Tag: earth

  • کیا ہماری زمین جامنی رنگ کی تھی؟

    کیا ہماری زمین جامنی رنگ کی تھی؟

    ہماری زمین جو اس وقت سبز نظر آتی ہے، کیا آپ کو علم ہے کہ پرانے وقتوں میں جامنی ہوا کرتی تھی؟

    اگر آپ زمین کی تصاویر دیکھیں تو آپ زمین پر ایک نیلا رنگ غالب دیکھیں گے جبکہ کہیں کہیں سبز رنگ بھی دکھائی دے گا۔ نیلا رنگ سمندر کا جبکہ سبز رنگ زمین پر اگی نباتات کا ہے۔

    تاہم سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ کروڑوں سال قبل زمین میں سبز کی جگہ جامنی رنگ ہوا کرتا تھا۔

    امریکی ریاست میری لینڈ کی یونیورسٹی اور اسپیس ٹیلی اسکوپ سائنس انسٹی ٹیوٹ کے ماہرین کا قیاس ہے کہ لگ بھگ 40 کروڑ سال قبل پودوں میں کلوروفل سبز کی جگہ جامنی رنگ کو منعکس کرتا تھا جس کی وجہ سے زمین کا ایک بڑا حصہ جامنی دکھائی دیتا تھا۔

    خیال رہے کہ کلوروفل وہ مادہ ہے جو پتوں کے اندر موجود ہوتا ہے اور سورج کی روشنی سے پودے کے لیے غذا بناتا ہے، اس عمل (فوٹو سینتھسس) کے دوران سبز رنگ بھی پیدا ہوتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق کلوروفل سورج کی شعاعوں سے نیلا اور سرخ رنگ لے کر سبز رنگ منعکس کرتا ہے۔

    تصویر: ناسا

    اسپیس ٹیلی اسکوپ سائنس انسٹی ٹیوٹ کے پروفیسر ولیم اسپارکس کا کہنا ہے کہ ممکن ہے کہ فوٹو سینتھسس کا عمل کلوروفل کے اندر موجود جامنی رنگ کی جھلی کے نیچے انجام پاتا ہو۔

    ان کے مطابق ممکن ہے یہ جامنی جھلی سبز رنگ کو جذب کرلیتی ہو اور کلوروفل صرف جامنی رنگ کو منعکس کرسکتا ہو۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ فوٹو سینتھسس کے دوران جامنی رنگ پیدا کرنے کا عمل، سبز رنگ پیدا کرنے کے مقابلے میں نسبتاً کم پیچیدہ ہے اور اس کے لیے کم آکسیجن درکار ہے۔

    ماہرین کے مطابق زمین کا جامنی ہونا صرف ایک مفروضہ بھی ہوسکتا ہے تاہم یہ مفروضہ زمین کے قدیم ادوار کے بارے میں اب تک کی تحقیقوں سے مماثلت رکھتا ہے۔

  • شہاب ثاقب تیزی سے زمین کی طرف بڑھ رہا ہے، کیا ہمیں خطرہ ہے؟

    شہاب ثاقب تیزی سے زمین کی طرف بڑھ رہا ہے، کیا ہمیں خطرہ ہے؟

    خلا میں ایک چھوٹا سا شہاب ثاقب زمین کی طرف بڑھ رہا ہے اور سائنسدانوں کے مطابق وہ یا تو زمین کے قریب سے گزر جائے گا، یا اگر زمین کے زیادہ قریب آیا تو فضا میں ہی پھٹ جائے گا۔

    امریکی خلائی ادارے ناسا کا زمین کے قریب سے گزرنے والے اجسام کا مشاہدہ کرنے والا ادارہ (سی ای این او ایس) ایک شہاب ثاقب کو ٹریک کر رہا ہے جسے  2020 ای ایف کا نام دیا گیا ہے۔

