Tag: ebola virus

  • جنوبی افریقہ سے ایبولاوائرس پاکستان منتقل ہونے کا خطرہ

    جنوبی افریقہ سے ایبولاوائرس پاکستان منتقل ہونے کا خطرہ

    کراچی : جنوبی افریقہ سے ایبولاوائرس پاکستان منتقل ہونے کا خطرہ بڑھ گیا، خطرناک ایبولا وائرس سے متاثرہ 90فیصد مریض جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق دنیا بھر میں دہشت کی علامت بننے والے ایبولاوائرس کا جنوبی افریقہ سے پاکستان منتقل ہونے کا خطرہ بڑھ گیا، اسلام آبادایئرپورٹ پرایبولاوائرس کی شناخت والاتھرمواسکینر خراب ہے جبکہ محکمہ صحت کاعملہ بھی ایئرپورٹ سے غائب ہیں۔

    افریقہ سے آئے مسافروں کو تھرمو اسکینر سے چیک کرنا ضروری ہے، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ہدایات پر 2014 میں اسکینر لگایاگیا تھا، جس کے بعد محکمہ صحت اورسول ایوی ایشن اتھارٹی مسئلے سے نظریں چرانے لگے اور ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن کو بھی سب اچھا ہے کی رپورٹ دی جانے لگی۔

    خیال رہے ایبولاوائرس سےمتاثرہ 90 فیصد مریض جان کی بازی ہار جاتے ہیں

    ایبولا وائرس کیا ہے؟


    ایبولا ایک ایسا خطرناک وائرس ہے، جس میں مبتلا ستر فیصد مریضوں کی موت ہوجاتی ہیں، ایبولاوائرس کی ابتدائی علامات میں بخار ، گلے اور سر میں درد سرفہرست ہے، مریض متلی کے ساتھ ہاضمے کی خرابی میں مبتلا ہوجاتا ہے،جس کے بعد جوڑوں اور پٹھوں میں درد، خارش، اور بھوک میں کمی کے علاوہ جگر اور گردوں کی کارکردگی متاثرہو جاتی ہے۔

    بچاؤ کیلئے احتیاطی تدابیر


    طبی ماہرین کے مطابق ایبولا سے بچاؤ کیلئے احتیاطی تدابیر کے طور پر ہاتھ صابن سے دھوکر صاف ستھرے کپڑے سے خشک کرنا چاہئیں، بازار کے بنے مرغوب کھانے کھانے سے اجتناب کریں، گھر کے کونے صوفہ اور ببڈ کے نیچے وقفے وقفے سے جراثیم کُش ادویات کا اسپرے کریں، کمروں کی کھڑکیاں دروازے کھول کر سورج کی روشنی کا مناسب بندوبست کریں کیونکہ ایبولا کا جرثومہ جراثیم کش ادویات، گرمی، سورج کی براہ راست روشنی، صابن اور ڈٹرجنٹس کی موجودگی میں زندہ نہیں رہ سکتا۔

    اگر گھر میں کوئی جانور مر گیا ہے تواس کو فوراً گھر سے باہر منتقل کردیں کیوں کہ مردہ جانوروں کی لاشوں سے بھی یہ مرض پھیل سکتا ہے، پالتو جانوروں کی صحت کا خیال رکھیں اور گھر سے چوہوں کا خاتمہ ممکن بنائیں۔

  • افریقی ملک کانگو میں ایبولا وائرس تیزی سے پھیلنے لگا، 66 افراد ہلاک

    افریقی ملک کانگو میں ایبولا وائرس تیزی سے پھیلنے لگا، 66 افراد ہلاک

    برازاویل: افریقی ملک کانگو میں ایبولا وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے جس کے نتیجے میں اب تک 66 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق کانگو کے دو مختلف صوبوں سے تقریبا 105 کیسز ایبولا وائرس کے سامنے آئے ہیں، جبکہ مذکورہ وائرس تیزی سے ملک کے مختلف حصوں میں پھیل رہا ہے جس کے باعث ہلاکتیں ہورہی ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق مشرقی کانگو میں طبی حکام کا کہنا ہے کہ ایبولا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد 66 ہو گئی ہے اور متاثرہ علاقوں میں یہ وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے۔

