھیلتے جا رہے ہیں، ان تبدیلیوں کے پیش نظر صارفین کی سہولت کیلئے گوگل ارتھ اور اسٹریٹ ویو میں نئی اپ ڈیٹس متعارف کرائی جارہی ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق اس مقصد کے لیے گوگل نے اپنی نئی کیمرا ٹیکنالوجی کو استعمال کیا ہے جس کی مدد سے صارفین گھر بیٹھے مختلف مقامات کا نظارہ اور اس سے متعلق تفصیلات و تصاویر باآسانی دیکھ سکیں گے۔

    Google Maps

    کمپنی نے بتایا ہے کہ گوگل کی جانب سے گوگل ارتھ پر بھی توجہ مرکوز کی گئی ہے اب صارفین بہت جلد ہمارے سیارے کے ماضی میں جھانک سکیں گے۔

    اس کے لیے تاریخی تصاویر (ہسٹوریکل امیجری) نامی فیچر گوگل ارتھ کے ویب ورژن میں متعارف کرایا جائے گا۔

    اس کی مدد سے صارفین گزشتہ 80 سال کی سیٹلائیٹ اور فضائی تصاویر کو دیکھ کر سمجھ سکیں گے کہ ہمارے سیارے پر 8 دہائیوں دوران کیا کچھ تبدیل ہوا ہے۔

    گوگل کمپنی کے مطابق گوگل میپس اور ارتھ پر تصاویر کا معیار آرٹی فیشل انٹیلی جنس (اے آئی) ٹیکنالوجی کی مدد سے مزید بہتر بنایا جارہا ہے۔

  • جہاز ہوا میں معلق ہو تو کیا اس کے نیچے موجود مقام آگے بڑھے گا؟

    جہاز ہوا میں معلق ہو تو کیا اس کے نیچے موجود مقام آگے بڑھے گا؟

    تحریر: ملک شعیب

    سوال: جہاز یا ہیلی کاپٹر ایک جگہ کھڑا ہو جائے تو کیا اس کے نیچے سے زمین یا مقام آگے بڑھ جائے گا؟

    ہماری زمین اپنی فضا کے ساتھ سورج کے گرد چکر لگا رہی ہے اور اپنے محور میں بھی گردش کر رہی ہے۔ زمین کی کشش ثقل ہر چیز کو اپنے مرکز یعنی کور کی جانب کھینچ رہی ہے، جس کی وجہ سے زمین کے اندر موجود ہر شے زمین کے دائرے سے باہر نہیں نکل سکتی۔

    جہاز اڑتا ہے لیکن وہ زمین کی فضا کے اندر ہے اور کشش ثقل کی قید میں ہے، لیکن اس میں موجود توانائی جہاز کا توازن قائم رکھے اسے آگے بڑھا رہی ہے، جس کی وجہ سے جہاز زمین پر گرتا نہیں ہے بلکہ آگے بڑھتا ہے۔

    جب تک ہر شے زمین کی کشش ثقل کی قید میں ہوگی تب تک وہ زمین سے باہر نہیں جا سکتی۔

    لہٰذا اس سوال کا جواب یہ ہے کے اگر جہاز ہوا میں معلق ہو جائے تو اس کے نیچے جو مقام ہوگا، وہ آگے نہیں بڑھے گا۔ وجہ پھر وہی ہے کہ ہر شے جو زمین پر ہے یا ہوا میں معلق ہے، وہ ایک ڈوم میں قید ہے۔

    اسی طرح چلتی ہوئی ٹرین یا بس کو بھی ایک ڈوم سمجھیں۔ جب تک ایک ڈرون ٹرین یا بس میں ایک جگہ کھڑا رہے گا، تو اس کے نیچے سے ٹرین یا بس آگے نہیں بڑھ جائے گی بلکہ ڈرون کھڑی حالت میں بھی ٹرین یا بس کے ساتھ ہی آگے بڑھے گا۔

    جیسے ہی ڈرون، ٹرین یا بس کے فریم آف ریفرنس سے باہر نکلے گا تو دونوں کے راستے الگ الگ ہو جائیں گے۔ اسی طرح جو بھی چیز زمین سے باہر نکلے گی اس کے اور زمین کے راستے الگ الگ ہو جائیں گے۔ جس طرح جیمز ویب ٹیلی اسکوپ زمین کی حدود سے باہر ہے لیکن سورج کی کشش ثقل میں مقید ہے۔

