Tag: Earth Day

  • زمین کا دن: گوگل ڈوڈل کس خطرے کی نشاندہی کر رہا ہے؟

    زمین کا دن: گوگل ڈوڈل کس خطرے کی نشاندہی کر رہا ہے؟

    دنیا بھر میں آج ہماری زمین کے تحفظ اور اس سے محبت کا شعور اجاگر کرنے کے لیے عالمی یوم ارض یعنی زمین کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔

    عالمی یوم ارض سب سے پہلے سنہ 1970 میں منایا گیا۔ یہ وہ دور تھا جب تحفظ ماحولیات کے بارے میں آہستہ آہستہ شعور اجاگر ہو رہا تھا اور لوگ فضائی آلودگی اور دیگر ماحولیاتی خطرات کا بغور مشاہدہ کر رہے تھے۔

    گوگل ڈوڈل میں چھپا خطرہ

    رواں برس یوم ارض کے موقع پر ایک خاص گوگل ڈوڈل پیش کیا گیا ہے۔

    گوگل ڈوڈل پر بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے خطرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے گوگل ارتھ سے لی گئی ٹائم لیپس تصاویر جاری کی گئی ہیں۔

    اس ڈوڈل میں موجود تصاویر میں 4 مقامات پر کلائمٹ چینج سے ہونے والے اثرات کو دکھایا گیا ہے۔

    پہلی تصویر افریقی ملک تنزانیہ کے پہاڑ ماؤنٹ کلی منجارو کی سنہ 1986 سے 2020 تک کی ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ برف سے ڈھکے گلیشیئر کا حجم کس طرح کم ہوتا گیا۔

    دوسری تصویر گرین لینڈ کی ہے جہاں کی برف سنہ 2000 سے 2020 کے دوران خطرناک حد تک پگھلی۔

    تیسری تصویر آسٹریلیا میں واقع دنیا کے سب سے بڑے مونگے کے چٹانی حصے گریٹ بیریئر ریف کی ہے جس میں سنہ 2016 کے صرف 3 ماہ میں چٹانوں کو بے رنگ ہوتے دیکھا جاسکتا ہے، اس عمل کو بلیچنگ کا عمل کہا جاتا ہے اور اس کی وجہ سمندری پانی کا گرم ہونا ہے جو سمندری حیات کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔

    آخری تصویر جرمنی کے ہرز جنگلات کی ہے جہاں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور خشک سالی کی وجہ سے سنہ 1995 سے 2020 کے دوران جنگلات کے رقبے میں تشویشناک کمی واقع ہوئی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کلائمٹ چینج کے ہولناک خطرے سے نمٹنے کے لیے فوری طور پر کام شروع کرنا ہوگا ورنہ ہماری زمین رہنے کے لیے ناقابل ہوجائے گی۔

  • ماں دھرتی کی مہربانیوں کے لیے شکر گزار ہونے کا دن

    ماں دھرتی کی مہربانیوں کے لیے شکر گزار ہونے کا دن

    دنیا بھر میں آج ہماری زمین کے تحفظ اور اس سے محبت کا شعور اجاگر کرنے کے لیے عالمی یوم ارض یعنی زمین کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔

    عالمی یوم ارض سب سے پہلے سنہ 1970 میں منایا گیا۔ یہ وہ دور تھا جب تحفظ ماحولیات کے بارے میں آہستہ آہستہ شعور اجاگر ہو رہا تھا اور لوگ فضائی آلودگی اور دیگر ماحولیاتی خطرات کا بغور مشاہدہ کر رہے تھے۔

    رواں برس اس دن کا مرکزی خیال ہے، کلائمٹ ایکشن۔ کلائمٹ ایکشن کا مطلب ہے زمین پر نقصان دہ گیسوں کے اخراج میں کمی، موسمیاتی تغیرات کے نقصانات کے خلاف استعداد میں اضافے، کلائمٹ چینج سے ہونے والے نقصانات میں کمی، اور ماحولیات کے حوالے سے مؤثر حکمت عملیاں اور پالیسیاں بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنا۔

    اس سال زمین کا دن منانے کے 50 برس بھی مکمل ہوگئے ہیں اور اس موقع پر گوگل نے بھی اپنا ڈوڈل اسی تھیم پر سجایا ہے۔

