Tag: earth

  • زمین سے قریب بلیک ہول سسٹم، بلیک ہول ہے بھی یا نہیں؟

    زمین سے قریب بلیک ہول سسٹم، بلیک ہول ہے بھی یا نہیں؟

    سنہ 2020 میں دریافت ہونے والے بلیک ہول کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ یہ کوئی بلیک ہول نہیں ہے۔

    حال ہی میں ہونے والی ایک نئی تحقیق کے مطابق زمین کے سب سے قریب ترین بلیک ہول سسٹم میں، جس کا فاصلہ زمین سے 1 ہزار نوری سال ہے، میں دراصل کوئی بلیک ہول نہیں ہے۔

    سنہ 2020 میں جب یہ دریافت ہوا تھا تو HR 6819 سسٹم کی غیر معمولی دریافت کے متعلق دو خیالات پیش کیے گئے تھے، ایک کے مطابق یہ سسٹم بلیک ہول کے ساتھ تھا اور دوسرے کے مطابق یہ سسٹم بلیک ہول کے بغیر تھا۔

    1 ہزار نوری سال کے فاصلے پر موجود بلیک ہول کے خیال کو پیش کیا گیا تو اس نے شہ سرخیوں میں خوب جگہ بنائی، جبکہ دوسرے خیال کو اتنی پذیرائی نہیں ملی۔

    تاہم، بیلجیئم کے محقیقن نے ایک نئی تحقیق میں سسٹم کی نئی پیمائشیں لیں تاکہ یہ دیکھ سکیں کہ کس خیال کے سچ ہونے کے زیادہ امکانات ہیں۔

    انہوں نے یورپی سدرن آبزرویٹری ویری لارج ٹیلی اسکوپ اور وی ایل ٹی انٹرفیرومیٹر کا رخ اس اسٹار سسٹم کی جانب کیا۔ کیوں کہ اس آلے میں ایسی صلاحیت تھی کہ ایسا ڈیٹا فراہم کر سکے جو دونوں خیالات کے مابین فرق بتا دے۔

    تمام شواہد نے ایک ویمپائر اسٹار سسٹم کی جانب اشارہ کیا، جس میں 2 ستارے ایک بہت قریبی مدار میں دیکھے گئے ہیں اور ایک ستارہ دوسرے سے مٹیریل کھینچ رہا ہے۔

    سسٹم میں کسی فاصلے پر گردش ستارے کے شواہد نہیں تھے جو بلیک ہول تھیوری کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔

  • زمین پر چاند جیسے گڑھے نے ارضیاتی ماہرین کو حیرت میں ڈال دیا

    زمین پر چاند جیسے گڑھے نے ارضیاتی ماہرین کو حیرت میں ڈال دیا

    زمین پر ڈائنوسار سے بھی کروڑوں سال قدیم چاند جیسا گڑھا دریافت ہوا ہے، جس نے ارضیاتی ماہرین کو حیران کر دیا ہے۔

    امریکی ریاست ویومنگ کا مطالعہ کرنے والے ماہرینِ ارضیات نے شہابِ ثاقب کے نتیجے میں پڑنے والا ایسا گڑھا دریافت کیا ہے جس کو اس سے قبل زمین پر کبھی نہیں دیکھا گیا۔

    یہ گڑھا ڈائنو سار کی موجودگی سے کروڑوں سال پہلے وجود میں آیا، اور اسے شہابی پتھر کا گڑھا کہا جا رہا ہے، جو کسی شہابی پتھر کے گرنے کے نتیجے میں بنا ہے۔

    اس سلسلے میں جیولوجیکل سوسائٹی آف امریکا بلیٹن نامی جریدے میں ایک تحقیقی مقالہ شائع ہوا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ جرمن اور امریکی سائنس دانوں کی ٹیم نے ثانوی اثرات کے گڑھوں کا ایک میدان دریافت کیا ہے، جس کے متعلق ان کا خیال ہے کہ یہ میدان تقریباً 280 ملین سال پہلے ایک بڑے اور اصل شہابی پتھر کے گرنے کے بعد اس سے نکلنے والے مواد کے نتیجے میں تشکیل پایا ہے۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ثانوی گڑھے نظام شمسی کے چٹانی اجسام میں عام ملتے ہیں، یہ وہ سیارے ہیں جہاں یا تو ماحول ہے ہی نہیں یا پھر وہاں باریک ماحول ہے یعنی ٹھنڈا ماحول جہاں زندگی نہیں پنپ سکتی، جیسا چاند اور مریخ۔ تاہم یہ ثانوی گڑھے (Secondary craters) زمین یا وینس جیسے دبیز ماحول والے (یعنی جو گرم سیارے ہیں) اجسام میں نایاب ہیں۔

