Tag: economic

  • عالمی تنہائی اور معاشی زبوں حالی نے قطر اور ایران کو سر جوڑنے پر مجبور کر دیا

    عالمی تنہائی اور معاشی زبوں حالی نے قطر اور ایران کو سر جوڑنے پر مجبور کر دیا

    دوحہ:مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام پیدا کرنے کے نتیجے میں عالمی تنہائی کا شکار ہونے والے ایران اور قطر نے آپس میں گٹھ جوڑ کر لیا۔ دونوں ملکوں کو درپیش معاشی بحران اور عالمی سطح پر دونوں ملکوں کی تنہائی انہیں ایک دوسرے کے قریب لے آئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق دفاعی تجزیہ نگار احمد فتحی نے اپنے مضمون میں ایران اور قطر کی باہمی قربت کے اسباب پر روشنی ڈالی ہے، مضمون نگار نے کہاکہ ایران اور قطر دونوں پڑوسی ملکوں کے بائیکاٹ کا سامنا کرنے کے ساتھ عالمی تنہائی کا بھی سامنا کر رہے ہیں۔ ایک سکے کے دو رخ کے مصداق دونوں ممالک کے درمیان پچھلے کچھ عرصے سے قربت میں بتدریج اضافہ ہوا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ 2017میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر نے قطر کا سفارتی اور معاشی بائیکاٹ کیا۔ قطر پر خطے کے دوسرے ممالک میں مداخلت، دہشت گردوں کی پشت پناہی، اخوان المسلمون اور القاعدہ کے عناصر کو پناہ دینے، یمن، لبنان، شام اور دوسرے ملکوں میں اپنے ایجنٹ بھرتی کرنے کا الزام عاید کیا گیا۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ حال ہی میں چھ جولائی کو ایران کے صوبہ فارس کے گورنر عنایت اللہ رحیمی نے قطر کا دورہ کیا۔ رحیمی کے ہمراہ آنے والے ایرانی تاجروں نے قطر میں موجود کاروباری اور حکومتی شخصیات سے بھی ملاقاتیں کیں۔

    عنایت اللہ رحیمی نے بتایا کہ انہوں نے قطری حکام کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں میں دوطرفہ اقتصادی، ثقافتی اور سیاسی شعبوں میں تعاون سے اتفاق کیا ہے۔

    قطر میں ایرانی سفیر محمد علی سبحانی نے ایک بیان میں کہا کہ ایران کے جنوبی اضلاع کے قطر کے ساتھ گہرے اقتصادی تعلقات ہیں مگر ایران کے دوسرے صوبے اور اضلاع بھی دوحا اور تہران کے درمیان جاری تعلقات کے فائدوں سے محروم نہیں۔

    تجزیہ نگار احمد فتحی کا کہنا تھا کہ ایران اور قطر کی باہمی تجارت اور درآمدات وبرآمدات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ جب سے عرب ممالک نے قطر کا بائیکاٹ کیا ہے، دوحا نے تہران کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط بنانے کے لیے دن رات کام شروع کر رکھا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ عرب ممالک کی جانب سے قطر کی فضائی سروس کے بائیکاٹ کے بعد دوحا اور تہران کے درمیان یومیہ 200 اضافی پروازیں چلائی جا رہی ہیں۔

  • اقتصادی بحران کے باعث لبنان کے دیوالیہ ہونے کا خدشہ

    اقتصادی بحران کے باعث لبنان کے دیوالیہ ہونے کا خدشہ

    بیروت : سعودی عرب اور خلیجی ممالک نے ہاتھ کھینچ لیا، لبنانی معیشت مزید مشکل صورتحال سے دوچار ہو گئی، عالمی بینک کا کہنا ہے کہ لبنان کی معیشت کا بنیادی ڈھانچہ مخدوش ہے‘شامی بحران کے حل سے اس کی لاٹری نہیں کھلے۔

