Tag: Effects

  • ہوائی جہاز میں سفر کے دوران ہمارے جسم کو کیا مسائل ہوسکتے ہیں؟

    ہوائی جہاز میں سفر کے دوران ہمارے جسم کو کیا مسائل ہوسکتے ہیں؟

    آج دنیا بھر میں شہری ہوا بازی یا سول ایوی ایشن کا دن منایا جارہا ہے، فضائی سفر ہماری زندگیوں کا حصہ بن چکا ہے لیکن بہت کم لوگ واقف ہیں کہ فضائی سفر کے دوران ہمارے جسم میں کیا تبدیلیاں آتی ہیں۔

    زمینی سفر کے مقابلے میں فضائی سفر کے دوران پیش آنے والی جسمانی تبدیلیاں کچھ مختلف ہوتی ہیں۔ آئیں ان کیفیات اور ان کے پیچھے چھپی وجوہات کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

    جسم میں پانی کی کمی

    فضائی سفر کے دوران ہمارا جسم ڈی ہائیڈریشن کا شکار ہوجاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق 3 گھنٹے کی فلائٹ کے دوران ہمارے جسم سے ڈیڑھ لیٹر پانی خارج ہوجاتا ہے۔

    جسم کی سوجن

    فضائی سفر کے دوران ہمارا جسم سوج جاتا ہے، ہوا کے دباؤ کی وجہ سے ہمارے جسم کی گیس میں اضافہ ہوجاتا ہے جس سے جسم سوجن اور معدے کے درد میں مبتلا ہوجاتا ہے۔

    آکسیجن کی کمی

    ہوائی جہاز کے کیبن میں ہوا کا دباؤ عام دباؤ سے 75 فیصد بڑھ جاتا ہے جس کی وجہ سے آپ کو سر درد اور آکسیجن کی کمی کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    جراثیموں کا حملہ

    ہوائی جہاز میں کھلی فضا کا کوئی گزر نہیں ہوتا اور کئی گھنٹے تک ایک ہی آکسیجن طیارے میں گردش کرتی رہتی ہے یوں یہ جراثیموں کی افزائش کے لیے نہایت موزوں بن جاتی ہے۔

    فضائی سفر کے دوران جراثیموں کی وجہ سے آپ کے نزلہ زکام میں مبتلا ہونے کا امکان 100 فیصد بڑھ جاتا ہے۔

    حس ذائقہ اور سماعت متاثر

    ہوائی جہاز کے سفر کے دوران آپ کے ذائقہ محسوس کرنے والے خلیات یعنی ٹیسٹ بڈز سن ہوجاتے ہیں جس سے آپ کسی بھی کھانے کا ذائقہ درست طور پر محسوس نہیں کرپاتے۔

    علاوہ ازیں کئی گھنٹے طیارے اور ہوا کا شور سننے سے جزوی طور پر آپ کی سماعت بھی متاثر ہوتی ہے۔

    تابکار شعاعیں

    فضائی سفر کے دوران آپ تابکار شعاعوں کی زد میں بھی ہوتے ہیں، 7 گھنٹے کی فلائٹ میں ایکس رے جتنی تابکار شعاعیں آپ کے جسم کو چھوتی ہیں۔

    ٹانگیں سن ہوجانا

    فضائی سفر کے دوران مستقل بیٹھے رہنے سے خون کی گردش متاثر ہوتی ہے جس سے ٹانگیں سن اور تکلیف کا شکار ہوجاتی ہیں۔

    اس سے نجات کا حل یہ ہے کہ موقع ملنے پر ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت کریں اور مائع اشیا کا زیادہ استعمال کریں۔

    فضائی سفر کے دوران جسم میں پیدا ہونے والی تمام تبدیلیاں اور تکالیف عارضی اور کچھ وقت کے لیے ہوتی ہیں لہٰذا تشویش میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں۔

    سفر کے بعد آرام کرنے اور کچھ وقت گزرنے کے بعد جسم خود بخود معمول کی حالت پر آجاتا ہے۔

