Tag: earth

  • چین کے خلائی اسٹیشن کا ملبہ 30 مارچ کو زمین پر گرے گا

    چین کے خلائی اسٹیشن کا ملبہ 30 مارچ کو زمین پر گرے گا

    بیجنگ: چین کی جانب سے تیار کردہ ’تینا گونگ ون‘ نامی خلائی اسٹیشن کا ملبہ اپنا مشن مکمل کرنے کے بعد رواں ماہ 30 مارچ کو زمین پر گرے گا۔

    تفصیلات کے مطابق 2011 میں خلائی اسٹیشن کو اپنے مشن کے لیے روانہ کیا گیا تھا جسے اپنا مشن پانچ سال میں مکمل کرنے کے بعد زمین پر واپس لوٹنا تھا تاہم ماہرین کی جانب سے اب تک تصدیق نہیں کی گئی کہ خلائی اسٹیشن کا ملبہ زمین کے کس حصے پر گرے گا۔

    ’تینا گونگ ون‘ نامی خلائی اسٹیشن اب انسانی کنٹرول میں نہیں رہا یہی وجہ ہے کہ ماہرین کی جانب سے خلائی اسٹیشن کا ملبہ کرنے سے متعلق صحیح وقت اور جگہ کا تعین نہیں کیا گیا، ایک اندازے کے مطابق ملبہ 30 مارچ اور 2 اپریل کے درمیان گرے گا۔

    سب سے زیادہ خلائی سفرکرنے والے جان ینگ چل بسے

    ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین سے فضا میں داخل ہونے کے بعد اس خلائی سٹیشن کا زیادہ تر حصہ جل چکا ہے لیکن اس میں نصب کچھ آلات اور حصے جن میں ایندھن کے ٹینک اور انجن شامل ہیں وہ زمین پر گریں گے۔

    خلائی انجینئر ڈاکٹر ایلس کا برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ چین کا مذکورہ خلائی اسٹیشن جوں جوں زمین کی طرف آئے گا اس کی رفتار بڑھتی جائے گی، یہ کہنا مشکل ہے کہ اس کے کون سے پرزے فضا میں جل جائیں کیوں کہ چین نے اس کی ساخت کے بارے میں کوئی تفصیل فراہم نہیں کی ہے۔

    نظام شمسی کی وسعتوں کوعبور کرنے والا خلائی جہاز

    خیال رہے کہ تیناگونگ ون نامی خلائی سٹیشن چین کے خلائی پروگرام کے تحت خلا میں 2022 تک ایسا خلائی سٹشین قائم کرنے کے تجرباتی مرحلے کا حصہ ہے جس پر خلا باز رہ سکیں گے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • اگر انسان زمین سے غائب ہوجائیں تو کیا ہوگا؟

    اگر انسان زمین سے غائب ہوجائیں تو کیا ہوگا؟

    عظیم اور قوی الجثہ جانوروں کی معدومی کے بارے میں سنتے اور پڑھتے ہوئے کیا آپ کو کبھی یہ خیال آیا ہے کہ ہم انسان بھی معدوم ہوسکتے ہیں؟

    یقیناً یہ خیال ہمیں کبھی نہیں آیا، کیونکہ ہم زمین کو اپنی ملکیت سمجھتے ہیں اور ہمیں لگتا ہے کہ سب کچھ ختم ہوسکتا ہے لیکن انسان نہیں، اور اگر انسان ختم ہوگیا تو یہ اس زمین کا بھی آخری دن ہوگا۔

    تو پھر آئیں آج اس غلط فہمی کو دور کرلیتے ہیں۔

    اگر کبھی ایسا ہو، کہ زمین پر موجود تمام انسان اچانک غائب ہوجائیں اور ایک بھی انسان باقی نہ رہے تو سب سے پہلے زمین کو جلاتی برقی روشنیاں بجھ جائیں گی اور زمین کا زیادہ تر حصہ اندھیرے میں ڈوب جائے گا۔