    تفصیلات کے مطابق مشرق وسطیٰ کا ملک لبنان ان دنوں شدید اقتصادی بحران میں گھرا ہے۔ لبنانی وزیراعظم سعد الحریری نے کہا ہے کہ بلاشبہ لبنان کو اقتصادی بحران بیشک درپیش ہے لیکن ملک کے دیوالیہ ہونے کا کوئی امکان نہیں، اصلاحات سے مسئلہ حل ہو جائے گا۔

    بعض سیاستدان اقتصادی تجزیہ کار اور مالیاتی ادارے لبنان کے اقتصادی حالات کا مختلف منظر نامہ پیش کر رہے ہیں۔ سرسری سی نظر ڈالنے سے لبنان کا اقتصادی منظر نامہ دھندلایا ہوا نظر آرہا ہے۔

    عالمی بینک نے رپورٹ دی ہے کہ لبنان کی معیشت کا بنیادی ڈھانچہ مخدوش ہے۔شامی بحران کے حل سے اس کی لاٹری نہیں کھلے گی بلکہ شام کے بحران نے لبنانی معیشت کو مزید بگاڑ دیا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھا کہ لبنان کے ایک بڑے حلقے کو ملک کے دیوالیہ ہونے کا بہت خدشہ ہے، اس کی دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ لبنان کا توازن و تجارت خسارے سے دوچار ہے۔

    لبنان کو قومی قرضوں کا سود چکانے کیلئے سالانہ 20ارب ڈالرز سے زیادہ کا قرضہ لینا پڑ رہا ہے، گذشتہ 3برسوں میں شرح نمو صرف ایک فیصد سے دو فیصد تک رہی ۔اس کے علاوہ دیگر ممالک میں برسرِ روزگار لبنان تارکین کی جانب سے ترسیلات زر میں بھی مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔

    سعودی عرب اور خلیجی ممالک ماضی میں لبنان کی اچھی خاصی مالی امداد کیا کرتے تھے لیکن اب ان ملکوں نے بھی ہاتھ کھینچ لیا ہے، اس سے لبنانی معیشت مزید مشکل صورتحال سے دوچار ہو گئی ہے۔

    لبنانی حکومت اقتصادی اصلاحات کی بات تو کر رہی ہے تاہم عملی اقدامات اور خارجی امداد لانے سے قاصر نظر آرہی ہے، خدشات یہ بھی ہیں کہ سیاسی بحران اپریل میں ہونے والی مجوزہ پیرس کانفرنس کے عالمی شرکاء کو 11ارب ڈالرز دینے کا وعدہ پورا کرنے سے روک دیں گے۔

  • یورپ اپنی معاشی خود مختاری کا دفاع کرے گا، فرانسیسی وزیر اقتصادیات

    یورپ اپنی معاشی خود مختاری کا دفاع کرے گا، فرانسیسی وزیر اقتصادیات

    برسلز : امریکا کی جانب سے ایرانی ایٹمی ڈیل سے نکل جانے کے باوجود یورپی ممالک جوہری معاہدے کو بچانے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں کیوں کہ ایران پر پابندی لگنے سے یورپی کمپنیوں کو ہزاروں ڈالرز کا نقصان ہوگا۔ 

    تفصیلات کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ایران کے ساتھ طے ہونے والے جوہری معاہدے سے دستبرداری کے بعد معاہدے میں شامل یورپی ممالک نے ایٹمی ڈیل کو باقی رکھنے کے لیے دیگر شراکت داروں سے رابطے شروع کردیئے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل نے ایٹمی معاہدہے کو بچانے کے حوالے روسی صدر ولادی میر پیوٹن سے ٹیلی فونک رابطہ کیا ہے جبکہ برطانیہ کی وزیر اعظم تھریسا مے نے امریکی صدر سے بات چیت کی۔