  • نیند پوری کریں ورنہ آپ خود غرض بن سکتے ہیں

    نیند پوری کریں ورنہ آپ خود غرض بن سکتے ہیں

    نیند کی کمی ویسے تو جسمانی اور ذہنی مسائل پیدا کرسکتی ہے، لیکن حال ہی میں ایک تحقیق سے علم ہوا کہ یہ ہماری جذباتی اور سماجی زندگی پر بھی بدترین اثرات مرتب کرتی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق ایک تازہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ نیند کی کمی جہاں ذہنی و جسمانی مسائل کا سبب بنتی ہے، وہیں یہ انسان کے رویے اور خصوصی طور پر دوسروں کی مدد کرنے یا دوسروں کی تکلیف کو محسوس کرنے جیسے جذبات کو بھی متاثر کرتی ہے۔

    سائنسی جریدے پلوس بائیولوجی میں شائع تحقیق کے مطابق پرسکون اور معیاری نیند کا تعلق نہ صرف انسانی جسمانی و ذہنی صحت سے ہے بلکہ اس کے اثرات سماجی زندگی پر بھی پڑتے ہیں۔

    ماہرین نے نیند اور بے حسی کے درمیان تعلق کو جانچنے کے لیے تین مختلف تحقیقات کا جائزہ لینے سمیت ایک تحقیق کے دوران لوگوں کے دماغ کے ایم آر آئی اسکین بھی کیے گئے۔

    ماہرین نے ایک تحقیق کے دوران 2001 سے 2016 کے درمیان امریکی ریاستوں میں دیے جانے والے عطیات کے ڈیٹا کا جائزہ لیا، جس میں انہوں نے ان افراد کی ذاتی معلومات کو بھی دیکھا، جنہوں نے عطیات دیے تھے۔

    دوسری تحقیق کے دوران ماہرین نے رضا کاروں کو دو مختلف گروپس میں تقسیم کرکے ان کے دماغ کے ایم آر آئی اسکین کیے۔

    ماہرین نے ایک گروپ میں 8 گھنٹے تک نیند کرنے والے افراد جبکہ دوسرے گروپ میں نیند کی کمی کے شکار رضا کاروں کو شامل کیا اور دیکھا کہ جن افراد کی ایک گھنٹے کی بھی نیند متاثر ہوئی ہے، ان کے دماغ کے وہ مخصوص حصے جو انسان کو حساس اور دوسروں کی مدد کرنے پر آمادہ کرتے ہیں وہ ان افراد کے مقابلے غیر متحرک ہوگئے تھے، جنہوں نے مکمل نیند کی۔

    اسی طرح ماہرین نے تیسری تحقیق کے دوران ایسے 100 افراد کے ڈیٹا کا جائزہ لیا، جو تین سے چار راتیں جاگنے کے بعد کچھ ہی گھنٹوں کی بہتر نیند کرتے تھے جبکہ اس میں سے بعض لوگ ایسے بھی تھے جو یومیہ کئی گھنٹوں کی نیند کرتے تھے مگر ان کی نیند پرسکون نہیں ہوتی تھی۔

    اسی تحقیق کے دوران ماہرین نے دیکھا کہ زیادہ دیر تک بے سکون نیند سے بہتر کم وقت کی پرسکون نیند ہوتی ہے جو انسان کے دماغ کے مخصوص حصوں کو مکمل طور پر متحرک رکھتی ہے۔

    ماہرین نے تینوں تحقیقات کے ڈیٹا کا جائزہ لینے کے بعد نتائج اخذ کیے کہ مجموعی طور نیند کی کمی انسان کو بے حس اور خود غرض بھی بناتی ہے اور وہ سماجی مسائل اور زندگی کو کم اہم سجھنے لگتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں نیند کی کمی عالمی وبا کی صورت اختیار کر چکی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمیں دنیا بھر میں سماجی مسائل اور کشیدگی دیکھنے کو ملتی ہے۔

  • کھارے پانی سے خراب ہونے والے بالوں کی حفاظت کیسے کی جائے؟

    کھارے پانی سے خراب ہونے والے بالوں کی حفاظت کیسے کی جائے؟

    پانی کی قلت کی وجہ سے ملک کی بڑی آبادی کھارا پانی استعمال کرنے پر مجبور ہے، لیکن یہ کھارا پانی چیزوں کو بہت نقصان پہنچاتا ہے۔