    ماہرین نے ایبولا وائرس کی تشخیص 15 منٹ میں ممکن بنا دی

    وزارت صحت کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ایک اگست سے لے کر اب تک دو متاثرہ صوبوں میں ایبولا کے ایک سو پانچ کیسز سامنے آئے ہیں جن میں سے تحقیق کے بعد کئی مثبت قرار پائے تھے۔

    خیال رہے کہ کانگو میں پہلی بار اس وائرس کا پتہ 1970 کی دہائی میں چلا تھا اور تب اس انتہائی ہلاکت خیز وائرس کو مشرقی کانگو میں دریائے ایبولا کی نسبت سے اس کا نام دے دیا گیا تھا۔

    واضح رہے کہ ایبولا وائرس انسانوں اور جانوروں میں پایا جانے والا ایک ایسا مرض ہے جس کے شکار افراد میں دو سے تین ہفتے تک بخار، گلے میں درد، پٹھوں میں درد اور سردرد جیسی علامات ظاہر ہوتی ہیں جو بعد ازاں موت کا سبب بھی بن سکتی ہیں۔

  • ایبولا بحران آئندہ سال کے آخر تک جاری رہ سکتا ہے،عالمی ادارہ صحت

    ایبولا بحران آئندہ سال کے آخر تک جاری رہ سکتا ہے،عالمی ادارہ صحت

    نیویارک: مغربی افریقی ممالک میں ایبولا سے پیدا شدہ بحران کے بارے میں عالمی ادارۂ صحت ڈبلیو ایچ او نے کہا کہ یہ آئندہ سال کے آخر تک جاری رہ سکتا ہے۔

    ڈبلیو ایچ او کے سربراہ پیٹر پائٹ نے بتایا کہ سیرالیون کے حالات میں بہتری دیکھ کر اور اس وائرس کے نئے علاج سے انھیں حوصلہ ملا ہے۔

    تاہم انھوں نے خبردار بھی کیا ہے کہ اس کی ویکسین کے فروغ میں ابھی وقت لگے گا۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس وبا میں اب تک سات ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ زیادہ تر ہلاکتیں مغربی افریقی ممالک سیئرالیون، لائبیریا اور گنی میں ہوئی ہیں۔

  • ماہرین نے ایبولا وائرس کی تشخیص 15 منٹ میں ممکن بنا دی

    ماہرین نے ایبولا وائرس کی تشخیص 15 منٹ میں ممکن بنا دی

    گنی: افریقی ملک گنی میں ایبولا وائرس کی تشخیص کے لیے ایک نئے ٹیسٹ کا تجربہ کیا جا رہا ہے ،جس میں تھوک اور خون کے نمونوں سے اس کا پتہ چلایا جا سکے گا، شمسی توانائی کے استعمال سے چلنے والی نئی لیبارٹری سے مغربی افریقہ میں جس طریقے سے اس وقت ایبولا کی تشخیص کی جا رہی ہے، اس سے چھ گنا کم وقت میں ایبولا کی تشخیص ممکن ہوسکے گی۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایبولا وائرس کی کم سے کم وقت میں تشخیص سے اس کے مریضوں کے بچنے کے امکانات بڑھ جائیں گے اور اس وائرس کے پھیلنے کے امکانات کو بھی کم کیا جا سکتا ہے۔

    یہ نیا ٹیسٹ گنی کے شہر کوناکری کے ایبولا کے علاج کے مرکز میں تجرباتی طور پر کیا جائے گا، روایتی طریقے سے ایبولا کے جراثیم کا پتہ مریض کے خون میں موجود ایبولا وائرس کے جنیاتی اجزاء کو ڈھونڈ کر کیا جاتا ہے۔

    تحقیق کاروں نے اس بات کو مدِ نظر رکھا کہ کس طرح دور دراز کے ہسپتالوں میں جہاں طبی سہولیات کی اکثر کمی رہتی ہے، وہاں ایبولا کا ٹیسٹ کسی طرح کرایا جائے لیکن اس کے لیے مخصوص لیبارٹریوں کی ضرورت پڑتی ہے، جہاں ٹیسٹ کے اجزاء کو انتہائی کم درجۂ حرارت پر رکھا جا سکے۔