  • سائنس دانوں کی تلاش رنگ لے آئی، زمین جیسا ایک اور سیارہ دریافت ہو گیا

    سائنس دانوں کی تلاش رنگ لے آئی، زمین جیسا ایک اور سیارہ دریافت ہو گیا

    برسوں سے زمین جیسا سیارے کی تلاش میں سرگرداں رہنے والے سائنس دانوں کی تلاش رنگ لے آئی۔

    خلائے بسیط میں بہت دور فاصلے پر زمین کے حجم کے برابر ایک نیا سیارہ دریافت ہو گیا ہے، سائنس دانوں کے دریافت کردہ نئے سیارے پر انسانی زندگی کے لیے موافق درجہ حرارت پایا گیا ہے۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ سیارے کی سطح کا درجہ حرارت 42 ڈگری ہے لیکن انسانی رہائش کے لیے سیارے کے ماحول کے بارے میں کچھ کہنا ابھی قبل از وقت ہے۔

    40 نوری سال کی دوری پر واقع سیارہ ہر 12 سے 13 دن میں اپنے میزبان ستارے کے گرد چکر لگاتا ہے۔

    اس سلسلے میں جمعرات کو رائل آسٹرونومیکل سوسائٹی کے ماہانہ نوٹس میں ایک تحقیق شائع ہوئی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ اس نئے سیارے کا نام گلیز 12 بی (Gliese 12 b) رکھا گیا ہے۔ سائنس دانوں نے کہا کہ یہ سیارہ آج تک پایا جانے والا سب سے قریب ترین، اور انسانی منتقلی کے حوالے سے معتدل، اور زمین کے سائز کا سیارہ ہے۔

    اسے سائنس دانوں کی بین الاقوامی ٹیم نے ناسا کے Transiting Exoplanet Survey Satellite (TESS) کا استعمال کرتے ہوئے دریافت کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ یہ ان چند چٹانی سیاروں میں سے ایک ہے جن پر انسانوں کے زندہ رہنے کا امکان موجود ہے، تاہم یہ سیارہ 40 نوری سال کے فاصلے پر ہے۔

    گلیز 12 بی زمین سے تھوڑا چھوٹا ہے، یہ ایک ایگزو پلینٹ (exoplanet) ہے، یعنی ہمارے نظام شمسی سے باہر کا سیارہ۔ یہ ایک چھوٹے اور ٹھنڈے سرخ بونے ستارے (ڈوارف اسٹار) کے گرد چکر لگاتا ہے۔ یہ سیارہ زہرہ سے بھی کچھ مماثلت رکھتا ہے، زہرہ کو اکثر زمین کا ’’جڑواں‘‘ کہا جاتا ہے کیوں کہ ان میں کئی مماثلتیں ہیں۔

    سال حیرت انگیز طور پر چھوٹا

    نو دریافت سیارے کی زمین پر ایک سال محض 12.8 دن کا ہے، کیوں کہ یہ سیارہ اپنے ستارے یعنی سورج کے نہایت قریب سے چکر لگاتا ہے، سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ زمین سورج سے جتنی توانائی حاصل کرتا ہے، یہ نیا سیارہ اپنے سورج سے تقریباً 1.6 گنا زیادہ توانائی حاصل کرتا ہے۔

    اور اس سیارے کی سطح کا اوسط درجہ حرارت زمین سے صرف 50 ° F زیادہ ہے۔

    مطالعے میں کہا گیا ہے کہ یہ جاننے کے لیے کہ آیا نو دریافت سیارے پر انسانی زندگی کو سہارا مل سکتا ہے یا نہیں؟ سائنس دانوں کو یہ معلوم کرنے کی ضرورت ہوگی کہ کیا اس کا ماحول زمین جیسا ہے، جس کی سطح پر پانی ہو؟ کیوں کہ پانی سیارے میں رہائش کے لیے ضروری ہے۔

    تاہم سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ انھیں ابھی تک اس سیارے پر موجود ماحول کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہے۔

  • خلا میں اگائے گئے ٹماٹر زمین پر لائے جائیں گے

    خلا میں اگائے گئے ٹماٹر زمین پر لائے جائیں گے

    ایک طویل عرصے سے خلا میں مختلف تجربات جاری ہیں اور ایسے ہی ایک تجربے کے تحت خلا میں اگائے گئے ٹماٹر آج زمین پر لائے جارہے ہیں۔

    خلا میں اگائے گئے ٹماٹروں کو زمین پر لانے کا سفر شروع ہوگیا ہے جو آج زمین پر پہنچ جائیں گے۔