    اس کی وجہ سے گھریلو اشیا زنگ اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتی ہیں۔

    اگر اس پانی کو نہانے کے لیے استعمال کیا جارہا ہو تو یہ جلد اور بالوں کے لیے بھی بے حد نقصان دہ ہے۔

    کھارے پانی میں نمکیات کی شرح زیادہ ہوتی ہے اور یہ پانی ایسے ٹھوس نمکیات سے بھرپور ہوتا ہے جو گھل نہیں سکتے، اسی وجہ سے کھارے پانی سے نہانے سے جسم پر خارش اور خشکی پیدا ہوتی ہے اور بال بھی روکھے اور بے جان ہو کر جھڑنے لگتے ہیں۔

    یہ پانی اتنا زہریلا ہوتا ہے کہ اس سے مل کر اچھے سے اچھا شیمپو بھی اپنا اثر کھو دیتا ہے۔

    اس کے نقصانات کو کم سے کم کرنے کے لیے ایک طریقہ یہ ہے کہ کھارے پانی سے نہانے کے بعد صاف میٹھا پانی بالوں اور جسم پر بہا لیا جائے۔

    علاوہ ازیں ایک بڑا ٹکڑا پھٹکری لیں اور پانی سے بھری ہوئی بالٹی میں کچھ دیر اچھی طرح پھیریں، پھٹکری نمکیات کو پانی سے کاٹ دیتی ہے جس کے بعد وہ بالٹی کی نچلی سطح پر بیٹھ جاتے ہیں اور اوپر والا پانی صاف ہوجاتا ہے۔

    کھارے پانی سے خراب ہوئے بالوں کو ہفتے میں 2 بار بادام یا کھوپرے کے تیل سے مساج کریں اور انڈے اور دہی کا ماسک بھی لگائیں۔

  • کووڈ 19 سے دماغ کو سنگین نقصانات کا خدشہ

    کووڈ 19 سے دماغ کو سنگین نقصانات کا خدشہ

    کووڈ 19 پھیپھڑوں کو متاثر کرنے والی بیماری ہے تاہم یہ مرض دل، گردوں اور جگر کو بھی نقصان پہنچاتا ہے، اب حال ہی میں دماغ پر بھی اس کے سنگین اثرات کا انکشاف ہوا ہے۔

    امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق کے مطابق کووڈ 19 کے نتیجے میں اسپتال میں زیر علاج رہنے والے ایک فیصد مریضوں کو ممکنہ طور پر جان لیوا دماغی پیچیدگیوں کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    تھامس جیفرسن کی تحقیق میں بتایا گیا کہ ایسے مریضوں کو جان لیوا دماغی پیچیدگیوں بشمول فالج، جریان خون اور ورم کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    ماہرین نے کہا کہ کووڈ سے پھیپھڑوں کو ہونے والے نقصانات پر تو کافی کچھ معلوم ہوچکا ہے مگر ہم اس بیماری سے متاثر ہونے والے دیگر اعضا پر زیادہ بات نہیں کرتے۔

    انہوں نے کہا کہ ہماری تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ مرکزی اعصابی نظام کی پیچیدگیاں اس تباہ کن وبا کے سنگین کیسز اور اموات کی ایک بڑی وجہ ہے۔

    اس تحقیق میں لگ بھگ 42 ہزار ایسے مریضوں کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی تھی جو کووڈ 19 کے باعث امریکا یا مغربی یورپ کے مختلف اسپتالوں میں زیرعلاج رہے تھے، ان افراد کی اوسط عمر 66 سال تھی اور ان میں خواتین کے مقابلے میں مردوں کی تعداد دگنی تھی۔

    بیشتر مریض پہلے سے مختلف امراض جیسے امراض قلب، ذیابیطس یا ہائی بلڈ پریشر سے متاثر تھے۔

    ان میں سے جن افراد کے ایم آر آئی یا سی ٹی اسکین ہوئے، ان میں سے 442 مریضوں میں کووڈ 19 سے جڑی دماغی پیچیدگیوں کو دریافت کیا گیا۔

