Tag: earth

  • اگر زمین پر موجود تمام افراد بیک وقت چھلانگ لگائیں تو کیا ہوگا؟

    اگر زمین پر موجود تمام افراد بیک وقت چھلانگ لگائیں تو کیا ہوگا؟

    یہ زمین جس پر ہم رہتے ہیں اپنے اندر بے انتہا وسعت رکھتی ہے تاہم تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اس زمین کو نقصان پہنچانے اور اس کے وسائل وقت سے پہلے ختم ہونے کا سبب بن رہی ہے۔

    دنیا میں اس وقت ساڑھے 7 ارب سے زائد افراد آباد ہیں۔ کیا آپ نے کبھی سوچا کہ اگر یہ تمام افراد مل کر بیک وقت زمین پر چھلانگ لگائیں تو کیا ہوگا؟

    ماہرین کے مطابق اتنی بڑی آبادی کا ایک ساتھ چھلانگ لگانا زمین پر کچھ نہ کچھ اثر مرتب کرسکتا ہے۔

    سب سے پہلے تو تمام افراد کو کسی ایک مقام پر جمع ہونا ہوگا۔ اگر ہر شخص اپنے موجودہ مقام پر رہتے ہوئے چھلانگ لگائے تو شاید اس کا کوئی اثر نہ ہو۔

    کسی ایک مقام پر جمع ہونے کے بعد یہ ساڑھے 7 ارب افراد مل کر چھلانگ لگائیں گے تو سب سے پہلے زمین پر ایک واضح لرزش محسوس ہوگی۔

    اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کے اچھلنے سے بے تحاشہ توانائی خارج ہوگی جو زمین اور ہوا میں جذب ہوجائے گی۔

    مزید پڑھیں: اگر انسان زمین سے غائب ہوجائیں تو کیا ہوگا؟

    یہ توانائی اور لوگوں کی چھلانگ مل کر 4 سے 8 شدت کا زلزلہ پیدا کرسکتا ہے۔ 4 شدت کا زلزلہ تو برداشت کیا جاسکتا ہے، تاہم 8 شدت کا زلزلہ اس مقام پر موجود عمارتوں، پلوں اور الیکٹرک پولز کو منہدم کرسکتا ہے۔

    علاوہ ازیں اس مقام پر سونامی بھی آسکتا ہے جس میں 100 فٹ تک بلند لہریں ہر شے کو بہا لے جائیں گی۔

    اس کے ساتھ ساتھ ساڑھے 7 ارب افراد کے پیروں کی دھمک ایک زوردار آواز بھی پیدا کرے گی جس سے سماعت بھی متاثر ہوسکتی ہے۔

    تاہم اس انوکھے تجربے کے تحت جو اثرات ظاہر ہوں گے وہ صرف اسی مقام اور اس کے آس پاس تک محدود رہیں گے۔ مجموعی طور پر زمین کی گردش پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

    زمین تمام انسانوں کے وزن سے دس کھرب گنا زیادہ بھاری ہے لہٰذا یہ ساڑھے 7 ارب افراد بھی زمین کو اس کے مقررہ محور اور گردش سے نہیں ہٹا سکتے۔

  • اگر کوئی سیارچہ زمین سے ٹکرا جائے تو کیا ہوگا؟

    اگر کوئی سیارچہ زمین سے ٹکرا جائے تو کیا ہوگا؟

    یہ 16 اپریل 2018 کا دن تھا۔ خلا سے جی ای 3 نامی ایک سیارچہ تیزی سے زمین کی طرف بڑھ رہا تھا اور سائنس دان اس راستے کو دیکھ کر تشویش میں مبتلا تھے جہاں سے اس سیارچے کا زمین سے تصادم یقینی تھا۔

    تھوڑی دیر بعد سیارچہ زمین سے صرف 1 لاکھ 90 ہزار کلو میٹر کے فاصلے پر رہ گیا۔ یہ اس فاصلے سے بھی نصف تھا جو چاند سے زمین کا ہے یعنی 3 لاکھ 84 ہزار 400 کلو میٹر۔

    یکایک اس سیارچے نے اپنا راستہ تبدیل کیا اور سورج کی طرف جانے لگا جس کے ساتھ ہی دنیا بھر کے خلائی مراکز میں اسکرینز پر نظریں جمائے بیٹھے سائنسدان خوشی سے اچھل پڑے اور ایک دوسرے کو مبارکباد دینے لگے۔ زمین سے اس سیارچے کے تصادم کا خطرہ ٹل چکا تھا۔