    برطانوی نشریاتی ادارے کا کہنا ہے کہ فرانس سب سے زیادہ آواز بلند کررہا ہے کہ امریکا کے ایٹمی معاہدے سے نکل جانے کے بعد ایران پر پابندیاں لگانے سے یوری کمپنیوں کو نقصان ہوگا۔

    دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے برطانوی وزیر اعظم کے ٹیلیفونک رابطے پر کہا ہے کہ ’ایران کے ساتھ طے ہونے والا مذکورہ معاہدہ خوفناک تھا‘۔

    امریکی صدر کا کہنا تھا کہ جو چیزیں اور معاہدے ان کے لیے باعث تشویش ہیں ان میں ایران کے ساتھ ہونے والی معینہ مدتی ڈیل بھی تھی، کیوں کہ مذکورہ معاہدے میں ایران کے بیلسٹک میزائل اور خطے میں بڑھتا ہوا اثر و رسوخ شامل نہیں ہے۔

    یاد رہے کہ گذشتہ منگل کے روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ امریکا سنہ2015 میں ہونے والے جوہری معاہدے سے دستبردار ہوکر ایران پر دوبارہ اقتصادی پابندیاں عائد کررہا ہے، البتہ یہ پابندیاں دو حصّوں(اگست اور ستمبر) میں نافذ کی جائیں گی۔

    واضح رہے کہ ایران نے جوہری معاہدے کے تحت ڈیل پر دستخط کرنے کے بعد ایٹمی منصوبہ بندی کو ترک کرنا تھا۔ مذکورہ معاہدہ امریکا، تین یورپی ممالک، روس اور چین کے ساتھ طے ہوا تھا۔؎

    غیر ملکی خبر رساں کا کہنا تھا کہ امریکا کے جوہری معاہدے سے دستبردار ہوجانے کے بعد بھی یورپی ممالک کو لگتا ہے کہ ایران کو ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری سے روکنے کا واحد ذریعہ یہ معاہدہ ہی ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھا کہ ایران پر دوبارہ عائد کی جانے والی امریکی پابندیوں کے باعث ایران کے ساتھ تجارت کرنے والی پورپی کمپنیوں کو ہزاروں ڈالرز کا نقصان ہوگا جو ناقابل برداشت ہے۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ معروف یورپی طیارہ ساز کمپنی ایئر بس کا ایران کو 100 طیاروں کی فروخت کا معاہدہ طے ہوا تھا جو ایران پر امریکی پابندیوں کے بعد خطرے کا شکار ہے کیوں کہ مذکورہ طیارے کے کچھ پرزے امریکا میں تیار کیے جاتے ہیں۔

    برطانوی نشریاتی ادارے کا کہنا تھا کہ سنہ 2016 میں امریکا کی جانب سے ایران پر عائد کردہ پابندیوں کے ختم ہونے کے بعد فرانس کی بڑی آئل کمپنی ٹول اور کار ساز کمپنی پژجو اور رینالٹ نے بھی ایران میں بڑتے پیمانے پر تجارت کا آغاز کیا تھا۔

    واضح رہے کہ سنہ 2016 ایران پر سے پابندیاں ختم ہونے کے بعد فرانس اور جرمنی کی درآمدات میں بے تحاشا اضافہ ہوا تھا۔

    خیال رہے کہ فرانسیسی صدر ایمینیول مکرون نے امریکا کی جانب سے ایران پر دوبارہ پابندی عائد کیے جانے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اور فرانس کے وزیر اقتصادیات برونو لی میری نے کہا ہے کہ یورپ اپنی ’معاشی خود مختاری کا بھرپور دفاع کرے گا‘۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • حکومتی اقتصادی سروے 2017-18 جاری، ترقی کی شرح 5.8 فیصد، غربت میں کمی