    نتائج سے عندیہ ملا کہ 1.2 فیصد مریضوں کو کووڈ کے باعث کسی ایک دماغی پیچیدگی کا سامنا ہوا ان میں فالج (6.2 فیصد)، برین ہیمرج (3.77 فیصد) اور دماغی ورم (0.47 فیصد) سب سے عام پیچیدگیاں تھیں۔

    ماہرین نے کہا کہ یہ بہت ضروری ہے کہ مرکزی اعصابی نظام کی تمام پیچیدگیوں کے مستند تفصیلات سامنے لائی جائیں۔

    مجموعی طور پر امریکا کے مقابلے میں یورپ میں مریضوں میں دماغی پیچیدگیوں کی شرح 3 گنا زیادہ تھی۔ تحقیق میں اس فرق کے عناصر کی وضاحت نہیں کی گئی مگر ماہرین نے بتایا کہ یورپ کے مقابلے میں امریکا میں کووڈ مریضوں میں فالج کی شرح زیادہ تھی۔

  • کرونا ویکسین کی افادیت کچھ ماہ میں کم ہوجاتی ہے

    کرونا ویکسین کی افادیت کچھ ماہ میں کم ہوجاتی ہے

    کووڈ 19 کی ویکسی نیشن اس بیماری سے تحفظ کے لیے نہایت ضروری ہے تاہم اب ایک تحقیق میں پتہ چلا ہے کہ ویکسی نیشن کے کچھ ماہ بعد اس کی افادیت میں کمی ہوجاتی ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق ایک نئی تحقیق میں پتہ چلا کہ کرونا وائرس کی قسم ڈیلٹا کے خلاف ہر عمر کے افراد میں ویکسین کی دوسری خوراک کے بعد بننے والی مدافعت چند ماہ میں گھٹ جاتی ہے۔

    طبی جریدے نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں شائع تحقیق میں اسرائیل میں 11 سے 31 جولائی کے دوران کووڈ 19 سے متاثر ہونے والے افراد کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی۔

    اسرائیل کے تمام شہریوں کی فائزر سے ویکسی نیشن جون 2021 سے مکمل ہوگئی تھی۔

    ماہرین نے دریافت کیا کہ 60 سال یا اس سے زائد عمر کے ایسے افراد جن کی ویکسی نیشن جنوری 2021 میں ہوئی تھی، ان میں کووڈ کا خطرہ مارچ میں ویکسی نیشن کرانے والے افراد کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔

    اسی طرح 2021 کے آغاز میں ویکسی نیشن کروانے والے افراد میں مارچ یا اپریل میں ویکسین استعمال کرنے والوں کے مقابلے میں بیماری کا خطرہ زیادہ دریافت ہوا۔

    اس سے قبل اکتوبر 2021 کے آغاز میں مختلف طبی تحقیقی رپورٹس میں بھی عندیہ دیا گیا تھا کہ فائزر / بائیو این ٹیک کی تیار کردہ کووڈ 19 ویکسین سے بیماری کے خلاف ملنے والے تحفظ کی شرح ویکسی نیشن مکمل ہونے کے 2 ماہ بعد گھٹنا شروع ہوجاتی ہے، تاہم بیماری کی سنگین شدت، اسپتال میں داخلے اور اموات کے خلاف ٹھوس تحفظ ملتا ہے۔

  • کووڈ 19 سے صحت یابی کے بعد بھی ایک اور خطرہ

    کووڈ 19 سے صحت یابی کے بعد بھی ایک اور خطرہ

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کووڈ 19 کے مرض سے صحت یابی کے بعد بھی طویل عرصے تک پھیپھڑوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے، پھیپھڑوں کو ہونے والا نقصان عام سی ٹی اسکینز اور کلینکل ٹیسٹوں میں نظر نہیں آتا۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق حال ہی میں برطانیہ میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ کرونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کے مریضوں کے پھیپھڑوں کو اسپتال سے ڈسچارج ہونے کے کم از کم 3 ماہ بعد بھی نقصان پہنچ رہا ہوتا ہے۔