    خطرہ تو ٹل چکا تھا تاہم یہ واقعہ اپنے پیچھے کئی سوالات چھوڑ گیا۔ ایک فٹبال کے میدان جتنا یہ سیارچہ اگر اپنا راستہ تبدیل نہ کرتا اور اسی طرح بڑھتا رہتا تو زمین کے باسیوں کا مقدر کیا تھا؟

    کیا اس سے پہلے آنے والے سیارچوں کی طرح یہ سیارچہ بھی زمین کی فضا میں داخل ہوتے ہی تباہ ہوجاتا؟ اور اگر اپنے بڑے حجم کی وجہ سے یہ تیزی سے زمین کی طرف پہنچنے میں کامیاب بھی ہوجاتا تو اس کے بعد کیا ہونا تھا؟

    خلا سے مختلف سیارچوں کا زمین کی طرف آنا معمول کی بات ہے۔ ہر روز خلا سے تقریباً 100 ٹن ریت اور مٹی زمین سے ٹکراتی ہے۔

    سال میں صرف ایک بار کسی کار کے جتنی جسامت رکھنے والا سیارچہ زمین کے قریب آتا ہے لیکن یہ زمین کی فضا میں داخل ہوتے ہی تباہ ہوجاتا ہے اور کبھی بھی زمین کی سطح سے نہیں ٹکراتا۔

    وہ سیارچہ جو 10 کلومیٹر چوڑا تھا اور جس نے ڈائنو سار کی نسل کا خاتمہ کردیا، کئی لاکھ سال میں شاذ و نادر زمین کی طرف اپنا رخ کرتا ہے۔

    ہماری اصل پریشانی کا سبب وہ پتھر ہیں جو جسامت میں سیارچے سے چھوٹے ہوتے ہیں اور انہیں شہاب ثاقب کہا جاتا ہے۔ یہ شہاب ثاقب بھی 2 ہزار سال میں ایک بار زمین کی طرف آتے ہیں۔

    تصور کریں ایک 100 میٹر طویل پتھر 19 میل فی سیکنڈ کی رفتار سے آپ کی جانب آرہا ہو تو یہ نظارہ کس قدر خوفناک ہوگا۔

    اگر یہ شہاب ثاقب زمین کی فضا سے صحیح سلامت گزر گیا تو اسے زمین کی سطح سے ٹکرانے میں صرف 3 سیکنڈ لگیں گے۔

    چونکہ زمین کے صرف 3 فیصد حصے پر آبادی موجود ہے لہٰذا قوی امکان ہے کہ شہاب ثاقب سمندر میں جا گرے۔ تاہم ان میں سے کوئی آدھ ایسا بھی ہوسکتا ہے جو کسی پرہجوم شہر سے جا ٹکرائے۔

    اس کے بعد کیا ہوگا؟

    اگر واقعی ایسا ہوجاتا ہے، کوئی شہاب ثاقب زمین کی سطح سے آ ٹکراتا ہے تو نیویارک جیسے پرہجوم شہر میں یہ واقعہ 25 لاکھ اموات کا سبب بن سکتا ہے۔

    یہ شہاب ثاقب جس مقام پر گرے گا اس مقام کے 2 میل کے دائرے میں ہر چیز تباہ ہوسکتی ہے جبکہ 7 میل کے دائرے تک میں موجود عمارتوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

    ایک امکان یہ بھی ہے کہ خلا میں بھیجے جانے والے انسانی مشنز کی بدولت یہ پتھر تابکاری سے آلودہ ہوں۔ ایسی صورت میں یہ تابکار پتھر زمین پر گرتے ہی آدھی سے زیادہ آبادی کو چند لمحوں میں فنا کرسکتے ہیں۔

    ایسے ممکنہ تصادم کی صورت میں تابکار پتھر کا ملبہ زمین کے گرد ویسے ہی حلقوں کی صورت گھومنے لگے گا جیسے سیارہ زحل کے گرد حلقے موجود ہیں۔

    اس میں سے زیادہ تر ملبہ بھی واپس زمین پر آ گرے گا جس سے شہروں اور جنگلات میں آگ لگ جائے گی۔

    زمین کی سطح پر بے تحاشہ دھول اور دھواں پھیل جائے گا جس سے بچنے کے لیے زندہ رہ جانے والے انسانوں کو زیر زمین بنکرز میں جانا ہوگا۔