    گوگل ڈوڈل میں کیا پیغام چھپا ہے؟

    عالمی یوم ارض کے موقع پر گوگل آج زمین کے سب سے اہم جاندار کو یاد کر رہا ہے جو اس وقت کئی خطرات کا شکار ہے، یہ جاندار ہے شہد کی مکھی۔

    ماہرین کے مطابق خطرناک ڈنک مارنے والی شہد کی مکھیاں ہماری اس دنیا میں وجود کی ضمانت ہیں اور اگر یہ نہ رہیں تو ہم بھی نہیں رہیں گے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم جو کچھ بھی کھاتے ہیں اس کا ایک بڑا حصہ ہمیں ان مکھیوں کی بدولت حاصل ہوتا ہے۔

    شہد کی مکھیاں پودوں کے پولی نیٹس (ننھے ذرات جو پودوں کی افزائش نسل کے لیے ضروری ہوتے ہیں) کو پودے کے نر اور مادہ حصوں میں منتقل کرتے ہیں۔ اس عمل کے باعث ہی پودوں کی افزائش ہوتی ہے اور وہ بڑھ کر پھول اور پھر پھل یا سبزی بنتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق ہماری غذائی اشیا کا ایک تہائی حصہ ان مکھیوں کا مرہون منت ہے جبکہ دنیا بھر کے 85 فیصد پھول افزائش کے لیے شہد کی مکھی کے محتاج ہیں۔

    امریکی ماہرین معیشت کے مطابق امریکا میں شہد کی مکھیاں ہر برس اندازاً 19 بلین ڈالر مالیت کی افزائش زراعت کا باعث بنتی ہیں۔

    شہد کی مکھیاں یہ کام صرف چھوٹے پودوں میں ہی نہیں بلکہ درختوں میں بھی سر انجام دیتی ہیں۔ درختوں میں لگنے والے پھل، پھول بننے سے قبل ان مکھیوں پر منحصر ہوتے ہیں کہ وہ آئیں اور ان کی پولی نیشن کا عمل انجام دیں۔

    واضح رہے کہ یہ عمل اس وقت انجام پاتا ہے جب شہد کی مکھیاں پھولوں کا رس چوسنے کے لیے پھولوں پر آتی ہیں، دوسری جانب ان مکھیوں سے ہمیں شہد بھی حاصل ہوتا ہے جو غذائی اشیا کے ساتھ کئی دواؤں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

    تاہم نسل انسانی کے لیے ضروری یہ ننھی مکھیاں اس وقت کئی خطرات کا شکار ہیں۔ جانوروں کی دیگر متعدد اقسام کی طرح انہیں بھی سب سے بڑا خطرہ بدلتے موسموں یعنی کلائمٹ چینج سے ہے۔ موسمی تغیرات ان کی پناہ گاہوں میں کمی کا سبب بن رہے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں بڑھتی فضائی آلودگی بھی ان مکھیوں کے لیے زہر ہے اور اس کے باعث یہ کئی بیماریوں یا موت کا شکار ہورہی ہیں، جنگلات کی آتشزدگی بھی بڑی تعداد میں مکھیوں کی ہلاکت کا باعث بنتی ہے۔

    ایک اور وجہ پودوں پر چھڑکی جانے والی کیڑے مار ادویات بھی ہیں۔ یہ ادویات جہاں پودوں کو نقصان پہنچانے والے کیڑوں کا صفایا کرتی ہیں وہیں یہ فائدہ مند اجسام جیسے ان مکھیوں کے لیے بھی خطرناک ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ان مکھیوں کو بچانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ورنہ ہماری اپنی نسل کو معدومی کا خطرہ ہے۔

  • عالمی یوم ارض: زمین کی مختلف انواع انسان کی بقا کی ضامن

    عالمی یوم ارض: زمین کی مختلف انواع انسان کی بقا کی ضامن

    دنیا بھر میں آج ہماری زمین کے تحفظ اور اس سے محبت کا شعور اجاگر کرنے کے لیے عالمی یوم ارض یعنی زمین کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔

    عالمی یوم ارض سب سے پہلے سنہ 1970 میں منایا گیا۔ یہ وہ دور تھا جب تحفظ ماحولیات کے بارے میں آہستہ آہستہ شعور اجاگر ہو رہا تھا اور لوگ فضائی آلودگی اور دیگر ماحولیاتی خطرات کا بغور مشاہدہ کر رہے تھے۔