    شیفیلڈ یونیورسٹی اور آکسفورڈ یونیورسٹی کی اس مشترکہ تحقیق میں بتایا گیا کہ صحت یابی کے بعد بھی کووڈ کے مریضوں کے پھیپھڑوں کو ہونے والا نقصان عام سی ٹی اسکینز اور کلینکل ٹیسٹوں میں نظر نہیں آتا۔

    ان مریضوں کو بس یہ بتایا جاتا ہے کہ پھیپھڑے معمول کے مطابق کام کررہے ہیں۔

    مزید ابتدائی تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ کووڈ کے ایسے مریض جن کو اسپتال میں داخل ہونا نہیں پڑا مگر سانس لینے میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، ان کے پھیپھڑوں کو بھی ایسا نقصان پہنچنے کا امکان ہوتا ہے، اگر اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

    طبی جریدے ریڈیولوجی میں شائع تحقیق میں ماہرین نے ہائپر پولرائزڈ شینون ایم آر آئی اسکین سے کووڈ کے کچھ مریضوں میں 3 ماہ سے زائد عرصے بعد بھی پھیپھڑوں میں منفی تبدیلیوں کو دریافت کیا گیا، کچھ کیسز میں اسپتال سے نکلنے کے 8 ماہ بعد بھی مریضوں کے پھیپھڑوں کو نقصان پہنچ رہا تھا۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ شی ایم آر آئی سے پھیپھڑوں کے ان حصوں کی نشاندہی ہوئی جہاں آکسیجن کے استعمال کی صلاحیت کووڈ کے اثرات سے متاثر ہوچکی تھی، حالانکہ سی ٹی اسکین میں سب کچھ ٹھیک نظر آتا رہا تھا۔

    انہوں نے بتایا کہ ہماری تیار کردہ امیجنگ ٹیکنالوجی دیگر کلینکل مراکز میں بھی متعارف کروائی جائے گی۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ کووڈ کے متعدد مریضوں کو اسپتال سے ڈسچارج ہونے کے کئی ماہ بعد بھی سانس لینے میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے حالانکہ سی ٹی اسکین میں پھیپھڑے معمول کے مطابق کام کرتے نظر آتے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ پھیپھڑوں کو ہونے والا یہ نقصان عام ٹیسٹوں سے دریافت نہیں ہوسکتا جبکہ اس سے دوران خون میں آکسیجن کے پہنچنے کا عمل متاثر ہوتا ہے۔

    محققین کے مطابق اگرچہ یہ ابتدائی نتائج ہیں مگر لانگ کووڈ کے شکار 70 فیصد مریضوں کے پھیپھڑوں کو بھی ممکنہ طور پر اسی طرح کا نقصان پہنچا ہوگا، مگر اس کی تصدیق کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ معلوم ہوسکے کہ یہ کتنا عام مسئلہ ہے اور حالت کب تک بہتر ہوسکتی ہے۔

  • دیر تک کام کرنے والے ہوشیار ہوجائیں

    دیر تک کام کرنے والے ہوشیار ہوجائیں

    کرونا وائرس کی وبا کے دوران گھر سے کام کرنا اور دیر تک کام کرنا معمول کا حصہ بن چکا ہے، تاہم ماہرین نے دیر تک کام کرنے والوں کو خبردار کیا ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ دیر تک کام کرنے کی وجہ سے دنیا میں ہر سال لاکھوں اموات ہوتی ہیں اور کرونا وائرس کے بعد جو معاشی صورتحال پیدا ہوئی ہے اس میں زیادہ دیر تک کام کرنے کے رجحان میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

    طویل اوقات کار کے زندگی پر پڑنے والے اثرات پر پہلی عالمی تحقیق میں ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ سنہ 2016 میں ایسے 7 لاکھ 45 ہزار افراد دل کے دورے اور فالج کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے گئے جن کا براہ راست تعلق بہت دیر تک کام کرنے سے ہے۔

    سنہ 2000 کے مقابلے میں یہ شرح تقریباً 30 فیصد زیادہ ہے۔ تحقیق کے مطابق دیر تک کام کرنے والے افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور اس وقت ایسے افراد عالمی آبادی کا تقریباً 9 فیصد ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت کے شعبہ ماحولیات، موسمیاتی تبدیلی و صحت کی ڈائریکٹر ماریا نیرا کا کہنا ہے کہ ہفتے میں 55 گھنٹے یا اس سے زیادہ کام کرنا صحت کے لیے سنگین خطرہ ہے۔