    کوناکری میں تجرباتی مرحلے میں ان مریضوں کا نئے طریقہ سے ٹیسٹ کیا جائے گا، جن کے بارے میں پہلے سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ وہ ایبولا سے متاثر ہیں، شمسی توانائی سے چلنے والی ایک سوٹ کیس کے سائز کی اس نئی لیبارٹری کو ہر جگہ لے جایا جاسکتا ہے اور اسے سینیگال کے شہر ڈاکار میں پاسچر انسٹی ٹیوٹ کی رہنمائی میں چلایا جارہا ہے، یہ لیبارٹری کمرے کے درجۂ حرارت پر بھی کام کر سکتی ہے۔

    اس منصوبے کے لیے سرمایہ برطانیہ کے بین الاقوامی ترقی کے ادارے اور ویلکم ٹرسٹ میڈیکل کا خیراتی ادارہ فراہم کر رہے ہیں، ویلکم ٹرسٹ کے ڈاکٹر وال سیون نے کہا کہ 15 منٹ میں ایک قابلِ اعتبار ٹیسٹ سے ایبولا کی وباء کو کنٹرول کرنے میں بہت مدد مل سکتی ہے، جس سے مریضوں کی نشاندہی انھیں الگ کرنے اور ان کا علاج کرنا ممکن ہو سکے گا۔

    اس سے مریضوں کے صحت یاب ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے اور ایبولا کا وائرس دوسرے لوگوں تک منتقل ہونے سے روکا جا سکے گا۔

  • ایبولا وائرس کی تشخیص اب سوٹ کیس سائز کی لیبارٹری کے زریعے ممکن

    ایبولا وائرس کی تشخیص اب سوٹ کیس سائز کی لیبارٹری کے زریعے ممکن

    ایبولا وائرس کی تشخیص کےلئے سوٹ کیس سائز کی ایک ایسی لیبارٹری تیار کی گئی ہے جس کی مدد سے صرف پندرہ منٹ میں مریض میں ایبولا وائرس کی موجودگی کا پتہ لگایا جا سکےگا۔

    سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ خون اور تھوک کے نمونوں کے ٹیسٹ سے صرف پندرہ منٹ میں کسی بھی مریض میں موجود ایبولا وائرس کا پتہ لگایا جاسکتا ہے جس سے نہ صرف فوری مریض کا علاج ممکن ہوگا بلکہ اس سے وائرس کی منتقلی کو بھی کنٹرول کرنے میں مدد ملے گی۔

    دور افتادہ علاقوں کے اسپتالوں جہاں طبی سہولیات کی کمی ہے وہاں ایبولا کے ٹیسٹ کے لیے سوٹ کیس سائز کی یہ لیبارٹری بے حد مفید ثابت ہو گی۔

  • ایبولا وائرس کی علامات اور بچاؤ کیلئے احتیاطی تدابیر

    ایبولا وائرس کی علامات اور بچاؤ کیلئے احتیاطی تدابیر

    ایبولاوائرس کی علامات کیا ہیں اور اس سے بچاؤ کیلئے کیا احتیاطی تدبیر اختیار کرنا چاہئے۔

    ایبولا ایک ایسا خطرناک وائرس ہے، جس میں مبتلا ستر فیصد مریضوں کی موت ہوجاتی ہیں، ایبولاوائرس کی ابتدائی علامات میں بخار ، گلے اور سر میں درد سرفہرست ہے، مریض متلی کے ساتھ ہاضمے کی خرابی میں مبتلا ہوجاتا ہے،جس کے بعد جوڑوں اور پٹھوں میں درد، خارش، اور بھوک میں کمی کے علاوہ جگر اور گردوں کی کارکردگی متاثرہو جاتی ہے۔