    یہ دھواں اور گرد و غبار سورج کی روشنی کو زمین پر پہنچنے سے روک دے گا۔ سورج کے بغیر زیادہ تر پودے اور جانور مر جائیں گے۔

    تقریباً ایک سال بعد زمین کی فضا گرد و غبار سے کچھ صاف ہوگی تاہم اس وقت تک انسانوں کے کھانے کے لیے نہایت قلیل مقدار میں اشیا موجود ہوں گی۔

    ماہرین کے مطابق اس ممکنہ تصادم، اس کی تباہی اور بعد ازاں خوراک کی ناپیدگی انسانوں کی نسل کو ایسے ہی معدوم کردے گی جیسے آج سے ساڑھے 6 کروڑ سال قبل ڈائنو سارز کی نسل معدوم ہوگئی۔

    خوش آئند بات یہ ہے کہ زمین سے اوپر اس کی فضا ایسی ہے جو سیارچوں کو زمین کی طرف آنے سے روک دیتی ہے اور فضا میں موجود گیسیں سیارچوں اور خلا سے آنے والے پتھروں کی تباہی کا سبب بن جاتی ہیں۔

    دوسری جانب دنیا کا سب سے بڑا خلائی مرکز ناسا بھی ہر وقت زمین کے ارد گرد خلا میں نظر رکھے ہوئے ہے۔

    تاہم بری خبر یہ ہے کہ سیارچے کے زمین سے تصادم کا اس وقت تک معلوم نہیں ہوسکتا جب تک وہ زمین سے بہت قریب نہ آجائے، اور ایسی صورت میں ہمارے پاس بچنے کے لیے بہت کم وقت ہوگا۔

  • خلا سے زمین کا خوبصورت نظارہ

    خلا سے زمین کا خوبصورت نظارہ

    بین الاقوامی خلائی اسٹیشن یا مرکز (انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن) زمین کے محور سے 408 کلو میٹر باہر واقع ہے۔

    یہ خلائی اسٹیشن اس وقت خلا میں موجود سب سے بڑی جسامت ہے جو بعض اوقات زمین سے بھی بغیر کسی دوربین کے دیکھی جاسکتی ہے۔

    یہ اسٹیشن امریکا، روس، یورپ، جاپان اور کینیڈا کے خلائی مراکز کی جانب سے مشترکہ طور پر تیار کیا گیا تھا اور اس کا مقصد زمین سے باہر خلا میں مختلف تجربات اور مشاہدات کرنا ہے۔

    مزید پڑھیں: بین الاقوامی خلائی مرکز کب تک کارآمد رہے گا؟

    یہ اسٹیشن دوسرے سیاروں کی طرف جانے والی مہمات اور خلابازوں سے بھی رابطے میں رہتا ہے جبکہ خلا میں ہونے والی تبدیلیوں سے مسلسل سائنس دانوں کو آگاہ کرتا رہتا ہے۔

    کیا آپ جانتے ہیں اس اسٹیشن سے زمین کیسی دکھائی دیتی ہے؟ تو چلیں پھر آج وہاں سے زمین کی سیر کرتے ہیں۔

  • پانی میں گُھل جانے والا ماحول دوست پلاسٹک کا تھیلا

    پانی میں گُھل جانے والا ماحول دوست پلاسٹک کا تھیلا

    بیجنگ: چین کے ماہرین نے ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کے لیے ایسا تھیلا تیار کرلیا جو پانی میں آسانی کے ساتھ گھل جاتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق دنیا بھر میں ماحولیاتی آلودگی کے باعث تیزی سے موسمیاتی تغیراتی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں جنہیں ماہرین کراہ ارض کے لیے انتہائی خطرناک قرار دے چکے ہیں۔

    ماہرین نے جہاں آلودگی کے اسباب کو تیزی سے بڑھتی ہوئی صنعتوں کو قرار دیا وہی اُن کا یہ بھی خیال ہے کہ ہمارے زیر استعمال پلاسٹک کے بیگز بھی معاشرے کی تباہی کا باعث بن رہے ہیں۔

    چین کی ایک کمپنی نے اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے انسانی ضرورت کے لیے ایسا پلاسٹک کا ’بیگ‘ تیار کیا ہے جو استعمال کے بعد پانی میں حل ہوجاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: ماحول دوست پلاسٹک بیگ تیار‘ آپ کھا بھی سکتے ہیں

