Tag: election 2024

  • الیکشن 2024 پاکستان: ملک بھر میں بیلٹ پیپرز کی ترسیل آج مکمل کر لی جائے گی

    الیکشن 2024 پاکستان: ملک بھر میں بیلٹ پیپرز کی ترسیل آج مکمل کر لی جائے گی

    اسلام آباد: ذرائع کا کہنا ہے کہ 8 فروری 2024 کو ہونے والے کے عام انتخابات کیلئے بیلٹ پیپرز کی چھپائی کا کام مکمل کر لیا گیا ہے جبکہ ملک بھر میں بیلٹ پیپرز کی ترسیل آج مکمل کر لی جائے گی۔

    تفصیلات کے مطابق ملک بھر میں بیلٹ پیپرز کی ترسیل آج مکمل کر لی جائے گی، عام انتخابات کیلئے قومی و صوبائی کے 859 حلقوں کیلئے 26 کروڑ بیلٹ پیپرز کی چھپائی مکمل کی گئی۔

    ذرائع کے مطابق پرنٹنگ کارپوریشن آف پاکستان نے بیلٹ پیپرز کی چھپائی کا کام مکمل کر لیا، بیلٹ پیپرز اور انتخابی سامان کی ترسیل شروع کردی گئی، سامان کی ترسیل کیلئے پرنٹنگ کارپوریشن کے باہر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔

    پرنٹنگ کارپوریشن آف پاکستان نے چھپائی سے متعلق الیکشن کمیشن کو آگاہ کر دیا، الیکشن کمیشن کی منظوری کے بعد سامان متعلقہ ریٹرننگ افسران کو روانہ کیا جارہا ہے، پرنٹنگ کارپوریشن نے اسلام آباد، کے پی اور نارتھ ریجن کے بیلٹ پیپرز کیپرنٹنگ کی۔

  • پشاور پولیس نے امیدواروں کو سیکیورٹی کی فراہمی سے معذرت کرلی

    پشاور پولیس نے امیدواروں کو سیکیورٹی کی فراہمی سے معذرت کرلی

    ملک بھر میں ہونے والے عام انتخابات سے قبل پشاور پولیس نے سیاسی جماعتوں کے انتخابی امیدواروں کی جانب سے سیکورٹی فراہمی کی سے معذرت کرلی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پشاور پولیس نے سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کو سیکیورٹی فراہمی سے معذرت کرتے ہوئے امیدواروں کو پرائیویٹ رجسٹرڈ سیکیورٹی کمپنیز کے گارڈ لینے کا تحریری مشورہ دیدیا۔

    پشاور پولیس نے کہا کہ تمام امیدوار رجسٹرڈ سیکیورٹی کمپنز سے گارڈز لیکر سیکیورٹی یقینی بنائیں، تمام امیدواروں کی کارنر میٹنگز، جلسوں کو سیکیورٹی فراہم کی جائے گی۔

    پشاور پولیس نے مزید کہا کہ پولنگ اسٹیشنز پر تعیناتی کے باعث امیدواروں کو دینے کیلئے اضافی نفری نہیں، سیکیورٹی پلان کے ذریعے دستیاب وسائل کے تحت اقدامات کئے گئے ہیں۔

  • تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن ملتوی

    تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن ملتوی

    لاہور: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے 5 فروری کو ہونے والے انٹرا پارٹی الیکشن ملتوی کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

    ذرائع کے مطابق پارٹی ممبران نے عام انتخابات میں مصروفیت کے باعث انٹرا پارٹی الیکشن موخر کروانے کی درخواست کی۔

    ذرائع نے بتایا کہ پاکستان تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن عام انتخابات کے بعد ہوں گے۔

    واضح رہے کہ گزشتہ روز ہی پی ٹی آئی نے 5 فروری کو دوبارہ انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کا اعلان کیا تھا، پی ٹی آئی فیڈرل الیکشن کمشنر رؤف حسن کی جانب سے انٹراپارٹی انتخابات کا باضابطہ شیڈول بھی جاری کیا گیا تھا۔

  • تاریخی اہمیت کا حامل جامشورو: حلقہ NA-226 کے عوامی مسائل!

    تاریخی اہمیت کا حامل جامشورو: حلقہ NA-226 کے عوامی مسائل!

    ضلع جامشورو پچیس سو سال پرانی تاریخ کا حامل ہے جس کی قومی اسمبلی (نیشنل اسمبلی) کی ایک نشست ہے لیکن ملک بھر کی طرح حلقہ  NA-226 جو پہلے NA-233 کہلاتا تھا، بھی عوامی مسائل سے گھرا ہوا ہے، اس حلقے میں ووٹرز کا جھکاؤ ہمیشہ سے پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز (PPPP) کی طرف زیادہ دیکھا گیا ہے لیکن  عوامی مسائل پہلے سے زیادہ ہو چکے ہیں۔

    این اے 226 میں کل ووٹرز کی تعداد

    این اے 226 ضلع جامشورو کی کل آبادی 11 لاکھ  17 ہزار 308 ہے جس میں سے صرف 4 لاکھ 77 ہزار 60 افراد ہی الیکشن کمیشن سے رجسٹرڈ ہیں، اس حلقے میں مرد ووٹرز کی تعداد دو لاکھ 88 ہزار 34 ہے جبکہ خواتین ووٹرز 2 لاکھ 18 ہزار 228 ہیں۔