    رواں برس اس دن کا مرکزی خیال ہے ’پروٹیکٹ اور اسپیشیز‘ یعنی مختلف انواع کا تحفظ۔

    انسانوں کی صنعتی ترقی اور ماحولیاتی وسائل کے بے دریغ استعمال نے اس وقت زمین پر رہنے والے ہر جاندار کی زندگی داؤ پر لگا دی ہے، چاہے وہ مختلف جانور ہوں یا درخت اور پودے۔

    زمین پر موجود تمام جانوروں اور پودوں کی موجودگی اس زمین اور خود انسانوں کے لیے نہایت ضروری ہے۔ کسی ایک جانور یا پودے کی نسل بھی اگر خاتمے کو پہنچی تو اس سے پوری زمین کی خوراک کا دائرہ (فوڈ سائیکل) متاثر ہوگا اور انسانوں سمیت زمین پر موجود تمام جانداروں پر بدترین منفی اثر پڑے گا۔

    کچھ عرصہ قبل لندن کی زولوجیکل سوسائٹی اور تحفظ جنگلی حیات کی تنظیم ڈبلیو ڈبلیو ایف کی جانب سے ایک رپورٹ جاری کی گئی تھی جس میں بتایا گیا کہ سنہ 1970 سے 2012 تک دنیا بھر میں موجود مختلف جانوروں کی آبادی میں 58 فیصد کمی واقع ہوچکی ہے۔

    ان کے علاوہ بھی جانوروں کی کئی اقسام معدومی کے خطرے کا شکار ہیں۔ ماہرین کے مطابق معدومی کے خطرے کا شکار جانوروں میں پہاڑوں، جنگلوں، دریاؤں، سمندروں سمیت ہر مقام کے جانور اور ہاتھی، گوریلا سے لے کر گدھ تک شامل ہیں۔

    یہی صورتحال درختوں اور جنگلات کی ہے، ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 1 کروڑ 87 لاکھ ایکڑ رقبے پر مشتمل جنگلات کاٹ دیے جاتے ہیں۔

    عظیم معدومی

    ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین پر ایک اور عظیم معدومی کا وقت تیزی سے قریب آتا جارہا ہے اور اس کی رفتار ہمارے گمان سے بھی تیز ہے۔

    عظیم معدومی ایک ایسا عمل ہے جو کسی تباہ کن آفت یا زمینی و جغرافیائی عوامل کی وجہ سے رونما ہوتی ہے اور اس کے بعد زمین سے جانداروں کی 60 فیصد سے زائد آبادی ختم ہوجاتی ہے۔ بچ جانے والی حیاتیات اس قابل نہیں ہوتی کہ ہھر سے اپنی نسل میں اضافہ کرسکے۔

    زمین پر اب تک 5 عظیم معدومیاں رونما ہوچکی ہیں۔ سب سے خوفناک معدومی 25 کروڑ سال قبل واقع ہوئی جب زمین کی 96 فیصد آبی اور 70 فیصد زمینی حیات صفحہ ہستی سے مٹ گئی۔

    آخری معدومی اب سے ساڑھے 6 کروڑ سال قبل رونما ہوئی جس میں ڈائنوسارز سمیت زمین کی ایک تہائی حیاتیات ختم ہوگئی۔

    ماہرین کے مطابق ہم انسان جس خود غرضانہ طریقے سے صرف اپنے لیے زمین اور اس کے وسائل کو استعمال کر رہے ہیں، قوی امید ہے کہ زمین سے جنگلی حیات اور دیگر انواع کا خاتمہ ہوجائے، لیکن یہاں یاد رکھنا ضروری ہے کہ یہ اتمام انواع ہی انسان کی بقا کی ضانت ہیں اور ان انواع کا خاتمے کے بعد انسان کی بقا کی امید رکھنا خام خیالی ہے۔

  • ارتھ ڈے پرگوگل کا خصوصی ویڈیو ڈوڈل

    ارتھ ڈے پرگوگل کا خصوصی ویڈیو ڈوڈل

    کراچی : دنیا بھر میں آج ارتھ ڈے منایا جارہا ہے، زمین کے تحفظ کے عالمی دن پر گوگل نے بھی خصوصی وڈیو ڈوڈل متعارف کروا دیا، رواں برس کی تھیم پروٹیکٹ آور اسپیشیز رکھی گئی ہے ۔