    محققین نے مقالے میں لکھا کہ یہاں پہلی بار اس بات کا ثبوت پیش کیا جا رہا ہے کہ زمین پر سیکنڈری کریٹرنگ ممکن ہے، محققین نے 10 سے 70 میٹر قطر کے 31 گڑھوں کی باقاعدہ نشان دہی کر دی ہے، جس کو وہ ویومنگ امپیکٹ کریٹر فیلڈ کہتے ہیں، جنوب مغربی ویومنگ میں اس کا رقبہ 40 بائی 90 کلومیٹر ہے، جو کیسپر، ڈگلس اور لارامی کے شہروں کے قریب ہے۔

    انھوں نے 60 ممکنہ دیگر گڑھوں کی بھی نشان دہی کی ہے، تاہم ان کی تصدیق کے لیے مزید مطالعے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے۔ ماہرین کے مطابق اب تک زمین پر شہابِ ثاقب کی وجہ سے بننے والے صرف 208 گڑھے دریافت ہوئے ہیں۔

  • زمین جیسے ماحول والا سیارہ دریافت

    زمین جیسے ماحول والا سیارہ دریافت

    ماہرین فلکیات نے ایسا سیارہ دریافت کیا ہے جس کا ماحول زمین جیسا ہے، یہ زمین سے 322 نوری سال کے فاصلے پر ہے۔

    حال ہی میں ایک تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ نظامِ شمسی کے باہر موجود ایک انتہائی گرم مشتری کے جیسے سیارے میں، جس کا درجہ حرارت 32 سو ڈگری سیلسیس تک چلا جاتا ہے، حیران کن طور پر زمین کے جیسے ایٹماسفیئر کی تہہ ہے۔

    سوئیڈن اور سوئٹزرلینڈ کا ماہرین نے ہائی ریزولوشن اسپیکٹرواسکوپی کا استعمال کرتے ہوئے نظام شمسی کے باہر موجود سیارے کے پیچیدہ ایٹماسفیئر کے متعلق مزید باتیں دریافت کیں۔

    سنہ 2018 میں وائڈ اینگل سرچ فار پلینٹس کے تحت دریافت کیا گیا کہ یہ گیس کا دیو ہیکل سیارہ، جو زمین سے 322 نوری سال کے فاصلے پر ہے، اپنے مرکزی ستارے کے گرد گھومتا ہے۔

    اب ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ سیارے کا ایٹماسفیئر ایک کاک ٹیل پر مشتمل ہے جس میں ٹائٹینیم آکسائیڈ، آئرن، ٹائٹینیم، کرومیم، وینیڈیم، میگنیشیم اور میگنیز شامل ہیں۔

    اس کو پہلے انتہائی متشدد سیاروں کے طور پر بیان کیا گیا تھا جس کی سطح کا درجہ حرارت اتنا گرم ہے کہ فولاد بھی بخارات میں تبدیل ہوجاتا ہے۔

    مشتری سے ڈیڑھ گنا بڑے سیارے کا اپنے مرکزی سیارے سے فاصلہ، زمین اور سورج کے درمیان فاصلے کی نسبت 20 گنا کم ہے کیونکہ یہ اپنے مرکزی ستارے سے اتنا قریب ہے اس لیے اس سیارے کا سال 2.7 دن کا ہوتا ہے۔

    اس سیارے کی منفرد خصوصیات کے باوجود ماہرین نے سیارے کے ایٹماسفیئر کا موازنہ زمین سے کیا ہے، کم از کم سطحوں کے اعتبار سے۔ زمین کا ایٹماسفیئر یکساں لفافے کی طرح نہیں ہے لیکن مختلف تہوں پر مشتمل ہوتا ہے، جس میں ہر ایک میں علیحدہ خصوصیات ہوتی ہیں۔

  • ناسا نے زمین کو خلا سے لاحق بڑے خطرے سے خبردار کر دیا

    ناسا نے زمین کو خلا سے لاحق بڑے خطرے سے خبردار کر دیا

    ناسا کے سائنس دانوں نے خبردار کیا ہے کہ ایک بہت بڑا سیارچہ زمین کی طرف تیز رفتاری سے بڑھتا چلا آ رہا ہے، یہ سیارچہ فرانس کے ایفل ٹاور سے بھی بڑا ہے، اور ناسا کی جانب سے اسے زمین کے لیے ممکنہ طور پر خطرناک قرار دے دیا گیا ہے۔

