Tag: Economist

  • آئی پی پیز کے معاہدے کیسے منسوخ کیے جا سکتے ہیں؟

    آئی پی پیز کے معاہدے کیسے منسوخ کیے جا سکتے ہیں؟

    آئی پی پیز کے معاہدے عوام پر بجلی بن کر گررہے ہیں، جن کا سارا بوجھ عوام کی جیبوں پر پڑا ہے، کیا ان معاہدوں سے چھٹکارا ممکن ہے؟

    اس حوالے سے اے آر وائی کے پروگرام باخبر سویرا میں ماہر معاشیات خرم شہزاد نے گفتگو کرتے ہوئے اس مسئلے کا حل بتایا۔

    ان کا کہنا تھا کہ آئی پی پیز کے معاملے میں دو تین عوامل ہیں جبکہ صرف ایک مسئلے پر ہی بات کی جارہی ہے، جبکہ دوسری بات یہ ہے کہ بجلی کا مسئلہ نہیں بلکہ بجلی پہنچانے کا ہے۔ اس کیلئے کسی بھی حکومت نے کوئی کام نہیں کیا۔

    جس کی وجہ سے لائن لاسز اور بجلی چوری کا مسئلہ کھڑا ہوجاتا ہے سو میں سے تیس یونٹ ضائع ہوجاتے ہیں اور اس کا اثر ایک عام آدمی کے بل پر بھی پڑتا ہے۔ جہاں تک کیپسٹی پیمنٹ کی بات ہے اس کے معاہدے پالیسی سازوں اور حکومتوں نے بنائے۔

    IPP

    خرم شہزاد نے کہا کہ بجلی کے بل بڑھنے کی وجوہات میں لائن لاسز کے علاوہ گردشی قرضوں کا بھی حصہ ہے اس کے علاوہ دیگر ٹیکسز بھی بجلی کے بلوں میں اضافے کی وجہ ہیں۔

    آئی پی پیز کے معاہدوں میں ترمیم یا اسے منسوخ کیے جانے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ کسی بھی معاہدے میں شرائط و ضوابط کی وضاحت کی جاتی ہے کہ اس میں ایسی شق ہوتی ہے جب کوئی ایسا مسئلہ یا مشکل آئے گا تو مسئلہ کو حل کیا جاسکتا ہے۔

     

  • نو ماہ ہوگئے ہم آج بھی آئی ایم ایف کے بغیر زندہ ہیں، ڈاکٹر اشفاق حسن

    نو ماہ ہوگئے ہم آج بھی آئی ایم ایف کے بغیر زندہ ہیں، ڈاکٹر اشفاق حسن

    اسلام آباد : وزارت خزانہ کے سابق اقتصادی مشیر اور سابق ڈائریکٹر جنرل ڈیبٹ آفس ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے کہا ہے کہ 9ماہ ہوگئے ہیں ہم آج بھی آئی ایم ایف کے بغیر زندہ ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام دی رپورٹرز میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف شرائط دیے جارہا ہے اور پاکستان پوری کیے جارہا ہے۔

    ڈاکٹر اشفاق حسین نے کہا کہ پاکستان کے لیے یہ مسئلہ ہے کہ فنانسنگ گیپ کیسے پورا کیا جائے، 9ماہ ہوگئے ہیں ہم آج بھی آئی ایم ایف کے بغیر زندہ ہیں، جو یہ کہتے ہیں آئی ایم ایف کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے ان کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف پروگرام نہ ملنے کی وجہ سے مسائل ہونا درست نہیں، اندھے کو بھی نظر آرہا ہے کہ چیزیں درست سمت میں نہیں جارہیں، دنیا بھی دیکھ رہی ہے ملک میں جو کچھ ہورہا ہے اس سے نقصان ہورہا ہے۔

    ماہر معاشیات نے کہا کہ پکڑ دھکڑ مار دھاڑ سے نکلیں ملک کی معیشت کی طرف توجہ دیں، ایسے ماحول میں کون کاروبار کرسکتا ہے، لوگوں میں مایوسی پھیل رہی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ میں ایک یونیورسٹی میں بیٹھا ہوں، آج کا نوجوان بیزار ہوچکا ہے وہ ملک سے جانا چاہتا ہے، جس کو بھی باہر جانے کا موقع ملتا ہے واپس آنے کو تیار نہیں ہوتا، ملکی ماحول اتنا خراب کردیا گیا ہے کہ لوگوں کو آگے کچھ نظر نہیں آرہا۔

    ڈاکٹر اشفاق حسن کا مزید کہنا تھا کہ پریس کانفرنس سے ماحول درست ہوتا ہے تو دن میں50کانفرنس کریں، ملک میں کاروبار درست نہیں چل رہا، لوگوں کی پریشانی بڑھتی جارہی ہے جس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