    طبی ماہرین کے مطابق ایبولا سے بچاؤ کیلئے احتیاطی تدابیر کے طور پر ہاتھ صابن سے دھوکر صاف ستھرے کپڑے سے خشک کرنا چاہئیں، بازار کے بنے مرغوب کھانے کھانے سے اجتناب کریں، گھر کے کونے صوفہ اور ببڈ کے نیچے وقفے وقفے سے جراثیم کُش ادویات کا اسپرے کریں، کمروں کی کھڑکیاں دروازے کھول کر سورج کی روشنی کا مناسب بندوبست کریں کیونکہ ایبولا کا جرثومہ جراثیم کش ادویات، گرمی، سورج کی براہ راست روشنی، صابن اور ڈٹرجنٹس کی موجودگی میں زندہ نہیں رہ سکتا۔

    اگر گھر میں کوئی جانور مر گیا ہے تواس کو فوراً گھر سے باہر منتقل کردیں کیوں کہ مردہ جانوروں کی لاشوں سے بھی یہ مرض پھیل سکتا ہے، پالتو جانوروں کی صحت کا خیال رکھیں اور گھر سے چوہوں کا خاتمہ ممکن بنائیں۔

  • پاکستان میں ایبولا سے بچاؤ کے اقدامات تاحال نامکمل

    پاکستان میں ایبولا سے بچاؤ کے اقدامات تاحال نامکمل

    ایبولا کا نام دنیا بھر میں دہشت کی علامت بنتا جارہا ہے، حال ہی میں ایک ایبولا سے ممکنہ طور پر متاثرہ مریض کی ہلاکت کے بعد اس کی موجودگی پاکستان میں بھی محسوس کی جارہی ہے ۔

    دنیا بھر میں دہشت کی علامت بننے والا ایبولاوائرس کے خطرے کی زد میں اب پاکستان بھی ہے، اس سے بچاؤ کیلئے اجلاس بھی ہوئے اور احکامات بھی جاری ہوئے مگر بہت سے سوال اب بھی جواب طلب ہے جس میں پہلا سوال تو یہ ہےایبولا وائرس سے بچاو کیلئے حکومتی سطح پر کیا انتظامات کئے گئے؟

    عالمی ادارے صحت کی ہدایات پر اب تک عمل نہ کرنے کی وجہ کیا تھی؟  کیا تمام بین الاقوامی ہوائی اڈوں پر خصوصی سکینرز کی تنصیب مُکمل کرلی گئی ؟ کیا عملے کی تربیت اور اسپتالوں میں خصوصی ایبولا آئسولیشن وارڈ‘ کا قیام عمل میں آگیا؟

    کیا مسافروں کی سفری دستاویزات کی جانچ اور خاص طور پر متاثرہ ممالک سے آنے والے افراد کی جانچ خصوصی انتظامات کئے گئے ہیں ؟

    کیا ایبولا کے مریضوں کو ہسپتال منتقل کرنے کے لیے خصوصی ایمبولینسز فراہم کی گئیں؟

    ۔اسلام آباد ائرپورٹ پر لگاتھرمو سکینر اب تک کیوں خراب ہے ۔ یہ ہے وہ سوالات جن کا مثبت جواب ہی ایبولا وائرس پرقابو پانے میں مددگار ہوسکتا ہے۔

  • ایبولا خطرناک کیوں ہے اور کیا اس کا علاج ممکن ہے؟

    ایبولا خطرناک کیوں ہے اور کیا اس کا علاج ممکن ہے؟

    دنیا کی تاریخ میں کم ہی اتنی خوفناک بیماریاں سامنے آئی ہیں جتنی خوفناک ایبولا وائرس کی بیماری ہے۔ اس وائرس کے شکار کا مدافعتی نظام ناکارہ ہوجاتا ہے اور جسم سے خون رسنا شروع ہوجاتا ہے۔ اب تک مغربی افریقہ میں 6000 سے زائد افراد اس وائرس کی وجہ سے لقمہ اجل بن چکے ہیں اور اب یہ دیگر ممالک تک بھی پہنچ رہا ہے۔

    حال ہی میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے پاکستان کو بھی خبردار کردیا ہے کہ اس وائرس کا یہاں پہنچنے کا شدید خطرہ ہے اور فوری حفاظتی اقدامات کرنے پر زور دیا ہے۔ یہ دہشت ناک وائرس کیسے پھیلتا ہے اور اس کا علاج کیسے ہوتا ہے، چند اہم حقائق یہ ہیں۔