    اس کے ساتھ ہی سینکڑوں سالوں میں تعمیر کی گئی ہماری یہ بلند و بالا دنیا آہستہ آہستہ تباہی کی طرف بڑھنا شروع ہوجائے گی۔

    مزید پڑھیں: قیامت کے آنے میں کتنے سال باقی

    امریکی شہر نیویارک کا سب وے اسٹیشن انسانوں کے خاتمے کے بعد صرف 2 دن قائم رہے گا، اس کے بعد یہ زیر آب آجائے گا۔

    انسانوں کے قائم کیے گئے ایٹمی و جوہری بجلی گھروں کو ٹھنڈا رکھنے والے جنریٹرز بند ہوجائیں گے جس کے بعد تمام بجلی گھروں میں آگ بھڑک اٹھے گی اور آہستہ آہستہ یہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔

    تپش اور تابکاری کا یہ طوفان کم از کم چند ہزار سال تک زمین کو اپنے گھیرے میں لیے رہے گا جس کے بعد آہستہ آہستہ زمین سرد ہونا شروع ہوجائے گی۔

    اس دوران گھر اور عمارتیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائیں گی اور ان پر خود رو پودے اور بیلیں اگ آئیں گی۔

    پھل اور پھول اپنی پہلے والی جنگلی ساخت پر واپس آجائیں گے جنہیں انسان مصنوعی طریقوں سے مزیدار اور خوش رنگ بنا چکے ہیں۔

    انسانوں کے ختم ہوتے ہی جنگلی حیات کی آبادی میں اضافہ ہونا شروع ہوجائے گا۔

    مزید پڑھیں: زمین پر آباد جانور کب سے یہاں موجود ہیں؟

    ہمارے خاتمے کے 300 سال بعد بڑے بڑے پل ٹوٹ جائیں گے۔

    سمندر کنارے آباد شہر ڈوب کر سمندر ہی کا حصہ بن جائیں گے۔

    بڑے بڑے شہروں میں درخت اگ آئیں گے اور صرف 500 سال بعد ہمارے بنائے ہوئے شہروں کی جگہ جنگل موجود ہوں گے۔

    صرف ایک لاکھ سال کے بعد زمین کا درجہ حرارت اس سطح پر آجائے گا جو انسانوں سے قبل ہوا کرتا تھا، نہ تو اس میں زہریلی گیسیں شامل ہوں گی اور نہ ہی گاڑیوں اور فیکٹریوں کا آلودہ دھواں۔

    گویا ہماری زمین ہمارے ختم ہوجانے کے بعد بھی قائم رہے گی، یعنی زمین کو ہماری کوئی ضروت نہیں۔ البتہ ہمیں زمین کی اشد ضرورت ہے کیونکہ ہمارے پاس اس کے علاوہ رہنے کو اور کوئی گھر موجود نہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کیا ہوگا اگر زمین پر 100 ایٹم بم ایک ساتھ پھٹ جائیں؟

    کیا ہوگا اگر زمین پر 100 ایٹم بم ایک ساتھ پھٹ جائیں؟

    کیا آپ جانتے ہیں دنیا بھر میں اس وقت 16 ہزار سے زائد فعال جوہری میزائل موجود ہیں جو لمحوں میں کسی شہر کو مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کرسکتے ہیں۔

    اور اگر ان میں سے صرف 100 میزائل ایک ساتھ چل پڑیں تو زمین کا کیا حشر ہوگا؟ آئیں جانتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: اگر انسان زمین سے غائب ہوجائیں تو کیا ہوگا؟


    پہلا ہفتہ

    ہمارے ماحول میں 5 میگا ٹن سیاہ کاربن پھیل جائے گا۔

    یہ کاربن فضا سے سورج کی شدید حرارت اپنے اندر جذب کرتا ہوا زمین پر آئے گا اور زمین اور آسمان کا مشاہداتی رابطہ منقطع ہوجائے گا۔