    ڈائریکٹر جنرل ٹیڈ روس کے مطابق کووِڈ 19 کی وبا نے کئی لوگوں کے کام کرنے کے انداز اور طریقے بدل دیے ہیں۔ اب کئی صنعتوں میں ٹیلی ورکنگ عام ہو چکی ہے اور گھر اور دفتر کا فرق مٹتا جا رہا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ کوئی بھی کام ایسا نہیں جو آپ کی صحت سے بڑھ کر ہو، اس لیے حکومتوں، اداروں اور کام کرنے والوں کو صحت کے تحفظ کے لیے کچھ حدیں مقرر کرنی چاہئیں۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ سنہ ‏2000 سے 2016 کے دوران زیادہ دیر تک کام کرنے والوں میں دل کے امراض کی وجہ سے مرنے والوں کی تعداد 42 فیصد اور فالج سے 19 فیصد تک بڑھی۔

    تحقیق کے مطابق ہفتے میں 55 گھنٹے یا اس سے بھی زیادہ کام کرنے سے فالج کے حملے کا خدشہ تقریباً 35 فیصد اور دل کے کسی مرض کے ہاتھوں مرنے کا خطرہ 17 فیصد ان افراد سے زیادہ ہوجاتا ہے جو مقررہ وقت میں کام کرتے ہیں۔

  • کرونا وائرس سے صحت یابی کے ایک سال بعد بھی جسمانی تکالیف کا سامنا

    کرونا وائرس سے صحت یابی کے ایک سال بعد بھی جسمانی تکالیف کا سامنا

    کرونا وائرس کے جسم پر تباہ کن اثرات کی فہرست طویل ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ کووڈ 19 سے صحت یابی کے ایک سال بعد بھی کئی مریض بیمار ہیں۔

    برطانیہ میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کووڈ 19 کی سنگین شدت کے باعث زیر علاج مریضوں میں سے متعدد کو ایک سال بعد بھی منفی اثرات کا سامنا ہے۔

    ساؤتھ ہمپٹن یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ سے اسپتال میں زیر علاج رہنے والے ایک تہائی افراد کے پھیپھڑوں میں ایک سال بعد بھی منفی اثرات کے شواہد ملے ہیں۔

    خیال رہے کہ کووڈ 19 نے دنیا بھر میں کروڑوں افراد کو متاثر کیا ہے مگر اکثر مریض اس وقت اسپتال میں داخل ہوتے ہیں جب بیماری کے نتیجے میں پھیپھڑوں پر اثرات مرتب ہوتے ہیں، جس کے لیے کووڈ 19 نمونیا کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔

    کووڈ 19 نمونیا کے علاج کے حوالے سے کافی پیشرفت ہوچکی ہے مگر اب تک اس بارے میں زیادہ معلومات نہیں مل سکیں کہ مریضوں کی مکمل صحت یابی میں کتنا عرصہ لگ سکتا ہے اور پھیپھڑوں کے اندر کیا تبدیلیاں آتی ہیں۔

    طبی جریدے دی لانسیٹ ریسیپٹری میڈیسین میں شائع تحقیق کے دوران ماہرین نے چین کے شہر ووہان کے ماہرین کے ساتھ مل کر سنگین کووڈ 19 نمونیا کے مریضوں کا جائزہ لیتے ہوئے دیکھا کہ ایک سال بعد ان کی حالت کیسی ہے۔

    اس مقصد کے لیے 83 مریضوں کو تحقیق کا حصہ بنایا گیا جو کووڈ 19 نمونیا کی سنگین شدت کا شکار ہو کر اسپتال میں زیر علاج رہے تھے، ان مریضوں کا 3، 6، 9 اور 12 ماہ تک جائزہ لیا گیا یعنی ہر 3 ماہ بعد ان کا معائنہ کیا گیا۔

    ہر بار معائنے کے دوران طبی تجزیے کے ساتھ ساتھ پھیپھڑوں کے افعال کی جانچ پڑتال کی گئی، جس کے لیے سی ٹی اسکین سے پھیپھڑوں کی تصویر لی گئی جبکہ ایک چہل قدمی ٹیسٹ بھی لیا گیا۔