    ایبولا جسم میں کیسے داخل ہوتا ہے؟

    ایبولا متاثرین کے خون میں تقریباً پانچ دن کے بعد اربوں کی تعداد میں ایبولا ذرات موجود ہوتے ہیں۔ اگر کوئی شخص ان مریضوں کے خون یا ناک، منہ یا دیگر اعضاءسے خارج ہونے والی کسی بھی رطوبت کا شکار ہوجائے تو اس کے جسم میں بھی ایبولا وائرس داخل ہوجاتا ہے۔

    ایبولا سے موت کیسے ہوتی ہے؟

    ایبولا وائرس جسم میں داخل ہوکر مدافعتی نظام کو خبردار کرنے والے خلیوں پر بھاری پروٹین کی تہہ جما دیتا ہے جس کے باعث مدافعتی نظام خبردار نہیں ہوپاتا اور یہ وائرس تیزی سے افزائش کرتا ہے۔ بالآکر مدافعتی نظام ایمرجنسی ردعمل کرتا ہے اور نتیجتاً جسم کے اندرونی خلیے اور خون کی شریانیں تباہ ہونا شروع ہوجاتی ہیں اور جگہ جگہ سے خون رسنے کے باعث مریض ہلاک ہوجاتا ہے۔

    ایبولا کا پھیلاؤ

    یہ وائرس خشک سطحوں جیسے کہ دروازے کا ہینڈل یا میز کی سطح پر بھی گھنٹوں زندہ رہ سکتا ہے اور تھوک، خون اور جنسی رطوبتوں میں بھی زندہ رہتا ہے لہٰذا جہاں بھی مریض کی یہ رطوبتیں موجود ہوں گی وہاں سے یہ دوسرے لوگوں میں منتقل ہوسکتا ہے۔ یہ ہوا کہ ذریعے نہیں پھیلتا۔

    ایبولا کا علاج

    تاحال اس جان لیوا وائرس کیلئے کوئی موثر دوا یا ویکسین دستیاب نہیں اور اس کے اکثر شکاروں کا مرنا یقینی ہے۔ ڈاکٹروں نے مصنوعی تنفس، مدافعتی نظام کا قائم رکھنے والی ادویات اور جسمانی نظام کو بحال رکھنے کے غیر معمولی ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے کچھ مریضوں کی جان بچائی ہے تاہم یہ انتہائی بھاری اخراجات کا کام ہے جس کا پاکستان جیسے ملک میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، امریکہ میں اس علاج کا خرچ تقریباً ایک لاکھ روپے فی گھنٹہ ہے۔

    آج کل دنیا میں ایبولا وائرس نامی وبا نے خوف پھیلا رکھا ہے جس نے ایک اندازے کے مطابق اب تک سات ہزار سے زائد افراد کو اپنا شکار بنایا ہے، فروری سے افریقی ممالک میں وباء کی طرح پھیلنے والا ایبولا وائرس ایسا جان لیوا ہے، جو متاثرہ شخص کی جسمانی رطوبتوں کے ذریعے دوسرے لوگوں تک پھیلتا ہے۔ دنیا بھر میں ایبولا وائرس سے متاثرہ نوے فیصد تک لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں۔

    ڈبلیو ایچ او کے مطابق ایبولا وائرس متاثرہ علاقوں میں اب تک نوسو سے زیادہ افراد کی جان لے چکا ہے، ہلاک ہونے والے متاثرہ افراد میں سے دو سو بیاسی کا تعلق کا لائیبیریا سے ہے، برس یہ مغربی افریقہ میں ایک وبا کی شکل میں سامنے آیا اور گیانا، سیریا ون، لائبریا اور نائیجریا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، جس کے بعد عالمی سطح پر ایبولا کے بچاؤ اور اس کی ویکسین کی تیاری کے لیے کوششیں تیز کردی گئی ہیں۔

  • فیصل آباد: خطرناک وائرس ایبولا کا مبینہ مریض دم توڑ گیا

    فیصل آباد: خطرناک وائرس ایبولا کا مبینہ مریض دم توڑ گیا

    فیصل آباد: الائیڈ اسپتال میں خطرناک وائرس ایبولا کا مبینہ مریض دم توڑ گیا ہے، لاش لواحقین کے حوالے کردی گئی، دوسری جانب  صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے عالمی ادارہ صحت کی پانچ رکنی ٹیم بھی تین روزہ دورے پر پاکستان پہنچ گئی ہیں۔