    دوسرا ہفتہ

    سیاہ کاربن کی وجہ سے زمین گہرے اندھیرے میں ڈوب جائے گی کیونکہ کاربن سورج کی روشنی کو بھی زمین پر پہنچنے سے روک دے گا۔

    بموں میں موجود کیمیائی اجزا ہمارے سروں کے اوپر قائم اوزون تہہ، جو ہمیں سورج کی تابکار شعاعوں سے بچاتی ہے، کو بالکل کھا جائے گی۔

    اس کے بعد سورج اور خلا سے زمین پر آنے والی تابکار شعاعوں میں 80 سے 120 فیصد اضافہ ہوجائے گا۔


    دو ماہ بعد

    دو ماہ بعد زمین کا درجہ حرارت اس قدر کم ہوجائے گا کہ ہر جگہ کا درجہ حرارت اوسطاً منفی 25 ڈگری سینٹی گریڈ رہے گا جو گرم علاقوں کے لوگوں کے لیے ناقابل برداشت ہوگا۔

    درجہ حرارت میں اس قدر کمی کی وجہ سے بارشوں کی مقدار بھی بے حد کم ہوجائے گی۔

    زمین سے ہر قسم کی نباتات (پودے اور درخت) ختم ہوجائیں گے اور ان کے ڈی این اے بھی مرنا شروع ہوجائیں گے جس کے بعد اگلے کئی عشروں تک مزید کسی نباتات کی افزائش کا امکان بھی ختم ہوجائے گا۔


    دو سال بعد

    زمین سے ہر طرح کے پودے ختم ہوجانے کے بعد صرف 2 سال کے اندر 2 ارب افراد غذائی قلت، بھوک اور پھر موت کا شکار ہوجائیں گے۔

    زمین کا زیادہ تر حصہ نہایت سرد اور ناقابل رہائش ہوگا۔


    پانچ سال بعد

    زمین کی فضا کے اوپر قائم اوزون تہہ خود بخود رفو ہونا شروع ہوجائے گی مگر اب جو اوزون تہہ ہمارے پاس ہوگی وہ پہلی والی اوزون تہہ سے 25 فیصد پتلی ہوگی۔

    ان عظیم دھماکوں میں زندہ بچ جانے والے افراد بڑی تعداد میں جلد کے جان لیوا کینسر کا شکار ہوجائیں گے۔


    دس سال بعد

    اوزون کی رفو گری کا عمل جاری رہے گا اور اس کی موٹائی میں کچھ اضافہ ہوجائے گا اور یہ پرانی تہہ سے صرف 8 فیصد پتلی رہ جائے گی۔


    بیس سال بعد

    زمین کا درجہ حرارت گرم ہونا شروع ہوگا تاہم ابھی بھی یہ موجودہ درجہ حرارت کے مقابلے میں بے حد سرد ہوگا۔

    بیس سال بعد پودے بھی اگنا شروع ہوجائیں گے تاہم ان کی افزائش کی رفتار نہایت سست ہوگی اور ایک معمولی پودے کی افزائش میں 5 سال کا طویل عرصہ لگے گا۔


    تیس سال بعد

    زمین پر اب بارشیں بھی کچھ معمول کے مطابق ہونے لگیں گی۔


    پچاس سال بعد

    اب فطرت دوبارہ زمین پر اگنا شروع ہوگی اور جا بجا خود رو پھول پودے اگ آئیں گے۔

    تاہم 50 سال بعد بھی زمین کے کچھ علاقے تابکاری کی زد میں ہوں گے اور وہاں رہائش رکھنا ناممکن ہوگا۔


    یہ تمام خوفناک صورتحال صرف 100 ایٹم بم پھٹنے کی صورت میں ہوگا۔

    اور ایک بار پھر آپ کو یاد دلاتے چلیں کہ اس وقت زمین پر 16 ہزار سے زائد فعال ایٹمی یا جوہری بم، میزائل اور دیگر اسلحہ موجود ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کیا زمین پر چھٹی عظیم معدومی رونما ہورہی ہے؟