    حکومتی اقتصادی سروے 2017-18 جاری، ترقی کی شرح 5.8 فیصد، غربت میں کمی

    اسلام آباد: حکومت نےاقتصادی سروے17-2018جاری کردیا جس کے مطابق ملک میں اقتصادی ترقی کی شرح 5.8 فیصد رہی اور غربت میں کمی ہوئی، وفاقی وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ 2013 میں پاکستان کی معیشت اور ریاست کئی بحرانوں کا شکار تھی جسے موجودہ حکومت نے ختم کیا۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسلام آباد میں مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ احسن اقبال کا کہنا تھا کہ 2013 میں 18 سے 20 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ معمول تھی جس کی وجہ سے صنعتیں بند ہوئیں اور سیکڑوں مزدور بے روز گار ہوئے، ماہرین پانچ سال قبل خدشہ ظاہر کررہے تھے کہ توانائی بحران کی وجہ سے خانہ جنگی کا خطرہ ہے۔

    اُن کا کہنا تھا کہ 2013میں پاکستان کی معیشت اور ریاست کئی بحرانوں میں مبتلا تھی، ملک توانائی کے بحران نے بری طرح گھیرا ہوا تھا، کراچی میں بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ معمول تھی جس کی وجہ سے سرمایہ کار ملک چھوڑ کر گئے۔

    احسن اقبال کا کہنا تھا کہ 2008سے2012کےدرمیان شرح نمو 3فیصد تک تھی، بدقسمتی سے14سال پہلے پاکستان کے پاس معاشی حکمتِ عملی سے متعلق کوئی فریم نہیں تھا تاہم مسلم لیگ ن کی حکومت نے ان تمام مسائل کا مقابلہ کیا اور باقاعدہ پلاننگ کے ساتھ کام شروع کیا جس کی وجہ سے پاکستان جنوبی ایشیا میں سب سے بڑی انفرااسٹریکچر اکانومی بن گیا۔

    مزید پڑھیں: اقتصادی سروے رپورٹ: معاشی ترقی کی شرح پونے چھ فیصد سے زائد

    اُن کا کہنا تھا کہ پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام کو300سے 1000ارب روپےپر لائے،  پاکستان میں 11ہزار میگاواٹ بجلی 4 سالوں کے دوران سسٹم میں شامل ہوئی جس کی وجہ سے ملک میں لوڈ شیڈنگ بہت کم ہوئی علاوہ ازیں انتہاپسندی کےخاتمےکیلئےسیکیورٹی آپریشن کو اپنے بجٹ سے شروع کیا اور حکومت نے ملک سے انتہا پسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ کیا۔

    [bs-quote quote=”مسلم لیگ ن کی حکومت نے ان تمام مسائل کا مقابلہ کیا اور باقاعدہ پلاننگ کے ساتھ کام شروع کیا جس کی وجہ سے پاکستان جنوبی ایشیا میں سب سے بڑی انفرااسٹریکچر اکانومی بن گیا۔” style=”default” align=”center” author_name=”احسن اقبال” author_job=”وفاقی وزیر داخلہ” author_avatar=”https://arynewsudweb.wpengine.com/wp-content/uploads/2018/04/ahsan-iqbal-60×60.jpg”][/bs-quote]

    وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ خوشی ہےرواں سال جی ڈی پی گروتھ ریٹ 5.8فیصد پرآچکا گزشتہ سال سیاسی بحران نے ملک میں بےیقینی پیدا کی تھی اگر سیاسی بحران نہ ہوتا تو جی ڈی پی کو 6.1 فیصد پر لے جاچکے ہوتے، پانچ سال پہلے پاکستان کی اوسط شرح 3فیصد تھی۔

    اُن کا کہنا تھا کہ چھالیس ارب ڈالر کے سی پیک منصوبے میں مختصر مدت میں 29 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوچکی جو آسان کام نہیں، حکومت نے ساڑھے1700کلومیٹر موٹروے کی تعمیر شروع کی اس کے علاوہ 2025 تک 15 ہزار میگاواٹ بجلی کے منصوبے بھی بنائے کیونکہ ترقیاتی منصوبوں میں پاور پراجیکٹس ہماری اولین ترجیح ہے۔