    ناسا کا کہنا ہے کہ آسمان سے ایک دیوہیکل آفت تیزی سے زمین کی طرف بڑھ رہی ہے، یہ آفت 4660 Nereus نامی سیارچہ ہے جو فرانس کے ایفل ٹاور سے بھی بڑا ہے۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ سیارچے کے رواں ہفتے کے آخر تک زمین کے بہت قریب پہنچنے کا امکان ہے۔

    امریکی خلائی ادارے ناسا کے مطابق یہ سیارچہ 11 دسمبر کو زمین کے مدار سے گزرے گا، اس سیارچے کا قطر 330 میٹر سے زیادہ ہے، اور یہ تقریباً 3.9 ملین کلومیٹر کے فاصلے سے زمین کے پاس سے گزرے گا۔

    اگرچہ اس سے ہماری زمین کو کوئی فوری خطرہ نہیں ہے، اور 4660 نیریوس کی مطلق شدت 18.4 ہے، تاہم ناسا نے 22 سے کم شدت کے سیارچے کو ممکنہ طور پر خطرناک قرار دیا ہے۔

    ناسا کے مطابق یہ سیارچہ پہلی بار 1982 میں دریافت ہوا تھا، اس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ زمین کے قریب سے گزرتا ہے، سورج کے گرد اس کا 1.82 سالہ مدار اسے تقریباً ہر 10 سال بعد ہمارے قریب لاتا ہے۔

    تاہم خلائی سائنس کے نقطہ نظر سے اس کا ’قریب‘ ہونا بھی ایک محفوظ فاصلہ ہے، 1982 سے ناسا اور جاپانی خلائی ایجنسی JAXA اس سیارچے کی نگرانی کر رہے ہیں، چاند زمین سے جتنا دور ہے یہ سیارچہ اس سے دس گنا زیادہ دوری پر چکر کاٹ رہا ہے۔

  • دنیا بھر میں آج شب روشنیاں کیوں بجھائی جائیں گی؟

    دنیا بھر میں آج شب روشنیاں کیوں بجھائی جائیں گی؟

    زمین کو ماحولیاتی خطرات سے بچانے اور اس پر توانائی کے بے تحاشہ بوجھ کو کم کرنے کے لیے آج ارتھ آور منایا جائے گا، آج وزیر اعظم آفس میں بھی ایک گھنٹے کے لیے روشنیاں گل کردی جائیں گی۔

    ارتھ آور پہلی بار 2007 میں سڈنی کے اوپیرا ہاوس کی روشنیوں کو بجھا کر منایا گیا تھا جس میں ایک کروڑ سے زائد شہریوں نے شرکت کر کے عالمی سطح پر ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے متحد ہونے کا پیغام دیا تھا۔

    اسے منانے کا مقصد ماحولیاتی تبدیلی (کلائمٹ چینج) کے حوالے سے عوامی شعور اجاگر کرنا ہے۔ دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں کرہ ارض کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے جس کے سبب ماحول پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

    درجہ حرارت بڑھنے کا ایک سبب بجلی کا بہت زیادہ استعمال بھی ہے۔ بجلی مختلف ذرائع جیسے تیل، گیس یا کوئلے سے بنتی ہے، اور ان چیزوں کو ہم جتنا زیادہ جلائیں گے اتنا ہی ان کا دھواں فضا میں جا کر آلودگی پھیلائے گا اور درجہ حرارت میں اضافہ کرے گا۔

    اگر ہم خلا سے زمین کی طرف دیکھیں تو ہمیں زمین روشنی کے ایک جگمگاتے گولے کی طرح نظر آئے گی۔ یہ منظر دیکھنے میں تو بہت خوبصورت لگتا ہے، مگر اصل میں روشنیوں کا یہ طوفان زمین کو بیمار کرنے کا سبب بن رہا ہے۔