    ضلع جامشورو انتظامی لحاظ سے چار تحصیلوں (تعلقوں) میں تقسیم کیا گیا ہے جس میں تحصیل کوٹری ، تحصیل مانجھنڈ، تحیصل سیہون، تحصیل تھانہ بولا خان شامل ہیں۔

    2018 میں کامیاب ہونے والے امیدوار

    این اے 233، جو کہ آج کا حلقہ 226 ہے،  2018 کے الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے سکندر علی راھپوٹو منتخب ہوئے تھے  جنہو ں نے 1,33,492 ووٹ لیکر جی ایم سید کے پوتے سید جلال شاہ جن کا تعلق سندھ یونائٹیڈ پارٹی سے ہے شکست دی تھی۔

    سندھ یونائٹیڈ پارٹی کے جی ایم سید کے پوتے سید جلال شاہ صرف 4,198 ووٹ حاصل کرکے دوسرے نمبر پر رہے تھے۔

    2013 میں بھی اس حلقے سے پی پی نے میدان مارا

    2013 کے الیکشن میں بھی اس حلقے سے پیپلز پارٹی نے ہی میدان مارا تھا، اور پی پی کے عمران ظفر لغاری نے 1,08,110 ووٹ حاصل کیے تھے۔

    حلقے کے عوام کے مسائل

    این اے 226 کے عوام بھی کئی مسائل کا شکار ہیں، اس حلقے کے زیادہ تر مکین غربت و افلاس کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جو کہ پینے کا صاف پانی، بجلی، گیس اور دیگر بنیادی سہولیات تک سے محروم ہیں۔

    سندھ بھر کی طرح اس حلقے میں بھی ’بے نظیر انکم سپورٹ‘ پروگرام (BISP) کا سلسلہ جاری ہے لیکن برسوں سے اس حلقے میں حکومت کرنے والی پیپلز پارٹی کے نامزد امیدواروں نے آج تک کوئی ایسا نظام قائم نہیں کیا جس سے لوگوں کو مستقل مزاجی کے ساتھ روزگار مل سکے۔

    حلقہ 226 کے اہم مسائل میں سے ایک مسئلہ صحت کا بھی ہے، جہاں لاکھوں ووٹرز کی آبادی کے حامل اس ضلع میں دور دور تک جدید الات سے لیس سرکاری اسپتال موجود نہیں، یہاں کی عوام ایمرجنسی کی صورت میں تقریباً آدھے آدھے گھنٹے کا سفر طے کرکے اسپتال پہنچتی ہے دوسری جانب سڑکوں کا بھی کوئی اتنا اچھا حال نہیں جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے جبکہ جس کے ساتھ ساتھ سیوریج کا نظام  بھی درہم برہم ہے۔

    اس حلقے میں نوجوان نسل کے مستقبل کی بات کی جائے تو گورنمنٹ اسکولوں کی حالت بدتر ہے کئی اسکول بند جبکہ دیگر میں اساتذہ موجود ہی نہیں ہوتے، جامشورو میں تین جامعہ (Universities) ہیں جن میں، یونیورسٹی آف سندھ ، مہران یونیورسٹی اور لیاقت یونیورسٹی جامشورو شامل ہیں جبکہ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ جامشورو کا دفتر اور انسٹی ٹیوٹ آف سندھولوجی بھی یہیں موجود ہے۔

     یونیورسٹی اف سندھ، سندھ کی سرکاری یونیورسٹی ہے اس یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کر کے نکلنے والے کئی  طلباء و طالبات آج ملک بھر میں بڑی پوسٹ پر موجود ہیں لیکن اس یونیورسٹی کی حالت بھی کچھ بہتر نہیں، طالب علم کو پڑھانے کے لیے اساتذہ تو موجود ہیں لیکن اس جدید دور کی دوڑ میں شامل ہونے کے لیے کوئی بہترین سہولیات موجود نہیں۔

    مزید یہ کہ یہاں کئی علاقوں میں کوئی ڈیجیٹل یا عام کوچنگ سینٹرز بھی موجود نہیں، حلقے کے نوجوان اور بچے کوچنگ کے لیے ہزاروں روپے فیس دے کر دوسرے شہر میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔

    حلقہ 226 میں برسوں سے انٹر سٹی ٹرانسپورٹ کا کوئی نظام نہیں ہے جبکہ ملک بھر کی طرح اس حلقے میں بھی ڈکیتی کے کئی واقعات رپورٹ ہوتے رہے ہیں لیکن آج تک قانونی ادارے مکمل طور پر قابو پانے میں  ناکام رہی ہے۔

    یوں تو اس حلقے میں منچھر جھیل،کوٹری بیراج، کیرسر پہاڑی علاقہ، قلعہ رنی کوٹ، سندھ میوزیم، دراوڑ کا قلعہ، لال شہباز قلندرؒ کا مزار (سیہون شریف) جیسے کئی تاریخی جگہ موجود ہیں لیکن آج کی نسل کے لیے پارک اور بہترین میدان موجود ہی نہیں، جو ہے وہ بھی گندے پانی کے تالاب کا منظر پیش کر رہے ہیں۔

