Tag: election 2024

  • خدا کرے یہ حکومت اور پارلیمان نہ چلے، مولانا فضل الرحمان

    خدا کرے یہ حکومت اور پارلیمان نہ چلے، مولانا فضل الرحمان

    جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ خدا کرے یہ حکومت اور پارلیمان نہ چلے، عالمی برادری کو بھی الیکشن پر تحفظات ہیں۔

    اے آر وائی کے پروگرام خبر میں گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ نتائج ایسے ہی بنانے ہیں تو وہ لوگ ہی مرضی کے لوگ اسمبلی میں بلائیں۔ ہم تو کہیں گے کہ خدا کرے یہ حکومت اور پارلیمان نہ چلے۔ عوام کا جو تقاضہ ہے اس کے مطابق ہی جمہوریت چلنی چاہیے

    انھوں نے کہا کہ یہ کیاطریقہ ہے کہ لوگوں سے پیسے لے کرمرضی کے لوگ لے آئیں۔ عالمی برادری کہہ رہی ہے کہ الیکشن پر ہمیں تحفظات ہیں۔ مجھے آئی ایم ایف سے کوئی سروکار نہیں ہے۔

    مولانافضل الرحمان نے کہا کہ الیکشن کے دوران میں پُرسکون رہا، کسی قسم کا کوئی بیان نہیں دیا۔ انتظار کیا مجلس عاملہ کی رائے کے مطابق ہی بیان جاری کرونگا۔ آج جو بیان جاری کیا گیا ہے مجلس عاملہ کی ہدایت پر جاری کیا ہے

    سربراہ جے یو آئی (ف) نے کہا کہ کے پی میں جو کچھ سیٹیں رہ گئی ہیں وہاں بھی پی ٹی آئی والے احتجاج کر رہے ہیں۔

    پی ٹی آئی کو کے پی، ن لیگ کو پنجاب اور پی پی کو سندھ دے دیں۔ الیکشن کیوں کراتے ہیں، پیسہ کیوں ضائع کرتے ہیں پہلے ہی طے کرلیں۔ کے پی میں جہاں تک جاسکے ہیں الیکشن مہم چلانےکی کوشش کی۔

    مولانافضل الرحمان نے کہا کہ چوہدری شجاعت کے گھر بیٹھک میں ہمیں دعوت نہیں دی گئی۔ ہم سے کسی نے رابطہ نہیں کیا، ہمیں الیکشن پرتحفظات ہیں۔

    انھوں نے کہا کہ جے یو آئی جنرل کونسل نے استعفوں کا کہا تو وہ بھی دے دیں گے۔ میں کوئی زیرک سیاستدان نہیں، میرے پاس زرداری جیسا پیسہ نہیں۔ میں کوئی امریکی ایجنٹ یا غلام نہیں ہوں.

    مولانافضل الرحمان نے کہا کہ جس پارٹی سے توقع تھی وہ ساتھ دے گی انھوں نے حقارت سے دیکھا۔ الیکشن کے بعد اب وہ عزت دینےکی بات کرتے ہیں.

    انھوں نے کہا کہ پارلیمان میں مضبوط پارلیمانی کردار ادا کریں گے۔ میں نےکبھی لاڈلےکالفظ استعمال نہیں کیا۔

  • کیا انتخابات معاشی، سیاسی مسائل کے شکار پاکستان کو مستحکم کرنے میں مدد گار ثابت ہوں گے؟

    کیا انتخابات معاشی، سیاسی مسائل کے شکار پاکستان کو مستحکم کرنے میں مدد گار ثابت ہوں گے؟

    پاکستان میں 8 فروری کو ہونے والے انتخابات بالغ رائے دہی کی بنیاد پر بارہویں انتخابات تھے، کیا یہ انتخابات معاشی اور سیاسی مسائل کے شکار پاکستان کو مستحکم کرنے میں مدد گار ثابت ہوں گے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب کسی دانشور، سیاست دان، ماہر معاشیات سمیت کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔

    پاکستان گزشتہ کئی سالوں سے مسلسل معاشی و سیاسی و مسائل کا شکار رہا ہے اور ملک کا بیرونی قرضہ 27 بلین ڈالرز اور مقامی قرضہ 60 ہزار ارب روپے تک جا پہنچا ہے۔ ان حالات میں 8 فروری کو ہونے والے انتخابات کیا اس ملک کی خوش حالی اور ترقی میں معاون ثابت ہو سکیں گے؟ اس سوال کا جواب شاید نیوٹن کے پاس بھی نہیں ہوگا!