    ایک سال بعد اکثر مریض بظاہر مکمل طور پر صحتیاب ہوگئے تاہم 5 فیصد افراد تاحال سانس لینے میں مشکلات کا سامنا کر رہے تھے۔

    ایک تہائی مریضوں کے پھیپھڑوں کے افعال بدستور معمول کی سطح پر نہیں آسکے تھے، بالخصوص پھیپھڑوں سے خون میں آکسیجن کو منتقل کرنے کی صلاحیت زیادہ متاثر نظر آئی۔

    ایک چوتھائی مریضوں کے سی ٹی اسکینز میں دریافت کیا گیا کہ ان کے پھیپھڑوں کے کچھ چھوٹے حصوں میں تبدیلیاں آرہی تھیں اور یہ ان افراد میں عام تھا، جن کے پھیپھڑوں میں اسپتال میں زیر علاج رہنے کے دوران سنگین تبدیلیاں دریافت ہوئی تھیں۔

    ماہرین نے بتایا کہ کووڈ 19 نمونیا کی سنگین شدت کے شکار مریضوں کی اکثریت بظاہر مکمل طور پر صحت یاب ہوجاتی ہے، تاہم کچھ مریضوں کو اس کے لیے کئی ماہ لگ جاتے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ خواتین کے پھیپھڑوں کے افعال متاثر ہونے کی شرح مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے اور اس حوالے سے جاننے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہم ابھی بھی نہیں جانتے کہ 12 ماہ کے بعد مریضوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے اور اسی لیے تحقیق کو جاری رکھنا ضروری ہے۔

  • فضائی آلودگی کا ایک اور خطرناک نقصان

    فضائی آلودگی کا ایک اور خطرناک نقصان

    فضائی آلودگی جہاں ایک طرف تو انسانی جسم اور صحت کے لیے بے شمار نقصانات کھڑے کرسکتی ہے وہیں کئی بار تحقیق میں اس بات کو ثابت کیا جاچکا ہے کہ یہ دماغی صحت کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔

    حال ہی میں امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ محض چند ہفتے کی فضائی آلودگی ہھی دماغی کارکردگی کو متاثر کرسکتی ہے تاہم تحقیق کے مطابق منفی اثرات کی شدت کو اسپرین جیسی ورم کش ادویات سے کم کیا جاسکتا ہے۔

    یہ پہلی تحقیق ہے جس میں مختصر المدت فضائی آلودگی اور ورم کش ادویات کے استعمال کے اثرات کا جائزہ لیا گیا۔

    طبی جریدے جرنل نیچر ایجنگ میں شائع تحقیق میں مختلف ایونٹس جیسے جنگلات میں آتشزدگی، اسموگ، سگریٹ کے دھویں، کوئلے پر کھانا پکانے سے اٹھنے والے دھویں اور ٹریفک جام میں پھنسنے سے فضائی آلودگی کے اثرات کا جائزہ لیا گیا۔

    ماہرین نے بوسٹن سے تعلق رکھنے والے 954 معمر افراد کی دماغی کارکردگی اور ہوا میں موجود ننھے ذرات پی ایم 2.5 اور سیاہ کاربن جیسی آلودگی کے اثرات کا موازنہ کیا۔ اس کے علاوہ تحقیق میں ورم کش ادویات کے استعمال سے مرتب اثرات کا تجزیہ بھی کیا گیا۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ پی ایم 2.5 کی اوسط سطح میں اضافہ 28 دن تک برقرار رہنے سے ذہنی آزمائش کے ٹیسٹوں میں رضا کاروں کے اسکور کم ہوئے۔ تاہم جو افراد ورم کش ادویات استعمال کر رہے تھے ان میں فضائی آلودگی سے دماغی کارکردگی پر مرتب ہونے والے اثرات کی شرح دیگر سے کم تھی۔