    این اے 226 سے کس جماعت نے کس امیدوار کو میدان میں اتارا ہے؟

    پیپلزپارٹی نے عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے اپنے جانے مانے نمائندے ملک اسد سکندر کو چنا ہے، دوسری جانب گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے سید منیر حیدر شاہ اس حلقے سے الیکشن لڑیں گے اور تحریک لبیک پاکستان سے عبداللہ جامرو جبکہ آزاد امیداور میں عبدالحکیم چانڈیو شامل ہیں۔

     

    سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کو ووٹ حاصل کرنے کے لیے عوام کے پاس جاتے وقت ان مسائل کا سامنا ضرور کرنا پڑے گا کیونکہ عوام اپنے مسائل حل کرنے والے امیدواروں کو ہی الیکشن میں کامیاب کروائیں گے۔

    عوام بھی 8 فروری 2024 ء کو ہونے والے عام انتخابات کے دن اپنے ووٹ کی طاقت کا صحیح استعمال کریں، جھوٹے اور کھوکھلے نعروں کے فریب کا شکار نہ ہوں، صرف اہل اور حقیقی خیر خواہ امیدوار کے حق میں ووٹ دیں۔

    علاقے میں ووٹ مانگنے کے لیے آنے والے امیدواروں کے ساتھ تصاویر لینے کے بجائے ان سے سوال کریں انہوں نے ان کئی سال سے آپ کے لیے کیا کیا؟ انہوں نے آپ کے مستقبل کے لیے کونسا پلان تیار کیا، اگلے 5 سال تک وہ آپ کے لیے کیا کریں گے؟ 5 سال تک آپ کے علاقے کو بہتر بنانے کے لیے کیا کریں گے؟

    عوام ذرا سوچیں کے ہم کہاں کھڑے ہیں اور اس کی وجہ کیا ہے؟ صرف ہاتھ ملانے خیریت پوچھنے پر ضمیر فروخت مت کریں ووٹ امانت ہے اور امانت کے بارے میں یقینا پوچھا جائے گا اس لیے سوچ سمجھ کر اپنے بچوں کی خاطر، اپنی آنے والی نسلوں کی خاطر ووٹ دیں۔

  • 8 فروری کو ملک بھر میں عام تعطیل کا اعلان

    8 فروری کو ملک بھر میں عام تعطیل کا اعلان

    اسلام آباد: الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ملک میں ہونے والے عام انتخابات کے پیش نظر 8 فروری کو عام تعطیل کا اعلان کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق کہ ملک بھر میں عام انتخابات 2024 منعقد کرانے کے لیے تمام ضروری تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں۔

    الیکشن کمیشن پاکستان نے عام انتخابات کے دن ملک بھر میں عام تعطیل کا اعلان کیا ہے جس کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا ہے۔

    الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ عام تعطیل کا مقصد ہے کہ ووٹرز حق رائے دہی آزادانہ اور سہولت سے ادا کرسکیں۔

    واضح رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے صدرِ پاکستان سے مشاورت کے بعد ملک میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات آٹھ فروری 2024 کو منعقد کروانے کا اعلان کیا تھا۔

  • این اے 235 کا جائزہ، کس کا پلڑا بھاری؟

    این اے 235 کا جائزہ، کس کا پلڑا بھاری؟

    کراچی کا حلقہ NA-235 جو پہلے NA-242 کہلاتا تھا، جہاں قومی اسمبلی کی 22نشستوں میں سب سے کم رجسٹرڈ ووٹرز ہیں، الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ریکارڈ کے مطابق NA-235 میں ٹوٹل 170,176 رجسٹرڈ ووٹرز ہیں، جو حلقے کی کل آبادی 1,024,024 ووٹرز کا محض 16.63 فیصد ہیں۔2018 کے انتخابات سے 2024 تک 13,000 رجسٹرڈ ووٹرز کی نمایاں کمی این اے 235 کو درپیش چیلنجز کی طرف اشارہ کرتی ہے، رہائشیوں کے ایک اہم حصے کے پاس مستقل پتہ نہ ہونا بہت ہی اہم عنصر ہے،جس سے بہت سے رہائشی چاہتے ہوئے بھی انتخابی عمل میں حصہ نہیں لے پاتے۔

    این اے 235 کے علاقے:

    این اے 235 کے علاقوں کی اگر بات کی جائے تو اس میں کنیز فاطمہ سوسائٹی، مدراس چوک، اسٹیٹ بینک کالونی، ملک سوسائٹی، کے ڈی اے بینگلوز اسکیم 1، ٹیچرز سوسائٹی، موسمیات، گلشن عمیر،اوکھائی کمپلیکس، گلشن نور، سچل گوٹھ، رم جھم ٹاور، احسن آباد، نئی سبزی منڈی، سعدی ٹاؤن، سادات امروہہ سوسائٹی، مدینہ کالونی، پنک سٹی کالونی، پولیس سوسائٹی، صفورا گوٹھ کے اطراف کے علاقے شامل ہیں۔