    یہ شہاب ثاقب ممکنہ طور پر زمین کے قریب سے گزر جائے گا اور اگر زمین کے زیادہ قریب آیا تو وہ فضا میں ہی پھٹ جائے گا۔

    یہ شہابیہ 10 ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے زمین کی طرف بڑھ رہا ہے اور اس کا قطر 98 ڈایا میٹر ہے۔

    مزید پڑھیں: اگر کوئی سیارچہ زمین سے ٹکرا جائے تو کیا ہوگا؟

    ناسا کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ شہابیہ زمین کے قریب سے گزر جائے گا، اور اگر زمین کے قریب آیا تب بھی اس کی جسامت اتنی چھوٹی ہے کہ یہ کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچا سکتا۔

    تاہم زمین پر گرنے سے قبل یہ زمین کی فضا میں پھٹ سکتا ہے اور اس سے روشنی کا اخراج ہوسکتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق زمین کی فضا میں شہاب ثاقب پھٹنے کا واقعہ اس سے قبل سنہ 2013 میں روس میں پیش آیا تھا جس سے روشنی کا ایک زوردار جھماکہ پیدا ہوا تھا اور یہ سورج کی روشنی سے 30 گنا زیادہ تھا۔

    اس واقعے میں 180 افراد آنکھوں کی تکلیف اور 70 عارضی نابینا پن کا شکار ہوگئے تھے، جبکہ کھڑکیاں ٹوٹنے اور ایک فیکٹری کی چھت گر جانے کا واقعہ بھی پیش آیا تھا۔

  • کیا خلا میں بچے کی پیدائش ممکن ہے؟

    کیا خلا میں بچے کی پیدائش ممکن ہے؟

    برلن: تاریخ میں پہلی بار خلا میں بچوں کی زچگی کے مشن پر کام شروع ہوگیا، ماہرین کا کہنا ہے کہ بارہ سال کے اندر اندر خلا میں بچے کی پیدائش کا عمل ممکن ہوسکے گا۔

    تفصیلات کے مطابق خلا میں بچے پیدا کرنے کے مشن پر کام شروع کردیا گیا ہے، حاملہ خواتین کو 24 سے 36 گھنٹے کے مشن پر مدار میں قائم خلائی اسٹیشن پر روانہ کیا جائے گا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق جرمنی میں قائم ’اسپیس بورن‘ کے چیئرمین ڈاکٹر ایلبرٹ کا کہنا ہے کہ 2031 تک خواتین خلا میں بچے جن سکیں گی، جس کا مقصد خلا میں انسانی آبادی کے تصور پر تحقیق کرنا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ماہرین جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے اس مشن پر تحقیق کررہے ہیں، تجربے کے لیے ایک کے بجائے درجنوں حاملہ خواتین کو میڈکل اسٹاف اور ڈاکٹروں کے ہمراہ خلا میں بھیجا جائے گا۔

    ڈاکٹر ایلبرٹ نے کہا کہ مشن کے پہلے مرحلے میں زمین کے سب سے نچلے مداد پر زچگی کا عمل یقینی بنایا جائے گا، اور یہ مشن کسی بھی قسم کے بڑے خطرے سے محفوظ ہے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ خلا میں صرف بچے کی زچگی پر کام کررہے ہیں، موسم کے حالات اور مداد کے گرد کشش ثقل کو مدنظر رکھتے ہوئے 2031 سے پہلے مشن کو تجربے کے لیے روانہ کیا جائے گا۔

  • زمین سے بلیاں ختم ہوگئیں، تو کیا انسانی اموات میں اضافہ ہوجائے گا؟

    زمین سے بلیاں ختم ہوگئیں، تو کیا انسانی اموات میں اضافہ ہوجائے گا؟

    ذرا تصور کیجیے، اگر زمین سے تمام بلیاں یک دم ختم ہوجائیں، تو کیا ہوگا؟ کیا اس سے انسانی زندگی پر کوئی فرق پڑے گا؟

    شاید آپ اس کا جواب نفی میں دیں. یہ سوچا جاسکتا ہے کہ بلیاں ختم ہونے سے دنیا پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا، زندگی کا سفر یوں ہی رواں دواں رہے گا، کاروبار حیات جاری رہے گا، مگر ٹھہرے، یہ سچ نہیں.