    رابرٹو ایسٹی ٹی جو اس کمپنی کے مالک ہیں انہوں نے یہ خیال ماحولیاتی آلودگی پر نظر رکھنے والے ماہرین کے سامنے پیش کیا تھا جسے سب نے سراہا تھا مگر اس پر عملدرآمد کو یقینی بنانا انہیں مشکل نظر آرہا تھا۔

    رابرٹو نے ایک سال کی کاوش کے بعد ایک پلاسٹک کا چھوٹا بیگ تیار کیا جسے استعمال کر کے اگر پانی میں پھیلا جائے تو آسانی کے ساتھ اُسی میں گھل جائے گا۔

    واضح رہے کہ ہمارے زیراستعمال پلاسٹک کے بیگز سیکڑوں سال تک تلف نہیں ہوتے اور اگر یہ سمندر میں چلے جائیں تو آبی مخلوق کے لیے بھی موت کا باعث بنتے ہیں۔

    اُن کا کہنا تھا کہ ’ہم نے جو تھیلے تیار کیے اُس کے لیے کسی بڑے سرمائے یا مشینری کی ضرورت نہیں، آسانی کے ساتھ ہم انہیں بنا کر آلودگی پر قابو پاسکتے ہیں‘۔

    یہ بھی پڑھیں:  پلاسٹک بیگ کا استعمال ختم کرنے کے لیے انوکھا قانون

    ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ ایک کھرب سے زائد پلاسٹک کی تھیلیاں استعمال کے بعد پھینک دی جاتی ہیں جو کروڑوں ٹن کچرے کی شکل میں ہماری زمین کو مسلسل نقصان پہنچا رہی ہیں۔

    پلاسٹک ایک ایسا مادہ ہے جسے ختم ہونے یا زمین کا حصہ بننے کے لیے ہزاروں سال درکار ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ انہیں ماحول، صفائی اور جنگلی حیات کے لیے ایک بڑا خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔

  • ہماری زمین کی گہرائی میں کیا ہے؟

    ہماری زمین کی گہرائی میں کیا ہے؟

    کبھی آپ نے سوچا ہے کہ ہماری زمین جس پر ہم رہتے ہیں، اپنے رہنے کے لیے گھر بناتے ہیں، اپنے اندر کیا رکھتی ہے؟

    اگر زمین کو کھودا جائے تو ہم کتنی گہرائی میں جاسکتے ہیں؟ اور اس گہرائی میں ہمیں کیا ملے گا؟

    آئیں آج ان تمام سوالات کے جواب جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

    زمین کی اب تک کی معلوم گہرائی روس کے جزیرہ نما حصہ (پینسولا) کولا میں موجود ہے جہاں ایک 7.5 میل گہرا گڑھا موجود ہے جسے کولا بورہول کہا جاتا ہے۔

    یہ گڑھا سمندر کی اب تک کی معلوم گہرائی سے بھی زیادہ گہرا ہے۔

    زمین کی گہرائی کو جانچنے کے لیے اس گڑھے کی کھدائی سنہ 1970 میں سوویت یونین کے دور میں شروع کی گئی۔

    اس کھدائی سے اب تک 3 اہم دریافتیں کی جاچکی ہیں۔ آئیں دیکھتے ہیں وہ دریافتیں کیا ہیں۔


    ایک پوری تہہ غائب ہوگئی

    زمین کے اندر موجود پتھریلی تہہ میں بسالٹ نامی تہہ موجود نہیں۔ سائنسدانوں کا خیال تھا کہ زمین کی تہہ میں بلند درجہ حرارت کے باعث سخت مادے مائع حالت میں موجود ہیں اور انہی میں سے ایک تہہ بسالٹ کی ہے۔

    تاہم اس کھدائی میں ماہرین کو بسالٹ نہیں ملا۔ یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ اس تہہ کا کوئی وجود نہیں، ممکن ہے یہ تہہ مزید گہرائی میں واقع ہو جہاں ابھی تک انسان نہ پہنچ سکا ہو۔


    گہرائی میں پانی

    پانی عموماً زمین کے اندر اوپر ہی ہوتا ہے اور تھوڑی سی کھدائی کے بعد نکل آتا ہے جس کا ثبوت جا بجا کھدے کنویں اور دیہی علاقوں میں نصب ہینڈ پمپس ہیں جو زمین سے پانی نکال کر زمین کے اوپر آباد افراد کی ضروریات پورا کرتے ہیں۔

    تاہم سائنس دانوں نے اس گہرائی سے بہت دور 4.3 میل نیچے بھی پانی دریافت کیا۔ اس قدر گہرائی میں پانی کی موجودگی کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی۔