    کیا زمین پر چھٹی عظیم معدومی رونما ہورہی ہے؟

    ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ زمین پر ایک اور عظیم معدومی کا وقت تیزی سے قریب آتا جارہا ہے اور اس کی رفتار ہمارے گمان سے بھی تیز ہے۔

    عظیم معدومی ایک ایسا عمل ہے جو کسی تباہ کن آفت یا زمینی و جغرافیائی عوامل کی وجہ سے رونما ہوتی ہے اور اس کے بعد زمین سے جانداروں کی 60 فیصد سے زائد آبادی ختم ہوجاتی ہے۔ بچ جانے والی حیاتیات اس قابل نہیں ہوتی کہ ہھر سے اپنی نسل میں اضافہ کرسکے۔

    مزید پڑھیں: جانوروں کی عظیم معدومی کا ذمہ دار حضرت انسان

    زمین پر اب تک 5 عظیم معدومیاں رونما ہوچکی ہیں۔ سب سے خوفناک معدومی 25 کروڑ سال قبل واقع ہوئی جب زمین کی 96 فیصد آبی اور 70 فیصد زمینی حیات صفحہ ہستی سے مٹ گئی۔

    آخری معدومی اب سے ساڑھے 6 کروڑ سال قبل رونما ہوئی جس میں ڈائنوسارز سمیت زمین کی ایک تہائی حیاتیات ختم ہوگئی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اب زمین چھٹی معدومی کی طرف بڑھ رہی ہے، لیکن یہ عمل جس تیزی سے واقع ہورہا ہے وہ ہمارے وہم و گمان سے کہیں آگے ہے۔

    حال ہی میں کی جانے والی ایک جامع تحقیق کے نتائج کے مطابق زمین کی 30 فیصد ریڑھ کی ہڈی والے جاندار جن میں مچھلیاں، پرندے، دیگر آبی حیات، رینگنے والے جانور اور کچھ ممالیہ جاندار شامل ہیں، کی آبادی میں تیزی سے کمی واقع ہورہی ہے۔

    یہ تحقیق امریکا کی نیشنل اکیڈمی آف سائنس میں پیش کی گئی۔

    یاد رہے کہ گزشتہ دہائی تک کہا جارہا تھا کہ زمین پر جانوروں کے خاتمے کا عمل رونما ہونے والا ہے۔ اب خیال کیا جارہا ہے کہ یہ عمل شروع ہوچکا ہے اور حالیہ تحقیق سے علم ہورہا ہے کہ اس عمل میں تیزی آچکی ہے اور اسے کسی طرح نہیں روکا جاسکتا۔

    مزید پڑھیں: زمین پر آباد جانور کب سے یہاں موجود ہیں؟

    تحقیق میں بتایا گیا کہ معدومی کے خطرے کی طرف بڑھتے ان جانداروں میں گوریلا، چیتے، بندر اور گینڈے وغیرہ شامل ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اب چونکہ معدومی کا یہ عمل شروع ہوچکا ہے تو ایک اوسط اندازے کے مطابق ہر سال ریڑھ کی ہڈی رکھنے والے 2 جانداروں کی اقسام معدوم ہوجاتی ہے۔

    پناہ گاہوں کی تباہی

    ماہرین نے اس عظیم معدومی کی سب سے بڑی وجہ جانداروں کی پناہ گاہوں یا ان کے گھروں کی تباہی کو قرار دیا ہے۔

    تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں جاری کلائمٹ چینج کے باعث بڑھتا ہوا درجہ حرارت گرم علاقے کے جانداروں کو مجبور کر رہا ہے کہ وہ صدیوں سے اپنی رہائش کو چھوڑ کر نئی رہائش اختیار کریں۔

    ہجرت کا یہ عمل جانوروں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے اور نئے ماحول سے مطابقت نہ ہونے کے باعث تیزی سے ان کی اموات واقع ہوتی ہیں۔