    زمین سے بلیوں‌ کا خاتمہ انتہائی مہلک اثرات مرتب کرسکتا ہے، اس کے نتیجے میں‌ بڑی تعداد میں انسانوں کی اموات ہوسکتی ہیں، اس جانور کے ہمارے نظام زندگی سے اخراج کی صورت میں‌ قحط کا خطرہ بھی پیدا ہوسکتا ہے.

    سیارہ زمین میں‌ ہر زندگی کسی نے کسی انداز میں‌ دوسری زندگی سے جڑی ہوئی ہے، انسان، چرند، پرند، پودے، سب ایک لڑی میں‌ پروے ہوئے ہیں.

    اس لڑی سے کسی نوع کے اخراج کی صورت میں‌ یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ زندگی ختم ہوجائے گی، مگر اس پر گہرے اثرات ضرور مرتب ہوں گے.

    انسانوں کی شہری آبادیوں میں جو جانور سہولت سے جگہ بنا لیتا ہے، ان میں‌ بلیاں سر فہرست ہیں. یہ عام طور سے بارہ سے سولہ گھنٹے سوتی ہیں، باقی وقت یہ شکار میں‌ صرف کرتی ہیں.

    یہ امر حیرت انگیز ہے کہ بلیاں 32 فی صد معاملات میں اپنے شکار کو گرفت کرنے میں کامیابی رہتی ہیں، یہ تعداد ببر شیر کی کامیابی کی شرح سے زیادہ ہے.

    بلیوں کا اصل شکار چوہے ہوتے ہیں. بلیاں‌ ہر سال کروڑوں چوہوں‌ کا خاتمہ کرتی ہیں. یہ چوہوں‌ کی ہلاکتوں کا سب سے بڑا سبب ہیں.

    اگر بلیاں نہ تو ہوں، تو چوہوں کی افزائش میں اس تیزی سے اضافہ ہو کہ چند ہی برس میں ان سے جان چھڑانا مشکل ہوجائے. یہ زمین پر ہر طرف پھیل جائیں.

    چوہوں کے جسم میں ایسے کئی جراثیم ہوتے ہیں، جو انسانی صحت کے لیے انتہائی مضر ہیں، یہ طاعون جیسی وبا کو جنم دے سکتے ہیں، اس لیے ان کی تعداد کا ایک حد میں رکھنا ضروری ہے. اس ضمن میں بلیاں اہم کردار ادا کرتی ہیں.

    چوہے غذائی اجزا کو بھی خراب کرسکتے ہیں، اگر زرعی فارمز پر بلیاں نہ پالی جائیں، تو چوہے گوداموں میں پڑے مال کو تباہ و برباد کر دیں.

    مذکورہ عوامل کے پیش نظر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر ہمارے سیارے سے بلیاں ختم ہوئیں، تو بہت جلد انسانی اموات میں اضافہ ہوجائے گا، جس کا ایک سبب بیماریاں ہوں گی اور  دوسرا قحط.

  • جولائی 2019 کرہ ارض کی تاریخ کا گرم ترین مہینہ قرار

    جولائی 2019 کرہ ارض کی تاریخ کا گرم ترین مہینہ قرار

    واشنگٹن: جولائی 2019 کو کرہ ارض کی تاریخ کا گرم ترین مہینہ قرار دے دیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی ادارے قومی سمندری اور ماحولیاتی انتظامیہ کی تحقیق نے رواں سال جولائی کے مہینے کو کرہ ارض کی تاریخ کا گرم ترین مہینہ قرار دے دیا۔