    تفصیلات کے مطابق دنیا کے معروف ترین سرچ انجن گوگل اپنا لوگو جسے ڈوڈل کہا جاتا ہے ہر اہم موقع کی مناسبت سے بدلتا ہے، اس بار گوگل نے ارتھ ڈے کے موقع پر اینیمیٹیڈ ویڈیو ڈودل سے سب کو اس دنیا کی حفاظت اور خوبصورتی میں اضافے کا پیغام دے دیا۔

    رواں برس کی تھیم پروٹیکٹ آور اسپیشیز رکھی گئی ہے ۔

    دنیا بھر میں آج ہماری زمین کے تحفظ اور اس سے محبت کا شعور اجاگر کرنے کے لیے عالمی یوم ارض یعنی زمین کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔

    عالمی یوم ارض سب سے پہلے بائیس اپریل انیس سو سترکو منایا گیا تھا، یہ وہ دور تھا جب تحفظ ماحولیات کے بارے میں آہستہ آہستہ شعور اجاگر ہو رہا تھا اور لوگ فضائی آلودگی اور دیگر ماحولیاتی خطرات کا بغور مشاہدہ کر رہے تھے۔

    ہر سال اس دن پر دنیا بھرمیں زمین اور ماحولیات کی حفاظت کیلئے پروگرامز کا انعقاد کیا جاتا ہے جبکہ مقامی کمیونٹیز اپنے اپنے علاقوں میں صفائی کرکے اس دن کی اہمیت اجاگر کرتی ہیں۔ بہت سی تنظیمیں شہر میں ساحل ِ سمندر، دریاؤں یا دیگر قدرتی مقامات پرجا کر صفائی کا کام کرکے زمین کو صاف ستھرا رکھنے کی کوششوں میں اپنا حصہ ادا کرتی ہیںْ۔

    خیال رہے کہ گوگل کسی بھی معروف شخصیت کی برسی اور سالگرہ اور عالمی دن پر ڈوڈل متعارف کراتا ہے۔

  • عالمی یوم ارض کامقصدزمین کوپہنچنےوالےنقصان سےآگاہ کرناہے،عثمان بزدار

    عالمی یوم ارض کامقصدزمین کوپہنچنےوالےنقصان سےآگاہ کرناہے،عثمان بزدار

    لاہور : وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی اور موسمی تبدیلیاں چیلنج کے طور پر سامنے آ رہی ہیں، عالمی یوم ارض کا مقصد زمین کو پہنچنے والے نقصان سے آگاہ کرناہے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے عالمی یوم ارض پر اپنے پیغام میں کہا عالمی یوم ارض کامقصدزمین کو پہنچنے والے نقصان سے آگاہ کرناہے، یہ دن ہمیں مشترکہ کوششوں کی ذمےداری کا احساس دلاتا ہے۔

    وزیر اعلیٰ پنجاب کا کہنا تھا ماحولیاتی آلودگی اورموسمی تبدیلیاں چیلنج کےطورپرسامنے آ رہی ہیں، عالمی درجہ حرارت میں اضافہ نہ صرف تشویشناک بلکہ بڑا مسئلہ ہے، زمین اپنی بقا کے حوالے سے خدشات کا شکار ہے۔

    خیال رہے دنیا بھر میں آج ہماری زمین کے تحفظ اور اس سے محبت کا شعور اجاگر کرنے کے لیے عالمی یوم ارض یعنی زمین کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔

    عالمی یوم ارض سب سے پہلے سنہ 1970 میں منایا گیا، یہ وہ دور تھا جب تحفظ ماحولیات کے بارے میں آہستہ آہستہ شعور اجاگر ہو رہا تھا اور لوگ فضائی آلودگی اور دیگر ماحولیاتی خطرات کا بغور مشاہدہ کر رہے تھے۔