    سب سے حیرت انگیز دریافت

    کھدائی کے اس عمل کے دوران سب سے حیرت انگیز دریافت زمین کے اندر اتھاہ گہرائی میں خوردبینی رکازیات (فاسلز) کی شکل میں زندگی کی موجودگی تھی۔

    یہ فاسلز جن پتھروں میں دریافت کیے گئے ان پتھروں کی عمر 2 ارب سال تھی۔ ان فاسلز میں خورد بینی جانداروں کی 35 انواع دریافت کی گئیں۔


    کھدائی کیوں روکی گئی؟

    انسانی عقل کو دنگ کردینے والے انکشافات پر مبنی اس کھدائی کو سنہ 1994 میں کئی وجوہات کے باعث روک دیا گیا۔

    پہلی وجہ تو زمین کی تہہ کا ناقابل برداشت درجہ حرارت تھا جو 180 سینٹی گریڈ پر تھا۔

    اس کے علاوہ جیسے جیسے کھدائی ہوتی گئی، ویسے ویسے زمین کے اندر پتھروں کی کثافت یا مضبوطی میں اضافہ ہوتا گیا۔ کھدائی کرنے والوں کا کہنا ہے کہ مزید گہرائی میں ڈرلنگ کرنا کسی پلاسٹک سے ڈرل کرنے جیسا ہوگیا تھا۔

    ایک اور وجہ عوام میں عجیب و غریب خیالات کا پھیل جانا بھی تھا۔

    کھدائی کے دوران جب پانی کی موجودگی سامنے آئی تو لوگوں نے اسے حضرت نوح علیہ السلام کے دور میں آنے والے عظیم سیلاب سے جوڑنا شروع کردیا جس کے بعد زمین پر دوبارہ زندگی کا آغاز ہوا تھا۔

    لوگوں کا ماننا تھا کہ اس عظیم سیلاب کے بعد جب پانی اترا تو وہ زیر زمین گڑھوں اور نالوں میں پھیل گیا اور اب اس قدر گہرائی میں پانی کی موجودگی ثابت کرتی ہے کہ یہ طوفان اور عظیم سیلاب کوئی دیو مالائی داستان نہیں بلکہ حقیقت تھی۔


    خوفزدہ کردینے والا مفروضہ

    کھدائی کے اس عمل کے دوران ماہرین کے دلوں میں بھی ایک مفروضہ بیٹھ گیا جو کافی انوکھا اور کسی حد تک خوفزدہ کردینے والا تھا۔

    ماہرین کے مطابق جہاں تک وہ کھدائی کرچکے تھے، اس حد سے آگے مزید کھدائی کرنا جہنم کی طرف جانکلنے کے مترادف تھا، جو ان کے خیال میں زمین کی گہرائی میں موجود تھی۔

    ان ماہرین نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ جب وہ کھدائی کرتے ہوئے زمین کی گہرائی کی طرف بڑھ رہے تھے تو انہیں بعض اوقات نامانوس سی چیخیں بھی سنائی دیتی تھیں۔

    ان کے مطابق یہ چیخیں تکلیف میں مبتلا ان روحوں کی تھیں جو جہنم میں جل رہی تھیں۔

    اور آخر میں آپ کو سب سے زیادہ خوفناک بات سے آگاہ کرتے چلیں، یہ کھدائی جہاں پر ختم ہوئی وہ مقام زمین کے مرکز تک کا صرف 0.002 حصہ ہے۔

    یعنی زمین کی لامتناہی گہرائی ابھی مزید کئی عظیم دریافتوں کی منتظر ہے، کیا معلوم انسان اس قابل ہے بھی یا نہیں کہ اسے دریافت کرسکے۔

  • دھرتی اور افق کے سنگم کو اجاگر کرتی تصاویر

    دھرتی اور افق کے سنگم کو اجاگر کرتی تصاویر

    فن یا آرٹ پرواز تخیل کو پیش کرنے کا نام ہے، اور اس کی کوئی سرحد، کوئی حد نہیں۔

    تصورات، خیالات، اور تخیل ہر شخص کا مختلف ہوتا ہے، لیکن فنکار کے اندر یہ ہنر ہوتا ہے کہ وہ اپنے ذہن میں تصویر ہوتے تخیل کو دنیا کے سامنے پیش کرسکتا ہے۔