    تحقیق کے مطابق جولائی کے مہینہ میں درجہ حرارت میں غیرمعمولی اضافہ دیکھنے میں آیا جس کے باعث زمین کا زیادہ تر حصہ شدید گرمی کی لپیٹ میں رہا۔

    گرمی کی شدت میں اس غیرمعمولی اضافے کے باعث بحر منجمد شمالی اور بحر منجمد جنوبی کی برف ریکارڈ سطح تک پگھلی ہے۔

    امریکی ایجنسی کے مطابق جولائی میں اوسط درجہ حرارت 0.95 ڈگری سیلسیس 1.71 (ڈگری فارن ہیٹ) تھا، یہ درجہ حرارت 20ویں صدی کے اوسط درجہ حرارت 15.8 ڈگری سیلسیس سے زیادہ ہے جس کے باعث جولائی کو گرم ترین مہینہ قرار دیا جا رہا ہے۔

    اس سے قبل جولائی 2016 کو گرم ترین مہینہ قرار دیا گیا تھا۔ تحقیقاتی ادارے کے مطابق 10 گرم ترین مہینوں میں سے پانچ 2005 کے بعد ریکارڈ کیے گئے ہیں۔

    مئی کا مہینہ گرم ترین قرار

    خیال رہے کہ پچھلے ماہ پوری دنیا میں اتنی زیادہ گرمی پڑی جتنی گزشتہ قریب 140 برسوں میں کبھی ریکارڈ نہیں کی گئی تھی۔

    یاد رہے کہ اس سے قبل جولائی 2016 کو گرم ترین مہینہ قرار دیا گیا تھا، ایک رپورٹ کے مطابق 10 گرم ترین مہینوں میں سے پانچ 2005 کے بعد ریکارڈ کیے گئے ہیں۔

  • کویتی شہرمطربہ دنیا کا گرم ترین شہر قرار

    کویتی شہرمطربہ دنیا کا گرم ترین شہر قرار

    بصرہ /ریاض/کویت : کویت کے غیر آباد  شہر مطربہ دنیا کا گرم ترین شہر قرار دے دیا گیا، عراقی شہر بصرہ دنیا کا دوسرا گرم ترین شہر ،درجہ حرارت 49.6 سینٹی گریڈ ریکارڈ،سعودی عرب میں بھی گرمی نے ریکارڈ توڑ دیا۔

    تفصیلات کے مطابق دنیا کے بیشتر ممالک شدید گرمی کی لپیٹ میں ہیں تاہم کویت کے شہر مطربہ کو دنیا کا گرم ترین شہر قرار دیا گیا ہے جہاں درجہ حرارت 50.1 سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا ہے، تین سال قبل مطربہ شہر میں درجہ حرارت 54 سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا تھا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ عراقی شہر بصرہ دنیا کا دوسرا گرم ترین شہر ہے جہاں درجہ حرارت 49.6 سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا۔

    ماہرین موسمیات نے خبردار کیا ہے کہ آنے والے دنوں میں مطربہ، بصرہ اور گرد و نواح میں درجہ حرارت مزید بڑھے گا، عراقی ریڈیو ’صوت العراق‘ کے مطابق کویتی شہر مطربہ ابھی غیر آباد ہے۔

    ماہرین کے مطابق ریاست راجستھان کے شورو شہر میں درجہ حرارت 47 سینٹی گریڈ سے تجاوز کر چکا ہے جبکہ مہاراشٹر، مدھیہ پردیش، پنجاب، ہریانہ، اتر پردیش اور ہماچل پردیش میں درجہ حرارت 44.9 سینٹی گریڈ تک پہنچ چکا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھا کہ ہماچل پردیش جو معتدل آب و ہوا کے لیے مشہور ہے وہاں بھی درجہ حرارت بڑھا ہے، پاکستان میں بھی لاہور، فیصل آباد اور کراچی سمیت کئی دیگر شہروں میں بھی پارہ اوپر گیا ہے، بعض علاقوں میں درجہ حرارت 45 ڈگری سنیٹی گریڈ سے بھی زیادہ ریکارڈ کیا گیا۔