    اس موقع پر مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ گذشتہ چار برسوں کے دوران زراعت میں 3.81 فیصد اضافہ ہوا اور مہنگائی کی شرح 13سال کی کم ترین سطح پر آئی کیونکہ اس کی شرح ماضی میں 7.38فیصد تھی جو اب کم ہوکر 3.8فیصد ہوگئی، سن 2013 میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے 1946 ارب روپے حاصل کیے تھے مگر اب ایف بی آر کا ہدف 3900 ارب روپے سے زائدہے، موجودہ مالی سال میں3900ارب روپےسےزائدکاریونیو اور جی ڈی پی 11فیصد رہی۔

    اُن کا کہنا تھا کہ  حکومت نےتمام وعدےپورےکیے، برآمدات میں بھی اضافہ ہوا تاہم تین سالوں کے دوران ملکی برآمدات میں کمی ہوئی جس کی وجہ سے جاری کھاتے کا خسارہ بھی 2 سال کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوگیا۔

    مفتاح اسماعیل کا کہنا تھاکہ 3ماہ کے لیے عبوری بجٹ پیش کرنا ممکن نہیں اس لیے وفاقی حکومت ایک سال کا ہی بجٹ پیش کرے گی اور صوبے بھی اس پر عمل کرتے ہوئے آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کریں گے۔ مشیر خزانہ کا مزید کہنا تھا کہ ایمنسٹی اسکیم کسی کےچوری کے پیسے کے لیے نہیں لائے بلکہ ٹیکس ریٹ کم کر کے لوگوں کو موقع دیا کہ وہ اپنی سرمایہ کاری واپس لائے ۔

    سوال کا جواب دیتے ہوئے احسن اقبال کا کہنا تھا کہ ہم 1990اور 1960 میں 2کیچ ڈراپ کرچکے ہیں جس کی وجہ سے معیشت کو دھچکا بھی لگا،  اب سی پیک کے ذریعے ہمیں تیسری بار موقع ملا اگر ہم نے فائدہ اٹھا لیا تو پاکستان دنیا کی بڑی معیشتوں میں جلد شامل ہوجائے گا۔

    ایک اور سوال کے جواب میں وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ گزشتہ 10سال میں غربت کی شرح میں کمی آئی ہے، سیاسی استحکام اور معیشت کا چولی دامن کا ساتھ ہے اس لیے ہمیں سیاسی ایڈونچر سے پرہیز کرنا ہوگا۔

    Card

     


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • ای سی او کی 13 ویں سمٹ کا انعقاد اسلام آباد میں ہوگا.

    ای سی او کی 13 ویں سمٹ کا انعقاد اسلام آباد میں ہوگا.

    اسلام آباد: اکنامک کارپوریشن آرگنائزیشن (ای سی او) کی 13 ویں سمٹ کا انعقاد رواں سال یکم مارچ کو شہر اقتدار میں ہوگا، جس میں تمام ممالک کے وزرائے خارجہ شرکت یقینی ہوگی.

    تفصیلات کے مطابق اکنامک کارپوریشن آرگنائزیشن کی 13 ویں سمٹ یکم مارچ کواسلام آباد میں ہوگی، جس میں تمام ممالک کے وزرائے خارجہ شرکت کریں گے.

    ای سی او ممبران کی کل تعداد 10 ہے ،تاحال چھ ممالک نے ای سی اوسمٹ میں شرکت کرنے کی یقین دہانی کروادی ہے، جبکہ دیگر ممالک کے شرکت بھی یقینی ہے.

    ذرائع کا کہنا ہے کہ ایران کےصدر حسن روحانی بھی ای سی او سمٹ میں شریک ہوں گے جبکہ ترک صدرطیب اردوان کی شرکت بھی متوقع ہے.