    آج ہم آپ کو ایسے ہی ایک فنکار کی تخلیقی صلاحیت دکھانے جارہے ہیں، جس کی تخلیقی اڑان نے آسمان اور زمین کو یکجا کردیا اور اس آمیزش سے جو فن پارے سامنے آئے وہ دنگ کردینے والے ہیں۔

    ان تصاویر کو دیکھ کر آپ ایک لمحے کو بھول بیٹھیں گے کہ زمین کی حد کہاں ختم ہوئی اور آسمان کہاں شروع ہوا۔

    سیاہ و سفید رنگ کی آمیزش سے تخلیق کی گئی ان تصاویر میں پہاڑ بھی ہیں، بادل بھی، سمندر بھی، عمارتیں بھی اور طوفان بھی۔

    یہ تصاویر ابتداً کیمرے سے کھینیچی گئی ہیں، تاہم ماہر فنکار نے مہارت سے انہیں فن پاروں میں تبدیل کردیا ہے۔

    To the mind that is still, the whole universe surrenders. – Lao Tzu #CoastalFlorida Collection – "Palm Pilots”

    A post shared by H E N T H O R N E (@henthorne_) on

    Gratitude is the sign of noble souls. – Aesop #Pacifico Collection – "Looking Glass”

    A post shared by H E N T H O R N E (@henthorne_) on

    Next Stop – Cuba

    A post shared by H E N T H O R N E (@henthorne_) on

    Things do not change; we change. Henry David Thoreau #Pacifico Collection :::: Spotlight ::::

    A post shared by H E N T H O R N E (@henthorne_) on


    کیسی لگیں آپ کو تصاویر؟ ہمیں کمنٹس میں ضرور بتائیں۔

  • پندرہ سال بعد آج رات پھر مریخ زمین کے قریب تر آ جائے گا

    پندرہ سال بعد آج رات پھر مریخ زمین کے قریب تر آ جائے گا

    ناسا: امریکی وفاقی اسپیس ایجنسی ناسا کا کہنا ہے کہ آج پندرہ سال بعد ایک بار پھر سرخ سیارہ زمین کے قریب تر آ جائے گا جسے رات کے وقت دیکھا جا سکے گا۔

    تفصیلات کے مطابق آج رات زمین کے ایک طرف آسمان پر سورج اور دوسری طرف مریخ براجمان ہوگا، جو ایک سیدھے خط میں نظر آئیں گے۔

    ناسا کا کہنا ہے کہ اگرچہ دونوں سیارے ایک دوسرے سے کم ترین فاصلے پر ہوں گے، یہ پھر بھی ایک دوسرے سے 57.6 ملین کلو میٹر (5 کروڑ 76 لاکھ کلو میٹر) دوری پر ہوں گے۔

    کہا جا رہا ہے کہ یہ اکتوبر 2020 تک زمین اور مریخ کے درمیان قریب ترین فاصلہ ہوگا، تاہم آج جس طرح سرخ سیارہ واضح طور پر نظر آئے گا اس طرح یہ صرف ہر پندرہ سے سترہ سال کے بعد ہی نظر آیا کرتا ہے۔

    دل چسپ بات یہ ہے کہ وہ لوگ جو 27 جولائی کو چاند گرہن دیکھ رہے تھے، آسمان میں مریخ کو بھی دیکھ سکیں گے، تاہم یہ آسٹریلیا، جنوبی افریقا اور جنوبی امریکی ممالک ہی میں بہتر طور پر دکھائی دے گا۔

    مریخ پر مائع پانی کی جھیل مل گئی، سائنس دانوں کا دعویٰ

    ماہرینِ فلکیات کا کہنا ہے کہ ہم مریخ کو ستمبر تک دیکھ سکیں گے تاہم یہ ہر گزرتے روز کے ساتھ چھوٹا ہوتا جائے گا کیوں کہ یہ زمین کے قریب ترین مدار کو چھوڑ دے گا۔

    خیال رہے کہ اگر چہ مریخ پندرہ سال بعد زمین کے قریب تر آ رہا ہے اور یہ بہت سارے لوگوں کے لیے ایک نیا اور شان دار منظر ہوگا تاہم جن لوگوں نے اسے 2003 میں دیکھا ہے ان کے لیے یہ منظر نیا نہیں۔

    ناسا نے مریخ پر ہیلی کاپٹر بھیجنے کا اعلان کردیا

    2003 میں مریخ زمین سے ’محض‘ 56 ملین کلو میٹر کے فاصلے پر آ گیا تھا، ناسا کے مطابق یہ ایک ایسا واقعہ تھا جو 60 ہزار سال کے عرصے میں پیش نہیں آیا تھا اور سال 2287 تک دوبارہ پیش نہیں آئے گا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • پاکستان کے رقبے سے بڑا سیارچہ زمین سے خطرناک حد تک قریب