    ادھر سعودی ماہر موسمیات عبدالعزیز الحصینی نے بتایا ہے کہ شدید گرمی کے باعث سعودی عرب کے مختلف علاقوں میں سانپ اور بچھو بلوں سے باہر آنے لگے ہیں، عسیر ریجن میں مقامی شہریوں اور مقیم غیر ملکیوں کو سانپ اور بچھوؤں سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا کہا گیا ہے۔

  • عالمی یوم ارض: زمین کی مختلف انواع انسان کی بقا کی ضامن

    عالمی یوم ارض: زمین کی مختلف انواع انسان کی بقا کی ضامن

    دنیا بھر میں آج ہماری زمین کے تحفظ اور اس سے محبت کا شعور اجاگر کرنے کے لیے عالمی یوم ارض یعنی زمین کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔

    عالمی یوم ارض سب سے پہلے سنہ 1970 میں منایا گیا۔ یہ وہ دور تھا جب تحفظ ماحولیات کے بارے میں آہستہ آہستہ شعور اجاگر ہو رہا تھا اور لوگ فضائی آلودگی اور دیگر ماحولیاتی خطرات کا بغور مشاہدہ کر رہے تھے۔

    رواں برس اس دن کا مرکزی خیال ہے ’پروٹیکٹ اور اسپیشیز‘ یعنی مختلف انواع کا تحفظ۔

    انسانوں کی صنعتی ترقی اور ماحولیاتی وسائل کے بے دریغ استعمال نے اس وقت زمین پر رہنے والے ہر جاندار کی زندگی داؤ پر لگا دی ہے، چاہے وہ مختلف جانور ہوں یا درخت اور پودے۔

    زمین پر موجود تمام جانوروں اور پودوں کی موجودگی اس زمین اور خود انسانوں کے لیے نہایت ضروری ہے۔ کسی ایک جانور یا پودے کی نسل بھی اگر خاتمے کو پہنچی تو اس سے پوری زمین کی خوراک کا دائرہ (فوڈ سائیکل) متاثر ہوگا اور انسانوں سمیت زمین پر موجود تمام جانداروں پر بدترین منفی اثر پڑے گا۔

    کچھ عرصہ قبل لندن کی زولوجیکل سوسائٹی اور تحفظ جنگلی حیات کی تنظیم ڈبلیو ڈبلیو ایف کی جانب سے ایک رپورٹ جاری کی گئی تھی جس میں بتایا گیا کہ سنہ 1970 سے 2012 تک دنیا بھر میں موجود مختلف جانوروں کی آبادی میں 58 فیصد کمی واقع ہوچکی ہے۔

    ان کے علاوہ بھی جانوروں کی کئی اقسام معدومی کے خطرے کا شکار ہیں۔ ماہرین کے مطابق معدومی کے خطرے کا شکار جانوروں میں پہاڑوں، جنگلوں، دریاؤں، سمندروں سمیت ہر مقام کے جانور اور ہاتھی، گوریلا سے لے کر گدھ تک شامل ہیں۔

    یہی صورتحال درختوں اور جنگلات کی ہے، ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 1 کروڑ 87 لاکھ ایکڑ رقبے پر مشتمل جنگلات کاٹ دیے جاتے ہیں۔

    عظیم معدومی

    ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین پر ایک اور عظیم معدومی کا وقت تیزی سے قریب آتا جارہا ہے اور اس کی رفتار ہمارے گمان سے بھی تیز ہے۔

    عظیم معدومی ایک ایسا عمل ہے جو کسی تباہ کن آفت یا زمینی و جغرافیائی عوامل کی وجہ سے رونما ہوتی ہے اور اس کے بعد زمین سے جانداروں کی 60 فیصد سے زائد آبادی ختم ہوجاتی ہے۔ بچ جانے والی حیاتیات اس قابل نہیں ہوتی کہ ہھر سے اپنی نسل میں اضافہ کرسکے۔