    پناہ گاہوں کی تباہی کی ایک اور وجہ دنیا بھر میں تیزی سے ہونے والی جنگلات کی کٹائی بھی ہے جس سے جنگلوں میں رہنے والے جانور بے گھر ہوتے جارہے ہیں۔

    گوریلا سمیت دیگر افریقی جانور مختلف افریقی ممالک میں جاری خانہ جنگیوں کی وجہ سے بھی خطرات کا شکار ہیں جس کے باعث ان کے غذائی ذخائر میں بھی کمی آرہی ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • خلا کے بارے میں حیران کن اور دلچسپ حقائق

    خلا کے بارے میں حیران کن اور دلچسپ حقائق

    زمین سے باہر بے کراں خلا اور وسعت بے شمار عجائبات کا نمونہ ہے۔ یہاں ایسی ایسی چیزیں موجود ہیں جن کا تصور ہم یہاں زمین پر بیٹھ کر، کر ہی نہیں سکتے۔

    آج ہم آپ کو خلا اور نظام شمسی سے متعلق ایسے ہی کچھ حیرت انگیز مگر نہایت دلچسپ حقائق سے آگاہ کر رہے ہیں۔


    ہماری زمین 1 ہزار 29 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گردش کر رہی ہے۔

    لیکن ہمارا پورا نظام شمسی بشمول 9 سیارے اور سورج وغیرہ 4 لاکھ 9 ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے حرکت یا گردش کرتا ہے۔

    سورج کی طرف سے دوسرا سیارہ زہرہ (وینس) تمام سیاروں کے برعکس مخالف رخ پر گردش کرتا ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ سورج کی کشش ثقل نے اس کے محور کو 180 ڈگری پر پلٹا دیا ہے۔

    نظام شمسی کا سب سے بڑا سیارہ مشتری (جوپیٹر) اتنا بڑا ہے کہ یہ سورج کے گرد گردش نہیں کرتا۔ یہ سورج کے محور میں موجود ایک نقطے کو مرکز بنا کر اس کے گرد گردش کرتا ہے۔

    خود سورج بھی اسی نقطے کے گرد گردش کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ یہ تھوڑا ڈگمگاتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔

    حلقے دار سیارہ زحل (سیچورن) پر ہیروں کی بارش ہوتی ہے۔

    دراصل اس سیارے کی فضا میں موجود حرارت اور دباؤ ایسا ہے کہ یہ فضا میں کاربن کے ذرات کو ہیروں میں تبدیل کرسکتا ہے، اور یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ ہیرے کاربن کی ہی تبدیل شدہ شکل ہیں۔

    ہماری کہکشاں میں موجود لاکھوں کروڑوں سیارے اور ستارے مزید ٹوٹ سکتے ہیں۔ ٹوٹنے کے اس عمل سے ہمارا سورج موجودہ مقام سے کسی اور مقام پر منتقل ہوسکتا ہے مگر اس سے زمین پر کوئی تباہی نہیں آئے گی۔

    کائنات میں سب سے تیز رفتار شے ایک ٹوٹا ہوا ستارہ ہے جو ایک سیکنڈ میں 716 دفعہ حرکت کرتا ہے۔

    خلا میں موجود کچھ بادلوں میں گیلنوں کے حساب سے الکوحل موجود ہے۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ اس الکوحل کا ذائقہ رس بھری جیسا ہوسکتا ہے۔

    کائنات کے بارے میں مزید حقائق جانیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • ‘زمین ایک نگینہ ہے’

    ‘زمین ایک نگینہ ہے’

    زمین پر رہتے ہوئے شاید ہمیں اس کی قدر و قیمت کا اندازہ نہ ہوتا ہو، مگر اس کی صحیح اہمیت وہ خلا باز جانتا ہے جو طویل عرصے تک زمین سے دور خلا میں رہے اور زمین کو دیکھ کر ٹھنڈی آہیں بھرے۔