    انتخابی سرگرمیاں اور امیداوار:

    این اے 235میں ٹوٹل 96 پولنگ اسٹیشن بنائے جائیں گے، جن میں 25امیدوار ایک دوسرے کے مد مقابل ہوں گے، جن میں 12 آزاد امیدواروں کے ساتھ 13 سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے نمائندگان ہوں گے، قابل ذکر امیدواروں کی اگر بات کی جائے تو سیف الرحمان (پی ٹی آئی آزاد)، محمد آصف خان (پی پی پی)، محمد اقبال خان (ایم کیو ایم پاکستان)، شرافت خان (پاکستان مسلم لیگ ن)، ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی (جماعت اسلامی)اور سید علی حسین جن کا تعلق استحکام پاکستان پارٹی سے شامل ہیں۔

    ہر قومیت کے افراد:

    این اے 235 میں ہر قومیت کے افراد رہائش پذیر ہیں، یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس حلقے میں کسی ایک قومیت کے افراد کی اکثریت ہے، اس حلقے میں سندھی، اردو، پنجابی، پختون اور دیگر قومیت کے افراد بھی سکونت اختیار کئے ہوئے ہیں، اس حلقے کی تین صوبائی نشستیں پی ایس97، پی ایس 98 اور پی ایس 99 بھی ہیں، جن پر امیدواروں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔

    امیدواروں کے نقطہ نظر:

    پاکستان تحریک انصاف کے نمائندے جوکہ اس وقت آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں، انہوں نے 2018 میں نمایاں برتری کے ساتھ فتح حاصل کی تھی۔ مگر آج کے حالات پہلے سے بہت مختلف ہیں،تمام جماعتوں کی جانب سے جیت کا دعویٰ سامنے آرہا ہے، پاکستان پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم پاکستان، جماعت اسلامی، پاکستان مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے امیدواراپنی کے لئے پر اُمید ہیں، پورے حلقے کو سیاسی جماعتوں کے جھنڈوں اور پینا فلیکس سے سجا دیا گیا ہے۔ جبکہ جگہ جگہ سیاسی جماعتوں کے کیمپ لگائے گئے ہیں، جن میں پارٹیوں کے ترانے چلائے جارہے ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے ساتھ خصوصی بات چیت کرتے ہوئے ایم کیو ایم پاکستان کے امیدوار اقبال خان کا کہنا تھا کہ ہم نے 2008 اور 2013 کے انتخابات میں یہ نشست آسانی سے جیت لی تھی جبکہ 2018 کے عام انتخابات میں شکست اس لئے ہوئی تھی کہ وہ انتخاب نہیں بلکہ Selectionہوئی تھی۔

    اقبال خان کا کہنا تھا کہ الحمد اللہ ہمیں پوری امید ہے کہ اگر صاف شفاف الیکشن کا انعقاد کیا گیا تو ہماری جماعت واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کرلے گی۔ انہوں نے کہا کہ اللہ کے حکم سے حلقے میں کامیابی حاصل کرکے عوام کے دیرینہ مسائل کے حل کے لئے بھرپور اقدامات کریں گے۔ گیس کی قلت اور بجلی کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے گا۔

    پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار سیف الرحمان نے اے آر وائی نیوز کے ساتھ خصوصی گفتگو میں کہا کہ میرا مقابلہ اس حلقے میں کسی سے نہیں، اس لیے کہ میں نے 2018ء میں الیکشن میں واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کی تھی۔ انہوں نے کہ حالات سب کے سامنے ہیں، ہماری الیکشن مہم میں رکاوٹیں کھڑی کی جارہی ہیں، سیف الرحمان نے کہا کہ اگر شفاف الیکشن کا انعقاد ہوتا ہے تو 8فروری کو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے اور انشاء اللہ حق کی فتح ہوگی۔

    اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو میں، جماعت اسلامی کے معراج الہدیٰ صدیقی نے کہا کہ اس حلقے میں کامیابی کے حوالے سے میں پر امید ہوں، تعلیم یافتہ اور متوسط طبقہ یقینا ہمیں ووٹ دے گا، انتخابات میں تاریخی فتح حاصل کرکے لوگوں کو ان کے حقوق دلوائیں گے، حلقے کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کریں گے، زمینوں پر کئے گئے غیر قانونی قبضوں کو ختم کرائیں گے، انہوں نے کہا کہ ہم نعرے لگانے والے نہیں بلکہ صحیح معنوں میں کام کرنے والے لوگ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کو جب بھی موقع ملا اس نے کام کرکے دکھایا ہے۔

    اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو میں پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار آصف خان اور حاکم علی جسکانی کا کہنا تھا کہ ہماری اولین ترجیح میں حلقے میں موجود سڑکوں کی صحیح معنوں میں تعمیر شامل ہے اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ہمارے حلقے این اے 235میں بڑی تعداد میں گوٹھ موجود ہیں، ہماری کوشش ہوگی کہ ان گوٹھوں کو ان کے مالکانہ حقوق دلوائے جائیں، اس کے علاوہ پرائمری اسکولوں کو سیکنڈری کی سطح پر لے کر آئیں گے، حاکم علی جسکانی کا کہنا تھا کہ ہمارے حلقے میں Dow Medicalسب سے بڑا اسپتال ہے، اس میں عوام کے لئے صحت کی مزید سہولیات پیدا کریں گے۔انہوں نے کہا ہم اللہ کے فضل و کرم سے حلقے میں کامیابی حاصل کریں گے۔