    رواں برس کی تھیم پروٹیکٹ آور اسپیشیز رکھی گئی ہے ۔

    دنیا بھر میں اس موقعے پر اپنے ماحول کی صفائی اور فضائی آلودگی پھیلانے سے گریز کے لیے آگہی کے پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں۔ جبکہ مقامی کمیونٹیز اپنے اپنے علاقوں میں صفائی کرکے اس دن کی اہمیت اجاگر کرتی ہیں۔ بہت سی تنظیمیں شہر میں ساحل ِ سمندر، دریاؤں یا دیگر قدرتی مقامات پرجا کر صفائی کا کام کرکے زمین کو صاف ستھرا رکھنے کی کوششوں میں اپنا حصہ ادا کرتی ہیں

  • عالمی یوم ارض: تحفظ ماحول کی تعلیم وقت کی ضرورت

    عالمی یوم ارض: تحفظ ماحول کی تعلیم وقت کی ضرورت

    دنیا بھر میں آج ہماری زمین کے تحفظ اور اس سے محبت کا شعور اجاگر کرنے کے لیے عالمی یوم ارض یعنی زمین کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔

    عالمی یوم ارض سب سے پہلے سنہ 1970 میں منایا گیا۔ یہ وہ دور تھا جب تحفظ ماحولیات کے بارے میں آہستہ آہستہ شعور اجاگر ہو رہا تھا اور لوگ فضائی آلودگی اور دیگر ماحولیاتی خطرات کا بغور مشاہدہ کر رہے تھے۔

    رواں برس اس دن کا مرکزی خیال ماحولیات اور کلائمٹ سے متعلق تعلیم اور شعور و آگاہی کا فروغ ہے۔ ماحولیات اور خاص طور پر کلائمٹ چینج (موسمیاتی تغیرات) کے بارے میں تعلیم اور آگاہی حاصل کرنا اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ دن بدن بڑھتے ماحولیاتی خطرات سے نمٹنے کے لیے سدباب کیے جاسکیں۔

    تحفط ماحولیات کا شعور پاکستان میں کس طرح ممکن؟

    ماہر ماحولیات رفیع الحق کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تغیرات یا کلائمٹ چینج ایک حقیقیت ہے اور حقیقت کا ادارک نہ کیا جائے، اس سے آگاہی حاصل نہ کی جائے تو وہ نقصان دہ بن جاتی ہے۔ ’ماحولیات اور خصوصاً کلائمٹ چینج کے بارے میں آگاہی کا فروغ وقت کی ضرورت بن چکا ہے‘۔

    ان کا کہنا تھا کہ ملک بھر میں شدید گرمی کی لہریں، غیر معمولی بارشیں، سیلاب وغیرہ یہ سب موسمیاتی تغیرات کا ہی نتیجہ ہیں۔ ایسے میں ہم مشکل صورتحال پیش آنے کے بعد اپنے لوگوں کو آگاہ کرنا شروع کرتے ہیں جبکہ یہ کام سارا سال ہونا چاہیئے۔

    وہ کہتے ہیں، ’ہماری جامعات میں انوائرنمنٹ اسٹڈیز کے الگ سے شعبے بنا دیے گئے ہیں۔ یہ تعلیم اس شعبے میں مہارت تو فراہم کرتی ہے لیکن صرف چند لوگوں کو، ان کے علاوہ ہماری عوام کی بڑی تعداد ماحولیات کی بنیادی تعلیم تک سے محروم ہے‘۔

    ان کے مطابق اب جبکہ یہ وقت کی ضرورت بھی بن چکی ہے، تو ماحولیات کو ایک الگ مضمون کے طور پر نصاب میں شامل کیا جانا ضروری ہے تاکہ ہمارے بچوں میں پہلے دن سے تحفظ ماحولیات اور تحفظ فطرت کا شعور اجاگر ہو سکے۔

    آگاہی کے ذرائع

    رفیع الحق نے ایک اور امر کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ جب ہم اخبارات کے ذریعہ آگاہی کو فروغ دیتے ہیں تو ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ ہماری عوام کی اکثریت اخبار نہیں پڑھ سکتی۔ ’ہمیں ابلاغ کے ایسے ذرائع کی طرف متوجہ ہونا ہوگا جو سب کی پہنچ میں ہوں‘۔

    اس ضمن میں ٹی وی پر اشتہارات، دستاویزی فلمیں نشر کرنا، اور ایسے پسماندہ علاقوں میں جہاں ٹی وی بھی میسر نہ ہوں، مسجدوں سے اعلان کروانا، یا وہاں موجود سرکاری محکموں کے توسط سے آگاہی مہمات چلانا ضروری ہیں۔