    امریکی خلائی ایجنسی ناسا کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر خلا کے اندر لیب میں بنائے گئے ٹماٹروں کو زمین پر لایا جارہا ہے۔

    ناسا کے اعلان کے مطابق خلائی جہاز سائنسی تجربات اور دیگر سامان لے کر آج زمین پر پہنچے گا۔

    امریکی خلائی ادارے ناسا نے گزشتہ برس انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن میں ٹماٹر اگانے کے منصوبے پر کام شروع کیا تھا۔

  • ایک ہزار سال بعد چاند آج رات پھر سے۔۔

    ایک ہزار سال بعد چاند آج رات پھر سے۔۔

    آج رات چاند زمین کے قریب ترین آئے گا اور یہ نظارہ ایک ہزار سال بعد رونما ہورہا ہے۔

    ایک رپورٹ کے مطابق 992 سال بعد پہلی بار 21 جنوری 2023 کو (یعنی آج) نیا چاند زمین کے قریب ترین آئے گا، 21 جنوری کو نیا چاند زمین سے 2 لاکھ 21 ہزار 561 میل دور ہوگا اور ایسا آخری بار 3 دسمبر 1030 کو ہوا تھا۔

    زمین سے چاند کی سب سے زیادہ دوری 4 جنوری 2023 کو ہی دیکھنے میں آئی تھی جب زمین سورج کے قریب تھی۔

    رپورٹ کے مطابق آئندہ نیا چاند 20 جنوری سنہ 2368 کو زمین کے اتنے قریب آئے گا، ماہرین کے مطابق لگ بھگ ایک ہزار سال بعد نیا چاند زمین کے قریب ترین آرہا ہے مگر وہ ہمیں نظر نہیں آسکے گا۔

    البتہ 22 جنوری کو آپ آسمان پر زہرہ اور زحل کو ضرور ایک دوسرے سے جڑے ہوئے (دوربین سے) دیکھ سکتے ہیں۔

    نئے چاند کے ساتھ نئے چینی سال کا آغاز بھی ہوگا اور یہ خرگوش کا سال ہے۔

  • 40 سال تک خلا میں رہنے والا سیٹلائٹ زمین پر گر پڑا

    امریکی خلائی ادارے ناسا کا ایک سیٹلائٹ تقریباً 40 سال تک زمین کے گرد چکر لگانے کے بعد الاسکا کے ساحل کے قریب بغیر کسی نقصان کے گر گیا۔

    ارتھ ریڈی ایشن بجٹ سیٹلائٹ (ای آر بی ایس) نامی سیٹلائٹ کو 1984 میں خلا میں بھیجا گیا تھا جو اتوار کی رات گئے الاسکا سے چند سو میل دور بیرنگ سمندر کے اوپر سے گزرا، سیٹلائٹ کے گرنے والے ملبے سے کسی قسم کے نقصان کی کوئی اطلاع نہیں ملی۔

    ناسا کے مطابق سیٹلائٹ کے کام کا متوقع دورانیہ 2 سال کا تھا تاہم اس کے بعد بھی اس کو متحرک رکھا گیا اور وہ سنہ 2005 تک اوزون اور ماحولیات کے حوالے سے مختلف معلومات ادارے تک پہنچاتا رہا۔

    سیٹلائٹ جائزہ لیتا رہا کہ زمین سورج سے کیسے توانائی جذب کرتی ہے۔

    امریکا کی پہلی خاتون خلا باز سیلی رائیڈ نے روبوٹ آرم کا استعمال کرتے ہوئے اس سیٹلائٹ کو مدار میں چھوڑا تھا۔

    اس مشن میں امریکی کی پہلی سپیس واک بھی شامل تھی جو پہلی بار کیتھرین سلیون نے کی تھی، یہ امریکا کی تاریخ میں پہلی بار تھا کہ 2 خلا نورد خواتین ایک ساتھ خلا میں گئی تھیں۔

  • سنہ 2025 تک ڈائنو سار واپس آجائیں گے؟

    سنہ 2025 تک ڈائنو سار واپس آجائیں گے؟

    ڈائنو سارز کا زمین پر ہونا خاصا خوفناک خیال ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈائنو سار زمین پر واپس بھی آسکتے ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق جراسک پارک سے متاثر سائنس دان کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں 2025 تک دنیا میں ڈائنو سار کی واپسی ممکن ہے۔