    ان روشنیوں کو برقی یا روشنی کی آلودگی کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق مصنوعی روشنیوں کے باعث ہماری زمین کے گرد ایک دبیز دھند لپٹ چکی ہے جس کے باعث زمین سے کہکشاؤں اور چھوٹے ستاروں کا نظارہ ہم سے چھن رہا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہماری سڑکوں کے کنارے لگی اسٹریٹ لائٹس، ہمارے گھروں اور عمارتوں کی روشنیاں آسمان کی طرف جا کر واپس پلٹتی ہیں جس کے بعد یہ فضا میں موجود ذروں اور پانی کے قطروں سے ٹکراتی ہے۔ ان کے ساتھ مل کر یہ روشنیاں ہمارے سروں پر روشنی کی تہہ سی بنا دیتی ہیں جس کی وجہ سے حقیقی آسمان ہم سے چھپ سا جاتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق دیہاتوں اور ترقی پذیر علاقوں سے ترقی یافتہ شہروں کی طرف ہجرت کے رجحان یعنی اربنائزیشن میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس کے باعث مصنوعی روشنیوں کی آلودگی میں بھی اضافہ ہورہا ہے اور یہ فطرت اور فطری حیات کو متاثر کر رہی ہے۔

    وزیر اعظم آفس میں بھی ارتھ آور منایا جائے گا

    ارتھ آور کی مناسبت سے آج وزیر اعظم آفس کی روشنیوں کو بھی ایک گھنٹے کے لیے گل کردیا جائے گا، وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی بہتری موجودہ حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔

    وزیر اعظم نے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ صاف اور آلودگی سے پاک ماحول کے لیے حکومت کا بھرپور ساتھ دیں۔

    تو پھر آئیں آج شب ساڑھے 8 سے ساڑھے 9 بجے کے درمیان غیر ضروری روشنیوں کو بجھا کر زمین کی چندھیائی ہوئی آنکھوں کو آرام دیں اور زمین سے اپنی محبت کا ثبوت دیں۔

  • کرونا وائرس: صنعتیں بند ہونے کے نئے اثرت سے ماحولیاتی ماہرین پریشان

    کرونا وائرس: صنعتیں بند ہونے کے نئے اثرت سے ماحولیاتی ماہرین پریشان

    کرونا وائرس کی وبا کے باعث دنیا بھر میں ہونے والے لاک ڈاؤنز نے کاروباری و صنعتی زندگی کو معطل کردیا تو زمین کی فضا خاصی حد تک صاف ہوگئی تاہم ایک نئی تحقیق نے ماہرین کو حیران کردیا۔

    حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ کرونا وائرس کی وبا کے دوران مختلف ممالک میں حیران کن طور پر درجہ حرارت میں اضافہ ہوگیا۔

    اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ گزشتہ سال موسم بہار میں زہریلی گیسوں کے اخراج میں کمی کے نتیجے میں مختلف حصوں میں درجہ حرارت میں 0.1 سے 0.3 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوا جو بظاہر بہت معمولی ہے۔

    نیشنل سینٹر فار ایٹموسفیرک ریسرچ (این سی اے آر) کی تحقیق میں بتایا گیا کہ سنہ 2020 کے دوران کئی ماہ تک لاک ڈاؤنز اور سماجی سرگرمیوں میں کمی کے نتیجے میں زہریلی گیسوں کا اخراج کم ہوا، جس کے نتیجے میں موسم معمولی گرم ہوگیا۔

    تحقیق کے نتائج حیران کن ہیں کیونکہ خیال کیا جاتا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کے باعث زمین کے درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے۔

    تاہم ماہرین کا کہنا تھا کہ آلودگی کے ہوائی ذرات یا ایروسول سورج کی روشنی کو بلاک کرتے ہیں، گشتہ سال ان کے اخراج میں کمی آئی جس کے نتیجے میں سورج کی زیادہ تپش ہمارے سیارے تک پہنچنے لگی، بالخصوص بڑے صنعتی ممالک جیسے امریکا، روس اور چین میں۔

    انہوں نے کہا کہ سب سے زیادہ آلودگی پھیلانے والی صنعتوں سے گیسوں کے اخراج میں نمایاں کمی کے نتیجے میں درجہ حرارت میں مختصر المدت اثرات مرتب ہوئے، آلودگی زمین کو ٹھنڈا کرتی ہے، تو یہ قابل فہم ہے کہ آلودگی کی شرح میں کمی نے ہمارے سیارے کو زیادہ گرم کردیا۔

    یہ اثر ان خطوں میں زیادہ نمایاں تھا جہاں آلودہ گیسوں کے ہوائی ذرات کا اخراج زیادہ ہوتا ہے، وہاں درجہ حرارت میں 0.37 سینٹی گریڈ کا اضافہ دیکھنے میں آیا۔