    پاکستان میں جمہوری عمل کے نام پر انتخابات تو بہ ظاہر وقتاً فوقتاً ہوتے رہے ہیں، مگر متنازع۔ دوسری جانب ملک غلط پالیسیوں اور دیگر اَن دیکھے عوامل کی بنا پر کئی دہائیوں سے ان گنت مسائل کی دلدل میں مسلسل دھنستا جا رہا ہے، اس صورت حال میں ایک عام شہری انتخابات کے عمل سے کیسے کسی خوش گوار تبدیلی کی توقع رکھ سکتا ہے؟

    عوام کا ایک بہت بڑا طبقہ اور معاشی و سیاسی ماہرین اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ انتخابات حکومتی چہروں کی تبدیلی تو ہو سکتی ہے مگر اس سے مسائل کے حل میں کوئی جامع تبدیلی کی کوئی توقع کرنا بظاہر غیر فطری ہوگا، مگر اس کے ساتھ دنیا میں بہ ظاہر جمہوریت کے علاوہ ایسا کوئی نظام معرض وجود میں نہیں آیا، جو جمہوریت کا نعم للبدل ثابت ہو سکے۔

    عوام انتخابات کے ذریعے جمہوری نظام، منتخب نمائندوں اور حکومت کو جواب دہ ٹھہرانے کا حق استعمال کرتے ہیں، مگر کیا وجہ ہے کہ پاکستان اپنی عمر کے 76 سال گزارنے کے باوجود بھی نہ صرف لاتعداد سیاسی مسائل کا شکار ہے، بلکہ اس کے مسائل میں مسلسل اضافہ ہی دیکھنے میں آ رہا ہے؟ ماہرین اس کی سب سے بڑی وجہ پالسیوں کا عدم تسلسل اور حکومت چلانے کے نت نئے نظام قرار دیتے ہیں۔ ہمارے پڑوس میں ممالک کے لوگوں کے حالات زندگی پاکستان سے مختلف نہیں، مگر وہاں ترقی کی واحد وجہ جمہوری اور کسی ایک نظام کا تسلسل ہے۔

    نوجوان طبقہ اس ملک کا تقریبآ 70 فی صد ہے، جو اَن گنت مسائل کی وجہ سے اپنے مستقبل سے مایوس نظر آتا ہے، پاکستان میں جاری سنگین معاشی مسائل سے سب سے زیادہ غریب اور مڈل کلاس کی روزمرہ زندگی متاثر ہوئی ہے، نہ صرف مڈل کلاس کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے، بلکہ شرح غربت میں بھی تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

    سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اپنے چیلنجوں پر قابو پانے اور خوش حال مستقبل کی طرف گامزن ہونے کے لیے نہ صرف شفاف انتخابات بلکہ تمام اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے ملک کے بہترین مفاد میں مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

  • الیکشن کمیشن گڑ بڑ والے حلقے میں الیکشن کالعدم قرار دے سکتا ہے، کنور دلشاد

    الیکشن کمیشن گڑ بڑ والے حلقے میں الیکشن کالعدم قرار دے سکتا ہے، کنور دلشاد

    الیکشن کمیشن کے سابق سیکریٹری کنور دلشاد نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن سیکشن 9 کے تحت گڑ بڑ والے حلقے میں الیکشن کالعدم قرار دے سکتا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق الیکشن کمیشن کے سابق سیکریٹری کنور دلشاد نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ الیکشن کمیشن سیکشن 9 کے تحت گڑ بڑ والے حلقے میں الیکشن کالعدم قرار دے سکتا ہے۔

    کنور دلشاد نے کہا کہ فارم 47 تمام امیدواروں کے سامنے تیار کیا جاتا ہے اور اس میں ووٹوں سے متعلق تمام معلومات درج کی جاتی ہیں، اگر فارم 47 جلد بازی میں تیار کیا گیا ہے تو آر او کے خلاف قانونی کارروائی  ہونی چاہیے۔

    سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کا یہ بھی کہنا تھا کہ انٹرنیٹ اور موبائل سروس بند ہونے سے الیکشن منیجمنٹ سسٹم میں خلل آیا۔

    واضح رہے کہ قومی اسمبلی کے غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار 93 کی تعداد کے ساتھ  سب سے بڑا گروپ ہیں۔ ن لیگ 75 سیٹوں کے ساتھ دوسری، پی پی 54 کے ساتھ تیسری جب کہ ایم کیو ایم قومی اسمبلی کی 17 نشستوں کے ساتھ چوتھی پوزیشن پر ہیں۔

    دوسری جانب انتخابی نتائج کے بعد مختلف سیاسی حلقوں کی جانب سے دھاندلی کی آوازیں اٹھائی جا رہی ہیں اور ہارنے والی جماعتوں کی جانب سے احتجاج بھی کیا جا رہا ہے۔

    کراچی: پی ٹی آئی کیجانب سے حمایت یافتہ امیدواروں کی انتخابی نتائج کے خلاف درخواستیں دائر

    الیکشن کمیشن نتائج چیلنج کیے جانے کے بعد قومی اسمبلی کے 10 اور صوبائی اسمبلیوں کے 16 حلقوں پر متعلقہ آر اوز کو حتمی نتائج جاری نہ کرنے کے احکامات پہلے ہی جاری کر چکا ہے۔

  • کراچی: پی ٹی آئی حمایت یافتہ امیدواروں کیجانب سے انتخابی نتائج کے خلاف درخواستیں فوری سماعت کیلیے منظور

    کراچی: پی ٹی آئی حمایت یافتہ امیدواروں کیجانب سے انتخابی نتائج کے خلاف درخواستیں فوری سماعت کیلیے منظور

    سندھ ہائیکورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کی جانب سے انتخابی نتائج چیلنج کی درخواستیں فوری سماعت کیلیے منظور کر لی ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے کراچی کے مختلف 19 حلقوں سے کامیاب امیدواروں کی کامیابی کو عدالتوں میں چیلنج کر دیا ہے اور انتخابی نتائج کے خلاف جبران ناصر ایڈووکیٹ کی سربراہی میں لائرز گروپ سیو گارڈ کراچی نے سندھ ہائیکورٹ میں درخواستیں دائر کر دی ہیں۔

    جن امیدواروں کی جانب سے درخواستیں دائر کی گئی ہیں ان میں آفتاب جہانگیر، طارق حسین، رابستان خان، عطا اللہ، صالح زادہ، خرم شیر زمان، رمضان گھانچی، مراد شیخ، دوا خان، غلام قادر، فہیم خان اور سید فیصل علی شامل ہیں۔

    ان کے علاوہ شکیل احمد، بشیر سودھڑ، عبدالقدیر، ایم یاسر اور شفیق شاہ نے بھی اپنے حلقوں سے مخالف امیدواروں کی کامیابی کو چیلنج کیا ہے۔

    دوسری جانب سندھ ہائیکورٹ نے انتخابی نتائج کیخلاف تمام درخواستوں کی فوری  سماعت کی استدعا منظور کر لی ہے۔

    ایم کیو ایم کے فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال کی کامیابی عدالت میں چیلنج

    ان درخواستوں میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ فارم 45 کے مطابق درخواست گزاروں نے کامیاب قرار دیے گئے امیدواروں سے زیادہ ووٹ حاصل کیے۔ عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ کامیاب قرار دیے گئے امیدواروں کے نوٹیفکیشن معطل کیے جائیں۔

  • کیا علی محمد خان وزیراعظم کے امیدوار ہونگے؟ تجزیہ کاروں کا اہم انکشاف

    کیا علی محمد خان وزیراعظم کے امیدوار ہونگے؟ تجزیہ کاروں کا اہم انکشاف

    پی ٹی آئی کی طرف سے علی محمد خان وزیراعظم کے امیدوار ہونگے؟ اس حوالے سے تجزیہ کاروں نے اہم تفصیلات بتادیں۔

    تفصیلات کے مطابق اے آر وائی نیوز پر حالیہ عام انتخابات 2024 کے حوالے سے زبردست تجزیے جاری ہیں۔ اپنی گفتگو میں ایک تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ علی محمد خان کے حوالے سے میڈیا میں اور پی ٹی آئی کے اندر یہ بات ہورہی ہے کہ موقع ملا تو وہ وزیراعظم کے امیدوار ہونگے۔