    سال 1993 کی مشہورِ زمانہ فلم جراسک پارک اب تک کی سب سے مشہور فلموں میں سے ایک ہے، جس کی کہانی کروڑوں سال پہلے ختم ہونے والے ڈائنو سار کی دوبارہ تخلیق پر مبنی ہے۔

    فلم میں ایک ماہر حیاتیات وسطی امریکا کے ایک جزیرے پر تقریباً مکمل تھیم پارک کا دورہ کرتا ہے جہاں اسے کچھ بچوں کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے، لیکن بجلی کی خرابی کے باعث پارک کے کلون شدہ ڈائنو سار چھوٹ جاتے ہیں، جس کا نتیجہ انتہائی تباہ کن نکلتا ہے۔

    اس سلسلے کی پانچ بلاک بسٹرز کے بعد چھٹی اور آخری قسط جراسک ورلڈ ڈومینین 10 جون کو ریلیز ہونے والی ہے۔

    ایک ماہر حیاتیات جن سے جراسک ورلڈ کے ڈائریکٹر اسٹیون اسپیلبرگ نے مشورہ کیا اور فرنچائز کے تکنیکی مشیر کے طور پر خدمات حاصل کیں، کہتے ہیں کہ مستقبل قریب میں ممکنہ طور پر یہ کہانیاں حقیقت کا روپ دھار سکتی ہیں۔

    سال 2015 میں ایک پینل ڈسکشن کا انعقاد کیا گیا تھا جہاں ڈاکٹر جیک ہورنر نے ان معدوم ہوچکی مخلوقات کی ممکنہ واپسی کے بارے میں تبصرے کیے۔

    ہارنر کے کام نے ڈاکٹر ایلن گرانٹ کو ہٹ فلم سیریز بنانے کے لیے متاثر کیا، اب انہوں اس امید کا اظہار کیا ہے کہ ٹیکنالوجی 2025 تک ڈائنو سار کو وجود میں لانے کے قابل ہو سکتی ہے۔

    ایسا کرنے کے لیے، انہوں نے مرغیوں (ڈائنوسارز کے زندہ آباؤ اجداد) میں جینیاتی تبدیلیاں کر کے ان کی آبائی خصلتوں کو دوبارہ فعال کرنے کا منصوبہ بنایا۔

    دوسرے لفظوں میں کہیں تو، انہیں اتنا ہی خوفناک بنانے کی کوشش کی جارہی ہے جیسا کہ جراسک پارک میں ڈائنو سار دکھائے گئے ہیں۔

    انہوں نے وضاحت کی کہ بلاشبہ یہ پرندے ڈائنو سار ہیں، لہٰذا ہمیں صرف انہیں ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ کچھ زیادہ ہی ڈائنوسار کی طرح نظر آئیں۔ ڈائنوسار کی دم، بازو اور ہاتھ تھے، اور ارتقا کے ذریعے وہ اپنی دم کھو چکے ہیں، اور ان کے بازو اور ہاتھ پروں میں بدل گئے ہیں۔

    ہارنر نے مزید کہا کہ دراصل، پروں اور ہاتھ کو دوبارہ بنانا اتنا مشکل نہیں ہے، چکنو سارس حقیقت کا روپ دھارنے کے راستے پر ہے۔ دراصل دم دوبارہ تخلیق کرنا سب سے بڑا منصوبہ ہے۔ لیکن دوسری طرف، ہم حال ہی میں کچھ چیزیں کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں جس نے ہمیں امید دلائی ہے کہ اس میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ پرندے زندہ ڈائنو سار ہیں۔

  • 23 سو ڈگری سیلسیئس درجہ حرارت رکھنے والی چٹان

    23 سو ڈگری سیلسیئس درجہ حرارت رکھنے والی چٹان

    سنہ 2011 میں دریافت ہونے والی ایک چٹان کے گرم ترین چٹان ہونے کی تصدیق کردی گئی جس کا درجہ حرارت 2370 ڈگری سیلسیئس تھا۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق ماہرین نے 11 سال قبل دریافت ہونے والی چٹان کے گرم ترین چٹان ہونے کی تصدیق کر دی۔

    اس چٹان کو 2011 میں پوسٹ ڈاکٹریٹ کے ایک طالب علم نے دریافت کیا تھا، ورسٹرن یونیورسٹی کے محققین کی جانب سے سامنے آنے والے نئے نتائج میں چٹان کے حوالے سے غیر یقینی معلومات کو یقینی قرار دیا گیا۔