  • ہمیں مہنگی چیزوں کی درآمد پر پابندی لگانا ہوگی، ڈاکٹر قیصر بنگالی

    ہمیں مہنگی چیزوں کی درآمد پر پابندی لگانا ہوگی، ڈاکٹر قیصر بنگالی

    لاہور : معروف ماہر معاشیات ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کہا ہے کہ ملکی معیشت اتنی کمزور ہے کہ مزید ٹیکس نہیں لیا جاسکتا، ہمیں مہنگی چیزوں کی درآمد پر پابندی لگانا ہوگی۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے لاہور میں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کہا کہ معاشی خود مختاری نہ ہو تو سیاسی خود مختاری بھی ختم ہو جاتی ہے، اسی لیے سعودی عرب نے کہا کہ ملائشیا کانفرنس میں شرکت نہ کریں۔

    ڈاکٹر قیصر بنگالی کا کہنا تھا کہ معیشت اتنی کمزور ہے کہ مزید ٹیکس نہیں لیا جاسکتا، مزید ٹیکس لیں گے تو اور کاروبار بند ہو جائیں گے،ہم100ڈالر برآمد کرتے ہیں تو230ڈالر کی چیزیں درآمد کرتے ہیں، ہمیں مہنگی چیزوں کی درآمد پر پابندی لگانا ہوگی۔

    ماہر معاشیات نے کہا کہ صنعت کار کارخانے بند کرکے اسٹاک ایکسچینج میں پیسہ لگارہے ہیں، حکومت کی پالیسیوں نے پروڈکٹیو معیشت کو کسینو پالیسی بنا دیا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے پاکستان میں کبھی بھی ایسی پالیسیاں نہ ہی مرتب اور نہ ہی اپنائی گئیں جن کا براہ راست فائدہ عوام کو ملتا اور ملکی معیشت میں بہتری نظر آتی۔

    پاکستانی معیشت کسی طور پر بھی صحیح سمت میں نہیں ہے بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ مصنوعی طریقوں سے کام کررہی ہے جو اعداد وشمار حکومت اور سرکاری ادارے دکھاتے اور بتاتے ہیں وہ اصل حقائق کے منافی ہیں اور یہ زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہ سکتے۔

    ڈاکٹر قیصر بنگالی نے مزید کہا کہ جب تک اخراجات میں کمی، برآمدات میں اضافہ، آمدنی کے نئے ذرائع، زرعی پیداوار میں اضافہ اور نئی انڈسٹریز کا قیام عمل میں نہیں لایا جائے گا،اس وقت تک پاکستان کی معیشت مستحکم نہیں ہوسکتی۔

  • سی پیک منصوبہ دونوں ممالک کی دوستی کامنہ بولتا ثبوت ہے، بھارتی جریدے کا اعتراف

    سی پیک منصوبہ دونوں ممالک کی دوستی کامنہ بولتا ثبوت ہے، بھارتی جریدے کا اعتراف

    نئی دہلی : بھارتی جریدے اکنامسٹ نے بھی اعتراف کرلیا کہ چینی سر مایہ کاری پاکستان کیلئے سود مند ہے اورسی پیک منصوبہ دونوں ممالک کی دوستی کامنہ بولتا ثبوت ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بھارت جریدے اکنامسٹ کا کہنا ہے کہ چین کی پاکستان میں بڑے پیمانے پرسرمایہ کاری پاکستان کیلئے انتہائی سود مندہے ۔

    بھارتی جریدے کے مطابق ابتدائی طور پر پاک چین راہداری منصوبے کا حجم چھیالیس ارب ڈالر تھا، جو بڑھ کر باسٹھ ارب ڈالر تک جاسکتا ہے، سب سے زیادہ توجہ توانائی منصوبوں اورگوادر پورٹ پردی گئی ہے۔

    منصوبہ بندی کمیشن کے نائب چیئرمین سرتاج عزیزکا کہنا ہے کہ چینی کمپنیاں پاکستان میں تیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر چکی ہیں، ابتدائی منصوبے سال دوہزار اٹھارہ تک مکمل ہوجائیں گے، سی پیک کے انرجی پیکج کے تحت پاکستان کی بجلی پیداوارمیں سترہ ہزارمیگاواٹ کا اضافہ ہوگا۔

    اس سے قبل جااپانی جریدے نکئی ایشین ریویو کا کہنا تھا کہ سی پیک پاکستانی معشیت کیلئے سب سے اہم ہے، چینی سرمایہ کاری پاکستانی معیشت کی شرح  نمومیں اضافے کا  باعث بنےگی۔


    مزید پڑھیں :  سی پیک: بیرونی سرمایہ کاری میں 162 فیصد اضافہ


    یاد رہے چین اور پاکستان کے مشترکہ تعاون سے سی پیک معاہدہ شروع کیا گیا ہے، جس کے تحت گوادر میں بندر گاہ اور اقتصادی راہداری کے منصوبے شامل ہیں، معاشی ماہرین نے منصوبہ شروع ہونے سے قبل ہی اس منصوبے کو پاکستان کے حق میں قرار دیا تھا۔

    ماہر ین کے مطابق سی پیک کی تکمیل سے پاک چین اقتصادی رابطوں اور باہمی تجارت میں مزید استحکام آئے گا، جس سے قومی برآمدات کے فروغ میں مدد ملے گی اور اقتصادی راہداری منصوبے سے چین کے علاوہ خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ بھی اقتصادی رابطوں میں اضافہ سے قومی معیشت کی ترقی میں مدد ملے گی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