    تجزیہ کار نے کہا کہ اگر پی ٹی آئی علی محمد خان کو وزارت عظمیٰ کا امیدوار بناتی ہے تو ان کی ہار یا جیت بعد کی بات ہے تاہم قائد حزب اختلاف بھی کوئی اسی طرح کا امیدوار ہونا چاہیے۔

    انھوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے اگر کوئی قائد حزب اختلاف بنتا ہے تو وہ علی محمد خان ہی بننے چاہیئں۔

    واضح رہے کہ ہحکومت سازی کا مرحلہ شروع ہوچکا ہے اور پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی ایک دوسرے سے رابطے میں ہیں۔

    دیکھنا یہ ہے کہ مرکز میں کون سی پارٹی حکومت بنائے گی یا پھر سے مخلوط حکومت بنتی ہے۔یہ بھی قابل ذکر ہے کہ اس بار قومی و صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں بڑے بڑے نام ہار گئے ہیں۔

  • انتخابات میں قومی لیڈروں کو ہروایا گیا، عبدالغفور حیدری

    انتخابات میں قومی لیڈروں کو ہروایا گیا، عبدالغفور حیدری

    سیکریٹری جنرل جے یو آئی سینیٹرعبدالغفور حیدری نے کہا ہے کہ 2024 کے انتخابات نے نئی تاریخ رقم کی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق عبدالغفورحیدری کا کہنا تھا کہ انتخابات میں قومی لیڈروں کو ہروایا گیا۔ ایسے لوگوں کو جتوایا گیا جن کا حلقے میں نام تک پتہ نہیں تھا۔ اس انتخابات میں نئی تاریخ رقم ہوئی۔

    انھوں نے کہا کہ الیکشن کے دن موبائل سروس کو بند کردیا گیا۔ الیکشن میں مرضی کے لوگوں کو کامیاب کرایا گیا۔

    سینیٹرمولاناعبدالغفورحیدری کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کیوں اتنا بےبس رہا۔ الیکشن کمیشن نے نئی روایتیں قائم کی ہیں۔

    مولانا عبدالغفور نے کہا کہ الیکشن کمیشن تلی ہوئی ہے کہ قوم کو منتخب حکومت نہیں دینی۔ ایسی حکومت دینی ہے جو شوپیس کا کردار ادا کرے۔

  • جماعت اسلامی کا شہر کے 8 بڑے مقامات پر کل دھرنے کا اعلان

    جماعت اسلامی کا شہر کے 8 بڑے مقامات پر کل دھرنے کا اعلان

    کراچی: انتخابات میں دھاندلی کے خلاف جماعت اسلامی نے شہر کے اہم مقامات پرکل دھرنا دینے کا اعلان کردیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان کا کہنا ہے کہ نتائج بازیاب کروانے کیلئے جدوجہد کریں گے۔ کراچی کے 8 بڑے مقامات پر کل دھرنے دیں گے۔

    حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ فارم 45 جمع کرلیں، ہرمحاذ پر مینڈیٹ کیلئے لڑیں گے۔ جن غباروں میں زبردستی ہوا بھری گئی وہ جلد پھٹنے والے ہیں.

    شہر قائد میں جماعت اسلامی کے امیر کا کہنا تھا کہ کراچی والوں نے جاگیرداروں اور انکے آلہ کاروں کو مسترد کردیا ہے.

    انھوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو اپنا فیصلہ واپس لینا ہوگا۔ کسی صورت مینڈیٹ چوری نہیں ہونے دیں گے۔

  • پی ٹی آئی کارکنوں کیخلاف مقدمہ درج

    پی ٹی آئی کارکنوں کیخلاف مقدمہ درج

    اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کیخلاف تھانہ ترنول میں مقدمہ درج کرلیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی کے کارکنوں کے خلاف پولنگ آفیسر کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ مقدمے کے متن میں مدعی کی جانب سے کہا گیا ہے کہ جب بھڈانہ کلان پولنگ اسٹیشن پر ڈیوٹی کے بعد نکلا تو پی ٹی آئی کارکنوں نے گھیر لیا۔