    پاکستان کے رقبے سے بڑا سیارچہ زمین سے خطرناک حد تک قریب

    پاکستان کے کل رقبے جتنا بڑا سیارچہ زمین سے خطرناک حد تک قریب آگیا۔ سیارچے کو رات کے اوقات میں بغیر کسی ٹیلی اسکوپ کے باآسانی دیکھا جاسکتا ہے۔

    ویسٹا نامی یہ سیارچہ ہمارے نظام شمسی کے اندر موجود چوتھا بڑا معلوم سیارچہ ہے۔ یہ زمین سے صرف 10 کروڑ 60 لاکھ میل کے فاصلے پر موجود ہے۔

    اس سیارچے کا رقبہ پاکستان کے کل رقبے سے معمولی سا زیادہ یعنی 8 لاکھ کلو میٹر ہے۔ سیارچے میں 13 میل بلند پہاڑ بھی موجود ہے۔

    یہ سیارچہ نہایت آسانی سے آسمان پر دیکھا جاسکتا ہے کیونکہ اس کی بیرونی سطح روشنی کو چاند سے زیادہ منعکس کرتی ہے۔

    اگر یہ سیارچہ زمین سے ٹکرا گیا تو زمین سے زندگی کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔

    اس کو سمجھنے کے لیے یہ کہنا کافی ہوگا کہ وہ سیارچہ جو زمین سے ٹکرا کر ڈائنو سارز کے نسل کے خاتمے کی وجہ بنا، صرف 10 سے 15 کلومیٹر چوڑا تھا، جبکہ ویسٹا کی چوڑائی 252 کلو میٹر ہے۔

    ناسا کا کہنا ہے کہ خوش قسمتی سے زمین سے انتہائی قریب ہونے کے باجوود یہ اس راستے پر نہیں ہے جس پر زمین سے اس کا تصادم ہوسکے۔

    خیال رہے کہ گزشتہ برس بھی دو سیارچے زمین کے انتہائی قریب سے گزرے ہیں۔

    اپریل 2017 کو 2014 جے او 25 نامی سیارچہ زمین سے محض 11 لاکھ میل کے فاصلے سے گزرا تھا۔ یہ فاصلہ زمین اور چاند کے درمیان فاصلے سے 4.6 گنا زیادہ تھا۔

    ستمبر 2017 میں فلورنس نامی سیارچہ زمین سے 43 لاکھ 91 ہزار میل کے فاصلے سے گزرا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • اگر سیارے زمین سے قریب ہوتے تو آسمان پر کیسے دکھائی دیتے؟

    اگر سیارے زمین سے قریب ہوتے تو آسمان پر کیسے دکھائی دیتے؟

    ہمارے نظام شمسی میں تمام سیارے اپنے اپنے مدار میں گھوم رہے ہیں۔ یہ ایک دوسرے سے کافی فاصلے پر موجود ہیں لہٰذا انہیں زمین سے دیکھنا ناممکن ہے۔

    لیکن اگر یہی سیارے زمین سے اس قدر قریب ہوتے کہ چاند کی طرح ہمارے آسمان پر نظر آتے تو کیسے دکھائی دیتے؟

    ایک علم فلکیات دان نک ہومز نے اینی میشن کے ذریعے بتانے کی کوشش کی ہے کہ نظام شمسی میں موجود دیگر سیارے زمین سے کیسے نظر آسکتے ہیں۔

    اس اینی میشن کی بنیاد اس نقطے پر ہے کہ اگر تمام سیارے زمین سے صرف اتنے فاصلے پر ہوتے جتنا کہ چاند ہے یعنی کہ زمین سے 3 لاکھ 84 ہزار 4 سو کلومیٹر کے فاصلے پر تو وہ کس طرح دکھائی دیتے۔

    مزید پڑھیں: طلوع آفتاب کا منظر دوسرے سیاروں پر کیسا ہوتا ہے؟

    یاد رہے کہ نظام شمسی میں واقع تمام سیارے زمین سے کروڑوں اربوں کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہیں۔

    اس اینی میشن میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اگر چاند زمین سے صرف اتنا دور ہوتا جتنا کہ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن زمین سے دور ہے، تو وہ کس طرح دکھائی دیتا۔