    زمین پر اب تک 5 عظیم معدومیاں رونما ہوچکی ہیں۔ سب سے خوفناک معدومی 25 کروڑ سال قبل واقع ہوئی جب زمین کی 96 فیصد آبی اور 70 فیصد زمینی حیات صفحہ ہستی سے مٹ گئی۔

    آخری معدومی اب سے ساڑھے 6 کروڑ سال قبل رونما ہوئی جس میں ڈائنوسارز سمیت زمین کی ایک تہائی حیاتیات ختم ہوگئی۔

    ماہرین کے مطابق ہم انسان جس خود غرضانہ طریقے سے صرف اپنے لیے زمین اور اس کے وسائل کو استعمال کر رہے ہیں، قوی امید ہے کہ زمین سے جنگلی حیات اور دیگر انواع کا خاتمہ ہوجائے، لیکن یہاں یاد رکھنا ضروری ہے کہ یہ اتمام انواع ہی انسان کی بقا کی ضانت ہیں اور ان انواع کا خاتمے کے بعد انسان کی بقا کی امید رکھنا خام خیالی ہے۔

  • زمین کا وہ مقام جو خلائی اسٹیشن سے بے حد نزدیک ہے

    زمین کا وہ مقام جو خلائی اسٹیشن سے بے حد نزدیک ہے

    کیا آپ جانتے ہیں ہماری زمین پر ایک مقام ایسا بھی ہے جہاں پہنچنا بے حد مشکل ہے، اور اسے زمین کا مشکل ترین مقام قرار دیا جاتا ہے؟

    اور مزید حیرت انگیز بات یہ ہے کہ عالمی خلائی اسٹیشن پر موجود انسان اس مقام سے، زمین پر موجود انسانوں کی نسبت زیادہ نزدیک ہیں۔

    پوائنٹ نیمو نامی یہ مقام جنوب بحر اوقیانوس کے وسط میں واقع ہے اور یہ خشکی سے نہایت دور ہے۔ اس مقام سے قریب ترین زمین 1400 ناٹیکل میل کے فاصلے پر ہے۔

    لفظ ’نیمو‘ لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے ’کوئی نہیں‘۔

    کسی بھی قسم کے جاندار سے خالی اس مقام کو سنہ 1992 میں اس وقت دریافت کیا گیا جب سیٹلائیٹ ٹیکنالوجی کی مدد سے اس خطے کا نقشہ تیار کیا جارہا تھا۔

    اس مقام کے آس پاس مہر آئی لینڈ، ایسٹر آئی لینڈ اور ڈیوئس آئی لینڈ نامی جزیرے موجود ہیں لیکن یہ بھی اس سے 2300 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہیں۔ اس مقام کو زمین کا تنہا ترین مقام بھی کہا جاتا ہے۔

    ایک اندازے کے مطابق عالمی خلائی اسٹیشن (انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن) پر موجود انسان، دیگر زمینی باشندوں کی نسبت اس مقام سے زیادہ نزدیک ہیں، یہ اسٹیشن زمین کے محور سے 408 کلو میٹر باہر واقع ہے۔

    پوائنٹ نیمو کو خلائی جہازوں کا قبرستان بھی کہا جاتا ہے۔ جب بھی خلا سے کوئی سیٹلائٹ، خلائی اسٹیشن یا خلائی جہاز ناکارہ ہونے کے بعد واپس زمین پر پھینکا جاتا ہے تو اسے اسی مقام پر پھینکا جاتا ہے تاکہ یہ کسی انسانی آبادی کو نقصان نہ پہنچائے۔