    ماہرین نے خیال ظاہر کیا کہ اسپرین کا استعمال اعصابی ورم کو معتدل رکھتا ہے یا دماغ کی جانب خون کے بہاؤ میں تبدیلیاں لاتا ہے جس سے فضائی آلودگی کے منفی اثرات کا کم سامنا ہوتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ مختصرمدت کے لیے فضائی آلودگی بھی صحت پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے تاہم اسپرین یا دیگر ورم کش ادویات کے استعمال سے ان کی شدت کو کم کیا جاسکتا ہے۔

  • کووڈ 19 سے معمولی بیمار افراد کے لیے بری خبر

    کووڈ 19 سے معمولی بیمار افراد کے لیے بری خبر

    کرونا وائرس سے صحت یابی کے بعد اس کی علامات لمبے عرصے تک مریضوں کو متاثر کرسکتی ہیں، اب حال ہی میں اس حوالے سے ایک اور تحقیق سامنے آئی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق سوئیڈن میں ہونے والی ایک تحقیق سے علم ہوا کہ کرونا وائرس سے معمولی حد تک بیمار ہونے والے ہر 10 میں سے ایک مریض کو صحت یابی کے بعد طویل المعیاد بنیادوں پر کم از کم ایک معتدل یا سنگین علامت کا سامنا ہوتا ہے۔

    کیرولینسکا انسٹیٹوٹ اور ڈینڈرئیڈ ہاسپٹل کی تحقیق میں بتایا گیا کہ ان طویل المعیاد علامات میں سونگھنے اور چکھنے کی حسوں سے محرومی اور تھکاوٹ سب سے عام ہے۔

    اس تحقیق پر سنہ 2020 کے وسط سے کام ہو رہا تھا جس کا مقصد کووڈ 19 کو شکست دینے کے بعد بیماری کے خلاف مدافعت کی مدت کو جاننا تھا۔ تحقیق کے پہلے مرحلے میں ڈینڈرئیڈ ہاسپٹل کے 2149 ملازمین کے خون کے نمونے اکٹھے کیے گئے جن میں سے 19 فیصد میں کرونا وائرس سے بننے والی اینٹی باڈیز کو دریافت کیا گیا۔

    محققین کی جانب سے ہر 4 ماہ بعد خون کے نمونے اکٹھے کیے گئے اور رضا کاروں سے طویل المعیاد علامات اور زندگی کے معیار پر اثرات سے متعلق سوالات کے جوابات حاصل کیے گئے۔

    جنوری 2021 میں تیسرے فالو اپ کے دوران تحقیقی ٹیم نے کم از کم 8 ماہ قبل کووڈ 19 کو شکست دینے والے افراد میں طویل المعیاد علامات کی موجودگی اور سماجی، گھریلو اور پیشہ وارانہ زندگی پر مرتب اثرات کا تجزیہ کیا۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ کووڈ 19 سے معمولی حد تک بیمار ہوکر اسے شکست دینے والے 26 فیصد افراد کو کم از کم ایک معتدل سے سنگین علامت کا سامنا ہوا جو 2 ماہ سے زیادہ عرصے تک برقرار رہی۔

    11 فیصد افراد کو سماجی، گھریلو یا پیشہ وارانہ زندگی میں کم از کم ایک علامت کی وجہ سے منفی اثرات کا تجربہ ہوا۔ سونگھنے اور چکھنے کی حسوں سے محرومی، تھکاوٹ اور نظام تنفس کے مسائل سب سے عام علامات تھیں۔

    محققین نے بتایا کہ ہم کووڈ 19 سے معمولی بیمار ہونے والے افراد میں طویل المعیاد علامات کی موجودگی پر کام کر رہے تھے اور تحقیق میں شامل افراد جوان اور صحت مند گروپ کا حصہ تھے جو ملازمتیں کررہے ہیں۔

    انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے دریافت کیا کہ سب سے نمایاں طویل المعیاد علامات میں سونگھنے اور چکھنے کی حسوں سے محرومی، تھکاوٹ اور نظام تنفس کے مسائل تھے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہم نے دماغی علامات جیسے ذہنی دھند، یادداشت اور توجہ مرکوز کرنے کے مسائل، مسلز اور جوڑوں میں تکلیف، دل کی دھڑکن میں بے ترتیبی یا بخار کی شرح میں کوئی اضافہ دریافت نہیں کیا۔