  • گیلانی خاندان کا جہانگیر ترین کی حمایت کا اعلان

    گیلانی خاندان کا جہانگیر ترین کی حمایت کا اعلان

    ملتان: گیلانی خاندان نے حلقہ این اے 149 میں استحکام پاکستان پارٹی کے سربراہ جہانگیر خان ترین کی حمایت کا اعلان کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق استحکام پاکستان پارٹی کے سربراہ جہانگیر خان ترین نے گیلانی خاندان کے سربراہ مخدوم سید یزدانی سے ملاقات کی، جہاں سربراہ آئی پی پی نے حمایت پر گیلانی خاندان  کا شکریہ ادا کیا۔

    اس ملاقات کے دوران سید تنویر الحسن گیلانی، سید ولایت مصطفیٰ گیلانی، راجن بخش گیلانی بھی موجود تھے۔

    واضح رہے کہ گزشتہ روز ملتان میں جلسہ سے خطاب میں جہانگیر ترین نے کہا تھا کہ شہباز شریف اور نواز شریف کے ساتھ مل کر ملک کی معیشت بہتر کروں گا، میں نے وہ فیصلہ کرلیا جو پہلے کر لینا چاہیے تھا۔

    انکا کہنا تھا کہ معیشت بڑھے گی تمام لوگوں کو فائدہ ہوگا، اپنی ذات اور حلقہ سے نکل کر پاکستان کے لیے کام کرنا ہے، اپنی معیشت کو امریکا کے برابر کھڑا کرنا ہے۔

  • الیکشن 2024 پاکستان: این اے 220 حیدرآباد کے اہم مسائل، امیدواروں کے پاس حل کیا ہے؟

    الیکشن 2024 پاکستان: این اے 220 حیدرآباد کے اہم مسائل، امیدواروں کے پاس حل کیا ہے؟

    ملک بھر میں 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے لیے تیاریاں آخری مراحل میں داخل ہو چکی ہیں۔ سیاسی جماعتیں بھی اپنا اپنا منشور  لے کر ووٹروں کو راغب کرنے اور جیت کے لیے ہر حربہ استعمال کرنے پر آمادہ نظر آتی ہیں۔ سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 220 میں عوامی مسائل کیا ہیں؟ یہ حلقہ کن علاقوں پر مشتمل ہے۔ کتنے امیدوار الیکشن میں کھڑے ہیں اور ان کی ترجیحات کیا ہیں۔ اس رپورٹ میں اس کا ایک مختصر احاطہ کیا گیا ہے۔

    این اے 220 میں شامل علاقے:

    قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 220 حیدرآباد کے قدیم شہری علاقوں پر مشتمل ایک وسیع حلقہ ہے جس میں تاریخی پکا قلعہ، پٹھان کالونی، جیل روڈ، ہیر آباد، ٹاور مارکیٹ، سرفراز کالونی، چھوٹکی گٹی، فقیر کا پڑ، پریٹ آباد، ریشم گلی، سرے گھاٹ، شاہی بازار، تھوڑا چاڑی، دو قبر، پکا قلعہ، لونگ بھگت گٹی، جمن شاہ کا پڑ، اسٹیشن روڈ، ہوم اسٹیڈ ہال، گاڑی کھاتہ، بھائی خان چوک، جمن شاہ کا پڑ، پولیس لائن ہیڈ کوارٹر، رسالہ روڈ، کھوکھر محلہ، گاڑی کھاتہ، قاضی قیوم روڈ، ہالہ ناکا، گھمن آباد، کلہوڑہ کالونی، غریب آباد، پٹھان کالونی، کمہار پاڑہ، اسلام آباد، ملت آباد، صدر کینٹ، ڈیفنس، سول لائن، حُر کیمپ، ممتاز کالونی، فردوس کالونی، سخی پیر، عثمان آباد، چوڑی پاڑہ، پھلیلی پڑیٹ آباد، فقیر کا پڑ، آفندی ٹاؤن، ٹنڈو میر محمود، اولڈ پاور ہاؤس، جڑیل شاہ کالونی، مچھر کالونی، ساگر کالونی، کرسچن کالونی، خورشید ٹاؤن، کالی موری، گوٹھ لالو لاشاری، گرونگر، اسٹیشن روڈ، ریلوے کالونی سمیت دیگر علاقے شامل ہیں۔

    اس حلقے میں ووٹرز کی مجموعی تعداد 4 لاکھ 61 ہزار 32 ہے جن میں مرد ووٹرز کی تعداد 2 لاکھ 54 ہزار 55 جب کہ خواتین ووٹرز کی تعداد 2 لاکھ 6 ہزار 977 ہے۔ جن کے لیے 347 پولنگ اسٹیشنز اور 1256 پولنگ بوتھ قائم کیے گئے ہیں۔

    حلقے کے اہم مسائل:

    اگر علاقے کے مسائل کا احاطہ کیا جائے تو ملک بھر کی طرح بجلی، پانی، گیس کے عمومی مسائل اس حقلے کے عوام کو بھی درپیش ہیں۔ بجلی مہنگی ہونے کے ساتھ زائد اور غلط بلنگ، آئے دن ٹرانسفارمز کا اڑ جانا اور پھر مہینوں اس علاقے کی بجلی بند رہنا، ٹرانسفارمرز لگانے کے لیے مبینہ بھاری رشوت کی وصولی، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں اور سیوریج کا ناقص نظام، سرکاری اسپتالوں میں مطلوبہ سہولیات کا فقدان، شہر میں کوئی سرکاری اعلیٰ تعلیمی ادارے کا نہ ہونا جیسے مسائل ہیں۔ کھیلوں کے میدان نہیں، تفریحی سہولتوں کا فقدان ہے۔

    رواں صدی کے ابتدائی عشرے میں جو پارک بنے تھے وہ بھی عدم توجہی کے باعث اجڑا چمن بن چکے ہیں۔ بے روزگاری عروج پر ہے۔ نلکوں میں پانی نہیں آتا شہریوں کو اس مہنگائی میں صاف پانی بھی خرید کر پینا پڑتا ہے۔

    حلقے میں کس کا پلڑا بھاری:

    یہ حلقہ 1988 کے انتخابات سے ایم کیو ایم کا محفوظ حلقہ تصور کیا جاتا ہے جہاں ما سوائے الیکشن 1993 جس میں ایم کیو ایم  کے بائیکاٹ کے باعث ن لیگ کے صاحبزادہ شبیر حسن انصاری رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے یا پھر الیکشن 2002 میں جے یو پی کے صاحبزادہ زبیر نے ایم کیو ایم کے آفتاب شیخ کو انتہائی کم ووٹوں کے فرق سے اپ سیٹ شکست سے دوچار کیا تھا۔ ہر بار ایم کیو ایم کے امیدوار ہی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوتے آئے ہیں۔

    گزشتہ انتخابات 2018 میں اس حلقے سے ایم کیو ایم کے صلاح الدین شیخ نے کامیابی حاصل کی تھی۔

    الیکشن 2024 میں حصہ لینے والے امیدوار:

    این اے 220 سے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی جانب سے سید وسیم حسین، پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے وسیم خان راجپوت، ٹی ایل پی کے غلام قادر، جماعت اسلامی کے طاہر مجید، ن لیگ کے حمایت یافتہ خالد عزیز سمیت 26 آزاد امیدوار ہیں جب کہ فیصل مغل تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار آزاد حیثیت سے میدان میں ہیں۔ تاہم بدلتی سیاسی صورتحال میں اس حلقے سے مقابلہ ایم کیو ایم اور پی پی امیدوار کے درمیان ہی دکھائی دیتا ہے۔

    اے آر وائی نیوز نے علاقے کے عوام کو درپیش مسائل سے متعلق این اے 220 سے مذکورہ دونوں امیدواروں سے عوامی مسائل اور ان کے حل کے لیے ان کی ترجیحات جاننے کی کوشش کی گئی۔

    سید وسیم حسین (امیدوار ایم کیو ایم پاکستان):

    ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے نامزد امیدوار وسیم حسین جو مذکورہ حلقے سے پہلے بھی ایک بار رکن قومی اسمبلی اور ایک بار رکن سندھ اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں۔ ان سے کئی بار رابطے کی کوشش کی گئی مگر رابطہ نہیں ہو سکا۔

    تاہم اپنی انتخابی مہم کے دوران مختلف مواقع پر خطاب کرتے ہوئے سید وسیم حسین کا کہنا تھا کہ حیدرآباد کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک ہو رہا ہے، ماضی میں ایم کیو ایم پاکستان کے حق پرست اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کی کارکردگی عوامی خدمت کی آئینہ دار ہے، اب بھی منتخب ہو کر حیدرآباد کے عوامی مسائل کے حل کے لیے کام کریں گے۔ تاجروں اور عوام کے حقوق کے لیے ایوانوں میں آواز اٹھائیں گے۔ اٹھارویں ترمیم کا خاتمہ کرنا ہے۔

    وسیم راجپوت (امیدوار پاکستان پیپلز پارٹی):

    این اے 220 سے پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے وسیم راجپوت امیدوار ہیں جو خود کو حیدرآباد کا بیٹا قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کامیاب ہو کر حلقے کے عوام کی فلاح وبہبود کے لیے کام کریں گے اور جو وعدے کیے ہیں اس کو پورا کریں گے۔

    وسیم راجپوت نے علاقے کے بنیادی عوامی مسائل کے حوالے سے کہا کہ ان کے حلقے کے بنیادی مسائل بجلی، پانی، گیس، سیوریج کا ناقص نظام ہے۔ ساتھ ہی ان تمام مسائل کی جڑ ایم کیو ایم پاکستان کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایم کیو ایم 35 سے 40 سال سے پی پی سمیت تقریباً ہر حکومت میں شامل رہی لیکن حیدرآباد کے عوام کے بنیادی مسائل تک حل نہ کر سکی بلکہ انہوں  نے مہاجروں کے نام پر ہمیشہ اردو بولنے والوں کے حقوق کا ہی سودا کیا۔