    متن میں کہا گیا کہ مشتعل افراد نے گاڑی کے چھت پر ڈنڈے اور مکے مارے۔ ملزم نے نقدی چھینی، گاڑی جلانے اور جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں

    مقدمے کے متن میں مزید کہا گیا ہے کہ آدھے گھنٹے بعد ہجوم سے جان چھڑائی، ملزمان کے خلاف کارروائی کی جائے۔

  • آزاد امیدواروں کو اپنی من پسند سیاسی جماعت میں جانے کیلئے کتنا وقت ملے گا؟

    آزاد امیدواروں کو اپنی من پسند سیاسی جماعت میں جانے کیلئے کتنا وقت ملے گا؟

    آزاد امیدواروں اس بار الیکشن میں کافی بڑی تعداد میں سیٹیں ملی ہیں۔ امیدوار کو سیاسی جماعت میں شمولیت کیلئے کتنا وقت ملے گا، تفصیلات سامنے آگئیں۔

    تفصیلات کے مطابق آزاد امیدوار کامیابی کے نوٹیفکیشن کے بعد3 روز میں کسی سیاسی جماعت میں شامل ہوسکتے ہیں۔ آرٹیکل 51 کی ذیلی شق 6 کے تحت 3 روز میں کسی سیاسی جماعت شمولیت اختیار کی جاسکتی ہے۔

    تین روز میں اگر آزاد امیدوار کسی جماعت کا حصہ نہ بنے تو پھر یہ ارکان ایوان میں آزاد حیثیت سے بیٹھیں گے۔

    واضح رہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار قومی اسمبلی میں آزاد امیدواروں کو اکثریت مل گئی ہے، پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار 100 نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

    اس وقت سیٹوں کی تعداد کے لحاظ سے مسلم لیگ ن دوسرے اور پیپلزپارٹی تیسرے نمبر پر ہے۔ قومی اسمبلی کے265 نشستوں میں سے 253 کے نتائج الیکشن کمیشن نے جاری کردیے ہیں۔

    مسلم لیگ ن نے 71 نشستیں حاصل کی ہیں، پیپلزپارٹی 54 نشستیں اپنے نام کرچکی ہے۔ ایم کیوایم پاکستان 17، ق لیگ 3، جے یو آئی ف 3 اور استحکام پاکستان پارٹی 2 نشستیں حاصل کرسکی۔

    بلوچستان نیشنل پارٹی، مجلس وحدت المسلمین اور پی ایم ایل ضیا ایک ایک نشست جیت سکیں، کوئی بھی جماعت حکومت بنانے کے لیے سادہ اکثریت لینے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔

  • پی پی نے بےجا تنقید کی، شہباز کا شکوہ! وہ الیکشن کا حصہ تھا، زرداری کا جواب

    پی پی نے بےجا تنقید کی، شہباز کا شکوہ! وہ الیکشن کا حصہ تھا، زرداری کا جواب

    سابق صدر آصف علی زرداری اور سابق وزیراعظم میاں شہباز شریف میں گزشتہ رات ہونے والی ملاقات کا احوال سامنے آگیا۔

    تفصیلات کے مطابق دنوں رہنماؤں کی ملاقات نگراں وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی کی رہائش گاہ پر ہوئی۔ ملاقات سے قبل دونوں جماعتوں کے رہنما الیکشن مہم میں کے دوران ہونے والی تنقید پر شکوے کرتے بھی نظر آئے۔

    شہباز شریف نے آصف زرداری سے شکوہ کیا کہ پیپلز پارٹی کی قیادت نے بےجا تنقید کی جس پر آصف زرداری نے کہا کہ وہ الیکشن کاحصہ تھا اس کو ختم کیا جائے۔

    آصف علی زرداری نے کہا کہ میاں صاحب آپ بھی تو پیپلزپارٹی پر تنقید کرتے رہے۔ اب حکومت سازی کے لیے معاملات کو طے کیا جائے۔

    انھوں نے کہا کہ جمہوریت میں استحکام کےلیے مل کر فارمولا طے کرنا ہوگا۔ ہم اپنی جماعت سے مشاورت کرتے ہیں، آپ بھی کر لیں۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ شہبازشریف نے نوازشریف سے مشاورت کے لیے وقت مانگا ہے۔ دونوں جماعتیں مشاورت کے بعد بات چیت آگے بڑھائیں گی۔