    خیال رہے کہ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن زمین کے محور سے 408 کلو میٹر باہر واقع ہے۔ یہ خلائی اسٹیشن اس وقت خلا میں موجود سب سے بڑی جسامت ہے جو بعض اوقات زمین سے بھی بغیر کسی دوربین کے دیکھی جاسکتی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • چین کا آسمانی محل زمین کے مدار میں داخل ہوتے ہی تباہ

    چین کا آسمانی محل زمین کے مدار میں داخل ہوتے ہی تباہ

    بیجنگ : چین کا خلائی اسٹیشن تیان گانگ اول زمین کے مدار میں داخل ہوتے ہی تباہ ہو گیا ‌جبکہ اسکا ملبہ بحرالکاہل میں جا گرا۔

    تفصیلات کے مطابق ناکارہ چینی خلائی سیٹلائٹ کا ملبہ زمین کی فضائی حدود میں داخل ہوکر ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا اور  ملبہ جنوبی بحرالکاہل میں  جا گرا۔

    خلائی سیٹلائٹ پاکستانی کے معیاری وقت کے مطابق صبح ساڑھے پانچ بجے کرہ ہوائی میں پچیس ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتارسے داخل ہوا اور فضائی رگڑ کے باعث جل اٹھا اور ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا۔

    خلائی حکام نے چین کے سیٹلائٹ کا ملبہ جنوبی بحرالکاہل میں گرنے کی تصدیق کی ہے تاہم ملبہ گرنے کی جگہ کا تعین کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

    آسمانی محل کے زمین بوس ہونے کے مناظر


    یاد رہے یورپی خلائی مرکز نے دعویٰ کیا تھا کہ چین کا خلائی اسٹیشن تیانگ گانگ اول ‘ 2 اپریل کو آسمان سے افریقہ کے کسی مقام پر آ کر گرے گا ‘ تاہم اس کے مقام کا تعین ممکن نہیں ہوسکا تھا۔

    خیال رہے کہ ساڑھے آٹھ ٹن وزنی خلائی اسٹیشن تیانگ گانگ 2011 میں خلا میں بھیجا گیا تھا، یہ سیٹیلائٹ چین کے خلائی پروگرام کا حصہ تھا اور 2022 میں چین کی جانب سے خلا میں انسان برداراسٹیشن قائم کرنے کے منصوبے کی پہلی کڑی تھا۔

    چین کا اپنا خلائی اسٹیشن بھیجنے کا مقصد خلا میں ایک بہت بڑا سپیس کمپلیکس تعمیر کرنا تھا لیکن بدقسمتی سے اس کا خلائی سٹیشن تیان گانگ 1 ستمبر 2016ء کے بعد سےبے قابو ہوگیا تھا اور اور ماہرین کا خیال تھا کہ 8.5 ٹن وزنی یہ خلائی سٹیشن دو سے تین ماہ میں سطح زمین سے آٹکرائے گا۔

    واضح رہے کہ یہ خلائی مرکز 2016 کے اواخر سے سائنسدانوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا مگر چین کی خلائی ایجنسی نے گزشتہ ماہ اقوامِ متحدہ کی تنظیم برائے پر امن خلائی مشنز کو آگا ہ کیا تھا کہ ان کا خلائی مرکز سے رابطہ منقطع ہو چکا ہے، جس کے باعث یہ اسٹیشن بے قابو ہو گیا ہے اور خطرناک بات یہ ہے کہ کسی کو بھی معلوم نہیں کہ یہ تباہی کس جگہ نازل ہوگی۔

    تیانگ گانگ نامی چینی لفظ کا مطلب آسمان میں معلق محل ہے، جس کی وجہ سے اس کو آسمانی یا خلائی محل کے نام سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔

    اس سے قبل 1979 میں رونما ہوا جب ناسا کا 77 ٹن ’سکائی لیب سپیس سٹیشن ‘ بے قابو ہوتے ہوئے مغربی آسٹریلیا کے قریب ’پرتھ‘ میں زمین سے ٹکرایا تھا لیکن یہ اس لئے زیادہ خطرناک ثابت نہیں ہوا کیوںکہ گرنے والے ٹکڑوں سے اس علاقے میں جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا۔

    اس کے بعد 1991 میں سوویت یونین کا ’سویوت سیون ‘ خلائی مرکز تکنیکی خرابی کے باعث تباہ ہوا اور اس کا ملبہ برمودہ ، ارجنٹینا کے قریب زمین پر گرا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