    پی پی امیدوار نے مزید کہا ایم کیو ایم نمائندوں کو مختلف ادوار میں با اختیار وزارتیں اور اربوں روپے کے فنڈز ملے لیکن وہ عوام کے مفاد میں استعمال نہیں ہوئے جب کہ پیپلز پارٹی کو جب بھی خدمت کا موقع ملا کراچی اور حیدرآباد کی دل وجان سے خدمت کی۔ خصوصاً 2008 کے بعد سے خدمت کا سلسلہ اب تک چلا آ رہا ہے۔

    انہوں نے دعویٰ کیا کہ ایم کیو ایم نے لسانیت کی بنیاد پر سیاست کی لیکن شہر کو ایک یونیورسٹی تک نہ دے سکے جب کہ پی پی نے کالی موری گورنمنٹ کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دیا۔ حیدرآباد کو کئی میگا پراجیکٹ دیے، پریٹ آباد فلٹر پلانٹ بنایا، میئر حیدرآباد کاشف شورو حیدرآباد میں کئی ترقیاتی کام کرا رہے ہیں۔

    وسیم راجپوت نے کہا کہ حیدرآباد کی عوام نے پی پی کی خدمت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے یہی وجہ ہے کہ آج اس شہر کے عوام پی پی کے ساتھ ہیں اور ہر اردو بولنے والا جیالا بن چکا ہے۔ جو کبھی ایم کیو ایم کا گڑ کہلاتا تھا، آج وہاں 70 فیصد بلدیاتی نمائندے اردو بولنے والے ہیں جو پیپلز پارٹی کی نمائندگی کر رہے ہیں۔

    پی پی امیدوار نے کہا کہ کامیاب ہوکر حیدرآباد کو ماڈل شہر بنائیں۔ نئی شہری یونیورسٹی قائم کریں، گیس، پانی اور سیوریج کے مسائل مستقل بنیادوں پر حل کرنے کے ساتھ بجلی کے نظام کو اپ گریڈ کریں گے۔ شارٹ فال ختم کر کے اس سے ہونے والی بچت سے عوام کو مفت بجلی کے وعدے پر عملدرآمد کریں گے۔

  • الیکشن 2024 پاکستان: ملک کے 50 فیصد پولنگ اسٹیشنز انتہائی حساس قرار

    الیکشن 2024 پاکستان: ملک کے 50 فیصد پولنگ اسٹیشنز انتہائی حساس قرار

    اسلام آباد: عام انتخابات کے لیے ملک بھر میں قائم کیے جانے والے پولنگ اسٹیشنز میں سے اکثر کو حساس یا انتہائی حساس قرار دیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ذرائع نے بتایا کہ ملک بھر میں قائم کیے جانے والے کُل 90 ہزار 675 پولنگ اسٹیشنز میں سے 46 ہزار 65 (50 فیصد) اسٹیشنز کو حساس قرار دیا گیا ہے۔

    ذرائع الیکشن کمیشن کے مطابق حساس، انتہائی حساس قرار دینے والے پولنگ اسٹیشنز کی تعداد 46 ہزار 65 ہے جبکہ 27 ہزار 628 پولنگ اسٹیشنز کو حساس قرار دیا ہے۔

    ذرائع نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے 18 ہزار 437 پولنگ اسٹیشنز کو انتہائی حساس قرار دیا ہے، پنجاب میں 12 ہزار 580 پولنگ اسٹیشنز حساس 6 ہزار 40 انتہائی حساس قرار دیا گیا جبکہ صرف 32 ہزار 324 پولنگ اسٹیشز کو نارمل قرار دیا گیا ہے۔

    ذرائع الیکشن کمیشن کے مطابق سندھ میں 6 ہزار 545 پولنگ اسٹیشنز کو ’حساس‘ اور 6 ہزار 524 ’انتہائی حساس‘ قرار دیے گئے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ صوبے کے کُل 19 ہزار 6 پولنگ اسٹیشنز میں سے صرف 5 ہزار 937 پولنگ اسٹیشنز کو ’نارمل‘ قرار دیا گیا ہے۔

    اس کے علاوہ خیبرپختونخوا کے 6 ہزار 166 پولنگ اسٹیشنز حساس، 4 ہزار 143 کو انتہائی حساس قرار دیا گیا، اور 5 ہزار 388 پولنگ اسٹیشنز نارمل قرار دیا گیا ہے۔

    ذرائع الیکشن کمیشن کے مطابق بلوچستان میں نارمل پولنگ اسٹیشنز کا تناسب 20 فیصد سے بھی کم ہے، پولنگ اسٹیشنز کی کُل تعداد 5 ہزار 28 ہے جن میں سے صرف 961 پولنگ اسٹیشنز کو ’نارمل‘ قرار دیا گیا ہے جبکہ باقی 2 ہزار 337 کو ’حساس‘ اور ایک ہزار 730 کو ’انتہائی حساس‘ قرار دیا گیا ہے۔