  • زمین پر برفانی دور شروع ہوسکتا ہے

    زمین پر برفانی دور شروع ہوسکتا ہے

    دنیا بھر کے درجہ حرارت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ ایک طرف تو زمین کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگائے کھڑا ہے، تو دوسری جانب سائنس دانوں کا دعویٰ ہے کہ جلد ہی زمین پر برفانی دور یعنی آئس ایج کا آغاز بھی ہوسکتا ہے۔

    لندن کی نارتھمبریا یونیورسٹی کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگلی ایک دہائی کے دوران زمین پر برفانی دور شروع ہوسکتا ہے جس میں زمین کے تمام بڑے دریا منجمد ہوجائیں گے۔

    یہ پیش گوئی سورج کی مقناطیسی توانائی کی حرکت کو مدنظر رکھتے ہوئے کی گئی ہے۔

    سنہ 1645 سے 1715 کے درمیان منجمد دریائے ٹیمز

    آسٹرو نومی اینڈ جیو فزکس نامی رسالے میں شائع شدہ اس تحقیق میں ماہرین کا کہنا ہے کہ سنہ 2021 سے زمین کے درجہ حرارت میں کمی واقع ہونی شروع ہوجائے گی اور دہائی کے آخر تک زمین برفانی دور کا سامنا کرے گی۔

    ماہرین کی یہ تحقیق اس سے قبل کی جانے والی ایک اور تحقیق کی بنیاد پر کی گئی ہے۔ گزشتہ تحقیق میں سورج کی دو مقناطیسی لہروں کی حرکت کے بارے میں بتایا گیا تھا۔

    حالیہ تحقیق کے مطابق ان مقناطیسی لہروں میں تیزی سے کمی واقع ہوگی جس کا آغاز سنہ 2021 سے ہوگا اور یہ 33 سال تک جاری رہے گا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین پر اس سے پہلے بھی ایک مختصر آئس ایج رونما ہوا تھا جو سنہ 1646 سے 1715 تک رہا تھا۔ اس دوران لندن کا دریائے ٹیمز منجمد دریا میں تبدیل ہوگیا تھا۔

    تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا ہے کہ سورج کی یہ لہریں اور ان کی حرکت ماضی میں تو برفانی دور کا باعث بنیں، تاہم اب یہ عمل کس قدر اثر انگیز ہوسکتا ہے، یہ کہنا مشکل ہے کیونکہ اس کی راہ میں گلوبل وارمنگ یا عالمی حدت حائل ہے۔

    ان کے مطابق یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ مستقبل میں بھی یہ عمل برفانی دور کا باعث بنے گا یا گلوبل وارمنگ کا اثر زیادہ ہوگا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ماضی کی طرح اگر اب بھی یہ عمل برفانی دور کا باعث بنتا ہے تو یہ زمین کے لیے خوش آئند ہوگا کیونکہ اس سے گلوبل وارمنگ کا عمل سست یا رک سکتا ہے۔

    ’30 سال کے اس عرصے میں یقیناً ہم گلوبل وارمنگ کا باعث بننے والے عوامل کو کم کرسکتے ہیں اور اس کا مستقل حل بھی ڈھونڈ سکتے ہیں، اس کے بعد جب زمین معمول کی حالت پر لوٹ آئے گی تو ہمارے پاس موقع ہوگا کہ ہم گلوبل وارمنگ کو کنٹرول میں رکھ سکیں‘۔

  • مگرمچھ زمین پرکب سے موجود ہیں؟

    مگرمچھ زمین پرکب سے موجود ہیں؟

    مگرمچھ اس زمین پر موجود بڑے رینگنے والے جانداروں میں شامل ہیں اور یہ ڈائنا سار کے قریبی رشتے دار سمجھے جاتے ہیں۔

    ان کا شمار ایسے جانداروں میں ہوتا ہے جنہیں دیکھتے ہی انسان پر ہیبت طاری ہوجاتی ہے اور کیوں نہ ہو اپنے بڑے اور طاقتو ر جبڑے کے ساتھ کسی بھی جاندار کو لمحوں میں ٹکڑوں میں تبدیل کرسکتے ہیں۔