    11 سال قبل ملنے والی اس چٹان کے اوپر ہونے والے حالیہ مطالعے میں چار مزید زکرون کے دانے ملے، یہ سخت منرل ہیرے کے متبادل کے طور پر جانا جاتا ہے جس نے چٹان کے 2370 ڈگری سیلسیئس کے گزشتہ ریکارڈ بلند درجہ حرارت کی تصدیق کی۔

    جرنل ارتھ اینڈ پلینیٹیری سائنس لیٹرز میں شائع ہونے والے اس مطالعے کی سربراہی ارتھ سائنسز کے پوسٹ ڈاکٹریٹ طالب علم گیون ٹولو میٹی اور شریک مصنفین نے کی جن میں ناسا جانسن اسپیس سینٹر کے ٹمنس ایرکسن، شعبہ ارضیاتی علوم کے گورڈن اوسنسکی اور کیتھرین نیش اور تھرمو مکینیکل میٹلرجی کی لیبارٹری کے کییون سائرل شامل تھے۔

    سنہ 2011 میں اس وقت کے پی ایچ ڈی کے طالب علم مائیکل زینیٹی اوسنسکی کے ساتھ مسٹیسٹن جھیل کے گڑھے پر کام کر رہے تھے جہاں انہیں شیشے کی چٹان ملی جس کے اندر چھوٹے زکرون کے دانے جمے ہوئے تھے۔

    اس چٹان کا بعد میں تجزیہ کیا گیا اور معلوم ہوا کہ یہ چٹان ایک سیارچے کی ٹکر کے نتیجے میں 2370 ڈگری سیلسیئس درجہ حرارت پر وجود میں آئی۔

    تجزیے کے نتائچ ایک مطالعے کی صورت میں سنہ 2017 میں شائع کیے گئے تھے۔

  • زمین سے ٹکرانے والے سیارچے کو 2 گھنٹے قبل دیکھ لیا گیا

    زمین سے ٹکرانے والے سیارچے کو 2 گھنٹے قبل دیکھ لیا گیا

    ماہرین فلکیات اور یورپی اسپیس ایجنسی کی دفاعی کمیٹی برائے سیارہ نے حال ہی میں زمین سے ٹکرانے والے سیارچے کی ٹکر سے چند گھنٹے قبل نشان دہی کی۔

    یہ سیارچہ بحر منجمد میں نارویجیئن جزیرے جین ماین کے 40 کلو میٹر جنوب میں گرا، جس کی وجہ سے 2 سے 3 ہزار ٹن ٹی این ٹی پھٹنے کے برابر دھماکا ہوا۔

    2022 EB5 نام پانے والا یہ سیارچہ پہلی خلائی چٹان ہے جس کا یورپ سے خلا میں زمین سے ٹکرانے سے قبل مشاہدہ کیا گیا، اور اب تک کی پانچویں خلائی چٹان ہے جو زمین سے ٹکرانے سے قبل خلا میں مشاہدے میں آئی ہے۔

    یورپی خلائی ایجنسی کے نیئر ارتھ آبجیکٹس کوآرڈینیشن سینٹر کی نیوز ریلیز کے مطابق ہنگری کے ماہرِ فلکیات کرسٹرین سارنیکزکی نے زمین کے گرد گھومتی اس تیز رفتار چیز کو دریافت کیا۔

    ابتدائی اندازوں کے مطابق اس چٹان کے زمین سے ٹکرانے کے امکانات ایک فیصد سے بھی کم تھے۔

    لیکن گرینج معیارِ وقت کے مطابق رات 8 بج کر 25 منٹ پر یورپی خلائی ایجنسی کے میرکٹ ایسٹیرائڈ امپیکٹ وارننگ سسٹم نے ایک انتباہ جاری کیا جس کے مطابق اس خلائی چٹان کے زمین ٹکرانے کے 100 فیصد امکانات ہیں اور وہ رات 9 بج کر 21 منٹ سے 9 بج کر 25 منٹ کے درمیان آئس لینڈ کے شمال میں چند کلو میٹر کے فاصلے پر ایک ہزار کلومیٹر کے مربع میں گرے گی۔

    ماہرینِ فلکیات نے اس شے کا مشاہدہ کرنے کی کوشش کی جو زمین سے 50 ہزار کلو میٹر کے فاصلے کے اندر تھی لیکن کوئی بھی اس شعلے کی تصویر یا ویڈیو نہیں بنا پایا۔