    ایروسول سورج کی تپش کو واپس پلٹانے والی آلودگی کی قسم ہے جبکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر گرین ہاؤس گیسز اس سے الٹ کام کرتی ہیں، وہ تپش کو سیارے کی سطح کے قریب قید کرلیتی ہیں اور درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے۔

    درجہ حرارت میں مختصر المدت اضافے کے باوجود محققین کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کی وبا سے طویل المعیاد بنیادوں پر موسمیاتی تبدیلیوں کی شرح میں بس معمولی کمی آئے گی، کیونکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور گرین ہاؤس گیسز فضا میں دہائیوں تک موجود رہتی ہیں جبکہ ایروسولز بہت جلد ختم ہوتے ہیں۔

  • امریکا میں شہاب ثاقب گرنے سے زور دار دھماکا

    امریکا میں شہاب ثاقب گرنے سے زور دار دھماکا

    امریکا اور کینیڈا میں شہاب ثاقب گرنے سے ہونے والے زور دار دھماکے اور روشنی کے جھماکوں نے شہریوں کو خوفزدہ کردیا، مقامی افراد کا کہنا تھا کہ زور دار آواز کے باعث ان کے گھر ہل گئے۔

    امریکی میڈیا کے مطابق امریکا کے شمال مشرقی حصوں اور کینیڈا کے صوبے اونٹاریو کے جنوبی حصے میں شہاب ثاقب گرے جن سے نہایت زور دار آواز پیدا ہوئی۔

    یہ شہاب ثاقب امریکی شہروں میری لینڈ، واشنگٹن ڈی سی، ورجینیا، پنسلوینیا اور نیویارک میں گرے۔

    مقامی افراد کی جانب سے سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی تصاویر اور ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ روشنی کے چمکتے ہوئے گولے تیزی سے زمین کی طرف بڑھ رہے ہیں اور ان کے گرنے سے زوردار آواز اور روشنی کا جھماکا ہوا۔

    بعد ازاں امریکی خلائی ادارے ناسا نے ان شہاب ثاقب کی سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر جاری کیں جس میں انہیں زمین کی حدود میں داخل ہوتے دیکھا جاسکتا ہے۔ ناسا کے مطابق یہ سیارچوں کے ٹکڑے ہوسکتے ہیں۔

    وسطی و مغربی نیویارک کے رہائشیوں کا کہنا تھا کہ انہیں ایک زور دار آواز سنائی دی جس سے انہیں اپنے گھر ہلتے محسوس ہوئے۔

    خیال رہے کہ شہاب ثاقب کے زمین کی حدود میں داخل ہونے کا رواں ہفتے یہ دوسرا واقعہ ہے، اس سے چند روز قبل جاپان میں بھی ایسے ہی روشن ٹکڑے زمین پر گرتے دکھائی دیے تھے جس نے مقامی لوگوں کو خوفزدہ کردیا تھا۔

    ناسا کا کہنا ہے کہ خلا سے گرنے والے ان ٹکڑوں میں سے صرف 5 فیصد ہی زمین کی سطح تک پہنچ پاتے ہیں، ان میں موجود گیسوں کی وجہ سے زمین کی فضا میں داخل ہوتے ہی یہ آگ پکڑ لیتے ہیں۔

    زمین کا 70 فیصد حصہ پانی پر مشتمل ہونے کی وجہ سے زیادہ تر یہ ٹکڑے سمندروں یا دریاؤں میں جا گرتے ہیں۔

  • زمین سے ایک سیارچہ ٹکرانے جارہا ہے

    زمین سے ایک سیارچہ ٹکرانے جارہا ہے

    امریکی خلائی ادارے ناسا کا کہنا ہے کہ رواں برس نومبر میں ایک سیارچہ زمین سے ٹکرائے گا تاہم زمین کو اس سے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔

    ناسا نے حال ہی میں ایک سیارچے کا مشاہدہ کیا ہے جو خلا میں زمین سے براہ راست تصادم کے راستے پر ہے، 6.5 میٹر قطر کا یہ سیارچہ نومبر تک زمین کے قریب پہنچ جائے گا۔