    پاکستانی پولیو، خسرہ اور ڈینگی جیسے امراض سے نہیں نمٹ پائے کہ ایبولا نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے،  جنوبی افریقا سے آئے ہوئے چنیوٹ کے شہری میں ایبولاوائرس کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا، ایک ماہ پہلے وطن لوٹنے والے ذوالفقارکو ایبولا وائرس کے خدشے کے تحت الائیڈ اسپتال فیصل آباد داخل کروایا گیا تھا، اسپتال میں زیرِعلاج ذوالفقار کو آئی سولیشن وارڈ میں منتقل کردیا گیا، جہاں ذوالفقار کے خون کےنمونے تشخیص کیلئے اسلام آباد بھجوا دیئے گئے ہیں۔

    ایم ایس الائیڈ اسپتال کا کہنا تھا کہ ذوالفقار ایبولاوائرس کا شکار نہیں، زوالفقار دورانِ علاج جانبرنہ ہوسکا، اسپتال انتظامیہ نے لاش لواحقین کے حوالے کردی۔

    محکمہ صحت پنجاب اے آر وائی نیوز پر خبر نشر ہوتے ہی حرکت میں آیا اورابیولا وائرس کے مبینہ مریض کی خبر پر نوٹس لیتے خصوصی احتیاط کے احکامات جاری کر دیئے گئے ہیں، عالمی ادارۂ صحت کی پانچ رکنی ٹیم بھی تین روزہ دورے پر پاکستان پہنچ گئی ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کی ٹیم آج چنیوٹ جائے گی، ڈبلیو ایچ او کے ارکان متاثرہ مریض کے اہلخانہ کا ٹیسٹ کریں گے،  ساتھ گھر کی بھی اسکریننگ کی جائے گی، ایبولاوائرس سے جنوبی افریقا سمیت کئی ممالک میں پانچ ہزار سے زائد افراد جان گنواچکے ہیں۔

  • افریقا سے آنے والے چنیوٹ کے شہری میں ایبولا وائرس ہونے کا خدشہ

    افریقا سے آنے والے چنیوٹ کے شہری میں ایبولا وائرس ہونے کا خدشہ

    چنیوٹ : ایک شخص میں ایبولاوائرس کا خدشہ ظاہرکیا جارہا ہے، ذوالفقارنامی شخص کے خون کے نمونے ٹیسٹ کیلئے اسلام آباد بھجوا دیئے گئے۔

    پاکستانی پولیو،خسرہ اورڈینگی جیسے امراض نمٹ نہیں پائے کہ ایبولانے خطرے کی گھنٹی بجا دی۔ افریقا سے آئے ہوئےچنیوٹ کےشہری میں ایبولاوائرس کاخدشہ ظاہرکیاجارہاہے،ایک ماہ پہلے وطن لوٹنے والے ذوالفقار کے خون کے نمونے تشخیص کیلئے اسلام آباد بھجوا دیئے گئے ہیں ۔

    ایم ایس الائیڈاسپتال کاکہناہےذوالفقار ایبولاوائرس کا شکار نہیں، فیصل آباد کے اسپتال میں زیرعلاج ذوالفقار کو آئی سولیشن وارڈ میں منتقل کردیاگیاہے،محکمہ صحت پنجاب نے ابیولا وائرس کے مبینہ مریض کی خبرپرنوٹس لیتے خصوصی احتیاط برتنےکی ہدایت کردی۔

    ایبولاوائرس سے بچاؤ کے اقدامات کاجائزہ لینے کیلئے عالمی ادارہ صحت کی پانچ رکنی ٹیم بھی تین روزہ دورے پر پاکستان پہنچ گئی ہے۔ جو آج چنیوٹ جائےگی اور مبینہ طورپرمتاثرہ شخص اور اہلخانہ کاٹیسٹ کریں گے، ایبولاوائرس سےجنوبی افریقا سمیت کئی ممالک میں پانچ ہزار سے زائد افراد جان گنواچکے ہیں۔