    ذرائع کا کہنا ہے کہ افغانستان،کرغزستان اور ازبکستان کی جانب سے شمولیت کا امکان ہے۔

    واضح رہے کہ پاکستان، چائنا اکنامک کوریڈور کے منصوبے کے بعد دینا بھر کی نگاہیں پاکستان پر مرکوز ہیں، خطے کے ممالک پاکستان کے ساتھ تجارتی روابط رکھنے میں دلچسپی لے رہے ہیں، اسی لئے ’سی پیک‘ کو گیم چینجرکا نام دیا جا رہا ہے۔

    یہاں پڑھیں:اکنامک کوریڈور پورے خطے کیلئےگیم چینجر ثابت ہوگی، احسن اقبال

    یاد رہے اس حوالے سے فاقی وزیر احسن اقبال نے کہا تھا کہ دنیا بھر میں پاکستان کو چھیالیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا مرکز قرار دیا جارہا ہے۔

  • موڈیز نے پاک چائنا اقتصادی راہداری کو مثبت قرار دے دیا

    موڈیز نے پاک چائنا اقتصادی راہداری کو مثبت قرار دے دیا

    اسلام آباد: موڈیز نے پاک چائنا اقتصادی راہداری کو مثبت قرار دے دیا۔ منصوبے سے پاکستان میں جاری توانائی بحران پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔

    عالمی ریٹینگز ایجنسی موڈیز کے مطابق پاکستانی حکومت کی جانب سے دی گئی پاک چائنا اقتصادی راہداری کی منظوری کریڈٹ پازیٹیو ہے۔

    اس راہداری کا فائدہ اٹھاتے ہوئےپاکستان ریل ، روڈ اور تیل وگیس کی پائپ لائن کے زریعے چین سے منسلک ہوجائے گا۔

    اس راہداری سے پاکستان میں سرمایا کاری اور باہمی تجارت کو فروغ ملے گا اور پاکستان میں جاری توانائی بحران کو قابو کرنے میں بھی مدد گار ثابت ہوگا، توقع ہے کہ یہ منصوبہ سال دوہزار سترہ تک مکمل مکمل ہوجائے گا ۔

  • پاکستان درست معاشی راہ پر گامزن ہے، موڈیز

    پاکستان درست معاشی راہ پر گامزن ہے، موڈیز

    کراچی: موڈیز کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی مثبت جائزہ رپورٹ اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستانی معیشت درست راہ پر گامزن ہے۔

    عالمی ریٹینگز ایجنسی موڈیز کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے لیا گیا پاکستان کا معاشی جائزہ مثبت رہا، آئی ایم ایف سے ملنے والی رقم سے پاکستان کی معیشت مستحکم ہوگی جب کہ ملکی زرمبادلہ ذخائرمیں مزید اضافہ ہوگا جو کہ روپے کی قدر میں اضافے کا باعث بنے گا۔

     آئی ایم ایف سے رقم ملنے سے معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہونگے ۔ آئی ایم ایف کی جانب سے دو اقسا کا اجراء سے روپے کی قد میں اضافہ اور غیر ملکی سرمایا کاری میں کمی سے پیدا ہونے والے خدشات میں بھی کمی آئے گی ۔

  • نئی ٹیکسٹائل پالیسی کااعلان عید کے بعد ہوگا،عباس آفریدی

    نئی ٹیکسٹائل پالیسی کااعلان عید کے بعد ہوگا،عباس آفریدی

    لاہور: وفاقی وزیر ٹیکسٹائل عباس خان آفریدی نے کہا ہے کہ حکومت نے نئی ٹیکسٹائل پالیسی تیار کرلی ہے جس کا اعلان عیدالاضحٰی کے بعد ہوگا، لاہور میں آل پاکستان ٹیکسٹائل پراسیسنگ ملز کی تقریب سے خطاب اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نئی ٹیکسٹائل پالیسی میں صنعتوں کےلیے بڑے پیمانے پر مراعات دی گئی ہیں اور اس سال موسم سرما میں ٹیکسٹائل سیکٹر کی گیس بند نہیں ہونے دونگا۔

    وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ 56 نئی کمپنیوں کو گیس اور تیل تلاش کرنے کے لائسنس دیئے گئے ہیں اورگیس کے نئے ذخائر ملنے اور ایل این جی درآمد ہونے پر گیس کا بحران ختم ہوجائے گا۔

    ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ احتجاج اور دھرنا ہر شخص کا جمہوری حق ہے ،لیکن احتجاج اور دھرنے اس حد تک دیئے جائیں جس سے معیشت اور قومی املاک کو نقصان نہ پہنچے۔

  • سیاسی کشیدگی سے معیشت پربرااثرپڑے گا، ڈاکٹرمرتضیٰ مغل

    سیاسی کشیدگی سے معیشت پربرااثرپڑے گا، ڈاکٹرمرتضیٰ مغل

    اسلام آباد: پاکستان اکانومی واچ کے صدر ڈاکٹرمرتضیٰ مغل نے کہا ہے کہ بڑھتی ہوئی سیاسی محاذ آزائی سے معیشت کے علاوہ پاکستان کی عالمی درجہ بندی متاثرہوگی جس سے اس کے امیج پر منفی اثر پڑے گا، اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ امسال پاکستان عالمی بینک کی کاروبار کی سہولت کی رپورٹ میں 189ملکوں میں 110نمبر پر رہا۔

    ان کا کہنا تھا کہ 2013میں پاکستان کا نمبر 106تھا، ملک کو درپیش سنگین چیلنجز کے باوجود سیاستدان ملک و قوم کے مفاد اورمعیشت کو اپنے فائدے کیلئے قربان کرنے میں مصروف ہیں، جس سے اسٹاک مارکیٹ اور روپے کو نقصان پہنچاہے جبکہ عوام میں شدید اضطراب ہے۔

    ڈاکٹرمرتضیٰ مغل نے کہا کہ درآمد ات و برآمدات منجمد ہوکررہ گئی ہیں جبکہ عوام اورکاروباری برادری ہراساں ہورہی ہے ۔

    دوسری جانب پنجاب میں عوام کےاحتجاج کے خلاف ردعمل ضرورت سے زیادہ ہے، جس نے صورتحال کو مزید خراب کیا ہے،ان حالات میں کسی ڈیل کے بعد بھی معیشت کو سنبھالنا حکومت کیلئے مشکل ہوگا کیونکہ انکے کاروبار دوستی کے دعووں میں حقیقت کم ہے، سیاستدان ملک و قوم اورمعیشت کی خاطر اپنا کھیل جتنی جلد بند کر دیں اتنا ہی اچھا ہو گا ورنہ کوئی بڑا حادثہ ہو سکتا ہے۔

  • چینی صدر کے دورے کی  منسوخی پرموڈیز کا اظہار تشویش

    چینی صدر کے دورے کی منسوخی پرموڈیز کا اظہار تشویش

    اسلام آباد:بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے کہا ہے کہ چینی صدر کا دورہ منسوخ ہونے سے پاکستانی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہونگے۔ موڈیز کے مطابق چینی صدر زی جن پنگ کا دورہ منسوخ ہونے سے چین کی جانب سے ملنے والی امداد اور معاشی معاہدے متاثر ہونگے۔

    موڈیز کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سیاسی عدم استحکام کے باعث پاکستان میں جاری معاشی اصلاحات پر سوالیہ نشان کھڑا ہو گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سیاسی عدم استحکام کے باعث پاکستان میں جاری آئی ایم ایف پروگرام متاثر ہو سکتا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق اگرحکومت کو آئی ایم ایف کی جانب سے مزید قرض کی مزید اقساط نہیں ملیں تو حکومت مالی مشکلات کا شکار ہوسکتی ہے۔