    ناسا کے مطابق امریکا میں صدارتی انتخاب سے ایک روز قبل 2 نومبر کو یہ سیارچہ زمین کی فضا میں داخل ہوجائے گا۔ زمین پر اس کے اثرات ایک فیصد سے بھی کم ہوں گے لہٰذا یہ سیارچہ زمین کے لیے کسی قسم کا خطرہ ثابت نہیں ہوگا۔

    اس سیارچے کو کیلی فورنیا کی رصد گاہ میں 2 سال قبل دیکھا گیا تھا۔

    اس سے قبل سنہ 2018 میں ایک خطرناک جسامت کا سیارچہ زمین کے نہایت قریب آگیا تھا، ویسٹا نامی یہ سیارچہ پاکستان کے کل رقبے جتنا بڑا تھا جبکہ سیارچے میں 13 میل بلند پہاڑ بھی موجود تھے۔

    ناسا کا کہنا تھا کہ وہ سیارچہ جو زمین سے ٹکرا کر ڈائنو سارز کے نسل کے خاتمے کی وجہ بنا، صرف 10 سے 15 کلومیٹر چوڑا تھا، جبکہ ویسٹا کی چوڑائی 252 کلو میٹر تھی۔ اس کے زمین سے ٹکرانے کی صورت میں زمین پر سے زندگی کا خاتمہ ہوسکتا تھا۔

    تاہم خوش قسمتی سے زمین سے انتہائی قریب ہونے کے باجوود یہ اس راستے پر نہیں تھا جس پر زمین سے اس کا تصادم ہوسکے، چنانچہ یہ زمین کو کوئی نقصان پہنچائے بغیر اپنے راستے پر خلا کی وسعتوں میں گم ہوگیا۔

  • خلا سے زمین کا یہ نظارہ دل تھام کر دیکھیئے

    خلا سے زمین کا یہ نظارہ دل تھام کر دیکھیئے

    واشنگٹن: زمین سے دور خلا میں بین الاقوامی خلائی اسٹیشن (انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن) سے زمین کی ایک نہایت سحر انگیز ویڈیو ریکارڈ کی گئی ہے جسے دیکھ کر آپ کی سانسیں رک سکتی ہیں۔

    امریکی خلائی ادارے ناسا کی جانب سے جاری کردہ ایک خوبصورت ویڈیو میں بین الاقوامی خلائی اسٹیشن سے زمین کا سحر انگیز منظر دیکھا جاسکتا ہے۔

    ویڈیو میں ایک خلا باز اسٹیشن سے باہر کچھ تکنیکی کاموں میں مصروف ہے جبکہ اس کے عین نیچے زمین ایک محدود دائرے میں موجود نظر آرہی ہے۔

    زمین کی فضا پر نرم روئی جیسے بادل اور کہیں نیلگوں سمندر نظر آرہا ہے، ناسا کے مطابق یہ زمین کا وہ منظر ہے جو ہم میں سے بہت سے لوگ کبھی نہیں دیکھ پائیں گے۔

     

    View this post on Instagram

     

    The ultimate perspective of our planet, not many of us will ever experience. 🌍 By @nasa #earthfocus

    A post shared by EARTH FOCUS (@earthfocus) on

    خیال رہے کہ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن (انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن) زمین کے محور سے 408 کلو میٹر باہر زمین کے گرد چکر لگا رہا ہے، یہ اسٹیشن خلا میں تحقیقی مقاصد کے لیے قائم کیا گیا ہے۔

    ناسا جلد اسے تجارتی مقاصد کے لیے بھی کھولنے کا ارادہ رکھتا ہے اور اس کے لیے ناسا اور معروف ہالی ووڈ اداکار ٹام کروز کے درمیان ایک پروجیکٹ زیر غور ہے جس کے تحت ٹام کروز اپنی ایک فلم کی شوٹنگ خلائی اسٹیشن پر انجام دیں گے۔

  • ماں دھرتی کی مہربانیوں کے لیے شکر گزار ہونے کا دن

    ماں دھرتی کی مہربانیوں کے لیے شکر گزار ہونے کا دن

    دنیا بھر میں آج ہماری زمین کے تحفظ اور اس سے محبت کا شعور اجاگر کرنے کے لیے عالمی یوم ارض یعنی زمین کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔

    عالمی یوم ارض سب سے پہلے سنہ 1970 میں منایا گیا۔ یہ وہ دور تھا جب تحفظ ماحولیات کے بارے میں آہستہ آہستہ شعور اجاگر ہو رہا تھا اور لوگ فضائی آلودگی اور دیگر ماحولیاتی خطرات کا بغور مشاہدہ کر رہے تھے۔