    کرہ ارض پر اس وقت مگر مچھ کی 23 اقسام موجود ہیں اور ان سب کو انتہائی خطرے سے دوچار جانداروں میں شامل کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ فیشن انڈسٹری میں اس ہیبت ناک جاندا ر کی کھال کی مانگ ہے ، جسے امراء اسٹیٹس سمبل سمجھ کر استعمال کرتے ہیں۔

    آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں کرہ ارض کے اس قدیم ترین باشند ے کی کچھ ایسی خصوصیات جو اسے دوسرے جانداروں سے ممتاز کرتی ہیں۔


    • مگر مچھ پرندوں اور ڈائنا سارز کے قریبی رشتے دار ہیں، یہ زمین پر لگ بھگ ڈھائی کروڑ سال سےموجود ہیں اور ڈائنا سار کے مقابلے میں یہ اپنی نسل بچانے میں کامیاب رہے ہیں۔
    • ان کی لمبائی ان کی نسل اور ان کے رہنے کے مسکن پر منحصر ہوتی ہے ، نمکین پانی کا مگر مچھ 13 سے 18 فٹ لمبے ہوسکتے ہیں اور ان کا وزن 22 سو پاؤنڈ تک ہوسکتا ہے جبکہ بونے مگر مچھ کے نام سے پہچانے جانے والے مگر مچھ پانچ فٹ تک لمبے ہوسکتے ہیں اور ان کا وزن 40 سے 70 پاؤنڈ ہوتا ہے۔
    • گوشت کھانے والے اس ہیبت ناک جاندار کے جبڑے میں 24 تیز دھار دانت ہوتے ہیں جو کہ ان کے شکار کو ٹکڑے کردینے میں معاون ہوتے ہیں۔
    • یہ اپنے شکار کو چباتے نہیں ہیں بلکہ سالم ہی نگل جاتے ہیں اور کبھی کبھار یہ پتھر بھی نکلتے ہیں تاکہ ان کے پیٹ میں گوشت کو کچلنے کا عمل تیز تر ہوسکے۔
    • محاورہ مشہور ہے ’ مگر مچھ کے آنسو‘ ۔ یہ صرف محاورہ نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ کسی بھی شکار کو کھاتے وقت مگرمچھ کی آنکھ میں آنسو ہوتے ہیں، لیکن اس کا سبب شکار کے لیے ان کے جذبات نہیں بلکہ کھانا کھانے کے دوران وہ اپنے اند ر بہت زیادہ ہوا بھرلیتے ہیں جو کہ آنسو پیدا کرنے والے گلینڈز پر اثر انداز ہوتی ہے جس کے سبب شکار کو کھاتے وقت ان کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔
    • مگر مچھ مون سون کے موسم میں اپنےساتھی سے ملاپ کرتے ہیں جس کے نتیجے میں مادہ مگر مچھ 20 سے 80 تک انڈے دیتی ہے ۔ مادہ مگرمچھ 3 ماہ تک انڈوں کی نگہداشت کرتی ہے جس کے بعد ان میں سے بچے نکل آتے ہیں۔
    • ٹھنڈے خون والے اس جاندار کے بچوں کی جنس ان کے گھونسلے کے درجہ حرارت پر منحصر ہے۔ اگر درجہ حرارت 31.6 سینٹی گریڈ رہے تو انڈوں سے نر بچے برآمد ہوتے ہیں اور اگر درجہ حرارت کم یا زیادہ ہوجائے تو انڈوں میں سے مادہ مگر مچھ نکلتے ہیں۔
    • پانی میں رہنے والا یہ شاندار خزندہ 50 سے 60 سال تک زندہ رہتا ہے ، تاہم کچھ مگر مچھ ایسے بھی ہیں جن کی عمر 80 سال تک کی ہوتی ہے۔