    مزید پڑھیں: ہیٹ اسٹروک سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر

    ان کا کہنا ہے، ’اگر ہم یہ سب نہیں کریں گے، تو پھر وہی صورتحال ہوگی جو سنہ 2015 میں کراچی کی ہیٹ ویو کے دوران پیش آئی اور 1 ہزار سے زائد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے‘۔

    رفیع الحق کا کہنا تھا کہ اس وقت اگر لوگوں کو علم ہوتا کہ ان کے شہر میں آفت کی صورت نازل ہونے والی یہ گرمی کیا ہے، اور کس قدر خطرناک ہے، تو وہ کیوں گھر سے باہر نکل کر اپنی جانوں سے ہاتھ دھوتے؟

    زمین کے تحفظ کے لیے ہم کیا کرسکتے ہیں؟

    اپنی زمین اور فطرت کا تحفظ کرنا کوئی مشکل بات نہیں۔ چند معمولی باتیں جو بظاہر بہت عام سی لگتی ہیں بعض دفعہ ہمارے ماحول کو نقصان پہنچانے کا سبب بن سکتی ہیں۔

    اگر ہم اپنی روزمرہ زندگی میں یہ چھوٹے چھوٹے کام کریں گے، تو یقیناً ہم اپنی ماں زمین کے تحفظ میں ایک اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

    غیر ضروری روشنیاں بند کریں۔ مختلف ساکٹس کے بٹن بھی بند رکھیں۔ کھلے بٹنوں کی وجہ سے ساکٹس توانائی خارج کرتے ہیں جو بجلی کے ضیاع کا سبب بنتی ہے۔

    اپنے گھر اور گھر سے باہر جہاں ممکن ہو وہاں پودے اگائیں۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کی جانب سے جاری کیا گیا آگاہی پوسٹر

    بہت سارے پودے اگا کر انہیں خراب ہونے کے لیے چھوڑ دینے سے بہتر ہے کہ کم از کم ایک یا 2 پودے اگائے جائیں تاکہ ان کی دیکھ بھال کر کے انہیں تناور درختوں میں تبدیل کیا جائے۔

    جتنا ممکن ہو پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کریں۔ یہ اس لیے ضروری ہے کیونکہ ہر شخص کی انفرادی گاڑی ماحول میں فضائی آلودگی اور زہریلی گیسیں شامل کرنے کا سبب بنتی ہیں۔

    پرانے اخبارات کو ردی میں پھینکنے کے بجائے انہیں مختلف کاموں میں استعمال کریں۔ اس طرح سے آپ درختوں کے تحفظ میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔

    کچرے کو بحفاظت ٹھکانے لگایا جائے اور جگہ جگہ کچرا پھینکنے سے گریز کیا جائے۔

    پانی کا احتیاط سے استعمال کریں۔ برش کرتے ہوئے نلکا بند کردیں۔

    گوشت کی نسبت پھلوں اور سبزیوں کا زیادہ استعمال کریں۔ پھلوں اور سبزیوں کی پیداوار ہماری زمین کو نقصان نہیں پہنچاتی، اس کے برعکس گوشت کے ذرائع مختلف جانور درخت اور پتے کھا کر ہمیں گوشت کے حصول کا ذریعہ بنتے ہیں۔

    کاغذ کم سے کم ضائع کریں۔ کاغذ درختوں سے بنتے ہیں لہٰذا کاغذوں کا ضیاع کرنے سے گریز کریں۔ ایک صفحے کی دنوں جانب لکھائی کے لیے استعمال کریں۔

    مختلف اشیا کو ری سائیکل کریں یعنی انہیں دوبارہ استعمال کے قابل بنائیں۔

    پلاسٹک کی اشیا خصوصاً تھیلیوں کا استعمال کم سے کم کریں۔ یہ ہمارے ماحول کی آلودگی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ ان کی جگہ مختلف ماحول دوست میٹیریل سے بنے بیگز استعمال کریں۔

    اپنے آس پاس ہونے والی ماحول دوست سرگرمیوں میں حصہ لیں۔

    ماحول کے تحفظ کے بارے میں دوسروں میں آگاہی پیدا کریں۔

    اپنے بچوں کو بچپن سے ماحول دوست بننے کی تربیت دیں۔