  • ڈاکٹر عاصم ناظم آباد میں کارکن کے قتل کا ذمہ دار ہے: مصطفیٰ کمال کا الزام

    ڈاکٹر عاصم ناظم آباد میں کارکن کے قتل کا ذمہ دار ہے: مصطفیٰ کمال کا الزام

    کراچی: متحدہ قومی موومنٹ کے سینیئر ڈپٹی کنوینر مصطفیٰ کمال نے ناظم آباد میں ہونے والے تصادم کے نیتجے مین کارکن کے قتل کا الزام ڈاکٹر عاصم پر لگایا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے متحدہ قومی موؤمنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے رہنما مصطیٰ کمال نے کہا ہے کہ پیپلزپارٹی سندھ پر قبضہ کر چکی ہے، ایم کیو ایم سندھ میں آخری لائن آف ڈیفنس ہے۔

    انہوں نے کہا کہ سہراب گوٹھ میں ہمارے بھائی کو شہید کیا گیا، یونٹ انچارج منگھو پیر کے رہائشی نیاز کو شہید کیا گیا، 11 دسمبر کو مچھر کالونی میں ہمارے 3 ساتھیوں کو شہید کر دیا گیا، آج فراز بھائی کو رات پونے 3 بجے شہید کیا گیا۔

    کراچی : 2 سیاسی جماعت کے کارکنان کے درمیان تصادم ، ایک شخص جاں بحق

    مصطفیٰ کمال نے الزام لگایا کہ پیپلز پارٹی والے ہمارے جھنڈے اتار کر اپنے لگارہے تھے، ہمارے کارکنان نے بھگا دیا بعد میں بڑے ہتھیاروں سے آکر حملہ کیا گیا، ہمارے آفس میں بیٹھے نہتے ساتھیوں پر گولیاں چلارہے ہیں، ہتھیاروں اور ویڈیو کیساتھ پیپلزپارٹی کے دہشت گرد پکڑے گئے ہیں۔

    ایم کیو ایم کے رہنما نے کہا کہ ڈاکٹر عاصم کو اس شہر پر قبضہ کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے، اس شہر کو دوبارہ ’’را ‘‘ کے حوالے کرنا چاہتے ہو؟، میں آخری بار کہہ رہاہوں اپنے ساتھیوں کو خراش نہیں آنے دوں گا، مرنا ہمارے لئے مسئلہ نہیں ہے۔

    مصطفیٰ کمال نے کہا کہ ہم نے امن کا راستہ اپنایا پاکستان کو بچایا یہی ہماری غلطی ہے، ریاست پی پی کے دہشتگردوں سے ہمیں نہیں بچاسکتی تو ریاست ہمیں اجازت دے پیپلزپارٹی ہمارے لئے آدھے گھنٹے کا مسئلہ نہیں ہے۔

    انہوں نے کہا کہ جن گاڑیوں وہ لوگ آئے انہی کو آگ بھی لگادی گئی، انھوں نے گاڑیوں سے اترتے ہی فائرنگ شروع کردی، فراز بھائی کو شہید کرنے کے بعد گاڑیاں چھوڑ کر بھاگے ہیں، ڈاکٹر عاصم اس قتل کا ذمہ دار ہے۔

    مصطفی کمال کا کہنا تھا کہ گولی چلانے والے کیساتھ پولیس موبائل کھڑی تھی انہوں نے پکڑا کیوں نہیں؟ اگر پولیس والے پکڑلیتے تو قاتل پکڑا جاتا، پولیس والوں کو کہا فراز کو موبائل میں رکھ کر اسپتال لے چلووہ نہیں لیکر گئے، پولیس والے زخمی فراز کو لیکر گھومتے رہے اور جب اسپتال پہنچے تو وہ دم توڑ گیا۔

    ایم کیوایم رہنما کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم انتقامی سیاست پر یقین نہیں رکھتی، منشیات، پانی بیچنے والے اور قبضہ مافیا کو لگ رہا ہے انکی دکان بند ہونے والی ہے، یہ ایک مافیا ہے انہوں نے اپنے ساتھ را کے ٹرینڈ لوگوں کو شامل کرلیا ہے۔

    مصطفیٰ کمال نے مزید کہا کہ ہم کسی کے پاس نہیں جارہے یہ واقعات ہمارے دفاتر میں ہورہے ہیں، ہمیں انصاف ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے، ڈاکٹر عاصم کیخلاف مقدمہ ہونا چاہیے، ایم کیوایم کے کارکنوں کے لہو کی نہ پہلے کم قیمت تھی نہ اب ہے، ہمارے شہدا قبرستان بھرے پڑے ہیں آج امن کیلئے ہم برداشت کررہے ہیں، مجھے انصاف چاہیے ورنہ ہم  نے قربانی دینے کا ٹھیکہ نہیں  لے رکھا۔

    واضح رہے کہ ناظم آباد نمبر 2 میں رات گئے دو سیاسی جماعتوں کے کارکنان میں جھگڑے میں ایک دوسرے پرکرسیاں پھینکیں گئیں، اور فائرنگ سے 48 سالہ فراز نامی ایک کارکن جاں بحق اور رائو طلحہ زخمی ہو گیا تھا۔