    رواں برس اس دن کا مرکزی خیال ہے، کلائمٹ ایکشن۔ کلائمٹ ایکشن کا مطلب ہے زمین پر نقصان دہ گیسوں کے اخراج میں کمی، موسمیاتی تغیرات کے نقصانات کے خلاف استعداد میں اضافے، کلائمٹ چینج سے ہونے والے نقصانات میں کمی، اور ماحولیات کے حوالے سے مؤثر حکمت عملیاں اور پالیسیاں بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنا۔

    اس سال زمین کا دن منانے کے 50 برس بھی مکمل ہوگئے ہیں اور اس موقع پر گوگل نے بھی اپنا ڈوڈل اسی تھیم پر سجایا ہے۔

    گوگل ڈوڈل میں کیا پیغام چھپا ہے؟

    عالمی یوم ارض کے موقع پر گوگل آج زمین کے سب سے اہم جاندار کو یاد کر رہا ہے جو اس وقت کئی خطرات کا شکار ہے، یہ جاندار ہے شہد کی مکھی۔

    ماہرین کے مطابق خطرناک ڈنک مارنے والی شہد کی مکھیاں ہماری اس دنیا میں وجود کی ضمانت ہیں اور اگر یہ نہ رہیں تو ہم بھی نہیں رہیں گے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم جو کچھ بھی کھاتے ہیں اس کا ایک بڑا حصہ ہمیں ان مکھیوں کی بدولت حاصل ہوتا ہے۔

    شہد کی مکھیاں پودوں کے پولی نیٹس (ننھے ذرات جو پودوں کی افزائش نسل کے لیے ضروری ہوتے ہیں) کو پودے کے نر اور مادہ حصوں میں منتقل کرتے ہیں۔ اس عمل کے باعث ہی پودوں کی افزائش ہوتی ہے اور وہ بڑھ کر پھول اور پھر پھل یا سبزی بنتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق ہماری غذائی اشیا کا ایک تہائی حصہ ان مکھیوں کا مرہون منت ہے جبکہ دنیا بھر کے 85 فیصد پھول افزائش کے لیے شہد کی مکھی کے محتاج ہیں۔

    امریکی ماہرین معیشت کے مطابق امریکا میں شہد کی مکھیاں ہر برس اندازاً 19 بلین ڈالر مالیت کی افزائش زراعت کا باعث بنتی ہیں۔

    شہد کی مکھیاں یہ کام صرف چھوٹے پودوں میں ہی نہیں بلکہ درختوں میں بھی سر انجام دیتی ہیں۔ درختوں میں لگنے والے پھل، پھول بننے سے قبل ان مکھیوں پر منحصر ہوتے ہیں کہ وہ آئیں اور ان کی پولی نیشن کا عمل انجام دیں۔

    واضح رہے کہ یہ عمل اس وقت انجام پاتا ہے جب شہد کی مکھیاں پھولوں کا رس چوسنے کے لیے پھولوں پر آتی ہیں، دوسری جانب ان مکھیوں سے ہمیں شہد بھی حاصل ہوتا ہے جو غذائی اشیا کے ساتھ کئی دواؤں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

    تاہم نسل انسانی کے لیے ضروری یہ ننھی مکھیاں اس وقت کئی خطرات کا شکار ہیں۔ جانوروں کی دیگر متعدد اقسام کی طرح انہیں بھی سب سے بڑا خطرہ بدلتے موسموں یعنی کلائمٹ چینج سے ہے۔ موسمی تغیرات ان کی پناہ گاہوں میں کمی کا سبب بن رہے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں بڑھتی فضائی آلودگی بھی ان مکھیوں کے لیے زہر ہے اور اس کے باعث یہ کئی بیماریوں یا موت کا شکار ہورہی ہیں، جنگلات کی آتشزدگی بھی بڑی تعداد میں مکھیوں کی ہلاکت کا باعث بنتی ہے۔

    ایک اور وجہ پودوں پر چھڑکی جانے والی کیڑے مار ادویات بھی ہیں۔ یہ ادویات جہاں پودوں کو نقصان پہنچانے والے کیڑوں کا صفایا کرتی ہیں وہیں یہ فائدہ مند اجسام جیسے ان مکھیوں کے لیے بھی خطرناک ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ان مکھیوں کو بچانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ورنہ ہماری اپنی نسل کو معدومی کا خطرہ ہے۔