    تھامس پسکٹ نامی فرانسیسی سائنسدان گزشتہ 6 ماہ سے خلا میں موجود ہے اور اس دوران خلا سے لاتعداد زاویوں سے زمین کو دیکھ چکا ہے۔ اپنے گھر اور اپنی زمین سے دور رہنے کے بعد تھامس کا کہنا ہے، ’زمین حقیقی معنوں میں ایک نگینہ ہے‘۔

    وہ کہتا ہے کہ جب وہ زمین سے دور ہوا، اور اس نے ایک عظیم فاصلے سے زمین کو دیکھا، تب اس پر ادراک ہوا کہ زمین کتنی خوبصورت اور حسین ہے۔ ’یہ خلا سے کسی نگینے کی طرح نظر آتی ہے‘۔

    تھامس اس وقت ایک روسی خلاباز اولیگ نووٹسکی اور امریکی خلاباز پیگی وائٹ سن کے ساتھ 6 ماہ طویل ایک مشن پر عالمی خلائی اسٹیشن پر موجود ہے۔

    یاد رہے کہ پیگی وائٹ سن کو خلا میں سب سے زیادہ وقت گزارنے والی خلا باز ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

    اس مشن کے دوران ان خلا بازوں نے نہ صرف کئی نئی تحقیقات کیں، اور اہم ڈیٹا ناسا کو روانہ کیا، بلکہ اس دوران انہوں نے زمین کی مختلف زاویوں سے بے شمار تصاویر بھی کھینچیں جو نہایت خوبصورت دکھائی دیتی ہیں۔

    تھامس اور ان کا یہ مشن رواں ہفتے جمعہ کے دن اختتام کو پہنچ جائے گا جس کے بعد وہ زمین پر واپس آجائیں گے۔

    چھ ماہ تک خلا میں رہنے کے بعد اب وہ یہاں سے جاتے ہوئے کچھ اداس تو ہیں، تاہم انہیں اپنے گھر واپسی اور اپنے پیاروں سے ملنے کی خوشی بھی ہے۔

    خلا سے دیے گئے ایک انٹرویو میں تھامس کا کہنا تھا، ’میں پھر سے اپنے پیاروں سے ملنا چاہتا ہوں، ساحل پر جانا چاہتا ہوں، پہاڑوں کے درمیان چہل قدمی کرنا چاہتا ہوں اور ٹھنڈی ہوا کو اپنے چہرے پر محسوس کرنا چاہتا ہوں‘۔

    تھامس کا کہنا ہے، ’میرا سوٹ کیس تیار ہے۔ میں زمین پر واپس جاتے ہوئے اداس بھی ہوں اور پرجوش بھی‘۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • خبردار‘ جبل الطارق سے بڑا سیارچہ آج زمین کے انتہائی قریب سے گزرے گا

    خبردار‘ جبل الطارق سے بڑا سیارچہ آج زمین کے انتہائی قریب سے گزرے گا

     واشنگٹن : آج کے روز فلکیات کی دنیا میں دو ایسے واقعات رونما ہونے جا رہے ہیں جو صدیوں میں ایک بار پیش آتے ہیں، ناسا کے مطابق ایک  جسیم سیارچہ اور ایک دم دار ستارہ آج زمین کے انتہائی قریب سے گزرے گا۔ 

    ناسا کے مطابق 2014 جے او 25  نامی سیارچہ آج زمین سے محض 18 لاکھ کلومیٹر کے فاصلے سے گزرے گا، یہ فاصلہ زمین اور چاند کے درمیان فاصلے سے قریب 4.6 گنا زیادہ ہے۔

     واضح رہے کہ اس سے قبل یہ سیارچہ اب سے چار سو سال قبل زمین کے اتنا نزدیک آیا تھا اور آئندہ 500 سال تک دوبارہ اس کے اس قدر نزدیک آنے کا کوئی امکان نہیں ہے،  امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا کا کہنا ہے کہ اس سیارچے کا حجم  تقریباََ 650 میٹر ہے اور یہ لگ بھگ یورپ کے جبل الطارق جتنا بڑا ہے۔

    سائنسدانوں کا کہنا ہے یہ سیارچہ سورج کی سمت سے زمین کی طرف بڑھ رہا ہے، اسے 19 اپریل کے بعد اگلے دو دنوں تک چھوٹے دوربین کی
    مدد سے دیکھا جا سکے گا۔اگرچہ چھوٹےحجم کے شہابِ ثاقب اور سیارچے ہر ہفتے زمین کے قریب سے گزرتے ہیں لیکن ایسے دیوہیکل سیارچےزمین کے قریب کم ہی نظر آتے ہیں

    ماہرین فلکیات کا کہنا ہے اس سے قبل سال 2004 میں توتس نامی عظیم الجثہ سیارچہ زمین کے مدار کے قریب آیا تھا، اس کا فاصلہ زمین اور چاند کے درمیان فاصلے سے قریب 4 گنا زیادہ تھا۔ یاد رہے کہ سن 2027 میں اس سے بھی بڑا سیارچہ زمین کے قریب سے گزرے گا، جس کا حجم 800 میٹر اور اور زمین سے اس کا فاصلہ 3.80 لاکھ کلومیٹر ہوگا۔

    دمدار ستارہ  بھی 19 اپریل کو زمین کے قریب سے گزرے گا


    ناسا کے مطابق 19 اپریل ہی کو پان اسٹارزنامی  دمدار ستارہ  بھی زمین کے انتہائی قریب سے لیکن محفوظ فاصلے سےگزرے گے، ستارے کا زمین سے فاصلہ قریب 1.75 کروڑ کلومیٹر ہوگا۔


    خلا میں معلق دنیا کی طویل ترین عمارت


     صبح کے وقت ان دونوں خلائی اجسام کو خلائی دوربین کے بجائے محض عام دوربین سے  بھی دیکھا جا سکے گا۔ خلا میں دلچسپی رکھنے والے ماہرین اور ستاروں کے دیکھنے کے شوقین افراد کےلئے یہ ایک اہم اوردلچسپ موقع ہوگا۔

  • آج 2005کے زلزلے کو 9سال گزر گئے

    آج 2005کے زلزلے کو 9سال گزر گئے

    کراچی:آٹھ اکتوبردوہزارپانچ کے زلزلے نےایبٹ آباد میں تباہی کی انمٹ نقوش چھوڑ دیئے ہیں، بحالی کے وعدے ہوئے لیکن وعدے ایفا نہ ہوسکے۔

    آٹھ اکتوبردوہزارپانچ کوآنے والا بدترین زلزلہ نو سال گزرنے کے بعد ذہنوں سے نہیں نکل سکا، ہولناک زلزلہ کے متعلق ایبٹ آباد میں دعائیہ تقریبات کا سلسلہ جاری ہے،مختلف مذہبی، سیاسی اورسماجی رہنماؤں نے زلزلے میں جاں بحق ہونے والوں کی یادگاروں پرپھولوں کی چادریں چڑھائیں اورشہدا کے لئےدعائے مغفرت بھی کی گئی۔

     زلزلے میں چھیالیس سوسے زادئد افرادلقمہ اجل بنے اورتین لاکھ سے زائدمکانات تباہ ہوگئے،حکومت کی جانب سے بحالی کے منصوبوں کا آغازتوضرورہوالیکن وہ پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکے۔

    تباہی کی داستانیں رقم کرنے والے اس زلزلے نے اٹھارہ ہزارسے زائد معصوم بچوں کوبھی اُن کی ماؤں سے چھین لیا،اٹھائیس سوسےزائدتعلیمی ادارے ایسے تباہ ہوئے کہ آج تک بچے کھلےآسمان تلے تعلیم حاصل کرنے پرمجبورہیں۔

    تباہ کن زلزلے کے نوسال بعدبھی زلزلہ متاثرین دوبارہ اپنے آشیانے بسنے اورتوجہ کے منتظرہیں۔